Post by Mohammed IbRaHim on Jan 22, 2014 12:50:46 GMT 5.5
اصول حدیث
علم کی دوقسمیں ہوتی ہیں پہلا یہ کہ وہ علم خبرکے ذریعے حاصل کیا جائے۔خبری علم میں اذعان ویقین کی صرف یہ صورت ہے کہ خبردرست اور صدق پرمبنی ہو۔ محدثین نے اسی مقصد کو حاصل کرنےکےلیے خبر کی صداقت کے کڑےاصول وضع کیے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی علم کو محدثین کی اصطلاح میں اصول حدیث کےنام سےیاد کیاجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ علم استدلالی واستنباطی ہو جو فقہاء (فقیہ علماء) سرانجام دیتے رہے اور طریقہ استدلال و استنباط کے اصول وضع کیے، چنانچہ ایسے علم کو اصول فقہ کہا جاتا ہے. علم اصول حدیث وہ علم ہے جو محدثین نے صرف اس لئے وضع کیاتھا تاکہ احادیث رسولﷺ میں تحقیق کرسکیں۔
حدیث کی تعریف
حدیث (خبر) عام ہے کہ وہ قول نبی کا ہو یا صحابی و تابعی کا ، اور ان کے افعال ہوں ، یا ان کی تقریر.(تدریب الراوی:٧٢) اور شیخ الاسلام ((شرح نخبة)) میں فرماتے ہیں : لفظ خبر اس فن کے علماء کے نزدیک مترادف (ہم معنی) ہیں، پس اس کا اطلاق ہوتا ہے مرفوع (حدیث_نبوی)، اور موقوف (حدیث_صحابی) پر اور مقطوع (حدیث_تابعی) پر بھی.
١) حدیث_مرفوع : حدثنا محمد بن عبيد الغبري حدثنا أبو عوانة عن أبي حصين عن أبي صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم من کذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 6 (7145) - مقدمہ مسلم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی سختی کے بیان میں]
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔
٢) حدیث_موقوف : حدثنا يحيی بن يحيی أخبرنا هشيم عن سليمان التيمي عن أبي عثمان النهدي قال قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه بحسب المر من الکذب أن يحدث بکل ما سمع۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 11 (7150) - مقدمہ مسلم : بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں]
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردینا ہی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے۔
٣) حدیث_مقطوع : حدثني أبو الطاهر أحمد بن عمرو بن عبد الله بن عمرو بن سرح قال أخبرنا ابن وهب قال قال لي مالک اعلم أنه ليس يسلم رجل حدث بکل ما سمع ولا يکون إماما أبدا وهو يحدث بکل ما سمع.
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 12 (7151) - مقدمہ مسلم : بلا تحقیق ہر سنی ہوئی بات بیان کرنے کی ممانعت کے بیان میں]
ترجمہ : حضرت امام مالک نے فرمایا جان لے اس بات کو کہ جو شخص ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے وہ غلطی سے محفوظ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسا شخص کبھی مقتدا اور امام بن سکتا ہے اس حال میں کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردے ۔
نوٹ : اس تعریف (اور محدثین کے اس پر عمل) کے اعتبار سے سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رح کے اقوال و افعال اور تقریرات بھی حدیث کہلائیں گے یعنی فقہ حنفی حدیث ہی ہے. کیونکہ آپ رح کو تابعیت کا شرف حاصل ہے، آپ نے تو صحابہ سے حدیث بھی سنی ہیں. یہ شرف ائمہ اربعہ (چاروں اماموں) میں سے صرف سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رح کو ہی حاصل ہے
دین کے مسائل تین طرح کی اخبار (احادیث) سے ثابت ہوتے ہیں:
١) متواترت: کسی محسوس واقعہ (مَثَلاً : کسی قول یا فعل وغیرہ) کو خود سننے اور دیکھنے والوں کی ابتداء سے آخر (اب) تک ہر زمانہ میں ایسی بڑی تعداد اس واقعہ کی خبر دے کہ ان سب کا جھوٹ یا غلطی پر متفق ہونا عادتاً محال سمجھا جاۓ. (یعنی عقل یہ باور نہ کرے کہ ان سب نے سازش کرکے جھوٹ بولا ہوگا یا ان سب کو مغالطہ لگ گیا ہوگا). [الاحکام فی اصول الاحکام : ١/١٥١؛ التوضیح والتلویح : ٢ / ٢-٣؛ تسہیل الوصول : صفحہ ١٤٠؛ فتح الملھم : ١ /٥-٦]؛ متواترت علم یقینی(بدیہی) کا فائدہ دیتی ہیں[شرح نخبة الفكر:٢٤-٢٥]، اور متواتر کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ بغیر بحث کے اس پر عمل واجب ہے.[شرح نخبة الفكر:٢٥]؛
٢) مشہورات: اصول حدیث میں ان اخبار و احادیث کو کہتے ہیں جنہیں دو سے زائد راوی روایت کریں لیکن وہ تواتر کی حد تک نہ پہنچیں. [نخبة الفكر] اور اصول فقہ میں : اول (صحابہ کے) زمانہ میں تو وہ واقعہ خبر_واحد ہو پھر وہ پھیل جاۓ کہ دوسرے یا بعد کے زمانوں میں اتنی قوم اس کو روایت کرے کہ جن کا جھوٹ پر اتفاق کا وہم نہ ہو، [نور الأنوار:١٨٠] اگر وہ اس طرح ہو پہلے زمانہ میں بھی تو وہ متواتر ہوگی اور اگر وہ دوسرے زمانہ میں بھی اس طرح نہ ہو تو وہ (اخبار و واقعات) آحاد سے ہیں. اس سے معلوم ہوگیا کہ اصولیین کے نزدیک مشہورات آحاد اور متواتر (کے درمیان) کی قسیم ہے اور محدثین کے نزدیک وہ آحاد کی قسم ہے جو تواتر کی حد تک نہ پہنچے.[رد المختار:١/٤٤٦]؛
٣) آحاد: یہ خبر واحد کی جمع ہے، اور جس خبر یا واقعہ کو ایک ہی شخص روایت کرے اسے لغتاً خبر واحد کہتے ہیں، اور اصطلاحاً جس میں متواتر کی کل شرائط نہ ہوں. پھر متواتر چونکہ مفید علم یقینی کے ہوتی ہے اس لئے وہ مردود نہیں صرف مقبول ہوتی ہیں، لیکن آحاد مقبول بھی ہوتی ہیں اور مردود بھی، اس لئے کہ ان کا واجب العمل ہونا ان کے راویوں کا حالات پر مبنی ہے[شرح نخبة الفكر]. اس لئے وہ اخبار آحاد اپنی سند اور ان میں موجود راویوں کے حالات پر مقبول و مردود اوصاف کی تحقیق سے واجب العمل یا متروک العمل سمجھی جائیں گی؛
سوال : احادیث کی صحت اور ضعف میں جب محدثین کی آراء کا باہم اجتہادی اختلاف ہے تو پھر ان میں سے کس کی تقلید (پیروی) کرنی چاہیے ؟؟؟
جواب : تحقیق میں تین باتوں کی ضرورت ہوتی ہے : (١) یہ حدیث ثابت ہے یا نہیں ، (٢) اس کا مطلب کیا ہے ، (٣) اگر یہ حدیث کسی دوسری نص (قرآن و حدیث کے واضح الفاظ) یا تعامل (سلسلۂ تواتر سے چلتا امتِ مسلمہ کے عمل) سے متعارض (ٹکرا رہی) ہو تو (اصول حدیث کے مطابق) ان میں سے کون سی حدیث راجح ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ اور کون سی حدیث مرجوح ہے کہ جس کو (ترجیح نہ دیتے) ترک کیا جاۓ. محدثین صرف پہلی بات کی تحقیق میں اپنی (تحقیقی) راۓ صرف کرتے ہیں ، دوسری اور تیسری بات میں وہ خود فقہاءِ مجتہدین کے محتاج و مقلد ہیں. اس سے معلوم ہوا کہ کامل تحقیق بھی فقہاءِ مجتہدین کی ہے اور کامل تقلید بھی ان کی ہی ہو سکتی ہے. اس لئے دیکھا جاۓ گا کہ ان کتبِ احادیث میں جو ایسی احادیث ہیں کہ چاروں ائمہِ کرامؒ (امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ) کا ان پر عمل کرنے میں اتفاق ہے تو ان احادیث پر اجماعاً عمل کیا جاۓ گا ، اور جن احادیث کے راجح یا مرجوح ہونے میں ائمہ اربعہؒ کا اختلاف ہے ان میں وہی طریقہ اختیار کیا جاۓ گا جو خیر القرون سے آج تک چلا آرہا ہے اور فتنہ سے بھی بلکل محفوظ ہے کہ جس امام مجتہدؒ کا کا مذھب (طریقہ و راۓ) جس علاقہ میں متواتر ہوگا ، اس نے ان اختلافی احادیث میں جس کو راجح قرار دیا اسی پر عمل کیا جاۓ گا ، وہاں کے متواتر عمل کے خلاف دوسری حدیث پر عمل کرکے علاقہ میں فتنہ و فساد کھڑا نہ کیا جاۓ گا. جہاں سب حنفی ہوں گے وہ امام صاحبؒ کے مختارات (اختیار کردہ مذھب و راۓ) پر عمل کریں گے ، جہاں شافعی ہوں گے وہ امام شافعیؒ کے مختارات پر عمل کریں گے ، تاکہ (ہر) سنت پر بھی عمل ہوجاۓ اور امت فتنہ سے بھی محفوظ رہے. یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اختلاف قرات کے وقت ہر علاقہ میں وہی قرات پڑھی جاۓ گی جو وہاں تلاوت میں معروف و متواتر یا یا جیسے سعودیہ والے (وہاں چاند دکھنے کے سبب) عید ہی پڑھیں گے اور ہم (یہاں چاند نہ دکھنے کے سبب) روزہ ہی رکھیں گے.
جمہور علماء امت (حنفی) ان احادیث کو راجح قرار دیتے ہیں جن کو امام ابو حنیفہؒ نے صحابہ (رضی اللہ عنھم) کے پیمانہ عمل کو دیکھ کر راجح قراردیا. کیونکہ (١) بقیہ ائمہ ثلاثہؒ کے مقابلہ میں امام ابوحنیفہؒ صحابہؓ کے صحبت یافتہ تابعی تھے اور حدیث : نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ((دیکھو)) ...[بخاری] کے مطابق آپ نے دین نبویؐ صحابہؓ سے دیکھ دیکھ کر سیکھا اور (٢) اپنی اکیلی راۓ کی بجاۓ ہمعصر علماء کی مشاورتی جماعت سے ہر ہر مسئلہ میں کئی ہفتوں کی بحثوں کے بعد اتفاقی راۓ پر مبنی صحابہؓ کی فقہ دین [قرآن : ٩/١٢٢] اپنے تلامذہ (شاگردوں) سے لکھواکر جمع کرواتے رہے.
القرآن : یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے.[الجمعہ : ٤]؛ واللہ اعلم بالصواب
صحیح روایت سے زیادہ تعامل امت قطعی (حجت) ہے
سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے: "کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ"۔(تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: ۱/۳۱۱)؛
ترجمہ: حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اورمقبولیت پر بہت اثر رہا اور محدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں۔
امام ترمذیؒ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ"۔
(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)
ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضورﷺ کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔
یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔
ائمہ مجتہدین اوران کے تمسکات کو علم حدیث کے موضوع میں شامل نہ کیا جائے تو بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی، صحت حدیث کا مدار صرف سند پر نہیں، اہل علم کے عمل سے بھی حدیث قوی ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اکثراوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی صحت عمل پر بھی متفرع ہوتی ہے۔
مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:
اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اورصحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:
"ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ"۔
(تنزیہ الشریعۃ للکنانی:۲/۱۲۰)
ترجمہ:اہل علم کے قول اورتعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اورقابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔
بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔
(الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور)
حافظ ابن صلاح مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اوراس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں،لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طورپروہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔
لیکن (جدید) اہلحدیث مطلقاً ضعیف کو قابل عمل نہیں ٹھہراتے۔ گو اس پر اہل علم کا عمل ہوا؟ (فتاویٰ اہلحدیث: کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص6) جبکہ قدیم اصول حدیث کے اصولی جیسے :
موضوع ِحدیث میں "تعامل امت" پر نظر
امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب "التعقبات علی الموضوعات" میں اور
امام على بن محمد بن عراق الكناني "تنزیہ الشریعۃ" میں لکھتے ہیں:
"وقال : حنش ضعيف عند أهل الحديث والعمل على هذا عند أهل العلم ، فأشار بهذا إلى أن الحديث اعتضد بقول أهل العلم ، وقد صرح غير واحد بأن دليل صحة الحديث قول أهل العلم به ، وإن لم يكن له إسناد يعتمد على مثله"۔
ترجمہ: اور (امام ترمذیؒ) نے کہا : اہل حدیث کے نزدیک (یہ حدیث) ضعیف ہے لیکن عمل ہے اسی پر اہل علم کا" بس یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بیشک (ضعیف) حدیث اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ
حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔ (تنزیہ الشریعۃ، للکنانی: ۲/۱۰٤)
تقریباً 200 کتب کے مصنف مصنف محدث، فقیہ، اصولی، مؤرخ علامہ سخاوی رح لکھتے ہیں؛
وقال الحافظ السخاوي في شرح ألفية : إذا تلقت الأمة الضيف بالقبول يعمل به الصحيح حتى أنه ينزل منزلة المتواتر في أنه ينسخ المقطوع به، ولهذا قال الشافعي رحمة الله تعالیٰ في حديث "لا وصية الوارث" أنه لا يثبت أهل العلم بالحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به حتى جعلوه ناسخا لاية الوصية الوارث...إنتهى
ترجمہ : علامہ سخاوی رح نے "شرح الفیہ" میں کہا ہے کہ: جب امت حدیث_ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں ((متواتر حدیث کے رتبہ میں سمجھی جاۓ گی))، اور اسی وجہ سے امام شافعی رح نے حدیث : "لاوصية لوارث" کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو حدیث کے علم والے (علماۓ حدیث) ((ثابت نہیں)) کہتے ہیں لیکن عامه علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیت_وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے. [فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠ ؛ المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية،٢/١٧٩؛
(فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)
-----------------------------
علامة ابن مرعي ألشبرخيتي المالكي رح
"ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمة: اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓگا.
المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٩؛
اصولِ حدیث سب اجتہادی ہیں، مقصود صحیح بات کوپالینا ہے، وہ جس طرح بھی میسر آسکے اور یقین بڑھاسکے، خطیب بغدادی اصولِ حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وجب الاجتہاد فی علم اصولہا" (الکفایہ فی علوم الروایہ:۳)
جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع کی ہربات میں اجتہاد سے کام لیا گیا ہے، فقہاء حدیث نے اپنے اپنے تفقہ کی روشنی میں اس کے اصول طے کئے ہیں؛
وقال العلامة بدر الدين بن بهادر في النكت على مقدمة ابن الصلاح (3\341-342) : "فلا شك أن في الجرح والتعديل ضربين من الاجتهاد ؛ وأئمة النقل يختلفون في الأكثر فبعضهم يوثق الرجل إلى الغاية وبعضهم يوهنه إلى الغاية وهما إمامان إليهما المرجع في هذا الشأن".
علم جرح وتعدیل میں ناقدین رجال کے احکام ظنی اوراجتہادی ہیں اوریہ ان کے روات کے حالات،روایات کا استقراء اوتتبع پرمبنی ہے۔یہ بات حافظ ذہبی نے بھی کہی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
قالالحافظالذهبيفيالموقظة : "هذاالدينمؤيدمحفوظمناللهتعالى،لميجتمععلماؤهعلىضلالة،لاعمداولاخطأ،فلايجتمعاثنانعلىتوثيقضعيف،ولاعلىتضعيفثقة،وإنمايقعاختلافهمفيمراتبالقوةأومراتبالضعف؛والحاكممنهميتكلمبحسباجتهادهوقوةمعارفه،فإنقدرخطؤهفينقده،فلهأجرواحد" ." .
یہی بات حافظ ذہبی نے دوسرے مقام پر بھی دوہرایاہے چنانچہ وہ ذکر من یعتمدقولہ فی الجرح والتعدیل میں کہتے ہیں۔
"فمنأئمةالجرحوالتعديلبعدمنقدمنايحيىبنمعين؛وقدسألهعنالرجالعباسالدوريوعثمانالدراميوأبوحاتموطائفة؛وأجابكلواحدمنهمبحسباجتهاداتالفقهاءالمجتهدين, وصارتلهمفيالمسألةأقوال". ۔
حافظ ذہبی نے یہ بات میزان الاعتدال میں بھی دوہرائی ہے چنانچہ وہ میزان الاعتدال میں ہشام بن عمار السلمی الدمشقی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
ومازال العلماء الاقران یتکلم بعضھم فی بعض بحسب اجتہادھم وکل احد یوخذ منہ قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔(میزان الاعتدال 3/256)
اس امر کا اعتراف حافظ الدنیا حافظ ابن حجر کو بھی ہے کہ ناقدین رجال اورجرح وتعدیل کے ائمہ کے اقوال بعینہ اسی طرح اجتہادی ہیں جس طرح کے فقہاء کے اقوال اجتہادی اور استنباطی ہوتے ہیں۔
وقالالحافظابنحجرفيلسانالميزان (1\3) : "أقاماللهطائفةكثيرةمنهذهالأمةللذبعنسنةنبيهصلىاللهعليهوسلمفتكلموافيالرواةعلىقصدالنصيحة؛ولميعدذلكمنالغيبةالمذمومةبلكانذلكواجباعليهموجوبكفايةثمألفالحفاظفيأسماءالمجروحينكتباكثيرةكلمنهمعلىمبلغعلمهومقدارماوصلاليهاجتهاده" ." .
حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جرح وتعدیل کے ائمہ کے اختلافی کلام میں اسی طرح اجتہادی ہیں جس طرح کے فقہاء کرام کے مختلف اقوال کسی ایک مسئلہ میں اجتہادی ہوتے ہیں۔اسی طرح کسی ایک مسئلہ میں ایک فقیہہ کا مختلف قول اجتہادی ہوتاہے اسی طرح ایک راوی پرایک ناقد حدیث کے مختلف احکام بھی اجتہادی ہوتے ہیں۔ جیساکہ ابن معین سے ایک ہی راوی کے سلسلہ میں مختلف احکام منقول ہیں۔
وقالالسخاويفيفتحالمغيث (3\352) : "وولاةالجرحوالتعديلبعدمنذكرنايحيىبنمعين , وقدسألهعنالرجالغيرواحدمنالحفاظ ,ومنثماختلفتآراؤهوعباراتهفيبعضالرجالكمااختلفاجتهادالفقهاءوصارتلهمالأقوالوالوجوهفاجتهدوافيالمسائلكمااجتهدابنمعينفيالرجال" ." .
سلفی علماء میں سے اس امر کا اعتراف شیخ جمال الدین قاسمی نے بھی کیاہے کہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کامعاملہ ہو یاپھر بات راوی پر کلام کی ہو ۔یہ اجتہادی امر ہے اورقائل کی اپنے معلومات،دائرہ اطلاع،فکر ونظر کی گہرائی وگیرائی کے اعتبار سے ہے۔
"ومعرفة الرجال علم واسع ثم قد يكون المصيب من يعتقد ضعفه لاطلاعه على سبب جارح , وقد يكون الصواب مع الآخر لمعرفته أن ذلك السبب غير جارح : إما لأن جنسه غير جارح , أو لأنه كان له فيه عذر يمنع الجرح -وهذا باب واسع- , وللعلماء بالرجال وأحوالهم في ذلك من الإجماع والاختلاف مثل ما لغيرهم من سائر أهل العلم في علومهم" .
في قواعد التحديث (ص 377)
حدیث کی تقویت میں اصولِ درایت کا اثر
بعض قرائن اور دلائل ایسے بھی ہوتے ہیں جواصولِ درایت کی روشنی میں غیرمقبول حدیث کومقبول اور قابل عمل بنادیتے ہیں؛ چنانچہ خطیب بغدادی اپنی کتاب الکفایہ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: پہلی قسم جس سے حدیث کی صحت کا علم ہوتا ہے، اس کی جانکاری کی راہ ہے اگروہ روایت متواتر نہ ہو کہ جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے کہ وہ روایت مقتضائے عقل کے مطابق ہو، کبھی اس کی صحت یوں معلوم ہوتی ہے کہ وہ خبرنص قرآنی یاسنت مشہورہ کے مطابق ہو یاامت نے اس روایت کودرست گردانا ہو اور اس پرعمل درآمد کیا جاتا رہا ہو۔
(الکفایۃ فی علم الروایۃ،باب الكلام في الاخبار وتقسيمها:۱/۱۷،شاملہ،الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة)
سوال : کیا دین میں سند مطلوب ہے یا نہیں ؟ اور اس کی کیا حیثیت ہے ؟
جواب : سند (نبیؐ تک راویوں کے سلسلہ) کا اگر یہ مطلب ہے کہ ((حدثنا فلان عن فلان)) تو اس کا حکم نہ قرآن پاک میں ہے نہ کسی حدیث میں ، اسی لئے ابتداۓ اسلام میں اسے ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا ، چنانچہ امام ابن سیرینؒ (١١٠ھہ) فرماتے ہیں : لَمْ يَكُونُوا يَسْأَلُونَ عَنِ الإِسْنَادِ ، فَلَمَّا وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ ، قَالُوا : سَمُّوا لَنَا رِجَالَكُمْ ، فَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ السُّنَّةِ ، فَيُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ ، وَيُنْظَرُ إِلَى أَهْلِ الْبِدَعِ ، فَلَا يُؤْخَذُ حَدِيثُهُمْ [صحيح مسلم (مقدمہ) » بَاب بَيَانِ أَنَّ الإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وَأَنَّ ... ١/١١] یعنی "پہلے سند نہیں پوچھا کرتے تھے ، جب فتنہ واقع ہوا تو کہنے لگے کہ راویوں کے نام بتاؤ تاکہ دیکھا جاۓ کہ اگر راوی اہلِ سنّت ہوگا تو حدیث لی جاۓ گی اور اگر اہلِ بدعت ہوگا تو نہیں لی جاۓ گی".؛
اس سے معلوم ہوا کہ متقدمین نے تو اسناد کو مصلحتاً مخالفینِ اہلِ سنّت کے واسطے نکالا تھا ، اس کے بدعتِ حسنہ ہونے میں شک نہیں ، یہ خود مقصود نہیں ، بلکہ ایک مقصود کا ایک ذریعہ ہے . جس طرح امت کے انتظام کے لئے تقلیدِ شخصی کا وجوب بالغیر ہے ، اسی طرح سند کا لزوم بھی بالغیر ہے ، بالذات نہیں . امام ابن سیرینؒ کے بعد جن تبع تابعین یا بعد والوں نے سند کو ضروری کہا ، (تو وہ) عقلی دلائل سے کہا ، کسی نے سند کو پرندے کے پروں سے تشبیہ دی ، کسی نے اسلحہ سے تشبیہ دی . عجیب بات تو یہ ہے کہ خیر القرون میں اس پر اتفاق تھا کہ اہلِ سنّت کی حدیث لی جاۓ گی اور اہلِ بدعت کی حدیث نہیں لی جاۓ گی ، لیکن خیر القرون کے ختم ہوتے ہی اس اتفاق کو ختم کردیا گیا ، خود بخاری ومسلم نے کتنے ائمۂ اہلِ سنّت سے حدیث نہیں لی اور ان کو چھوڑ اہلِ بدعت سے احادیث لیں اور آج کل سنّت کے مسئلہ میں بہت افراط و تفریط ہو رہی ہے . ایک طرف اہل بدعت ہیں ، وہ ثبوتِ مسئلہ کے لئے کسی سند کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور خوب بے پر کی اُڑاتے ہیں ، اور دوسری طرف غیر مقلدین (جدید اہل حدیث) ہیں ، وہ متواترات کے لئے بھی سند تلاش کرتے ہیں ، اگر نہ ملے تو انکار کردیتے ہیں . یہ دونوں گمراہی کے راستہ ہیں . پہلی بات کا نقصان یہ ہے کہ بہت سی باتیں جن کا دین میں ثبوت نہیں ان کو دین میں داخل کرلیا جاتا ہے ، اور دوسری بات کا نقصان یہ ہے کہ بہت سی متواترات تک کا انکار کردیا جاتا ہے .
راہِ اعتدال اس میں یہی ہے کہ جس طرح سورج اور بدر کامل گواہی کے محتاج نہیں اسی طرح متواتر کی چاروں اقسام اور مشھورات سند کی محتاج نہیں . دیکھو قرآن پاک متواتر ہے ، اس کی آیات کی سندیں تلاش کرنا بے فائدہ ہیں ، بلکہ یقینی کو ظنی بنانا ہے. اسی طرح کتاب و سنّت کی سمجھ کے لئے ہمیں (عربی) لغت کی بھی ہمیں سب سے پہلے ضرورت پڑتی ہے ، مگر لغت کے لفظ مَثَلاً : کتاب کا واضع کون ہے ؟ اور اس تک کوئی سند ہے ؟ ہرگز نہیں . مگر کوئی جاہل یہ نہیں کہتا کہ ساری لغت بے سند ہے بے ثبوت ہے ، بلکہ یہ متواتر اور یقینی الثبوت ہے . اسی طرح (علم) صرف ، نحو ، معانی ، بیان اور منطق کے اصول اور اصطلاحات اہلِ فن کے ہاں متواتر یا مشہور ہیں ، کوئی شخص نہ ہی ان کی سند تلاش کرتا ہے ، نہ ہی ان کو بے ثبوت کہتا ہے . اسی طرح اصولِ حدیث ، اصولِ تفسیر ، اور اصولِ فقہ یا تصوف کی اصطلاحات اہلِ فن کے ہاں متواتر یا مشہور ہیں . ان کتابوں پر اعتماد کیا جاتا ہے ، نہ ہی ان کی سند تلاش کی جاتی ہے ، نہ ہی ان کو بے ثبوت کہا جاتا ہے ، راویوں کی بحث (ثقہ، یا ضعیف ہونے) میں اسماء الرجال کی کتابوں : تقریب التھذیب ، تہذیب التھذیب ، خلاصہ ، تذكرة الحفاظ ، اور میزان الاعتدال کے حوالہ دیے جاتے ہیں ، حالانکہ جن راویوں کو انہوں نے ثقہ (قابل اعتماد) یا ضعیف (حافظہ/عمل میں کمزور) لکھا ہے وہ ان کتابوں کے مصنفین سے چھ سات سو سال پہلے کے ہیں ، نہ (ہم تک پہنچانے والے سے) جارح (ضعیف یا جھوٹا وغیرہ کی جرح کرنے والے ان مصنفین) تک (اس جرح کے ثبوت کے لئے کوئی) سند ہے، نہ جارح سے راوی تک . اسی لئے (شيخ عز الدين عبد السلامؒ سے ایک سوال پر شيخؒ نے ابو محمد عبد الحميد کی طرف یہ جواب لکھا، جسے) مولانا عبد الحی لکھنویؒ تحریر فرماتے ہیں : اما الاعتماد على كتب الفقه الصحيحة الموثوقة بها فقداتفق العلماء في هذا العصرعلى جواز الاعتماد عليها والاستناد اليها لأن الثقة قد حصلت بها كما تحصل بالرواية وبعد التدليس ومن اعتقد ان الناس قد اتفقوا على الخطأ في ذلك فهو اولى بالخطأ منهم ولولا جواز الاعتماد على ذلك لتعطل كثير من المصالح المتعلقة بها وقد رجع الشارع الى قول الأطباء في صور وليست كتبهم ماخوذة فى الأصل الاعن قوم كفار ولكن لما بعد التدليس فيها اعتمد عليها كما اعتمد في اللغة على أشعار العرب وهم كفار لبعد التدليس قال وكتب الحديث أولى بذلك من كتب الفقه وغيرها لاعتمادهم بضبط النسخ وتحريرها فمن قال ان شرط التخريج من كتاب يتوقف على اتصال السند اليه فقدخرق الاجماع [اسعاد الرفيق : الجزء الثانى , ص/ 90-91 ، الأجوبة الفاضلة : ص # 45]؛
اس سے معلوم ہوا کہ غیر مقلدینِ زمانہ (جدید اہل حدیث) کی یہ روش کہ فقہ کی کتاب مشہورہ کی سند مانگتے ہیں ، مگر لغت ، صرف ، نحو ، اسماء الرجال ، قرآن پاک کی سند نہیں مانگتے ، ضد اور جہالت ہے ، مشہورات کی سند مانگنا خرقِ اجماع ہے ، اور قرآن پاک نے خرقِ اجماع کو جہنمی قرار دیا ہے . اعاذنا الله منه
سند عالی : محدثین کے ہاں سند عالی کی بہت اہمیت ہے ، اور اس میں امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کا مقام بعد والوں میں سب سے بلند ہے ، ان کی مسند میں "وحدانیت" بھی ہیں ، جن میں امام صاحبؒ اور نبی اقدسؐ کے درمیان ایک ہی (راوی کا) واسطہ ہے اور وہ (راوی) بھی صحابی کا . بہت سی سندیں "ثنائيات" ہیں ، جن میں دو ہی واسطہ ہیں : صحابی اور تابعی کا . کتب صحاح ستہ (بخاری ، مسلم ،ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ) "وحدانیت" اور "ثنائيات" سے بالکل خالی ہیں ، ان کی اعلیٰ ترین سندیں "ثلاثيات" ہیں . فاين الثريا من الثرى . اسی طرح امام صاحبؒ نے صحابہؓ کی بھی زیارت کی اور صحابہؓ ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ کا متواتر عمل ان کے مشاہدہ میں تھا ، جس سے اصحابِؒ صحاحِ ستہ محروم رہے.
القرآن : یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے.[الجمعہ : ٤]؛
تعلیقات (بلا سند روایات) : موطا امام مالکؒ اور کتب امام محمدؒ میں بعض بلاغات ہیں جن کی سند مذکور نہیں ، اسی طرح بخاریؒ میں تقریباً (٢٠٣٧) تعلیقات ہیں جن میں سے (٨٨٠) کو تو امام بخاریؒ نے موصول فرمایا ہے لیکن (١١٥٧) کو انہوں نے موصول نہیں فرمایا ، البتہ ان میں سے اکثر کی سندیں نہیں ملیں ، اسی طرح امام ترمذیؒ ((فی الباب)) لکھ کر بہت سے نام بغیر سند کے لکھ دیتے ہیں . ایسی احادیث جن کی سند مذکور نہ ہو "تعلیقات" کہلاتی ہیں . ایسی احادیث کتب حدیث میں بھی ہوتی ہیں اور کتب فقہ میں بھی . غیر مقلدین کی کتنی بڑی نا انصافی ہے کہ اگر بے سند حدیث بخاری ، ترمذی ، موطا یا کسی اور حدیث کی کتاب میں ملے تو اس کو "تعلیق" کہتے ہیں ، لیکن اگر فقہ کی کتابوں میں ملے تو اس کا نام جھوٹ ، بہتان اور موضوع رکھتے ہیں ، حالانکہ وہ قیامت تک ان کے کسی راوی کو وضع الحدیث ثابت نہیں کرسکتے. ایسی احادیث کے بارے میں راہ اعتدال یہی ہے کہ ان کو حجتِ ملزمہ تو نہیں مانا جاسکتا ، لیکن جن کو اکابر فقہاۓؒ تقویٰ و ثقاہت پر اعتماد ہے ، ان کے لیے وہ حجتِ مطمئنہ کا درجہ ضرور رکھتی ہیں ، اسی لئے فقہی کتابوں میں جیسے فقہاءؒ ان کو نقل در نقل کرتے آرہے ہیں بطور حجتِ مطمئنہ درست ہے.
واللہ اعلم و علمہ احکم
تعامل اور سند
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 ، وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا فَهَتَفَ يَا صَبَاحَاهْ ، فَقَالُوا : مَنْ هَذَا ؟ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ ، فَقَالَ : " أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ ؟ " قَالُوا : مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا ، قَالَ : " فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ " ، قَالَ أَبُو لَهَبٍ : تَبًّا لَكَ مَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا ، ثُمَّ قَامَ ، فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ سورة المسد آية 1 ، وَقَدْ تَبَّ هَكَذَا قَرَأَهَا الْأَعْمَشُ يَوْمَئِذٍ .
سنة الوفاة | المصنف | العزو | أفق |
اسم الكتاب
| الصحابي |
| م |
256 | محمد بن إسماعيل البخاري | 4770 | 4422 | صحيح البخاري | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4422&pid=102715 | 1 |
256 | محمد بن إسماعيل البخاري | 4801 | 4452 | صحيح البخاري | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4452&pid=102771 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] رقم الحديث: 4452 (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا ذَاتَ يَوْمٍ ، فَقَالَ : " يَا صَبَاحَاهْ ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ قُرَيْشٌ ، قَالُوا : مَا لَكَ ؟ قَالَ : أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ يُصَبِّحُكُمْ أَوْ يُمَسِّيكُمْ أَمَا كُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي ؟ قَالُوا : بَلَى ، قَالَ : فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ " ، فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ : تَبًّا لَكَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ : تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ سورة المسد آية 1 " . | 2 |
256 | محمد بن إسماعيل البخاري | 4971 | 4614 | صحيح البخاري | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4614&pid=103147 | 3 |
256 | محمد بن إسماعيل البخاري | 4972 | 4615 | صحيح البخاري | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=4615&pid=103147 | 4 |
256 | محمد بن عيسى الترمذي | 3363 | 3310 | جامع الترمذي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=3310&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 5 |
241 | أحمد بن حنبل | 2540 | 2445 | مسند أحمد بن حنبل | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=2445&pid=60267 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 6 |
241 | أحمد بن حنبل | 2798 | 2694 | مسند أحمد بن حنبل | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=121&hid=2697&pid=60267 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 7 |
354 | أبو حاتم بن حبان | 486:14 | 6689 | صحيح ابن حبان | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=454&hid=6689&pid=276383 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 8 |
303 | النسائي | 225:10 | 10910 | السنن الكبرى للنسائي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=315&hid=10910&pid=146423 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 9 |
458 | البيهقي | 370:6 | 12128 | السنن الكبرى للنسائي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=673&hid=12128&pid=332419 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 10 |
458 | البيهقي | 5:9 | 16286 | السنن الكبرى للنسائي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=673&hid=16286&pid= اهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 11 |
292 | أبو بكر البزار | 5088 | 891 | البحر الزخار بمسند البزار 10-13 | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1737&hid=891&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 12 |
313 | محمد بن إسحاق بن إبراهيم السراج | ---- | 2177 | حديث السراج برواية الشحامي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=2022&hid=2177&pid=
[ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 13 |
313 | محمد بن إسحاق بن إبراهيم السراج | ---- | 2178 | حديث السراج برواية الشحامي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=2022&hid=2178&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 14 |
737 | محمد بن عبد الله ، ابن المحب | ---- | 45 | الأربعين من الاحاديث النبوية عن أربعين من مشايخ الإسلام مروية | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=4133&hid=45&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 15 |
852 | ابن حجر العسقلاني | 45:4 | 1181 | تغليق التعليق لابن حجر | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=991&hid=1181&pid=528291 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 16 |
395 | محمد بن إسحاق بن منده | 862:2 | 954 | الإيمان لابن منده | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=574&hid=954&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 17 |
395 | محمد بن إسحاق بن منده | 863:2 | 995 | الإيمان لابن منده | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=574&hid=955&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 18 |
516 | الحسين بن مسعود البغوي | 3741 | 3647 | شرح السنة | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=370&hid=3647&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 19 |
310 | ابن جرير الطبري | 659:17 | 24546 | جامع البيان عن تأويل آي القرآن | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=338&hid=24546&pid= | 20 |
310 | ابن جرير الطبري | 659:17 | 24547 | جامع البيان عن تأويل آي القرآن | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=338&hid=24547&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 21 |
310 | ابن جرير الطبري | 715:24 | 35627 | جامع البيان عن تأويل آي القرآن | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=338&hid=35627&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 22 |
327 | ابن أبي حاتم الرازي | 1150 | 1147 | تفسير ابن أبي حاتم | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=390&hid=1147&pid=199195 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 23 |
327 | ابن أبي حاتم الرازي | 10636 | 11480 | تفسير ابن أبي حاتم | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=390&hid=11480&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 24 |
327 | ابن أبي حاتم الرازي | 10724 | 11571 | تفسير ابن أبي حاتم | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=390&hid=11571&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 25 |
327 | ابن أبي حاتم الرازي | 17379 | 16678 | تفسير ابن أبي حاتم | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=390&hid=16678&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 26 |
516 | الحسين بن مسعود البغوي | 1398 | 1414 | معالم التنزيل تفسير البغوي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=765&hid=1414&pid=373133 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 27 |
468 | الواحدي | 364:3 | 675 | الوسيط في تفسير القرآن المجيد | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1851&hid=675&pid=642485 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 28 |
468 | الواحدي | 568:4 | 1199 | الوسيط في تفسير القرآن المجيد | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=732&hid=392&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 29 |
468 | الواحدي | 943 | 392 | أسباب النزول الواحدي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=732&hid=392&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 30 |
430 | أبو نعيم الأصبهاني | 116 | 117 | دلائل النبوة لأبي نعيم | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=629&hid=117&pid=324319 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 31 |
458 | البيهقي | ---- | 513 | دلائل النبوة للبيهقي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=681&hid=513&pid=333851 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 32 |
458 | البيهقي | ---- | 514 | دلائل النبوة للبيهقي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=681&hid=514&pid=333851 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 33 |
516 | الحسين بن مسعود البغوي | ---- | 26 | الأنوار في شمائل النبي المختار | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1817&hid=26&pid= [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 34 |
275 | الفاكهي | ---- | 1320 | أخبار مكة للفاكهي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=175&hid=1320&pid=112483 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 35 |
279 | أحمد بن يحيى البلاذري | ---- | 53 | أنساب الأشراف للبلاذري | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=196&hid=53&pid=124491 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 36 |
310 | ابن جرير الطبري | 445 | 444 | تاريخ الطبري | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=334&hid=444&pid=156603 [ تخريج ] [ شواهد ] [ أطراف ] [ الأسانيد ] | 37 |
library.islamweb.net/hadith/hadithServices.php?type=1&cid=1895&sid=4883
اہلِ بدعت سے لی گئی روایات کا حکم
اہلِ بدعت سے وہ لوگ مراد ہیں جوبدعت فی العقائد کے مجرم ہوئے، جیسے: معتزلہ، قدریہ، شیعہ، خوارج، کرامیہ اور جہمیہ وغیرہ، بدعت فی الاعمال اس سے اخف ہے اور اہلِ بدعت دونوں ہیں، جن محدثین نے فن حدیث پر بطور ایک فن کے نظر کی ان کا نقطۂ صرف یہ رہا کہ جوصورت بھی ہو روایت صحیح ہو انہیں کسی بدعتی میں بھی بیان کی پختگی نظر آئی توانہوں نے اس سے روایت لے لی، جن علماء نے حدیث کومحض ایک فن کے طور پر نہیں پورے تدین اور اعتماد سے دیکھا انہوں نے اہلِ بدعت سے روایت لینے کوجائز نہ سمجھا، وہ دین کو بدعتی سے حاصل کرنا جائز نہ سمجھتے تھے۔
حضرت امام ابنِ سیرینؒ (۱۱۱ھ) اور حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) اہلِ بدعت سے روایت لینے کے حق میں نہیں، وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)، حضرت سفیان ثوریؒ(۱۶۱ھ) اور امام شافعیؒ (۲۰۴ھ) اس کے جواز کے قائل ہیں، یہ حضرات کہتے ہیں کہ سوائے روافض (اثناعشری شیعوں) کے دیگراہلِ بدعت سے (اگروہ جھوٹ بولنے والے نہ ہوں اور ان کی یادداشت کمزور نہ ہو) روایت لی جاسکتی ہے، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) اس میں تفصیل کے قائل ہیں، جواہلِ بدعت اپنی بدعات کوفروغ دینے والے ہوں ان کی روایت کسی صورت میں قبول نہ کی جائے گی اور غیرداعی اہل بدعت کی روایت دیگر شرائط پوری ہونے پر قبول کی جاسکتی ہے۔
روافض سے روایت نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ ان کے مذہب کا جزو ہے وہ کسی مذہبی مصلحت سے خلاف واقعہ بات کہنا جائز سمجھتے ہیں؛ سونہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں جھوٹ بول رہے ہیں ؎
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
خطیب بغدادی لکھتے ہیں:
"وقال کثیر من العلماء یقبل اخبار غیرالدعاۃ من اہل الاھواء فاما الدعاۃ فلایحتج باخبارہم"۔
(الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۲۱)
ترجمہ:بہت سے علماء نے کہا ہے کہ ان اہل بدعت کی جوداعی الی البدعۃ نہ ہوں روایت قبول کی جاسکتی ہے؛ لیکن ان لوگوں کی جواپنی بدعات کی طرف دعوت دیتے ہیں روایت سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے شرح صحیح مسلم میں اس پرتفصیل سے بحث کی ہے۔
(فتح الملہم:۱/۶۵)
امام مالکؒ تویہاں تک فرما گئے کہ:
"لایوخذ العلم عن اربعۃ عن مبتدع ولاعن سفیہ ولاعمن یکذب فی احادیث الناس وان کان یصدق فی احادیث النبیﷺ ولاعمن لایعرف ھٰذا الشان"۔
ترجمہ:علم حدیث چارشخصوں سے نہ لیا جائے، نہ بدعتی سے نہ بیوقوف سے نہ اس شخص سے جولوگوں کی باتوں میں جھوٹ بول لیتا ہو؛ اگرچہ حدیث نبوی میں سچ ہی کہتا ہو اور نہ اس سے جواس (موضوع) کی شان کو ہی نہ جانتا ہو۔
(مقدمہ اوجز المسالک:۶)
جہاں تک ہوسکے اہلِ بدعت سے روایت نہ لے اگر کہیں روایت بایں نظرلی ہے کہ شاید کسی دوسری روایت میں متابعت کے کام آئے توبھی ان لوگوں کی مجلس کولازم نہ پکڑے؛ تاکہ انہیں باقاعدہ استاد نہ کہنا پڑے اور وہ بھی پوری احتیاط کے ساتھ، سیدنا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:
"ولا شک ان اخذ الحدیث من ہذہ الفرق یکون بعد التحری والاستصواب ومع ذلک، الاحتیاط فی عدم الاخذ لانہ قد ثبت ان ھؤلاءِ الفرق کانوا یضعون الاحادیث لترویج مذاھبھم وکانوا یقرون بہ بعد التوبۃ والرجوع واللہ اعلم"۔
(مقدمہ مشکوٰۃ:۶)
ترجمہ:اس میں شک نہیں کہ ان فرقوں سے حدیث لینا غور اور پڑتال کے بعد ہی چاہئے اور اس کے باوجود احتیاط نہ لینے میں ہی ہے؛ کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ لوگ اپنے خیالات باطلہ کورواج دینے کے لیے حدیثیں گھڑتے تھے اور جب (ان میں کسی کو) توبہ کی توفیق ہوجاتی تواقرار کرتے (کہ انہوں نے بدعقیدگی کے دور میں کیا کیا حدیثیں گھڑی تھیں)۔
یہ ادب واحترام توشیخ کے عقائد واعمال کے متعلق ہے کہ اہلِ حق میں سے ہو گمراہ فرقوں میں سے نہ ہو،تاہم اس ادب واحترام کا بھی اپنا ایک مقام ہے جواخلاق وعادات کی راہ سے قائم ہوتا ہے۔
عربی جانتی عوام کا "ذاتی مطالعہ حدیث" سے غلط فہمی کا امکان
"مضطرب" حدیث کی تعریف:
جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے؛
لغوی اعتبار سے "مضطرب"، "اضطراب" کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ہے کسی معاملے میں اختلال پیدا ہو جانا اور نظام میں فساد پیدا ہو جانا۔ اپنی اصل میں یہ لہروں کے اضطراب سے نکلا ہے کیونکہ لہریں کثرت سے حرکت کرتی ہیں اور بے ترتیبی سے ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں۔
اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جو متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہو۔ تمام اسناد قوت میں ایک دوسرے کے برابر ہوں لیکن ان میں کوئی تضاد پایا جاتا ہو۔
"مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت:
مضطرب وہ حدیث ہوا کرتی ہے جس میں ایسا تضاد پایا جاتا ہو جس کی موافقت کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ یہ تمام روایات ایسی اسناد سے مروی ہوں جو قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جا سکے۔
اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط:
مضطرب حدیث کی تعریف اور اس کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کو اس وقت تک مضطرب قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ اس میں دو شرائط نہ پائی جاتی ہوں:
· حدیث کی مختلف روایات میں ایسا اختلاف پایا جاتا ہو جس میں موافقت پیدا کرنا (Reconciliation) ممکن ہی نہ ہو۔
· روایات سند کی قوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے برابر ہوں جس کے باعث ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا بھی ممکن نہ ہو۔
اگر ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن ہو یا ان میں کسی وضاحت کے ذریعے موافقت پیدا کی جا سکتی ہو تو اس حدیث میں سے "اضطراب" ختم ہو جائے گا۔ اگر کسی ایک روایت کو ترجیح دی گئی ہے تو ہم اس پر عمل کریں گے اور اگر ان میں موافقت پیدا کر دی گئی ہے تو تمام احادیث پر عمل کریں گے۔
"مضطرب" حدیث کی اقسام:
مضطرب حدیث کو اضطراب کی جگہ کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مضطرب السند اور مضطرب المتن۔ ان میں سے پہلی قسم زیادہ طور پر پائی جاتی ہے۔
مضطرب السند کی مثال یہ حدیث ہے:
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا، "یا رسول اللہ! میں آپ کے بال سفید ہوتے دیکھ رہا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "ہود اور ان کے بھائیوں (یعنی دیگر انبیاء کی قوموں پر عذاب) کے واقعات نے میرے بال سفید کر دیے ہیں۔" (رواه الترمذي ـ كتاب التفسير)
امام دارقطنی بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے۔ اس حدیث کو صرف ابو اسحاق کی سند سے روایت کیا گیا ہے۔ ان کی بیان کردہ اسناد میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ کہیں تو کسی راوی نے اسے مرسل (صحابی کا نام بتائے بغیر) روایت کیا ہے اور کہیں موصول (ملی ہوئی سند کے ساتھ)۔ کسی نے اس کا سلسلہ سند سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تک پہنچایا ہے، کسی نے سعد رضی اللہ عنہ تک اور کسی نے عائشہ رضی اللہ عنہا تک۔ ان تمام روایتوں کے راوی ثقہ ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک روایت کو ترجیح دینا ممکن نہیں اور ان میں مطابقت پیدا کرنا بھی ممکن نہیں۔
مضطرب المتن حدیث کی مثال یہ حدیث ہے:
ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔"
ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" عراقی کہتے ہیں کہ یہ ایسا اضطراب ہے جس کی کوئی توجیہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟
اضطراب کسی ایک راوی سے بھی واقع ہو سکتا ہے اگر وہ مختلف الفاظ میں ایک ہی حدیث کو روایت کر رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اضطراب ایک سے زائد راویوں سے ہو جائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے مختلف الفاظ میں اس حدیث کو روایت کر رہا ہو۔
"مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ:
مضطرب حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اضطراب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ راوی حدیث کو صحیح طور پر محفوظ نہیں کر سکے۔
"مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف:
حافظ ابن حجر کی کتاب "المقترب فی بیان المضطرب۔"
================================
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي " .[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883]
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 793 (3356)]
ترجمہ : حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے؟۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔
یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے کہ
﴿۱لف﴾ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان ((اور غیر رمضان)) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین۔[بخاري : ١٨٨٣ ؛ مسلم : 1225] اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔
(۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) [صحيح ابن خزيمة : 2070] نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے؛ لہٰذا اس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔
(۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں ((جماعت)) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
(۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟
(٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔
اس حدیث کو امام بخاریؒ((كتاب التهجد)) میں بھی لائیں ہیں اور ((كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ)) میں بھی لائیں ہیں، اور اس پوسٹ میں یہ بات ثابت کی جا چکی کہ امام بخاریؒ تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھتے، معلوم ہوا کہ آپ ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے پڑھتے اور انھیں علیحدہ علیحدہ باب میں ذکر بھی ذکر کرتے ان کا الگ الگ ہونا مانتے.
ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کے لئے بخاری کو چھوڑ کر ((مسلم)) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے.
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لئے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے تھے، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں. صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا؟؟؟
اسی لیے امام قرطبی (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں : قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد .
[فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549]؛
ترجمہ : "مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)"؛
محدثین میں حدیث کی تصحیح کے دونوں طریقے رائج رہے ہیں:
(۱) راویوں کی ثقاہت ان کے باہمی اتصال اور شذوذ ونکارت سے سلامتی معلوم کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہہ سکتے ہیں۔
(۲) کبھی ان تفصیلات میں جائے بغیر اکابر علمائے فن کی تصحیح پر اعتماد کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہا جاسکتا ہے۔
قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد ٹھہرا توجس طرح سے بھی یہ اعتماد حاصلہوسکے روایت قابلِ قبول ہوجاتی ہے۔
ہرفن میں اکابرِ فن کی تقلید کی جاتی ہے، اس سے انسان اسی وقت نکلتا ہے جب خود براہِ راست راویوں کی جانچ پڑتال کرسکے اور اس کی جملہ طرق پر نظر ہوسکے، اس کے بغیراعتماد سے چارہ نہیں، اس اعتماد کوبھی علم کی ہی ایک شان سمجھنا چاہیے، تقلید سے مراد دوسرے کے علم پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی دلیل مانگے بغیر اس کی بات کوقبول کرنا ہے، جس بات میں خود مضبوط علم حاصل نہ ہو تقلید سے چارہ نہیں، ہاں جب کسی بات کی براہِ راست تحقیق ہوجائے اور اس میں کوئی شک اور دغدغہ نہ رہے توپھرتقلید درست نہیں؛ لیکن جب تک راویوں کا پورا علم خود حاصل نہ ہو محدثین کرام جوائمہ فن ہیں ان کی تصحیح اور ان کی تضعیف سے بھی علماءِ حدیث کسی روایت کوصحیح یاضعیف کہہ سکتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) جرح وتعدیل کے جلیل القدر امام ہیں، آپ اس اعتماد کے یہاں تک قائل تھے کہ اسے الہام کا درجہ دیتے تھے، جس طرح الہام کی خارج میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، ایک وجدان ہے جواندر ہی اندر بولتا رہتا ہے؛ اسی طرح محدثین کرام کوفن کے کمال سے جوذوق ووجدان ملتا ہے اس پر وہ بعض حدیثوں کوراویوں کی ثقاہت اور سند کے اتصال کے باوجود قبول نہیں کرتے، حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) کہتے ہیں:
"ومعرفۃ الحدیث الھام فلوقلت للعالم لعلل الحدیث من این قلت ھذا؟ لم یکن لہ حجۃ"۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:۱۱۳)
ترجمہ: حدیث کی معرفت ایک الہامی چیز ہے جودل میں اُترتی ہے؛ اگرمیں علل حدیث کے کسی عالم سے کہوں کہ تم یہ بات کہاں سے کہہ رہے ہوتواس کے پاس اس کا جواب نہ ہوگا۔
تصحیح روایت میں محدثین پر اعتماد
حافظ شمس الدین الذہبیؒ لکھتے ہیں:
إذ العمدة في زماننا ليس على الرواة بل على المحدثين والمفيدين والذين عرفت عدالتهم وصدقهم في ضبط أسماء السامعين (میزان الاعتدال:۱/۴)
ترجمہ: ہمارے پاس اس دور میں (تحقیق حدیث میں) اعتماد راویوں پر نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ محدثین اور اساتذہ پر ہے اور ان لوگوں پر جن کی عدالت اور سچائی راویانِ حدیث کے ناموں کو یاد رکھنے میں جانی پہچانی جاچکی ہے۔
جب تک راویانِ حدیث اپنی سند سے حدیثیں روایت کرتے رہےتحقیق حدیث کا طریق راویوں کی جانچ پڑتال ہی رہا؛ لیکن جب سندوالی کتابیں مدون ہوچکیں اور اس جمع شدہ ذخیرے سے ہی حدیث آگے چلی تواس دور میں علیحدہ علیحدہ راویوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ حاذق محدثین کی تحقیق اور اکابراساتذہ فن کا ذوق بھی ساتھ Instinct چلنے لگے تواب راویوں کی بجائے اساتذہ فن کے فیصلوں پراعتماد کے بغیر آگے نہیں چل سکتے؛ یہاں اہلِ فن کی تقلید سے چارہ نہیں، ہرشخص کا ذوق اس درجے میں پختہ نہیں ہوتا کہ محض راویوں کے حالات جان کرپوری سندع اور پوری حدیث پر وہ کوئی حکم لگاسکے، حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں:
"ان الجرح انما جرز فی الصدرالاول حیث کان الحدیث یوخذ من صدور الاحبار لامن بطون الاسفار فاحتیج الیہ ضرورۃ للذب من الاثارومعرفۃ القبول والمردود من الحدیث والاخبار واماالآن فالعمدۃ علی الکتب المدونۃ"۔
(الکادی فی تاریخ السخاوی کما فی الرفع والتکمیل:۵۰)
ترجمہ:راویوں پرجرح کرنا پہلے دور میں اس لیئے جائز رہا کہ حدیث علماء کے سینوں سے لی جاتی تھی نہ کہ کتابوں کے اوراق سے؛ سواس کی ضرورت رہی تاکہ آثار کی حفاظت کی جاسکے اور احادیث واخبار میں مقبول ومردود کو پہچانا جاسکے؛ لیکن اب اعتماد کتب مدونہ پر ہونا چاہیے۔
امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کی کتاب "کتاب العلل" ومعرفۃ الحدیث، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی "کتاب العلل" اور ابن ابی حاتم کی "کتاب الجرح والتعدیل" اس سلسلہ کی بہت مفید کتابیں ہیں اور امام احمدؒ کی یہ کتاب انقرہ سے اور ابن ابی حاتم کی یہ کتاب حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ایک موضوع پر دوحدیثیں مروی ہوں راوی ہردوکے ثقہ ہوں اور اتصالِ رواۃ بھی اپنی جگہ قائم ہواور سند صحیح ہے توایسے موقعوں پر محدثین علل روایت میں چلے جاتے ہیں، علت کا پالینا ایک بڑی علمی مرتبہ ہے، عبدالرحمن بن مہدی اس کوالہامِ الہٰی سے تعبیر کرتے تھے؛ پھربھی کوئی حل نہ ملے توترجیح وتطبیق کی راہ لینے سے چارہ نہیں۔
=================================
امام السنن حضرت امام ابوداؤد السجستانی (۲۷۵ ھ) لکھتے ہیں: "قَالَ أَبُو دَاوُد إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔ (سنن ابی داؤد:۱/۳۷۶، مع البذل،حدیث نمبر:۶۱۸، موقع الإسلام)؛
ترجمہ: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع پر دو مختلف روایتیں ملیں تو انہیں حل کرنے کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ آپ کے صحابہ نے آپ کے بعد کیا عمل کیا ہے۔
اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے موضوع میں صحابہ بھی داخل ہیں اور ان کے اقوال واعمال کے بغیر مشکلات حدیث کو حل نہیں کیا جاسکتا، یہ انہی کے اعمال ہیں جن کی روشنی میں تعلیم نبوت کی تفہیم ہوتی ہے۔
حافظ ابوبکرجصاص رازی (۳۷۰ھ) لکھتے ہیں: "إذكان متى روي عن النبي عليه السلام خبران متضادان وظهر عمل السلف بأحدهما كان الذي ظهر عمل السلف به أولى بالإثبات"۔
(احکام القرآن:۱/۱۷، طبع:۱۳۴۱ھ)
ترجمہ: جب حضورﷺ سے دوحدیثیں اس طرح کی مروی ہوں جوآپس میں ٹکراتی ہوں اور سلف کا عمل ان میں سے کسی ایک پر ہوتو سنتِ قائمہ وہ ہوگی جس پر سلف کا عمل ہو۔
حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ) سے روایت کرتے ہیں: "روى محمد بن الحسن عن مالك بن أنس أنه قال إذا جاء عن النبيﷺ حديثان مختلفان وبلغنا أن أبا بكر وعمر عملا بأحد الحديثين وتركا الآخر كان في ذلك دلالة أن الحق فيما عملا به"۔
(التمہید:۳/۳۵۳)
ترجمہ: آنحضرتﷺ سے جب دو مختلف حدیثیں مروی ہوں اور ہمیں یہ بات پہنچے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے ایک پر عمل کیا ہے اور دوسری کو چھوڑدیا ہے تو اس سے پتہ چلے گا کہ حق وہ ہے جس پر ان کا عمل ہوا۔
امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) لکھتے ہیں: اختلافِ آثار میں عمل امضار کا اعتبار کیا جائے گا، جس بات پر پچھلوں کا عمل پایا جائے اسے پہلی بات کا ناسخ سمجھا جائے گا، آپ لکھتے ہیں:
"فلما تضادت الآثار في ذلك، وجب أن ننظر إلى ماعليه عمل المسلمين، الذي قد جرت عليه عاداتهم، فيعمل على ذلك، ويكون ناسخا لماخالفه"۔ (طحاوی:۱/۳۴۱)؛
=====================================
مثال: (١) ترمذی شریک سے، وہ ابو حمزہ سے، وہ شعبی سے اور وہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے زکوۃ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، "زکوۃ کے علاوہ بھی مال سے متعلق ذمہ داری ہے۔" [سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 1581]
ابن ماجہ نے یہی حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے "زکوۃ کے علاوہ مال سے متعلق کوئی اور ذمہ داری نہیں ہے۔" [مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 3016]
(٢) حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت یا پیشاب کے لئے جاؤ تو قبلہ رخ نہ کرو اور نہ پشت بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کیا کرو [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 8]
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ منع کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے سے پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفات سے ایک سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبلہ کی طرف رخ کرتے ہوئے دیکھا [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 9 ; طہارت جو مروی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے : قبلہ کی طرف رخ کرنے میں رخصت]
(٣) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو اس کی تصدیق نہ کرو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 12]
حضرت حذیفہ نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے ڈھیر پر آئے اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 13]
(٤) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وضو واجب ہو جاتا ہے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے چاہے وہ پنیر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 77 - آگ سے پکی چیز کھانے سے وضو]
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باہر نکلے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا پھر ایک انصاری عورت کے گھر داخل ہوئے اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک بکری ذبح کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھایا پھر وہ کھجوروں کا ایک تھال لے آئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی کھجوریں کھائیں پھر وضو کیا ظہر کی نماز ادا کی پھر واپس آئے تو وہ عورت اسی بکری کا کچھ بچا ہوا گوشت لائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز ادا کی وضو نہیں کیا [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 78 - آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا]
(٥) حضرت بسرہ بنت صفوان سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنے ذکر کو چھوئے وہ نماز نہ پڑھے جب تک وضو نہ کرے [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 80 - ذکر چھونے سے وضو ہے]
حضرت قیس بن طلق بن علی حنفی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ ایک ٹکڑا ہے اس کے بدن کا اور راوی کو شک ہے کہ (مُضْغَةٌ) فرمایا یا (بَضْعَةٌ) جبکہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہےامام ابوعیسٰی کہتے ہیں کئی صحابہ اور بعض تابعین سے روایت ہے کہ وہ عضو خاص کو چھونے سے وضو کو واجب قرار نہیں دیتے تھے یہ قول اہل کوفہ اور ابن مبارک کا ہے اور یہ حدیث اس باب میں احادیث میں سب سے زیادہ اچھی ہے اسے ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر بن قیس بن طلق سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں بعض محدثین محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ پر اعتراض کرتے اور ملازم بن عمرو کی عبداللہ بن بدر سے منقول حدیث صحیح اور احسن ہے۔ [جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 81 - ذکر چھونے سے وضو نہ کرنا]
مختلف الحدیث کے موضوع پر لکھی گئی ائمہ حدیث کی کتابیں ؛
١) اختلاف الحديث ، للشافعي ( ت 203هـ ) ؛
٢) تأويل مختلف الحديث ، لابن قتيبة الدينوري ( ت 276هـ ) ؛
٣) شرح مشكل الآثار ، للطحاوي ( ت 221هـ ) ( 1 – 16 ) ؛
٤) كشف مشكل الصحيحين ، لابن الجوزي ( ت 597هـ ) ( 1 – 4 ) ؛
٥) منهاج العوارف إلى روح المعارف في شرح مشكل الحديث ، للقاضي عياض ( ت 544 هـ ) ؛
٦) الأحكام الشرعية الكبرى ، لعبد الحق الإشبيلي ( ت 581هـ ) ( 1 – 5 ) ؛
٧) الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار ، للحازمي ( ت 584هـ ) ؛
٨) منهج الشافعي في ظاهرة مختلف الحديث ، لعبد اللطيف السيد علي ؛
٩) وجوه الترجيح الحديثية في شرح مشكل الآثار للطحاوي ، لصالح حمد محمد الحواس / رسالة ماجستير ؛
١٠) مختلف الحديث وموقف النقاد والمحدثين منه ، د . أسامة خياط ؛
11- منهج التوفيق والترجيح بين مختلف الحديث وأثره في الفقه الإسلامي ، د . عبد المجيد محمد إسماعيل / رسالة دكتوراه .
اصول الحدیث
ضخامت | جلد | سنہ اشاعت | مصنف | نام کتاب | شمار |
۲۵۸ | ۱ | ۱۴۰۱ھ م ۱۹۸۱ء | ابوبکر الحازمی، المتوفی:۵۸۴ھ | کتاب الاعتبار | 1 |
۱۳۴ | ۱ | ۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء | برہان الدین الکورانی، المتوفی:۱۱۰۲ھ | الأمم لایقاظ الھمم | 2 |
۸۴ | ۱ | ۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء | احمد النخلی، المتوفی:۱۱۱۴ھ | بغیۃ الطالبین | 3 |
۹۲ | ۱ | ۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء | عبداللہ البصری، المتوفی ۱۱۳۴ھ | الامدا | 4 |
۷۶ | ۱ | ۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء | صالح العمری، المتوفی ۱۲۱۸ھ | قطف ا لثمر | 5 |
۱۱۹ | ۱ | ۱۳۲۸ھ م ۱۹۱۰ء | ابوعلی الشوکانی، المتوفی ۱۲۵۵ھ | اتحاف الاکابر | 6 |
۶۱۲ | ۱ | ۱۳۹۰ھ م ۱۹۷۰ء | الخطیب البغدادی، المتوفی: ۶۴۳ھ | الکفایۃ فی علوم الروایۃ | 7 |
۲۸۶ | ۱ | ۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء | ابن فورک، المتوفی ۴۰۶ھ | مشکل الحدیث (الطبعۃ الثانیہ) | 8 |
۲۶۹ | ۱ | ۱۴۰۱ھ م ۱۹۸۱ء | الحاکم النیسابوری، المتوفی ۴۱۵ھ | معرفۃ علوم الحدیث (الطبعۃ الثنانیۃ) | 9 |
۱۹۵ | ۱ | ۱۳۵۸ھ م ۱۹۳۹ء | محمد المدنی، المتوفی ۱۲۷۱ھ | الاتحافات السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ (الطبعۃ الثانیۃ) | 10 |
۱۱۶۵ | ۲ | ۱۲۳۲ھ م ۱۹۱۳ء | ابوالمؤید الخوارزمی، المتوفی:۶۶۸ھ | جامع مسانید الامام الاعظم ابی حنیفہؒ | 11 |
۶۷۱ | ۲ | ۱۳۱۶ھ م ۱۸۹۸ء | ابن الترکمانی، المتوفی:۶۶۵ھ | الجوھر النقی | 12 |
۴۵۹۵ | ۱۰ |
| ابوبکر البیہقی، المتوفی:۴۵۸ھ | السنن الکبریٰ وفی ذیلھا الجوہر النفی | 13 |
۱۶۲ | ۱ | ۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۵ء | شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،المتوفی:۱۱۷۶ھ | شرح تراجم أبواب صحیح البخاری (الطبعۃ الخامسۃ) | 14 |
۲۰ | ۱ | ۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء | ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ | القول المسدد فی الذب عن المسند (الطبعۃ الخامسۃ) | 15 |
۲۳۵ | ۱ | ۱۳۹۸ھ م ۱۹۷۸ء | ابن السنی، المتوفی:۳۶۴ھ | عمل الیوم واللیلۃ (الطبعۃ الثالثۃ) | 16 |
۸۸۵۳ | ۲۲ | علی المتقی الہندی، المتوفی:۹۷۵ھ | کنزالعمال فی سنن الأقوال والأفعال (الطبعۃ الثانیۃ) | 17 | |
۱۔۴ | الحاکم النیسابوری، المتوفی:۴۰۵ھ | المستدرک علی الشیخین مع التلخیص للذھبی | 18 | ||
۴۰۴ | ۱ | ۱۳۲۱ھ م ۱۹۰۳ء | ابوداؤد الطیالسی، المتوفی:۲۰۴ھ | المسند | 19 |
۱۹۷۷ | ۵ | ابوعوانہ، المتوفی:۳۰۶ھ | المسند (الطبعۃ الثانیۃ) | 20 | |
۴۲۹۰ | ۱۰ | الامام ابوجعفر الطحاوی، المتوفی:۳۲۱ھ | مشکل الآثار (الطبعۃ الثانیۃ) | 21 | |
۷۷۶ | ۲ | ۱۳۶۲ھ م ۱۹۴۳ء | القاضی یوسف الحنفی، المتوفی:۳۲۱ھ | المعتصر من المختصر (الطبعۃ الثانیۃ) | 22 |
۱۲۷۲ | ۲ | ۱۳۳۶ھ م ۱۹۱۶ء | الحافظ ابن عبدالبر القرطبی، المتوفی:۴۶۳ھ | الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاف مع الفھرس(الطبعۃ الثانیۃ) | 23 |
الامام محمد بن اسماعیل البخاری، المتوفی:۲۵۶ھ | التاریخ الکبیر | 24 | |||
۸۲۷ | ۲ | ۱۳۱۵ھ م ۱۸۹۵ء | الحافظ شمس الدین الذہبی، المتوفی:۷۴۸ھ | تجرید اسماء الصحابۃ مختصر اسدالغابۃ لابن الاثیر الجزری | 25 |
۱۶۵۱ | ۴ | ۱۳۹۰ھ م ۱۹۷۰ء | الحافظ شمس الدین الذہبی، المتوفی:۷۴۸ھ | تذکرۃ الحفاظ من الطبعۃ الاولیٰ الی السابعۃ (الطبعۃ الرابعۃ) | 26 |
۵۷۵ | ۱ | ۱۳۲۴ھ م ۱۹۰۴ء | الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ | تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال الائمۃ الاربعۃ | 27 |
۶۷۲۰ | ۱۲ | الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ | تہذیب التہذیب | 28 | |
۴۱۵ | ۱ | ۱۳۷۱ھ م ۱۹۵۲ء | الحافظ ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ | مقدمۃ الجرح والتعدیل | 29 |
۵۰۲۵ | ۱۴ | الحافظ ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ | الجرح والتعدیل | 30 | |
۶۳ | ۱ | ۱۳۳۵ھ م ۱۹۰۵ء | عبدالغنی البحرانی | قرۃ العین | 31 |
۴۶۹ | ۲ | ۱۳۲۴ھ م ۱۹۰۴ء | ابوبشرالدولابی، المتوفی:۳۱۰ھ | کتاب الکنی والاسماء | 32 |
۱۰۶ | ۱ | ۱۳۹۸ھ م ۱۹۷۸ء | الامام البخاری، المتوفی:۲۵۶ھ | کتاب الکنی | 33 |
۲۳۸۶ | ۶ | ابن حجرالعسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ | لسان المیزان | 34 | |
۱۰۰۸ | ۲ | ۱۳۷۹ھ م ۱۹۶۰ء | الحافظ الخطیب البغدادی، المتوفی:۴۶۳ھ | الموضح الاوھام الجمع والتفریق | 35 |
۲۰۶ | ۱ | ۱۴۱۷ھ م ۱۹۹۶ء | ابن أبی حاتم الرازی، المتوفی:۳۲۷ھ | بیان خطأ البخاری فی تاریخہ (الطبعۃ الثانیۃ) | 36 |
۴۱۷۰ | ۹ | الحافظ محمدبن حبان البستی، المتوفی:۳۵۴ھ | الثقات | 37 | |
۷۳۹ | ۲ | الحافظ ابن نقطۃ، المتوفی:۶۲۹ھ | التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانی | 38 | |
۶۱۰ | ۱ | ۱۴۱۵ھ م ۱۹۹۴ء | الحافظ ابن حجر العسقلانی، المتوفی:۸۵۲ھ | نزہۃ الالباب فی الالقاب | 39 |
۱۳۳۶ھ | ابن عبدالبر | الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب | 40 | ||
۱۳۲۸ھ | طاش کبری زادہ | مفتاح السعادہ | 41 |