Post by Mohammed IbRaHim on Feb 25, 2014 15:10:13 GMT 5.5
فقہ حنفی پر اعتراضات پانچواں اعتراض اور اس کا جواب اعتراض
فتاویٰ قاضی خان میں ہے : وإن اولج بهيمة أو ميتة ولم ينزل لا يفسد صومه ولا يلزم الغسل. ترجمہ : "اگر کسی نے روزہ کی حالت میں کسی جانور سے یا مردہ (عورت یا مرد) سے صحبت داری کرلی اور انزال نہیں ہوا تو وہ روزہ بھی نہیں گیا اور غسل بھی واجب نہیں" اور ہدایہ میں ہے کہ "کفارہ نہیں آتا خواہ انزال ہو یا نہ ہو".
جواب : فقہ قانونِ اسلام ہے ، قرآن مجید کی پوری تفسیر اور حدیثِ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی پوری شرح ہے ، اس میں تمام مسائل جزئیہ مشرح و مبسوط ہیں ، ان کے احکامات کے لئے جداگانہ ابواب ہیں ، ہر باب میں اسی باب کے متعلق مسائل مذکور ہیں اور جو جو حکم ان مسائل کے اور باب سے متعلق ہیں وہ اس دوسرے باب میں مذکور ہیں . جب یہ بات ذهن نشین ہو چکی تو ہم کہتے ہیں کہ کسی نے اپنے خبثِ نفس کی وجہ سے کسی جانور یا مردہ عورت سے یہ حرکت کی ہو تو لامحالہ شریعت میں اس کا کوئی حکم مذکور ہونا چاہئے، یعنی اولاً : یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آیا یہ فعل اس کا جائز ہے یا ناجائز ؟ ثانیاً : اس میں غسل جنابت واجب ہوتا ہے یا نہیں ؟ ثالثاً : اگر بحالت روزہ یہ حرکت وقوع میں آۓ تو روزہ کا کیا حکم ہے ؟ رابعاً : اس فعلِ زبوں کی سزا میں اس شخص کا کیا حکم ہے اور اس جانور کا کیا حکم ؟ سو قربان جائیے فقہاء کے کہ انہوں نے یہ چاروں حکم قرآن و حدیث سے چن چن کر اپنے اپنے باب میں ذکر کیے یعنی غسل کا واجب ہونا نہ ہونا باب الغسل میں ذکر کیا ، روزہ کا فاسد ہونا نہ ہونا مفسدات صوم میں ذکر کیا ، اور اس بدکار کی سزا اور جانور کا حکم باب الحدود میں ذکر کیا . تفصیل اس کی یوں ہے کہ "در المختار" میں حدِ زنا کے باب میں مذکور ہے کہ : ولا يحد بوطي بهيمة بل يعتزو تذبح ثم تحرق ويكره الانتفاع بها حية و مية ....[رد المحتار على الدر المختار (ابن عابدين) » كتاب الحدود » باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لا يوجبه ...ص: 26] يعني جانور سے صحبت کرنے میں کوئی حد شریعت میں مقرر نہیں ہوئی ہے لیکن ہاں اس شخص بدکار کو سخت تعزیر دی جاوے اور اس جانور کو ذبح کرکے جلایا جاۓ اور اس جانور سے ہر طرح کا نفع اٹھانا ذبح سے پہلے اور بعد بھی (گوشت کھانا) مکروہ ہے ... تو دیکھئے اس عبارت میں کیسی شد و مد کے ساتھ اس شخص کا مستحق سزا ہونا اور اس جانور کا جلایا جانا مذکور ہے. رہی یہ بات کہ کون سی سزا اس شخص کو دی جاۓ ؟ سو اس کی نسبت "در المختار" میں یہ عبارت ہے کہ : والتعزير ليس فيه تقدير بل هو مفوض إلى رأى القاضى ويكون بالقتل ... [رد المحتار على الدر المختار (ابن عابدين) » كتاب الحدود » باب التعزير ... ص: 62] یعنی سزا کا گو اندازہ مقرر نہیں ہے بلکہ حسبِ متقاضاۓ وقت حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مصلحت وقت ہو تو اس کو (تعزیراً) قتل کردینا بھی جائز ہے. اور "رد المختار" میں ہے : الجماع في غير القبل إذا تكرر ، فللامام أن يقتل فاعله ... یعنی اگر کوئی (اپنی منکوحہ کی فرج کے) علاوہ کسی اور (محل ناجائز) میں بدفعلی کرنے لگے، تو امام کو اس کا مار ڈالنا بھی جائز ہے. سو دیکھئے کہ ان تینوں عبارتوں کی اول عبارت سے اس فعلِ شنیع کے مرتکب کا مستحق سزا ہونا معلوم ہوا ، اور دوسری عبارت سے دوبارہ تعین سزا حاکم اسلام کا اختیار معلوم ہوا ، اور تیسری عبارت سے قتل کردینا تک بھی تعزیراً جائز معلوم ہوا.
سو اب مجتہدانِ غیرمقلدین (بر صغیر کے نام نہاد اہل حدیث) کی خدمت میں التماس ہے کہ آپ کا مقصود اس مسئلہ کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ یہ فعلِ شنیع علماء حنفیہ کے نزدیک درست ہے ، چناچہ آپ کی جماعت کے ہر کہ دمہ سے یہی سنا جاتا ہے ، تو آپ نے بہت بڑا بہتان اس جم غفیر کے ذمہ لگایا ہے اور اس کے صلہ میں آپ کے تمام ہم مشرب مصداق آیت کریمہ : لا تَفتَروا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسحِتَكُم بِعَذابٍ ... ہوگئے ہیں. لہذا ضروری ہے کہ آپ اس بہتان بندی سے تائب ہوجائیں اور اپنے سخن کا پاس نہ کریں اور آئندہ جو کچھ شبہات مسائل حنفیہ کی نسبت آپ کو پیش آیا کریں تو کسی مجھ جیسے طالب علم سے اول استفسار کرلیا کیجئے پھر کہیں اوروں سے ذکر کیا کیجئے. شاید آپ کو وجہ اتہام یہ پیش آئی کہ اس مسئلہ میں غسل وغیرہ کا آنا تو مذکور ہوا پر اد اس کی اس مسئلہ کے ساتھ مذکور نہیں ہوئی اور جب کوئی سزا اس مسئلہ کے ساتھ ذکر نہیں کی گئی تو ،علوم ہوگیا کہ یہ فعل حنفیہ کے نزدیک جائز ہے سو قربان جائیے آپ کے فہم عالی کے اگر یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جس فعال کی سزا اس کے ساتھ ہی مذکور نہ ہو تو تو اس فعال کا جواز مفہوم ہوگا تو لیجئے ہم حدیثِ رسولؐ پیش کرتے ہیں، اس پر بھی اس قاعدہ کو جاری کیجئے اور یہی اعتراض اس حدیث پر بھی جڑ دیجئے؟ حضرت رافع بن خدیجؓ اور (سنن ابن ماجه » كِتَاب الْحُدُودِ » بَاب لَا يُقْطَعُ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ، رقم الحديث: 2586) میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : "لَاقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَاكَثَرٍ"۔ [ترمذی: كِتَاب الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ لَاقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَاكَثَرٍ،حدیث نمبر:۱۳۶۹، موقع الإسلام] ترجمہ: یعنی پھل اور خوشہ (درخت کے گوبہ) کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
ایسے ہی اور لیجئے ، دوسری حدیث میں حضرت جابرؓ بن عبد الله سے رسول اللهؐ کا فرمان آیا ہے : لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ , وَلَا مُنْتَهِبٍ , وَلَا مُخْتَلِسٍ , قَطْعٌ ترجمہ : نہ امانت میں خیانت کرنے والے کا ، اور نہ مال لوٹنے والے کا ، اور نہ ہی گرہ کٹ کا ، (ہاتھ) کاٹا جاۓ گا ؛ [جامع الترمذي » كِتَاب الْحُدُودِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْخَائِنِ وَالْمُخْتَلِسِ وَالْمُنْتَهِب ...رقم الحديث: 1364] اسی پر تیسری حدیثِ رسولؐ حضرت ابنِ عباسؓ کو قیاس فرمائیے : مَنْ أَتَى بَهِيمَةً فَلَا حَدَّ عَلَيْهِ . یعنی جو آدمی کسی جانور سے بدفعلی کرے تو اس پر زنا کی حد جاری نہ کی جاۓ. [جامع الترمذي » كِتَاب الْحُدُودِ » بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقَعُ عَلَى الْبَهِيمَةِ ... رقم الحديث: 1371] امام ترمذیؒ نے اس (حدیث) کو بیان کرکے فرمایا : وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. [جامع الترمذي » كِتَاب الْحُدُودِ » بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقَعُ عَلَى الْبَهِيمَةِ ... رقم الحديث: 1371]
یعنی کہ یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (جس کا مضمون یہ تھا کہ جو آدمی کسی جانور سے بدفعلی کرے تو اس کو مار ڈالو) اور اہل علم کا عمل بھی اسی پر ہے (کہ اس پر حد نہ جاری کی جاۓ گی)؛
سو اب غیر مقلدین کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے قاعدہ کے موافق پھل وغیرہ جائز فرماتے ، اور خیانت کو بھی جائز بتلاتے ، اور لوٹ مار اور لوگوں کی جیبیں کترنے کو بھی مبہ فرماتے ، اور جانور سے بدفعلی کو بھی جائز بتلاتے کیونکہ اس میں حد زنا نہ آنے کو تو امام ترمذیؒ نے بھی ، جو محدثین کے امام ہیں ، خوب شد و مد سے بیان کرچکے ہیں. ؛
سو اب ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری طرز کے موافق تو نہ ان احادیث پر کچھ اعتراض ہے اور نہ کتب فقہ پر کیونکہ کسی موقع پر رسول کریم علیہ الصلواة والتسليم کو حد کا عدم الوجوب (واجب نہ ہونا) ذکر کرنا مدنظر تھا اس موقع میں تو یہ فرمادیا کہ فلاں فلاں پر حد نہیں ہے اور کہیں اس فعال کا حرام و گناہ ہونا ذکر کے قابل تھا وہاں اس کو ذکر فرمایا چنانچہ ماہرینِ حدیث پر پوشیدہ نہیں ہے. عٰلى هٰذا فقہ میں بھی یہی قصہ ہے یعنی جہاں غسل کے واجب ہونے نہ ہونے کا موقع تھا وہاں اس کو ذکر کیا اور جہاں اس کی حرمت اور سزا بیان کرنا مدنظر تھی ، وہاں اس کو ذکر کیا . اور کیوں نہ ہو عقلِ سلیم بھی اسی طرز کو پسند کرتی ہے. ؛
بالجملہ جب اس حرکتِ شنیع کی حرمت اور اس میں تعزیر کا واجب ہونا ہم کتبِ فقہ سے مدلل بیان کرچکے تو مجتہدانِ غیر مقلدین سے التماس ہے کہ اگر آپ کے نزدیک اس صورتِ خاص میں بلا انزل بھی غسل واجب ہوتا ہے تو آپ کو قرآن و حدیث سے اپنے دعوے کی دلیل لکھنی چاہئے تھی ، اگر آپ دلیل لکھتے تو ہم کو بھی اس کی تسلیم سے کیا انکار تھا. خیر جب نہیں لکھ سکے تو اب زیبِ قلم فرمائیے مگر اس قدر خیال رہے کہ چونکہ آپ کے نزدیک اجماع و قیاس تو کوئی دلیلِ شرعی نہیں اس لئے (اپنے کسی قیاسی تشریحی الفاظ کی ملاوٹ کے بجاۓ صرف) کسی آیت سے صراحتاً یا کسی حدیث سے وضاحتاً ارقام فرمائیے کہ صورت مرقومہ بالا میں بلا انزل بھی غسل واجب ہوتا ہے ؟ اور روزہ کی حالت میں کفارہ واجب ہوتا ہے ؟ اگرچہ مناسب وقت تو یہی تھا کہ تاوقتیکہ آپ وجوبِ غسل اور وجوبِ کفارہ کی دلیل بیان نہ کریں ہم اپنے مدعا کی دلیل بیان نہ کرتے مگر چونکہ بعض بعض کو ہماری دلیل سننے کا حد سے زیادہ اشتیاق ہے اس لئے ابھی لکھ دیتے ہیں؛
سو سنیے! تتبعِ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں موجبِ غسل (غسل کو واجب کرنے والی بات) خروجِ منی (منی کا نکلنا) ہے مگر شارعؑ نے بعض مواقع میں اس کے اسباب و دواعی کو اس کے قائم مقام کردیا ہے، جیسے اصل میں ناقصِ وضو (وضو توڑنے والی چیز) خروجِ ریح (ہوا کا خرج ہونا) وغیرہ ہے لیکن بعض موقع میں نیند کو جو باعثِ استرخاءِ اعضاء (یعنی اعضاء کے ڈھیلے / فراخ ہوجانے کے باعث نیند) سببِ خروجِ ریح (ہوا خارج ہوجانے کا سبب) ہے، یہی وجہ ہے کہ جس نیند میں احتمالِ خروجِ ریح نہ ہو اس سے وضو نہیں جاتا. چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ انتظارِ عشاء میں بیٹھے بیٹھے سوجایا کرتے تھے ، اور پھر اسی وضو سے نماز پڑھا کرتے تھے. عٰلى هٰذا موجبِ غسل درحقیقت انزالِ منی ہے ، چناچہ ابتداۓ اسلام میں صحبت بلا انزال سے غسل واجب نہیں ہوتا تھا اور نیز اسی وجہ سے احتلام فی المنام (نیند میں احتلام ہوجانے) میں وجوب غسل کے لئے انزال شرط ہے ، لیکن شارح نے وطی و مجامتِ ہم جنس (اپنی جنس والے سے یعنی جیسے مرد کا مرد سے یا عورت کا عورت سے مجامعت) کو منجملہ دواعیِ انزال (یعنی انزال کو دعوت دینے) اعلیٰ درجہ کا سبب ہے ، قائم مقامِ انزال کیا ہے . اور بوجہِ چند اس کو بھی موجبِ غسل قرار دیا ہے؛ ١) اول یہ کہ یگانگتِ جنسی باعثِ غلبۂ شہوت ہے؛ ٢) دوم یہ کہ محلِ شہوت کا منکشف ہونا اور زیادہ تر باعثِ ہیجانِ شہوت ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان مواضع کا ڈھکنا بہ نسبت ران وغیرہ کے سخت درجہ کا موکد ہے؛ ٣) سوم یہ کہ پھر ایسے غلبۂ شہوت کے وقت حرکاتِ جماعی کا وقوع میں کرنا انزالِ منی کو قریبُ الوُقوع کردیتا ہے؛ ٤) چہارم یہ کہ ایسے وقت میں اکثر خروجِ مذی ہوا کرتا ہے اور اس سے منیِ رقیق کے اختلاط کا احتمال ہوا کرتا ہے؛ ٥) پنجم یہ کہ اگر مذی نکلتی بھی ہے تو نظر سے غائب ہوتی ہے، اگر پیشِ نظر ہوتی تو مذی و منی میں فرق چاندن دشوار نہ ہوتا. نظر برین شارعؑ نے صحبتِ ہم جنس کو قائم مقامِ انزال کرکے موجبِ غسل قرار دیا ہے، مگر صحبتِ جانور میں اول تو یگانگتِ جنسی مفقود ہے بلکہ بوجہِ اختلافِ جنسی رہی سہی شہوت بھی کم ہوجاتی ہے، دوم یہ کہ فرجِ جانور محلِ شہوت نہیں یہی وجہ ہے کہ شارعؑ نے اس کی ستر پوشی کی لوگوں کو تکلیف نہیں دی. اگر (یہ) محلِ شہوت ہوتا تو ضرور ان کو ڈھانکنے کی تکلیف دی جاتی اور نیز اسی وجہ سے طبائعِ سلیمہ اس سے متنفر ہوتے ہیں اور اس کے ذکر سے بھی مثل ذکر قے (الٹی) یا پاخانہ کے مکدر ہوتی ہیں پھر اس حالت میں بھی کوئی اس سے خراب ہوتا ہے تو محض اپنی سفاہت و دناءَت سے خراب ہوتا ہے. نظر برین فرجِ جانور میں عضوِ خاص داخل کرنا ایسا ہے کہ گوبر و پاخانہ کے تودہ میں گھسادینا اور در و دیوار کے روزن میں چھپادینا یا ہٹی میں دبادینا ہے، سو وہ جیسے ہاتھ سے دبالینے میں یا ہاتھ سے سیلادینے میں تاوقتیکہ انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا ہے ایسے ہی صحبتِ جانور میں بلا انزال غسل واجب نہیں ہوگا ، اگرچہ سخت درجہ کی معصیت اور سخت درجہ کی سزا کا مستوجب ہے.
جب ایسے مسئلہ سے فارغ ہوۓ تو دوسرے مسئلہ کا حال بھی خیال فرمائیے ؛ اگرچہ روزہ رمضان میں کسی نے بوجہ اپنی خباثتِ نفس کے کسی جانور سے بدفعلی کی تو مرتکبِ حرام بیشک ہوا اور مستوجبِ تعزیر لاریب بن گیا پر کفارہِ افطار اس کے ذمہ واجب نہیں ہے. وجہ اس کی یہ ہے کہ جملہ کفارات سزاہاۓ شرعیہ اور حدودِ دینیہ ہیں اور حدود میں شارعؑ کو یہ امر ملحوظ ہے کہ فعل میں جو جو سزا مقرر ہوئی تو اس سزا کو سی فعل پر مقصود رکھنی چاہئے ، اس فعال کی مناسبت میں اپنے قیاس سے اس حد کو جاری نہیں کرنا چاہئے ، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐ نے بمقتضاۓ آیت قرآنی : وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما جَزاءً بِما كَسَبا نَكٰلًا مِنَ اللَّهِ [المائدہ : ٣٨] چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم تو فرمایا ، پر خائن اور اچکا اور لٹیرے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ دیا بلکہ صاف طور پر فرمادیا کہ : لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ , وَلَا مُنْتَهِبٍ , وَلَا مُخْتَلِسٍ , قَطْعٌ ترجمہ : نہ امانت میں خیانت کرنے والے کا ، اور نہ مال لوٹنے والے کا ، اور نہ ہی گرہ کٹ کا ، (ہاتھ) کاٹا جاۓ گا ؛ [جامع الترمذي » كِتَاب الْحُدُودِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْخَائِنِ وَالْمُخْتَلِسِ وَالْمُنْتَهِب ...رقم الحديث: 1364]
اگرچہ متقاضاۓ قیاس یہ تھا کہ ان تینوں پر بدرجہِ اولیٰ قطعِ ید (ہاتھ کاٹنا) واجب ہوتا پر کیا کیجئے کہ حدود میں شارعؑ کو قیاس و اجتہاد پسند نہیں ہے بلکہ حدود کے اصلی جرموں میں بھی یوں حکم (بروایتِ حضرت ابو ہریرہؓ آیا) ہے کہ : ادْرَءُوا الْحُدُودَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ... یعنی بچاؤ حدود (کی سزاؤں سے) جہاں تک ہو سکے. [اور بروایتِ حضرت ابن عباسؓ "شبہات" میں حدود سے بچانے کا بھی ذکر ملتا ہے : ادْرَءُوا الْحُدُودَ بِالشُّبُهَاتِ] یعنی جہاں تک ہوسکے حد کو ذرا سے بہانے (شبہ) سے دفع کردیا کرو ، سو اس حدیث کے موافق فقہ کا تو قاعدہ مقرر ہوگیا ہے کہ ((الحدود تندرء بالشبهات)) حد ذرا سے شبہ سے ساقط ہوجاتی ہے. بالجملہ بوجوہاتِ مذکورہ بالا صحبتِ جانور بہت سے امور میں صحبتِ ہم جنس سے علیحدہ ہے تو جیسے رسول اللهؐ نے خائن و اچکا وغیرہ پر چوری کی حد جاری نہیں فرمائی ہے ایسے سزاۓ کفارہ جوعورت سے صحبت کرنے میں واجب ہوتی ہے ، صحبتِ جانور میں واجب نہ کریں گے بلکہ اس پر سزاۓ تعزیر جاری کرکے ہدایتِ توبہ تلقین کریں گے. والله أعلم وعلمه أحكم. فقط [ماخوذ : تعارف فقہ : فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات : ص # ٦٢ ، از مولانا سید مشتاق علی شاہ] تخریج