Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 21:09:48 GMT 5.5
اہلحد یث یا شیعہ؟
اہلحد یث یا شیعہ؟
برادران اہل سنت! غیر مقلدین ايک ایسا گروہ ہے جو اپنے آپ کو حدیث کا تنہا وارث قرار دیتا ہے اور اپنے بالمقابل تمام مقلد مسلمانوں کو حدیث کا مخالف اور رائے کا پجاری کہتا ہے۔
سیدھے سادے حنفی مسلمان ان کے اہل حدیث نام سے دھوکہ کھاکر ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کی اصلیت کو واشگاف کیا جائے اور ان لوگوں نے اپنے اوپر منافقت کے جو پردے ڈال رکھے ہیں چاک کر کے ان کا اصلی چہرہ لوگوں کو دکھایا جائے کہ جیسے لوگ بے خبری کی وجہ سے اہل حدیث سمجھتے ہیں وہ حقیقتاً رافضی اور شیعہ کا چہرہ ہے۔
میں نے مضمون میں انہی کے اکابر کی عبارت سے يہ ثابت کیا ہے کہ ہندوستان میں تحريک اہل حدیث درحقیقت رفض وتشیع کے سوا کچھ نہیں۔ يہ دور حاضر میں شیعت کی تجدید کا دوسرا نام ہے۔ نہ ان کو حدیث سے محبت ہے ‘نہ اہل حدیث سے۔ ان کا اہل حدیث کہلوانا ایسا ہی ہے جیسے ايک فرقہ نے اپنا نام اہل قرآن رکھ لیا ہے۔ وہ قران کے نام لے کر حد یث کا انکار کرتے ہیں يہ حدیث کا نام لے کر قران پاک اور سنت رسول ﷺ کے منکر ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثالیں آپ کو آئند صفحات پر بافراط ملیں گی۔
ہندوستان میں تحريک اہل حدیث کا بانی مبانی مولوی عبد الحق بنارسی ہے‘ سب سے پہلے آپ اس کا حدوداربعہ ملاحظہ فرمائیں۔
مولوی عبد الحق بنارسی اور قاضی شوکانی
يہ بنارس کا رہنے والا ايک شخص تھا جس نے ہندوستانی علماء کے علاوہ یمن کے شوکانی زیدی شیعہ سے بھی علم حاصل کیا تھا۔ شوکانی کے زید ی شیعہ کا ثبوت تفسیر فتح القدیر کے مقدمہ میں موجود ہے۔مقدمہ نگار لکھتا ہے۔
”نفقه علی مذهب الام زید برع فیه والف وافتی حتی صار قدره فیه وطلب الحدیث وفاق فیه اهل زمانه حتی خلع ربقته التقلید وتحلی بمنصب لا جتهاد’“
(فتح القدید ص5)
یعنی اس نے مذہب امام زید کے مطابق فقہ حاصل کی ‘حتی کہ اس میں پورا ماہر ہوگیا۔ پھر تالیفات کیں اور فتوے دئے حتی کہ اس میں ايک نمونہ بن گیا یا مقتدا ہوگیا اور علم الحدیث کی طلب میں لگا تو اپنے اہل زمان سے فوقیت لے گیا‘ یہاں تک کہ اس نے اپنے گلے سے تقلید کی رسی کو اتار ڈالا اور منصب اجہتاد کا مدعی ہوگیا۔
يہ توشوکانی کے زیدی شیعہ ہونے کی صراحت ہے،رہا مولوی عبدالحق کا اس کے شاگرد ہونے کا مسئلہ وہ بھی وہیں سے حل ہو جاتا ہے،مقدمہ نگار چند سطر پہلے ”بعض تلامیذہ الذیر اخذوا عنہ العلم“ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے۔
” اخذ عند العلم ........ الشیخ عبد الحق بن فضل الهندی“ (مقدمه فتح القدیر مصری ص5)
یعنی آپ سے علم حاصل کرنے والوں میں علامہ شیخ عبد الحق بن فضل ہندی بھی ہے، یہی عبد الحق بنارسی ہے۔ عبد الحق بنارسی کے شیعہ اور غیر مقلد ہونے کے متعلق مولانا عبد الخالق کی تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ جو غیر مقلدوں کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کے استاد اور خسر ہیں۔آپ اپنی کتاب تنبیہ الضالین ص3پر لکھتے ہیں۔
” سوبانی مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبد الحق ہے،جو چند روز سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المومنین (سید احمدشہیدؒ) نے ایسی دہی حرکات ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے ان کو نکال دیا تھا اور علمائے حرمین نے اس کے قتل کا فتوی لکھا تھا، مگر یہ کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا“۔
ایسے ہی انہوں نے ايک اور مقام پر بھی یہ لکھا ہے کہ عبد الحق بنارسی جو فرقہ غیرمقلدین کا بانی ہے اپنی عمر کے درمیانی حصے میں رافضی (شیعہ) ہوگیا تھا۔
عبد الحق بنارسی کے شیعہ ہونے کا دوسرا ثبوت
مشہور غیر مقلد مصنف نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں
:”دراوسط عمر بعض درعقائد ایشاں و میل بسوے تشیع وجزآں معروف است“
(سلستہ العسجد)
یعنی عبدا لحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصے میں اس کے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف اس کا رحجان بڑا مشہور ہے۔
عبد الحق بنارسی کا علی الاعلان شیعہ ہونا
قاری عبد الرحمن صاحب محمدث پانی پتی لکھتے ہیں:
”بعد تھوڑے عرصے کے مولوی عبد الحق بنارسی صاحب،مولوی گلشن علی کے پاس گئے۔ دیوان راجہ بنارس کے شیعہ مذہب تھے اور کہا کہ میں شیعہ ہوں اور اب میں ظاہر شیعہ ہوں اور میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں ہزار اہل سنت کو قید مذہب نے سے نکال دیا ہے اب ان کا شیعہ ہونا بہت آسان ہے۔چنانچہ مولوی گلشن علی نے تیس روپیہ ماہوار کی نوکری کروادی“
(کشف الحجاب ص21)
ناظرین باتکمین کو اب تو غیر مقلدین کے مخفی شیعہ ہونے میں تامل نہیں ہونا چاہيے کیونکہ اس جماعت کے بانی مولوی عبدالحق کا علی الا علان شیعہ ہونا ثابت ہو گیا ہے ۔جس جماعت کا بانی نوکری کے ليے شیعہ ہوگیا ہو وہ جماعت کیسے اہل حدیث ہو سکتی ہے؟ در اصل ان کا اپنے آپ کو اہل حدیث کہنا ازروئے تقیہ ہے،جو روافض کا مشہور عقیدہ ہے۔
بنارس کا ٹھگ
قارئین! آپ کو معلوم ہے کہ بنارس کا ٹھگ بہت مشہور ہیں ےہ مولوی عبد الحق اور اس کی پارٹی بھی ٹھگوں کا ايک گروہ ہے جس نے مسلمانان احناف کے جان ومال کو ، ان کے دین اور ایمان کو بنام حدیث ٹھگ لیاہے۔ٹھگی کرنے کےلئے کوئی بہت خوبصورت اور دل کش سوانگ رچانا پڑتا ہے تا کہ شکار مشتبہ نہ ہو اور آرام سے اس کے جال میں پھنس جائے۔جیسے مولانا ظفرعلی خان ؒ نے مرزائیوں کے متعلق کہا تھا۔
مسیلمہ کے جانشین گروہ کٹوں سے کم نہیں
جیب کترے لے گئے پیغمبری کی اڑ میں
اسی طرح مولوی عبد الحق بنارسی اور اس کے جانشینوں نے حدیث کی آڑ میں بہت سے احناف کی جیب صاف کر لی اور انہیں اسلا ف کرام سے ورثہ میں ملے ہوئے پیٹنٹ(Pantent) اسلام اور ایمان سے محروم کردیا، اور اپنا خود ساختہ (self made) دین اور مذہب اور اجماع امت کے برخلاف موقف و مسلک کا قائل کر لیا۔ فوا سفاہ۔ جو بدنصیب لوگ ان کے چکمے میں آگئے وہ ہر وقت حدیث حدیث کا لفظ سن کر پختہ ہو جائيں گے ، مگر انہیں علم نہیں ہو گا کہ یہ ہمیں حدیث کی آڑ میں سنت سے دور کر رہے ہیں اور اہل حدیث کی رٹ لگا کر يہ ہمیں اہل سنت سے نکال رہے ہیں۔
حدیث اور سنت
حالانکہ حدیث تو ہر طرح کی ہوتی ہے،موضوع بھی، مرجوع بھی، منسوخ بھی،معلول بھی، متروک بھی اور محتمل بھی۔ جس حدیث کی طرف وہ آپ کو بلارہے ہیں وہ کس درجے اور کس زمرے کی حدیث ہے۔مگر سنت ان تمام احتمالات سے پاک صرف سنت ہوتی ہے۔ جس میں ایسی کوئی علت نہیں ہوتی اور وہ بہرحال قابل عمل اور معیار حق ہوتی ہے کیونکہ وہ آخر تک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا معمول رہی ہوتی ہے،صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور خلفائے راشدین کا عمل بھی اس کے مطابق ہوتا ہے، اس ليے حدیث کے بالمقابل سنت کا راستہ احوط، محفوظ اور زیادہ قابل عمل ہے۔ ہم حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب اہل سنت ہیں اور يہ لوگ اپنے آپ کو اہل حدیث کہلواکر خوش ہوتے ہیں۔ اسلئے مقابلہ حدیث اور اقوال ائمہ کا نہیں، جیسے غیر مقلد مشہور کرتے ہیں، بلکہ مقابلہ حدیث اور سنت کا ہے۔ ان کے پاس براے نام حدیث ہے اور ہمارے پاس سنت رسول ہے۔ پھر ہرسنت حدیث ہوتی ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں، اس لئے راستہ اہل سنت ہی کا واحد قابل نجات راستہ ہے، کیونکہ اس پر صحابہ کرام ،تابعین عظام اور فقہاءو محدثین نے ہر دور میں چل کر دکھایا ہے اور اس پر چلنے والے ان بزرگان امت اور اسلاف کے پيچھے پيچھے منزل مقصود تک پہنچے ہیں اور پہنچ رہے ہیں۔
سنت کا معنی
سنت کا معنی ہی يہ ہے کہ
”الطریقة المسلوکة فی الدین“
یعنی دین میں جس راستے پر امت کی اکثرت چلی ہو وہ سنت ہے۔
اور اب اس تقابل اور ضاحت کے بعد عیاں ہو جانا چاہےے کہ سلامتی کی راہ سنت کی راہ ہے۔ جس کو ساری یا اکثر امت کی حماعت حاصل ہے اور حدیث کی راہ شاذ اور منفرد افراد کی راہ ہے،جس میں سلامتی کی کوئی امید نہیں۔ کسی بھی حدیث کو ديکھ کر یا سن کر اپنا معمول نہیں بنالینا چاہيے جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ امت نے اس کو تلقی بالقبول بخشی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر آئمہ متبوعین نے اس کو معمول نہیں بنیا تو یقینا اس میں کوئی مخفی علت ہوگی جس کی وجہ سے عمل نہیں ہے۔ورنہ يہ نہیں ہو سکتا تھا کہ اکابر واسلاف جو حدیث وسنت کی شیدائی تھے،اس کو بلا وجہ ترک کر ديتے، جیسے مغرب سے پہلے دو رکعت ، ان کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں پڑھا۔، خلفائے راشدین نے نہیں پڑھا۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے زمانہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں کسی کو عامل نہیں پایا تو يہ حدیث تو بے شک ہے لیکن قابل عمل سنت نہیں۔
مولوی عبدالحق کے متعصب غیرمقلد اور گستاخ ہونے کی دلیل
مولناسید عبدالحی لکھنویؒ اپنی مايہ ناز تنصیف”الثقافة الاسلامیہ فی الہند“ کے ص 104پر لکھتے ہیں:
منهم من سلک ملک الا فراط جدا وبالغ فی حرمة التقلید وجاوز عن الحدود بدع المقلدین و ادخلهم فی اہل الاهواء ووفع فی اعراض الائمة لا سیما الااما ابی حنیفة و هذا مسلک الشیخ عبد الحق بن فضل اﷲ بنارسی۔
یعنی ان میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو حد سے بڑھ گئے ہیں اور تقلید کی حرمت میں بے حد مبالغے سے کام لے کے حدود کو پھلانگ گيے،مقلدین کو بدعتی قراردیا اور ان کو اہل اھواء میں داخل کردیا۔ ائمہ کرام بالخصوص امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی توہین و تنقیص میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور يہ مسلک ہے عبد الحق بن فضل اﷲ بنارسی کا۔
مولوی عبد الحق کے نیم شیعہ اور تبرائی ہونے کی ايک اور دلیل
مولوی عبدالحق کے دوست اور ہم سبق مشہور محدث قاری عبدا الرحمن پانی پتی صاحب ،اپنی کتاب کشف الحجاب ص21پر لکھتے ہیں۔
” اس نے میرے سامنے يہ با ت کہی کہ عائشہ رضی اﷲ عنہا علی رضی اﷲ عنہ سے لڑی، اگر توبہ نہیں کی تو مرتد مری“ (نعوذ باﷲ من ذالک البکواس)
کہتے ہیں کہ دوسری مجلس میں اس نے يہ بھی کہا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا علم ہم سے کم تھا ان کو پانچ،پانچ حدیثیں یا د تھیں اور ہمیں ان کی سب حدیثیں یاد ہیں۔(استغفر اﷲ العظیم)
کیا کوئی سنی مسلمان صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور اپنی روحانی ماں اور زوجہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق يہ گستاخانہ الفاظ استعمال کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ تھا کچھ حدود اربعہ اور تعارف مولوی عبدا لحق بنارسی جماعت اہل حدیث (غیر مقلدین)کا۔
غیر مقلد عالم کی رائے کا اہل حدیث
شیعہ اور روافض کے خلیفہ و وارت ہیں
”پس اس زمانے کے جھوٹے اہل حدیث،مبتدعین،مخالفین سلف سالحین جو حقیقت ما جاءبہ الرسول سے جاہل ہیں، وہ صفت میں وارث اور خلیفہ ہیں شیعہ اور روافض کے،یعنی جس طرح شیعہ پہلے زمانوں میں باب اور دہلیز کفرو نفاق کے تھے اور مدخل ملاحدہ و زنادقہ کا ہے اسلام کی طرف،اسی طرح جاہل بدعتی اہل حدیث اس زمانے میں باب اور دہلیز اور مدخل ہیں ملاحدہ اور زنادقہ منافقین کے، بعینہ مثل اہل شیعہ کے ................مقصود يہ ہے کہ رافضیوں میں ملاحدہ تشیع ظاہر کر کے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرات حسین رضی ا ﷲعنہما کی غلو سے تعریف کر کے سلف کو ظالم کہہ کے گالی دیں اور پھر جس قدر الحادوزندقہ پھیلا دیں کچھ پروا نہیں۔ اسی طرح ان جاہل کاذب اہل حدیثوں میں ايک رفع یدین کر لے اور تقلید کا رد کرے اور سلف کی ہتک کرے، مثل امام حنیفہ رحمہ اﷲ کے جن کی امامت فی الفقہ اجماع کے ساتھ ثابت ہے اور پھر جس قدر کفربد اعتمادی اور الحاد وزندقہ ان میں پھیلا دے بڑی خوشی سے قبول کر ليتے ہیں اور ايک ذرہ چیں بچیں نہیں ہوتے۔ اگرچہ علماءفقہاے اہل سنت ہزار دفعہ ان کو تنبیہ کریں،ہرگز نہیں سنتے۔“
(از کتاب التوحید والسنہ فی رد اہل الالحاد والبدعة ص262قاضی عبدالاحد خانپوری)
غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی
کے استاد مولانا عبد الخالق کا تبصرہ
”ان غیر مقلدین کا مذہب اکثر باتوں میں روافض کے مذہب سے ملتاجلتا ہے ۔جب روافض پہلے رفع الیدین اور آمین بالجہر اور قرات خلف الامام کے مسئلے میں امام شافعی کی دلیل سے ثابت اور ترجیح دے کر عوام کو خصوصا حنفی والوں کو شبہ میں ڈالتے ہیں تب آگے اور مسئلوں میں متشلک اور متردود بناتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔“
(تنبیہ الغافلین ص5)
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان کا تبصرہ
”توپھر جو ائمہ علماءآخرت ہیں،جوشخص ان کی غیبت کرتا ہے تو اس کا لعن طعن اسی مغتاب پر عود کرتا ہے يہ مذہب رفض کا شیعوہ ہے نہ مذہب اہل سنت و الجماعت کا “
(مآثر صدیقی ج4ص23)
قصص الاکابر کا اقتباس کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہیں
”سید احمدبریلوی شہیدؒکے قافلہ میں مشہور تھا کہ غیر مقلد چھوٹے رافضی ہوتے ہیں“
(قصص اکابر ص26)
یاد رہے کہ مذکور الصدر مولوی عبدالحق بنارسی بانی جماعت غیر مقلدین نے حضرت امیر شہید ؒ کے قافلے میں رفع یدین اور آمین بالجہر کر کے فتنہ کھڑا کیا تھا،ا س کی وجہ سے حضرت امیر ؒ نے اسے جماعت سے خارج کر دیا تھا۔تو اس کا يہ فعل بھی شیعوں کی موافقت میں تھا۔ باقی رہے شافعی یا حنبلی تو وہ یہاں تھے ہی نہیں اور اب تک نہیں ہیں اور اس وقت تو حرمین شریفین میں بھی حنفیوں کی حکومت تھی۔ حنبلی،شافعی اگر کرتے بھی ہوں گے تو ان کا انفرادی فعل ہوگا۔ حرم شریف میں یا سعودی عرب میں اس وقت جماعتی طور پر رفع یدین نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا عبد الحق بنارسی کا اسے اپنانا یا اسے رواج دینا یہ اپنی شیعت کا اظہار تھا۔ اگرچہ نام حدیث کا لیتا تھا مگر کام رافضیوں کا کرتا تھا۔
میاں نذیر حسین کا فتوی کہ غیر مقلدین چھوٹے رافضی ہیں
” جو ائمہ دین کے حق میں بے ادبی کرے وہ چھوٹا رافضی ہے یعنی شیعہ ہے“
( تاریخ اہل حدیث ص73 از مولانا ابراہیم سیالکوٹی)
www.ownislam.com/articles/urdu-articles/ghair-muqallidiyat/1591-ahle-hadees-ya-shia