Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 11:45:21 GMT 5.5
عقیدہ حیات النبیؐ کے دلائل
عقیدہ حیات الانبیاء قرآن حکیم میں
قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاء کا ثبوت ( اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النص) ملتا ہے۔ ان تمام آیات کا احصاءمشکل بھی ہے اور موجب طول بھی۔ اس لئے اختصار کی غرض سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔ واسل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھة یعبدون (پارہ25۔ آیت45 الزخرف)
ترجمہ: اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
عقیدہ حیات الانبیاء قرآن حکیم میں
قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاء کا ثبوت ( اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النص) ملتا ہے۔ ان تمام آیات کا احصاءمشکل بھی ہے اور موجب طول بھی۔ اس لئے اختصار کی غرض سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔ واسل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھة یعبدون (پارہ25۔ آیت45 الزخرف)
ترجمہ: اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہصاحب فرماتے ہیں ۔ یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) وھذا فی دار المنشور (جلد ۲ ص۱۶)، روح المعانی جلد 5ص89، جمل جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی جلد7ص444، تفسیرمظہری جلد8ص353، تفسیر جلالین ص408،تفسیر بغوی جلد4ص141،
امام ابن کثیرؒ (700-774هـ) اور حیات النبیؐ و الشہداءؒ:
مسند احمد میں ہے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں قبض کئے گئے، اسی میں نفحہ ہے، اسی میں بیہوشی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیس پیش کئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا۔ ابو داؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں ہے جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔ [تفسیر ابن کثیر، الاحزاب:٥٦]
نوٹ: اس سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا رد اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو فرشتے درود پہنچاتے ہیں..
اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا تو خواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔(تفسیر ابن کثیر ج2ص315)
_______________________________
قیامت سے پہلے شہادت کے بعد کی زندگی :
حضرت ابو ہریرہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا[تفسیر ابن کثیر، الانعام:٧١]
آیت قرآن ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68) 39- الزمر:68) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں ۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا ۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا ۔[تفسیر ابن کثیر، الحج:١]
اللہ تعالیٰ قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں ۔ صور میں حضرت اسرافیل علیہ السلام بحکم الہی پھونک ماریں گے۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے۔ دیر تک نفخہ پھونکتے رہیں گے۔ جس سے سب پریشان حال ہوجائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں ۔ [تفسیر ابن کثیر، النمل:٨٧]
==============================
عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام
مولانا ابو احمد نور محمد قادری تونسوی
عصرِ حاضر کے معتزلہ کے واعظین قرآنِ کریم میں بیان کردہ درج ذیل واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر اور سماع عند القبور کا انکار کرتے ہیں‘ حالانکہ اس واقعہ میں قرآنِ کریم نے صاحب ِ واقعہ کا قطعاً تعین نہیں کیا‘ بلکہ مبہم انداز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”او کالذی مر علی قریة وہی خاویة علی عروشہا قال انی یحی ہذہ اللہ بعد موتہا‘ فاماتہ اللہ مائة عام ثم بعثہ قال کم لبثت؟ قال لبثت یوما او بعض یوم‘ قال بل لبثت مائة عام فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنہ‘ وانظر الی حمارک ولنجعلک آیة للناس وانظر الی العظام کیف ننشزہا ثم نکسوہا لحما‘ فلما تبین لہ قال اعلم اللہ اللہ علی کل شئ قدیر“۔ (البقرہ:۲۵۹)
ترجمہ:․․․”اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا: اس بستی کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا؟ (آباد کرے گا)۔ بس اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سوبرس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا: تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے؟ اس نے جواب دیا:ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ایسا نہیں ہے‘ بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے‘ پس تم اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاہے) اور (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لئے ”نشان“ بنائیں‘ اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے (اور آپس میں جوڑتے ہیں) اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا: میں یقین کرتاہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔
قارئین کرام! منکرینِ حیات الانبیاء علیہم السلام کا اس قرآنی واقعہ سے استدلال کرنا سراسر باطل اور دھوکہ‘ بلکہ ایک قسم کی تلبیس ہے‘ اور اس تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے چند دلائل آپ کی خدمت میں عرض ہیں‘ جن میں غور کرنے سے ہر ذی شعور پر ان کے استدلال کا بطلان اور احقاقِ حق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ واقعہ کا نام تک نہیں لیا
سب سے پہلی گذارش یہ ہے کہ جس شخص کو یہ واقعہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا نام متعین نہیں فرمایا‘ بلکہ مبہم انداز میں فرمایا کہ ایک شخص کا ویران اور تباہ شدہ بستی پر گذر ہوا ۔
لہذا مفسرین کرام کے متفقہ اصول کے مطابق ”ابہموا ما ابہمہ اللہ“ اس صاحبِ واقعہ کو مبہم رکھنا ہی مناسب ہے اور بلادلیل از خودکسی شخصیت کا تعین کرنا نامناسب ہے‘ کیونکہ کتاب وسنت میں کہیں یہ نہیں بتایاگیا کہ صاحب ِ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ البتہ مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں فرمایا ہے کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ارمیاہ علیہ السلام کا ہے‘ بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ: یہ شخص حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص ایک کافر بادشاہ تھا جو ”بعث بعد الموت“ کا منکر تھا۔
صاحبِ واقعہ کی شخصیت کے تعین کی بنیاد اسرائیلی روایات ہیں
محترم قارئین! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن پاک میں کیاگیاہے اور نہ ہی حدیث نبوی ا میں۔ جب قرآن کریم اورحدیث نبوی میں اس شخص کو متعین نہیں کیا گیا کہ وہ کون تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعین کرنے والوں نے اسے کیسے متعین کیا ؟ جواب واضح ہے کہ اس تعین کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں‘ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی لکھتے ہیں:
”قرآن کریم نے اس بستی کا نام ذکر نہیں کیا‘ اور نبی معصوم اسے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے‘ اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا ماخذ بھی وہ روایات واقوال ہیں جوحضرت وہب بن منبہ ‘ حضرت کعب احبار اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم تک پہنچتی ہیں اور انہوں نے ان کو اسرائیلی واقعات سے نقل کرکے بیان کیا ہے تو اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لئے صرف ایک یہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ توراة اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے “۔ (قصص القرآن:ص:۲۳۹‘ج:۲)مولانا حفظ الرحمن صاحب کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ حدیث رسول اللہ میں‘ بلکہ اس کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں۔
غلط بیانی کی انتہا
جب صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ نہیں بتایاگیا کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کو پیش آیا اور حضور اکرم ا نے بھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قصہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے‘ مفسرین کرام بھی یہی فرماتے ہیں کہ: جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا اسے مبہم ہی رکھنا چاہئے‘ اب جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم ہی نہیں کہ یہ شخص کون تھا تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بناکر عوام الناس کو یہ تأثر دینا کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ سوسال تک سوئے رہے اور انہیں وقت کا پتہ بھی نہ چلا‘ یہ غلط بیانی کی انتہاء نہیں‘ تواور کیا ہے‘ بلکہ اس واقعہ کو اس رنگ میں پیش کرنا کہ سننے والے یہی سمجھیں کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا نام لے کر یہ واقعہ بیان فرمایا ہے‘یقیناً کتاب اللہ پر اضافہ اور اللہ پر افتراء ہے۔
اسرائیلی روایات: کبھی قرآن کے درجہ میں اور کبھی انکار کی زد میں
عصر ہذا کے معتزلہ کا عجیب مزاج ہے‘ اس واقعہ میں تو ان لوگوں نے اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رکھا ہے اور جب حضرت یوسف علیہ السلام اور عزیز مصر کی گھر والی کے نکاح کا مسئلہ چلتاہے تو یہ حضرات یہ کہہ کرنکاح کا انکار کردیتے ہیں کہ:” حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح نہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے‘ بلکہ اسرائیلی روایات سے ثابت ہے جن پر اعتبار نہیں ہے“۔ اب یہاں تو یہ حضرات اسرائیلی روایات کو ٹھکرا رہے ہیں اور وہاں اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رہے ہیں۔ کوئی ان شرفاء سے پوچھے آخر کیا وجہ ہے؟ ایک ہی چیز کو کبھی قرآن بناتے ہو‘ کبھی قرآن کے مخالف ٹھہراتے ہو۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑواکڑوا تھو تھو
کیا یہی اشاعت التوحید والسنة ہے کہ جو چیز خواہشِ نفس کے مطابق ہے‘ اسے لیا جارہاہے اور جو چیز خواہشِ نفس کے خلاف ہے‘ اسے ٹھکرایاجارہاہے۔ بندہ عاجز کی دانست کے مطابق اتباعِ قرآن کے نام پر درحقیقت اتباعِ خواہش ہورہی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ
قارئین کرام! جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں صاحبِ واقعہ متعین نہیں ہے‘ بلکہ مبہم ہے تو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام کی حیات وسماع کی نفی کرنا خود بخود باطل ہے۔
بے ڈھنگی چال
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ منکرین حیات انبیاء کرام علیہم السلام نے جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کیا ہے کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ انہیں روایات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی نہ تھے‘ بلکہ ایک نیک صالح مرد تھے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے! ان لوگوں نے تعین کی حد تک ان روایات کو قبول کیا‘ بلکہ ان کو قرآن کریم کا درجہ دیا اور ان روایات کے برعکس‘ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دے دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
”مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر علیہ السلام کو آیات مسطورہٴ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے‘ ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر علیہ السلام نبی نہیں تھے‘ بلکہ مرد صالح تھے“ ۔ (قصص القرآن ص:۲۴۷‘ج:۲)
اگر ان لوگوں میں انصاف کی رتی ہوتی تو یہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہ کہتے‘ کیونکہ انہی کی اپنی پسندیدہ روایات میں یہی لکھا ہے کہ وہ نبی نہیں بلکہ نیک صالح مرد تھا‘ لیکن ان کی بے ڈھنگی چال ملاحظہ فرمایئے کہ جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کرتے ہیں‘ انہیں روایات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔
برسبیل تنزل
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے اور وہ نبی اللہ تھے تو پھر بھی ان لوگوں کا اس واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کا انکار اور ان کے سماع عند القبور کا انکار ثابت نہیں ہوتا‘ کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنے پیغمبر حضرت عزیر علیہ السلام کو عارضی وفات کے بعد لوگوں کی نظروں سے ایسے مستور رکھا کہ پورے سوسال کے عرصہ میں اس دور کا کوئی آدمی ان کے پاس سے نہیں گذرا اگر گذرا‘ تو اس نے حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا نہیں‘ ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ لوگ مردہ شخص کی نعش کو دیکھیں اوراس کو تدفین کا انتظام کئے بغیر‘ ویسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں‘ جبکہ تدفینِ میت کا مسئلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ا تک ہرنبی کی شریعت میں برابر چلا آرہاہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے پاس سے کوئی گذرا ہی نہیں‘ اگر گذرا ہے تو اسے دیکھا نہیں‘ جب اللہ کے نبی کو دیکھنا ثابت ہی نہیں تو کس نے جاکر اللہ کے نبی کے جسد اطہر کو سلام کیا ہوگا؟ جب کسی نے سلام ہی نہیں کیا تو عدم سماع کیسے ثابت ہوا؟ لہذا نہ وہاں سلام کیا گیا اور نہ عدم سماع ثابت ہوا۔ نیز اس واقعہ سے الحیاة بعد الوفات کی نفی بھی نہیں ہوتی‘ کیونکہ قرآن پاک کی پچاس سے زائد آیات اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے حیاتِ قبر ہر مردہ کے لئے ثابت ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ کو رنج وراحت‘ دکھ سکھ اور ثواب وعقاب کا احساس ہوتاہے‘ لہذا اس واقعہ کو بنیاد بناکر کتاب وسنت سے ثابت شدہ عقیدہٴ حیات قبر کی تردید کرنا کسی دانش مند کو زیب نہیں دیتا۔
اگر حضرت عزیر علیہ السلام اس عالم میں زندہ تھے تو وقت کا احساس کیوں نہ ہو سکا؟
منکرینِ حیات قبر کے واعظین کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عزیر علیہ السلام زندہ تھے تو انہیں وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟
جواباً عرض ہے کہ وقت کے صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدم حیات پر استدلال بالکل باطل ہے‘ حضرت عزیر علیہ السلام تو اس وقت موت کی وجہ سے عالم قبر وبرزخ میں تھے اور اس عالم کی حیات ان کو حاصل تھی‘ لیکن بعض اوقات عالمِ دنیا میں زندہ رہنے والے انسانوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔
دیکھئے! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”قال کم لبثتم فی الارض عدد سنین‘ قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم فسئل العادین‘ قال ان لبثتم الا قلیلاً“۔ (مومنون:۱۱۲‘۱۱۳)
ترجمہ:․․․”ارشاد ہوگا کہ تم برسوں کے حساب سے کس قدر مدت زمین پر رہے ہوں گے وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے‘ سو گننے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ارشاد ہوگا کہ تم تھوڑی ہی مدت رہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
دیکھئے! اہلِ دنیا اپنی اپنی عمریں پوری کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ‘کوئی ایک سال رہا‘ کوئی پچاس سال رہا‘ کوئی سو سال یا اس سے کم وبیش رہا۔ اب دنیا میں رہنے والوں سے اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں: ایک دن یا بعض دن۔ ظاہر ہے ان کا یہ جواب ان کے غلط اندازے پر مبنی ہے وہ وقت کی صحیح مقدار نہیں بتارہے۔ کیا کوئی احمق اس سے یہ استدلال کرے گا کہ وہ دنیا میں زندہ تھے ہی نہیں‘ بلکہ مردہ تھے۔ یقیناً وہ زندہ تھے‘ البتہ بعض عوارض کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ معلوم ہوا کہ زندہ بھی بعض اوقات وقت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام اپنے عالم قبر وبرزخ میں زندہ تھے مگر وقت کا صحیح اندازہ نہ کرسکے۔
دوسری دلیل
اصحابِ کہف غار میں مردہ نہیں تھے‘ بلکہ سوئے ہوئے تھے۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ”وتحسبہم ایقاظاً وہم رقود“ (کہف:۱۸) اور ان زندہ سونے والوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا ‘جب ان سے پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا: ”یوماً او بعض یوم“”ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“ تو ثابت ہوا کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ لگاسکنے کی وجہ سے کسی کی عدمِ حیات پر استدلال کرنا سراسر باطل ‘بلکہ تلبیس ابلیس ہے۔
الزامی جواب
عصر ہذا کے معتزلہ کے نزدیک روح نہیں مرتی‘ بلکہ وہ زندہ رہتی ہے۔ جب کسی کی روح نہیں مرتی تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح بھی نہیں مری ہوگی؟ظاہر ہے کہ اس وقت روح ان کے جسد میں آچکی تھی‘ اب ہمیں بتایا جائے کہ روح تو زندہ رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرماکر پوچھا کہ تو کتنا ٹھہرا؟تو اسے وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟ اگر ان لوگوں کے استدلال کو درست تسلیم لیا جائے کہ وقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے حیات کی نفی ہوجاتی ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح کی حیات کی بھی نفی ہوجائے گی‘ جبکہ یہ لوگ روح کو تو زندہ ہی مانتے ہیں اور اس کی موت کے قائل ہی نہیں۔
بندہٴ عاجز کا مطالبہ
عصر ہذا کے معتزلہ چودھویں صدی کے آواخر کی پیداوار ہیں‘ اور قرآن کریم کے نزول کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے‘ اس پورے عرصہ میں کسی مفسر ‘ کسی محدث‘ کسی فقیہ‘ کسی متکلم اور کسی عالمِ دین نے اس واقعہ سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کی نفی پر استدلال نہیں کیا‘ اگر کسی نے کیا ہے تو ہمیں اس کا نام بتایا جائے (دیدہٴ باید) ظاہر ہے کہ چودہ سوسال کے عرصہ میں کسی عالم دین کواس آیت سے انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیات کی نفی معلوم نہیں ہوئی اور اب صرف انہی کو معلوم ہوئی ہے ۔
ان کے استدلال کے بطلان کی ایک اور دلیل
بندہ ٴ عاجز نے اکابر علما ئے اسلام کی کتب کی روشنی میں پچاس سے زائد آیاتِ قرآنیہ اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہرمردے کو درجہ بدرجہ اور حسبِ حیثیت قبر وبرزخ میں ایک قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ البتہ یہ حیات اللہ تعالیٰ نے ہماری نظروں سے مستور کررکھی ہے۔ تفصیل کے لئے بندہ عاجز کی کتاب قبر کی زندگی کا مطالعہ کیجئے‘ اگر ان لوگوں کے کشید کردہ مطلب کو درست مان لیا جائے تو ان کا یہ مطلب قرآنِ کریم کی ان پچاس سے زائد آیات کے خلاف ہوگا جن میں حیات کا ثبوت ہے‘ جبکہ مفسرین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا جو دوسری آیات سے متصادم ہو خود باطل اور غلط ہے ۔
اس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
قارئین کرام! مذکورہ بالا واقعہ سے درحقیقت یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ حضراتِ انبیائے کرام ہوں یا اولیائے عظام وہ عالم الغیب نہیں ہوتے‘ کیونکہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ‘ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اسی طرح اصحابِ کہف اور تمام اولیائے عظام عالم الغیب نہ تھے‘ اسی لئے انہیں وقت کا اندازہ نہ ہوسکا اور یہی عقیدہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے‘ پس ثابت ہوا کہ اس واقعہ سے عدم حیاتِ قبر ثابت نہیں‘ بلکہ عدم علمِ غیب ثابت ہے۔
==============================
حیات الانبیاء احادیث کی روشنی میں
١) حضرات انبیاء (علیہ السلام) کے اجسام محفوظ ہیں اور اپنی قبروں میں زندہ ہیں:
حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ الْحَجَّاجِ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ " . [مسند أبي يعلى الموصلي » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ, رقم الحديث: 3371(3425)]
ترجمہ: حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جناب_رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے فرمایا : انبیاء (علیھم السلام) اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں.
تخريج الحديث : المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر ... » كِتَابُ الْأُضْحِيَّةِ » أَبْوَابُ الذَّبَائِحِ, رقم الحديث: 3569(3446)
( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔
حکم_حدیث: حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری ؒلکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہصاحب فرماتے ہیں ۔ یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) وھذا فی دار المنشور (جلد ۲ ص۱۶)، روح المعانی جلد 5ص89، جمل جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی جلد7ص444، تفسیرمظہری جلد8ص353، تفسیر جلالین ص408،تفسیر بغوی جلد4ص141،
) حضرات انبیاء (علیہ السلام) اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں:
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : " مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ " .[ صحيح مسلم » كِتَاب الْفَضَائِلِ » بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386(2377)]
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلے اللھ علیہ وسلم نے فرمایا :"معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.
تخريج الحديث : ( صحيح مسلم ج : 2 ص : 268 (3/490) طبعة رحيمية ديوبند , .مسند أحمد ج : 5 ص : 59 , 362 , 365 , . ج : 3 ص : 148 , 248 , سنن النسائي ج : 1 ص : 242 , كنز العمال ج : 11 ص : 518 , حديث 32386 , الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج : 1 ص : 216 , طبعة المكتبة
الأثرية بباكستان ).
٣) ﷲ تعالی کا نبی زندہ اور رزق دیا جاتا ہے:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا " ، قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ ، قَالَ : " وَبَعْدَ الْمَوْتِ ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ " . [سنن ابن ماجه » كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ » بَاب ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...رقم الحديث: 1627((1637)]
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشادفر مایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا فرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو اﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے ۔ اس کو رزق ملتا ہے۔ (ابن ماجہ 119)
تخريج الحديث : تهذيب الكمال للمزي » رقم الحديث: 574(10:23)
حکم_حدیث: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔ حافظ منذری ؒ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297 علامہ عزیزی ؒ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87،۔ اسی طرح علامہ زرقانی ؒ، علامہ سمہوویؒ ملاعلی قاریؒ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانیؒ نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، نیل الاوطار جلد5ص 264، عون المعبود جلد ۱ص405۔
٤) نبی اکرم صلے الله علیہ وسلم کو (اگر کوئی دور سے درود بھیجے تو) تحفہِ درود "پہچایا" جاتا ہے:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قُبُورًا ، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا ، وَصَلُّوا عَلَيَّ ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُمْ " .[سنن أبي داود » كِتَاب الْمَنَاسِكِ » بَاب زِيَارَةِ الْقُبُورِ, رقم الحديث: 1749(2042), 2/179]
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلے اللھ علیہ نے فرمایا : مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ تم جہاں بھی ہو تمہارا درود میرے پاس پہچایا جاتا ہے.
الشواهد : (مسند أحمد ج : 2 ص : 367 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , مشكاة ص : 84 , فتح الباري ج : 6 ص : 488, المعجم الأوسط للطبراني » بَابُ الْمِيمِ » مَنِ اسْمُهُ مُوسَى, رقم الحديث: 8248(8030), مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ الْمَسَاجِدِ ، وَأَمَاكِنُ الصَّلاةِ وَغَيْرِهَا ... » فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ ...رقم الحديث: 7368(7616) ).
٥) تحفہِ درود "فرشتے" پہچاتے ہیں:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّلِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ، يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ".[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ مَسَائِلَ شَتَّى فِي الصَّلاةِ » فِي ثَوَابِ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ ...,رقم الحديث: 8506(8789)-صحيح]
ترجمہ: حضرت عبدللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے فرمایا:"الله کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو زمین میں چکر لگاتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں.
تخريج الحديث : (نسائي ج : 1 ص : 189 , مسند أحمد ج : 1 ص : 441 , ابن أبي شيبة ج : 2 ص : 517 , مشكاة ص : 86 , التداية والنهاية ج : 1 ص
: 154 , الجامع الصغير ج : 1 ص : 93 ,خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , الإحسان بترتيب ابن حبان ج : 3 ص : 8 حديث 9 , 10 , ).
٦) قبرِ اطہر پر پڑھا جانے والا درود آپؐ خود سنتے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَ : " مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ " .[جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19 ؛ مشكوة: جلد # ١ حديث # ٨٩٩ برواية الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔]
ترجمہ: حافظ ابو الشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمشؒ نے بیان کیا۔ وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ (جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19)
حکم_حدیث: حافظ ابن حجر حدیث کی سند بطریق ابوالشیخ کے متعلق فرماتے ہیں: بسند جید (فتح الباری: جلد6 ص352)۔ علامہ سخاوی فرماتے ہیں: وسند جید (القول البدیع: ص116)۔ ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں: سند جید (مرقات: جلد2ص10)۔ مولانا شبیر احمد عثمانی بھی اس کو بسند جید فرماتے ہیں۔ (فتح الملھم: جلد 1ص330)۔ جمعیت اشاعت التوحید کے ماہنامہ رسالہ تعلیم القرآن میں بھی اس حدیث کی ابو الشیخ والی سند کو جید کہا ہے۔ "و رواہ ابو الشیخ باسناد جید" (ماہنامہ تعلیم القران ص47، اکتوبر1967)
تخريج الحديث : شعب الإيمان للبيهقي » الرَّابِعَ عَشَرَ مِنْ شُعَبِ الإِيمَانِ وَهُوَ بَابٌ ... » فَصْلٌ فِي بَرَاءَةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...رقم الحديث: ١٤٧٨
حضرت ابوہریرة فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ البتہ ضرور حضرت عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ منصف اور امام عادل ہوں گے اور البتہ ضرور وہ فج (ایک جگہ کا نام) کے راستہ پر حج یا عمرہ کےلئے چلیں گے۔ ولا یا تین قبری حتی یسلم چلی ولا ردن علیہ اور بلاشبہ وہ میری قبر پر آئیں گے حتی کہ وہ مجھ سے سلام کہیں گے اور بلاشبہ میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔
[مسند ابی یعلی جلد6 ص101۔ درمنثور جلد2ص245۔ الجامع الصغیر جلد2ص140۔ مسند احمد جلد2ص290۔ مستدرک جلد 2ص595۔]
امام حاکم اور علامہ ذہبیؒ ددنوں اس کو صحیح کہتے ہیں اور ایک روایت میں یوں ہے۔ ثم لئن قام علی قبری فقال یا محمد لا جیبیہ پھر وہ میری قبر پر کھڑے ہوکر فرمائیں گے ۔یا محمدﷺ تو میں ضرور ان کو جواب دوں گا۔ اس کو امام یعلی ؒ روایت کیا ہے اور اس کے راوی بخاری کے راوی ہیں۔ رواہ ابو یعلی ورجالة الصحیح مجمع الزوائد جلد8ص211۔ یہاں کون سی قبر مراد ہے کہ جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے ۔ یہی مدینہ منورہ والی یا کوئی اعلی علین والی۔ یہاں کون سی قبر مراد ہے کہ جس پر جلیل القدرصحابہ کرام ؓ حاضرہوتے تھے اور صلوة وسلام پڑھتے تھے یہی مدینہ منورہ والی قبر یا کوئی اعلی علیین والی۔ فاعتبر ویا اولی الابصار
صحابہ کرامؓ کا عقیدہ حیات النبی ﷺ
حضرت ابوبکرصدیق کا فرمان ہے۔ بابی انت وامی طبت حیا ومیتا الذی نفسی بیدہ لا یذیقک الله الموتتین ابدا (بخاری شریف جلد1ص517) ترجمہ: میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان۔ آپ ﷺ حیات اور موت دونوں کیفیتوں میں جیسے پاکیزہ ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ یا اﷲتعالیٰ آپﷺ کو دو موتوں کا ذائقہ کبھی نہ چکھائے گا۔ امام الموتة التی کتب اﷲ علیک فقد متھا۔( بخاری شریف کتاب الجنائز ص146) ترجمہ : جو موت اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کےلئے لکھی تھی وہ آپﷺ پر وراد ہو چکی۔شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مردا اس کلمہ سے لا یذیقک اﷲ الموتترین ابدا سے یہ تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح آپﷺ پر قبر میں دوسری موت کا ذائقہ بالکل نہ چکھیں گے۔ دوسر ے عام لوگوں کو قبر میں سوال وجواب کےلئے زندہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان پر دوبارہ وردو موت ہوتا ہے آنحضرتﷺ پر یہ دوسری موت کبھی نہیں آئے گی۔ اس ارشاد عالی میں حضرت ابوبکرؓ کا ارشاد مسئلہ حیات النبی ﷺ ہی کی طرف تھا (مدارج النبوة جلد 2ص890)۔ اسی طرح شیخ الاسلام علامہ عینی ؒ نے عینی شرح بخاری میں جلد 2ص600۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے (فتح الباری جلد7ص42میں)، شیخ الاسلام علامہ نور الحق محدث دہلوی نے( تسیر القاری شرح صحیح البخاری جلد3ص445) اور مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری نے صحیح بخاری کے حاشیہ پر یہی مضمون لکھا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے“ مقام حیات”
حضرت عمر فاروق ؓ جب کسی مہم سے واپس مدینہ منورہ آتے تو سب سے پہلے جو کام آپ ؓ کرتے وہ آنحضرت ﷺ کے حضور میں سلام عرض کرنا ہوتا تھا اور اس کی آپؓ دوسروی کو تلقین فرماتے۔ (جذب القلوب ص200)
حضرت معاويہ نے جب شام واپسی کا ارادہ فرمایا اور حضرت عثمانؓ نے انہیں الوداع کیا تو انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے تجویز رکھی کہ آپﷺ بھی ان کے ساتھ شام چلے آئیں۔ وہاں کے لوگ اپنے امراءکے بہت تابع فرمان ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا لا اختار بجوار رسول اﷲ ﷺ سواہ میں حضور اکرم ﷺ کے جوار (ہمسائیگی) پر اور کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ (البدايہ و لنہایہ جلد7ص149،تاریخ ابن خلدون جلد2ص1040)
حضرت علی فرماتے ہیں من ذار رسول اﷲﷺ کان فی جوار رسول اﷲﷺ جو حضور اکرم ﷺ کے روضہ اطہر کے پاس حاضر ہو وہ اس وقت حضور اکرم ﷺ کی ہمسائیگی میں ہوتا ہے۔ زرقانی جلد 8ص304، جذب القلوب ص180)
اگر حضور اکرم ﷺ کی روح اقدس آپﷺ کے جسد اطہر سے مفارق اور بے تعلق ہوتی تو سیدنا علی ؓ اس خصوصیت کے ساتھ قرب روضہ مطہرہ کو ہمسائیگی رسول اﷲﷺ ہرگز قرار نہ دیتے۔ آپؓ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی حضرت عثمان کی طرح حضور اکرم ﷺ کو اپنے روضہ اطہر میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ علما ء اکرام حضرت علی ؓ کے اس عمل علت اس حقیقت کو قرار دیا۔ اذہو حی فی قبر يصلی فیہ ( زرقانی جلد 8ص304، شفا السقام ص173)
2. عن سعيد بن المسيب قال لم أزل اسمع الأذان والإقامة في قبر رسول الله - صلى الله عليه وسلم ايام
الحرة حتى عاد الناس
[سنن الدارمي » بَاب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِهِ، رقم الحديث: ٩٣]
ترجمه: سعید بن عبدالعزیز (رحمہ الله) بیان کرتے ہیں کہ جب واقعہ "حرہ" کا زمانہ تھا تو نبی صلے الله علیہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک نہ اذان کہی گئی اور نہ اقامت ہوئی اور سعید بن مسیب (رحمہ الله) مسجد میں ہی رہے اور نماز کا وقت ایک گنگناہٹ سے پہچانتے تھے جو نبی صلے الله علیہ وسلم کی قبر سے سنائی دیتی تھی. (خصائص كبرى ج : 2 ص : 281 الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 )
مذاہب_اربعہ اور حیات النبویہ (صلے الله علیہ وسلم):
علماء الأحناف:
يقول العلامة شرنبلالي المتوفي 1069 هـ :
‘‘ ومما هو مقرر عند المحققين انه - صلى الله عليه وسلم - حي يرزق متمتع بجميع الملاذ والعبادات غير انه احجب عن إبصار(نور الایضاح، ح١٧٧)
القاصرين عن شريف المقامات ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم ان يكثر الصلاة عليه فانه يسمعها وتبلغ اليه
مراقي الفلاح ص: 405 طبع مير محمد كراجي ).
ترجمہ:
علامہ شرنبلالی رح "نور الایضاح، ح١٧٧"(یہ کتاب دارالعلوم دیوبند کے نصب میں شامل ہے) میں فرماتے ہیں کہ "محققین کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ حضور انور زندہ ہیں اور آپ کو رزق بھی ملتا ہے اور عبادت سے لذت بھی اٹھاتے ہیں. ہاں اتنی بات ہے کہ وہ ان نگاہوں سے پردے میں ہیں جو ان مقامات تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں. (نور الایضاح، ح١٧٧)
يقول العلامة طحطاوي المتوفي 1233 هـ :
فانه يسمعها) أي إذا كانت بالقرب منه - صلى الله عليه وسلم - ( وتبلغ إليه ) أي يبلغها الملك إذا كان المصلي بعيدا ( الطحطاوي ص : 405 طبع مير محمد كراجي ).
ترجمہ:
علامہ طحطاوی رح نے فرمایا: آپ صلے الله علیہ وسلم صلاة و سلام کو اس وقت خود سنتے ہیں جب قریب سے عرض کیا جارہا ہو اور فرشتے اس وقت پہنچاتے ہے جب یہ دور سے پڑھا جارہا ہو.
علماء مالکیہ:
1. إمام مالك المتوفي 179 هـ
نقل عن الإمام مالك انه كان يكره أن يقول رجل زرت قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - قال ابن رشيد من اتباعه أن الكراهية لغلبه
الزيارة في الموتى وهو - صلى الله عليه وسلم - أحياه الله تعالى بعد موته حياة تامة واستمرت تلك الحياة وهي مستمرة في المستقبل وليس
هذا خاصة به صلى الله عليه وسلم بل يشاركه الأنبياء عليهم السلام فهو حي بالحياة الكاملة مع الإستغناء عن الغذاء الحسى الدنيوي ( نور الإيمان بزيارة آثار حبيب الرحمن ص : 14 للشيخ عبد الحليم فرنكي محلي , وكذلك في وفاء الوفاء ج :4 ص : 1373 مصر
ترجمہ : ابن_رشد امام مالک رح کے مقلدین میں سے ہیں کہ امام مالک رح کی ناپسندیدگی (کہ میں نے حضور کی "قبر" کی زیارت کی) وجہ یہ ہے کہ زیارت_قبر کا لفظ عام طور پر موتى (مردہ) کے متعلق استمعال ہوتا ہے اور حضور وفات_شریفہ کے بعد اب حیات_تامہ سے زندہ ہیں اور یہ حیات آئندہ بھی اسی طرح رہے گی. یہ صرف آپ ہی کا خاصہ نہیں بلکہ تمام انبیاء اس وصف میں آپ کے ساتھ شریک ہیں. پس آپ دنیوی حسی غذا سے استغناء (بے-پرواہی) کے باوجود حیات_کاملہ سے زندہ ہیں. [علماۓ مالکیہ سے امام قرطبی: ٥/٢٦٥، امام ابو حیات اندلسی رح - بحر المحیط : ١/٢٨٣، علامہ ابن الحاج، علامہ ابن_رشد اندلسی اور ابن_ابی-جمرہ وغیرہ]
علماء الشافعية :
1. العلامة تاج الدين السبكي المتوفي 777 هـ :
لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا ’’
(طبقات الشافغية الكبرى ج : 3 ص : 412 طبعة دار الأحياء بقاهرة )
ترجمہ:
ہم شافعیہ کے نزدیک حضور زندہ ہیں اور آپ میں احساس و شعور موجود ہے، آپ پر اعمال_امت بھی پیش ہوتے ہیں اور صلوة و سلام بھی پہچایا جاتا ہے.
* علماء الحنابلة :
* . ابن عقيل :
قال ابن عقبل من الحنابلة : هو - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره ’’ ( الروضة البهية ص : 14
ترجمہ:
حنابلہ کے مشہور بزرگ حضرت ابن_عقیل (رح) فرماتے ہیں کہ حضور صلے الله علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں.
شیخ عبد القادر جیلانی (حنبلی) رح اور حیات النبی و دعاۓ وسیلہ
آداب_زیارت بیان کرتے روضہ نبوی پر دعا میں صرف الله کو پکارتے قرآنی حکم (النساء:٦٤) کے مطابق بخشش مانگتے ہوۓ شیخ جیلانی رح فرماتے ہیں : اے الله ! میں تیرے نبی کے پاس آیا ہوں، اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی مانگتا ہوں.
پھر حدیث_ترمذی، ابن_ماجہ، نسائی، مسند احمد، المعجم الکبیر للطبرانی، مستدرک حاکم اور دلائل النبوہ للبیہقی سے ثابت دعاۓ وسیلہ فرماتے ہیں :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي
اے الله! میں تیری طرف تیرے نبی کے ذریعہ متوجہ ہوتا ہوں جو رہنت والے نبی ہیں. اے الله کے رسول! میں آپ کے ذریعہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میرا رب میرے گناہ بخش دے.
حياة النبي عليه الصلاة و السلام في القبر في ضوء الكتاب والسنة و أقوال السلف
حينما أرسل علماء العرب أسئلة عديدة الى مشائخنا الكرام وأكابرنا العظام طالبين منهم تبيين عقائدهم وتوضيح آرائهم. فأجابوا بأجوبة سديدة موافقة بالكتاب والسنة وما كان عليه السلف الصالح وقد طبعت هذه الأجوبة العالية بشكل كتابى .وأيدها جملة من كبارالعلماء من العرب والعجم وأسمائهم مذكورة فى آخرالكتاب مع آرائهم عن الكتاب .وقد كتب هذه الأجوبة القيمة سيدنا ومولانا العلامة الفهامة الفقيه المحدث المحقق الشيخ خليل أحمد ألسهارنفورى ثم المهاجر المكي أسكنه الله تعالى فى الفردوس الأعلى . وسماه بــــ = ألمهند على المفند = فرد به إفتراأت الكذابين والمتعصبين وكشف به زيغ المحرفين والماكرين فجاء الكتاب فى غاية من الروعة والإتقان وتستحق ان تكتب بماء الذهب لندرتها فى هذا الزمان ووقع الكتاب موقع الرضاء والقبول فى مشارق الأرض ومغاربها . وهذا نص السوال والجواب فى حياة الأنبياء كما فى الكتاب المهند على المفند
السؤال الخامس = ما قولكم في حياة النبيّ عليه الصلاة و السلام في قبره الشريف ؟ ذلك أمر مخصوص به أم مثل سائر المؤمنين - رحمة الله عليهم - حياته برزخية ؟
الجواب = عندنا و عند مشايخنا حضرة الرسالة صلى الله عليه و سلم حيٌّ في قبره الشريف ، و حياته صلى الله عليه و سلم دُنْيَوِيّة من غير تكليف ، و هي مختصة به صلى الله عليه و سلم و لجميع الأنبياء صلوات الله عليهم و الشهداء لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين بل لجميع الناس كما نصّ عليه العلامة السيوطي في رسالة ‘الأنباء الأذكياء بحياة الأنبياء’ حيث قال : قال الشيخ تقيّ الدين السُبْكِيّ : " حياة الأنبياء و الشهداء في القبر كحياتهم في الدنيا و يشهد له صلاةُ موسى عليه السلام في قبره فإن الصلاة تستدعي جسداً حياً " إلى آخر ما قال فثبت بهذا أن حياته دنيوية برزخية لكونها في عالم البرزخ
و لشيخنا شمس الإسلام و الدين محمد قاسم العلوم على المستفيدين قدس الله سره العزيز في هذا المبحث رسالةٌ مستقلة دقيقة المأخذ بديعة المسلك لم يُرَ مثلُها قد طبعت و شاعت في الناس و اسمها ‘ آبِحَيَاتْ ’ أي ماء الحياة
وفي ما يلي بعض الأدلة التي تنص على ذلك
أولا: حياة الأنبياء في ضوء القران الكريم
قال الله تعالى : {وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ} " سورة الزخرف "
يقول صاحب زاد الميسر في هذه الآية:انه لما اسري به جمع الأنبياء فصلى بهم , ثم قال له جبريل سل من أرسلنا قبلك الآية. فقال: لا اسأل فقد اكتفيت
رواه عطاء عن ابن عباس وهذا قول سعيد بن جبير و الزهراني و ابن زيد) قالوا : جمع له الرسل ليلة أسرى به فلقيهم
و أمر أن يسألهم فما شك وسأل ( زاد الميسر في علم التفسير ج : 7 ص : 319 ). 2. قال الله تعالى : {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ} " سورة السجدة "
يقول العلامة آلوسي - رحمه الله- في هذه الآية : و أراد بذلك لقائه صلى الله عليه وسلم إياه ليلة الإسراء كما ذكر في الصحيحين وغيرهما,
وروى نحو ذالك عن قتادة وجماعة من السلف) وكان المراد في قوله تعالى: }فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ على هذا وعده تعالى نبيه عليه السلام بلقاء موسى و تكون الآية نازلة قبل الإسراء’’ (روح المعاني ج : 21 ص :138).
ويقول صاحب زاد الميسر في هذه الآية :
والثاني من لقاء موسى عليه السلام ليلة الإسراء . ( قاله أبو العالية مجاهد قتادة و ابن السائب )’’ ( زاد الميسر ج : 6 ص : 43 ويقول صاحب تفسير بحر المحيطفي هذه الآية أي من لقائك موسى أي في ليلة الإسراء أي شاهدته حقيقة و هو النبي الذي أتي التوراة وقد وصفه الرسول فقال: طوال جعْد كأنه
من رجال شنؤة حين رآه ليلة الإسراء ( بحر المحيط ج : 7 ص : 205 ).3. قال الله تعالى : {وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ} " سورة البقرة
4. قال الله تعالى : { بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } { فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ }." سورة آل عمران يقول الحافظ ابن حجر - رحمه الله - في هذه الآيتين :
وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القران و الأنبياء أفضل من الشهداء
فتح الباري ج : 6 ص : 379 ).5. قال الله تعالى : { فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ... } " سورة سبأ ‘نستطيع الدلالة على حياة الأنبياء عليهم السلام - من قوله تعالى :{ فلما خر}.لأن لفظ (خر) استعمل في القران الكريم للأحياء
أ. قال الله تعالى : ......... { وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا } " سورة يوسف "
ب. قال الله تعالى : { فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا } " سورة الأعراف "
6. قال الله تعالى : { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا} " سورة النساء"
يقول القرطبي - رحمه الله - في هذه الآية :
عن علي - رضي الله عنه - قال قدم أعرابي بعد ما دفنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بثلاثة أيام فرمي بنفسه على قبر رسول الله
- صلى الله عليه وسلم - و حتى على رأسه من ترابه فقال: قلت يا رسول الله فسمعنا قولك ووعيت عن الله فوعينا عنك وكان فيما أنزل الله
عليك { وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ } الآية وقد ظلمت نفسي وجئتك تستعفر لي , فنودي من القبر انه قد غفر لك
( تفسير قرطبي ج : 5 ص 622,625 ).
فالأنبياء أحياءٌ في قبورهم قطعًا، وهم أولى بذلك من الشّهداء الذين ورد فيهم النّص القرآني في قوله تعالى : { وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ } بل الحياة ثابتة لجميع من فارق الدنيا ولو كفارًا، كما يدل عليه حديث أهل القليب الذي في البخاري الصحيح للإمام البخاري (5/8) طبعة دار الفكر ، وله طرق أخرى.
، وجاء في الصحيح أيضًا : أن الميت بعد دفنه يسمع قرع نعال المشيعين
، وأن الروح تنادي حامل الجنازة، وأنّه يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان، ولو سمعه لصعق في صحيح البخاري "باب الميت يسمع خفق النعال" (2/92) وفي صحيح الإمام مسلم (8/161) طبعة دار الفكر ، وهناك روايات أخرى كثيرة أعرضنا عن ذكرها خشية الإطالة .
انظر صحيح البخاري (2/87،88،103) ومسند الإمام أحمد بن حنبل (3/41،58) طبعة دار صادر وسنن الإمام النسائي (4/41) طبعة دار الفكر .
وقد رأى في ليلة الإسراء والمعراج موسى عليه السلام يصلي في قبره، كما رآه في السماء السادسة وقد راجعه مرارًا في أمر الصّلاة للرواية أطراف كثيرة منها ما في صحيح البخاري (1/91) كتاب الصّلاة باب "كيف فرضت الصّلاة في الإسراء" ، وصحيح الإمام مسلم (1/101) .
وقد وضع الامام البيهقي رح رسالة في حياة الأنبياء، وللإمام السيوطي رح أيضًا رسالة تُسَمى: "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء -أمَّا قوله تعالى : { إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ } [سورة الزمر : 30] فمعناه : أن روحك ستفارق بدنك وتدخل في عالم آخر، فلا تشتغل بتدبير الجسم، ولا تسري عليها أحكام هذا العالم ونواميسه، وإلا فقد ثبتت حياة الأموات كلهم فضلاً عن الأنبياء كما قلنا، فيكفيك فى الباب الآيات المتعددة في حياة الشهداء والإجماع على أن الأنبياء أرفع درجة من الشهداء . قال ابن حزم في "المحلى -طبعة دار الفكر (1/25)
بعد ذكره الآيات الواردة في حياة الشهداء ما نصه : "ولا خلاف بين المسلمين في أن الأنبياء -عليهم السلام- أرفع قدرًا ودرجة، وأتم فضيلة عند الله عزَّ وجل، وأعلى كرامة من كل من دونهم، ومن خالف في هذا فليس مسلمًا " اهـ
ثانيا: حياة الأنبياء في ضوء السنة النبوية :
وأما السنة : ففيها شيء كثير من الأدلة على حياتهم، فمن ذلك : الحديث (( الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون )) رواه أبو يعلى في مسنده (6/147)
والبيهقي من طرق متعددة من حديث أنس بن مالك، قال المناوي في شرح الجامع الصغير : "رجاله ثقات وصححه البيهقي" .اهـ . ومثل ذلك للحافظ السخاوي في القول البديع، ثم له طرق أخرى أخرجها البيهقي في "حياة الأنبياء ، وبها يصير من الصحيح المتفق عليه .
أنظر للتفصيل (مجمع الزوائد ج : 8 ص : 211 , لسان الميزان : حسن بن قتيبة ص : 246 , مسند أبو يعلى ج : 2 حديث 3425 , فتح الباري ج : 2 ص :
487 , المطالب العالية ج : 3 ص : 269 حديث : 3452 , , الجامع الصغير ص : 124 تكملة فتح الملهم
ج : 5 ص : 148 , بيهقي .حيات الأنبياء. ص : 3 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 , خصائص الكبرى ج : 2 ص : 281 , مسند بزار
ص : 256 ).
يقول العلامة جلال الدين السيوطي :
حيات النبي - صلى الله عليه وسلم - في قبره وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا , كما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت (به) الأخبار
الدالة على ذلك . ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 , ص : 147 , طبعة دار الكتب العلمية ).ويقول:
‘‘قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : .الأنبياء بعد ما قبضوا ردت إليهم أرواحهم , فهم أحياء عند ربهم كالشهداء. , وقال القرطبي في التذكرة
في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض , انما هو انتقال من حال إلى حال ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 ص : 149 ).
ويقول:
قال المتكلمون المحققون من أصحابنا أن النبي - صلى الله عليه وسلم - حي بعد وفاته ( الحاوي للفتاوى , ج : 2 ص : 149 ).
ويقول:
‘‘وقال الشيخ تقي الدين السبكي : حياة الأنبياء والشهداء في القبر كحياتهم في الدنيا , ويشهد على ذلك صلاة موسى في قبره فإن الصلاة
تستدعي الجسد حيا ’’ ( الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 152 ويقول:
ان من جملة ما تواتر عن النبي - صلى الله عليه وسلم - حياة الأنبياء في قبورهم ’’2. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال :قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من صلى علي عند
قبري سمعته , ومن صلى علي نائيا أبلغته ’’
( مشكاة , ص :87 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , كنز العمال ج : 1 ص :492 حديث 2165 ,ص : 498 حديث:
2197, 2198, اتحاف السادة المتقين زبيدي ج : 3 ص : 281 , تفسير در منثور ج : 5 ص : 219 , فتح الباري ج :6 ص : 488 ,
الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 147 ).
3. عن اوس بن اوس - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال : ( إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة
فيه خلق ادم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا علي من الصلاة فإن صلاتكم معروضة علي . قالو : يارسول
الله ! كيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت ؟ قال : ان الله عز وجل قد حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عليهم السلام
( سنن نسائي ج : 1 ص : 303 , 403 , مستدرك حاكم ج : 4 ص : 560 هذا الحديث صحيح بشرط الصحيحين ولم يخرجاه , ابو داود ج :1
ص : 214 باب الاستغفار , سنن الكبرى بيهقي ج : 3 ص :249 , دارمي ج : 1 ص : 7 باب فضل الجمعة , مسند أحمد ج : 4 ص : 8 ,
صحيح ابن خزيمة ج : 3 ص : 118 حديث 1733, ابن حبان باب ذكر وفاته ودفنه - صلى الله عليه وسلم - ص : 118 , الإحسان بترتيب
ابن حبان ج : 3 ص : 78 حديث 907 , كتاب الروح ابن القيم ص : 63 , كنز العمال ج :8 ص :368 حديث 23301 ايضا ج : 7 ص : 708
حديث : 21037 , ابن أبي شيبة ج :2 ص : 512 , ابن ماجة ص : 72 , 118 )4. عن ابي الدرداء رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : ( أكثروا الصلاة علي
يوم الجمعة فإنه مشهود تشهده الملائكة وان أحدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها قال قلت وبعد الموت ؟ قال : وبعد الموت إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء فنبي الله حي يرزق
ابن ماجة ص : 118 ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم, ترغيب ج : 2 ص : 503 , نيل الأوطار ج : 3 ص : 304 , شرح الصدور
ص : 316 دار الكتب العلمية ببيروت ).
5. عن ابي هريرة - رضي الله عنه - قال : سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : والذي نفس
أبى القاسم بيده ! لينزلن عيسى ابن مريم ...... ثم لئن قام على قبري فقال يا محمد ! لأجبته
هو فى الصحيح باختصار , ورواه أبو يعلى ورجاله رجال الصحيح".
( مسند أبو يعلى حديث 4856 ج : 11 ص :462 , مجمع الزوائد ج : 8 ص : 211 , المطالب العالية ج : 4 ص : 23 , باب حياته في قبره
ج :4 ص : 349 حديث : 4574 , الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , روح المعاني ج : 22 ص : 35 ).
يقول العلامة آلوسي - رحمه الله- بعد هذا الحديث :
انه عيسى علبه السلام ياخذ الأحكام من نبينا - صلى الله تعالى عليه وسلم- شفاها بعد نزوله وهو صلى الله عليه وسلم في قبره
وأيد بحديث ابو يعلى والذي نفسي بيده لينزلن عيسى ابن مريم ثم لئن قام على قبري فقال يا محمد ! لأجبته .’ ( روح المعاني ج :22 ص : 35 6. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم - يقول : وصلوا علي
فان صلاتكم تبلغني أينما كنتم ( مسند أحمد ج2 : ص 364 , أبو داود ج : 1 ص : 280) 7. عن انس بن مالك - رضي الله عنه - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال : مررت على موسى
ليلة أسري بي عند الكثيب الأحمر , وهو قائم يصلي في قبره ( صحيح مسلم ج : 2 ص : 268 طبعة رحيمية ديوبند , .مسند أحمد ج : 5 ص : 59 , 362 , 365 , . ج : 3 ص : 148 , 248 , سنن النسائي
ج : 1 ص : 242 , كنز العمال ج : 11 ص : 518 , حديث 32386 , الإحسان بترتيب صحيح ابن حبان ج : 1 ص : 216 , طبعة المكتبة
الأثرية بباكستان ). 8. عن ابن مسعود - رضي الله عنه - قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : إن لله ملائكة سياحين
في الأرض يبلغوني عن أمتي السلام
(نسائي ج : 1 ص : 189 , مسند أحمد ج : 1 ص : 441 , ابن أبي شيبة ج : 2 ص : 517 , مشكاة ص : 86 , التداية والنهاية ج : 1 ص
: 154 , الجامع الصغير ج : 1 ص : 93 ,خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , الإحسان بترتيب ابن حبان ج : 3 ص : 8 حديث 9 , 10 , ).
9 . عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول : وصلوا علي
فان صلاتكم تبلغني حيث كنتم (مسند أحمد ج : 2 ص : 367 , أبو داود ج : 1 ص : 279 , خصائص كبرى ج : 2 ص : 280 , مشكاة ص : 84 ,
فتح الباري ج : 6 ص : 488 ).
ثالثا: آثار الصحابة في حياة الأنبياء
1. وعن عائشة - رضي الله عنها - قالت : كنت ادخل بيتي الذي فيه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - واني
واضع ثوبي وأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر - رضي الله عنه - معهم فو الله ما دخلته الا وانا مشدودة
على ثيابي حياء من عمر
مشكاة ص : 154 ) قيل في هذا الحديث في حاشية المشكاة :
حياء من عمر أوضح دليل على حياة الميت ’’ ( حاشية المشكاة ص : 154 يقول العلامة الطيبي شارح المشكاة في هذا الحديث :
قال الطيبي فيه أن احترام الميت كاحترامه حيا (شرح الطيبي ج : 3 ص : 418 طبعة إدارة القران
2. عن سعيد بن المسيب قال لم أزل اسمع الأذان والإقامة في قبر رسول الله - صلى الله عليه وسلم ايام
الحرة حتى عاد الناس
(خصائص كبرى ج : 2 ص : 281 الحاوي للفتاوى ج : 2 ص : 148 )
يقول العلامة شبير احمد عثماني في هذا الحديث :
أن النبي - صلى الله عليه وسلم - حي كما تقرر وانه يصلي في قبره بأذان وإقامة (فتح الملهم ج 3:
Last edited by Hafiz M Khan; 07-05-2010 at 02:08 PM.
رابعا: المذاهب الأربعة وحياة النبي - صلى الله عليه وسلم - في القبر :
* علماء الأحناف:
1. يقول العلامة ابن همام المتوفى 681 هـ :‘‘ تستقبل القبر بوجهك , ثم تقول السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته ثم يسال النبي الشفاعة فيقول يا رسول الله ! أسألك الشفاعة
يا رسول الله ! أسألك الشفاعة. وليكثر دعائه بذلك في الروضة الشريفة عقيب الصلاة وعند القبر ويجتهد في خروج
الدمع فانه من أمارات القبول , وينبغي أن يتصدق بشيء على جيران النبي , ثم ينصرف متباكيا
( فتح القدير ج : 2 ص : 336 , 337 , 339 , أواخر الحج )
2. يقول العلامة عيني شارح البخاري الحنفي المتوفي 855هـ :
ومذهب أهل السنة والجماعة أن في القبر حياة وموتا فلا بد من ذوق الموتتين لكل احد غير الأنبياء ’’
عمدة القاري شرح البخاري ج : 7 ص : 601 ) ويقول : في تفسير الآية : { قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ ...{ . " سورة غافر
أراد بالموتتين الموت في الدنيا والموت في القبر وهما
الموتتان المعروفتان المشهورتان فلذالك ذكرهما بالتعريف وهما الموتتان الواقعتان لكل احد غير الأنبياء عليه السلام فإنهم لايموتون
في قبورهم بل هم أحياء , وأما سائر الخلق فإنهم يموتون ثم يحيون يوم القيامة (عمدة القاري شرح البخاري ج : 8 ص : 185 جزء : 16, باب فضيلة ابي بكر على سائر الصحابة طبعة دار الفكر ببيروت ).ويقول :
من أنكر الحياة في القبر وهم المعتزلة ومن نحا نحوهم وأجاب أهل السنة عن ذلك
( عمدة القاري شرح البخاري ج : 8 ص : 601 ).
3. يقول العلامة ملا علي قاري المتوفي 1014هـ :
‘‘ فمن المعتقد المعتمد أنه صلى الله عليه وسلم حي في قبره كسائر الأنبياء في قبورهم وهم أحياء عند ربهم وأن لأرواحهم تعلقا
بالعالم العلوي والسفلي كما كان في الحال الدنيوي فهم بحسب القلب عرشيون وباعتبار القالب فرشيون ويقول :
"أن الأنبياء أحياء في قبورهم فيمكن لهم سماع صلاة من صلى عليهم"
4. يقول العلامة شرنبلالي المتوفي 1069 هـ :
‘‘ ومما هو مقرر عند المحققين انه - صلى الله عليه وسلم - حي يرزق متمتع بجميع الملاذ والعبادات غير انه احجب عن إبصار
القاصرين عن شريف المقامات ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم ان يكثر الصلاة عليه فانه يسمعها وتبلغ اليه
مراقي الفلاح ص: 405 طبع مير محمد كراجي ).5. يقول العلامة طحطاوي المتوفي 1233 هـ :
فانه يسمعها) أي إذا كانت بالقرب منه - صلى الله عليه وسلم - ( وتبلغ إليه ) أي يبلغها الملك إذا كان المصلي بعيدا ( الطحطاوي ص : 405 طبع مير محمد كراجي ).6. يقول العلامة ابن عابدين الشامي المتوفي 1252 هـ :
فقد أفاد في الدار المنتقي انه خلاف الإجماع قلت ما نسب إلى الإمام الأشعري إمام أهل السنة والجماعة من إنكار ثبوتها بعد الموت
فهو افتراء وبهتان والمصرح به في كتبه وكتب أصحابه خلاف ما نسب إليه بعض أعدائه لان الأنبياء عليهم الصلاة و السلام أحياء في
قبورهم وقد أقام النكير على افتراء ذالك , الإمام العارف أبو القاسم القشيري (رد المختار ج : 4 باب المغنم ص : 151 طبعة فى كراتشي ).ويقول :
‘‘ أن المنع هنا لانتفاء الشرط وهو إما عدم وجود الوارث بصفة الوراثية كما اقتضاه الحديث وأما عدم موت الوارث بناء على أن
الأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث (رسائل بن عابدين ج :2 ص :202 طبعة سهيل اكيدمي لاهور ).ويقول الأنبياء أحياء في قبورهم كما ورد في الحديث7. العلامة محمد عابد السندي المتوفي 1257 هـ :
أما هم ( أي الأنبياء ) فحياتهم لاشك فيها ولا خلاف لأحد من العلماء في ذالك فهو - صلى الله عليه وسلم - حي على الدوام ( رسالة مدنية ص : 41
8. الشيخ عبد الحق محدث دهلوي المتوفي 1052 هـ :
يقول حياة الأنبياء متفق عليه آست ھیچ کس را دروى خلافي نيست ( أشعة اللمعات ج : 1 ص : 613 , طبعة نور كشور
معناه :
‘‘ حياة الأنبياء مسألة متفق عليها , ولا يقول ( أحد من أهل العلم ) خلاف ذلك
* علماء الحنابلة :
* . ابن عقيل :
قال ابن عقبل من الحنابلة : هو - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره ’’ ( الروضة البهية ص : 14
علماء المالكيه
1. إمام مالك المتوفي 179 هـ
نقل عن الإمام مالك انه كان يكره أن يقول رجل زرت قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - قال ابن رشيد من اتباعه أن الكراهية لغلبه
الزيارة في الموتى وهو - صلى الله عليه وسلم - أحياه الله تعالى بعد موته حياة تامة واستمرت تلك الحياة وهي مستمرة في المستقبل وليس
هذا خاصة به صلى الله عليه وسلم بل يشاركه الأنبياء عليهم السلام فهو حي بالحياة الكاملة مع الإستغناء عن الغذاء الحسى الدنيوي ( نور الإيمان بزيارة آثار حبيب الرحمن ص : 14 للشيخ عبد الحليم فرنكي محلي , وكذلك في وفاء الوفاء ج :4 ص : 1373 مصر
2 . العلامة سمهدي المتوفي 911 هـ
لاشك في حياته - صلى الله عليه وسلم - بعد وفاته وكذا سائر الأنبياء - عليهم الصلاة والسلام - احياء في قبورهم اكمل من حياة الشهداء التي
اخبر الله تعالى بها في كتابه العزيز (وفاء الوفاء ج : 4 ص : 1352 طبعة دار الكتب العلمية ببيروت ويقول :
وما أدلة حياة الأنبياء فمقتضاها حياة الأبدان كحالة الدنيا مع الإستغناء عن الغذاء ( وفاء الوفاء ج : 4 ص : 1355
علماء الشافعية :
1. العلامة تاج الدين السبكي المتوفي 777 هـ :
‘‘ عن انس قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون , فإذا ثبت أن نبينا - صلى الله عليه وسلم - حي
فالحي لابد من أن يكون إما عالما أو جاهلا ولا يجوز أن يكون النبي - صلى الله عليه وسلم - جاهلا ’’
( طبقات الشافغية الكبرى ج : 3 ص : 411 طبعة دار الأحياء بقاهرة ).
ويقول :
لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا ’’
(ج : 3 ص : 412 ).
ويقول :
ومن عقائدنا أن الأنبياء عليهم السلام احياء في قبورهم فأين الموت ؟ إلى أن قال: صنف البيهقي - رحمه الله - جزأ , سمعناه في
حياة الأنبياء عليهم السلام في قبورهم ’ واشتد نكير الإشاعرة على من نسب هذا القول الى الشيخ (طبقات ج : 3 ص : 384 , 385 ).
ـ 2 ألحافظ ابن حجر المتوفي 852هـ :
تمسك بهذا من انكر الحياة في القبر , اجيب عن أهل السنة والأحسن أن يقال أن حياته صلى الله عليه وسلم - في قبره لا يعقبها موت
بل يستمر حيا والأنبياء أحياء في قبورهم
( فتح الباري ج : 7 ص : 22 طبعة مصر ).
ويقول :
وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فانه يقوه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء ( فتح الباري ج : 7 ص : 488 طبعة دار النشر الإسلامية لاهور
خامسا: حياة الأنبياء والسلف الصالح :
1. إمام عبد القادر البغدادي المتوفي 429 هـ : واجمعوا على أن الحياة شرط في العلم والقدرة والإرادة والرؤية والسمع , وأن من ليس بحي لا يصح أن يكون عالما قادرا مريدا سامعا
مبصرا , وهذا خلاف قول الصالحي وأتباعه من القدرية في دعواهم جواز وجود العلم والقدرة والإرادة والرؤية الإرادة في الميت
( الفرق بين الفرق ص : 337 , طبعة مصر ).
2. ألإمام البيهقى المتوفي 458 هـ : أن الله جل ثنائه رد إلى الأنبياء أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء
( حياة الأنبياء ص : 14 , وفاء الوفاء ج : 2 ص : 1352 , شرح مواهب زرقاني ج : 5 ص : 332 ).
3. إمام شمس الدين محمد السخاوي المتوفي 902 هـ :
نحن نؤمن ونصدق بأنه صلى الله عليه وسلم - حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا ( القول البديع ص : 172 ,طبعة دار الكتب العربي 4. العلامة عبد الوهاب ألشعراني المتوفي 973 هـ :
قد صحت الأحاديث انه - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره يصلي بأذان واقامة ( منح المنة ص : 92 , طبعة مصر
5. عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب النجدي المتوفي 1206 هـ :
والذي نعتقد ان رتبة نبينا - صلى الله عليه وسلم -أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق و انه حي في قبره حياة مستقرة ابلغ من حياة
الشهداء المنصوص عليها في التنزيل إذ هو أفضل منهم بلا ريب , وانه يسمع من يسلم عليه
( اتحاف النبلاء ص : 415 , طبعة كانبور ).
6. العلامة قاضي الشوكاني المتوفي 1255 هـ :
وقد ذهب جماعة من المحققين إلى أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حي بعد وفاته وانه يسر بطاعات أمته وان الأنبياء لا يبلون
مع أن مطلق الإدراك كالعلم والسماع ثابت بسائر الموتى إلى أن قال وورد النص في كتاب الله فى حق الشهداء أنهم أحياء يرزقون وان الحياة
فيهم متعلقة بالجسد فكيف بالأنبياء والمرسلين وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم رواه المنذرى وصححه البيهقي وفي صحيح
مسلم عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال مررت بموسى ليلة اسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره نيل الأوطار ج :3 ص : 305 طبعة دار الفكر ببيروت
الإمام ابن تيمية يثبت حياة الأنبياء والصالحين في قبورهم
قال الشيخ ابن تيمية كما في مجموع الفتاوى (1/330):
"وكذلك الأنبياء والصالحون وان كانوا أحياء في قبورهم وان قدر انهم يدعون للأحياء وان وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ولم يفعل ذلك أحد من السلف لأن ذلك ذريعة إلى الشرك بهم وعبادتهم من دون الله تعالى بخلاف الطلب من أحدهم في حياته فانه لا يفضى إلى الشرك"ا.هـ
وقال أيضا كما في مجموع الفتاوى (27/502):
"فهذه نصوصه الصريحة-أي النبي صلى الله عليه وسلم- توجب تحريم إتخاذ قبورهم مساجد مع أنهم مدفونون فيها وهم أحياء في قبورهم ويستحب إتيان قبورهم للسلام عليهم ومع هذا يحرم إتيانها للصلاة عندها وإتخاذها مساجد"ا.هـ
وقد اثبت ابن تيمية رحمه الله ماهو اشد من هذا فقال :
تلميذه ابن مفلح في كتاب الفروع (2/235):
قال شيخنا - اي ابن تيمية- استفاضت الآثار بمعرفته-أي الميت- بأحوال أهله وأصحابه في الدنيا وأن ذلك يعرض عليه وجاءت الآثار بأنه يرى أيضا وبأنه يدري بما يفعل عنده ويسر بما كان حسنا ويتألم بما كان قبيحا اهـ وقد نص كثير من الأئمة والحفاظ كالقرطبي في " التذكرة " ، وابن القيم في كتاب الروح" والحافظ السيوطي في غير ما كتاب من كتبه، على أن أحاديث حياة الأنبياء في قبورهم متواترة - ذكر الإمام محمد بن جعفر الكتاني هذا الحديث -اى الحديث الإسراء ضمن الأحاديث المتواترة في كتابه "نظم المتناثر" برقم 115 وص(126) طبعة دار السلفية وص(135) طبعة دار الكتب العلمية .
قال السيوطي في "مرقاة الصعود" : تواترت بها الأخبار، وقال في "إنباء الأذكياء بحياة الأنبياء" ما نصه : حياة النبي في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علمًا قطعيًّا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار الدالة على ذلك". اهـ
وقال ابن القيم في كتاب " الروح " نقلاً عن أبي عبدالله القرطبي : صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الأرض لا تأكل أجسام الأنبياء، وأنه اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء، خصوصًا بموسى، وقد أخبره بأنه ما من مسلم يسلم عليه إلاَّ رَدَّ عليه السلام .. إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أنهم غيبوا عنا بحيث لا نراهم وإن كانوا موجودين أحياء، وذلك كالحال في الملائكة، فإنهم أحياءٌ موجودون ولا نراهم وقد نقل كلام القرطبي هذا أيضًا، وأقره الشيخ محمد السفاريني الحنبلي في شرحه لعقيدة أهل السنة، ونص عبارته : قال أبو عبدالله القرطبي، قال شيخنا أحمد بن عمر : إن الموت ليس بعدم محض و إنما هو انتقال من حال إلى حال، و يدل على ذلك أن الشهداء بعد موتهم وقتلهم أحياء عند ربهم يرزقون فرحين مستبشرين، وهذه صفة الأحياء في الدنيا، وإذا كان هذا في غير الأنبياء، كان الأنبياء بذلك أحق وأولى، مع أنه قد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم : أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء، وأنه اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء، وخصوصاً بموسى عليه وعليهم السلام، وقد أخبر نبينا صلى الله عليه وسلم : أنه ما من مسلم يسلم عليه إلاّ رَدَّ عليه السلام... إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أنهم غيبوا عنا بحيث لا ندركهم، وإن كانوا موجودين أحياء، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء و لا نراهم . اهـ.
ويحقق ما ذكره هؤلاء الأئمة من تواتر الأحاديث الدالة على حياة الأنبياء أن حديث عرض الأعمال عليه واستغفاره لأمته، وسلامه على من يسلم عليه، ورد من نحو عشرين طريقًا، وحديث الإسراء، ورد من طريق خمسة وأربعين صحابيًّا، وقد نص الحاكم والحافظ السيوطي على أن حديث الإسراء متواتر .
فنحن نؤمن أنه صلى الله عليه وسلم حي يرزق في قبره، وأن جسده الشريف لا تأكله الأرض، والإجماع على هذا، وزاد بعض العلماء "الشهداء والمؤذنين" . وقد صح أنه كشف عن غير واحد من العلماء والشهداء فوجدوا أنهم لم تتغير أجسامهم، والأنبياء أفضل من الشهداء .
وفى هذاالقدر كفاية لمن أراد الهداية ـ
أللهم ارزقنا طاعتك وطاعة رسولك صلى الله عليه وسلم وعملا بكتابك
ماورد في حياة الانبياء
بسم الله الرحمن الرحيم
أخبرنا الشيخ الإمام زين الإسلام أبو النصر عبدالرحيم بن عبدالكريم بن هوازن القيشيري رضي الله عنه في كتابه إلينا من نيسابور قال أخبرنا الشيخ الإمام أبوبكر أحمد بن الحسين البيقي رحمه الله قراءة عليه وأنا أسمع في ربيع الآخر سنة خمس وأربعين وأربعمائة.
وأخبرنا الشيخ الإمام الحافظ أبوبكر محمد بن عبدالله بن حبيب العامري أيده الله قال: أخبرنا شيخ القضاة أبو علي إسماعيل بن أحمد بن الحسين البيهقي فيما قرأت عليه قال: أخبرنا الإمام والدي شيخ السنّة رحمه الله قال: الحمد لله رب العالمين والعاقبة للمتقين وصلواته على محمد وآله أجمعين.
ذكر ما روي في حياة الأنبياء صلوات الله عليهم بعد وفاتهم أخبرنا أبو سعد أحمد بن محمد بن خليل الصوفي رحمه الله قال: أخبرنا أبو أحمد عبدالله بن عدي الحافظ قال: حدّثنا بن عبد الله الرومي قال: حدّثنا الحسن بن عرفة قال: حدّثني الحسن بن قتيبة المدائني قال: نا المستلم بن سعيد الثقفي عن الحجاج الأسود عن ثابت البناني عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا حديث يعد في أفراد الحسن بن قتيبة المدائني وقد رُوِيَ عن يحيى بن أبي بكير عن المستلم بن سعيد وهو فيما.
أخبرنا الثِّقة من أهل العلم قال: ابنا أبو عمرون بن حمدان قالك ابنا أبو يعلى الموصلي ثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ثنا يحيى بن أبي بكير ثنا المستلم بن سعيد عن الحجاج عن ثابت عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (الأنبياء أحياءٌ في قبورهم يصلّون).
وقد روي من وجه آخر عن أنس بن مالك موقوفًا.
أخبرناه أبو أبو عثمان الإمام رحمه الله ابنا زاهر بن أحمد ثنا أبو جعفر محمد بن معاذ المالينيى نا الحسين بن الحسن نا مؤمل ثنا عبيد الله بن أبي حميد الهذلي عن أبي المليح عن أنس بن مالك قال: (الأنبياء في قبورهم أحياءٌ يصلّون).
ورُوِيَ كما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ نا أبو حامد أحمد بن علي الحسنوي إملاءً ثنا أبو عبد الله محمد بن العباس الحمصي (بحمص) ثنا أبو الربيع الزهراني ثنا إسماعيل بن طلحة بن يزيد عن محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن ثابت عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (الأنبياء لا يتركون في قبورهم بعد أربعين ليلة ولكنهم يصلّون بين يدي الله عز وجل حتى ينفح في الصور).
وهذا إن صح بهذا اللفظ فالمراد به والله أعلم لا يَتركون يصلّون إلا هذا المقدار ثم يكونون مصلّين فيها بين يدي الله عز وجل كما روينا في الحديث الاول.
وقد يحتمل أن يكون المراد به رفع أجسادهم مع أرواحهم.
فقد روي سفيان الثوري في الجامع فقال: قال شيخ لنا عن سعيد بن المصيب قال: ما مكث نبي في قبر أكثر من أربعين ليلة حتى يرفع.
فعلى هذا يصيرون كسائر الأحياء يكونون حيثُ ينزلهم الله عز وجل كما روينا في حديث المعراج وغيره أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى موسى عليه السلام قائما يصلّى في قبره ثم رأه مع سائر الأنبياء عليهم السلام في بيت المقدس ثم رأهم في السموات والله تبارك وتعالى فعّال لما يريد.
ولحياة الأنبياء بعد موتهم صلوات اله عليهم شواهد من الأحاديث الصحيحة منها أخبرنا أبوالحسين عل بن محمد بن عبدالله بن بشران ببغداد ابنا إسماعيل بن محمد الصفار ثنا محمد بن عبدالملك الدقيقي نا يزيد بن هرون ثنا سليمان التيمى عن أنس بن مالك أن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به مرّ على وأخبرنا أبو الحسين بن بشران ابنا إسماعيل ثنا أحمد بن منصور بن سيار الرمادي ثنا يزيد بن أبي حكيم ثنا سفيان يعني الثوري ثنا سليمان التيمي عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (مررت على موسى وهو قائم يصلّي في قبره).
أخبرنا أبو عبدالله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا محمد بن عبيدالله بن المنادي ثنا يونس بن محمد المؤدّب ثنا حماد بن سلمة ثنا سليمان التيمي وثابت البناني عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (أتيت على موسى ليلة أُسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلّي في قبره).
أخرجه مسلم بن الحجاج النيسابوري رحمه الله من حديث حماد بن سلمة وأخرجه من حديث الثوري وعيسى بن يونس وجرير بن عبدالحميد التيميى.
أخبرنا أحمد بن (الحسن بن علي) الحَرَشِي ابنا ابنا حاجب بن أحمد ثنا محمد بن يحيى ثنا أحمد بن خالد الوهبي ثنا عبدالعزيز بن أبي سلمة بن عبدالله بن الفضل الهاشمي عن أبي سلمة بن عبدالرحمن عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لقد رأيتني في الحِجْر وأنا أخبر قريشًا عن مَسراي فسألوني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربًا ما كربتُ مثله قطّ فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به وقد رأيتني في جماعة من الأنبياء فإذا موسى قائم يصلّي فإذا رجل ضَربٌ جَعْدٌ كأنه من رجال شنوءَة وإذا عيسى ابن مريم قائم يصلّي أقرب الناس به شبهًا عروة بن مسعود الثقفي وإذا إبراهيم قائم يصلّي أشبه الناس به صاحبكم - يعني نفسه - فحانت الصلاد فأممتهم فلما فرغت من الصلاة قال لي قائل: يا محمد هذا مالك صاحب النار فسِلِّم عليه فالتفت إليه فبدأني بالسلام).
أخرجه مسلم في الصحيح من حديث عبد العزيز.
وفي حديث سعيد بن المسيب وغيره أنه لقيهم في مسجد بيت المقدس وفي حديث أبي ذر ومالك بن صعصعة في (قصة) المعراج أنه لقيهم في جماعة من الأنبياء في السماوات وكلّمهم وكلّموه وكل ذلك لا يخالف بعضه بعضًا فقد يرى موسى عليه السلام قائمًا يصلّي في قبره ثم يُسرى بموسى وغيره إلى بيت المقدس كما أُسري بنبيّنا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيه ثم يُعرج بهم إلى السماوات كما عُرج بنبيّنا صلى الله عليه وسلم فيراهم فيها كما أخبر وحلولهم في أوقات بمواضع مختلفات جائر في العقل كما ورد في خبر الصادق وفي كل ذلك دلالة على حياتهم.
ومما يدل على ذلك ما أخبرنا محمد بن عبدالله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا أبو جعفر أحمد بن عبدالحميد الحارثي ثنا الحسين بن علي الجعفي ثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن الثقفي قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأكثروا عليَّ من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة عليَّ).
قالوا وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت - يقولون بليت - فقال: (إن الله قد حرَّم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء عليهم السلام).
أخرجه أبو داود السجستاني في كتاب السنن.
وله شواهد منها ما أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبوبكر بن إسحاق الفقيه ابنا أحمد بن علي الأبّار أحمد بن عبدالرحمن بن بكار الدمشقي ثنا الوليد بن مسلم ثني ابورافع عن سعيد المقبري عن أبي مسعود الأنصاري عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (أكثروا الصلاد عليَّ في يوم الجمعة فإنه ليس يصلّي عليَّ أحد يوم الجمعة إلا عرضت عليَّ صلاته).
وأخبرنا عليّ بن أحمد بن عبدان الكاتب ثنا أحمد بن عبيد الصفار ثنا الحسن بن سعيد ثنا إبراهيم بن الحجاج ثنا حماد بن سلمة عن برد بن سنان عن مكحول الشامي عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أكثروا عليَّ من الصلاة في كل يوم جمعة فإن صلاة أمتي تعرض عليَّ في كل يوم جمعة فَمن كان أكثرهم عليّ صلاة كان أقربهم منّي منزلة).
وأخبرنا أبو (الحسن) علي بن محمد بن علي السَّقا الإسفرايني قال: حدّثني والدي أبو علي ثنا أبو رافع أسامة بن علي بن سعيد الرازي بمصر ثنا محمد بن إسماعيل بن سلام الصائغ حدّثتنا حكّامة بنت عثمان بن دينار أخي مالك بن دينار قالت حدّثني أبي عثمان بن دينار عن أخيه مالك بن دينار عن أنس بن مالك خادم النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال النبيى صلى الله عليه وسلم:(إن أقربكم منّي يوم القيامة في كل موطن أكثركم عليَّ صلاة في الدينا مَن صلّى عليَّ في يوم الجمعة وليلة الجمعة قضى الله له مائة حاجة سبعين من حوائج الآخرة وثلاثين من حوائج الدينا ثم يوكل الله بذلك مَلَكًا يدخله في قبري كما تدخل عليكم الهديا يخبرني مَن صلّى عليَّ باسمه ونسبه إلى عشيرته فأثبته في صحيفة بيضاء).
وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد الروذباري ابنا أبوبكر بن داسه ثنا أبو داود ثنا أحمد بن صالح قال: قرأت على عبدالله بن نافع قال: أخبرني ابن أبي ذئب عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا تجعلوا بيوتكم قبورًا ولا تجعلوا قبري عيدًا وصلّوا عليَّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم).
وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو محمد عبدالله بن يحيى بن عبدالجبار السكري ببغداد ثنا إسماعيل بن محمد الصفّار ثنا عباس بن عبدالله الترقفي ثنا أبو عبدالرحمن المقرئ ثنا حيوة بن شريح عن أبي صخر عن يزيد بن عبدالله بن قسيط عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (ما من أحد يسلِّم عليَّ إلا ردّ الله إليَّ روحي حتى أردّ عليه السلام).
(وإنما أراد - والله أعلم - إلا وقد ردَّ الله إليَّ روحي حتى أردَّ عليه السلام).
وفي هذا المعنى الحديث الذي أخبرنا أبو القاسم علي بن (الحسين) بن عليّ الطهماني (ثنا أبو الحسين) ثنا أبو الحسن محمد الكارزي ثنا علي بن عبدالعزيز ثنا أبو نعيم ثنا سفيان عن عبدالله بن السائب عن زاذان عن عبدالله بن مسعود قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن لله عز وجل ملائكة سيّاحين في الأرض يُيلِّقوني عن أمتي السلام).
وأخبرنا أبو الحسين بن بشران وأبو القاسم عبدالرحمن بن عبيدالله الحرفي قالا أخبرنا حمزة بن محمد بن العباس ثنا أحمد بن الوليد ثنا (أبو) أحمد الزبيري ثنا إسرائيل عن أبي يحيى عن مجاهد عن ابن عباس قال: ليس أحد من أمة محمد صلى الله عليه وسلم إلا وهي تبلغه يقول الملك: فلان يصلّي عليك كذا وكذا صلاة.
أخبرنا علي بن محمد بن بشران ابنا أبوجعفر الرزاز أنا عيسى بن عبدالله الطيالسي ثنا العلاء بن عمرو الحنفي ثنا أبو عبدالرحمن عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (مَن صلّى عليَّ عند قبري سمعته ومَن صلّى عليَّ نائِيًا منه أُبلغته).
أبو عبدالرحمن هذا هو محمد بن مروان السُّدي فيما أرى وفيه ونظر وقد مضى ما يؤكده.
وأخبرنا أبو عبدالله الحافظ أنا أبو عبدالله الصفّار ثنا أبوبكر بن أبي الدنيا حدّثني سويد بن سعيد حدّثني ابن أبي الرجال عن سليمان بن سحيم قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في النوم فقلت: يا رسول الله هؤلاء الذين يأتونكم فيسلّمون عليكم أتفقه سلامهم قال: (نعم وأردُّ عليهم).
ما أخبرنا محمد بن عبداله الحافظ أخبرني أبومحمد المزني ثنا عليّ بن محمد بن عيسى ثنا أبو اليمان أنا شعيب عن الزهري قال: أخبرني أبو سلمة بن عبدالرحمن وسعيد بن المسيب أن أبا هريرة قال: إستبَّ رجل من المسلمين ورجل من اليهود فقال المسلم: والذي اصطفى محمدا على العالمين وأقسم بقَسَم.
فقال اليهودي: والذي اصطفى موسى على العالمين فرفع المسلم عند ذلك يده فلطم اليهوديَّ فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بالذي كان من أمره وأمر المسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (لا تُخيِّروني على موسى فإن الناس يُصعَقون فأكون أوّل مَن يُفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري كان ممّن صعق فأفاق قبلي أو كان ممّن استنثى الله عز وجل).
رواه البخاري في الصحيح عن أبي اليمان.
وفي الحديث الثابت عن الأعرج عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: )لا تٌفَضِّلوا بين الأنبياء فإنه ينفخ في الصور فيُصعق من في السماوات ومَن في الأرض إلا مَن شاء الله.
ثم ينفح فيه أخرى فأكون أوّل مَن بعث أو في أول مَن بعث فإذا موسى آخذ بالعرض فلا أدري (أحُوسب بصعقة يوم الطور أم بعث قبلي).
وهذا إنما يصحّ على أن الله جلّ ثناؤه ردّ (إلى) الأنبياء عليهم السلام أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء فإذا نفخن في الصور النفخة الأولى صعقوا فيمن صعق ثم لا يكون ذلك موتًا في جميع معانيه إلا في ذهاب الاستشعار فإن كان موسى عليه السلام فيمن استنثى الله عز وجل بقوله: (إلا مَن شاء الله) فإنه عزّ وجل يُذهب باستشعاره في تلك الحالة ويحاسبه بصعقة يوم الطور.
ويقال إن الشهداء من جملة مَن استنثى الله عز وجل بقوله: (إلا مَن شاءَ اللَه).
ورُوينا فيه خبرًا مرفوعًا وهو مذكور مع سائر ما قيل في كتاب البعث والنشور وبالله تعالى التوفيق.
اعتراض : مسند احمد، سنن ابو داود اور شعب الایمان للبیہقی کی حدیث میں ہے کہ : جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا، الله تعالیٰ میری روح کو میرے جسم کی طرف لوٹادے گا ، یہاں تک کہ میں اس حال میں اس کے سلام کا جواب دوں گا.
امام سیوطی یہ جواب دیتے ہیں : اس میں شک نہیں کہ بظاہر اس حدیث میں یہ پایا جاتا ہے کہ آپ کی روح اقدس بعض اوقات جسم اطہر سے مفارقت کرتی ہے اور یہ مضمون احادیث مندرجہ بالا کے خلاف ہوتا ہے لیکن میں نے اس میں غور و فکر کی تو مجھے اس کے کی جواب سوجھے جو حسب ذیل ہیں :
(َ١) سب سے ضعیف یہ ہے راوی کو حدیث کے کسی لفظ میں وہم ہوگیا ہے جس سے یہ اشکال پیدا ہوا ہے چنانچہ علماء نے بہت سی حدیثوں میں ایسا ہی دو کیا ہے لیکن چونکہ اصل اس کے خلاف ہے اس لئے یہ دعوا قابل اعتماد نہیں ہو سکتا.
(٢) سب سے قوی جواب جس کو صرف وہ شخص جان سکتا ہے جس کو عربیت میں کامل دستگاہ ہو کہ جملہ "رد الله" جملہ حالیہ ہے اور قاعدہ عربیت یہ ہے کہ جب فعل ماضی حال واقع ہوتا ہے تو اس میں لفظ "قد" مقدر مانا جاتا ہے، جیسے آیت : أَو جاءوكُم حَصِرَت صُدورُهُم {4:90} میں مقدر مانا گیا ہے یعنی "قد حَصِرَت" ، پس اسی طرح حدیث کے اس جملہ میں بھی "قد" مقدر مانا جاۓ گا یعنی "قد رد الله" اور چونکہ جملہ ماضی ہے اس لئے اس سلام کا وقوع اس سلیم سے مقدم ہوگا جو ہر شخص سے صادر ہوتا ہے اور لفظ "حتیٰ" اس حدیث میں تعليليه نہیں ہے، بلکہ مجرد حرف عطف ہے واؤ کے معنی میں. پس اس تقدیم پر حدیث مذکور کا مفھوم یہ ہوا کہ : "ہر ایک شخص کا مجھ پر سلیم بھیجنا اس حالت میں ہوگا کہ اس کے قبل الله تعالیٰ کی طرف سے میری روح میرے جسم میں واپس آچکی ہوگی اور میں اس کے سلام کا جواب دوں گا".
ہماری اس تقریر سے اشکال کا بالکلیہ استیصال ہوجاتا ہے کیونکہ اشکال مذکور صرف اس خیال سے پیدا ہوا تھا کہ جملہ "رد الله" حال یا استقبال کے معنی میں لیا گیا ہے ، اور لفظ "حتیٰ" تعلیلیہ مانا گیا ، اور جب ان دونوں نظموں میں تاویل کردی گئی ہے تو صحیح معنی نکل آیا.
ہماری تقریر کی تائید اس معنوی حیثیت سے بھی ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر لفظ "رد" حال یا استقبال کے معنی میں لیا جاۓ تو سلام کی تکرار سے "رد" کی تکرار سے مفارقت روح کی تکرار لازم آۓ گی اور تکرار مفارقت سے کی محذور لازم آئیں گے.
اول : یہ کہ روح کے بار بار نکلنے سے جسد اطہر کو اذیت ہوگی تو ایک قسم کی ایسی بات پائی جاۓ گی جو تعظیم و تکریم کے خلاف ہے.
دوم : یہ امر شہداء وغیرہ کی شان کی خلاف ہے کیونکہ ان میں سے کسی کے لئے یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس کی روح عالم برزخ میں بار بار نکلتی اور عود (لوٹنا) کرتی ہے تو پھر جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جن کا رتبہ سب سے اعلیٰ ہے بدرجہ اولیٰ اس کی سزاوار (لائق) ہے کہ آپ کی روح اقدس ہمیشہ جسد اطہر میں باقی رہے.
سوم : یہ کہ یہ بات قرآن مجید کے خلاف ہے اس لئے کہ قرآن سے صرف دو موت اور دو حیات کا پتہ چلتا ہے [أَمَتَّنَا اثنَتَينِ وَأَحيَيتَنَا اثنَتَينِ {40:11}] ، اور تکرار بہت سی موت اور حیات کو مستلزم ہے اور یہ باطل ہے.
چہارم : یہ کہ یہ امر احادیث متواترہ مذکورہ بالا کے خلاف ہے اور جو امر قرآن مجید اور متواتر حدیث کے خلاف ہو اس کی تاویل (تطبیق) واجب ہے اور اگر اس میں تاویل کی صلاحیت نہ ہو تو وہ باطل ہے. لہذا واجب ہوا کہ حدیث مذکورہ میں وہ تاویل کی جاۓ جو ہم نے اوپر ذکر کی.
(٣) لفظ "رد" بعض اوقات مفارقت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ كناية اس سے مطلق حیرورت مراد ہوتی ہے، جیسے اس آیت میں جو حضرت شعیب علیہ السلام کا مقولہ ہے : قَدِ افتَرَينا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِن عُدنا فى مِلَّتِكُم {7:89} یعنی بیشک ہم نے بہتان باندھا اللہ پر جھوٹا اگر لوٹ آئیں تمہارے دین میں...
کہا گیا ہے کہ اس میں لفظ "عود" سے مطلق حیرورت مراد ہے نہ منتقل ہونے کے بعد عود (لوٹنا) کرنا ، اس لئے کہ شعیب علیہ السلام کبھی ان کی ملت میں نہیں داخل ہوۓ تھے.
(٤) سب سے زیادہ قوی جواب یہ ہے کہ رد روح سے یہ مراد نہیں ہے کہ روح بدن سے مفارقت کرنے کے بعد پھر اس میں واپس کی جاتی ہے بلکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم برزخ میں احوال ملکوت میں مشغول اور مشاہدہ ربانی میں مستغرق ہیں جیسے آپ کی حالت دنیا میں وحی کے وقت اور دوسرے اوقات میں تھی. پس آپ کا افاقہ رد روح سے تعبیر کیا گیا اور یہی قول علماء کا اس قول میں ہے جو معراج کے بعض احادیث میں واقع ہوا اور وہ یہ ہے : "فاستيقظت وإذا أنا بالمسجد الحرام" یعنی میں بیدار ہوتے ہی مسجد حرام میں تھا.
یہاں "استيقاظ" سے مراد نیند سے بیدار ہونا نہیں ہے ، اس لئے کہ معراج خواب میں نہیں ہوئی، بلکہ (اس سے مراد) عجائبات ملکوت کی غفلت و غشی سے افاقہ میں آنا مراد ہے.