Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 19:39:25 GMT 5.5
مکہ مدینہ والوں سے غیرمقلدین کےاختلافات
مکہ اور مدینہ والوں کا نظریہ
مکہ مدینہ والے اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے قائل ہیں۔
(مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل بحوالہ شرعی فیصلے ص648،تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں ص171)
مکہ مدینہ والے قیاس شرعی کے قائل ہیں۔
(فتاویٰ ابن تیمیہ ج19ص762 بحوالہ شرعی فیصلے) 3.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک ہر ایک کو اجتہاد کا حق نہیں۔
( شرعی فیصلے ص134،تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں ص98) 4.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک غیر مجتہد کے لئے اجتہاد حرام اور تقلید واجب ہے۔
(شرعی فیصلے ص157) 5.
مکہ مدینہ والے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ۔
(سیرت شیخ محمد بن عبدالوہاب ص56 ،مکتوب الشیخ السبیل بحوالہ شرعی فیصلے ص217،تاریخ وہابیت ص 98) 6.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک تمام مقلدین حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی اہلسنت والجماعت فرقہ ناجیہ ہیں۔
( شرعی فیصلے ص653،تاریخ وہابیت ص97) 7.
مکہ مدینہ والے فقہ کے قائل ہیں ۔
( شرعی فیصلے ص320،تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں ص174) 8.
مکہ مدینہ میں فقہی نظام رائج ہے۔
(ترجمان وہابیہ ص 322،تاریخ وہابیت ص67) 9.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرح سنت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم بھی دین کا حصہ ہے۔ 10.
مکہ مدینہ والے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معیار حق تسلیم کرتے ہیں ۔ 11.
مکہ مدینہ والے ایصال ثواب کے قائل ہیں ۔
(تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں ) 12.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں حیات ہیں اور صلوۃ وسلام سنتے ہیں۔
(تاریخ وہابیت ص141فتاویٰ ابن تیمیہ ج18 ص 342) 13.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک روضہ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت وخدمت ضروری ہے 14.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہو جاتی ہے
(مجلہ البحوث الاسلامیہ ) 15.
مکہ مدینہ والے تین طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کے قائل ہیں ۔
(مجلہ البحوث الاسلامیہ ) 16.
مکہ مدینہ والے ننگے سر نماز نہیں پڑھتے ،نماز تو کجا بازار میں بھی ننگے سر نہیں گھومتے ہیں۔ 17.
مکہ مدینہ والے ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے ہیں۔ 18.
مکہ مدینہ والے امام نماز فجر ،مغرب اور عشاء میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ با آواز بلند (جہرسے)نہیں پڑھتے اور نہ سنت سمجھتے ہیں۔ 19.
مکہ مدینہ والے سجدوں میں جاتے وقت گھٹنوں سے پہلے زمین پر ہاتھ نہیں رکھتے تھے
(کیفیۃ صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ) 20.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک جلسہ استراحت سنت نہیں اور کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
(کیفیۃ صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) 21.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ۔امام کے پیچھے نہ پڑھنے والے کی نماز درست ہے۔ 22.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک رکوع میں ملنے والے کی رکعت شمار ہوتی ہے ۔ 23.
مکہ مدینہ والے رمضان اور غیر رمضان میں تین رکعت وتر پڑھتے ہیں۔
(الہدی النبوۃ للشیخ محمد صابونی )
مکہ مدینہ والے جمعہ میں دو اذانوں کے قائل ہیں اور اس کو سنت سمجھتے ہیں۔ 24.
مکہ مدینہ والوں کے امام جمعہ کے خطبہ میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنا فخر سمجھتے ہیں۔ 25.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک مسنون تراویح 20 رکعت ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف اور صرف 20رکعت تراویح ہی پڑھی جاتی ہے۔
(رسالہ التراویح للشیخ عطیہ سالم مدرس مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و قاضی مدینہ منورہ ،رسالہ ینابیع لمہر غلام رسول ) 26.
مکہ مدینہ والے نماز جنازہ آہستہ آواز سے پڑھتے ہیں ۔ 27.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک احادیث کی روشنی میں عورتوں اور مردوں کی نماز کے طریقہ میں فرق ہے ۔ 28.
مکہ مدینہ والوں کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام المسلمین ہیں جن کے متبعین قیامت تک رہیں گے ۔
(تاریخ وہابیت حقائق کے آئینے میں)
30 مکہ مدینہ والے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کو نصوص شرعیہ کا فرمانبردار سمجھتے ہیں
فرقہ اہل حدیث (پاک وہند ) کا نظریہ
1 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے منکر ہیں۔
(طریق محمدی ص181،عرف الجادی ص111،آئیے عقیدہ سیکھئے ص273)
2 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )قیاس شرعی کے منکر ہے۔
(معیارالحق ص 131ہدیۃ المہدی ص 82، عرف الجادی ص3،عقیدہ مسلم ص49 ، فتاویٰ ستاریہ ج 1ص 178)
3 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک ہر خواندہ نا خواندہ کو حق اجتہاد وتحقیق حاصل ہے۔
(آئیے عقیدہ سیکھئے ص253)
4 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک غیر مجتہد کے لئے بھی تقلید حرام اور اجتہاد واجب ہے ۔
(مجموعہ رسائل بہاولپور ص19تا 23،عقیدہ مسلم از گوندلوی ص68،دین میں تقلید کا مسئلہ از زبیر علی زئی،آئیے عقیدہ سیکھئے ص290)
5 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک کسی بھی امام کی تقلید حرام اور شرک ہے۔
(الظفر المبین ص17،عقیدہ مسلم از گوندلوی ،طریق محمدی ص 187)
6 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک اللہ کی وسیع وعریض جنت کے مالک صرف وہی اڑھائی ٹوٹروہیں باقی تمام مقلدین ،بدعتی مشرک اور جہنمی ہیں۔
(اعتصام السنۃ ص 7،ہدیۃالمہدی ج1 ص 121،التحقیق فی جواب التقلید ص 311، طریق محمدی ص 16)
7 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند)فقہ کا منکر ہے۔
(ترجمان وہابیہ ص 24،عقیدہ مسلم ص 47پر فقہ کے معنی کی تحریف کردی)
8 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )فقہی نظام کو کفر کا مترادف سمجھتا ہے۔
(التحقیق فی جواب التقلید)
9 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )سنت خلفاء راشدین کا منکر ہے۔
(بدور الاہلہ ج 1 ص 28 ،عرف الجادی ص 101،فتاویٰ نذیریہ ج2ص 196 ،سیرت ثنائی ص 196)
10 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار حق ہونے کا منکر ہے۔
(طریق محمدی ص 87،فتاوی ٰ ثنائیہ ج2 ص 252،فتاویٰ ستاریہ ج2 ص 66)
11 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )ایصال ثواب کا منکر ہے۔
(ترجمان وہابیہ ص162)
12 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور قائلین سماع کو مشرک کہتا ہے ۔
(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص 107،عقیدہ مسلم از گوندلوی ص 355ملخصا،مجموعہ رسائل بہاولپورص 8)
13 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم شرک اور بدعت ہے اور اس کا گرانا واجب ہے ۔
(عرف الجادی ص60، الروضۃ الندیہ ج1ص178، یہ مزار یہ میلے ص16)
14 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کرتا ہے اور بیوی کو شوہر پر حلال سمجھتا ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ ج2 ص 215، فتاویٰ اہل حدیث ج2 ص 505،اہل حدیث کا مذہب ص 95 ، تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق)
15 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )تین طلاقوں کے بعد حلالہ شرعی کا منکر ہے۔
(حلالہ کی چھری)
16 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )ننگے سر نماز پڑھتا ہے اور اسی کو سنت سمجھتا ہے ۔
(محمدی نماز ص172)
17 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )ہمیشہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتا ہے اور اپنے عمل کو سنت سمجھتا ہے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو خلاف سنت اور بے ہودہ فعل سمجھتا ہے۔
(قول حق ص62،صلوۃ النبی ص 157 ،اختلاف امت کا المیہ ص78)
18 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )ہمیشہ نماز فجر،مغرب اور عشاء میں بسم اللہ باآواز بلند پڑھتا ہے اور اسے سنت سمجھتا ہے۔
(صلوۃ الرسول )
19 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )سجدوں میں جاتے وقت ہمیشہ گھٹنوں سے پہلے زمین پر ہاتھ رکھتا ہے اور اسے سنت سمجھتا ہے ۔
(محمدی نماز ص140)
20 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )جلسہ استراحت کو اشد ضروری سمجھتاہے۔
(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز ص83، عرف الجادی ص30)
21 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا فرض ہے بغیر فاتحہ کے مقتی کی نماز باطل ہے ۔
(فتاویٰ نذیریہ ج1 ص398،عرف الجادی ص26)
22 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے بغیر رکوع میں شامل ہونے سے رکعت نہیں ہوتی ۔لہذا وہ رکعت دوبارہ پڑھے ۔
(دستور المتقی ص111،نزل الابرار ج1ص 133،فتاوی نذیریہ ج1 ص 496، عرف الجادی ص26)
23 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )رمضان میں تین اور غیر رمضان میں ایک وتر ادا کرتا ہے۔
(دستور المتقی ص144،عرف الجادی ص 33)
24 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )جمعہ میں صرف ایک اذان کا قائل ہے دوسری اذان کا منکر ہے اس کو بدعت کہتا ہے۔
(فتاویٰ ستاریہ ج 3 ص 87، فتاویٰ علماء ہند ج2ص 179)
25 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک جمعہ کے خطبہ میں خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر کرنا بدعت ہے۔
(ہدیۃ المہدی ج1 ص 110،نزل الابرار ج1ص153)
26 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )20 رکعت سنت تراویح کو بدعت کہتا ہے اور ہمیشہ8 رکعت تراویح پڑھتا ہے۔
(دستور المتقی ص 142،صلوۃ الرسول)
27 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )نماز جنازہ بلند آواز سے جہرا پڑھتا ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص52،فتاویٰ علماء حدیث ج5 ص 152)
28 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک عورتوں اور مردوں کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ فرق کرنے کو دین میں دخل سمجھتے ہیں۔
(دستور المتقی ص151،صلوۃ الرسول)
29 فرقہ اہل حدیث (پاک وہند )کے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ؛ جہمی ،مرجی،بدعتی اور گمراہ تھے۔العیاذباللہ۔
(مجموعہ مقالات پر سلفی کا جائزہ ص548)
30 خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے وہ احکام جو نصوص شرعیہ کے خلاف تھے امت نے ان کو رد کردیا۔
(تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق ص107
القول الصحيح في عدد ركعات التراويح
محمد سعيد عواد المعضادي
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين ، والصلاة والسلام على نبينا محمد ، وعلى آله ، وصحبه أجمعين . أما بعد: فيا أيها المسلمون:
ذكر بن رجب في لطائف المعارف عن النخعي أنه قال إنَّ صوم يوم من رمضان أفضل من ألف يوم ، وتسبيحة فيه أفضل من ألف تسبيحة ، وركعة فيه أفضل من ألف ركعة) 1.
فالذين يقتصر قيامهم في ليالي رمضان على بضع ركيعات فهم ممن خسروا اغتنام هذه التجارة الرابحة ، في زمن أحوج ما تكون فيه أمتنا إلى الفرار إلى الله بكثرة الركوع والسجود والدعاء ؛ ليرد عنها كيد الأعداء، لا أن نلتفت إلى أقوال المخالفين المثبطين لهمم الصالحين من هذه الأمة المغلوبة .
قال تعالى كَلَّا لا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ)2 ، ولنكن كالصحابي ربيعة الأسلمي الذي يقول : كنت أبيت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم آتيه بوضوئه وبحاجته فقال : ((سلني )) فقلت : مرافقتك في الجنة قال : ((أو غير ذلك ؟)) قلت: هو ذاك قال ((فأعني على نفسك بكثرة السجود))3.
وهذه الرسالة أضعها بين أيديكم للتذكير بفعل سيدنا عمر رضي الله عنه الذي جمع الناس في صلاة التراويح على ابن أُبَيّ، ووصيته له بأن يصلي فيهم عشرين ركعة ، فكان ذلك الفعل الذي أجمعت عليه الأمة منذ زمن الخلفاء الراشدين المهديين الذين أوصى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتزام سنتهم مع سنته ، فقال في وصيته صلى الله عليه وسلم (أن تتقوا الله وتتبعوا سنتي وسنة الخلفاء من بعدي الهادية المهدية وعضوا عليها بالنواجذ، واسمعوا لهم وأطيعوا، وإن كل بدعة ضلالة))4.
وهذا استعراض لهذا الإجماع الذي عليه علماء الإسلام وبيان لعدد ركعات صلاة التراويح ، وهو ما عليه الأئمة الأربعة رحمهم الله:
1. أفتت اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء برئاسة الشيخ عبد العزيز بن باز في الفتوى رقم (6148) رداً على من يعترض على أداء صلاة التراويح عشرين ركعة بالقول:
: (صلاة التراويح إحدى عشرة أو ثلاث عشرة ركعة، يسلم من كل ثنتين ويوتر بواحدة أفضل، تأسيا بالنبي صلى الله عليه وسلم ، ومن صلاها عشرين أو أكثر فلا بأس، لقول النبي صلى الله عليه وسلم : ((صلاة الليل مثنى مثنى فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى))5 ، فلم يحدد صلوات الله وسلامه عليه ركعات محدودة ولأن عمر رضي الله عنه والصحابة رضي الله عنهم صلوها في بعض الليالي عشرين سوى الوتر، وهم أعلم الناس بالسنة)6.
2. يقول الشيخ محمد عبد الوهاب (رحمه الله)صلاة التراويح سنّة مؤكدة سنّها رسول اللّه صلى الله عليه وسلم ، وتنسب إلى عمر، لأنه جمع الناس على أبيّ بن كعب\". والمختار عند أحمد: عشرون ركعة، وبه قال الشافعي. وقال مالك: ستة وثلاثون. ولنا:
\"أنّ عمر لما جمع الناس على أبيّ، كان يصلي بهم عشرين ركعة)7.
3. سئل العلامة محمد بن عثيمين (رحمه الله) عن عدد ركعات التراويح فأجابالقول الراجح في عدد صلاة التراويح أن الأمر فيها واسع وأن الإنسان إذا صلى إحدى عشر ركعة أو ثلاث عشرة ركعة أو سبع عشرة ركعة أو ثلاثاً وعشرين ركعة أو تسعاً وثلاثين ركعة أو دون ذلك أو أكثر فالأمر في هذا كله أمر واسع ولله الحمد ولهذا لما سئل النبي صلى الله عليه وسلم ما ترى في صلاة الليل قال مثنى, مثنى فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى ولم يحد النبي صلى الله عليه وسلم للسائل عدداً معيناً لا يتجاوزه فعلم من ذلك أن الأمر في هذا واسع)8.
4. فتوى العلامة الشيخ عبدالله بن جبرين (رحمه الله)9:
السؤال:-ما هي السنة في عدد ركعات التراويح؟ هل هي إحدى عشرة ركعة، أم ثلاث عشرة ركعة؟ وما رأيكم فيمن يزيد على ذلك بحيث يصلي ثلاثاً وعشرين أو أكثر؟
الجواب:اختلف السلف الصالح في عدد الركعات في صلاة التراويح، والوتر معها، فقيل: إحدى وأربعون ركعة. وقيل: تسع وثلاثون. وقيل: ثلاثة عشرة. وقيل: إحدى عشرة. وقيل: غير ذلك، وقال أبو محمد ابن قدامة في المغني: (فصل) والمختار عند أبي عبدالله -رحمه الله- فيها عشرون ركعة، وبهذا قال الثوري، وأبو حنيفة، والشافعي، وقال مالك: ستة وثلاثون، وزعم أنه الأمر القديم، وتعلق بفعل أهل المدينة، فإن صالحاً مولى التوأمة قال: (أدركت الناس يقومون بإحدى وأربعين ركعة، يُوترون منها بخمس).
ولنا أن عمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أُبيّ بن كعب كان يُصلي بهم عشرين ركعة، وقد روى الحسن أن عمر جمع الناس على أُبي بن كعب، فكان يصلي لهم عشرين ليلة، ولا يقنت بهم إلا في النصف الثاني، فإذا كانت العشر الأواخر تخلف أُبيّ فصلى في بيته...
وروى مالك عن يزيد بن رومان قال: كان الناس يقومون في زمن عمر في رمضان بثلاث وعشرين ركعة. وعن علي رضي الله عنه : (أنه أمر رجلاً يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة). وهذا كالإجماع.
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية -يرحمه الله-: له أن يُصليها عشرين ركعة، كما هو المشهور في مذهب أحمد والشافعي، وله أن يُصليها ستاً وثلاثين ركعة، كما هو مذهب مالك، وله أن يُصلي إحدى عشرة، وثلاث عشرة، وكله حسن، فيكون تكثير الركعات أو تقليلها بحسب طول القيام وقصره، وقال: الأفضل يختلف باختلاف المصلين، فإن كان فيهم احتمال بعشر ركعات، وثلاث بعدها، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي لنفسه في رمضان وغيره فهو الأفضل، وإن كانوا لا يحتملونه فالقيام بعشرين هو الأفضل، وهو الذي يعمل به أكثر المسلمين، فإنه وسط بين العشر والأربعين، وإن قام بأربعين أو غيرها جاز، ولا يكره شيء من ذلك، ومن ظن أن قيام رمضان فيه عدد مؤقَّت لا يزاد فيه ولا ينقص منه، فقد أخطأ.. إلخ.، والله أعلم10.
5. يقول الشيخ محمد صالح المنجد : (أن العشرين ركعة كانت هي السنة الغالبة على التراويح في زمن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، ومثل صلاة التراويح أمر مشهور يتناقله الجيل وعامة الناس ، ورواية يزيد بن رومان ويحيى القطان يعتبر بهما وإن كانا لم يدركا عمر ، فإنهما ولا شك تلقياه عن مجموع الناس الذين أدركوهم ، وذلك أمر لا يحتاج إلى رجل يسنده ، فإن المدينة كلها تسنده)11 .
6. ذكر العلامة صالح بن فوزان الفوزان في كتابه (إتحاف أهل الإيمان بدروس شهر رمضان):أما عدد ركعات صلاة التراويح فلم يثبت فيه شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ، والأمر في ذلك واسع، قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: ( له أن يصلي عشرين ركعة كما هو المشهور من مذهب أحمد والشافعي، وله أن يصلي ستا وثلاثين كما هو مذهب مالك، وله أن يصلي إحدى عشرة ركعة وثلاث عشر ركعة وكل حسن، فيكون تكثير الركعات أو تقليلها بحسب طول القيام وقصره. وعمر رضي الله عنه لما جمع الناس على أبَيّ صلى بهم عشرين ركعة، والصحابة رضي الله عنهم منهم من يقل ومنهم من يكثر، والحد المحدود لا نص عليه من الشارع صحيح)12. أ.هـ.
7. نقل الشيخ عطية محمد سالم في كتابه (التراويح أكثر من ألف عام) : (في زمن علي رضي الله عنه كانت التراويح عشرين والوتر ثلاث، وهذا أغلب الظن كما كانت في عهد عثمان رضي الله عنه ، وعهد عمر رضي الله عنه )إلى أن قال: (مما تقدم يظهر للمتأمل أن عدد ركعات التراويح كان مستقرا إلى ثلاث وعشرين، منها ثلاث ركعات وترا كما في رواية يزيد بن الرومان عند مالك كما تقدم، قال: \"كان الناس يقومون زمن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في رمضان بثلاث وعشرين ركعة،...أما العدد والاقتصار منه على عشرين ركعة فإنه العدد المعمول به عند الأئمة الثلاثة أبي حنيفة والشافعي وأحمد في غير المدينة)13.
8. وفي كتاب (الصيام من المحرر) للشيخ سليمان الحربي يقول: ( نقل ابن دقيق العيد وشيخ الإسلام ابن تيمية الإجماع على أن صلاة الليل لا حد لها.
- وعليه: فما نقل من التبديع وإطالة اللسان على من صلى أكثر من إحدى عشرة ركعة فهذا حقيقة قلة فهم لفقه النصوص.قال الشافعي: أدركت ببلدنا بمكة الناس يصلون عشرين ركعة.وقال مالك: أدركت الناس يصلون في المدينة ستاً وثلاثين ركعة.- وقال شيخ الإسلام: ثبت أن الصحابة في عهد عمر كانوا يصلون عشرين ركعة ويوتر بثلاث.- وقال الترمذي: أكثر أهل العلم من الصحابة وغيرهم على أن صلاة التراويح عشرين ركعة)14.
(ومن الأمور التي قد يخفى حكمها على بعض الناس ظن بعضهم أن التراويح لا يجوز نقصها عن عشرين ركعة وظن بعضهم أنه لا يجوز أن يزاد فيها على إحدى عشرة ركعة أو ثلاث عشرة ركعة وهذا كله ظن في غير محله بل هو خطأ مخالف للأدلة)15 .
9. يقول الشيخ عبد العزيز السلمان في كتابه المناهل الحسان وأما عدد صلاة التراويح، فقال القاضي: لا خلاف أنه ليس في ذلك حد لا يزداد عليه ولا ينقص منه. فاختار الإمام أحمد وجمهور العلماء عشرين ركعة: لما روى مالك في (الموطأ) عن يزيد بن رومان قالكان الناس في زمن عمر يقومون في رمضان بثلاث وعشرين ركعة).وقال السائب بن يزيد: (لما جمع عمر الناس على أُبي بن كعب، وكان يُصلي بهم عشرين ركعة)16
10. ومن فتاوى الأزهر في عدد ركعات صلاة التراويح أفتى الشيخ حسن مأمون17:
في الصحيحين عن عائشة رضي الله عنها : ( ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا غيره على إحدى عشرة ركعة منها الوتر ) .
وما روى عن ابن عباس من أنه صلى الله عليه وسلم كان يصلى في رمضان عشرين ركعة سوى الوتر فضعيف .
أما ثبوت العشرين ركعة فكان بإجماع الصحابة في عهد عمر رضي الله عنه ، وكون الرسول لم يثبت عنه أنه صلى العشرين لا يعتبر دليلا على عدم سنية العشرين لأنه صلى الله عليه وسلم أمرنا أن نتبع ما يحدث في عهد الخلفاء الراشدين .
حيث قال صلوات الله وسلامه عليه ( عليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى عضوا عليها بالنواجذ )18 وروى أسد بن عمر عن أبى يوسف قال سألت أبا حنيفة عن التراويح وما فعله عمر فقال التراويح سنة مؤكدة ولم يستحدثه عمر رضي الله عنه من تلقاء نفسه ولم يكن فيه مبتدعا ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ومادام الرسول صلوات الله عليه قد أمرنا باتباع ما يحدث في عهد الخلفاء الراشدين وخاصة سيدنا عمر فتكون صلاة العشرين ركعة هي سنة التراويح، فكأن الرسول صلى الله عليه وسلم هو الآمر بها حتى إن الأصوليين ذكروا أن السنة ما فعله النبي صلى الله عليه وسلم أو واحد من الصحابة على أن الإجماع من الأدلة الشرعية التي يلزم الأخذ بها .
والخلاصة : أن التراويح وعددها عشرون ركعة سنة حضرة المصطفى صلى الله عليه وسلم ومن قال بأنها سنة عمر مردود بما ذكر .
ففي الفتاوى الهندية عن الجوهرة هي سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم .
وقيل هي سنة سيدنا عمر رضي الله عنه والأول أصح .
وهذا هو الذي يستفاد من كلام جمهرة فقهاء الحنفية .
إلى أن قال :وظاهر كلام المشايخ أن السنة عشرون ومقتضى الدليل ما قلناه) 19.
وختاماً أسأل الله أن يلهمنا رشدنا ؛ كي نعود إلى سنة نبين صلى الله عليه وسلم ، وسنة الخلفاء الراشدين المهديين الذين أوصانا صلى الله عليه وسلم بالسير على سنتهم ، واقتفاء آثارهم انه قريب مجيب.
الهوامش:
1. ينظر كتاب الصيام أدلة وأحكام ليحيى الزهراني - (ج 1 / ص 67)
2 (العلق:19) .
3 صحيح مسلم - (ج 2 / ص 52).
4 رواه أبو داود والترمذي وبن ماجه وابن حبان في صحيحه، وقال الترمذي: حسن صحيح.
5 متفق عليه
6 فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء - (ج 9 / ص 224)
7كتاب مختصر الإنصاف والشرح الكبير للشيخ محمد عبد الوهاب- (ج 1 / ص 212)
8 فتاوى نور على الدرب للعثيمين - (ج / ص 1)
9فتاوى الشيخ ابن جبرين - (ج 2 / ص 5)
10 سنظر فتاوى الشيخ ابن جبرين - (ج 2 / ص 5).
11 ينظرفتاوى الإسلام سؤال وجواب (ج 1 / ص 6187)
12إتحاف أهل الإيمان بدروس شهر رمضان - (ج 1 / ص 44)
13التراويح أكثر من ألف عام بقلم الشيخ عطية محمد سالم - (ج 4 / ص 8)
14 ينظر كتاب الصيام من المحرر لسليمان الحربي 1 / 51.
15فتاوى الصيام جمعها الشيخ المسند 1 / 4.
16 كتاب المناهل الحسان لعبدالعزيز السلمان - (ج 1 / ص 88)
17 فتاوى الأزهر - (ج 1 / ص 48)
18صحيح الجامع الصغير وزياداته - (ج 1 / ص 446)
19 فتاوى الأزهر - (ج 1 / ص 48)
www.ownislam.com/articles/urdu-articles/ghair-muqallidiyat/2042-makkah-madina-walo-sey-ghair-muqalideen-k-shadeed-ikhtilaf