Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 12:14:03 GMT 5.5
بشارتِ مقامِ امام ابوحنیفہؒ قرآن, حدیث اور علماءِ سلف سے
القرآن: (1)... اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے[سوره محمّد:٣٨]؛
حدیث میں ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ پرہاتھ رکھ کر فرمایا "اس کی قوم "اور فرمایا" خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔ [جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1208+1209, قرآن کی تفسیر کا بیان: سورت محمد کی تفسیر]؛
"الحمد للہ صحابہ رضوان اللہ عنہم نے اس بینظیر ایثار اور جوش ایمانی کا ثبوت دیا کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم فارس والوں نے اسلام میں داخل ہو کر علم اور ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی زبردست دینی خدمات انجام دیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص کو ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے موافق یہ ہی قوم تھی جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتی تھی۔ ہزارہا علماء و آئمہ سے قطع نظر کر کے تنہا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا وجود ہی اس پیشین گوئی کے صدق پر کافی شہادت ہے۔ بلکہ اس بشارت عظمیٰ کا کامل اور اولین مصداق امام صاحب ہی ہیں۔
(2) اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے...[الجمعہ:٣]؛
یعنی یہ ہی رسول دوسرے آنے والے لوگوں کے واسطے بھی ہے جن کو مبدأ و معاد اور شرائع سماویہ کا پورا اور صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے ان پڑھ ہی کہنا چاہیے۔ مثلاً فارس، روم، چین اور ہندوستان وغیرہ کی قومیں جو بعد کو امیین کے دین اور اسلامی برادری میں شامل ہو کر ان ہی میں سے ہوگئیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "حق تعالیٰ نے اول عرب پیدا کیے اس دین کے تھامنے والے، پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے۔" حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) 63۔ الجمعہ:3) کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر "علم یا دین" ثریا پر جا پہنچے گا تو (اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا)[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2040, تفاسیر کا بیان : تفسیر سورت جمعہ;صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1997, فضائل کا بیان: فارس والوں کی فضلیت کے بیان میں]؛
===========================
حضرت امام اعظم رحمہ اللہ کی تابعیت
حافظ المزی رح نے بیان فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہ رح کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہِ کرام سے ہوئی ہے . [معجم المصنفین : ٢/٢٣]؛
حافظ ذہبیؒ الشافعی (المتوفی ٧٤٨ھ) اپنی كتاب "تذکرۃ الحفاظ: ١/١٦٨" میں پانچویں طبقہ کے حفاظِ حدیث میں امام صاحب کا ذکر "ابو حنيفة الإمام الأعظم" کے عنوان سے کرتے ہیں:
"مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالکؓ غیرمرۃ لماقدم علیہم الکوفۃ"۔
ترجمہ: حضرت امامؒ کی پیدائش سنہ ٨٠ھ میں ہوئی، آپؒ نے حضرت انس بن مالکؓ (٩٣ھ) کوجب وہ کوفہ گئے توکئی دفعہ دیکھا۔
آگے لکھتے ہیں:
"وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الاعرج وعدى بن ثابت وسلمة بن كهيل وابي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وابي اسحاق وخلق كثير..... وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وابوعاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وابو نعيم وابو عبد الرحمن المقرى وبشر كثير، وكان اماما ورعا عالماً عاملاً متعبدا کبیرالشان"۔
ترجمہ: امام ابوحنیفہؒ نے عطاء، نافع، عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج، سلمہ بن کہیل، ابی جعفر، محمدبن علی، قتادہ، عمرو بن دینار، ابی اسحاق اور بہت سے لوگوں سے حدیث روایت کی ہے اور ابوحنیفہ سے وکیع، یزید بن ہارون، سعد بن صلت، ابوعاصم، عبدالرزاق، عبیداللہ بن موسیٰ، ابونعیم، ابوعبدالرحمن المقری اور خلق کثیر نے روایت لی ہے اور ابوحنیفہ امام تھے اور زاہد پرہیزگار عالم، عامل، متقی اور بڑی شان والے تھے۔
قرآن و حدیث کی فقہ (سمجھ) میں امام صاحب کی عظمت
حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوریؒ ہیں یا امام ابوحنیفہؒ ؟ تو انہوں نے کہا کہ: ابوحنیفہؒ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیانؒ (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں.
حضرت عبدللہ بن مبارکؒ نے فرمایا : امام ابو حنیفہؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے.
حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں : ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے عیال (محتاج) ہیں۔“
محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤدؒ فرماتے ہیں : "ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔
ترجمہ: بے شک ابوحنیفہؒ (حديث میں) امام تھے۔
[تذكرة الحفاظ، دار الكتب العلمية: صفحة # ١٦٨، جلد # ١، طبقه # ٥، بيان: أبو حنيفة إمامِ أعظم
یہ اور ان جیسے مزید ائمہ کے اقوال امام ابو حنیفہؒ کی علم، عمل اور تقویٰ میں الامام الحافظ الحجة شهاب الدين أبي فضل أحمد بن علي بن الحجر العسقلانيؒ الشافعی (المتوفی ٨٥٢ھ) کی اسماء الرجال پر لکھی مشہور کتاب [تہذیب التهذیب : ١٠ / ٤٤٩-٤٥١] میں بھی مذکور ہیں
علماءِ حدیث، حدیث کے راویوں/محدثین کے حالات کی تحقیق میں ان سے مروی خبروں (حدیثوں) میں ان کے ثقہ (قابل اعتماد) ہونے یا ضعیف (اعتماد میں کمزور) ہونے یا کذاب و دجال (جھوٹا اور فریبی) ہونے کا حکم دینے میں ان دو اماموں (امام ذہبیؒ اور امام ابن حجرؒ عسقلانی) کی تحقیق کو حجت مانتے ہیں. اور یہ دونوں امام ابو حنیفہؒ کی علم میں امامت، عمل میں زہد و تقویٰ پر علماء سلف کے اقوال کو شھادتاً پیش کرتے ان کی تعدیل کے و ثقاہت ثابت کرتے ہیں؛
اہلِ حدیث کے نزدیک بھی امام ابو حنیفہؒ کے امام اور ماننے تابعی ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کتابتِ حدیث کے استدلال کو انہوں نے "تابعین کا عمل" کے فصل میں جلی حرف سے ذکر کیا ہے، دیکھئے : [فتاویٰ علماۓ حدیث : ج # ١٢/ ص # ٢٤١ - ٢٤٢؛ دوسرا باب : کتابت احادیث و جمع روایات، فصل سوم: تابعین کا عمل]
فضیلت_صحابہ و تابعین
٣) وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿٩:١٠٠)؛
جن لوگوں نے سبقت کی یعنی سب سے پہلے ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ انکی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے انکے لئے باغات تیار کئے ہیں جنکے نیچے نہریں بہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔
سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي , أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي "
ترجمہ: حضرت جابر بن عبدالله (رضی الله عنہ) کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ ایسے مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھو سکے گی جس نے مجھے دیکھا ہو یا اسے دیکھا ہو جس نے مجھے دیکھا.
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى ...رقم الحديث: 3823(3858)]
ایمان کی حالت میں نبیؐ کو دیکھنے والے کو "صحابی" کہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں صحابی کو دیکھنے والے کو "تابعی" کہتے ہیں
شیخ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی وغیرہ نے [ابو حنیفہؒ کے فضائل-و مناقب پر اپنی"التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه"میں] تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ النعمان ہیں۔یہ کتاب اردو میں بنام "امام ابو-حنیفہ رحمہ الله کے حالات، کمالات اور ملفوظات" فری ڈاؤن لوڈ کریں یا آن لائن پڑھیں:
حضرت امام ابوحنیفہؒ امامِ اعظم کیوں؟
حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی سب بالاتفاق حضرت امام ابو-حنیفہ رح کو امام_اعظم کہتے ہیں. اس کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ امام صاحب کے بارے میں جن احادیث میں پیش گویاں ہیں، ان میں اعظم کا لفظ آیا ہے.
(١) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، ثنا جَعْفَرٌ الْفِرْيَابِيُّ ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، ثنا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْحُصَيْنِ ، عَنِ الْعَلاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " أَعْظَمُ النَّاسِ نَصِيبًا فِي الإِسْلامِ أَهْلُ فَارِسَ ، لَوْ كَانَ الإِسْلامُ فِي الثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ " . ( الثريا : مجموعة من نجوم السماء)؛
[ أخبار أصبهان لأبي نعيم : ١/١٠، رقم الحديث: ٩؛[كنز العمال : ١٢/١٦٩، رقم الحديث: ٣٤١٢٦( ك في تاريخه والديلمي - عن أبي هريرة )]
ترجمہ: اسلام میں بڑا حصہ (نصیب) فارس والوں کا ہے، اگر دین ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو فارس-والے اسے لے آئیں گے. (ثریا یعنی آسمان کے ستاروں کا مجموعہ)؛
فائدہ: ظاہر ہے کہ جن کا اسلام میں نصیب "اعظم"(بڑا) ہو، ان کا امام بھی اعظم ہے، صحابہ (رضی الله عنھم) کے بعد سب نے اپ کو اعظم مانا اور دنیا میں "سواد_اعظم" آج تک آپکے مقلدین کا ہے."السواد الاعظم" عربی زبان میں "عظیم-ترین(سب سے بڑی)جماعت" کو کہتے ہیں.[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]؛
چونکہ قرآن پاک میں اسلا مکا دوسرا نام ((دین حنیف)) ہے جس کی تکمیل آنحضرت پر ، تمکین صحابہ کے ذریعہ ہوئی اور تدوین میں اولیت کا شرف امام صاحب کو نصیب ہوا، اسی لئے پوری امت بالاتفاق آپ کی "وصفی کنیت" ابو حنیفہ قرار پائی یعنی دین حنیف کے پہلے مدون
اختلاف کا حل حدیث سے : سوادِ اعظم
حضرت انس رضی الله عنہ، رسول الله صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ"میری امت کسی گمراہی پر"جمع" (متفق) نہیں ہوگی بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سواد_اعظم (بڑی-جماعت) کو لازم پکڑلو(یعنی اس کی اتباع کرو)"[سنن ابن_ماجہ: کتاب الفتن، باب السواد الاعظم]دوسری روایت میں حضرت ابن_عمر(رضی الله عنہ) سے حدیث میں ہے = کہ...بس تم"سواد_اعظم" کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کریگا جہنم میں جا رہیگا.[مستدرک حاکم: کتاب العلم، ١/١١٥]
امام حاکم رح نے ابن_عمر رض کی یہ روایت دو طرق (طریقوں) سے نقل کی ہے اور دونوں کے بارے میں صحت_سند کا رجحان تو ظاہر کیا ہے، فیصلہ نہیں کیا. اور حافظ ذہبی رح نے سکوت (خاموشی-جو نیم-رضامندگی ہے)کیا ہے.
===========
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اکابر امت کی نظر میں:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله وہ جلیل القدر اورعظیم المرتبت ہستی ہیں،جن کی جلالت شان، امامت وفقاہت، اور فضل وکمال کو بڑے بڑے اساطین علم وفضل اور کبار فقہاء ومحدثین نے تسلیم کیا ہے۔ ہم تبرکا چند اکابر ائمہ کے اقول ذکر کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو اندازہ ہو سکے کہ اکابر علماءامت جس ہستی کے بارے میں يہ رائے رکھتے ہیں اس ہستی کے ساتھ لا مذہب غیر مقلدین کا کیا رويہ ہے۔
امام شافعی رح فرماتے ہیں ، الله ان سے راضی ہو : امام مالک رح سے پوچھا گیا : کیا آپ نے امام ابوحنیفہ رح کو دیکھا ہے؟ تو فرمایا : ہاں ، (اور ایک ستون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) میں نے انہیں ایسا شخص پایا کہ اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہتے تو اپنے علم کے زور پر وہ ایسا کر سکتے تھے ۔“
حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے خوشہ چین ہیں۔“
[وفیات الاعیان لابن خلکان : ٥/٤٠٩]؛
امام یحییٰ بن معین رح نے فرمایا : قرأت میرے نزدیک حمزہ کی قرأت ہے، اور فقیہ (میرے نزدیک) امام ابو حنیفہ رح کی فقہ ہے.[وفیات الاعیان لابن خلکان : ٥/٤٠٩]؛
حضرت عبد الله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں حضرت امام مالک رحمہ الله کی خدمت میں حاضر تھا کہ ايک بزرگ آئے،جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو حضرت امام مالک رحمہ الله نے فرمایا جاتنے ہو يہ کون تھے؟ حاضرین نے عرض کیا کہ نہیں (اور میں انہیں پہچان چکا تھا) فرمانے لگے۔”يہ ابو حنیفہ رحمہ الله ہیں عراق کے رہنے والے، اگر يہ کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو ویسا ہی نکل آئے انہیں فقہ میں ایسی توفیق دی گئی ہے کہ اس فن میں انہیں ذرا مشقت نہیں ہوتی“(حسین بن علی الصیمری: المحدث ۔ اخبار ابی حنیفة و اصحاب ص74) امام عبداللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے: "ولا تقولو رأیُ ابی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ولکن قولوا انہ تفسیر الحدیث“ (ذیل الجواہر المضیة، ج: 2،ص: 460 ؛ مناقب موفق ابن احمد مکی ج2 ص 51 ) یعنی لوگو یہ نہ کہا کرو کہ یہ ابوحنیفہ رحمة الله عليه کی رائے ہے بلکہ یوں کہو کہ یہ حدیث کی تفسیر وبیان ہے ایک دوسرے موقع پر انہی امام المحدثین عبداللہ بن مبارک رحمة الله عليه نے امام صاحب رحمة الله عليه کی اصابت رائے اوراس کی ضرورت واہمیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: "”ان کان الاثر قد عرف واحتیج الی الرأی، فرأی مالک، وسفیان، وابی حنیفة، وابوحنیفة احسنہم وادقہم فطنة واغوصہم علی الفقہ، وہو افقہ الثلاثة“ (تاریخ بغداد للخطیب، ج:۱۳،ص:۳۴۳) یعنی اگر حدیث معلوم ومعروف ہو اور (اس کی مراد کی تعیین میں) رائے کی ضرورت ہوتو امام مالک، امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ کی رائے (ملحوظ رکھنی چاہیے) اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه ان تینوں میں فہم وادراک میں زیادہ بہتر اور فقہ کی تہہ تک زیادہ پہنچنے والے تھے۔
حضرت امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے خوشہ چین ہیں۔“حضرت امام شافعی رحمہ الله يہ بھی فرماتے ہیں ”میں نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا“
دین کی پہچان اور امام ابو حنیفہ رح
حضرت عطاء بن ابی رباح رح کے ساتھ امام ابو حنیفہ رح کا واقعہ:
اور حکایت نقل کی ہے علامہ ابن بطال رح نے ((شرح بخاری)) میں امام ابوحنیفہ رح سے : انہوں نے فرمایا : "میں نے ملاقات کی حضرت عطاء بن ابی رباح رح سے مکہ میں ، پس میں نے سولہ کیا ان سے کسی شیء کے بارے میں؟ تو انہوں نے فرمایا : تو کہاں سے ہے؟ میں نے کہا : کوفہ والوں سے. فرمایا : تم اس شہر سے ہو جنہوں نے علیحدگی اختیار کی اپنے دین سے اور ہوگۓ شیعہ (فرقہ/الگ جماعت)؟ میں نے کہا : جی ہاں. آپ نے فرمایا : تو تم کس قسم کے لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا : ان لوگوں میں سے جو نہیں برا کہتے سلف (گزرے ہوۓ نیک بزرگوں: صحابہ کو)، اور جو ایمان رکھتے ہیں تقدیر پر، اور جو نہیں کافر کہتے کسی ایک کو بھی اس کے گناہ کے سبب. تو فرمایا حضرت عطاء (بن ابی رباح) رح نے : تو نے خوب پہچان لیا (دین کو) پس اب اسے لازم پکڑنا". (یعنی اسی پر قائم رہنا)[الاعتصام للإمام الشاطبي : ١/٨٢]
تخریج :
١) حلية الأولياء ، لابي نعيم : ٣/٣١٤؛
٢) مناقب الإمام أبي حنيفة ، لامام ألكردري : ٧٦؛
٣) العقد الثمين ، للفاسي : ٦/٩١.
حضرت ابوبکر مروزی رحمہ الله فرماتے ہیں ، میں نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ الله کو يہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہمارے نزديک يہ بات ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ الله نے قرآن کو مخلوق کہا ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ الحمد لله، اے عبدالله (یہ امام احمد بن حنبل کی کنیت ہے) ان کا علم تو بڑا مقام ہے ، فرمانے لگے:”سبحان الله وہ تو علم، ورع، زہد، اور عالم آخرت کو اختیار کرنے میں اس مقام پر ہیںجہاں کسی کی رسائی نہیں“(مناقب الامام ابی حنیفہ ص27 )؛
حارث بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم حضرت عطاءؒ کے پاس بیٹھے ہوتے تھے، جب امام ابوحنیفہؒ آتے توان کے لیے حضرت عطاءؒ جگہ بناتے اور اپنے قریب بٹھاتے، ابوالقاسمؒ نے ایک مرتبہ حضرت عطاءؒ سے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ بڑے ہیں یاسفیان ثوریؒ؟ توانھوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ میرے نزدیک ابنِ جریجؒ سے بھی زیادہ فقیہ ہیں، اُن سے زیادہ فقہ پر قادر شخص میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔(تذکرہ النعمان:۱۷۱)؛
حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ الله فرماتے ہیں: ”میری آنکھ نے ابو حنیفہ رحمہ الله کی مثل نہیں ديکھا“(مناقب الامام ابی حنیفہ ص19) آپ يہ بھی فرماتے تھے:علماء تو يہ تھے ابن عباس رضی الله عنہ اپنے زمانے میں، امام شعبی رحمہ الله اپنے زمانے میں، ابو حنیفہ رحمہ الله اپنے زمانے میں، اور سفیان ثوری رحمہ الله اپنے زمانے میں۔(اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص76) مشہور ثقہ محدث علی بن خشرم کا بیان ہے کہ: ”کنا فی مجلس سفیان بن عیینة فقال: یا اصحاب الحدیث تعلموا فقہ الحدیث لا یقہرکم اصحاب الرأی، ما قال ابو حنیفة شیئاً الا ونحن نروی فیہ حدیثا او حدیثین“ (معرفة علوم الحدیث للحاکم، ص:۶۶) یعنی ہم سفیان بن عیینہ کی مجلس میں تھے تو انھوں نے کہا اے حدیث سے اشتغال رکھنے والو، حدیث میں تفقہ حاصل کرو ایسا نہ ہو کہ تم پر اصحاب فقہ غالب ہوجائیں، امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه نے کوئی بات ایسی نہیں بیان کی ہے کہ ہم اس سے متعلق ایک، دو حدیثیں روایت نہ کرتے ہوں۔
(تشریح: امام سفیان بن عیینہ نے اپنے اس ارشاد میں حاضرین مجلس کو دو باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے ایک یہ کہ وہ الفاظ حدیث کی تحصیل و تصحیح کے ساتھ حدیث کے معنی وفقہ کے حاصل کرنے کی بھی سعی کریں دوسرے امام صاحب کی اصابت رائے اور بصیرت فقہ کی تعریف میں فرمایاکہ ان کی رائے وفقہ حدیث کے مطابق ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کی تائید وتوثیق کسی نہ کسی حدیث سے ہوجاتی ہے۔
حافظ أبو نعيم أصفهاني رح نے "مسند ابی حنیفہ" میں بسند_متصل یحییٰ بن نصر صہب کی زبانی نقل کیا ہے کہ :
"دخلت على أبي حنيفة في بيت مملؤ كتابا، فقلت : ما هذه ؟ قال : هذه أحاديث كلها وما حدثت به إلا اليسير الذي ينتفع به". [مناقب الامام الاعظم : ١/٩٥]؛
ترجمہ: میں امام ابو حنیفہ رح کے ہاں ایسے مکان میں داخل ہوا جو کتابوں سے بھرا ہوا تھا. میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ سب کتابیں حدیث کی ہیں اور (کمال_احتیاط کے سبب) میں نے ان میں سے تھوڑی سی حدیثیں بیان کی ہیں جن سے نفع اٹھایا جاۓ.
شیخ الاسلام والمسلمین حضرت یزید بن ہارون رحمہ الله فرماتے ہیں ”ابوحنیفہ رحمہ الله میں پرہیز گار، پاکیزہ صفات، زاہد، عالم، زبان کے سچے، اور اپنے اہل زمانہ میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ میں نے ان کے معاصرین میں سے جتنے لوگوں کو پایا سب کو یہی کہتے سنا کہاس نے ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دےکھا“ (اخبار ابی حنیفة واصحابہ ص36)؛
محدث جليل إمام اعمش رح اپنے وقت کے محدث و فقیہ امام اعظم ابو حنیفہ رح سے کہا تھا : " نَحْنُ الصَّيَادِلَةُ وَأَنْتُمُ الأَطِبَّاءُ " .(جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر (368-463هـ) » بَابُ ذِكْرِ مَنْ ذَمَّ الإِكْثَارَ مِنَ الْحَدِيثِ ...، رقم الحديث: 1195
ترجمہ: آپ طبیب ہیں اور ہم لوگ عطار ہیں. (جامع بيان العلم : صفحہ # ٣٢١) یعنی ہمارا (محدث کا) کام عطار کا ہے، جڑی بوٹی لانا، پتیوں پودوں کو جمع کرنا، اور انھیں مرتبان میں رکھ کر دکان سجانا. ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم یہ بتائیں کہ بکھر میں کونسا جوشاندہ استعمال کیا جاۓ، ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم دوائیں اکٹھا کردیں اس کے بعد آپ ڈاکٹر و حکیم (فقہاء) سے نسخہ لائیں، ہم اس نسخہ کے مطابق آپ کو دوا دیں گے یعنی فقیہ جب کوئی مسئلہ بتاۓ گا تو اس مسئلے کے مستدلات آپ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اجتہاد و گہری و گیرائی ہمارے بس کی بات نہیں، فقہاء و محدثین میں یہ فرق ہے
امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں:”والله، ابو حنیفہ رحمہ الله اس امت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم ہیں“(مقدمہ کتاب التعلیم ص134)؛
سید الحفاظ حضرت یحییٰ بن معین رحمہ الله سے ايک باران کے شاگرد احمد بن محمد بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق ان کی رائے دریافت کی تو آپ نے فرمایا:”سراپا عدالت ہیں، ثقہ ہیں ایسے شخص کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس کی ابن مبارک رحمہ الله اور وکیع رحمہ الله توثیق کی ہے“(مناقب ابی حنیفہ ص101)؛
علمِ حدیث کے ایسے بالغ نظر علماء کا امام ابوحنیفہؒ سے حدیث سننا اور پھراِن کے اس قدر گرویدہ ہوجانا کہ انہی کے قول پر فتوےٰ دینا حضرت امام کی علمی منزلت کی ناقابلِ انکار تاریخی شہادت ہے، حافظ ابنِ عبدالبر مالکیؒ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں:
"وکان (وکیع) یفتی برأی أبی حنیفۃ وکان یحفظ حدیثہ کلہ وکان قد سمع من ابی حنیفۃ حدیثاً کثیراً"۔
(کتاب الانتقاء:۲/۱۵۰۔ جامع بیان العلم:۲/۱۴۹)
ترجمہ:حضرت وکیع حضرت امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کے مطابق فتوےٰ دیتے تھے اور آپ کی روایت کردہ تمام احادیث یاد رکھتے تھے اور انہوں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی تھیں۔
حافظ شمس الدین الذہبیؒ (۷۴۸ھ) بھی وکیع کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
"وقال يحيى: مارأيت افضل منه يقوم الليل ويسرد الصوم ويفتى بقول ابي حنيفة"۔
(تذکرۃ الحفاظ:۲۸۲)
وکیع جیسے حافظ الحدیث اور عظیم محدث کا آپ کی تقلید کرنا اور فقہ حنفی پر فتوےٰ دینا حضرت امام کے مقام حدیث کی ایک کھلی شہادت ہے؛ پھرچند نہیں آپ نے ان سے کثیراحادیث سنیں،
امام اہل بلخ حضرت خلف بن ایوب رحمہ الله فرماتے ہیں:”الله تعالی سے علم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو پہنچا،آپ بعد آپ کے صحابہ کو، صحابہ کے بعد تابعین کو،پھر تابعین سے امام ابو حنیفہ رحمہ الله اور ان کے اصحاب کو ملا، اس پر چاہے کوئی خوش ہو یا ناراض“(تاریخ بغداد ۔ج13ص336)
محدث عبدالله بن داود الخریبی فرماتے ہیں:”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی عیب گوئی دو آدمیوں میں سے ايک کے سوا کوئی نہیں کرتا، یا جاہل شخص جو آپ کے قول کا درجہ نہیں جانتا یا حاسد جو آپ کے علم سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے حسد کرتا ہے“(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ ص79) نیز فرماتے ہیں:”مسلمانو ں پر واجب ہے کہ وہ اپنی نماز میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے لئے دعا کیا کریں۔ کیونکہ انہوں نے حدیث وفقہ کو ان کے لئے محفوظ کیا ہے “(تاریخ بغداد ۔ج13ص344) حضرت عبدالله بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں:”اگر الله تعالی نے مجھے ابو حنیفہ رحمہ اور سفیان ثوری رحمہ الله سے نہ ملایا ہوتا تو میں بدعتی ہوتا“( مناقب الامام ابی حنیفہ ص18)
ترجمہ : حضرت قاسم بن عباد نے (امام بخاری رح اور امام ابو داود رح کے استاد اور حدیث کے بہت بڑے حافظ) امام علی بن جعد جوھری سے روایت کی ہے کہ "امام ابو حنیفہ رح جب حدیث بیان کرتے ہیں موتی کی طرح آبدار ہوتی ہے".
علامہ ذہبی رحمہ الله ”تذکرة الحفاظ“ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تدکرہ ان القابات کے ساتھ کرتے ہیں:” ابو حنیفہ رحمہ الله امام اعظم اور عراق کے فقیہ ہیں........ وہ امام، پرہیز گار، عالم باعمل، انتہائی عبادت گزار اور بڑی شان والے تھے“(تدکرة الحفاظ ج1ص168)؛
حافظ عمادالدین بن کثیر رحمہ الله حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے ہیں:”وہ امام ہیں، عراق کے فقیہ ہیں، ائمہ اسلام اور بڑی شخصیات میں سے ايک شخصیت ہیں ، ارکان علماءمیں سے ايک ہیں،ائمہ اربعہ جن کے مذاہب کی پیروی کی جاتی ہے ان میں سے ايک امام ہیں“( البدایة والنہایة ج10ص107)؛
خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
"علمِ عقائد اور علمِ کلام میں لوگ ابوحنیفہؒ کے عیال اور خوشہ چیں ہیں"۔
(بغدادی:۱۳/۱۶۱)
مشھور محدث ابو مقاتل حفص بن سلم رح امام ابو حنیفہ رح کی فقہ و حدیث میں امامت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
وكان أبو حنيفة إمام الدنيا في زمانه فقها و علما و ورعا، قال : وكان أبو حنيفة محنة يعرف به أهل البدع من الجماعة ولقد ضرب بالسياط على الدخول في الدنيا لهم فابى".
[الانتقاء لابن عبدالبر: ص ٣١٩، مکتبہ دار البشائر السلامیہ، بیروت ١٤١٧ع]
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رح اپنے زمانہ میں (حدیث، فقہ و تقویٰ میں) دنیا کے امام تھے، ان کی ذات آزمائش تھی جس سے اہل السنّت والجماعت اور اہل البدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا، انھیں کوڑوں سے مارا گیا تاکہ وہ دنیاداروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہوجائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کرلی) مگر دخول_دنیا قبول نہ کیا.
امام عبد العزیز بن ابی داود رح فرماتے ہیں : "أبو حنيفة المحنة من أحب أبا حنيفة فهو سنيي ومن أبغض فهو مبتدع" [أخبار أبي حنيفة و أصحابه لامام صميري : ص ٧٩]؛
امام ابو حنیفہ رح آزمائش ہیں، جو ان سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے
حضرت امام ابو حنفیہ رحمہ الله کے متعلق مذکورہ چند اکابر اعلام کے چیدہ چیدہ اقوال نقل کئے گئے ہیں ، ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں کے اقوال، کتب، تاریخ وتذکرہ میں موجود ہیں۔ جن سے حضرت امام صاحب کی فضلیت و منقبت، عظمت و بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت امام صاحب کے بارے میں ان اقوال کے موجود ہوتے ہوئے غیر مقلدین کا ان پر طعن و تشنیع کرنا، ان کی عیب جوئی اور عیب گوئی کرنا اپنی عاقبت خراب کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔یحییٰ بن معین رحمہ الله سے پوچھا گیا کیا امام صاحب رحمہ الله ثقہ ہیں آپ نے دوبار فرمایا ثقہ ہیں ، ثقہ ہیںمورخ ابن خلکان رحمہ الله لکھتے ہیں کی آپ پر قلت عربیت کے سوا کوئی نقطہ چینی نہیں کی گئ (سبحان الله ) حافظ ابن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والے دو طرح کے لوگ ہیں ان کی شان سے ناواقف یا ان کے حاسدابن مبارک نے سفیان ثوری معین رحمہ الله سے پوچھا ابو حنیفہ معین رحمہ الله غیبت کرنے سے بہت دور رہتے ہیں دشمن ہی کیوں نہ ہو فرمایا ابو حنیفہ رحمہ الله اس سے بالاتر ہیں کہ اپنی نیکیوں پر دشمن کو مسلط کریں –یہ ایک حقیقت ہے کہ امام صاحب کے شاگردوں کی ان سے روایات کرنے والوں کی اور انہیں ثقہ و معتبر کہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے بہ نسبت نکتہ چینی کرنے والوں کےامام اعظم رحمہ الله کا علمی پایہ:شداد بن حکم رحمہ الله فرماتے ہے کہ " ابو حنیفہ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا "مکی بن ابراہیم رحمہ الله فرماتے ہیں " ابو حنیفہ اپنے زمانے کے سب سے بڑھے عالم تھےامام وکیع رحمہ الله فرماتے ہے " میں کسی عالم سے نہیں ملا جو ابو حنیفہ سے زیادہ فقیہ ہو اور ان سے بہتر نماز پڑھتا ہو "نذر بن شامل فرماتے " لوگ علم فقہ سے بے خبر پڑے تھے ابو حنیفہ نے انہیں بیدار کیا "محدث یحیٰ بن سعید القطان رحمہ الله فرماتے ہیں " ہم الله پاک کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتے واقعی ابو حنیفہ رحمہ الله سے بڑھ کر ہم نے فقہ میں کسی کی بات نہیں سنی اس لئے اکثر اقوال ہم نے ان کے اختیار کر لئے "امام شافعی رحمہ الله فرماتے ہیں تمام لوگ فقہ میں ابو حنیفہ رحمہ الله کے محتاج ہیں "محدث یحییٰ بن معین رحمہ الله فرماتے ہیں " فقہ تو بس ابو حنیفہ رحمہ الله ہی کی ہے"جعفربن ربیع رحمہ الله فرماتے ہے " میں پانچ سال امام صاحب کی خدمت میں رہا میں نے ان جیسا خموش انسان نہیں دیکھا جب فقہ کا مسئلہ پوچھا جاتا تو کھل جاتے اور علم کا دریا لگتے تھے "عبد الله بن ابی داؤد رحمہ الله فرماتے ہیں " اہل اسلام پر فرض ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں کے بعد امام ابو حنیفہ رحمہ الله کیلئے دعا کریںشافعی المذہب محدث خطیب تبریزی رحمہ الله 743ھ ) نے مشکو'تہ شریف جمع کی پھر الاکمال کے نام سے رجل پر کتاب لکھی انہوں نے مشکو'تہ میں اگرچہ امام صاحب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی مگر برکت کے لئے آپ کا تذکرہ کیا فرماتے ہیں " امام ابو حنیفہ رحمہ الله بڑھے عالم تھے صاحب عمل پریز گر تھے دنیا سے بے رغبت اور عبادت گزار تھے علوم شریعت میں امام تھے اگرچہ مشکو'تہ میں ہم نے ان سے کوئی روایت نہیں لی یھاں ذکر کرنے سے ہمی غرض ان سے برکت حاصل کرنا ہے " امام صاحب رحمہ الله علو مرتبت اور اونچے علم کی اور کیا نشانی ہو سکتی ہے
فن جرح و تعدیل اور امام ابو حنیفہ رح
قَالَ أَبُو يُوسُفَ ، قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ " لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ مِنَ الْحَدِيثِ ، إِلا مَا يَحْفَظُهُ مِنْ وَقْتِ مَا سَمِعَهُ " .
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه » لا ينبغي للرجل أن يحدث من الحديث ، إلا ما يحفظه ...، رقم الحديث: 84]
صفحہ # ٢٢ ، ٣٥
الجواهر المضية
ألإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان رحمه الله كا عظيم اجتہادى أصول
الإمام الأعظم أبو حنيفة النعمان رحمه الله تعالى فرماتے ہیں
آخذ بكتاب الله ، فما لم أجد فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لم أجد في كتاب الله ولا سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، وأدع من شئت منهم ولا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم وأما اذا انتهى الأمر الى إبراهيم والشعبي وإبن سيرين والحسن وعطا وسعيد ابن المُسيب وعد د رجالا فقوم اجتهدوا فأجتهدُ كما اجتهدوا ۔
میں سب سے پہلے کتاب الله سے۔ .. ( . مسئلہ وحکم . ) . لیتا ہوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پهر سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم اور احادیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور اگر كتاب الله وسنة اور احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم میں بهی نہ ملے تو پهر میں اقوال صحابہ کرام کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ إبراہيم، والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پهر میں بهی اجتهاد کرتا ہوں جیسا کہ انهوں نے اجتهاد کیا ۔
(.تاريخ بغداد. (368./13.).
(الانتقاء للامام الحافظ ابن عبدالبر مع تعلیق الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه، ص: ۲۶۴-۲۶۵)
حافظ ابن القیم رحمہ الله اپنی کتاب ‘‘إعلام الموقعين ’’ فرماتے هیں کہ
وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث عنده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبه كما قدّم حديث القهقهة مع ضعفه على القياس والرأي ، وقدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقياس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد "
امام أبي حنيفة رحمه الله کے اصحاب کا اس بات پراجماع ہے کہ امام أبي حنيفة رحمه الله کا مذہب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بهی رائے و قیاس سےأولى وبہتر .( .ومقدم. ) .ہے ، اور اسی اصول پر امام أبي حنيفة رحمه الله کے مذهب کی بنیاد واساس رکهی گئی ، جیسا قهقهة والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، اور سفر میں نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام أبي حنيفة رحمه الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابة کو رائے وقیاس پرمقدم کرنا یہ الإمام أبي حنيفة رحمه الله اور الإمام أحمد رحمه الله کا قول .(.وعمل وفیصلہ .). ہے ۔
.(.(. إعلام الموقعين عن رب العالمين 77/.1 .).) .
علامہ ابن حزم ظاہری بهی یہی فرماتے ہیں کہ
‘‘جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي’’
.(.(.إحكام الإحكام في أصول الأحكام 54/7 .).).
یہ ہے الإمام الأعظم أبي حنيفة رحمه الله اورآپ کے اصحاب وتلامذه کا سنہری وزریں اصول جس کے اوپرمذہب حنفی بنیاد ہے ، الإمام الأعظم رحمه الله کا یہ اصول اہل علم کے یہاں معروف ہے ، اب جس امام کا حدیث کے باب میں اتنا عظیم اصول ہو اوراس درجہ تعلق ہو حدیث کے ساتھ کہ ضعیف حدیث پربهی عمل کرنا ہے ، اس امام کواور اس کے اصحاب وپیروکاروں کو حدیث کا مخالف بتلایا جائے اورجاہل عوام کوگمراه کیا جائے،تو اس طرز کو ہم کیا کہیں جہالت وحماقت یاعداوت ومنافقت ؟؟
شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله كا فتوى
‘‘ومن ظنّ بأبي حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإما بهوى ، فهذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما’’
اورجس نے بهی امام أبي حنيفة یا ان کے علاوه دیگر أئمة ُالمسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط. ( .وجهوٹ .) .بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش وہوئی سے بات کی ، اور امام أبي حنيفة تو نَبيذُ التمَر کے ساتهہ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف ہونے کے اور مُخالف قیاس ہونے کے عمل کرتے ہیں الخ
.(.(. مجموع الفتاوي لابن تيمية 304/20، 305.).).
شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کا فتوی بالکل واضح ہے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئی یہ گمان وخیال بهی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص شيخ الإسلام إبن تيمية رحمه الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار ہے اور ائمہ مُسلمین پرجهوٹ وغلط بولنے والا ہے ۔کیا شيخ الإسلام إبن تيمية کے اس فتوی کا مصداق آج کل کا جدید فرقہ اہل حدیث نہیں ہے جو رات دن کا مشغلہ ہی یہی بنائے ہوئے ہیں ؟؟؟
میں نے حافظ ابن القیم رحمہ الله اور ان کے شیخ شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کی تصریحات نقل کیں ، عجب نہیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ الله شيخ الإسلام إبن تيمية رحمہ الله کا یہ اعلان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جُہلاء کے لیئے باعث ہدایت بن جائے ۔اور یہ بهی یاد رہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل نام نہاد شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی‘‘ حدیث ’’کے بالکل مخالف ہے ، گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ امام اعظم اورآپ کے اصحاب بالاتفاق ضعیف حدیث پرعمل نہیں چهوڑتے چہ جائیکہ صحیح حدیث کو چهوڑ دیں ، اس سلسلہ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں۔
دیگرمُحدثین کے یہاں اور خود فرقہ جدید اہل حدیث کے یہاں بهی ‘‘ مُرسَل حدیث’’ ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ، جب کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ مُرسَل حدیث ’’ کو بهی قبول کرتے ہیں ، اور قابل احتجاج سمجهتے ہیں بشرطیکہ ‘‘ مُرسِل’’ ثقہ وعادل ہو۔
یہاں سے آپ اندازه لگا لیں کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب ‘‘ حدیث ’’کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ، اور حدیث رسول کے ساتھ کس درجہ شدید و قوی تعلق رکهتے ہیں ، لیکن پهر بهی عوام کو بے راه کرنے کے لئے یہ جهوٹ و وسوسہ پهیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی حدیث کے بالکل مخالف ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله کے فضائل و مناقب پر مشتمل چند تالیفات
اب میں چند نام کتب کے ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہوں جن میں امام صاحب رحمه الله کے مناقب موجود ہیں جن کے مؤلفین شافعی ، مالکی ، حنبلی ،حنفی ہیں
نمبر [01] عقود المرجان
نمبر [02] قلائد عقود اور الدرر والعقیان
یہ دونوں کتابیں امام صاحب رحمه الله کے مناقب میں حافظ ابو جعفر طحاوی نے تالیف کی ہیں
نمبر [03] البستان فی مناقب النعمان
علامہ محی الدین بن عبد القادر بن ابو الوفا قرشی نے تالیف کی
نمبر [04] شقالق النعمان
علامہ جار الله زمحشری کی
نمبر [05] کشف الآثار
علامہ عبد الله بن محمد حارثی کی
نمبر [06] الانتصار لامام ائمۃ الامصار
علامہ یوسف سبط ابن جوزی کی
نمبر [07] تبییض الصحیفہ
امام جلال الدین سیوطی نے تالیف کی ہے ، محرر سطور نے اس کا مطالعہ کیا ہے
نمبر [08] تحفۃ السلطان
علامہ ابن کاس نے تالیف کی
نمبر [09] عقود الجمان
علامہ محمد بن یوسف دمشقی نے تالیف کی
نمبر [10] ابانہ
احمد بن عبد الله شیر آبادی کی
نمبر [11] تنویر الصحیفہ
علامہ یوسف بن عبد الہادی کی تصنیف ہے
نمبر [12] خیرات حسان
حافط ابن حجر مکی شافعی نے امام صاحب رحمه الله کے مناقب میں تصنیف کی ہے
نمبر [13] قلائد العقیان
یہ بھی حافظ ابن حجر مکی شافعی نے امام صاحب رحمه الله کے مناقب میں تصنیف کی ہے
نمبر [14] الفوائد المہمہ
علامہ عمر بن عبدالوہاب عرضی شافعی کی
نمبر [15] مرآۃ الجنان
امام یافعی کی
نمبر [16] تذکرۃ الحفاظ
امام ذہبی کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [17] تہذیب التہذیب
نمبر [18] الکاشف
یہ دونوں بھی حافظ ذہبی شافعی کی ہیں
نمبر [19] تہذیب الکمال
حافظ ابو الحجاج مزی کی
نمبر [20] جامع الاصول
علامہ ابن اثیر جزری کی
نمبر [21] احیاء العلوم
امام غزالی کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [22] تہذیب الاسماء واللغات
امام نووی کی
نمبر [23] تاریخ ابن خلدون
نمبر [24] تاریخ ابن خلکان
نمبر [25] الاکمال فی اسماء الرجال
لصاحب المشکوۃ ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [26] میزان کبری
شیخ عبدالوہاب شعرانی کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [27] الیواقیت والجواہر
یہ بھی شیخ عبدالوہاب شعرانی کی ہے
نمبر [28] طبقاب شافعیہ
ابو اسحاق شیرازی کی
نمبر [29] اول کتاب مسند
ابو عبد الله بن خسرو بلخی نے امام صاحب رحمه الله کے مناقب بیان کئے ہیں، محرر سطور نے اس کا مطالعہ کیا ہے
نمبر [30] الایضاح
عثمان بن علی بن محمد شیرازی کی
نمبر [31] جامع الانوار
محمد بن عبد الرحمن غزنوی کی
نمبر [32] مرقات شرح مشکوۃ
علامہ ملا علی قاری کی ، محرر سطور نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [33] تنسیق النظام
فاضل سنبھلی کی ، اس کا بھی مطالعہ کیا ہے - مسند امام اعظم کا احناف کےواسطے میرے خیال میں اس سے اچھا کوئی حاشیہ نہیں ، بلکہ یہ مستقل شرح ہے
نمبر [34] النافع الکبیر
نمبر [35] مقدمہ تعلیق ممجد
نمبر [36] مقدمہ ہدایہ
نمبر [37] مقدمہ شرح وقایہ
نمبر [38] مقدمہ سعایہ
نمبر [39] اقامۃ الحجہ
نمبر [40] الرفع والتکمیل
نمبر [41] تذکرۃ الراشد
مولانا عبد الحئی لکھنوی کی ہیں - یہ آٹھوں کتابیں محرر سطور کے مطالعہ سے گزری ہیں
نمبر [42] آثار السنن
نمبر [43] اوشحۃ الجید
علامہ شوق نیموی کی ، ان دونوں کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے - خصوصآ آثارالسنن بہت نایاب کتاب ہے ، خدا ان کو جزائے خیر دے ، آمین
نمبر [44] خلاصہ تہذیب الکمال
علامہ صفی الدین خزرجی کی یہ کتاب بھی مطالعہ سے گزری ہے
نمبر [45] عمدۃ القاری شرح بخاری
نمبر [46] بنایہ شرح ہدایہ
یہ دونوں کتابیں بھی حافظ وقت عینی کی ہیں اور دونوں محرر سطور کے مطالعہ میں رہ چکی ہیں
نمبر [47] شرح عین العلم
ابن حجر مکی شافعی کی
نمبر [48] حاشیہ محمد بن یوسف دمشقی علی المواہب
نمبر [49] عین العلم
محمد بن عثمان بلخی کی ، اس کا بھی محرر سطور نے مطالعہ کیا ہے
نمبر [50] انتصار الحق جواب معیار الحق
فاضل رام پور کی ، یہ بھی مطالعہ سے گزری ہے ، اچھی کتاب ہے
نمبر [51] شرح مسلم الثبوت
علامہ بحر العلوم لکھنوی کی
نمبر [52] غیث الغمام
فاضل لکھنوی کی ، اس کو بھی دیکھا ہے
نمبر [53] تمہید
حافظ ابن عبدالبر کی
نمبر [54] استذکار
حافظ ابن عبدالبر
نمبر [55] کتاب جامع العلم
حافظ ابن عبدالبر ، اس کا ایک مختصر ہے ، احقر نے اس کا بھی مطالعہ کیا ہے ، بہت ہی عجیب کتاب ہے
نمبر [56] مجمع البحار
علامہ محمد طاہر پٹنی حنفی کی اس کا بھی مطالعہ کیا ہے ، ان کی ایک کتاب قانون رجال میں ہے جو قلمی ہے چھپی نہیں ہے ، اس کے خطبہ میں خود مؤلف نےاپنے آپ کو حنفی لکھا ہے ، احقر نے اس کا مطالعہ کیا ہے اچھی کتاب ہے
نمبر [57] طبقات کبری
تاج الدین سبکی کی
نمبر [58] لواقح الانوار
علامہ شعرانی شافعی کی
نمبر [59] تذکرۃ الاولیاء
عطار رحمه الله کی
نمبر [60] فیوض الحرمین
شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله کی
نمبر [61] عقود الجواہر المنیفہ
علامہ سید محمد مرتضی زبیدی کی ، اس کا بھی مطالعہ کیا ہے یہ دو جلدوں میں وہ کتاب ہے جس میں ان روایات حدیثیہ کو جمع کیا ہے جن کو امام ابوحنیفہ رحمه الله روایت کرتے ہیں ، بہت عجیب کتاب ہے ، ہر شخص کو جو حنفہ مذہب رکھتا ہو اس کا مطالعہ کرنا چاہیئے تاکہ اس کو معلوم ہو کہ امام ابوحنیفہ رحمه الله کو کتنی حدیثیں پہنچی تھیں اور دشمن کتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں
نمبر [62] درمختار
نمبر [63] ردالمختار
دونوں کا مطالعہ کیا ہے
نمبر [64] مقدمہ فتح الباری
اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [65] تہذیب التہذیب
نمبر [66] تقریب التہذیب
یہ دونوں بھی حافظ ابن حجر عسقلانی کی ہیں ، احقر نے دونوں کا مطالعہ کیااور فائدہ حاصل کیا ہے
نمبر [67] روض الفائق
علامہ شعیب کی
نمبر [68] التاج المکلل
نمبر [69] حطہ فی اصول الصحاح ستہ
نمبر [70] اتحاف النبلاء
نمبر [71] کشف الالتباس
یہ چاروں کتابیں نواب صدیق حسن خاں قنوجی کی ہیں جو میرے مطالعہ سے گزری ہیں
نمبر [72] المقاثب المنفیہ
نمبر [73] کتاب الحنفاء
یہ دونوں مولوی عبد الاول جونپوری کی ہیں جو خاکسار نے دیکھی ہے
نمبر [74] کتاب المناقب
للموفق بن احمد مکی کی ، اس کا بھی مطالعہ کیا ہے
نمبر [75] مناقب کردری
اس کو بھی احقر نے دیکھا ہے ، یہ دونوں کتابیں دائرۃ المعارف سے چھپی ہیں جو حیدرآباد میں ہے
نمبر [76] الحیاض
علامہ شمس الدین سیوالسی کی
نمبر [77] المناقب
حافظ ذہبی مصنف کاشف کی ہے
نمبر [78] الطبقات السنیہ
علامہ تقی الدین ابن عبد القادر کی
نمبر [79] الصحیفہ فی مناقب ابی حنیفہ
حافظ ذہبی کی ہے ، یہ اناسی [79] نام ناظرین کے سامنے "مشتے نمونہ ازخروارے" پیش کئے ہیں جس میں بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو خاص امام صاحب رحمه الله کے مناقب و محامد میں لکھی گئی ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے حاسدوں اور دشمنوں کے اور کوئی بھی امام صاحب رحمه الله کےفضائل کا انکار نہیں کرسکتا ، ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتابیں ہیں جن میں امام صاحب رحمه الله کے مناقب موجود ہیں جس کی ظاہری آنکھیں کھلی ہیں وہ دیکھ سکتا ہے ، مذکورہ کتب میں سے بیالیس [42] کتابیں میں نے دیکھی ہیں اور ان کا مطالعہ کیا ہے - ناظرین یہاں تک ان اقوال کے متعلق ذکر تھا جن کا نام مؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفه] نے گنائے تھے -تقریبآ نصف نام میں ان میں سے ذکر کئے ہیں ، انہیں پر اوروں کو قیاس کرلیجئے ، گو مضمون بہت طویل ہوگیا مگر فائدہ سے خالی نہیں ہے - اب آگےمؤلف رسالہ [الجرح علی ابی حنیفه] گل افشانی فرماتے ہیں
کشف الغمة بسراج الامة - ترجمہ [امام اعظم ابو حنیفہ رحمه الله اورمتعرضین] صفحہ نمبر 64 تا 67
جامع مسانيد الإمام ابي حنيفة النعمان رحمه الله:
امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله ان مقدس ومحترم شخصيات ميں سے ہیں ، جن کے خلاف فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی طرف طعن وتشنیع وتنقید کا بازار گرم رہتا هے ، اس فرقہ جدید میں شامل تقریبا ہرچهوٹا بڑا امام عالی شان کی ذات میں توہین وتنقیص کا کچهہ نہ کچهہ اظہار کرتا رہتا ہے ، اور یہ صفت قبیحہ اس فرقہ جدید کے تمام ابناء میں سرایت کی ہوئ ہے ، الاماشاءالله من جملہ ان وساوس باطلہ کے ایک وسوسہ یہ امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے خلاف پهیلایا جاتا هے کہ ان کو تو حدیث کا کچهہ بهی پتہ نہیں تها علم حدیث سے بالکل کورے تهے ( معاذالله ) ،اس باطل وسوسہ پرکچهہ بحث غالبا گذشتہ سطور میں گذرچکی ہے ،لیکن مزید اطمینان قلب کی خاطرمیں امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی ان مسانید کا تذکره کروں گا ، جن کوکباراهل علم نے جمع کیا هے
تعريف المسانيد:
مسانيد جمع ہے مسند کی جوکہ ( سَنَدَ ) سے اسم مفعول ہے،
اهل لغت نے اس کی تعریف لغوی اس طرح پیش کی هے،
المسانيد أو المساند جمع : مسند ، وهو : اسم مفعول من الثلاثي : ( سَنَدَ ) ، قال ابن فارس ( ت 395 هـ ) : " السين والنون والدال أصل واحد يدل على انضمام الشيء إلى الشيء . وقد سُمِّي الدهر : مُسنَدًا ؛ لأن بعضه متضام " )
وقال الليث : " السند ما ارتفع عن الأرض " وقال الأزهري ( ت 370 هـ ) : " كل شيء أسندت إليه شيئًا فهو مُسنَد " وحكى أيضًا عن ابن بُزُرْج أن السَّنَد مثقل : ( ( سنود القوم في الجبل ) ) ، وقال الجوهري ( ت 393 هـ ) : " السَنَد : ما قابلك من الجبل وعلا عن السطح ، وفلان سَنَده أي : معتمد " وقال ابن منظور ( ت 711هـ ) : " ما يسند إليه يُسمى مسْنَدًا ومُسْنَدًا ، وجمعه : المَساند " (13) وزاد صاحب القاموس أنه يجمع أَيضًا بلفظ : ( مسانيد ) ، ويرى أبو عبد الله : محمد بن عبد الله الشافعي الزركشي ، ( ت 794 هـ ) ( أن الحذف أولى .
حاصل یہ کہ مسند کا معنی لغوی اعتبار سے یہ هے کہ جوکسی چیزکی طرف منسوب کیا جائے ، جوکسی چیزکی طرف ملایا جائے ، اس چیزکومضبوط کرنے کے لیئے٠
مسند کی اصطلاحى تعریف
اصطلاح میں مسند کا اطلاق حدیث پربهی ہوتا ہے اورحدیث کی کتاب پربهی ہوتا ہے، مسند اس حدیث مرفوع کو کہتے ہیں جس کی سند کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ یہ تو مسند حدیث کی تعریف ہے،
اور اسی طرح مسند کا اطلاق حدیث کی ان کتب پربهی ہوتا ہے، جن کو اس کے مؤلفین نے اسماء الصحابة کے مسانيد پرجمع کیا ہو یعنی مسند حدیث کی وه کتاب ہے جس میں ہرصحابی کے احادیث کو الگ الگ جمع کیا جائے،
پهر بعض محدثین نے اس بارے میں یہ ترتیب رکهی کہ پہلے سابقین فی الاسلام صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں جیسے عشره مبشره پهر اهل بدر وغیره ، اور بعض محدثین حروف المعجم کے اعتبار سے صحابہ کی احادیث ذکرکرتے ہیں وغيره . بغرض فائده یہ تومسند کی لغوی واصطلاحی تعریف کا مختصرتذکره تها ، اب میں ان کباراهل علم وعلماء امت کا تذکره کروں گا جنهوں نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے ان مسانید کو جمع کیا .
یا درہے کہ امام محمد بن محمود الخوارزمی رحمه الله نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی پندره (15) مسانید کو جامع مسانيد الإمام ابى حنيفة النعمان کے نام سے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا هے ، اوران کے جمع کرنے کی وجہ یہ لکهی کہ میں نے شام میں بعض جہلاء سے سنا جوامام اعظم کی شان میں توہین وتنقیص کر رها تها اورامام اعظم پر رواية الحديث کی قلت کا الزام لگا رها تها ، اوراس بارے میں مسند الشافعي وموطا مالك وغیره سے استدلال کر رها تها اوریہ گمان کر رها تها کہ ابوحنیفہ کی تو کوئ مسند نہیں ہے ، لہذا مجهے دینی غیرت وحمیت لاحق ہوئ پس میں نے اراده کیا کہ میں امام اعظم رحمه الله کی ان پندره (15) مسانید کو جمع کروں جن کبار علماء الحديث نے جمع کیا هے .
ان کبار علماء الحديث کے اسماء درج ذیل ہیں جنهوں نے امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کے مسانید کوجمع کیا هے
1 = الإمام الحافظ ابو محمد : عبد الله بن محمد بن يعقوب الحارثي البخاري المعروف : بعبد الله
2 = الإمام الحافظ ابو القاسم : طلحة بن محمد بن جعفر الشاهد العدل
3 = الإمام الحافظ ابو الحسين : محمد بن المظفر بن موسى بن عيسى بن محمد
4 = الإمام الحافظ : ابو نعيم الأصفهاني
5 = الشيخ ابو بكر : محمد بن عبد الباقي بن محمد الأنصاري
6 = الإمام ابو احمد : عبد الله بن عدي الجرجاني
7 = الإمام الحافظ : عمر بن الحسن الأشناني
8 = الإمام ابو بكر : احمد بن محمد بن خالد الكلاعي
9 = الإمام ابو يوسف القاضي : يعقوب بن ابراهيم الأنصاري ، وما روي عنه يسمى : نسخة ابي يوسف
10 = الإمام : محمد بن الحسن الشيباني والمروي عنه يسمى : نسخة محمد
11 = ابن الإمام : حماد رواه عن ابي حنيفة
12 = الإمام : محمد ايضا ، وروى معظمه عن التابعين ، وما رواه عنه يسمى : الآثار
13 = الإمام الحافظ ابو القاسم : عبد الله بن محمد بن أبي العوام السعدي
14 = الإمام الحافظ ابو عبد الله : حسين بن محمد بن خسرو البلخي
15 = الإمام الماوردي ابو الحسن : علي بن محمد بن حبيب
یہ مسانید( ابواب الفقه ) کے مطابق جمع کیئے گئے ہیں ، پهر بعد میں بعض علماء امت نے ان مسانید کی اختصار اور شرح بهی لکهی ، مثلا
1 = الإمام شرف الدين : اسماعيل بن عيسى بن دولة الأوغاني المكي نے اس کا اختصار بنام اختيار اعتماد المسانيد في اختصار اسماء بعض رجال الأسانيد ) لكها ،
2 = الإمام ابو البقاء : احمد بن ابي الضياء ( محمد القرشي البدوي المكي ) نے اس کا اختصار بنام مختصر ( المستند مختصر المسند ) لكها ،
3 = الإمام محمد بن عباد الخلاطي نے اس کا اختصار بنام ( مقصد المسند ) لكها
4 = ابو عبد الله : محمد بن اسماعيل بن ابراهيم الحنفي ،نے اس کا اختصار لکها
5 = حافظ الدين : محمد بن محمد الكردري المعروف : بابن البزازي نے اس کے زوائد کو جمع کیا ،
6 = شيخ جلال الدين السيوطي نے اس کی شرح بنام ( التعليقة المنيفة على سند ابي حنيفة ) لکهی اس کے علاوه بهی بہت ساری کتب وشروحات امام اعظم ابى حنيفة النعمان رحمه الله کی مسانید پرلکهی گئ ہیں .
رحمهم الله جميعا وجزاهم الله تعالى خيرا في الدارين
یقینا اس ساری تفصیل کے بعد آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ چند جہلاء زمانہ کی طرف سے امام اعظم کے خلاف جو باطل وکاذب وسوسہ پهیلایا جاتا هے یہ وسوسہ صرف جہلاء وسفہاء کی مجلس میں کارگر ہوتا هے ارباب علم واصحاب فکرونظر کی نگاه میں اس کی کوئ حیثیت نہیں هے
امام المسلمین ابو حنیفہ
از:۔ حضرت امام عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ تعالیٰ عنہ
لقد زان البلاد و من علیہا ٭ امام المسلمین ابوحنیفہ
با حکام وآ ثار و فقہ ٭ کا یات الزبور علی صحیفہ
فما فی المشرقین لہ نظیر ٭ ولا فی المغربین ولا بکوفہ
یبیت مشمرا سہر اللیالی ٭ وصام نہارہ للہ خیفہ
وصان لسانہ عن کل افک ٭ وما زانت جوارحہ عفیفہ
یعف عن المحارم والملاہی ٭ ومرضاۃ الا لہ لہ وظیفہ
رأیت العاتبین لہ سفاہا ٭ خلاف الحق مع حجج ضعیفہ
و کیف یحل ان یوذی فقیہ ٭ لہ فی الارض آثار شریفہ
وقد قال بن ادریس مقالا ٭ صحیح ا لنقل فی حکم لطیفہ
بان الناس فی فقہ عیال ٭ علی فقہ الامام ابی حنیفہ
فلعنۃ ربنا اعداد رمل ٭ علی من رد قول ابی حنیفہ
٭ امام المسلمین ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شہروں اور شہریوں کو زینت بخشی،
٭ احکام قرآن، آثار حدیث اور فقہ سے ، جیسے صحیفہ میں زبور کی آیات نے۔
٭ کوفہ بلکہ مشرق و مغرب میں ان کی نظیر نہیں ملتی، یعنی روئے زمین میں ان جیسا کوئی نہیں۔
٭ آپ عبادت کے لئے مستعد ہو کر بیداری میں راتیں بسر کرتے اور خوف خدا کی وجہ سے دن کو روزہ رکھتے ،۔
٭ انہوں نے اپنی زبان ہر بہتان طرازی سے محفوظ رکھی، اور انکے اعضا ہر گناہ سے پاک رہے۔
٭ آپ لہو و لعب اور حرا م کاموں سے بچے رہے ، رضائے الہی کا حصول آ پ کا ووظیفہ تھا۔
٭ امام اعظم کے نکتہ چیں بے وقوف، مخالف حق اور کمزور دلائل والے ہیں ۔
٭ ایسے فقیہ کو کسی بھی وجہ سے تکلیف دینا کیونکر جائز ہے ، جسکے علمی فیوض تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
٭ حالانکہ صحیح روایت میں لطیف حکمتوں کے ضمن میں امام شافعی نے فرمایا : کہ
٭ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے محتاج ہیں۔
٭ ریت کے ذروں کے برابر اس شخص پر اللہ تعالی ٰ کی لعنت ہو جو امام ابو حنیفہ کے قول کو مردود قرار دے۔
[التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه: شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ الله(شافعی-مقلد) (849-911ھ):
رد المحتار عَلَى الدر الْمُخْتَار » مقدمة - وأرباب الشريعة والحقيقة, الجزء الأول، ص:
امام الحافظ الذهبی رحمہ الله فرماتے ہیں : قلتُ: الإرجاءُ مذهبٌ لعدةٍ من جِلَّة العلماء، ولا ينبغی التحاملُ على قائیله۔
(میزان،۳/۱۶۳ فی ترجمة مِسْعَر بن كِدَام)
میں ( امام ذهبی ) کہتاہوں کہ ارجاء تو بڑے بڑے علماء کی ایک جماعت کا مذهب ہے اور اس مذهب کے قائیل پر کوئی مواخذه نہیں کرنا چائیے۔
اس کی سند مرکب ہے اور اس میں محمد بن اسماعیل السلمی ہے، جس کے بارے میں علامہ ابن ابی حاتم نے کہا : (کہ) حضرات محدثین نے اس پر کلام کیا ہے اور اس کا روی محمد بن عبداللہ الشافعی تو انتہائی متعصب تھا. اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ کا ذکر اس روایت میں بہت عرصہ بعد درج کیا گیا ہے. اور جو الازہری کی سند جو آرہی ہے اس میں ہے اور وہ لوگ جو ان سے روایت کرتے ہیں، بیشک وہ کتاب الحیل میں کلام کرتے ہیں. پختہ بات ہے کہ وہ ایسی کتاب کے بارے میں کلام کرتے ہیں جو ایسے مسائل پر مشتمل ہے جو صریح کفر تک پھنچانے والے ہیں اور حق کو باطل اور باطل کو حق کرنے والے ہیں اور واجب کو ساقط کرنے والے ہیں، اور تشریعی احکامات سے متضاد ہیں، اس کا چرچا وہ لوگ کرتے ہیں جو اس زمانہ میں بے حیا مشہور تھے.
بھر حال اس مذکور کتاب کی نسبت امام ابو حنیفہ کی طرف کرنا بلکل باطل ہے اس لئے کہ بیشک اس کے اصحاب میں جو اس کی تالیفات کے راوی ہیں ان میں سے کسی نے بھی کسی ایسی کتاب کا ذکر نہیں کیا نہ ہی ثقہ راویوں میں سے کسی نے صحیح سند کے ساتھ اس سے یہ روایت کی ہے. بس جس نے اس کتاب کی نسبت اس کی طرف کی ہے تو اس نے جھوٹ اور غلط نسبت کی ہے