Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 22:51:22 GMT 5.5
صحابہ کرامؓ کے بارے میں جدید فرقہ اہلحدیث اور ان کے علماء کا نقطۂ نظر
ہمارا مسلک : اہلِ سنّت والجماعت
ہماری دعوت : اتباعِ کتاب و سنّت
ہمارا نعرہ : اتحادِ امت
ہماری کوشش : احیاءِ توحید و سنّت اور خاتمۂ شرک و بدعت
ہمارا مقصد : اشاعتِ معروفات و ازالۂ منکرات
منجانب : مجلس تحفظ سنّت و دفاعِ صحابہؓ ، آندھراپردیش
نوٹ : اس اشتہار کا مکمل احترام فرمائیے ، نیچے گرنے سے یا کسی بھی بے احترامی سے بچائیے ، اس میں آیاتِ قرآنیہ اور احدیثِ مبارکہ تحریر ہیں اس کو پڑھئیے اور چھاپ کر دوسروں تک پہونچاکر ثوابِ دارین حاصل کیجئے
محترم اسلامی بھائیو! اہلِ سنّت والجماعت کا ہر دور میں اس عقیدہ پر کامل اتفاق رہا ہے کہ پوری انسانیت میں انبیاءِ کرام علیھم السلام کے بعد صحابہ کرامؓ سب سے افضل ہیں. قرآنِ پاک میں الله پاک نے کی آیتوں میں صحابہ کرامؓ کی تعریف فرمائی. حضور اکرمؐ نے بیشمار احادیث میں صحابہ کرامؓ کے فضائل بیان فرماۓ. ایک حدیث میں آپؐ نے پوری امّت کو تاکید فرمائی کہ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي.... میرے صحابہؓ کے بارے میں الله سے ڈرو، میرے بعد ان کو نشانہ ملامت مت بناؤ، جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ سے محبت نبی سے محبت سے اور صحابہ سے دشمنی نبی سے دشمنی ہے. دوسری حدیث شریف میں آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرمایا : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ....الخ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے.(مشکوٰة: ص554). قرآن و سنّت کی روشنی میں اہلِ سنّت والجماعت کے نزدیک صحابہؓ معیارِ حق ہیں، ان کے اقوال و افعال حجت ہیں، اور ان کو برا بھلا کہنے والا زندیق ہے. صحابہ کرامؓ کے ذریعہ پوری امت تک قرآن و حدیث کا علم پہنچا. صحابہ کرامؓ ہی دین اسلام کے کامل ومکمل ترجمان ہیں وار الله و رسولؐ کے سچے عاشق اور مطيع و فرمانبردار ہیں.
کتاب و سنّت کی گواہی، سلفِ صالحین اور پوری امت کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کے اہل حدیث غیر مقلدین حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں بے خوفی کے ساتھ زبان درازی کرتے اور ناشائستہ کلمات زبان و قلم سے نکالتے چلے جاتے ہیں، جن کی چند مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں :
ایک بڑے غیر مقلد عالم ..... لکھتے ہیں :
"ومنه يعلم ان من الصحابة من هو فاسق كالوليد ومثله يقال في حق معاوية وعمرو مغيرة و سمرة".(نزل الأبرار : ٢/٩٤)
ترجمہ : اس سے معلوم ہوا کہ کچھ صحابہ فاسق ہیں جیسا کہ ولید (بن عقبہ) اور اسی کے مثل کہا جاۓ گا، معاویہ (بن ابی سفیان) ، عمرو (بن عاص)، مغیرہ (بن شعبہ) اور سمرہ (بن جندب) کے حق میں (کہ وہ بھی فاسق ہیں).
دوسرے غیر مقلد عالم ..... تحریر کرتے ہیں :
سیدنا علیؓ کے خودساختہ حکمرانا عبوری دور کو خلافتِ راشدہ میں شمار کرنا صریحاً دینی بددیانتی ہے، مگر اغیار نے جس چاپکدستی سے آنجنابؓ کی نام نہاد خلافت کو خلافتِ حقہ ثابت کرنے کے لیے دنیاۓ سبائیت سے درآمد کردہ مواد سے جو کچھ تاریخ کے صفحات میں قلمبند کیا ہے اس کا حقیقت سے قطعی کوئی تعلق یا واسطہ نہیں. (خلافتِ راشدہ : ٥٥-٥٦)
مشہور غیر مقلد عالم ..... کا کہنا ہے :
"ولا يلتزمون ذكر الخلفاء ولا ذكر سلطان الوقت لكونه بدعه" (هدية المہدی : ١/١١٠)
ترجمہ : (اہل حدیث خطبہ جمعہ میں) خلفاءِ راشدینؓ اور بادشاہِ وقت کا ذکر کا التزام نہیں کرتے، کیونکہ یہ بدعت ہے.
یہی غیر مقلد صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں :
یہ ممکن ہے کہ اولیاءِ کرامؒ کو دوسری وجوہ سے ایسی افضلیت حاصل ہو جو صحابی کو حاصل نہ ہو، جیسا کہ ابن سیرین سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ ہمارے امام مہدی ابوبکرؓ و عمرؓ سے افضل ہیں.(هدية المہدی : ١/٩٠)
موجودہ جماعت اہل حدیث کے ایک صاحب قلم ......... خلیفۂ راشد حضرت علیؓ کے متعلق لکھتے ہیں :
" آپ کو امت نے اپنا خلیفہ منتخب نہیں کیا تھا، آپ دنیاۓ سبائیت کے منتخب خلیفہ تھے، اسی لئے آپ کی خودساختہ خلافت کا چارپانچ سالہ امت کے لیے عذابِ خداوندی تھا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ فرزندانِ توحید خوں میں تڑپ تڑپ کر ختم ہوگئے."(صدیقہ کائنات : ٢٢٨)
حضرت امام حسنؓ و امام حسینؓ کو صحابی کہنا سبائیت کی ترجمانی یا تقلید کی خرابی ہے، غیر مقلد انھیں زمرۂ صحابہؓ سے نکال سکتے ہیں!
"حضرات حسنین کو زمرۂ صحابہؓ میں شمار کرنا صریحاً سبائیت کی ترجمانی ہے یا اندھا دھند تقلید کی خرابی".(سیدنا حسن بن علی:٢٣)
حضرت حسینؓ کی کوفہ روانگی بچکانہ حرکت، سفر کی مشقتوں کو جھیلنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا (جس نے اسلام کے لیے جان دیدی کیا وہ سفر کی مشقت برداشت نہیں کرسکتا؟)
"حقیقت یہ ہے کہ مکہ سے روانگی تک خروج کے ارادہ کو کسی نے کوئی اہمیت نہ دی، اس پرامن سلطنت کے اندر اس ایک آدمی کی اس قسم کی حرکات سنجیدہ لوگوں کے نزدیک ایک بچکانہ حرکت تھی، جن لوگوں نے آپ کو روکا ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ گھر سے نکل کر شدائدِ سفر کی تکلف ایک شہزادے کے بس کا روگ نہیں ہونگی". (واقعہ کربلا : ٧)
نواسۂ رسولؐ حضرت حسینؓ کا سفر اسلام کی سربلندی کے لئے نہیں تھا بلکہ خلافت کی حرص میں تھا:
"آپ اعلاۓ كلمة الحق کے نظریہ کے تحت عازم کوفہ نہیں ہوۓ تھے، بلکہ حصولِ خلافت کے لیے آپ نے یہ سفر اختیار کیا تھا". (واقعہ کربلا : ١٨)
درویشِ امت حضرت ابوذر غفاریؓ کمیونسٹ نظریہ سے متاثر تھے:
علامہ اقبال کا ایک شعر ہے: مٹایا کیسر و قصرىٰ کی استبداد کو کس نے؛ وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلیمانی.
اس شعر پر حکیم صاحب تنقید کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: "(اس شعر میں) دوسرے نمبر پر حضرت ابوذر غفاری کا نام ہے جو ابن سبا کے کمیونسٹ نظریہ سے متاثر ہوکر ہر کھاتے پیتے مسلمان کے پیچھے لٹھ لیکر بھاگ اٹھتے تھے". (خلافتِ راشدہ:١٣٤)
صحابہؓ مشت زنی کیا کرتے تھے العياذ بالله:
بعض اهلِ علم نقل ایں استمناء از صحابہ نزد غیبت از اھل خود کردہ اند
ترجمہ : صحابہ جب اہل و عیال سے جب دور ہوتے تو صحابہ کرام بھی مشت زنی کیا کرتے تھے.(عرف الجادی : ص ٢٠٧)
خلفاۓ راشدینؓ الله و نبیؓ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے:
برادران! حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی رضی الله عنہم قطعاً اپنی اپنی خلافت کے زمانہ میں دونوں معنی کے لحاظ سے أولو الأمر تھے ..... اور آگے لکھتے ہیں .... "لیکن باوجود اس کے نہ تو کسی ایک صحابی نے ان کی تقلید کی اور نہ کوئی ان کی طرف منسوب ہوا؛ بلکہ ان کے اقوال کی خلاف ورزی کی، جب وہ فرمانِ الله اور فرمانِ رسول کے خلاف نظر آۓ".(طریق محمدی:٢٦١)
خطبہ جمعہ میں خلفاء الراشدین کا ذکر کرنا بدعت ہے۔ (ھدیة المہدی ص110)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کرنا اصل اسلام کے خلاف تھا۔(طریق محمدی ص83)
حضرت عمرؓ معمولی اور موٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے:
"حنفی بھائیو! ذرا کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتلاؤ کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ علم و فقہ میں بڑھے ہوۓ تھا یا حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ خليفة المسلمين. امیر المؤمنينؓ! پس آؤ سنو! بہت سے صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی ہے.(طریق محمدی:٧٨)
•فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے صاف صاف موٹے مسائل میں غلطی کی۔(طریق محمدی ص54)
•روز مرہ کے مسائل حضرت عمررضی اﷲ عنہ سے مخفی رہے ۔(طریق محمدی ص55)
ان لوگوں کا تراویح کو بدعت عمری کہنا اور حضرت عثمان غنیؓ کے جاری کردہ اذان ثانی کو بدعت عثمانی قرار دینا، سب کو معلوم ہے، جب کہ ہرشخص جانتا ہے کہ بدعت بدترین گناہ اور دین میں زیادتی کی مذموم کوشش ہے، کیا اس سے حضرت عمرؓ وحضرت عثمانؓ بے خبر تھے؟ اور کیا ان سے اس کا ارتکاب ہوسکتا تھا؟
•ہم نے عمررضی اﷲ عنہ کا کلمہ نہیں پڑھا جو ان کی بات مانیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
•حضرت عمررضی اﷲ عنہ کے بہت سے مسائل حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھے ۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
•حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا فعل نہ قابل حجت ہے نہ واجب العمل۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص252)
•متعہ سے اگر حضرت عمررضی اﷲ عنہ منع نہ کرتے تو کوئی زانی نہ ہوتا۔(لغات الحدیث جلد4ص186)
•حضرت عمررضی اﷲ عنہ کا فتوی حجت نہیں۔(فتاوی ستاریہ جلد2ص65)
•اجتہاد عمررضی اﷲ عنہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف تھا۔(تیسیر الباری جلد7ص170)
•حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا عمل قابل حجت نہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2ص233)
•حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضر عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔(تنویر آلافاق ص108)
•حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی سمجھ معتبر نہیں۔(شمع محمدی ص19)
•حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کا قول حجت نہیں۔(تیسیر الباری جلد7ص165)
•
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضر عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے سامنے دو آیات اور کئی احادیث کو پیش کیا گیا مگر انہوں نے مصلحت کی وجہ سے نہ مانا۔(تنویر آلافاق ص108)
•اذان عثمانی رضی اﷲ عنہ بدعت ہے اور کسی طرح جائز نہیں۔( فتاوی ستاریہ جلد3ص85,86,87)
•حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خودساختہ خلافت کا چار، پانچ سالہ دور امت کےلئے عذاب خداوندی تھا ۔(صدیقہ کائنات ص237)
•حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد امت نے سکھ کا سانس لیا۔(صدیقہ کائنات ص237)
•آپ رضی اﷲ عنہ دنیائے سبائيت ( شیعت) کے منتخب خلیفہ تھے۔(صدیقہ کائنات ص237)
•نبی علیہ السلام کی زندگی ہی میں آپ (علی رضی اﷲعنہ) حصول خلافت کے خیال کو اپنے دل میں پروان چڑھانے میں مشغول تھے۔(صدیقہ کائنات ص237)
•حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا تین طلاقوں کو تین کہنے کا فیصلہ غصہ کی بنیاد تھا ۔(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص103)
•
خلفاء الراشدین نے قرآن و سنت کے خلاف فیصلے دئيے اور امت نے اس کو رد کر دیا۔(تنویر آلافاق فی مسئلة الطلاق ص107)
•حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ کے مناقب بیان کرنا جائز نہیں ہیں۔(لغات الحدیث جلد2ص36)
•معاويہ رضی اﷲ عنہ اور عمروبن عاص رضی اﷲ عنہ شریر تھے ۔(لغات الحدیث جلد 2ص36)
•اسلام کا سارا کام معاويہ رضی اﷲ عنہ نے خراب کیا۔(لغات الحدیث جلد3ص104)
•صحابی رضی اﷲ عنہم کا قول حجت نہیں ہے ۔(فتاوی نذیریہ جلد1ص340)
•موقوفات (اقوال و افعال) صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔(رسالہ عبد المنان ص14-81-84-85-59)
•متاخرین علماءصحابہ رضی اﷲ عنہم سے افضل ہو سکتے ہیں(ھدیة المہدی ص90)
•صحابہ رضی اﷲ عنہم اور فقہا رحمہ اﷲ کے اقوال گمراہ کن ہیں۔(فتاوی ثنائیہ جلد2ص247)
•اقوال صحابہ رضی اﷲ عنہم حجت نہیں۔(عرف الجادی ص44-58-80-101-207)
•صحابہ رضی اﷲ عنہم کی فہم معتبر نہیں۔(الروضة الندیہ ص98)
•حضرت مغیرہ رضی اﷲ عنہ کی3/4 دیانتداری کوچ کر گئی ۔(لغات الحدیث جلد3ص160)
نوٹ: طوالت کے خوف سے بعض جگہ مفہوم ذکر کیا گیا ہے۔
حضورؐ کی بات بھی بغیر وحی کے حجت اور دلیل نہیں:
"سنئے جناب! بزرگوں کی، مجتہدوں اور اماموں کی راۓ، قیاس، اجتہاد، استنباط اور ان کے اقوال تو کہاں شریعتِ اسلام میں، تو خود پیغمبر الله صلی الله علیہ وسلم بھی اپنی طرف سے بغیر وحی کے اپنی طرف سے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں".(طریق محمدی:٥٧)
صحابہ کرامؓ کو برا بولنے والے سرکار دوعالمؐ کے ارشاد کی روشنی میں اور حضورؐ کا ارشاد مبارک کہ صحابہؓ کو برا بولنے والوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟
صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والے کا کوئی عمل الله کے ہاں قبول نہیں؛ نہ فرض نہ نفل:
حضورؐ نے فرمایا کہ الله نے مجھے منتخب کیا اور میرے لیے میرے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا، ان میں سے میرے کچھ وزراء بناۓ، مددگار اور قرابت دار بناۓ، بس جو انھیں برا کہے اس پر الله کی، الله کے فرشتوں کی، اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، قیمت کے دن نہ اس کا فرض قبول کیا جاۓ گا، نہ نفل".(المعجم الکبیر: ١٧ / ١٤٠)
صحابہ کرامؓ کو برا کہنے والوں کے ساتھ ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟
الله نے میرے لیے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا اور انھیں میرے صحابہ، مددگار اور قرابت دار بنایا، ان کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو انھیں برا کہیں گے، ان میں نقائص اور کمی نکالیں گے، اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو نہ ان کے ساتھ نکاح کا رشتہ رکھو، نہ ان کے ساتھ کھاؤ پیو، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو اور نہ ان کے جنازہ کی نماز پڑھو.(جامع الاحادیث : ٧/ ٤٣١، مظاھر الحق : ٥/ ٥٨)
صحابہؓ کو برا کہنے والوں پر لعنت بھیجنے کا حکم:
آںحضورؐ نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کے بے بارے میں برا کہہ رہے ہیں تو کہو الله تمہارے شر پر لعنت کرے.(ترمذی شریف: كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر : ٣٨٠١)
مسلمانو! فرقہ اہل حدیث قرآن و حدیث پر عمل کا دھوکہ دیکر اس کی آڑ میں صحابہ کرامؓ کو برا کہنے اور ان مقدس شخصیات کو مجروح کرنے کا کام کر رہا ہے، حالانکہ نبیؐ نے ان کی اتباع کا حکم دیا ہے اور انھیں راہِ ہدایت کے ستارے قرار دیا ہے، لیکن یہ بدنصیب کہتے ہیں کہ صحابہؓ کے کام اور ان کی باتیں شریعت کا حصہ نہیں، ان کی اتباع کی ضرورت نہیں، جب کہ یہ اپنے مولویوں کی بات کو صحابہؓ کی بات سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہوۓ ان کی بات نہ ماننے والے کو گمراہ کہنے لگتے ہیں، اب بھلا بتائیے ان بدنصیبوں کی بات مانی جاۓ گی یا حضور پرنورؐ کی؟؟؟ یہ یہودیوں کی ایک بڑی سازش ہے؛ کیونکہ امت اور نبیؐ کے درمیان واسطہ یہی جماعت صحابہؓ ہے؛ اگر ان کو ہی ناقابلِ اعتبار کردیا گیا تو پھر دین کی عمارت ہی گرجاۓ گی، فرقہ اہلحدیث کے ماننے والوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور الله کے لیے امت کو گمراہ نہ کریں، ١٤٠٠/سو سال تک صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، امت کے علماء، مشائخ اور اولیاء الله جس راہ پر چل کر الله کے مقرب بنے ہیں آج کی پندرھویں صدی کا مسلمان بھی اس راہ پر چل کر الله کا مقرب اور مقبول بندہ بن سکتا ہے، اس کو نۓ دین یا نئی تشریحات کی بلکل ضرورت نہیں، یہ گمراہی ہے. (اس تحریر کا مقصد صرف حق بات کی طرف توجہ دلانا ہے اور بری سے روکنا ہے. اگر موجودہ غیر مقلدین اہلِ حدیث احباب اوپر پیش کی گئی باتوں کا انکار کرتے ہیں اور اہلِ حدیث جماعت کے ان علماء کی ان تحریروں کو گمراہی سمجھتے ہیں تو ان سے عرض ہے کہ اہلِ سنّت والجماعت علماء کی کتابوں کے خلاف وہ جس طرح پروپگنڈہ کررہے ہیں اسی طرح ان کتابوں کے خلاف بھی جلسے اور بیانات کریں، ان کے خلاف کتابیں اور اشتہارات چھاپ کر اپنی برأت کا ثبوت دیں.
معیاِرِ حق، ایمان و ہدایت : ایمان و فہمِ صحابہ کرامؓ
urdubooklinks.blogspot.in/2012/11/blog-post_7.html