Post by Mohammed IbRaHim on Feb 25, 2014 17:10:12 GMT 5.5
حدیث اور اہلحدیث
ایک تحقیق -- -- ایک تجزیہ
بسم الله الرحمن الرحیم
انتساب
حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا سید حامد میاں رحمۃ اللہ علیہ [موسس جامعہ مدنیہ لاہور - متوفی 1408 ھجری]
بحرالعلوم حضرت مولانا قاری عبد الرشید رحمۃ اللہ علیہ [استاذ جامعہ مدنیہ لاہور - متوفی 1412 ھجری] کی ارواح مبارکہ کے نام
جن کی علمی و روحانی تربیت سے اس قابل ہوسکا کہ اپنی یہ تالیف اہل علم کی خدمت میں پیش کررہا ہوں
گر قبول افتد زہے عز و شرف
گزارش احوال
غیرمقلدین حضرات امتنازع مسائل سے متعلق چند احادیث سادہ لوح عوام کو دکھلا کر انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حدیث پر فقط اہلحدیث عمل کرتے ہیں اور کوئی نہیں اور حنفی لوگ تو حدیث کے خلاف عمل کرتے ہیں اور انکے پاس نماز کے متعلق احادیث ہیں ہی نہیں - کچھ بیچارے ان کے دھوکہ میں آجاتے ہیں اور انہیں صحیح سمجھ کر اپنا مؤقف و مسلک تک بدل لیتے ہیں - اس صورت حال کے پیش نظر اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسی کتاب ترتیب دی جائے جس میں ان احادیث کو جمع کیا جائے جن پر احناف عمل کرتے ہیں اور غیر مقلدین ان پر عمل کرنا تو کجا ان کے خلاف عمل کرتے ہیں ، چناچہ الله کا نام لے کر یہ کام شروع کردیا گیا البتہ یہ کام چونکہ انتہائی اہم تھا اس لیے اس میں کافی عرصہ لگ گیا ، تاہم الله کے فضل و کرم سے اب یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہے [اور اب یہاں انٹرنیٹ پر بھی وقتا فوقتآ آپ پڑھ سکیں گے انشاء الله] اس کتاب میں مسائل نماز سے متعلق طہارت سے لیکر جنازہ تک تقریبآ 79 عنوانات قائم کرکے ان سے متعلق احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ دیکھئے اس قدر کثیر تعداد میں یہ احادیث موجود ہیں جو ان کتابوں سے لی گئی ہیں جن کا حدیث کی امہات الکتب میں شمار ہوتا ہے - ان پر احناف عمل کرتے ہیں اور غیر مقلدین نے انہیں پس پشت ڈال رکھا ہے ، لہذا انکا یہ کہنا کہ احناف حدیث پر عمل نہیں کرتے یہ بالکل غلط ہے - حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات خود متنازع مسائل سے متعلق چند احادیث پر بزعم خویش عمل کرکے باقی سب کو ترک کردیتے ہیں اور دوسروں پر ترک حدیث کا الزام لگاتے ہیں - اس کوشش میں ہم کس حد تک کامیاب ہوسکے ہیں یہ تو قارئین ہی بتاسکیں گے ، اتنا ضرور ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انشاء الله یہ بات نکھر کر سامنے آجائیگی کہ حدیث پر کون عمل کرتا ہے اور کون نہیں - الله تعالی کے حضور التجاء ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو قبول و منظور فرما کر ہماری نجات اور عوام کی ہدایت کا ذریعہ بنائے - وما علینا الا البلاغ [انوار خورشید]
سخن گفتی
راقم الحروف بارگاہ خداوندی میں بصد عجز و نیاز شکر و سپاس پیش کرتا ہے کہ محض اس کے فضل و کرم سے بندہ کی یہ حقیر کوشش "حدیث اور اہل حدیث" اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کا پہلا ایڈیشن بغیر کسی اشتہار و تبصرہ کے ہاتھوں ہاتھ نکل گیا ، علماء طلباء اور عوام نے اسے قبولیت کے ہاتھوں لیا - راقم کی حوصلہ افزائی کی ، قیمتی آراء و مشوروں سے نوازا - یہ کتاب جو غیر مقلدین کے اس الزام کو دور کرنے کے لیے لکھی گئی ہے کہ
حنفی احادیث کے بجائے امام ابو حنیفه رحمه الله کے اقوال پر عمل کرتے ہیں ان کے پلے احادیث نہیں ہیں - اس کتاب نے جہاں غیر مقلدین کے اس الزام کو دور کیا ، اور بتلایا کہ احناف کثر الله سوادھم کے پاس احادیث مبارکہ کثرت کے ساتھ موجود ہیں اور وہ ان احادیث ہی پر عمل کرتے ہیں ، اور غیر مقلدین کا پروپیگنڈا غلط ہے
نیز اس کتاب سے جہاں بہت سے گم کردہ راہوں کو ہدایت ملی اور بہت سے لوگوں کے دلی اطمینان کا سبب بنی ، وہیں اس سے غیر مقلدین کے حلقہ میں اضطراب اور بے چینی پھیلی اور ان کے عوام ان سے اس کے جواب کا مطالبہ کرنے لگے ، غیر مقلدین نے اپنی خفت مٹانے ، اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے یہ راگ الاپنا شروع کردیا
کہ یہ جو کتاب ہے اور اس میں سب حدیثیں ضعیف ہیں - لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اس سے کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا مصنف مزاج شخص مطمئن نہیں ہوسکتا ، مقام غور ہے کہ ایسی کتاب جس میں بیسوں آیات مبارکہ صحاح ستہ [بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ] اور ان کے علاوہ حدیث کی مستند و معتبر کتابوں سے ماخوذ احادیث مبارکہ اور معتبر متون فقہ میں منقول ائمہ مجتہدین کے اقوال ہوں - اس کے بارے میں یک لخت بلادلیل یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ غلط کتاب ہے اور اس میں سب حدیثیں ضعیف ہیں؟
ایں کا راز تومی آید مرداں چنیں کنند
غیرمقلدین کی اس قسم کی باتوں سے ان کی بوکھلاہٹ کا اظہار تو ضرور ہوتا ہے لیکن کتاب کی افادیت اور اس میں اپنائے گئے مؤقف پر ذرا فرق نہیں پڑتا - - یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ غیر مقلدین اس کتاب کا جواب لکھ رہے ہیں ، اگر یہ بات صحیح ہے تو "چشم ما روشن دل ماشاد" ضرور جواب لکھیں انہیں اس کا حق ہے لیکن جواب لکھنے والے چند باتوں کو ملحوظ رکھ کر جواب لکھیں تاکہ اس کا کچھ فائدہ ہو محض تضیع اوقات نہ ہو
نمبر [01] جو صاحب جواب لکھیں اگر وہ اس کتاب میں مذکور احادیث پر جرح کریں تو جرح مفسر کریں اور جرح کا ایسا سبب بیان کریں جو متفق علیہ ہو نیز جارح ناصح ہونا چاہیئے نہ کہ متعصب ، اس چیز کا خاص خیال رکھیں کہ کوئی ایسی جرح نہ ہو جو بخاری و مسلم کے راویوں پر ہوچکی ہو
نمبر [02] جو صاحب جواب لکھیں وہ تدلیس ، ارسال ، جہالت ، ستارت جیسی جرحیں نہ کریں کیونکہ اس قسم کی جرحیں متابعت اور شواہد سے ختم ہوجاتی ہیں ، اور متابع و شواہد اس کتاب میں پہلے ہی کثرت کے ساتھ ذکر کر دیئے گئے ہیں ، ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر جو جواب دیا جائے گا وہ یقینآ در غو اعتناء سمجھا جائے گا ورنہ بے جا اور فضول باتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا
بفضل خدا اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن قارئین کے ہاتھوں میں ہے "اور اب آپ کے سامنے وقتآ فوقتآ آتا رہے گا" اس ایڈیشن میں بعض مقامات پر ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے - بعض مقامات پر مفید حواشی بڑھائے گئے ہیں اور پہلے ایڈیشن میں رہ جانے والی کتابت کی بہت سی اغلاط کو درست کروایا گیا ہے ، اس طرح یہ کتاب اپنی افادیت اور خوبی میں پہلے سے دوچند ہوگئی ہے - الله تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما کر ہماری نجات اور عوام کی ہدایت کا ذریعہ بنائے - وما علینا الا البلاغ [انوار خورشید]
عنوان نمبر [28]
اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہے جائیں
تثنیة الاقامة
حدیث نمبر [01]
عن عبد الرحمن بن ابی لیلی قال حدثنا اصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ان عبد الله بن زید الانصاری جاء الی النبی صلی الله علیه وسلم فقال یا رسول الله رأیت فی المنام کأن رجلا قام و علیه بردان اخضران علی جذمة حائط فاذن مثنی و اقام مثنی و قعد قعدۃ قال فسمع ذالك بلال فقام فاذن مثنی و اقام مثنی و قعد قعدۃ [مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص 203]
حضرت عبد الرحمن رحمہ اللہ بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک شخص دو سبز چادریں اوڑھے ہوئے ایک دیوار کے ٹکڑے پر کھڑا ہوا اور اس نے اذان و اقامت کہی اور اس نے [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی] کلمات دو دو بار کہے اور تھوڑی دیر بیٹھا - راوی کہتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نہ یہ سنا تو آپ بھی کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی اسی طرح اذان و اقامت کہہ کہ دونوں میں [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو] دو دو دفعہ کہا اور تھوڑی دیر بیٹھے
حدیث نمبر [02]
عن عبد الرحمن بن ابی لیلی قال حدثنی اصحاب محمد صلی الله علیه وسلم ان عبد الله بن زید الانصاری رأی فی المنام الاذان ، فاتی النبی صلی الله علیہ وسلم فاخبرہ فقال علمه بلالا فاذن مثنی مثنی و اقام مثنی مثنی و قعد قعدۃ [طحاوی ج1 ص 93]
حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان دیکھی تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آکر آپ کو خبر دی آپ علیہ السلام نے فرمایا بلال کو سکھادو چناچہ آپ نے اذان دی تو [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو] دو دو دفعہ کہا اور اقامت کہی تو بھی ان کلمات کو دو دو دفعہ ہی کہا ، اور تھوڑی دیر بیٹھے
حدیث نمبر [03]
عن ابی العمیس قال سمعت عبد الله بن محمد بن عبد الله بن زید الانصاری رضی الله عنه یحدث عن ابیه عن جدہ انه اری الاذان مثنی مثنی والاقامة مثنی مٹنی قال فاتیت النبی صلی الله علیه وسلم فاخبرته فقال علمهن بلالا قال فتقدمت فامرنی ان اقیم [خلافیات بیہقی بحوالہ درایۃ ج1 ص 115]
حضرت ابو العمیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن زید انصاری کو سنا وہ بواسطہ اپنے والد کے اپنے دادا سے سے روایت کر رہے تھے کہ [حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا] میں نے ایسی اذان و اقامت دیکھی جن میں [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات] دو دو دفعہ کہے گئے تھے - میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی - آپ نے فرمایا یہ کلمات بلال رضی عنہ کو سکھلا دو - حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں آگے بڑھا تو آپ نے مجھے اقامت کہنے کا حکم دیا
حدیث نمبر [04]
عن الشعبی عن عبد الله بن زید الانصاری قال سمعت اذان رسول الله صلی الله علیه وسلم فکان اذانه و اقامته مثنی مثنی [صحیح ابو عوانۃ ج1 ص 331]
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن زید انصاری نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان سنی ، آپ کی اذان و اقامت دونوں میں [شہادتین اور حیی الصلوۃ حیی الفلاح کے] کلمات دو دو دفعہ کہے گئے تھے
حدیث نمبر [05]
عن ابی محذورۃ ان النبی صلی الله علیه وسلم علمه الاذان ان تسع عشرۃ کلمة والاقامة سبع عشرۃ کلمة [ترمذی ج1 ص 48 - نسائی ج1 ص 73 - دارمی ج1 ص 217]
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو اذان کے 19 کلمات سکھائے اور اقامت کے 17 کلمات
حدیث نمبر [06]
عن ابی محذورۃ قال علمنی رسول الله صلی الله علیه وسلم الاذان تسع عشرۃ کلمة والاقامة سبع عشرۃ کلمة الاذان "الله اکبر ، الله اکبر - والاقامة سبع عشرۃ کلمة "الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، اشهد ان لا اله الا الله ، اشهد ان لا اله الا الله ، اشهد ان محمد رسول الله ، اشهد ان محمد رسول الله ، حیی الصلوۃ ، حیی الصلوۃ ، حیی علی الفلاح ، حیی علی الفلاح ، قدقامت الصلوۃ ، قدقامت الصلوۃ ، الله اکبر ، الله اکبر ، لا اله الا الله" [ابن ماجہ ص 52 - ابو داؤد ص 73]
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے اذان کے 19 کلمات سکھائے اور اقامت کے سترہ ، اذان کے کلمات تو یہ ہیں - - اور اقامت کی 17 کلمات اس طرح ہیں "الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، اشہد ان لا اله الا الله ، اشہد ان لا اله الا الله ، اشہد ان محمد رسول الله ، اشہد ان محمد رسول الله ، حیی الصلوۃ ، حیی الصلوۃ ، حیی علی الفلاح ، حیی علی الفلاح ، قدقامت الصلوۃ ، قدقامت الصلوۃ ، الله اکبر ، الله اکبر ، لا اله الا الله"
حدیث نمبر [07]
عن عبد العزیز بن رفیع قال سمعت ابا محذورۃ یؤذن مثنی مثنی و یقیم مثنی مثنی [طحاوی ج1 ص 95]
حضرت عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو محذورۃ رضی اللہ عنہ کو سنا وہ اذان میں [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات] دو دو دفعہ کہتے تھے اور اقامت میں بھی اسی طرح دو دو کلمات کہتے تھے
حدیث نمبر [08]
عن الاسود بن یزید ان بلالا کان یثنی الاذان و یثنی الاقامة و کان یبدأ بالتکبیر و یختم بالتکبیر [مصنف عبد الرزاق ج1 ص 462 - طحاوی ج1 ص 94 - دارقطنی ج1 ص 242]
حضرت اسود بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی] کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے اور اسی طرح اقامت کے کلمات بھی دو دو دفعہ کہتے تھے اور اذان و اقامت کی ابتداء و انتہاء الله اکبر پر کرتے تھے
حدیث نمبر [09]
عن سوید بن غفلة قال سمعت بلالا یؤذن مثنی و یقیم مثنی [طحاوی ج1 ص 94]
حضرت سوید بن غفلۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [10]
عن عون بن ابی جحیفة عن ابیه ان بلالا کان یؤذن للنبی صلی الله علیه وسلم مثنی مثنی و یقیم مثنی مثنی [دارقطنی ج1 ص 242]
حضرت عون بن جحیفۃ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [11]
عن ابراہیم قال ان بلالا کان یثنی الاذان والاقامة [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [12]
عن سلمة بن الاکوع رضی الله عنه انه کان اذا لم یدرك الصلوۃ مع القوم اذن و اقام و یثنی الاقامة [دارقطنی ج1 ص 241]
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں جس وقت نماز جماعت کے ساتھ نہ ملتی تو وہ خود ہی اذان و اقامت کہہ لیتے اور اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [13]
عن ابراھیم قال کان ثوبان رضی الله عنه یؤذن مثنی و یقیم مثنی [طحاوی ج1 ص 95]
حضرت ابراہم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [14]
عن فطر بن خلیفة عن مجاھد قال ذکر له الاقامة مرۃ مرۃ فقال ھذا شیئی استخفه الامراء ، الاقامة مرتین مرتین [مصنف عبد الرزاق ج1 ص 463 - طحاوی ج1 ص 95]
حضرت فطر بن خلیفہ رحمہ اللہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کے سامنے اقامت کے کلمات کو ایک ایک دفعہ کہنے کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ چیز امراء نے اپنی آسانی کے لیے پیدا کرلی ہے ، اقامت کے کلمات تو دو دو ہی ہیں
حدیث نمبر [15]
عن الهجیع بن قیس ان علینا کان یقول الاذان و الاقامة مثنی و اتی علی مؤذن یقیم مرۃ مرۃ فقال الا جعلتها مثنی لا ام للآخر [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
ھجیع بن قیس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے - آپ ایک مؤذن کے پاس تشریف لائے جو اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہتا تھا ، آپ نے اس سے فرمایا کہ تو اقامت کے کلمات کو دو دو کیوں نہیں کردیتا
حدیث نمبر [16]
ثنا الحجاج بن ارطاۃ قال نا ابو اسحاق قال کان اصحاب علی و اصحاب عبد الله یشفعون الاذان و الاقامة [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابو اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب اذان و اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہتے تھے
حدیث نمبر [17]
عن ابراھیم قال لا تدع ان تثنی الاقامة [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تو اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہنا نہ چھوڑنا
حدیث نمبر [18]
عن ابی العالیة قال اذا جعلتها اقامة فاثنها [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب تو اقامت کہے تو اس کے کلمات کو دو دو دفعہ کہہ
حدیث نمبر [19]
قال عبد الرزاق سمعت الثوری و اذن لنا بمنی فقال الله اکبر ، الله اکبر ، اشهد ان لا اله الا الله مرتین اشهد ان محمد رسول الله مرتین فصنع کما ذکر فی حدیث عبد الرحمن بن ابی لیلی فی الاذان و الاقامة تمام مثل الحدیث [مصنف عبد الرزاق ج1 ص 462]
عبد الرزاق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے میدان منی میں ہمارے سامنے اذان کہی - میں نے سنا کہ آپ نے کہا "اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، اشہد ان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ ، اشہد ان محمد رسول اللہ دو مرتبہ پھر آپ نے اذان و اقامت بعینہ اسی طرح کہی جس طرح حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ کی حدیث میں ذکر کی گئی ہے
مذکورہ تمام احادیث و آثار سے ثابت ہورہا ہے کہ اقامت اذان ہی کی طرح ہے جیسے اذان میں شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے - ایسے ہی اقامت میں بھی ان کلمات کو دو دو مرتبہ ہی کہا جائیگا حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ جنہوں نے خواب میں فرشتہ سے اذان و اقامت سن کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی تھی اور انہیں کی اذان کو نماز کے لیے لوگوں کو بلانے کے واسطہ مدار بنالیا گیا تھا - وہ اقامت کے کلمات اذان کی طرح دو دو مرتبہ ہی کہتے تھے جیسا کہ انہوں نے فرشتہ سے سنا تھا - مسجد نبوی کے مؤذن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ ہی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے اذان و اقامت سکھائی تھی ، چناچہ وہ بھی اذان و اقامت کے کلمات ابتدائی چار تکبیروں کے علاوہ دو دو ہی کہتے تھے اور آپ کا یہ عمل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اخیر دور اور آپ کے وفات کے بعد تک ثابت ہے - چناچہ جلیل القدر تابعین حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اور اسود بن یزید رحمہ اللہ دونوں کا کہنا ہے کہ ہم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان و اقامت کے کلمات دو دو ہی کہتا سنا
مسجد حرام کے مؤذن حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بھی اقامت کے کلمات اذان کی طرح دو دو ہی کہتے تھے- اور آپ کا یہ عمل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات مبارکہ اور آپ کی وفات کے بعد تک رہا جیسا کہ حضرت عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ کے بیان سے ظاہر ہے
ان کے علاوہ حضرت سلمھ بن اکوع رضی اللہ عنہ - حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ - حضرت علی المرتضی بھی اذان و اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ ہی کہتے تھے ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک مؤذن کے پاس تشریف لائے جو اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہتا تھا آپ نے اسے ڈانٹا کہ دو دو مرتبہ کیوں نہیں کہتے
حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے اصحاب جو ظاہر ہے کہ صحابہ کرام و تابعین عظام ہی ہیں - وہ سب کے سب اذان و اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ ہی کہتے تھے ، یہی عمل تابعین کا تھا - حضرت مجاہد رحمہ اللہ جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں ان کے سامنے اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہنے کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ یہ چیز امراء نے اپنی آسانی کے لیے گھڑلی ہے ورنہ اقامت کے کلمات تو دو دو ہی ہیں - حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ دونوں کا فتوی ہے کہ اقامت کے کلمات دو دو ہی کہے جائیں
لیکن: ان تمام احادیث و آثار کے خلاف غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ اقامت اکہری کہنی چاہیئے - یہی افضل ہے ، اور اذان و اقامت کی یہ صورت کہ اذان بغیر ترجیح کے ہو اور اقامت دوہری ہو اس کا حدیث میں نام و نشان نہیں ہے چناچہ
ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں: "تکبیر کے ہر ایک کلمہ کو ایک ایک مرتبہ کہنا سوائے "قدمامت الصلوۃ" کے افضل ہے ، زید بن عبد البر کے تلقین شدہ کلمات ایسے ہی منقول ہیں" [فتاوی ثنائیہ ج1 ص 528]
محمد سلمان کیلانی صاحب لکھتے ہیں: "باقی رہی یہ تیسری صورت کہ اذان بغیر ترجیع کے ہو اور اقامت دوہری ہو تو حدیث سے اس کا نام و نشان نہیں ملتا - معلوم نہیں دوستوں نے کہاں سے ایجاد کرلیا" [حاشیہ صلوۃ النبی ، مرتبہ خالد گرجاکھی ص 106]
ملاحظہ فرمایئے: مذکورہ احادیث و آثار سے تو ثابت ہورہا ہے کہ اقامت کے کلمات اذان کی طرح دو دو ہی ہیں- اس سے زیادہ کیا صراحت ہوگی کہ صحابئ رسول نے اقامت کے کلمات بھی بتادیئے کہ وہ سترہ [17] ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اقامت میں سترہ [17] کلمات ہی سکھائے ہیں ، ظاہر ہے اقامت میں سترہ [17] کلمات اسی صورت میں ہوسکتے ہیں کہ شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو دو دو دفعہ کہا جائے - دور رسالت و خلافت میں "اقامت" اذان کی طرح ہی کہی جاتی رہی - صحابہ کرام و تابعین عظام اسی پر عمل کرتے رہے لیکن اس سب کے باوجود غیر مقلدین دور رسالت و خلافت کے اس عمل کو پسند نہیں کرتے البتہ جس فعل کو بقول حضرت مجاہد رحمہ اللہ بعض امراء نے ایجاد کیا تھا یعنی کلمات اقامت کو ایک ایک دفعہ کہنا ، اسے افضل قرار دیتے ہیں اور اس مستزاد یہ کہ اس بات کا دعوی بھی کرتے ہیں کہ اذان بلاترجیع اور دوہری اقامت کا احادیت میں نام و نشان نہیں ملتا ، ہم اس کے سوا اور کہہ سکتے ہیں کہ ان بیچاروں کا مبلغ علم ہی اتنا ہے کہ انہیں یہ احادیث نظر نہیں آتیں ، یا پھر یہ ہہ کہ ان احادیث کو دیکھ کر یہ لوگ آنکھیں موند لیتے ہیں - بہرکیف جو بھی فیصلہ قارئین کے سر ہے وہ فیصلہ فرمائیں کہ اتنی احادیث کے خلاف کسی عمل کو اپنی طرف سے افضل قرار دینا یہ حدیث کو موافقت ہے یا مخالفت؟
افادات: حضرت مولانا انوار خورشید صاحب دامت برکاتہم
حدیث اور اہل حدیث صفحہ نمبر 259 تا 269
تحریر و ترتیب: آن اسلام ڈاٹ کام ورکنگ گروپ
گر قبول افتد زہے عز و شرف
گزارش احوال
غیرمقلدین حضرات امتنازع مسائل سے متعلق چند احادیث سادہ لوح عوام کو دکھلا کر انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حدیث پر فقط اہلحدیث عمل کرتے ہیں اور کوئی نہیں اور حنفی لوگ تو حدیث کے خلاف عمل کرتے ہیں اور انکے پاس نماز کے متعلق احادیث ہیں ہی نہیں - کچھ بیچارے ان کے دھوکہ میں آجاتے ہیں اور انہیں صحیح سمجھ کر اپنا مؤقف و مسلک تک بدل لیتے ہیں - اس صورت حال کے پیش نظر اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسی کتاب ترتیب دی جائے جس میں ان احادیث کو جمع کیا جائے جن پر احناف عمل کرتے ہیں اور غیر مقلدین ان پر عمل کرنا تو کجا ان کے خلاف عمل کرتے ہیں ، چناچہ الله کا نام لے کر یہ کام شروع کردیا گیا البتہ یہ کام چونکہ انتہائی اہم تھا اس لیے اس میں کافی عرصہ لگ گیا ، تاہم الله کے فضل و کرم سے اب یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہے [اور اب یہاں انٹرنیٹ پر بھی وقتا فوقتآ آپ پڑھ سکیں گے انشاء الله] اس کتاب میں مسائل نماز سے متعلق طہارت سے لیکر جنازہ تک تقریبآ 79 عنوانات قائم کرکے ان سے متعلق احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ دیکھئے اس قدر کثیر تعداد میں یہ احادیث موجود ہیں جو ان کتابوں سے لی گئی ہیں جن کا حدیث کی امہات الکتب میں شمار ہوتا ہے - ان پر احناف عمل کرتے ہیں اور غیر مقلدین نے انہیں پس پشت ڈال رکھا ہے ، لہذا انکا یہ کہنا کہ احناف حدیث پر عمل نہیں کرتے یہ بالکل غلط ہے - حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات خود متنازع مسائل سے متعلق چند احادیث پر بزعم خویش عمل کرکے باقی سب کو ترک کردیتے ہیں اور دوسروں پر ترک حدیث کا الزام لگاتے ہیں - اس کوشش میں ہم کس حد تک کامیاب ہوسکے ہیں یہ تو قارئین ہی بتاسکیں گے ، اتنا ضرور ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انشاء الله یہ بات نکھر کر سامنے آجائیگی کہ حدیث پر کون عمل کرتا ہے اور کون نہیں - الله تعالی کے حضور التجاء ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو قبول و منظور فرما کر ہماری نجات اور عوام کی ہدایت کا ذریعہ بنائے - وما علینا الا البلاغ [انوار خورشید]
سخن گفتی
راقم الحروف بارگاہ خداوندی میں بصد عجز و نیاز شکر و سپاس پیش کرتا ہے کہ محض اس کے فضل و کرم سے بندہ کی یہ حقیر کوشش "حدیث اور اہل حدیث" اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کا پہلا ایڈیشن بغیر کسی اشتہار و تبصرہ کے ہاتھوں ہاتھ نکل گیا ، علماء طلباء اور عوام نے اسے قبولیت کے ہاتھوں لیا - راقم کی حوصلہ افزائی کی ، قیمتی آراء و مشوروں سے نوازا - یہ کتاب جو غیر مقلدین کے اس الزام کو دور کرنے کے لیے لکھی گئی ہے کہ
حنفی احادیث کے بجائے امام ابو حنیفه رحمه الله کے اقوال پر عمل کرتے ہیں ان کے پلے احادیث نہیں ہیں - اس کتاب نے جہاں غیر مقلدین کے اس الزام کو دور کیا ، اور بتلایا کہ احناف کثر الله سوادھم کے پاس احادیث مبارکہ کثرت کے ساتھ موجود ہیں اور وہ ان احادیث ہی پر عمل کرتے ہیں ، اور غیر مقلدین کا پروپیگنڈا غلط ہے
نیز اس کتاب سے جہاں بہت سے گم کردہ راہوں کو ہدایت ملی اور بہت سے لوگوں کے دلی اطمینان کا سبب بنی ، وہیں اس سے غیر مقلدین کے حلقہ میں اضطراب اور بے چینی پھیلی اور ان کے عوام ان سے اس کے جواب کا مطالبہ کرنے لگے ، غیر مقلدین نے اپنی خفت مٹانے ، اور اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے یہ راگ الاپنا شروع کردیا
کہ یہ جو کتاب ہے اور اس میں سب حدیثیں ضعیف ہیں - لیکن یہ ایسی بات ہے کہ اس سے کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا مصنف مزاج شخص مطمئن نہیں ہوسکتا ، مقام غور ہے کہ ایسی کتاب جس میں بیسوں آیات مبارکہ صحاح ستہ [بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ] اور ان کے علاوہ حدیث کی مستند و معتبر کتابوں سے ماخوذ احادیث مبارکہ اور معتبر متون فقہ میں منقول ائمہ مجتہدین کے اقوال ہوں - اس کے بارے میں یک لخت بلادلیل یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ یہ غلط کتاب ہے اور اس میں سب حدیثیں ضعیف ہیں؟
ایں کا راز تومی آید مرداں چنیں کنند
غیرمقلدین کی اس قسم کی باتوں سے ان کی بوکھلاہٹ کا اظہار تو ضرور ہوتا ہے لیکن کتاب کی افادیت اور اس میں اپنائے گئے مؤقف پر ذرا فرق نہیں پڑتا - - یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ غیر مقلدین اس کتاب کا جواب لکھ رہے ہیں ، اگر یہ بات صحیح ہے تو "چشم ما روشن دل ماشاد" ضرور جواب لکھیں انہیں اس کا حق ہے لیکن جواب لکھنے والے چند باتوں کو ملحوظ رکھ کر جواب لکھیں تاکہ اس کا کچھ فائدہ ہو محض تضیع اوقات نہ ہو
نمبر [01] جو صاحب جواب لکھیں اگر وہ اس کتاب میں مذکور احادیث پر جرح کریں تو جرح مفسر کریں اور جرح کا ایسا سبب بیان کریں جو متفق علیہ ہو نیز جارح ناصح ہونا چاہیئے نہ کہ متعصب ، اس چیز کا خاص خیال رکھیں کہ کوئی ایسی جرح نہ ہو جو بخاری و مسلم کے راویوں پر ہوچکی ہو
نمبر [02] جو صاحب جواب لکھیں وہ تدلیس ، ارسال ، جہالت ، ستارت جیسی جرحیں نہ کریں کیونکہ اس قسم کی جرحیں متابعت اور شواہد سے ختم ہوجاتی ہیں ، اور متابع و شواہد اس کتاب میں پہلے ہی کثرت کے ساتھ ذکر کر دیئے گئے ہیں ، ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر جو جواب دیا جائے گا وہ یقینآ در غو اعتناء سمجھا جائے گا ورنہ بے جا اور فضول باتوں سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا
بفضل خدا اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن قارئین کے ہاتھوں میں ہے "اور اب آپ کے سامنے وقتآ فوقتآ آتا رہے گا" اس ایڈیشن میں بعض مقامات پر ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے - بعض مقامات پر مفید حواشی بڑھائے گئے ہیں اور پہلے ایڈیشن میں رہ جانے والی کتابت کی بہت سی اغلاط کو درست کروایا گیا ہے ، اس طرح یہ کتاب اپنی افادیت اور خوبی میں پہلے سے دوچند ہوگئی ہے - الله تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما کر ہماری نجات اور عوام کی ہدایت کا ذریعہ بنائے - وما علینا الا البلاغ [انوار خورشید]
عنوان نمبر [28]
اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہے جائیں
تثنیة الاقامة
حدیث نمبر [01]
عن عبد الرحمن بن ابی لیلی قال حدثنا اصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ان عبد الله بن زید الانصاری جاء الی النبی صلی الله علیه وسلم فقال یا رسول الله رأیت فی المنام کأن رجلا قام و علیه بردان اخضران علی جذمة حائط فاذن مثنی و اقام مثنی و قعد قعدۃ قال فسمع ذالك بلال فقام فاذن مثنی و اقام مثنی و قعد قعدۃ [مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص 203]
حضرت عبد الرحمن رحمہ اللہ بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک شخص دو سبز چادریں اوڑھے ہوئے ایک دیوار کے ٹکڑے پر کھڑا ہوا اور اس نے اذان و اقامت کہی اور اس نے [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی] کلمات دو دو بار کہے اور تھوڑی دیر بیٹھا - راوی کہتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نہ یہ سنا تو آپ بھی کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی اسی طرح اذان و اقامت کہہ کہ دونوں میں [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو] دو دو دفعہ کہا اور تھوڑی دیر بیٹھے
حدیث نمبر [02]
عن عبد الرحمن بن ابی لیلی قال حدثنی اصحاب محمد صلی الله علیه وسلم ان عبد الله بن زید الانصاری رأی فی المنام الاذان ، فاتی النبی صلی الله علیہ وسلم فاخبرہ فقال علمه بلالا فاذن مثنی مثنی و اقام مثنی مثنی و قعد قعدۃ [طحاوی ج1 ص 93]
حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان دیکھی تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آکر آپ کو خبر دی آپ علیہ السلام نے فرمایا بلال کو سکھادو چناچہ آپ نے اذان دی تو [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو] دو دو دفعہ کہا اور اقامت کہی تو بھی ان کلمات کو دو دو دفعہ ہی کہا ، اور تھوڑی دیر بیٹھے
حدیث نمبر [03]
عن ابی العمیس قال سمعت عبد الله بن محمد بن عبد الله بن زید الانصاری رضی الله عنه یحدث عن ابیه عن جدہ انه اری الاذان مثنی مثنی والاقامة مثنی مٹنی قال فاتیت النبی صلی الله علیه وسلم فاخبرته فقال علمهن بلالا قال فتقدمت فامرنی ان اقیم [خلافیات بیہقی بحوالہ درایۃ ج1 ص 115]
حضرت ابو العمیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن زید انصاری کو سنا وہ بواسطہ اپنے والد کے اپنے دادا سے سے روایت کر رہے تھے کہ [حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا] میں نے ایسی اذان و اقامت دیکھی جن میں [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات] دو دو دفعہ کہے گئے تھے - میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی - آپ نے فرمایا یہ کلمات بلال رضی عنہ کو سکھلا دو - حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر میں آگے بڑھا تو آپ نے مجھے اقامت کہنے کا حکم دیا
حدیث نمبر [04]
عن الشعبی عن عبد الله بن زید الانصاری قال سمعت اذان رسول الله صلی الله علیه وسلم فکان اذانه و اقامته مثنی مثنی [صحیح ابو عوانۃ ج1 ص 331]
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن زید انصاری نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان سنی ، آپ کی اذان و اقامت دونوں میں [شہادتین اور حیی الصلوۃ حیی الفلاح کے] کلمات دو دو دفعہ کہے گئے تھے
حدیث نمبر [05]
عن ابی محذورۃ ان النبی صلی الله علیه وسلم علمه الاذان ان تسع عشرۃ کلمة والاقامة سبع عشرۃ کلمة [ترمذی ج1 ص 48 - نسائی ج1 ص 73 - دارمی ج1 ص 217]
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو اذان کے 19 کلمات سکھائے اور اقامت کے 17 کلمات
حدیث نمبر [06]
عن ابی محذورۃ قال علمنی رسول الله صلی الله علیه وسلم الاذان تسع عشرۃ کلمة والاقامة سبع عشرۃ کلمة الاذان "الله اکبر ، الله اکبر - والاقامة سبع عشرۃ کلمة "الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، اشهد ان لا اله الا الله ، اشهد ان لا اله الا الله ، اشهد ان محمد رسول الله ، اشهد ان محمد رسول الله ، حیی الصلوۃ ، حیی الصلوۃ ، حیی علی الفلاح ، حیی علی الفلاح ، قدقامت الصلوۃ ، قدقامت الصلوۃ ، الله اکبر ، الله اکبر ، لا اله الا الله" [ابن ماجہ ص 52 - ابو داؤد ص 73]
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھے اذان کے 19 کلمات سکھائے اور اقامت کے سترہ ، اذان کے کلمات تو یہ ہیں - - اور اقامت کی 17 کلمات اس طرح ہیں "الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، الله اکبر ، اشہد ان لا اله الا الله ، اشہد ان لا اله الا الله ، اشہد ان محمد رسول الله ، اشہد ان محمد رسول الله ، حیی الصلوۃ ، حیی الصلوۃ ، حیی علی الفلاح ، حیی علی الفلاح ، قدقامت الصلوۃ ، قدقامت الصلوۃ ، الله اکبر ، الله اکبر ، لا اله الا الله"
حدیث نمبر [07]
عن عبد العزیز بن رفیع قال سمعت ابا محذورۃ یؤذن مثنی مثنی و یقیم مثنی مثنی [طحاوی ج1 ص 95]
حضرت عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابو محذورۃ رضی اللہ عنہ کو سنا وہ اذان میں [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات] دو دو دفعہ کہتے تھے اور اقامت میں بھی اسی طرح دو دو کلمات کہتے تھے
حدیث نمبر [08]
عن الاسود بن یزید ان بلالا کان یثنی الاذان و یثنی الاقامة و کان یبدأ بالتکبیر و یختم بالتکبیر [مصنف عبد الرزاق ج1 ص 462 - طحاوی ج1 ص 94 - دارقطنی ج1 ص 242]
حضرت اسود بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کے [شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی] کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے اور اسی طرح اقامت کے کلمات بھی دو دو دفعہ کہتے تھے اور اذان و اقامت کی ابتداء و انتہاء الله اکبر پر کرتے تھے
حدیث نمبر [09]
عن سوید بن غفلة قال سمعت بلالا یؤذن مثنی و یقیم مثنی [طحاوی ج1 ص 94]
حضرت سوید بن غفلۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [10]
عن عون بن ابی جحیفة عن ابیه ان بلالا کان یؤذن للنبی صلی الله علیه وسلم مثنی مثنی و یقیم مثنی مثنی [دارقطنی ج1 ص 242]
حضرت عون بن جحیفۃ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [11]
عن ابراہیم قال ان بلالا کان یثنی الاذان والاقامة [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [12]
عن سلمة بن الاکوع رضی الله عنه انه کان اذا لم یدرك الصلوۃ مع القوم اذن و اقام و یثنی الاقامة [دارقطنی ج1 ص 241]
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں جس وقت نماز جماعت کے ساتھ نہ ملتی تو وہ خود ہی اذان و اقامت کہہ لیتے اور اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [13]
عن ابراھیم قال کان ثوبان رضی الله عنه یؤذن مثنی و یقیم مثنی [طحاوی ج1 ص 95]
حضرت ابراہم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے
حدیث نمبر [14]
عن فطر بن خلیفة عن مجاھد قال ذکر له الاقامة مرۃ مرۃ فقال ھذا شیئی استخفه الامراء ، الاقامة مرتین مرتین [مصنف عبد الرزاق ج1 ص 463 - طحاوی ج1 ص 95]
حضرت فطر بن خلیفہ رحمہ اللہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ حضرت مجاہد رحمہ اللہ کے سامنے اقامت کے کلمات کو ایک ایک دفعہ کہنے کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ چیز امراء نے اپنی آسانی کے لیے پیدا کرلی ہے ، اقامت کے کلمات تو دو دو ہی ہیں
حدیث نمبر [15]
عن الهجیع بن قیس ان علینا کان یقول الاذان و الاقامة مثنی و اتی علی مؤذن یقیم مرۃ مرۃ فقال الا جعلتها مثنی لا ام للآخر [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
ھجیع بن قیس رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اذان و اقامت کے کلمات دو دو دفعہ کہتے تھے - آپ ایک مؤذن کے پاس تشریف لائے جو اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہتا تھا ، آپ نے اس سے فرمایا کہ تو اقامت کے کلمات کو دو دو کیوں نہیں کردیتا
حدیث نمبر [16]
ثنا الحجاج بن ارطاۃ قال نا ابو اسحاق قال کان اصحاب علی و اصحاب عبد الله یشفعون الاذان و الاقامة [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابو اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اصحاب اذان و اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہتے تھے
حدیث نمبر [17]
عن ابراھیم قال لا تدع ان تثنی الاقامة [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تو اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہنا نہ چھوڑنا
حدیث نمبر [18]
عن ابی العالیة قال اذا جعلتها اقامة فاثنها [مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص 206]
حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب تو اقامت کہے تو اس کے کلمات کو دو دو دفعہ کہہ
حدیث نمبر [19]
قال عبد الرزاق سمعت الثوری و اذن لنا بمنی فقال الله اکبر ، الله اکبر ، اشهد ان لا اله الا الله مرتین اشهد ان محمد رسول الله مرتین فصنع کما ذکر فی حدیث عبد الرحمن بن ابی لیلی فی الاذان و الاقامة تمام مثل الحدیث [مصنف عبد الرزاق ج1 ص 462]
عبد الرزاق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے میدان منی میں ہمارے سامنے اذان کہی - میں نے سنا کہ آپ نے کہا "اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، اشہد ان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ ، اشہد ان محمد رسول اللہ دو مرتبہ پھر آپ نے اذان و اقامت بعینہ اسی طرح کہی جس طرح حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رحمہ اللہ کی حدیث میں ذکر کی گئی ہے
مذکورہ تمام احادیث و آثار سے ثابت ہورہا ہے کہ اقامت اذان ہی کی طرح ہے جیسے اذان میں شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے - ایسے ہی اقامت میں بھی ان کلمات کو دو دو مرتبہ ہی کہا جائیگا حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ جنہوں نے خواب میں فرشتہ سے اذان و اقامت سن کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی تھی اور انہیں کی اذان کو نماز کے لیے لوگوں کو بلانے کے واسطہ مدار بنالیا گیا تھا - وہ اقامت کے کلمات اذان کی طرح دو دو مرتبہ ہی کہتے تھے جیسا کہ انہوں نے فرشتہ سے سنا تھا - مسجد نبوی کے مؤذن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ ہی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے اذان و اقامت سکھائی تھی ، چناچہ وہ بھی اذان و اقامت کے کلمات ابتدائی چار تکبیروں کے علاوہ دو دو ہی کہتے تھے اور آپ کا یہ عمل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اخیر دور اور آپ کے وفات کے بعد تک ثابت ہے - چناچہ جلیل القدر تابعین حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اور اسود بن یزید رحمہ اللہ دونوں کا کہنا ہے کہ ہم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان و اقامت کے کلمات دو دو ہی کہتا سنا
مسجد حرام کے مؤذن حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بھی اقامت کے کلمات اذان کی طرح دو دو ہی کہتے تھے- اور آپ کا یہ عمل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات مبارکہ اور آپ کی وفات کے بعد تک رہا جیسا کہ حضرت عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ کے بیان سے ظاہر ہے
ان کے علاوہ حضرت سلمھ بن اکوع رضی اللہ عنہ - حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ - حضرت علی المرتضی بھی اذان و اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ ہی کہتے تھے ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک مؤذن کے پاس تشریف لائے جو اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہتا تھا آپ نے اسے ڈانٹا کہ دو دو مرتبہ کیوں نہیں کہتے
حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے اصحاب جو ظاہر ہے کہ صحابہ کرام و تابعین عظام ہی ہیں - وہ سب کے سب اذان و اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ ہی کہتے تھے ، یہی عمل تابعین کا تھا - حضرت مجاہد رحمہ اللہ جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں ان کے سامنے اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہنے کا تذکرہ ہوا تو فرمایا کہ یہ چیز امراء نے اپنی آسانی کے لیے گھڑلی ہے ورنہ اقامت کے کلمات تو دو دو ہی ہیں - حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور حضرت ابو العالیہ رحمہ اللہ دونوں کا فتوی ہے کہ اقامت کے کلمات دو دو ہی کہے جائیں
لیکن: ان تمام احادیث و آثار کے خلاف غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ اقامت اکہری کہنی چاہیئے - یہی افضل ہے ، اور اذان و اقامت کی یہ صورت کہ اذان بغیر ترجیح کے ہو اور اقامت دوہری ہو اس کا حدیث میں نام و نشان نہیں ہے چناچہ
ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں: "تکبیر کے ہر ایک کلمہ کو ایک ایک مرتبہ کہنا سوائے "قدمامت الصلوۃ" کے افضل ہے ، زید بن عبد البر کے تلقین شدہ کلمات ایسے ہی منقول ہیں" [فتاوی ثنائیہ ج1 ص 528]
محمد سلمان کیلانی صاحب لکھتے ہیں: "باقی رہی یہ تیسری صورت کہ اذان بغیر ترجیع کے ہو اور اقامت دوہری ہو تو حدیث سے اس کا نام و نشان نہیں ملتا - معلوم نہیں دوستوں نے کہاں سے ایجاد کرلیا" [حاشیہ صلوۃ النبی ، مرتبہ خالد گرجاکھی ص 106]
ملاحظہ فرمایئے: مذکورہ احادیث و آثار سے تو ثابت ہورہا ہے کہ اقامت کے کلمات اذان کی طرح دو دو ہی ہیں- اس سے زیادہ کیا صراحت ہوگی کہ صحابئ رسول نے اقامت کے کلمات بھی بتادیئے کہ وہ سترہ [17] ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اقامت میں سترہ [17] کلمات ہی سکھائے ہیں ، ظاہر ہے اقامت میں سترہ [17] کلمات اسی صورت میں ہوسکتے ہیں کہ شروع کی 4 تکبیرات کے علاوہ باقی کلمات کو دو دو دفعہ کہا جائے - دور رسالت و خلافت میں "اقامت" اذان کی طرح ہی کہی جاتی رہی - صحابہ کرام و تابعین عظام اسی پر عمل کرتے رہے لیکن اس سب کے باوجود غیر مقلدین دور رسالت و خلافت کے اس عمل کو پسند نہیں کرتے البتہ جس فعل کو بقول حضرت مجاہد رحمہ اللہ بعض امراء نے ایجاد کیا تھا یعنی کلمات اقامت کو ایک ایک دفعہ کہنا ، اسے افضل قرار دیتے ہیں اور اس مستزاد یہ کہ اس بات کا دعوی بھی کرتے ہیں کہ اذان بلاترجیع اور دوہری اقامت کا احادیت میں نام و نشان نہیں ملتا ، ہم اس کے سوا اور کہہ سکتے ہیں کہ ان بیچاروں کا مبلغ علم ہی اتنا ہے کہ انہیں یہ احادیث نظر نہیں آتیں ، یا پھر یہ ہہ کہ ان احادیث کو دیکھ کر یہ لوگ آنکھیں موند لیتے ہیں - بہرکیف جو بھی فیصلہ قارئین کے سر ہے وہ فیصلہ فرمائیں کہ اتنی احادیث کے خلاف کسی عمل کو اپنی طرف سے افضل قرار دینا یہ حدیث کو موافقت ہے یا مخالفت؟
افادات: حضرت مولانا انوار خورشید صاحب دامت برکاتہم
حدیث اور اہل حدیث صفحہ نمبر 259 تا 269
تحریر و ترتیب: آن اسلام ڈاٹ کام ورکنگ گروپ