Post by Mohammed IbRaHim on Jan 20, 2014 15:47:01 GMT 5.5
وجد و تواجد
میں نیواں میرا مُرشد اُچا میں اُچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں انہاں اُچیاں توں جنہاں نیویاں نال نبھائی
وجد :
وجد ایک ایسا روحانی جزبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہو جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس جزبہ کے وارد ہونے سے باطن کی ہیت بدل جاتی ہے اور اس کے اندر رجوع اِلَی الله کا شوق پیدا ہوتا ہے گویا وجد ایک قسم کی راحت ہے یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کی صفات نفس مغلوب ہوں اور اس کی نظریں اللہ تعالٰی کی طرف لگی ہوں۔
وجد بعض اہل ایمان میں سے ایسے لوگوں کو ہوتا ہے کہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت یا نعت سنتے ہیں یا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو خشیت الٰہی یا محبت الٰہی یا محبت رسول ﷺ کی وجہ سےیا اولیاء اللہ کی منقبت یا تعریف و توصیف سننے کی وجہ سے ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہےتو ذاکرین پہ انوار و تجلیات کا ورود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم مختلف حرکات کرنے لگتے ہیں ۔ کبھی وہ رونے لگتے ہیں کبھی بھاگنے لگتے ہیں کبھی بیہوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ادھر کبھی اُدھر کبھی آگے کبھی پیچھے جھکتے اور گرتے ہیں اور کبھی ان کے جسم تڑپنے لگتے ۔ یہ تمام حرکات غیر اختیاری ہوتی ہیں اس وقت انسان کا اپنے جسم پہ کوئی قابو نہیں ہوتا ۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے انسان کو جب چھینک یا کھانسی وغیرہ آتی ہے تو وہ انہیں قابو نہیں کر پاتا کیونکہ یہ غیر اختیاری افعال ہیں ۔ ایسے ہی وجد کی کیفیت بھی غیر اختیاری ہوتی ہے ۔
کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ وجد کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ یہ وہ غم ہے جو محبت میں ملتا ہے اس لیے بیان سے باہر ہے نیز وجد طالب اور مطلوب کے درمیان ایک راز ہے جسے بیان کرنا مطلوب کی غیبت کے برابر ہے وجد عارفوں کی صفت ہے۔‘‘
(کشف المحجوب)۔
تواجد :
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ تواجد وجد لانے میں ایک تکلف ہوتا ہے ۔ اور یہ انعامات و شواہد حق کو دل کے حضور پیش کرنا ہے اور محبوب کے وصال کا خیال اور انسانی آرزووں کا جوش میں آنا ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا:
’’جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ اسی سے ہوتا ہے‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’ جب تم قرآن پڑھو تو روو، اگر رونا نہ آے تو تکلف سے روو‘‘
اور یہ حدیث تواجد کے مباح ہونے پر گواہ ہے۔ ‘‘
(کشف المحجوب)
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ذکر اور فکر سے وجد کو حاصل کرنا تواجد کہلاتا ہے۔ ‘‘
(عوارف المعارف)
علامہ عبدالغنی ناطبی قدس سرہ فرماتےہیں:
’’تواجد یہ ہے کہ ایک شخص کو حقیقتہ وجد حاصل نہ ہو لیکن وہ تکلف سے وجد کو اختیار کرتا ہے اور اسے ظاہر کرتا ہے ، اس میں شک نہیں کہ تواجد میں حقیقی وجد والوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مطلوب ہے۔
رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے‘‘۔
(الحدیث النسدیہ ج۲ ص٥۲٥)
وجد کی اقسام :
وجد کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں جیسے رونا، رقص کرنا، بھاگنا، تڑپنا (جس کو دیکھ کر بعض لوگ کرنٹ سے تشبیہ دیتے ہیں) کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی وجد میں ہوتا ہے جبکہ دیکھنے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ بلکل نارمل حالت میں ہے۔
اور کئی بار تو آدمی وجد کی حالت میں ایسی حرکتیں کرتا ہے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ڈرامہ کر رہا ہے لیکن وہ ایسا جان بوجھ کر ہر گز نہیں کرتا بلکہ غلبہ انوار خداوندی اور غلبہ خشیتہ خداوندی کی وجہ سے یہ حرکات ہوتی ہیں۔
کسی بزرگ نے وجد کے بارے میں فرمایا جس کا مفہوم عرض کرتا ہوں کہ جب وجد کا اثر زبان پر ہوتا ہے تو بندا روتا ہے چیختا ہے اور منہ سے مختلف الفاظ ادا کرتا ہے اور جب وجد کا اثر ہاتھوں پر ہوتا ہے تو وہ کپڑے پھاڑتا ہے منہ پر تماچے لگاتا ہے کبھی سینے پر مارتا ہے اور جب وجد کا اثر پاوں پر ہوتا ہے تو رقص کرتا ہے (کبھی تو بھاگتا بھی ہے)۔
وجد کی چند اقسام یہاں بیان کی جاتی ہیں:
۱) کل بدن کی حرکت اور اضطراب
۲) بعض بدن کی حرکت مثلاً لطائف کی حرکت
۳) رقص کرنا
٤) منہ سے کچھ الفاظ کا جاری ہو جانا مثلاً ھو، ھو، ھا، ھا، آہ، اف، اللہ، اللہ وغیرہ ﴿ اور یا رسول اللہ ﷺ بھی منہ سے جاری ہونا واللہ میں نے خود ایسا دیکھا ہے ﴾
۵) بکا و رونا بلا صوت بہنا
٦) کپڑے پھاڑنا دوڑنا اور چیخنا وغیرہ
۷) اعضاء کا ٹوٹ جانا موت کا خطرہ بلکہ واقع ہو جانا جیسا کہ حضرت داود علیہ السلام کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سینکڑوں کی تعداد وجد کی وجہ سے فوت ہو جاتے تھے۔ اورحضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجالس میں بھی ۲ سے لے کر ٧۰ جنازے تک اٹھتے تھے۔
۸) نعرہ لگانا اور کبھی نارہ لگا کر بےہوش ہو جانا
۹) نماز میں وجد بے اختیاری ، بےہوش ہونا وغیرہ بعض اوقات خارج نماز وجد طاری ہونا۔
وجد پر اعتراضات :
وجد کی ویسے تو اوپر مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں لیکن سب سے زیارہ منکرین صوفیاء کے رقص پہ اعتراضات کرتے ہیں اور اسی سلسلہ میں کچھ فقہاء کی عبارات پیش کرتے ہیں جن میں رقص کو ناجائز کہا گیا ہے ۔ لیکن یہاں یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو نہیں بلکہ ایسے رقص کو ناجائز کہا ہے جو کسی دنیاوی غرض کے لیے ہو یا پھر دکھلاوے کے لیے ہو یا پھر ایسا رقص ہو جس میں زنانہ قسم کی حرکات ہوں یا پھر کسی غیر مرد یا عورت کے ساتھ کیا جائے یا پھر ایسا رقص ہو جو گانے بجانے کے ساتھ کیا جائے جیسا کہ فلموں میں آج کل ہوتا ہے یا پھر ایسا رقص ہو جو دباروں پہ ملنگ (اپنے آپ سے تنگ) کرتے ہیں جس میں گھنگھرو وغیرہ ڈال کے نشہ وغیرہ کر کے اور ڈھولوں پے کرتے ہیں اور ساتھ کچھ عورتیں بھی کھلے بالوں کے ساتھ ناچ رہی ہوتی ہیں یاد رکھیے گا یہ وجد نہیں ہوتا ۔ اور اس قسم کے رقص کو ہی علماء نے ناجائز کہا ہے ۔
یہاں واضح کر دوں کہ اس قسم کے رقص کو تو ہم بھی ناجائز کہتے ہیں اور ہمارے علماء کے اس پر فتوے موجود ہیں انشاءاللہ عزوجل آگے وہ بھی پیش کیے جائیں گے ۔
لیکن بعض منکرین ایسے رقص کو صوفیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ یہ بلکل غلط ہے نہ تو صوفیاء اسطرح کا رقص کرتے ہیں اور نہ ہی جائز سمجھتے ہیں بلکہ صوفیاء جو رقص کرتے ہیں وہ غلبہ عشق کی وجہ سے ہوتا ہے جو بے اختیار ہوتا ہے نہ کہ دکھلاوے کہ لیے اور اس قسم کے وجد و رقص کو فقہاء نے جائز کہا ہے ۔
میں نے کچھ دن پہلے ایک آرٹیکل دیکھا جو غیر مقلدین نے لکھا تھا جس میں انتہائی دھوکہ دہی سے کام لیا گیا اس میں حنفی فقہاء اور علماء کی کتابوں سے چند عبارات جو کہ جعلی صوفیاء (جن کو ملنگ بھی کہتے ہیں جو نشہ وغیرہ کرتے ہیں) کے بارے میں اور دنیاوی رقص جس میں سیٹیاں مارنا تالیاں بجانا وغیرہ جیسے افعال کیے جاتے ہیں کو ناجائز کہا گیا تھا ان کو صوفیاء پہ زبردستی چسپایا گیا جبکہ انہی فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو دلائل سے ثابت کیا ہے ۔
اور ظالم یہ نہ جانتے تھے کہ جس چیز کے ناجائز ہونے پہ وہ دلائل پیش کر رہے ہیں وہ صوفیاء میں نہیں بلکہ خود ان میں موجود ہیں جن کہ آگے ثبوت بھی دیے جائیں گے انشاءاللہ عزوجل ۔
Quran aur Wajd
ترجمہ:
اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اس سے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں.
تفسیر :
١﴾ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں یعنی اللہ کی رحمت اور عموم مغفرت کا جب وہ ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر کی وجہ سے ان کے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ رحمت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اصل تو رحمت ہی ہے اللہ کی رحمت غضب پر غالب ہے اِلٰی ذکر اللہ میں بمعنی لام ہے یعنی اللہ تعالٰی کے ذکر کی وجہ سے لیکن ذکر کے اندر چونکہ سکون و اطمینان کا مفہوم داخل ہے اس لیے بجائے لام کے اِلٰی کہا گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں آیاتِ وعید کا ذکر آتا ہے۔ تو مومنوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جلد بدن سکڑ جاتی ہے اس میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے اور جب آیات کا ذکر آتا ہے تو کھالوں کا انقباض جاتا رہتا ہے ۔ کھا لیں نرم ہو جاتی ہیں اور دلوں میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔
مزید قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اسی آیت کی تفسیر میں تفصیلاً وجد و حال پہ بحث کر کے اس کو ثابت کیا ہے ۔ ضرورت پڑنے پر پوری عبارت پیش کی جا سکتی ہے اور سکین پیج بھی لگایا جا سکتا ہے ۔
(تفسیر مظہری سورة الزمر آیت ۲۳)
٢﴾ اسی طرح مفسر جلیل القدر فقیہ اعظم علامہ ابو البرکات عبداللہ نفسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مدارک میں سورۃ زمر کی آیت ٢٣ کی تفسیر میں بدن کا لرزنا وجد اور حال کے اثبات اور شرافت کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :
قرآن کریم کی آیت کی تلاوت سن کر ان لوگوں کی کھال حرکت میں آئی ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ کھال کا اکڑ جانا اور پھر لرزنا نیز معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والے جب قرآن سنتے ہیں تو اس کے سننے سے ان کی کھال لرزنے لگتی ہے اور اس میں مضطراب اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں الفاظ ہیں کہ: ’’ جب مؤمن کی کھال اللہ تعالٰی کے خوف سے حرکت میں آتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔ ‘‘
(تفسیرمدارک ج ٤ ص ٣٦ سورة الزمر آیت ۲۳)
تفسیر الجلالین میں تقشعر کا معنٰی ترتعد ﴿ کانپنا / لرزنا ﴾ تحریر کیا ہے ۔
تفسیر مدارک میں تقشعر کا معنٰی تتحرک اور تضطرب تحریر کیا ہے
ترجمہ:
اور موسٰی نے اپنی قوم سے ستر (۷۰) مرد ہمارے وعدہ کے لئے چُنے پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا موسٰی نے عرض کی اے رب میرے تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولٰی ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے.
تفسیر:
اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں:
حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کے اشراف سے ستر(۷۰) ایسے افراد کا انتخاب کیا جو صاحبان استعداد اور سلوک تھے۔جب ان پر تجلیات کا ظہور ہوا تو ان کے جلد اور بدن حرکت کرنے لگے اور ان کو زلزلے نے آ لیا۔ یعنی وہ کانپنے لگے اور کانپنا جو بدن پر تجلی صفاتیہ اور انوار و خوارق کے ظہور کے سبب سے لگتا ہے جو بدن پر بال کھڑے ہونے اور بدن کی حرکت سے عبارت ہے ، ایسی حالت اکثر سالکین پر ظاہر ہوتی ہے جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے سننے یا اشعار سننے سے آتی ہے قریب ہے کہ اس سے ان کے اعضاء ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ۔( وہ اشعار جن میں رسول اکرم ﷺ کی صفت کی گئی ہو یا اولیاء کرام کی مدح پر مشتمل ہوں ) اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا حضرت خالد رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں جو طریقہ نقشبندیہ میں تھے اور نماز کے دوران یہ حالت عارض ہونے کی وجہ سے اکثر وہ نماز میں چیختے تھے۔ اسی وجہ بعض سالکین نماز کا اعادہ کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے ان لوگوں پر بہت انکار کیا جاتا ہے اور میں نے بعض منکرین سے سنا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ حالت عقل و شعور کی موجودگی کے با وجود عارض ہو جائے تو یہ بےادبی ہے اور اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اگر یہ حالت عقل و شعور کی عدم موجودگی میں آ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وضو نہیں کرتے۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں جن کا خیال ہے کہ وجد اور اس حالت سے نماز اور وضو دونو ٹوٹ جاتے ہیں کہ یہ حالت غیر اختیاری ہے عقل و شعور کے ساتھ اس کی مثال کھانسی یا چھینک جیسی ہے اس لیے اس سے نہ تو نماز باطل ہوتی ہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے۔ اور شوافع نے کہا ہے کہ اگر نمازی پر ہنسنا غالب آجائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہے اور نمازی اس صورت میں معذور سمجھا جائیگا ۔ بعید نہیں کہ تجلیات غیر اختیاریہ کے آثار کو بھی اس کے ساتھ ملحق کیا جائے اور عدم فساد صلٰوۃ پر حکم کیا جائے اور کسی چیز کے غیر اختیاری ہونے سے اس چیز کا غیر شعوری ہونا لازم نہیں کیونکہ مرتعش کی حرکت غیر اختیاری ہے اور غیر شعوری نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عقل اور شعور موجود ہوتے ہیں اور یہ تو ظاہر باہر کا معاملہ ہے ۔ پس اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
(تفسیر روح المعانی سورة الأعراف آیت١٥٥)
ترجمہ:
کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں۔
تفسیر :
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں یعنی حقیقت میں مومن مومن نہیں ہوتا مگر خشوع قلب کے ساتھ اور رونا اور بے اختیار گرنا ﴿یعنی وجد و حال﴾ باعث زیادتی خشوع قلب ہے۔
(تفسیر کبیر ص ۹۳ جلد ۸
میں نیواں میرا مُرشد اُچا میں اُچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں انہاں اُچیاں توں جنہاں نیویاں نال نبھائی
وجد :
وجد ایک ایسا روحانی جزبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہو جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس جزبہ کے وارد ہونے سے باطن کی ہیت بدل جاتی ہے اور اس کے اندر رجوع اِلَی الله کا شوق پیدا ہوتا ہے گویا وجد ایک قسم کی راحت ہے یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کی صفات نفس مغلوب ہوں اور اس کی نظریں اللہ تعالٰی کی طرف لگی ہوں۔
وجد بعض اہل ایمان میں سے ایسے لوگوں کو ہوتا ہے کہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت یا نعت سنتے ہیں یا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو خشیت الٰہی یا محبت الٰہی یا محبت رسول ﷺ کی وجہ سےیا اولیاء اللہ کی منقبت یا تعریف و توصیف سننے کی وجہ سے ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہےتو ذاکرین پہ انوار و تجلیات کا ورود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم مختلف حرکات کرنے لگتے ہیں ۔ کبھی وہ رونے لگتے ہیں کبھی بھاگنے لگتے ہیں کبھی بیہوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ادھر کبھی اُدھر کبھی آگے کبھی پیچھے جھکتے اور گرتے ہیں اور کبھی ان کے جسم تڑپنے لگتے ۔ یہ تمام حرکات غیر اختیاری ہوتی ہیں اس وقت انسان کا اپنے جسم پہ کوئی قابو نہیں ہوتا ۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے انسان کو جب چھینک یا کھانسی وغیرہ آتی ہے تو وہ انہیں قابو نہیں کر پاتا کیونکہ یہ غیر اختیاری افعال ہیں ۔ ایسے ہی وجد کی کیفیت بھی غیر اختیاری ہوتی ہے ۔
کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ وجد کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ یہ وہ غم ہے جو محبت میں ملتا ہے اس لیے بیان سے باہر ہے نیز وجد طالب اور مطلوب کے درمیان ایک راز ہے جسے بیان کرنا مطلوب کی غیبت کے برابر ہے وجد عارفوں کی صفت ہے۔‘‘
(کشف المحجوب)۔
تواجد :
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ تواجد وجد لانے میں ایک تکلف ہوتا ہے ۔ اور یہ انعامات و شواہد حق کو دل کے حضور پیش کرنا ہے اور محبوب کے وصال کا خیال اور انسانی آرزووں کا جوش میں آنا ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا:
’’جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ اسی سے ہوتا ہے‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’ جب تم قرآن پڑھو تو روو، اگر رونا نہ آے تو تکلف سے روو‘‘
اور یہ حدیث تواجد کے مباح ہونے پر گواہ ہے۔ ‘‘
(کشف المحجوب)
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ذکر اور فکر سے وجد کو حاصل کرنا تواجد کہلاتا ہے۔ ‘‘
(عوارف المعارف)
علامہ عبدالغنی ناطبی قدس سرہ فرماتےہیں:
’’تواجد یہ ہے کہ ایک شخص کو حقیقتہ وجد حاصل نہ ہو لیکن وہ تکلف سے وجد کو اختیار کرتا ہے اور اسے ظاہر کرتا ہے ، اس میں شک نہیں کہ تواجد میں حقیقی وجد والوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مطلوب ہے۔
رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے‘‘۔
(الحدیث النسدیہ ج۲ ص٥۲٥)
وجد کی اقسام :
وجد کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں جیسے رونا، رقص کرنا، بھاگنا، تڑپنا (جس کو دیکھ کر بعض لوگ کرنٹ سے تشبیہ دیتے ہیں) کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی وجد میں ہوتا ہے جبکہ دیکھنے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ بلکل نارمل حالت میں ہے۔
اور کئی بار تو آدمی وجد کی حالت میں ایسی حرکتیں کرتا ہے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ڈرامہ کر رہا ہے لیکن وہ ایسا جان بوجھ کر ہر گز نہیں کرتا بلکہ غلبہ انوار خداوندی اور غلبہ خشیتہ خداوندی کی وجہ سے یہ حرکات ہوتی ہیں۔
کسی بزرگ نے وجد کے بارے میں فرمایا جس کا مفہوم عرض کرتا ہوں کہ جب وجد کا اثر زبان پر ہوتا ہے تو بندا روتا ہے چیختا ہے اور منہ سے مختلف الفاظ ادا کرتا ہے اور جب وجد کا اثر ہاتھوں پر ہوتا ہے تو وہ کپڑے پھاڑتا ہے منہ پر تماچے لگاتا ہے کبھی سینے پر مارتا ہے اور جب وجد کا اثر پاوں پر ہوتا ہے تو رقص کرتا ہے (کبھی تو بھاگتا بھی ہے)۔
وجد کی چند اقسام یہاں بیان کی جاتی ہیں:
۱) کل بدن کی حرکت اور اضطراب
۲) بعض بدن کی حرکت مثلاً لطائف کی حرکت
۳) رقص کرنا
٤) منہ سے کچھ الفاظ کا جاری ہو جانا مثلاً ھو، ھو، ھا، ھا، آہ، اف، اللہ، اللہ وغیرہ ﴿ اور یا رسول اللہ ﷺ بھی منہ سے جاری ہونا واللہ میں نے خود ایسا دیکھا ہے ﴾
۵) بکا و رونا بلا صوت بہنا
٦) کپڑے پھاڑنا دوڑنا اور چیخنا وغیرہ
۷) اعضاء کا ٹوٹ جانا موت کا خطرہ بلکہ واقع ہو جانا جیسا کہ حضرت داود علیہ السلام کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سینکڑوں کی تعداد وجد کی وجہ سے فوت ہو جاتے تھے۔ اورحضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجالس میں بھی ۲ سے لے کر ٧۰ جنازے تک اٹھتے تھے۔
۸) نعرہ لگانا اور کبھی نارہ لگا کر بےہوش ہو جانا
۹) نماز میں وجد بے اختیاری ، بےہوش ہونا وغیرہ بعض اوقات خارج نماز وجد طاری ہونا۔
وجد پر اعتراضات :
وجد کی ویسے تو اوپر مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں لیکن سب سے زیارہ منکرین صوفیاء کے رقص پہ اعتراضات کرتے ہیں اور اسی سلسلہ میں کچھ فقہاء کی عبارات پیش کرتے ہیں جن میں رقص کو ناجائز کہا گیا ہے ۔ لیکن یہاں یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو نہیں بلکہ ایسے رقص کو ناجائز کہا ہے جو کسی دنیاوی غرض کے لیے ہو یا پھر دکھلاوے کے لیے ہو یا پھر ایسا رقص ہو جس میں زنانہ قسم کی حرکات ہوں یا پھر کسی غیر مرد یا عورت کے ساتھ کیا جائے یا پھر ایسا رقص ہو جو گانے بجانے کے ساتھ کیا جائے جیسا کہ فلموں میں آج کل ہوتا ہے یا پھر ایسا رقص ہو جو دباروں پہ ملنگ (اپنے آپ سے تنگ) کرتے ہیں جس میں گھنگھرو وغیرہ ڈال کے نشہ وغیرہ کر کے اور ڈھولوں پے کرتے ہیں اور ساتھ کچھ عورتیں بھی کھلے بالوں کے ساتھ ناچ رہی ہوتی ہیں یاد رکھیے گا یہ وجد نہیں ہوتا ۔ اور اس قسم کے رقص کو ہی علماء نے ناجائز کہا ہے ۔
یہاں واضح کر دوں کہ اس قسم کے رقص کو تو ہم بھی ناجائز کہتے ہیں اور ہمارے علماء کے اس پر فتوے موجود ہیں انشاءاللہ عزوجل آگے وہ بھی پیش کیے جائیں گے ۔
لیکن بعض منکرین ایسے رقص کو صوفیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ یہ بلکل غلط ہے نہ تو صوفیاء اسطرح کا رقص کرتے ہیں اور نہ ہی جائز سمجھتے ہیں بلکہ صوفیاء جو رقص کرتے ہیں وہ غلبہ عشق کی وجہ سے ہوتا ہے جو بے اختیار ہوتا ہے نہ کہ دکھلاوے کہ لیے اور اس قسم کے وجد و رقص کو فقہاء نے جائز کہا ہے ۔
میں نے کچھ دن پہلے ایک آرٹیکل دیکھا جو غیر مقلدین نے لکھا تھا جس میں انتہائی دھوکہ دہی سے کام لیا گیا اس میں حنفی فقہاء اور علماء کی کتابوں سے چند عبارات جو کہ جعلی صوفیاء (جن کو ملنگ بھی کہتے ہیں جو نشہ وغیرہ کرتے ہیں) کے بارے میں اور دنیاوی رقص جس میں سیٹیاں مارنا تالیاں بجانا وغیرہ جیسے افعال کیے جاتے ہیں کو ناجائز کہا گیا تھا ان کو صوفیاء پہ زبردستی چسپایا گیا جبکہ انہی فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو دلائل سے ثابت کیا ہے ۔
اور ظالم یہ نہ جانتے تھے کہ جس چیز کے ناجائز ہونے پہ وہ دلائل پیش کر رہے ہیں وہ صوفیاء میں نہیں بلکہ خود ان میں موجود ہیں جن کہ آگے ثبوت بھی دیے جائیں گے انشاءاللہ عزوجل ۔
Quran aur Wajd
ترجمہ:
اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اس سے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں.
تفسیر :
١﴾ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں یعنی اللہ کی رحمت اور عموم مغفرت کا جب وہ ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر کی وجہ سے ان کے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ رحمت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اصل تو رحمت ہی ہے اللہ کی رحمت غضب پر غالب ہے اِلٰی ذکر اللہ میں بمعنی لام ہے یعنی اللہ تعالٰی کے ذکر کی وجہ سے لیکن ذکر کے اندر چونکہ سکون و اطمینان کا مفہوم داخل ہے اس لیے بجائے لام کے اِلٰی کہا گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں آیاتِ وعید کا ذکر آتا ہے۔ تو مومنوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جلد بدن سکڑ جاتی ہے اس میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے اور جب آیات کا ذکر آتا ہے تو کھالوں کا انقباض جاتا رہتا ہے ۔ کھا لیں نرم ہو جاتی ہیں اور دلوں میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔
مزید قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اسی آیت کی تفسیر میں تفصیلاً وجد و حال پہ بحث کر کے اس کو ثابت کیا ہے ۔ ضرورت پڑنے پر پوری عبارت پیش کی جا سکتی ہے اور سکین پیج بھی لگایا جا سکتا ہے ۔
(تفسیر مظہری سورة الزمر آیت ۲۳)
٢﴾ اسی طرح مفسر جلیل القدر فقیہ اعظم علامہ ابو البرکات عبداللہ نفسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مدارک میں سورۃ زمر کی آیت ٢٣ کی تفسیر میں بدن کا لرزنا وجد اور حال کے اثبات اور شرافت کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :
قرآن کریم کی آیت کی تلاوت سن کر ان لوگوں کی کھال حرکت میں آئی ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ کھال کا اکڑ جانا اور پھر لرزنا نیز معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والے جب قرآن سنتے ہیں تو اس کے سننے سے ان کی کھال لرزنے لگتی ہے اور اس میں مضطراب اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں الفاظ ہیں کہ: ’’ جب مؤمن کی کھال اللہ تعالٰی کے خوف سے حرکت میں آتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔ ‘‘
(تفسیرمدارک ج ٤ ص ٣٦ سورة الزمر آیت ۲۳)
تفسیر الجلالین میں تقشعر کا معنٰی ترتعد ﴿ کانپنا / لرزنا ﴾ تحریر کیا ہے ۔
تفسیر مدارک میں تقشعر کا معنٰی تتحرک اور تضطرب تحریر کیا ہے
ترجمہ:
اور موسٰی نے اپنی قوم سے ستر (۷۰) مرد ہمارے وعدہ کے لئے چُنے پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا موسٰی نے عرض کی اے رب میرے تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولٰی ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے.
تفسیر:
اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں:
حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کے اشراف سے ستر(۷۰) ایسے افراد کا انتخاب کیا جو صاحبان استعداد اور سلوک تھے۔جب ان پر تجلیات کا ظہور ہوا تو ان کے جلد اور بدن حرکت کرنے لگے اور ان کو زلزلے نے آ لیا۔ یعنی وہ کانپنے لگے اور کانپنا جو بدن پر تجلی صفاتیہ اور انوار و خوارق کے ظہور کے سبب سے لگتا ہے جو بدن پر بال کھڑے ہونے اور بدن کی حرکت سے عبارت ہے ، ایسی حالت اکثر سالکین پر ظاہر ہوتی ہے جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے سننے یا اشعار سننے سے آتی ہے قریب ہے کہ اس سے ان کے اعضاء ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ۔( وہ اشعار جن میں رسول اکرم ﷺ کی صفت کی گئی ہو یا اولیاء کرام کی مدح پر مشتمل ہوں ) اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا حضرت خالد رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں جو طریقہ نقشبندیہ میں تھے اور نماز کے دوران یہ حالت عارض ہونے کی وجہ سے اکثر وہ نماز میں چیختے تھے۔ اسی وجہ بعض سالکین نماز کا اعادہ کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے ان لوگوں پر بہت انکار کیا جاتا ہے اور میں نے بعض منکرین سے سنا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ حالت عقل و شعور کی موجودگی کے با وجود عارض ہو جائے تو یہ بےادبی ہے اور اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اگر یہ حالت عقل و شعور کی عدم موجودگی میں آ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وضو نہیں کرتے۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں جن کا خیال ہے کہ وجد اور اس حالت سے نماز اور وضو دونو ٹوٹ جاتے ہیں کہ یہ حالت غیر اختیاری ہے عقل و شعور کے ساتھ اس کی مثال کھانسی یا چھینک جیسی ہے اس لیے اس سے نہ تو نماز باطل ہوتی ہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے۔ اور شوافع نے کہا ہے کہ اگر نمازی پر ہنسنا غالب آجائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہے اور نمازی اس صورت میں معذور سمجھا جائیگا ۔ بعید نہیں کہ تجلیات غیر اختیاریہ کے آثار کو بھی اس کے ساتھ ملحق کیا جائے اور عدم فساد صلٰوۃ پر حکم کیا جائے اور کسی چیز کے غیر اختیاری ہونے سے اس چیز کا غیر شعوری ہونا لازم نہیں کیونکہ مرتعش کی حرکت غیر اختیاری ہے اور غیر شعوری نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عقل اور شعور موجود ہوتے ہیں اور یہ تو ظاہر باہر کا معاملہ ہے ۔ پس اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
(تفسیر روح المعانی سورة الأعراف آیت١٥٥)
ترجمہ:
کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں۔
تفسیر :
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں یعنی حقیقت میں مومن مومن نہیں ہوتا مگر خشوع قلب کے ساتھ اور رونا اور بے اختیار گرنا ﴿یعنی وجد و حال﴾ باعث زیادتی خشوع قلب ہے۔
(تفسیر کبیر ص ۹۳ جلد ۸