Post by Mohammed IbRaHim on Feb 25, 2014 17:03:45 GMT 5.5
امام ابن تیمیہ (حنبلی) اور مسئلہ تراویح
فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث بیس رکعت تراویح کو "بدعت و ناجائز" کہتے ہیں، جو دراصل اپنے دوسرے وساوس کی طرح یہ وسوسہ بھی روافض (شیعہ) سے چرایا ہے.
چناچہ جب رافضیوں (شیعہ) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) پر الزام لگایا کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی جماعت قائم کر کی بدعت کا ارتکاب کا ہے، تو امام ابن تیمیہ رح نے حضرت عمر (رض) کے دفاع میں یہ جواب دیا کہ:
ترجمہ: اگر عمر (رض) کا بیس رکعت تراویح کو قائم کرنا قبیح اور منھی عنہ (جس سے روکا جانا چاہیے) ہوتا تو حضرت علی (رض) اس کو ختم کردیتے جب وہ کوفہ میں امیر المومنین تھے. بس جب ان کے دور میں بھی حضرت عمر(رض) کا یہ طریقہ جاری رہا تو "یہ اس عمل کے اچھا ہونے پر دلالت کرتا ہے" بلکہ حضرت علی (رض) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضرت عمر (رض) کی قبر کو روشن کرے جس طرح انہوں نے ہمارے لئے ہماری مسجد کو روشن کردیا.(اسد الغابہ:٤/١٨٣)
ابو عبدالرحمٰن السلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) نے رمضان میں قاریوں کو بلاکر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ انھیں بیس (٢٠) رکعت پرھاۓ (اور) وہ کہتے ہیں سیدنا علی انھیں وتر پڑھایا کرتے تھے.(السنن الکبریٰ البیہقی: ٢/٤٩٦)
[مہاج السنّہ : ٢/٢٢٤]
دیکھئے:
archive.org/stream/Minhaj-us-SunnahByShaykhIbnTaymiyahr.a#page/n605/mode/1up
عربي كتاب سے دیکھئے:
archive.org/stream/minhaj/msn8#page/n299/mode/1up
[سب صحابہ (رضی اللہ عنھم) کا اس حکم پر متفق ہوجانا، اس کو بدعت ضلالہ(گمراہ کن نئی بات) نہ سمجھتے اعتراض نہ کرنا "اجماع صحابہ" ظاہر کرتا ہے.
اور یہ دلیل ہے اجماع صحابہ رضی اللہ عنھم کی اور یہ ایک دلیل ہی کافی ہے کیونکہ اگر بیس (٢٠) رکعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہوتی تو زبان نبوت جن خلفاءراشدین (رضی اللہ عنھم) کو ہدایت-یافتہ کہے اور اختلاف کے وقت ان کی سنّت کو لازم پکڑو کا حکم و وصیت کرے، ان سے زیادہ بدعات کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟؟؟]
اعتراض: یہ حدیث ضعیف ہے؟؟؟
جواب: ہر ضعیف حدیث ناقابل قبول نہیں ہوتی اور امام ابن تیمیہ رح نے اس ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہے، جب کہ صحیح حدیث سے بھی حضرت علی (رض) نے ٢٠رکعت تراویح پڑھیں اور پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے:
حضرت زید بن علی اپنے والد (علی) سے، دادا (حسین) سے، (وہ) حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہیں کہ:
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اس شخص کو جو لوگوں کو تراویح پڑھاتا تھا، حکم دیا کہ لوگوں کو بیس (٢٠) رکعت تراویح پرھاۓ، ہر دو (٢) رکعتوں میں سلام پھیرے اور ہر چار (٤) رکعتوں کے بعد (تھوڑی دیر) راحت (لینے کے وقفہ کی وجہ سے اس نماز کو تراویح کہتے ہیں) لیں تاکہ (پانی/پیشاب کے) ضرورتمند لوٹ آئیں اور (وضو کرنے والا)آدمی وضو کرلے، اور یہ بھی حکم دیا کہ لوگوں کو وتر رات کے آخر میں(تراویح سے) فارغ ہوتے وقت پرھاۓ.
[مسند زيد » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَابُ الْقِيَامِ فِي شَہ رِ رَمَضَانَ، رقم الحديث: ١٥٥]
ترجمہ: تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (٢٠) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت" ہے، اس لئے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی.(مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض)
دیکھئے:
archive.org/stream/Minhaj-us-SunnahByShaykhIbnTaymiyahr.a#page/n605/mode/1up
عربي كتاب سے دیکھئے:
archive.org/stream/minhaj/msn8#page/n299/mode/1up
[سب صحابہ (رضی اللہ عنھم) کا اس حکم پر متفق ہوجانا، اس کو بدعت ضلالہ(گمراہ کن نئی بات) نہ سمجھتے اعتراض نہ کرنا "اجماع صحابہ" ظاہر کرتا ہے.
اور یہ دلیل ہے اجماع صحابہ رضی اللہ عنھم کی اور یہ ایک دلیل ہی کافی ہے کیونکہ اگر بیس (٢٠) رکعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہوتی تو زبان نبوت جن خلفاءراشدین (رضی اللہ عنھم) کو ہدایت-یافتہ کہے اور اختلاف کے وقت ان کی سنّت کو لازم پکڑو کا حکم و وصیت کرے، ان سے زیادہ بدعات کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟؟؟]
اعتراض: یہ حدیث ضعیف ہے؟؟؟
جواب: ہر ضعیف حدیث ناقابل قبول نہیں ہوتی اور امام ابن تیمیہ رح نے اس ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہے، جب کہ صحیح حدیث سے بھی حضرت علی (رض) نے ٢٠رکعت تراویح پڑھیں اور پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے:
حضرت زید بن علی اپنے والد (علی) سے، دادا (حسین) سے، (وہ) حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہیں کہ:
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اس شخص کو جو لوگوں کو تراویح پڑھاتا تھا، حکم دیا کہ لوگوں کو بیس (٢٠) رکعت تراویح پرھاۓ، ہر دو (٢) رکعتوں میں سلام پھیرے اور ہر چار (٤) رکعتوں کے بعد (تھوڑی دیر) راحت (لینے کے وقفہ کی وجہ سے اس نماز کو تراویح کہتے ہیں) لیں تاکہ (پانی/پیشاب کے) ضرورتمند لوٹ آئیں اور (وضو کرنے والا)آدمی وضو کرلے، اور یہ بھی حکم دیا کہ لوگوں کو وتر رات کے آخر میں(تراویح سے) فارغ ہوتے وقت پرھاۓ.
[مسند زيد » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَابُ الْقِيَامِ فِي شَہ رِ رَمَضَانَ، رقم الحديث: ١٥٥]
ترجمہ: تحقیق کہ بلا شبہ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے رمضان کے مہینے میں صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو بیس (٢٠) رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھائیں، اسی وجہ سے جمہور امت کا مسلک یہی ہے کہ یہ "سنّت" ہے، اس لئے کہ یہ فعل مہاجرین و انصار کے سامنے کیا گیا اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی.(مجموع فتاویٰ ابن_تیمیہ: ٢٣/١١٢ و ١١٣، نزاع العلماء في مقدار قيام رمضان، الطبعة الأولى من مطابع الرياض)