Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 12:57:34 GMT 5.5
بیس (٢٠) رکعت تراویح کے ثبوت
لفظ تراویح
وقال الحافظ في الفتح 4/250: (والتراويح جمع ترويحة وهي المرة الواحدة من الراحة كتسليمة من السلام، وسميت الصلاة في الجماعة في ليالي رمضان التراويح لأنهم أول ما اجتمعوا عليها كانوا يستريحون بين كل تسليمتين). ؛
حافظ ابن حجر العسقلانی الشافعی رح اپنی کتاب فتح الباری شرح البخاری : 4 / 250 پر فرماتے ہیں : (عربی لفظ) تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور (چار ٤ رکعت کا) ترویحہ ایک دفعہ راحت لینے (آرام کرنے) کو کہتے ہیں جیسے "تسلیمہ" ایک دفعہ سلیم کرنے کو کہتے ہیں. ((آگے اس لفظ کی وجہ تسمیہ فرماتے ہیں کہ) اور جو نماز رمضان کی راتوں میں باجماعت ادا کی جاتی ہے اس کا نام تراویح رکھا گیا ہے، اس لئے کہ جب صحابہ کرام پہلی بار اس نماز پر مجتمع ہوۓ تو وہ ہر دو سلام بعد راحت (آرام کا وقفہ) لیا کرتے تھے
تراویح سنّت ہے
عَنْ عبد الرحمن بن عوف ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ ، فَمَنْ صَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ؛ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " .
[امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امداىہ]
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراویح) سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (تراویح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے۔
فائدہ : یہ سنّت نماز (تراویح) بھی روزہ کی طرح رمضان کی خاص عبادات میں سے ہے
طرف الحديث | الصحابي | اسم الكتاب | أفق | العزو | المصنف | سنة الوفاة | م |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1711&hid=841&pid=634579 | عبد الرحمن بن عوف | الأحاديث المختارة | 841 | ---- | الضياء المقدسي | 643 | 1 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1711&hid=842&pid=634579 | عبد الرحمن بن عوف | الأحاديث المختارة | 842 | ---- | الضياء المقدسي | 643 | 2 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=291&hid=960&pid=134541 | عبد الرحمن بن عوف | البحر الزخار بمسند البزار | 960 | 1048 | أبو بكر البزار | 292 | 3 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=327&hid=852&pid=155217 | عبد الرحمن بن عوف | مسند أبي يعلى الموصلي | 852 | 864 | أبو يعلى الموصلي | 307 | 4 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=96&hid=7533&pid=49305 | عبد الرحمن بن عوف | مصنف ابن أبي شيبة | 7533 | 7779 | ابن ابي شيبة | 225 | 5 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1759&hid=5&pid=0 | عبد الرحمن بن عوف | مشيخة السهروردي | 5 | 4 | أبو حفص السهروردي | 632 | 6 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1888&hid=374&pid=664097 | عبد الرحمن بن عوف | معجم شيوخ الابرقوهى | 374 | --- | أحمد بن إسحاق بن محمد الأبرقوهي | 701 | 7 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=4141&hid=85&pid=0 | عبد الرحمن بن عوف | الثالث من أحاديث محمد بن أيوب الرازي | 85 | ---- | محمد بن أيوب بن يحيى الرازي | 294 | 8 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=4207&hid=28&pid=682293 | عبد الرحمن بن عوف | مجالس من أمالي أبي عبد الله بن منده | 28 | ---- | أبو عبد الله بن منده | 395 | 9 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=682&hid=3335&pid=335499 | موضع إرسال | شعب الإيمان للبيهقي | 3335 | 3613 | البيهقي | 458 | 10 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=305&hid=131&pid=137345 | عبد الرحمن بن عوف | الصيام للفريابي | 131 | --- | محمد بن الحسن الفريابي | 301 | 11 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1701&hid=17&pid=616945 | عبد الرحمن بن عوف | سير أعلام النبلاء الذهبي | 17 | --- | الذهبي | 748 | 12 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1701&hid=844&pid=620921 | عبد الرحمن بن عوف | سير أعلام النبلاء الذهبي | 844 | --- | الذهبي | 748 | 13 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1857&hid=3383&pid=657721 | عبد الرحمن بن عوف | تهذيب الكمال للمزي | 3383 | --- | يوسف المزي | 742 | 14 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1857&hid=3384&pid=657721 | عبد الرحمن بن عوف | تهذيب الكمال للمزي | 3384 | --- | يوسف المزي | 742 | 15 |
library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=4126&hid=12867&pid=669173 | عبد الرحمن بن عوف | إتحاف المهرة | 12867 | --- | ابن حجر العسقلاني | 852 | 16 |
تراویح کی جماعت
١) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها: أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَّی ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی مِنَ الْقَابِلَةِ، فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوْجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ، وَ ذَلِکَ فِي رَمَضَانَ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
وَ زَادَ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ: وَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةِ أَمْرٍ فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنه وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه حَتَّی جَمَعَهُمْ عُمَرُ رضي اﷲ عنه عَلَی أُبِّيِ بْنِ کَعْبٍ وَ صَلَّی بِهِمْ فَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلُ مَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَی قِيَامِ رَمَضَانَ.
و أخرجه العسقلاني في ’’التلخيص‘‘: أَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَّی بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً لَيْلَتَيْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ فَلَا تَطِيْقُوهَا.
ترجمہ: ’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔‘‘
امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نماز تراویح کے لئے (باجماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘
اور امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نماز تراویح) تم پر فرض کر دی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔‘‘
الحدیث رقم 1: اخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب: التہجد، باب: تحریض النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی صلاۃ اللیل والنوافل من غیر ایجاب، 1 / 380، الرقم: 1077، و في کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 708، الرقم: 1908، و مسلم في الصحیح، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 524، الرقم: 761، و ابو داود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1373، والنسائي في السنن، کتاب: قیام اللیل و تطوع النہار، باب: قیام شہر رمضان، 3 / 202، الرقم: 1604، و في السنن الکبری، 1 / 410، الرقم: 1297، و مالک في الموطا، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 113، الرقم: 248، و احمد بن حنبل في المسند، 6 / 177، الرقم: 25485، و ابن حبان في الصحیح، 1 / 353، الرقم: 141، و ابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 338، الرقم: 2207، و عبد الرزاق في المصنف، 3 / 43، الرقم: 4723، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 492، الرقم: 4377، و في السنن الصغری، 1 / 480، الرقم: 486، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2 / 21۔
٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقِيْلَ: هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَ أُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي وَ هُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَصَابُوا وَ نِعْمَ مَا صَنَعُوا.
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَ ابْنُ خَزَيْمَةَ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
وَ فِي رِوايَةٍ لِلْبَيْهَقِيِّ: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا أَوْ قَدْ أَصَابُوا وَلَمْ يَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.
ترجمہ : ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کہا کیا۔‘‘
اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایا: انہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا۔‘‘
الحدیث رقم 2: اخرجہ ابوداود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 50، الرقم: 1377، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6 / 282، الرقم: 2541، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 495، الرقم: 4386۔ 4388، والہیثمي في موارد الظمآن، 1 / 230، الرقم: 921، و ابن عبدالبر في التمھید، 8 / 111، و ابن قدامۃ في المغني، 1 / 455۔
بیس (٢٠) رکعت تراویح دور نبویﷺ میں
امام بخاری رح کے استاد امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رح اپنی کتاب "المصنف" میں روایت کرتے ہیں ؛
١) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ : أَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً ، وَالْوِتْرَ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صَلاةِ التَّرَاوِيحِ » كَمْ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ مِنْ رَكْعَةٍ، رقم الحديث: 7520]؛
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف میں بیس رکعات نماز(تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص286 مکتبہ امداىہ ملتان پاکستان)(صفحة # ١٩١٣
مکمل حوالہ بمع تخریج ؛
سنة الوفاة | المصنف | العزو | أفق | اسم الكتاب | الصحابي | طرف الحديث | م |
458 | البيهقي | 2 : 495 | 4241 | السنن الكبرى للبيهقي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=673&hid=4241&pid=331567 | 1 |
852 | ابن حجر العسقلاني | 620 | 624 | المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=325&hid=621&pid= | 2 |
249 | عبد بن حميد | 653 | 660 | مسند عبد بن حميد | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=133&hid=660&pid=63505 | 3 |
235 | ابن ابي شيبة | 7766 | 7520 | مصنف ابن أبي شيبة | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=96&hid=7520&pid=49299 | 4 |
360 | سليمان بن أحمد الطبراني | 798 | 816 | المعجم الأوسط للطبراني | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=475&hid=816&pid=280459 | 5 |
360 |
سليمان بن أحمد الطبراني | 5440 | 5586 | المعجم الأوسط للطبراني | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=475&hid=5586&pid=280701 | 6 |
360 | سليمان بن أحمد الطبراني | 12102 | 11941 | المعجم الأوسط للطبراني | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=477&hid=11941&pid=285429 | 7 |
476 | ابن مفلح اللخمي | 19 | 21 | مشيخة أبي الطاهر بن أبي الصقر | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=738&hid=21&pid= | 8 |
413 | أبو الحسن بن طلحة النعالي | ---- | 33 | فوائد أبي الحسن بن طلحة النعالي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1184&hid=33&pid= | 9 |
338 | إبراهيم بن محمد بن أحمد بن أبي ثابت | ---- | 11 | الأول من حديث ابن أبي ثابت | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=4001&hid=11&pid= | 10 |
463 | الخطيب البغدادي | 1 : 387 | 450 | موضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=727&hid=450&pid=371621 | 11 |
463 | ابن عبد البر القرطبي | 8 : 115 | 1301 | التمهيد لابن عبد البر | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=692&hid=1301&pid=347377 | 12 |
463 | الخطيب البغدادي | 7 : 22 | 1975 | تاريخ بغداد للخطيب البغدادي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=717&hid=1975&pid=358893 | 13 |
463 | الخطيب البغدادي | 13 : 499 | 3994 | تاريخ بغداد للخطيب البغدادي | عبد الله بن عباس | library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=717&hid=3994&pid=363895 | 14 |
اس سند میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ ہے جو اگرچہ عند المحدثین ضعیف ہے، لیکن یہ اتنا بھی ضعیف نہیں کہ اس کی روایت کو چھوڑدیا جائے، کیونکہ بعض محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے۔
١) امام شعبه بن الحجاج (160 ھہ) نے ان سے روایت لی ہے. {تهذیب الکمال، للمزی : 1 / 268 ، تهذیب التهذیب : 1 / 136}؛
اور غیر مقلدین (عرف اہل حدیث) کا ہاں اصول ہے کہ امام شعبہ اس راوی سے روایت لیتے ہیں جو ہوں اور ان کی احادیث صحیح ہوں.[القول المقبول فی شرح صلاة الرسول : ص # 386 ؛ نيل الأوطار ، للشوكاني : 1 / 16]؛
اس طرح جن جن ثقہ (قابل اعتماد) محدثین نے بیس (٢٠) رکعت کی روایت لی، یہ ان کی قوی تائید ہے ورنہ یہ حضرات اس طرح متفق نہ ہوتے.
٢) امام عدی ابو شیبہ کے بارے میں فرماتے ہیں: لہ احادیث صالحۃ {تہذیب الکمال ج1ص393}؛
یعنی ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان) کی احادیث درست ہیں
٣) امام بخاری کے استاد الاستاد حضرت یزید بن ہارون جو ابو شیبہ کے زمانہ قضاۃ میں ان کے کاتب اور منشی تھے وہ بھی ابوشیبہ کے بڑے مداح تھے ۔وہ فرماتے ہیں:ماقضی علی الناس یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ،{تہذیب الکمال ج1ص 151}؛
یعنی ابراہیم بن عثمان کے زمانہ قضاة ان سے بڑھ کر عادل کوئی قاضی (جج) نہیں ہوا
٤) ابن عدی نے ان کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے : وهو وإن نسبوه إلى الضعف خير من إبراهيم بن أبي حية،{تہذیب الکمال ج1 ص151 }؛
یعنی وہ بہتر ہیں کمزوری میں ابراہیم بن ابی حية سے
اور إبراهيم بن أبي حية کے بارے میں یحیی بن معین فرماتے ہیں: شیخ، ثقۃ کبیر ،{لسان المیزان ج1ص52 رقم الترجمۃ 127}؛
یعنی یہ شیخ (بزرگ) ہیں، بڑے ہی قابل اعتماد ہیں
لہذا جب ابراہیم بن ابی حیہ ثقہ ہے تو ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ بدرجہ اولی ثقہ ہونا چاہیے۔
٥) امام ابن أبي حاتم الرازي فرماتے ہیں : "صدوق، كتبت عنه" یعنی وہ بہت ہی سچا ہے، لکھو (احادیث) ان سے؛
جواب2 : اصولِ جرح و تعدیل کا یہ پہلا اصول ہے کہ
جو جرح مفسر نہ ہو یعنی اس میں سببِ جرح تفصیل سے (اس کا معقول مقبول ہونا) بیان نہ کیا گیا ہو تو تعدیل اس پر مقدم رہتی ہے. (یعنی قائم رہتی ہے)؛
[مقدمہ اعلا السنن : ٣/٢٣, فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢ ]
مَثَلاً : شعبہؒ امیرالمؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں؛ لیکن قبولِ روایت میں اُن کی سختی دیکھئے، آپ سے پوچھا گیا کہ تم فلاں راوی کی روایت کیوں نہیں لیتے؟ آپؒ نے کہا "رأیتہ یرکض علی برذون" میں نے اسے ترکی گھوڑے دوڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔
آپؒ منہال بن عمرو کے ہاں گئے، وہاں سے کوئی ساز کی آواز سنی، وہیں سے واپس آگئے اور صورتِ واقعہ کی کوئی تفصیل نہ پوچھی۔
حکم بن عتیبہؒ سے پوچھا گیا کہ تم زاذانؒ سے روایت کیوں نہیں لیتے؟ توانہوں نے کہا "کان کثیرالکلام" وہ باتیں بہت کرتے تھے۔
حافظ جریر بن عبدالحمید الضبی الکوفیؒ نے سماک بن حربؒ کو کھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تو اس سے روایت چھوڑ دی۔
(دیکھئے، الکفایہ فی علوم الروایہ، للخطیب البغدادی:١٠١ ۔ لغایت:۱۱۴)
اب سوچئے اور غور کیجئے کیا یہ وجوہ جرح ہیں؟ جن کے باعث اتنے بڑے بڑے اماموں نے ان راویوں کو (سے علم حدیث لینے اور سیکھنے) چھوڑ دیا؛ اگراس قسم کی جروح سے راوی چھوڑے جاسکتے ہیں؛ تو پھر آخر بچے گا کون؟ یہ سختی سب کے ہاں نہ تھی، اس لیے محض جرح دیکھ کر ہی نہ اچھل پڑیں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ جرح کی وجہ کوئی شرعی پہلو ہے یا صرف شدت احتیاط ہے اور پھر یاد رکھیں کہ متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہے۔
جواب3 : اس روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ اور محدثین کا قاعدہ ہے کہ اگر کسی روایت کو تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو روایت صحت کا درجہ پالیتی ہے۔ لہذا یہ روایت تلقی بالقبول ہونے کی وجہ سے یہ روایت صحیح و حجت ہے۔
:اس اصول حدیث کا حوالہ
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنا کے حثیت سے قبول کیا ہے. [فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣]؛
"ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمة: اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓ گا.[المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية ، ٢/١٧٩؛]؛
ان کی روایات کو بہت سے محدثین نے نقل فرماکر سکوت اختیارکیا ہے۔ اور اس کی متن کی تائید میں دوسری روایات اور عملِ صحابہ بھی موجود ہیں، اس لیے اس کو ضعیف کہنا صحیح نہ ہوگا۔
-----------------------
٢) حدثنا أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن الزهري [ثقة], نا محمد بن هارون بن حميد الرازي [ثقة], نا إبراهيم بن المختار [مقبول], عن عبد الرحمن بن عطاء [مقبول], عن ابن عتيك [ثقة], عن جابر , أن النبي صلى الله عليه وسلم " خرج ليلة في رمضان فصلى بالناس أربعة وعشرين ركعة " . وحدثنا ابن حيويه , عن ابن المجلد , وزاد : وأوتر بثلاث. [الجزء التاسع من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة: 576) » من حديث أبي محمد الخلال الحافظ عن شيوخه » رقم الحديث: 27] (اسنادہ صحيح و رواتہ ثقات)؛
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان المبارک کی ایک رات باہر تشریف لائے تو لوگوں کو چوبیس رکعتیں (چار فرض اور بیس رکعات تراوىح) پڑھائے۔ اور ابن حيويه کی ابن المجلد سے مروی حدیث میں مزید یہ بھی ہے کہ : اور تین وتر پڑھائے۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَۃُ بْنُ یُوْسُفَ السَّھْمِیُّ حَدَّثَنَا اَبُوْالْحَسَنِ عَلِّیُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ الْقَصْرِیُّ اَلشَّیْخُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤمِنِ اَلْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ؛ اَخْبَرَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدِ الرَّازِیُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُوْنَ حَدَّثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ الْحَنَّازِعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عَتِیْکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ فَصَلَّی النَّاسَ اَرْبَعَۃً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاَوْتَرَ بِثَلَاثَۃٍ ۔ (تارىخ جرجان ص 21)؛
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے ۔لوگوں کو چار رکعات فرض، بیس رکعات نماز(تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھائے۔
حدثنا أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن الزهري [ثقة], نا محمد بن هارون بن حميد الرازي [ثقة], نا إبراهيم بن المختار [مقبول], عن عبد الرحمن بن عطاء [مقبول], عن ابن عتيك [ثقة], عن جابر , أن النبي صلى الله عليه وسلم " خرج ليلة في رمضان فصلى بالناس أربعة وعشرين ركعة " . وحدثنا ابن حيويه , عن ابن المجلد , وزاد : وأوتر بثلاث .
[التاسع من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي » الجزء التاسع من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي (سنة الوفاة: 576) » من حديث أبي محمد الخلال الحافظ عن شيوخه » رقم الحديث: 27]؛
(اسنادہ صحيح و رواتہ ثقات)
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان المبارک کی ایک رات باہر تشریف لائے تو لوگوں کو چوبیس رکعتیں (چار فرض اور بیس رکعات تراوىح) پڑھائے۔ اور ابن حيويه کی ابن المجلد سے مروی حدیث میں مزید یہ بھی ہے کہ : اور تین وتر پڑھائے۔
-----------------------
٣) حدیث: انہ ﷺ صلی بالناس عشرین رکعة لیلتین فلما کان فی اللیلة الثالثہ اجتمع الناس فلم یخرج اليہم، ثم قال من الغد وخشیت ان تفرض عليکم فلا تطیقوھا متفق علی صحتہ۔ (تلخیص الحبیر ج1ص21 المکتبہ الاثرىہ)؛
ترجمہ: آپ ﷺ نے صحابہ کو بیس رکعات تراوىح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپﷺ باہر تشریف نہیں لائىں پھر آپﷺ نے دوسرے دن فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (تراویح) فرض نہ کر دی جائے پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔
بیس (٢٠) رکعت تراویح خلیفہ دوئم حضرت عمربن خطابؓ کے دور میں
١) عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : " كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً ، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ " .[مسند علی بن جعد » مِنْ أَخْبَارِ زُهَيْرٍ، رقم الحديث: 2482 - ص413‘ الحدیث2825(2926)]؛
ترجمہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیس رکعات (نماز تروایح ) پابندی سے پڑھتے اور قرآن مجید کی دو سوآیات پڑھتے تھے۔
٢) قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ نَا ھُشَیْمٌ اَنَا یُوْنُسُ بْنُ عُبَیْدٍ عَنِ الْحَسَنِ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلٰی اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فِیْ قِیَامِ رَمْضَانَ ،فَکَانَ یُصَلِّیْ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً۔[ابو داود ج1ص202، سیر اعلام النبلا ج1ص400، جامع المسانید والسنن للحافظ ابن کثیر ج1ص55]؛
عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ اَمَرَ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ اَنْ یُّصَلِّیَ بِاللَّیْلِ فِیْ رَمْضَانَ فَقَالَ اِنَّ النَّاسَ یَصُوْمُوْنَ النَّھَارَ لَایُحْسِنُوْنَ اَنْ یَّقْرَأُ وْا فَلَوْقَرَأتَ الْقُرْآنَ عَلَیْھِمْ بِاللَّیْلِ فَقَالَ: یَااَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ! ہٰذَا شَیْیٌٔ لَمْ یَکُنْ۔ فَقَالَ؛ قَدْعَلِمْتُ وَلٰکِنَّہٗ اَحْسَنُ۔ فَصَلّٰی بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً۔
(اتحاف الخیرۃ المہرۃ علی المطالب العالیہ ج2ص424)
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز(تراویح) پڑھاؤں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ’’لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں اور (رات) قرأت (قرآن) اچھی نہیں کرتے۔ تو قرآن مجید کی رات کو تلاوت کرے تو اچھا ہے۔‘‘ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے امیر المومنین! یہ تلاوت کا طریقہ پہلے نہیں تھا ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میں جانتا ہوں لیکن یہ طریقہ تلاوت اچھا ہے۔‘‘تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعات نماز (تروایح) پڑھائی۔
(اتحاف الخیرۃ المہرۃ علی المطالب العالیہ ج2ص424; أخرجه ضياء الدين المقدسي في المختارة 3/ 367 رقم 1161, وقال محققه عبدالملك الدهيشي إسناده حسن- وكنز العمال 8/409/3471
٤) عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الصَّلاةِ فيِ رَمَضَانَ, رقم الحديث: 251]
امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.[موطا امام مالک: ٢/١٥٥]؛
بیس (٢٠) رکعت تراوىح اور فقہِ مالکی
قاضی ابوالولید ابن رشد مالکی (متوفی ۵۹۵ھ) بدایة المجتہد میں لکھتے ہیں:
“واختلفوا فی المختار من عدد الرکعات التی یقوم بھا الناس فی رمضان فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفة والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعة سوی الوتر، وذکر ابن القاسم عن مالک انہ کان یستحسن ستًا وثلاثین رکعة والوتر ثلاث۔”(بدایة المجتہد ج:۱ ص:۱۵۶، مکتبہ علمیہ لاہور)؛
ترجمہ:…”رمضان میں کتنی رکعات پڑھنا مختار ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک نے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور داوٴد نے وتر کے علاوہ بیس رکعات کو اختیار کیا ہے، اور ابنِ قاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ وہ تین وتر اور چھتیس رکعات تراویح کو پسند فرماتے تھے۔”
مختصر خلیل کے شارح علامہ شیخ احمد الدردیر المالکی (متوفی ۱۲۰۱ھ) لکھتے ہیں:
“وھی (ثلاث وعشرون) رکعة بالشفع والوتر کما کان علیہ العمل (ای عمل الصحابة والتابعین، الدسوقی)۔
(ثم جعلت) فی زمن عمر بن عبدالعزیز (ستًا وثلاثین) بغیر الشفع والوتر لٰکن الذی جری علیہ العمل سلفًا وخلفًا الأوّل۔”
(شرح الکبیر الدردیر مع حاشیة الدسوقی ج:۱ ص:۳۱۵)
ترجمہ:…”اور تراویح، وتر سمیت ۲۳ رکعتیں ہیں، جیسا کہ اسی کے مطابق (صحابہ و تابعین کا) عمل تھا، پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں وتر کے علاوہ چھتیس کردی گئیں، لیکن جس تعداد پر سلف و خلف کا عمل ہمیشہ جاری رہا وہ اوّل ہے (یعنی بیس تراویح اور تین وتر)۔”
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ الْبَیْہَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْعَبْدِاللّٰہِ الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ فَنْجَوَیْہِ الدِّیْنَوْرِیُ بِالدَّامَغَانِ ثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ السَنِیُّ اَنْبَأَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِالْبَغْوِیُّ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِاَنْبَأَ اِبْنُ اَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ یَّزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلٰی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاِنْ کَانُوْا لَیَقْرَؤُوْنَ بِالْمِئَیْنِ وَکَانُوْا یَتَوَکَّئُوْنَ عَلٰی عَصِیِّھِمْ فِیْ عَہْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّۃِ الْقِیَامِ۔(سنن الکبری للبیہقی ج2ص496)
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان شریف میں بیس رکعات (نماز تراویح) پابندی سے پڑھتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی دو سو آیات تلاوت کرتے تھے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ قیام کے (لمبا ہونے کی وجہ سے ) اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
بیس (٢٠) رکعت تراویح خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیؓ کے دور میں
لفظ "تراویح" کا ثبوت
١) رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ الْہَاشْمِیُّ فِیْ مُسْنَدِہٖ کَمَا حَدَّثَنِیْ زَیْدُ بْنُ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ اَنَّہٗ اَمَرَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الْقِیَامِ فِیْ شَہْرِ رَمْضَانَ اَنْ یُّصَلِیَّ بِھِمْ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَیُرَاوِحَ مَابَیْنَ کُلِّ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ۔ (مسند الامام زید بن علی ص158)؛
ترجمہ: حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو حکم دیا جو لوگوں کو رمضان شریف کے مہینہ میں نماز (تراویح) پڑھاتے تھے کہ وہ ان کو بیس رکعات نماز (تراویح) پڑھائیں! ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرے اور ہر چار رکعتوں کے درمیان آرام کے لیے کچھ دیر وقفہ کرے.
[مسند زيد » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَابُ الْقِيَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، رقم الحديث: ١٥٥
نوٹ: ایک ترویحہ چار رکعات کا ہوتا ہے ۔
٢) عن ابی الحسنا ان علیا امر رجلا ان یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعة (مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393)؛
ترجمہ : حضرت ابو الحسناؒ سر مروی ہے ہے کہ حضرت علی ؓ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات (تراویح) پڑھایا کرے۔
٣) عن ابی الخصیب قال: کان یومنا سوید بن غفلة فی رمضان فیصلی خمس ترویحات عشرین رکعة۔” (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶)؛
ترجمہ:…”ابوالخصیب کہتے ہیں کہ: سعید بن غفلہ ہمیں رمضان میں نماز پڑھاتے تھے، پس پانچ ترویحے بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔”
[السنن الکبریٰ للبیھقی: کتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، رقم الحديث: 4619]
٤) قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُکَیْنٍ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عُبَیْدٍ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ رَبِیْعَۃَ کَانَ یُصَلِّیْ بِھِمْ فِیْ رَمْضَانَ خَمْسَ تَرْوِیْحَاتٍ وَّیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص285)
ترجمہ: حضرت علی بن ربیعہ رحمہ اللہ رمضان شریف میں لوگوں کو پانچ ترویحے (بیس رکعات نماز تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَااِبْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ عَنْ عَطَآئٍ قَالَ اَدْرَکْتُ النَّاسَ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ ثَلَاثاً وَّعِشْرِیْنَ رَکْعَۃًبِالْوِتْرِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے (صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ جیسے) لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ عَنِ الْحَارِثِ اَنَّہٗ کَانَ یَؤُمُّ النَّاسَ فِیْ رَمْضَانَ بِاللَّیْلِ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَیُوْتِرُ بِثَلَاثٍ وَیَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص285)
ترجمہ: حضرت حارث رحمہ اللہ لوگوں کو رمضان شریف میں بیس رکعات نماز (تراویح) اورتین وتر باجماعت پڑھاتے تھے اور (دعائے) قنوت (جو کہ وتر میں پڑھی جاتی ہے ) رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔
بیس (٢٠) رکعت تراویح اور مفتی سعودی عرب؛
سعودیہ کے مشہور عالم علامہ ابن باز رح کہتے ہیں کہ ''20 رکعت تراویح حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا عمل ہے، نہ یہ ناقص ہے بلکہ یہ سنت میں سے ہے اور خلافائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے'' (مجموعہ فتاوی و مقاولات علامہ ابن باز، جلد 11 صفحہ 325
یہ فتوی سعودی عرب کے بہت بڑے سلفی شيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ کا فتوی آپ نے ملاحظہ کیا ، شیخ سے تراویح کی تعداد کے بارے سوال ہوا تو شیخ نے جواب دیا کہ أكثر أهل العلم جیسے امام احمد امام شافعی امام ابوحنیفہ کا مذهب یہ ہے کہ تراویح کی تعداد بیس رکعات ہیں ، کیونکہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے جب لوگوں کو حضرب أبيّ بن کعب رضی الله عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وه لوگوں کو تمام صحابہ کی موجودگی میں بیس رکعت تراویح پڑهاتے تهے ، لہذا ان کا یہ عمل اجماع کی طرح هے ، اورآج تک لوگوں کا اسی پرعمل هے الخ
سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ رحمه الله تعالى
مفتي المملكة العربية السعودية رحمه الله
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
من محمد بن إبراهيم إلى الأخ المكرم \ ع . ج . سلمه الله تعالى ، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، وبعد : فقد وصلنا كتابك الذي تسأل فيه بما نصه :
وبعد:
فأفتونا جزاكم الله عنا أحسن الجزاء ، عن صلاة التراويح : كم عدد ركعاتها ؛ لأن المتبع لدينا كنا نصليها عشرين ركعة ، ولكن المرشدين اليمنيين ، من قبل فضيلة الشيخ عبد الملك بن إبراهيم آل الشيخ ، للقيام بالوعظ والإرشاد بهذه الجهة قرروا أن صلاة التراويح هي من الوتر إحدى عشرة ركعة فقط ، مستندين في ذلك بما جاء في الحديث المروي عن عائشة ء رضي الله عنها . حيث قالت : ’’ ما كان الرسول ء صلى الله عليه وسلم ء يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة ‘‘ .(..1.). إلخ .
وحيث قد أشكل علينا الأمر ، ونظرا لقرب شهر رمضان ، المبارك فإنا نلتمس من سماحتكم إرشادنا إلى إيضاح عدد ركعات هذه الصلاة ، وتعميم الفتوى الصادرة من سماحتكم في هذا القبيل لكافة الهيئات الدينية ، مع التكرم بإعطائنا نسخة بهذه الفتوى لنكون جميعا على حقيقة من الأمر .
الجواب : الحمد لله . ذهب أكثر أهل العلم كالإمام أحمد والشافعي وأبي حنيفة إلى أن صلاة التراويح عشرون ركعة ؛ لأن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبي بن كعب كان يصلي بهم عشرين ركعة ، وكان هذا بمحضر من الصحابة ، فيكون كالإجماع ، وعلى هذا عمل الناس اليوم الآن . فلا ينبغي الإنكار عليهم ، بل يتركون على ما هم عليه ؛ لأنه قد ينشأ من الإنكار عليهم وقوع الاختلاف والنزاع وتشكيك العوام في سلفهم ، ولا سيما في هذه المسألة ، التي هي من التطوع ، والأمر فيها واسع ، وزيادة التطوع أمر مرغوب فيه ، ولا سيما في رمضان ، لحديث : ’’ أن رجلا قال يا رسول الله أسألك مرافقتك في الجنة ؟ قال : فأعني على نفسك بكثرة السجود ‘‘ .(.2.). وإذا كان من عادة أهل بلد فعل صلاة التراويح على وجه آخر ، مما له أصل شرعي ، فلا وجه للإنكار عليهم أيضا . والمقصود من ذلك كله هوالبعد عن أسباب الشقاق والنزاع في أمر فيه سعة .
وقد لاحظ الرسول ء صلى الله عليه وسلم ء هذا ، وترك أمرا عظيما ، مخافة ما يقع في قلوب الناس ، كما جاء في حديث عائشة : ’’ لولا حدثان قومك بالكفر ‘‘ .(.3.). الحديث ، وترجم البخاري في هذا المعنى فقال : ’ باب من ترك بعض الاختيار ، مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه‘ وساق حديث عائشة : ’’ لولا حدثان قومك بالإسلام لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين ‘‘ .(.3.).الحديث . وقال علي : ’’ حدثوا الناس بما يعرفون ، أتحبون أن يكذب الله ورسوله ‘‘ . وفي رواية : ’’ ودعوا ما ينكرون ‘‘ . وقال ابن مسعود رضي الله عنه .(.الخلاف شر .). وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين .
.(.1.). صحيح البخاري الجمعة .(.1096.).،سنن الترمذي الصلاة .(.439.).،سنن النسائي قيام الليل وتطوع النهار .(.1697.).،سنن أبو داود الصلاة .(.1341.).،مسند أحمد بن حنبل. (.6/73.).،موطأ مالك النداء للصلاة. (..265).۔
.(.2.).صحيح مسلم الصلاة .(.489.).،سنن النسائي التطبيق .(.1138.).،سنن أبو داود الصلاة. (.1320.).
.(.3.).صحيح البخاري الحج .(.1509.). ،صحيح مسلم الحج .(.1333
ia600708.us.archive.org/35/items/Ahnafmedia-Posters_280/20Traveh.jpg
بیس رکعات تراویح اہل سنت والجماعت کی علامت ہے
تراویح ترویحة کی جمع ہے۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (۲۰) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه، وجمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔
فقہِ شافعی اور بیس (٢٠) رکعت تراویح؛
وقد قال الشافعي رحمه الله في كتابه الأم:ج1ص142 ما نصه؛
"ورأيتهم بالمدينة يقومون بتسع وثلاثين، وأحب إلى عشرين لأنّه روي عن عمر، وكذلك يقومون بمكة، ويوترون بثلاث".
ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعیؒ فرماتے ہیں کہ : میں نے مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) انتالیس (٣٩) رکعت پڑھتے ہیں اور مجھے بیس (٢٠) رکعت (ماہ رمضان میں قیام یعنی تراویح) پسند ہے بیشک وہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے. اور اسی طرح مکّہ والے بھی قیام کرتے، اور وتر پڑھتے تین (رکعت).
[كتاب الأم للإمام الشافعي : كتاب الصلوة ، باب في الوتر ، صفحه # ١٠٥
محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) المجموع شرح مہذب میں لکھتے ہیں؛
“(فرع) فی مذاھب العلماء فی عدد رکعات التراویح مذھبنا انھا عشرون رکعة بعشر تسلیمات غیر الوتر وذالک خمس ترویحات والترویحة اربع رکعات بتسلیمتین ھذا مذھبنا وبہ قال ابوحنیفة واصحابہ واحمد وداود وغیرھم ونقلہ القاضی عیاض عن جمھور العلماء وحکی ان الأسود بن یزید رضی الله عنہ کان یقوم بأربعین رکعة یوتر بسبع وقال مالک التراویح تسع ترویحات وھی ستة وثلاثون رکعة غیر الوتر۔” (مجموع شرح مہذب ج:۴ ص:۳۲)؛
ترجمہ:…”رکعاتِ تراویح کی تعداد میں علماء کے مذاہب کا بیان، ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں، دس سلاموں کے ساتھ، علاوہ وتر کے۔ یہ پانچ ترویحے ہوئے، ایک ترویحہ چار رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام احمد اور امام داوٴد وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں، اور قاضی عیاض نے اسے جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ اسود بن یزید اکتالیس تراویح اور سات وتر پڑھا کرتے تھے، اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: تراویح نو ترویحے ہیں، اور یہ وتر کے علاوہ چھتیس رکعتیں ہوئیں۔”
امام غزالی (450 - 505 ھ) تراویح کی نماز ٢٠ رکعت سنّت موکدہ فرماتے ہیں. [احیاء العلوم : ١/٣٦٨]؛
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعب رضى الله عنه نے) بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی۔ (اسنادہ حسن، المختارہ للضیاء المقدسی ۱۱۶۱)؛
(۲) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔ (الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)
(۳) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمة الله عليه نے یزید بن خصیفہ رحمة الله عليه کے طریق سے حضرت سائب بن یزید رضى الله عنه سے بیس (۲۰) رکعات نقل کی ہے۔ (فتح الباری)
(۴) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه تلخیص الحبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کرنہ سکو۔
بیس (۲۰) رکعات تراویح پر صحابہ وعلماء امت کا اجماع ہے۔
(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی۔ (صحیح ابن حبان)؛
(۲) حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات پڑھا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی، آثار السنن ۶/۵۵)؛
(۳) امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکّہ مکرمہ میں بیس (۲۰) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ (الاُم وسنن ترمذی)؛
امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (۲۰) رکعات ہے۔ (سنن ترمذی)؛
(۵) علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)؛
(۶) علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه (متوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات تراویح سنت ہے۔ (بدایة المجتہد ج:۱ ص:۱۵۶، مکتبہ علمیہ لاہور)؛
(۷) علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (۲۰) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا۔ (المغني لابن قدامة)؛
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (۲۰) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (۲۰) رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)؛
بیس (٢٠) رکعت تراویح پر اجماع
علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں:
تو نماز تراویح سنّت ہے اجماع علماء سے ، اور ہمارا (شافعی) مذھب (بھی) یہ ہے کہ وہ بیس (٢٠) رکعت ہے دس (١٠) سلام سے اور جائز ہے انفرادی طور پر اور جماعت سے بھی. اور ان دونوں میں افضل کیا ہے؟ ... (صحیح قول کے مطابق) ساتھیوں کے اتفاق سے جماعت افضل ہے.[المجموع شرح مہذب : ٣/٥٢٦]؛
امام ابن تیمیہ (حنبلی) اور مسئلہ تراویح
جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے، تو امام ابن تیمیہ رح نے حضرت عمر (رض) کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ؛
ترجمہ: اگر عمر (رض) کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی (رض) اس کو ختم کردیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے. بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر(رض) کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی (رض) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رض) کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لئے ہماری مسجد کو روشن کردیا.(اسد الغابہ:٤/١٨٣؛ غنیۃ الطالبین:۴۸۷۔ موطا محمد،باب قیام شھر رمضان:۱/۳۵۵شاملہ)
ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (٢٠) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے.(السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦)
[مہاج السنّہ : ٢/٢٢٤، اردو ترجمہ پروفیسر غلام علی الحریری]
ترجمہ: تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (٢٠) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت"ہے، اس لئے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی.(مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض)
بیس (20) ركات تراويح پر اجماع صحابہ اہل حدیث کے گھر کی گواہی (فتاویٰ نذیریہ : 1/634]؛
استاذ الاساتذہ مجاہد آزادی شیخ محمود حسن قاسمی دیوبندی رحمة الله عليه فرزند اوّل و سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (۲۰) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے۔ جب انھوں نے بیس (۲۰) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (۲۰) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے۔
(مزید تفصیل و دلائل کے لئے راقم کی کتاب ”تراویح سنت کے مطابق پڑھئے“ کا مطالعہ کریں۔ ملنے کا پتہ مکتبہ شفیع، رضیة الابرار، سلمان آباد،
بھٹکل۵۸۱۳۲۰)؛
وقال العلامة محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله ، لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة فى التراويح وعليه جمهور الصحابة الخ
أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين‘‘ فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة... واستقر الأمر على عشرين ركعة. اھ۔
[العَرف الشذي شرح سنن الترمذي جلد 2 صفحہ 208]
: ترجمہ : امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے الخ
اورایک دوسرے مقام پر امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله نے فرمایا کہ حضرت فاروق الأعظم رضی الله عنه کا یہ فعل سنت ہے اوراسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے الخ
معترضین کے دلائل کی حیثیت
آٹھ رکعت تراویح سنّت نبوی نہیں
آج کل ایک چھوٹا سا طبقہ قرآن و حدیث کے نام پر لوگوں کو ائمہ اور ان کی فقہ (دینی سمجھ و تفسیر) کے خلاف گمراہ کرتے، تہجد اور تراویح نماز کا ایک ہونا ثابت کرنے کی بھونڈی و ناکام کوشش کرتے اس حدیث کو ٨ رکعت تراویح کے لئے پیش کرتے ہیں:
١) عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : " كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا ، فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ، قَالَ : يَا عَائِشَةُ ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".[صحيح البخاري » رقم الحديث: 1883 ؛ صحيح مسلم » رقم الحديث: ١٢٢٥]؛
ترجمہ : حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں کتنی رکعت نماز پڑھتے تھے؟۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان اور غیر (رمضان) میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے آپ چار رکعت پڑھتے تھے اس کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو پھر چار رکعت نماز پڑھتے تھے تم ان کی خوبی اور درازی کی کیفیت نہ پوچھو اس کے بعد تین رکعت پڑھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں۔ فرمایا میری آنکھ سو جاتی ہے لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔
یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے کہ (١) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں رمضان ((اور غیر رمضان)) میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کا ذکر ہے چار، چار اور تین۔[بخاري : 1883 ؛ مسلم : 1225] اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کا ذکر ہے،[مسلم : 1228] اور ایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳) رکعات پڑھنے کا ذکر ہے[مسلم : 1223] اور ایک صحیح حدیث میں نو (۹) رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔[مسلم : 1226] حضرت عائشہ کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض (باہم ٹکراتی) ہیں۔ ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کا ترک لازم آئے گا؛ لہٰذا ان حدیثوں کی توجیہ و تاویل کرنی ضروری ہوگی۔ علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں، جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲) رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔ اورایک مرسل حدیث میں سترہ (۱۷) رکعات پڑھنا مذکور ہے۔(مصنف عبدالرزاق: ۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پر اصرار کرنا اور باقی حدیثوں کا ترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔ (۲) حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی اس روایت میں "أتنام قبل أن توتر" کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ سو کراٹھنے کے بعد نماز ادا فرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بستر کے قریب نہیں آتے تھے) [صحيح ابن خزيمة : 2070] نیز حضرت ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھانا ثابت ہے؛ لہٰذااس حدیث کو تراویح پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ (۳) حضرت عائشہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادا فرما کر آرام فرمایا، جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثر مسجد میں ((جماعت)) سے نماز پڑھنے کا ذکر ملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ (۱۱) رکعات کی اس حدیث کو تراویح سے جوڑنا، اور بیس (۲۰) رکعات کی نفی میں اس حدیث کو پیش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (۴) حدیث کے مطابق اس نماز کے بعد وتر بھی اسی کی طرح اکیلے ہی پڑھتے، جبکہ یہ لوگ اسی حدیث کے خلاف خود وتر بھی جماعت سے پڑھتے ہیں، کیوں ؟؟؟ (٥) حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱) رکعات کی روایت کے اخیر میں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیر آپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غور ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ نماز وتر ہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو (۹) رکعات وتر پڑھ کر دو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ (٦) اس حدیث میں ((فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ)) کے الفاظ یعنی رمضان اور غیر (رمضان) میں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ نماز تہجد ہے، چونکہ یہ آپ رمضان میں بھی پڑھتے تھے، اسی لئے اس حدیث کو امام بخاری رح ((كتاب التهجد)) میں بھی لائیں ہیں اور ((كِتَاب : صَلَاةِ التَّرَاوِيحِ)) میں بھی لائیں ہیں، کیونکہ آپ بھی ان دونوں کو الگ الگ نماز سمجھتے جو آپ کے عمل سے بھی واضح ہوتا ہے.
امام بخاری رحمہ الله بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے؛
چناچہ امام ابن حجر العسقلاني (773 هـ - 852 هـ) رح [هدي الساري مقدمة فتح الباري شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥] میں لکھتے ہیں، اور جسے غیرمقلد (اہل_حدیث) علامہ وحید الزمان بھی اپنی کتاب [تیسیر الباری شرح بخاری: ١/٤٩] نقل کرتے ہیں کہ : "امام حاکم ابو عبدالله نے بسند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمّد بن اسماعیل"بخاری"جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے، وہ نماز_تراویح پڑھاتے اور ہر رکعت میں بیس (٢٠) آیات یہاں تک کے کہ قرآن ختم کرتے پھر سحر کو (نماز_تہجد میں) نصف سے لیکر تہائی قرآن تک پڑھتے اور تین راتوں میں قرآن ختم کرتےاور دن کو ایک قرآن ختم کرتے اور وہ افطار کے وقت ختم ہوتا تھا
هدي الساري مقدمة فتح الباري- شرح بخاری:صفحہ # ٥٠٥، ذکر و سيرته و شمائله و زهده و فضائله]
ویسے تو یہ بخاری بخاری چلاتے ہیں، لیکن اپنا مسلک ثابت کرنے کے لئے بخاری کو چھوڑ کر ((مسلم)) کی طرف چلے، مسلم کی اس حدیث میں سرے سے تراویح کا ذکر ہی نہیں، تہجد کا ذکر ہے جس کا کون منکر ہے؟ لہذا موضوع سے ہی خارج ہے.
اور اس حدیث پر خود ان کا بھی عمل نہیں اس لئے کہ خود ترجمہ یہ کیا ہے کہ "فجر کی اذان تک" یہ نماز جس کو خود تراویح کہہ رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پڑھتے تھے، جبکہ آج خود عشاء کی نماز کے فوراً بعد آٹھ (٨) رکعت پڑھ کر نیند کے مزے لیتے ہیں. صحیح حدیث پر تو ان کا بھی عمل نہیں ہم سے گلا کس بات کا؟؟؟
تہجد کو محدثین نے کتب حدیث میں ((قیام الیل)) یعنی رات کی نماز، اور تراویح کو ((قیام الیل فی رمضان)) یعنی رمضان میں رات کی نماز، کے الگ الگ ابواب سے ذکر کیا ہے ، اور یہ دونو جدا جدا نمازیں ہیں. چناچہ مشھور غیر-مقلد-اہل_حدیث علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں: "وأما قيام اليل فهو غير قيام رمضان"(نزل الأبرار: ص ٣٠٩)؛
يعني: قیام الیل، قیام رمضان کے علاوہ ہے؛
تراویح اور تہجد کا وقت بھی جدا جدا ہے، چناچہ فتاویٰ علماۓ حدیث (٦:٢٥١) میں ہے کہ: تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد"اول" شب کا ہے اور تہجد کا "آخر" شب کا ہے؛
مولانا ثناء الله امرتسری لکھتے ہیں: تہجد کا وقت صبح سے پہلے کا ہے، اول وقت میں تہجد نہیں ہوتی(فتاویٰ ثناءیہ: ١/٤٣١)؛
محدثین کی طرح فقہاء کرام بھی تراویح اور تہجد کو علیحدہ علیحدہ نماز سمجھتے اور کتب_حدیث کی طرح کتب_فقہ میں بھی الگ الگ ابواب میں ذکر کرتے ہیں؛
تہجد اور تراویح میں فرق کا ثبوت
تراویح سنّت ہے اور تہجد نفل نماز ہے؛
تہجد کی مشروعیت قرآن سے "نفل" ثابت ہے: "اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ یہ نفل (زیادتی/اضافی) ہے تیرے لیے"(١٧:٧٩) جبکہ نماز_تراویح کی :مشروعیت "سنّت" ہونا حدیث سے ثابت ہے، حدیث : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ ، فَمَنْ صَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ؛ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ " .
[امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امداىہ]
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراویح) سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (تراویح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے۔
فائدہ : یہ سنّت نماز (تراویح) بھی روزہ کی طرح رمضان کی خاص عبادات میں سے ہے.
قرآن : یعنی اور جو دے تم کو رسول سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو (٥٩/٧)؛
=======================================================٢) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ سَمَّاهُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِؓ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ کعبؓ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا ، قَالَ : " مَا هُوَ ؟ " ، قَالَ : نِسْوَةٌ مَعِي فِي الدَّارِ قُلْنَ لِي : إِنَّكَ تَقْرَأُ وَلَا نَقْرَأُ ، فَصَلِّ بِنَا ، فَصَلَّيْتُ ثَمَانِيًا وَالْوَتْرَ ، قَالَ : فَسَكَتَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فَرَأَيْنَا أَنَّ سُكُوتَهُ رِضًا بِمَا كَانَ " .
[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 20626]
ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہؓ سے بحوالہ ابی بن کعبؓ مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج رات میں نے ایک کام کیا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا میرے ساتھ گھر میں جو خواتین تھیں وہ کہنے لگیں کہ آپ قرآن پڑھنا جانتے ہو ہم نہیں جانتیں لہٰذا آپ میں نماز پڑھاؤ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیئے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی مذکورہ واقعے پر رضا مندی کی دلیل تھی۔
حقیقت؛
١) "قیام اللیل" کی سند میں مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ ، قمي اور عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضعیف ہیں ؛ اور "مسند احمد" مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ تو نہیں رَجُلٌ سَمَّاهُ ہے یعنی مبہم (نہ معلوم) راوی ہے اور باقی وہی دونوں قمي اور عِيسَى یھاں بھی ہیں، پس اصولِ حدیث کے اعتبار سے یہ حدیث نہایت ضعیف ہے، اور ہیثمی کا اسے حسن کہنا خلافِ دلیل ہے
٢) یہ روایت تین کتابوں میں ہے : "مسند احمد" میں تو سرے سے رمضان کا ذکر ہی نہیں، "ابو یعلیٰ" کی روایت میں ((یعنی رمضان)) کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فہمِ راوی ہے نہ کہ روایتِ راوی ، "قیام اللیل" میں فی رمضان کا لفظ ہے جو کسی راوی تحتانی کا ادراج ہے، جب اس حدیث میں فی رمضان کا لفظ ہی مُدرج ہے تو اس کو تراویح سے کیا تعلق رہا.
٣) "ابو یعلیٰ" اور "قیام اللیل" سےظاہر ہے کہ یہ واقعہ خود حضرت ابی بن کعب کا ہے، مگر "مسند احمد" سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کسی اور شخص کا ہے اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ راوی اس واقعہ کو کماحقہ ضبط نہیں کر سکے.(یعنی ضبط راوی میں بھی ضعف ثابت ہوا)؛
٤) پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹھ رکعت پڑھنے والا (قيام الليل کی روایت میں) کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ اور (مسند احمد کی روایت میں کہتا ہے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَمِلْتُ اللَّيْلَةَ عَمَلًا اس سے معلوم ہوا کہ اسی ایک رات اس نے آٹھ پڑھی تھیں پہلے کبھی یہ عادت نہ تھی اسی لیے وہ کہتا ہے کہ یہ انوکھا کام میں نے آج رات ہی کیا ہے ورنہ آٹھ میری عادت نہیں اور نہ میں اسے سنّت سمجھتا ہوں. حضورؐ خاموش رہے ورنہ آٹھ رکعت سنّت ہوتی تو آپؐ خاموش کیوں رہتے ، فرماتے تم گھبرا کیوں رہے ہو یہ تو سنّت ہے. معلوم ہوا کہ عہدِ نبویؐ میں کوئی شخص بھی آٹھ رکعت تراویح کو سنّت نہیں سمجھتا تھا، آپؐ نے خاموش رہ کر آٹھ کے سنّت نہ ہونے کی تقریر فرمادی جس سے کسی خاص حالت میں نفس جواز (اس کا صرف جائز ہونا) معلوم ہوا وہ بھی بعد میں اجماعِ صحابہؓ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ختم (منسوخ) ہوگیا.
نوٹ: ہم اس آٹھ (٨) رکعت والی حدیث جابر سے زیادہ بہتر اور مضبوط سند بیس (٢٠) رکعت تراویح کے ثبوت میں حضرت جابر سے ہی دوسری حدیث نبوی بیان کر چکے ہیں، لہذا جب صحیح سند اس کے خلاف وہ بھی ان ہی صحابی سے مروی حدیث ثابت ہے تو آٹھ (٨) رکعت کو سنّت اور بیس (٢٠) رکعت کو بدعت کہنا بلا دلیل ہی نہیں بلکہ خلاف (صحیح) دلیل ہے؛
(جاری ہے)
بیس (20) رکعت تراویح کا ثبوت کتب شیعہ سے
١) حضرت سیدنا علی المرتضى، حضرت سیدنا عثمان غنی ذو النورین کے دور خلافت میں گھر سے نکلے مسجد میں لوگوں کو جمع ہوکر نماز تراویح پڑھتے ہوۓ دیکھ کر ارشاد فرمایا : اے الله حضرت عمر کی قبر انور کو منور فرما جس نے ہماری مسجدوں کو منور کردیا.[شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید: ٣/٩٨]؛
٢) حضرت سیدنا امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز کو بڑھا دیتے تھے. عشاء کی (فرض) نماز کے بعد نماز کے لئے کھڑے ہوتے، لوگ پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھتے، اس طرح کے کچھ وقفہ کیا جاتا. پھر اس طرح حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے.[فروع کافی : ١/٣٩٤ - طبع نولکشور، ٤/١٥٤ - طبع ایران]؛
شیعہ کی کتاب من لایحضر الفقیہ میں بھی بیس (٢٠) رکعت تراویح کا ذکر ہے [من لایحضر الفقیہ : ٢/٨٨]؛
٣) حضرت امام جعفر صادق بھی رمضان مبارک کے مہینہ میں اپنی نماز میں اضافہ کردیتے تھے، اور روزانہ معمول کے علاوہ بیس رکعت نماز نوافل (مزید) ادا فرماتے تھے.[الاستبصار ١/٢٣١-طبع نولکشور، ١/٤٦٢-طبع ایران]؛
اسی لیے امام قرطبی (المتوفى : 463هـ) (اس حدیث کا حکم) فرماتے ہیں : قال القرطبي : أشكلت روايات عائشة على كثير من العلماء حتى نسب بعضهم حديثها إلى الاضطراب ، وهذا إنما يتم لو كان الراوي عنها واحداً أو أخبرت عن وقت واحد . [فتح الباری شرح صحیح البخاری ، لامام ابن حجر : ٣/١٧، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، علامہ عینی : 11/294 ، شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك: ، شرح الزرقاني علي المواهب اللدنيه : 1/549]؛
ترجمہ : "مشتبہ ہوئیں حضرت عائشہ کی روایات بہت ہی زیادہ علماء پر حتاکہ منسوب کیا ان میں سے بعض نے اس حدیث کو اضطراب کی طرف (یعنی مضطرب حدیث کہا)"؛
مضطرب حدیث
جو ثقہ (قابل اعتماد) راویوں کی صحیح سند (راویوں کے سلسلہ) سے مذکور تو ہو، لیکن اس کی سند (راویوں کے سلسلہ) یا متن (الفاظ حدیث) میں ایسا اختلاف ہو کہ اس میں کسی کو ترجیح یا تطبیق (جوڑ) نہ دی جا سکے؛