Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 22:38:10 GMT 5.5
وکٹورین اہل_حدیث کے عقائد و مسائل میں باہمی اختلافات
لفظ "اہل_حدیث" قدیم اور جدید اصطلاح میں
======================================
فقہی اختلافات کو فرقہ واریت قرار دینے والے وکٹورین اہل_حدیث کے
دعواۓ قرآن و حدیث کے باوجود عقائد و مسائل میں شرمناک اختلافات
وکٹورین اہل حدیث کی "تقلید کے معنی و حکم" میں دعواۓ قرآن و حدیث کے باوجود شرمناک ((محققانہ اختلاف))؛
ان کے اکابر (بڑے) "شیخ الکل" میاں نذیر حسین صاحب تو "حق کا معیار" فرماتے (عوام کے لیے) تقلید کو قرآن مجید سے ثابت اور واجب کہیں اور وہ رسول کی اتباع اور مجتہدین کی تقلید میں فرق نہ ہونا دونوں کو ایک ہی کہنا جائز قرار دیں، لیکن ان کے اصاغر (چھوٹے) تقلید کو ((قرآن و سنّت کے خلاف کسی کی ماننا)) جیسی معنی ہونا اور اس کا منکر ہونے کے سبب نماز نہ ہونا اور اس کے پیچھے نماز کا حکم اپنے دعوا قرآن و سنّت کی روشنی میں دیتے ہیں. اب اکابر کی دلیل قرآنی صحیح یا اصاغر کے فتویٰ کے مطابق اکابر کتاب و سنّت کے منکر ہوۓ ؟؟؟
ان غیر مقلدوں کا خطیب الہند محمد جونا گڑھی اجماع کا انکار اپنی قیاسی راۓ سے علم_حدیث میں ملاوٹ کرتے ہوۓ لکھتا ہے : "برادران! آپ کے دو ہاتھ ہیں ان دونوں میں دو چیزیں شریعت نے دے دی ہیں، ایک میں ہے کلام خدا اور دوسرے میں ہے کلام رسول، ایک میں خدا کی عبادت اوردوسرے میں رسول کی اطاعت اب نہ تیسرا ہاتھ نہ تیسری چیز[طریق محمدی : ١٩]؛
:جبکہ ثناء اللہ امرتسری صاحب نے لکھا ہے:
اہلِ حدیث کا مذہب ہے کہ دین کے اصول چار ہیں (۱) قرآن، (۲) حدیث، (۳) اجماعِ اُمت، (۴) قیاسِ مجتہد ؛ سب سے مقدم قرآن شریف ہے.......‘‘(اہلِ حدیث کا مذہب ص۵۸)؛
ایک طرف مالکی، شافعی اور حنبلی کے سوا صرف حنفیوں کو ہی تقلید کے سبب مشرک کہتے پھرتے ہیں اور ان کی امامت میں ان کے پیچھے نماز کو جائز نہیں کڑھتے [رسائل بہاولپوری : ٥٩١-٦٢٢، بحوالہ الحدیث : شمارہ ٢٩ صفحہ ٣٦] ، پھر ان ہی کی امامت میں پیچھے نماز پڑھنے کو ایک طریقے سے جائز بھی کردیتے ہیں، وہ بھی بلا-دلیل_قرآن و حدیث کے!!!
اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ آج (کے) اہل_حدیث اہل-حدیث نہیں [رسائل بہاولپوری : ٥٩١] ہم میں اور ان میں بعد المشرقین (دو مشرقوں جتنی دوری) ہے. [رسائل بہاولپوری : ٥٩٤]
اختلافات_اہل_حدیث : جورابون پر مسح
وکٹورین اہل حدیث کے "حدیث و رسول" پر جھوٹ
=======================
حالت_روزہ میں ٹیکہ لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٦ / ٩٨) ٹوٹ جاتا ہے (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٦ / ٤٤٣)
قرآن مجید پڑھ کر مردے کو سواب بخشنے کے اہل حدیث قائل نہیں، (فتاویٰ علماۓ حدیث : ١٠ / ١٠٧) بخشنا (ثابت و) مختار ہے (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٥ / ٣٥٠)
=======================
=======================
اور حدیث کی کتابوں میں شافعی مذھب کے اماموں کی جو روایتیں ہیں وہ قریب متواتر ہونے کے ہیں. [فتاویٰ علماۓ حدیث : ٣/١٨١]
حدیث کی کتابوں میں حنفی اور شافعی مذھب کے اماموں کی روایت ہوتی ہیں [فتاویٰ علماۓ حدیث : ٣/١٨١]
اے گروہ_اہل_حدیث!
ائمہ مسلمین کے مذاھب کی تقلید شرک ہے تو احادیث میں ان کی روایتیں مقبول کیوں؟؟؟
تاریخ ولادت النبی ١٢ ربیع الاول جو مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں، مگر سب جماعتوں کی طرح
غیر مقلدین اہلحدیث فرقے کے پیشوا نواب سید محمد صدیق حسن خان نے اپنی کتاب میں میلاد کی تاریخ بارہ ربیع الاول تحریر کی ہے
غیر مقلدین میں مسائل کے اختلاف کی مثالیں
قارئین کرام! نام نہاد اہل حدیث نے اجتہادی اختلاف کی بناء پر ائمہ مجتہدین پر امت میں پھوٹ ڈالنے کا ذمہ دار ٹہرایا ہے، اب ذرا خود ان کے مابین چند سنگین قسم کے اختلاف کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں اور پھر ان سے پوچھئے کہ جناب آپ کے ان اکابر میں سے حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اور کیا یہ حضرات امت میں پھوٹ ڈالنے کے مجرم نہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے دعویدار اختلاف کا شکار ہوگئے؟
(۱) مردے سنتے ہیں یا نہیں؟
غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری دونوں مردوں کے سماع کے منکر ہیں، جبکہ علامہ وحید الزماں (غیر مقلدین کے مترجمِ اعظم) اپنےتمام نام نہاد اہل حدیثوں کا مذہب یہی سماع بتارہے ہیں۔
مولانا ثناء اللہ غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۲/۴۵ پر سماعِ موتیٰ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
د"جواب صورتِ مذکورہ کا یہ ہے کہ مردہ کلام نہیں سنتا اور نہ اس میں لیاقت سننے کی ہے، جیسا کہ اس پر قرآن مجید شاہد عدل ہے، اسی طرح کا جواب فتاویٰ نذیریہ:۱/۳۹۹ پر بھی ہےد"۔
علامہ وحید الزماں غیر مقلد نُزل الابرار:۱/۴ پر لکھتے ہیں:د"ولو نادی الاموات عند قبورھم یمکن ان یسمعوا لان الاموات لھم سماع عند اصحابنا اھل الحدیث صرح بہ الشیخاند"۔
ترجمہ: اگر مردوں کو ان کی قبروں کے پاس پکارے تو ان کا سننا ممکن ہے، کیونکہ ہمارے اصحاب کے ہاں ان کے لئے سماع ثابت ہے۔
(۲) مسلمان مردہ کی ہڈیاں قابلِ احترام ہیں یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد قبر سے ایک مردے کی ہڈیاں نکال کر اس کی جگہ دوسری میت دفن کرنے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس کے منکر ہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاوی ثنائیہ:۲/۴۹ پر قبر میں مردہ کی ہڈی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: د"ایسی جگہ دفن کرنا منع نہیں،ہڈی نکال کر مردہ دفن کردیںد"۔
ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالۂ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: د"مسلم مردہ کا احترام لازم ہے، لہٰذا مسلم کی ہڈیوں کو یوں ہی رہنے دیا جائے اور دوسری قبر بناکر دوسرے مردے کو دفن کردیںد"۔
(۳) امام کو رکوع میں پانے والا رکعت پانے والا ہے یا نہیں؟
مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد رکوع میں ملنے والے مقتدی کو رکعت پانے والا شمار کرتے ہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد اس کو رکعت پانے والا نہیں سمجھتے۔
مفتی عبد الستار صاحب غیر مقلد فتاوی ستاریہ:۱/۵۲ پر لکھتے ہیں: د"ہاں مدرکِ رکوع، مدرکِ رکعت ہے، فریقِ اول (جو مدرکِ رکعت نہیں مانتے) نے قیام و فاتحہ کو ایسا مضبوط پکڑا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان کی فرضیت کے قائل ہوتے ہیں، مدرک رکوع کی رکعت کو شمار نہیں کرتے، بلکہ جو احادیث اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ان کو ضعیف اور کمزور کہہ کر ٹال دیتے ہیں، لیکن میں اس امر کا قائل نہیں اور میرا ایمان تو یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میں نبیﷺ کے اقوال کے متضاد قرار دے کر دوسرے کو سرے سے اُڑاہی دوں، چنانچہ جو احادیث نبیﷺ سے اس بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیںد"۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۳۰ پر لکھتے ہیں: د"چونکہ بحکم قوموا للہ قانتین۔(قرآن) اور بحکم لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب۔(حدیث) قراءتِ فاتحہ ضروری ہے اور رکوع کی حالت میں دونوں چیزیں میسر نہیں ہوتیں، قائل کے پاس کوئی آیت یا حدیث ایسی ہو جس سے استثناء جائز ہوسکے تو ہم بخوشی اُسے سننے کو تیار ہیںد"۔
(۴) ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے پیچھے نماز کے درست ہونے کے قائل ہیں، جبکہ ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد اس پر شدت سے انکار کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۳۲ پر ارکان میں کوتاہی کرنے والے امام کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: د"حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ایک وقت آئے گا امام نماز کو خراب کریں گے، فرمایا: مسلمانوں میں ملتے رہنا، ان کی خرابی ان کی گردن پر ہوگی، تم علاحدہ نہ ہونا، اس حدیث ےس ثابت ہوتا ہے کہ حتی المقدور جماعت کے ساتھ مل کر ہی نماز پڑھنا چاہئےد"۔
ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد حوالہ بالا پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: د"نہیں نہیں! ہرگز ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئےد"۔
(۵) عدت میں عورت کے ساتھ نکاح درست ہے یا نہیں
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک معتدہ کے ساتھ نکاح جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں نکاح صحیح نہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد معتدہ بالزنا کے ساتھ نکاح کرنے والے کے متعلق جواب دیتے ہیں: د"صورتِ مرقومہ میں نکاح جائز ہے، حمل کے ظاہر ہونے سے یا اس کے اسقاط سے نکاح فسخ نہیں ہواد"۔
اسی جواب کے نیچے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی تعاقب کرتےہوئے فرماتے ہیں:د"بحکم و اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن.... الآیۃ۔ یہ عدت کے اندر نکاح کیا گیا جو ہرگز صحیح نہیں، پس دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۰۹)
(۶) بیمار پر بعد صحت روزہ رکھنا واجب ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک بیمار اگر فوت ہوگیا تو روزے معاف ہیں اور اگر صحتیاب ہوا تو روزہ کے علاوہ فدیہ بھی دے سکتا ہے، جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں موت کی صورت میں بھی بیماری کی وجہ سے چھوڑے گئے روزے معاف نہیں بلکہ موت کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا اور تندرست ہونے کی صورت میں فدیہ دینا جائز نہیں بلکہ بہر صورت روزہ ہی رکھے گا، ملاحظہ فرمائیں........
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"اگر لڑکا بیماری ہی میں مرگیا تو روزے معاف ہیں، اگر اچھا ہوکر اس نے روزے نہیں رکھے تو فی روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیںد"۔
اور مسئلہ پر تعاقب کرتے ہوئے مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد رقمطراز ہیں:د"صحیح نہیں ہے، بعد صحت روزے ہی رکھنے ہوں گے اور اگر قبل صحت مرجائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھےد"۔
(فتاوی ثنائیہ:۱/۶۵۸)
(۷) رخصتی سے پہلے شوہر فوت ہوجائے تو بیوی کو مہر آدھا ملے گا یا پورا؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک آدھا مہر ملے گا جبکہ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے نزدیک پورا مہر ملے گا، ملاحظہ فرمائی:
سوال: زید کی شادی ہندہ سے ایک سال کا عرصہ ہوا ہوئی تھی، لیکن رخصتی نہ ہوئی، زید کا انتقل ہوگیا، آیا ہندہ مہر کی مستحق ہے یا نہیں؟
جواب: (از مولانا ثناء اللہ) ہندہ نصف مہر کی مستحق ہے، بحکمِ قرآن مجید فنصف ما فرضتم۔
مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد جوابِ مذکور پر گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: د"یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ اس لئے کہ سوال میں متوفی عنہا کا ذکر ہے اور جواب میں مطلقہ کا، ملاحظہ ہو آیتِ محولہ بالا: و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم ... الآیۃ۔لہٰذا صورتِ مرقومہ میں پورا مہر ملے گا، کما تقدم فی حدیثِ ابن مسعودؓ۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۲/۳۳۱)
(۸) عورت ماہواری کےایام میں قرآن پڑھ سکتی ہے یا نہیں؟
علامہ وحید الزماں صاحب غیر مقلد کے نزدیک حائضہ کے لئے قرآن پڑھنا جائز نہیں جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں کہ حائضہ قرآن کریم پڑھ سکتی ہے۔
علامہ وحید الزماں غیر مقلد فرماتے ہیں: یمنع صلوٰۃ و صوما ..... و قراءۃ القرآن و مسہ بلا غلاف۔
(کنز الحقائق:۱۵، ھکذا فی عرف الجادی:۸۵)
نیز نزل الابرار میں فرماتے ہیں: و یحرم علی ھؤلاء تلاوۃ القرآن بقصد التلاوۃ و لو دون آیۃ و قال بعض اصحابنا لا یحرم کذالک مس المصحف۔ (۱/۲۵)
یعنی حائضہ کے لئے مخصوص ایام میں قرآن کریم کو ہاتھ لگانا اور پڑھنا جائز نہیں۔
اس کے بر خلاف مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"حائضہ عورت عورت قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتی، زبان سے پڑھ سکتی ہے۔
(۹) جراب پر مسح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری غیر مقلد اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"پائتابہ (جراب) پر مسح کرنا آنحضرتﷺسے ثابت ہے،(ترمذی) شیخ ابن تیمیہؒ نے فتاویٰ میں مفصل لکھا ہےد"۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۴۴۱)
مولانا ابوسعید شرف الدین غیر مقلد لکھتے ہیں: د"جرابوں پر مسح کرنے کامسئلہ معرکۃ الآراء ہے، مولانا نے جو لکھا ہے یہ بعض ائمہ شافعی و غیرہ کا مسلک ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی مسلک ہے، مگر یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ دلیل صحیح نہیں ہے، اس کے بعد مولانا ابوسعید غیر مقلد نے مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے جواب پر تفصیلاً رد کیا ہے، مولانا ابوسعید کے جواب کے بعد جامعِ فتاویٰ ثنائیہ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کا جواب نقل کیا ہے جو اسی مسئلہ میں انہوں نے دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
الجواب: المسح علی الجوربۃ لیس بجائز لانہ لم یقم علی جوزہ دلیل صحیح و کل ما تمسک بہ المجوزون ففیہ خدشۃ ظاھرۃ الی آخرہ ، کتبہ عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔
(دستخط) سید محمد نذیر حسین............
(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۴۴۳)
یعنی جوراب پر مسح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس کی دلیل صحیح نہیں ہے اور جائز کہنے والوں کی تمام دلیلوں میں واضح غلطی موجود ہے۔
(۱۰) جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے نزدیک جمعہ کے دن زوال کے وقت نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے، جبکہ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد کے ہاں جائز نہیں۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد فرماتے ہیں: د"مگر زوال کے وقت جمعہ کے روز نفل وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔
اور مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی غیر مقلد جوابِ مذکور پر باحوالہ رد کرتےہوئے فرماتے ہیں: د"پس ثابت ہوا کہ زوال کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، خواہ یوم الجمعہ ہو یا کوئی اور یوم، اس لئے کہ منع کی حدیثیں صحیح ہیں اور جواز کی صحیح نہیں، صحیح کے مقابلہ میں غیر صحیح پر عمل باطل ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ:۱/۵۴۴)
پاؤں چوڑے کرنا
باجماعت نماز میں مقتدیوں کو صفیں درست رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کا حکم ہے تاکہ درمیان میں دراڑیں نہ رہیں ۔ جن میں شیطان گھس کر نمازی کی نماز خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ احادیث میں پاؤں ، گھٹنے اور کندھے ملانے کا حکم ہے مگر غیر مقلدین حضرات کو صرف پاؤں ملانے کی فکر ہوتی ہے ۔ اگر ساتھ والا آدمی پاؤں کو ذرا ہٹالے تو یہ نماز کے بعد ہنگامہ کھڑا کردیتے ہیں کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ حالانکہ یہ کاروائی ان کے اپنے مسلک سے ناواقفیت کی بنا پر ہوتی ہے ۔
چنانچہ ان کے اپنے علماء نے یوں لکھا ہے ۔
اور بعض جاہل پاؤں خوب چوڑے کرتے رہتے ہیں اور کندھوں کا خیال ہی نہیں کرتے ۔ کندھوں کے اندازے سے پاؤں بلکل چوڑے نہ کرنا چاہے تاکہ پاؤں اور کندھے دونوں مل سکیں ۔
اور اس سے پہلے لکھا ہے :پس اس کو چاہیے کہ اپنا پاؤں اپنے کندھے کی سیدھ میں رکھے ۔
(فتاوٰی اہلحدیث ص ۱۹۹۔۲۰۰ ج۲ ۔ و فتاوٰی علمائے حدیث ص ۲۶۶ ج ۴ ، ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور ص ۶ ، ۲۸ مئی۱۹۹۹)
جماعت ثانیہ
متششدد غیر مقلدین جماعت ہو چکنے کے بعد مسجد میں آئیں گے تو وہ اصرار کریں گے کہ ہم دوبارہ جماعت کر کے ہی نماز ادا کریں گے، حالانکہ احناف کے ہاں مسافروں کے علاوہ کسی کو ایسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانا درست نہیں ، جس کا امام اور نماز کے اوقات متعین ہوں۔
( شامی ص ۲۹۱ ج۱ و فتاوٰی رشیدیہ ۲۹۰ )
اب اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حضرات یا تو اپنی کسی مسجد میں چلے جائیں یا مسجد سے باہر جماعت کرا لیں یا اپنے گھر تشریف لے جائیں وہاں جماعت کرا لیں ۔ جب یہ تمام متبادل صورتیں ان کے لیے موجود ہیں ۔ تو اس کے باوجود ان کا احناف کی مساجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا اصرار سوائے ہنگامہ آرائی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا ۔ ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بریلوی مکتب فکر کا کوئی آدمی کسی دیوبندی یا غیر مقلدین کی مسجد میں اذان سے پہلے یا بعد میں مروجہ صلٰوۃ و سلام یا میت کے لیے تیجہ وغیرہ کی رسم کے لئے اصرار کرے ۔ جیسے اس کا یہ اقدام درست نہیں ۔ اسی طرح احناف کی مساجد میں غیر مقلدین کا دوبارہ جماعت کا اصرار درست نہیں ۔ جبکہ ان کے اپنے علماء نے بھی دوبارہ جماعت کے بارہ میں جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان کی رو سے بھی ان حضرات کا اصرار صرف فساد کی نیت ہے اور کچھ نہیں ۔
چنانچہ ان کے ہفت روزہ میں پوچھے گے مسائل کے جوابات دینے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اسی میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا ۔
اور دوسری جماعت کا اہتمام کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔ یہ محض ناگہانی ضرورت کی بنا پر ہے ۔
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص۶ ۔ ۲۵ محرم الحرام ۱۴۱۹ھ )
اسی طرح ایک مضمون تعدد جماعت کی مضرتیں کے عنوان سے شائع ہوا اس میں بحث کا خلاصہ یوں پیش کیا گیا :
اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقا نہیں؛ کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستورالعمل نہیں بنایا ۔
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ص ۲۰ - ۲۴ جمادی الاولٰی ۱۴۱۶ھ)
ہم نے پہلے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ کچھ عرصہ سے بڑے منظم انداز میں یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ امت میں اختلاف کی وجہ فقہ ہے ۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور بے بنیاد ہے ۔ نیز بعض مقامات میں غیر مقلدین حنفی شافعی اختلافات کا طعنہ دیکر بھی لوگوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ تو ہم نے ضروری سمجھا کہ عوام الناس کو بتایا جائے کہ جزوی مسائل میں اختلافات تو خود غیر مقلدین حضرات کے آپس میں بھی ہیں تو پھر ایسی طعنہ بازی ان کو کسی طور پر بھی زیب نہیں دیتی ۔
غیر مقلدین میں اختلافی صورت حال زیادہ پریشان کن ہے ۔ اس لئے کہ اختلافی مسائل کے حل اور عمل کے لئے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے کہ اگر حنفی شافعی وغیرہ مختلف مسالک کا اختلاف ہے تو ہر مسلک والا اپنے امام اور اپنے مسلک کے محققین کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرے گا ۔ اور اگر کسی مسلک کے اپنے علماء کے درمیان مسائل میں اختلاف ہو مفتٰی بھا مسائل پر عمل کیا جائے گا ۔ اور غیر مفتٰی بھا کو ترک کردیا جائے گا ۔ اس لئے مقلدین کے ہاں تو ضابطہ ہے ۔ مگر غیر مقلدین ان اختلافی مسائل میں کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کے لئے کونسی صورت اور ضابطہ سے کام لیتے ہیں ؟؟؟ اس لئے کہ ان کے تمام علماء جنہوں نے مسائل بتائے ہیں وہ سب کے سب صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے کے دعویدار ہیں اور ہر مسلمان ان سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ صرف قرآن و حدیث سے مسائل لینے والوں کے درمیان مسائل میں اختلاف کیوں ؟
کیا جن جن حضرات نے مسائل بتائے ہیں ان سب کے مسائل بر حق ہیں ؟
اگر ان میں سے بعض کے مسائل حق پر نہیں توغیر مقلدین کے وہ علماء جو دوسروں کی کتابوں میں خواہ مخواہ کیڑے نکالنے پر کمر بستہ
ہیں کیا انہوں نے اپنے عوام کی سہولت کے لئے حق اور باطل مسائل کو جدا جدا کرنے کافریضہ سر انجام دیا ہے ؟
اور کیا نا حق مسائل بتانے والوں کے خلاف اپنے قلمی اور تقریری جہاد کا رخ موڑا ہے،اگر نہیں تو کیا اس کو مسلکی تعصب کے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے ؟