Post by Mohammed IbRaHim on Feb 25, 2014 17:34:38 GMT 5.5
مسئلہ تراویح پر غیرمقلدین نام نہاد اہلحدیثوں سے مطلوب چند وضاحتیں!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نمبر 01 قرآن اور حدیث میں تراویح کا لفظ موجود نہیں - البتہ باجماع امت رمضان کی ایک مخصوص نماز کا نام تراویح ہے - اس کا معنی جو اجماعآ ثابت ہے وہ یہ ہے "غیرمقلد پروفیسر عبداللہ بہاولپوری لکھتا ہے" تراویح کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایجاد نہیں ہوا تھا - یہ نام بعد میں اس وقت پڑا جب لوگوں نے قیام رمضان کی رکعتوں کی تعداد بڑھادی - حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو آٹھ رکعت ہی تھا - جس پر تراویح کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں - آٹھ رکعت میں چونکہ ترویحہ ایک ہی ہوسکتا ہے - اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تراویح کا نام ایجاد نہیں ہوسکا
قاری عبدالرحیم زاہد دوکاندار فون دوکان 2924 خطیب جامع مسجد مبارک اہل حدیٹ کمالیہ - اپنے اس اعلان کہ اہل حدیث کے دو اصول "اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول" کا فرض ہے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا لفظ ثابت کریں اور اس کا وہ معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کریں جس کے مطابق ایک ترویحے کو تراویح کہا جاسکے - نیز عبداللہ بہاولپوری کے بیان کردہ معنی کو کس آیت یا حدیث سے غلط ثابت کردیں - تینوں باتوں کا جواب ضرور دیں
نمبر 02 تراویح کی تعریف علماء نے یہ لکھی ہے کہ نماز تراویح وہ نماز ہے جو ماہ رمضان کی راتوں میں عشاء کے بعد باجماعت پڑھی جائے [فتاوی علمائے حدیث] علماء اہل حدیث نے نماز تراویح کی یہ تعریف اگر قرآن و حدیث سے لی ہے ، تو وہ آیت یا حدیث پیش کریں اور اگر کسی امتی سے چوری کی ہے ، تو کیا ان کو اہل حدیث کہلانے کا حق ہے؟ اگر یہ تعریف غلط ہے تو آپ تراویح کی صحیح اور جامع مانع تعریف قرآن و حدیث سے ثابت کردیں - ہم بہت ممنوں ہوں گے
نمبر 03 اہل حدیث علماء کا کہنا ہے کہ "قیام رمضان نماز تراویح سے اعم ہے - کیونکہ نماز تراویح میں جماعت بھی شرط ہے اگر اکیلے اکیلے پڑھیں گے تو تراویح نہ ہوگی [فتاوی علمائے حدیث] اہلحدیث علماء نے یہ بات قرآن و حدیث سے لی ہے تو وہ آیت یا حدیث پیش کریں - اگر کسی امتی سے یہ فرق چوری کیا ہے تو اہل حدیث تو نہ رہے - آپ ہی ہمت کرکے قیام رمضان اور تراویح میں کونسی نسبت ہے - تساوی ، تباین ، عموم خصوص مطلق یا عموم خصوص من وجہ - وہ قرآن حدیث سے ثابت کردیں
نمبر 04 جناب نے اشتہار کا عنوان رکھا ہے "کیا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا جرم ہے؟ آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر جماعت سے بھاگ جانے کو کس نے سنت کہا ہے؟ اللہ تعالی نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ جب انہوں نے نہیں کہا تو آپ کس کی تقلید میں اس کو سنت کہتے ہیں
نمبر 05 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہوکر پیشاب فرمانا [بخاری جلد 1 صفحہ 36 ، مسلم جلد 1 صفحہ 133] ایک کپڑے میں نماز پڑھنا [بخاری جلد 1 صفحہ 51 ، مسلم جلد 1 صفحہ 198] بچے کو اٹھا کر نماز پڑھنا [بخاری جلد 1 صفحہ 74 ، مسلم جلد 1 صفحہ 205] جوتے پہن کر نماز پڑھنا [بخاری جلد 1 صفحہ 56 ، مسلم جلد 1 صفحہ 198] حائضہ کی گود میں سر رکھ کر تلاوت کرنا [بخاری جلد 1 صفحہ 44 ، مسلم جلد 1 صفحہ 143] روزہ میں بیوی کے ساتھ مباشرت کرنا [بخاری جلد 1 صفحہ 258 ، مسلم جلد 1 صفحہ 252] یہ سب افعال متفق علیہ احادیث سے ثابت ہیں مگر سنت مؤکدہ نہیں ہیں 8 رکعت تراویح پورا مہینہ عشاء کے فورآ بعد باجماعت مسجد میں پڑھنے کا نفس ثبوت ہی صحاح ستہ میں نہیں وہ کیسے سنت ہوئی - سنت کی ایسی جامع مانع تعریف قرآن و حدیث سے بیان کریں جس پر مذکورہ افعال تو سنت نہ بنیں اور 8 رکعت تراویح پورا مہینہ عشاء کے فورآ بعد باجماعت مسجد میں پڑھنا سنت ثابت ہوجائیں
نمبر 06 اگر سنت کے لئے مواظبت اور استقرار شرط ہے تو 8 رکعت تراویح پورا مہینہ باجماعت عشاء کے فورآ بعد مسجد میں کبھی عہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا ، نہ عہد خلافت راشدہ میں نہ ہی یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوئی نہ سنت خلفاء رضی اللہ عنہم
نمبر 07 صحیح حدیث اللہ تعالی اور رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث کو نہ صحیح کہا ہے نہ ضعیف - اس لئے اہل حدیث کو تو نہ کسی حدیث کے صحیح کہنے کا حق ہے نہ ضعیف کہنے کا - کسی امتی کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا اہل الرائے کا کام ہے نہ کہ اہل حدیث کا - اور یہ تقلید ہے نہ کہ تحقیق
نمبر 08 جب حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ امت نے ہی کرنا ہے تو جس حدیث کو امت میں تلقی بالقبول نصیب ہوجائے وہ درجۂ تواتر کو پہنچ جاتی ہے - اس کی سند میں تحقیق میں لگنا گویا سورج کے لئے گواہ تلاش کرنا ہے بیس [20] رکعت تراویح کو دور خلافت سے آج تک تلقی بالقبول حاصل ہے اور سورج سے زیادہ روشن ہے
نمبر 09 تواتر کے خلاف شاذ و متروک روایات کی بالکل وہی حیثیت ہوتی ہے جو تلاوۃ متواتر قرآن کے مقابلہ میں شاذ و متروک قرأتوں کی ہے کوئی مسلمان متواتر قرآن چھوڑ کر ان کی تلاوت کرے تو قابل ملامت ہے
نمبر 10 کیا بیس [20] رکعت پڑھنے والے آٹھ [8] رکعت کے تارک ہیں؟ کیا سو [100] مرتبہ استغفار کرنے والے ستر [70] مرتبہ استغفار والی حدیث کے تارک ہیں؟ کیا تین ، تین دفعہ اعضائے وضو دھونے والے ، ایک ایک دفعہ اور دو ، دو دفعہ اعضائے وضو دھونے والی احادیث کے ترک کے مجرم ہیں؟ کیا شلوار قمیص ، پگڑی ، بنیان ، جرسی اوڑھ کر پانچ کپڑوں میں نماز پڑھنے والا ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والی متواتر احادیث کا مخالف ہے؟ کیا پورا مہینہ باجماعت نماز تراویح مسجد میں پڑھنے والا صرف تین دن جماعت والی حدیث کا مخالف ہے پھر بیس [20] والوں کے خلاف آٹھ [8] والوں کو شور مچانے کا کیا جواز ہے جب کہ بیس [20] میں آٹھ [8] شامل ہیں
نمبر 11 آٹھ [8] رکعت تراویح اور ایک وتر باجماعت پورا مہینہ عشاء کے فورآ بعد مسجد میں ادا کرنا نہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے نہ کسی تابعی سے اور نہ ہی کسی تبع تابعی سے
نمبر 12 بخاری میں مذکور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں تراویح کا لفظ دکھا کر امام بخاری رحمہ اللہ کی اصلاح فرمادیں - جنہوں نے تہجد اور تراویح کا الگ الگ باب باندھ کر بھی اور خود تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھ کر بھی ان کا دو نمازیں ہونا ثابت کردیا اور پوری زندگی میں ایک رات بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے نہ آٹھ [8] تراویح پڑھیں نہ کسی کو آٹھ [8] پڑھ کر بھاگ جانے کی ترغیب دی
نمبر 13 امام مالک 179 ہجری ، امام عبد الرزاق 211 ہجری ، امام مسلم 261 ہجری ، امام دارمی 255 ہجری ، امام ابو داؤد 275 ہجری ، امام محمد بن نصر مروزی ، امام ترمذی 279 ہجری ، امام نسائی 303 ہجری ، امام ابو عوانہ 316 ہجری ، امام ابن خزیمہ ، صاحب مشکوۃ سب نے اپنی اپنی حدیث کی کتابوں میں تراویح پر باب باندھا ہے اور سب حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی اپنی کتابوں میں لائے مگر تراویح کے باب میں نہیں لائے - اگر اس حدیث میں تراویح کا لفظ دکھادیں تو کم از کم ان حضرات کی اصلاح ہوجائے
نمبر 14 ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد +وتر یوں بیان فرمائی ہے 4+3 ، 6+3 ، 8+3 ، 10+3 ابو داؤد ]1-193] آپ کی مسجد سے چار رکعت پڑھ کر کتنے آدمی بھاگ جاتے ہیں؟ چھ رکعات پڑھ کر کتنے؟ اور دس رکعت کتنے پڑھتے ہیں اور اس تفصیلی حدیث میں اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے 8+1 کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں فرمایا
نمبر 15 آپ نے امی جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ بولا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ تراویح اور تہجد ایک ہیں - اس کا ثبوت دو یا توبہ نامہ شائع کرو
نمبر 16 تاریخ الخلفاء کے مطابق 14 ہجری میں مسجد نبوی میں باقائدہ نماز تراویح باجماعت کا آغاز ہوا - سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے ساتھ سات [7] سال بیس [20] رکعت تراویح پڑھی جاتی رہی نہ آپ نے کبھی اس حدیث کو بیس [20] رکعت تراویح پڑھنے والوں کے خلاف پیش فرمایا اور نہ ہی اتنے سالوں میں کسی ایک ہی آدمی کو ترغیب دی کہ تم آٹھ رکعت پڑھ کر بھاگ جایا کرو؟ اگر کیا تو ثبوت کرو
نمبر 17 حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں ہی 78 ہجری میں وصال فرمایا 64 سال آپ کے سامنے بیس [20] رکعت تراویح باجماعت مسجد میں ہوتی رہی مگر انہوں نے نہ ان کو آٹھ [8] رکعت تراویح کی کوئی حدیث سنائی نہ ہی ثابت ہے کہ وہ آٹھ رکعت پڑھ کر نکل جاتے تھے حالانکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ خود اس حدیث کے راوی ہیں کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور آگ میں لے جانے والی ہے
نمبر 18 حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو تراویح پر جمع فرمایا تو وہ لوگ اول شب میں تراویح پڑھتے تھے "کان الناس یقومون اولہ [بخاری ص 269 ج1 ، موطا] آپ نے موطا مالک کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم نقل کیا ہے اس میں آخر شب کا ذکر ہے پھر اس میں نہ آٹھ کا لفظ ہے نہ تراویح کا نہ رمضان کا نہ اس پر استقراء کا کوئی ثبوت - یہاں تو بالکل 2 اور 2 چار روٹیوں والی مثال پوری کردی ہے ، اس میں یہ پانچ لفظ دکھادو
نمبر [01] اول شب
نمبر [02] آٹھ
نمبر [03] تراویح
نمبر [04] رمضان
نمبر [05] استقراء
بحوالہ موطا امام مالک تو ہم آپ کو [سکہ رائج الوقت کے مطابق] پانچ روپے آپ کو انعام دیں گے
مرداں بکوشید ، دیدہ باید
نمبر 19 آپ نے یہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ موطا امام مالک رحمہ اللہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم دینے کی وجہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو قرار دیا ہے
نمبر 20 تراویح کی رکعتوں کی تعداد کی حدیث کی ہر مسلمان کو ہر رمضان میں ضرورت ہے - کیا وجہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہ مسجد نبوی میں سنائی اور نہ ہی کسی مہاجر یا انصار یا کسی فقیہ صحابی کو سنائی صرف اور صرف ایک آدمی عیسی بن جاریہ کو سنائی جس کو بعض محدثین "منکر الحدیث" تک کہتے ہیں بیس [20] رکعت تراویح کے عملی تواتر کے مقابلہ میں اس شاذ و منکر روایت پر عمل کیسے درست ہے
نمبر 21 عیسی بن جاریہ جیسے "منکر الحدیث" نے بھی ساری عمر میں "قم" کے ایک شیعہ یعقوب بن عبد اللہ کے سوا کسی کے سامنے یہ "شاذ و منکر" روایت بیان نہ کی - آخر آپ جیسے نیم شیعہ کا قارورہ کسی شیعہ سے ہی ملے گا
نمبر 22 اس شیعہ نے بھی اس "منکر الحدیث" کی یہ شاذ و منکر روایت ایک محمد بن حمید کذاب دوسرے مستور الحال کے علاوہ کسی ایک آدھ کو سنائی - یہ ہے اجماع امت اور عملی تواتر کے مخالف ایک شاذ و منکر روایت کی حقیقت
نمبر 23 بیہقی نے جب امر فاروقی کو خود متروک قرار دیا کہ بعد میں عمل عہد محمد ، عہد عثمان ، عہد علی میں بیس پر نقل کیا تو متروک کو ترک کیا
نمبر 24 حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرنے میں پانچ بددیانتیاں کی ہیں
نمبر [01] سب سے پہلے انہوں نے لکھا ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی بیس [20] رکعت سے کم تراویح کا قائل نہیں اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک بھی بیس [20] رکعت تراویح کا ہے [عرف الشذی]
نمبر [02] پھر فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ کا بیس [20] رکعت تراویح کا مسلک حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ماخوذ ہے
نمبر [03] پھر فرماتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ مسلک ہی سنت ہے
نمبر [04] پھر فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس میں بدعتی نہیں تھی بلکہ انہوں نے یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے
نمبر [05] پھر فرماتے ہیں کہ یہ دلیل ہے کہ بیس [20] رکعت تراویح کی اصل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے اگرچہ ہمیں قوی سند سے نہ پہنچی ہو [عرف الشذی]
یہ پانچوں باتیں دوکاندار خطیب [عبداللہ بہاولپوری] نے چھوڑ دی ہیں اور علامہ موصوف رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نام نہاد اہل حدیث کو سحری کے نبوت تک تراویح پڑھنی چاہیے یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری رات کا عمل ہے جو صرف آٹھ رکعت پر اکتفا کرتا ہے اور سواد اعظم سے الگ ہوکر ان کو بدعتی کہتا ہے وہ اپنا انجام سوچ لے [فیض الباری] اور حدیث پاک میں سواد اعظم سے کٹنے والے کا انجام جہنم بتایا ہے نیز حدیث میں خیانت کو منافق کی علامت بتایا ہے نہ کہ اہل حدیث کی - کیا کوئی دوکاندار دکھا سکتا ہے کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا ہو کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر بھاگ جایا کرو؟
نمبر 25 اس خطیب [عبداللہ بہاولپوری] نے حاشیہ ہدایہ کے حوالہ میں بھی خیانت کی ہے - وہاں تو صاف لکھا ہے کہ بیس [20] رکعت تراویح خلفاء ثلاثہ کی مواظبت کی وجہ سے سنت مؤکدہ ہے - اور آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والا سنت مؤکدہ کا تارک ہے "اگر ہمت ہے تو یہ عبارت دکھاؤ کہ حاشیہ ہدایہ میں لکھا ہو" کہ آٹھ [8] رکعت تراویح پڑھ کر بھاگ جایا کرو
نمبر 26 دوکاندار خطیب [عبداللہ بہاولپوری] نے "السنن الکبری" کو "سنن الکبرا" لکھا ہے اور "فی ذالك قوۃ" کا مطلب ضعیف کیا ہے! یاللعجب
نمبر 27 قرآن پاک کے حاشیہ پر جو رکوع کے [ع] بنے ہیں - یہ کب اور کس نے کس مقصد کے لئے لگائے گئے ، علامہ سرخسی 483 ہجری اور قاضی خان 827 ہجری نے اور عالمگیری میں بھی ہے کہ یہ رکوع بیس [20] رکعت تراویح کے لئے لگائے گئے تھے - کیا کسی مسلمہ قاری نے اس کی تردید کی ہے - اگر نہیں تو معلوم ہوا کہ بیس [20] رکعت سے کم تروایح کے تعامل کا تصور بھی مسلمانوں میں نہیں رہا اور پوری امت کا تعامل ایک رکوع فی رکعت پڑھ کر ختم قرآن کا ہی رہا
نمبر 28 جب تراویح مستقل باجماعت شروع ہوئی تو ختم قرآن کے لئے آیات قرآنیہ کی کوئی تقسیم کی گئی علامہ سرخسی ، قاضی خان اور عالمگیری میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ تقریبآ دس آیات فی رکعت پڑھی جائیں تو روزانہ دو سو [200] کے قریب آیات بیس [20] رکعت تراویح میں پڑھی جائیں گی اور 30 دن میں چھ ہزار کے قریب اور آسانی سے قرآن پاک [تراویح میں] ختم ہوجائے گا - کیا کسی مسلمہ قاری نے اس کی امت میں تردید کی یا رکوع اور آیات کی تقسیم امت میں اجماعآ مسلم رہی - اس کا مخالف یقینآ خارق اجماع اور قابل ملامت ہے
نمبر 29 اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مہاجرین ، انصار اور ان کی اچھی طرح پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے - اور وہ اللہ سے راضی ہیں ، انکے بعد منافقین کا ذکر ہے [9:100+101] اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں بیس [20] رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے اور بہت سے علماء نے اسی کو سنت فرمایا ہے کیونکہ وہ مہاجرین اور انصار کی موجودگی میں پڑھاتے تھے اور کسی نے بھی انکار نہ کیا [فتاوی ابن تیمیہ جلد23 صفحہ 112] کیا ان کا راستہ چھوڑنے والا قابل ملامت نہیں
نمبر 30 اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ خلفاء کے دور میں اسی دین کو تمکین اور مضبوطی نصیب ہوگی جو خدا کا پسندیدہ ہے اور اس سے نکلنے والوں کو فاسق فرمایا [24:55] اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لازم پکڑو میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اور دانتوں سے مضبوط پکڑو [ترمذی] اور بیس [20] رکعت تراویح کو دور خلافت راشدہ میں ہی استقرار اور تلقی بالقبول نصیب ہوئی [بیہقی ج2 ص496 ، ابن ابی شیبہ ج2 ص393 وغیرہ]
نمبر 31 اللہ تعالی نے بھی قرآن پاک میں "سبیل المؤمنین" یعنی اجماع سے کٹنے والے کو دوزخی فرمایا [4:15] اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سواد اعظم سے کٹنے والے کو دوزخی فرمایا [مشکوۃ] اور بیس رکعت تراویح پر دور صحابہ میں اجماع ہوا [المفتی ابن قدامہ ج2 صفحہ 167، ارشاد الباری ج3 صفحہ 515 ، شرح النقایہ ج2 صفحہ 241]
نمبر 32 خطیب [عبداللہ بہاولپوری] کو جرح کا شوق ہے مگر اصول سے جہالت کی بناء پر بلاوجہ جرح کرتا ہے - جرح جب قبول ہوتی ہے کہ مفسر ہو اور سبب جرح متفق علیہ ہو اور جارح ناصح ہو نہ کہ متعصب و متشدد [المنار 710 ہجری] ابراہم بن عثمان حنیف کو یزید بن ہاروبی نے اعدل قرار دیا ہے [تہذیب] اور ابن حجر نے حافظ [فتح الباری] تو وہ مختلف فیہ حسن ہوا
نمبر 33 خطیب [عبداللہ بہاولپوری] کو آج ابراہیم بن عثمان حنیف نظر آرہا ہے ، حالانکہ "صلوۃ الرسول" میں حکیم صادق سیالکوٹی صاحب نے حدیث لکھی ہے کہ "حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ [بعد تکبیر اولی کے] پڑھی [ابن ماجہ] اس کے ترجمہ میں نماز اور بعد تکبیر اولی کے الفاظ حکیم صاحب نے محض "جھوٹ" حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ لگائے ہیں اس کی سند میں بھی یہی راوی ابراہیم بن عثمان حنیف ہے - اس کتاب کی تصدیق اخبارات میں سے ڈان ، انقلاب ، آفاق صحیفہ ، احسان ، زمیندار ، نوائے پاکستان ، الحمراء ، الاعتصام ، نوائے ملت ، نور توحید ، فاران ، نوائے وقت ، ترجمان کے علاوہ علماء میں سے مولانا داؤد غزنوی ، محمد اسماعیل محدث گوجرانوالہ ، محمد عبداللہ ثانی امرتسری ، نور حسین گھر جاکھی ، مولانا احمد دیں گکھڑوی ، حافظ محمد گوندلوی نے کی ہے اور یہ کتاب ہر غیرمقلد کے گھر ہوتی ہے - وہاں خطیب [عبداللہ بہاولپوری] صاحب نے شور کیوں نہ مچایا کہ ابراہیم بن عثمان حنیف راوی محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے - جس راوی سے جنازہ میں فاتحہ کی فرضیت ثابت کرتے ہو اس کی حدیث بیس [20] رکعت تراویح میں کیوں چھوڑتے ہو ، جو سنت ہے جب کہ یہ بھی فرق ہے کہ بیس [20] رکعت تراویح کو امت کی تلقی بالقبول حاصل ہے اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنازہ میں فاتحہ تڑھنا مدینہ میں معمول ہی نہیں [المدونہ] یعنی تراویح میں تو عملی تواتر کی وجہ سے ضعف ختم ہوگیا اور فاتحہ جنازہ راویۃ بھی شاذ اور عملا بھی متروک نکلی
نمبر 34 خطیب [عبداللہ بہاولپوری] صاحب لکھتے ہیں کہ انتہائی بددیانتی سے کام لیا ہے اور بغیر جماعت کا لفط نقل نہیں کیا - خطیب [عبداللہ بہاولپوری] صاحب کی نظر کمزور ہے اشتہار میں دو کتابوں کا حوالہ ہے - مصنف ابن ابی شیبہ 235 ہجری اس میں بغیر جماعت کا لفظ نہیں اور بیہقی 458 ہجری میں ہے تو متفق علیہ حصہ ہی نقل کیا ہے مختلف فیہ کو چھوڑ دیا ہے جبکہ دوسری کتابوں میں بھی یہ لفظ نہیں ہے
نمبر 35 احادیث اور امت کے اجماع سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں تراویح باجماعت پڑھائیں پھر جماعت ترک فرمادی - معلوم ہوا کہ بغیر جماعت کے تراویح پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہے اور جماعت والی تعداد کا ناسخ ہے - جناب نے "فتح القدیر" کی عبارت سے "ثم ترکہ" کے الفاظ چھوڑ کر واقعی بددیانتی سے کام لیا ہے
نمبر 36 جناب [عبداللہ بہاولپوری] نے نقل فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں نہ کسی روایت میں تراویح کا لفظ نہ روایت جابر رضی اللہ عنہ میں تین کا شاید "لیلة" کا ترجمہ آپ کے ہاں تین رات ہو - کیونکہ ایک کو تین اور تین کو ایک کرنا تو آپ کا روزمرہ کا کام ہے
نمبر 37 سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح کی روایت کے بارہ میں لکھا ہے یہ روایت دو طریق سے ہے اور دونوں میں ایک ایک راوی مجہول الحال ہے - اولآ تو تلقی بالقبول کے بعد جرح کا کوئی جواز ہی نہیں - پھر یہ کہ پہلی اور تیسری صدی کے راوی کو عبد الرحمن مبارکپوری 1353 ہجری نے محض اپنی ہوا پرستی سے مجہول الحال لکھ دیا - اس بے دلیل بات کی خطیب [عبداللہ بہاولپوری] صاحب نے اندھی تقلید کرلی جب کہ چودہ صدیوں میں ایک بھی مسلمہ محدث نے ان کو مجہول الحال نہیں لکھا - امید ہے کہ خطیب [عبداللہ بہاولپوری] صاحب ان کے کسی معاصر محدث سے ان کا مجہول الحال ہونا ثابت کریں گے اور نہ اپنی جہالت کا اعلان کریں گے
نمبر 38 کیا مبارکپوری سے پہلے ان روایات کو کسی محدث نے ضعیف کہا ہے - صرف ایک حوالہ درکار ہے
نمبر 39 کیا غیرمقلدین سے پہلے کسی ایک مسلمان نے بھی اس کا انکار کیا کہ دور فاروقی سے بیس رکعت تراویح پر استقرار نہیں ہوا؟
نمبر 40 کیا کسی ایک مسلمان نے بھی یہ لکھا ہے کہ خلاف راشدہ میں آٹھ رکعت تراویح پر استقرار ہوا
نمبر 41 صرف ایک مسلمان ایسا بتادو جس نے بیس رکعت تراویح کی حدیث کو ضعیف کہا ہو اور ساتھ ہی بیس رکعت کے استقرار کا انکار کیا ہو - جب تلقی بالقبول سے ضعف ختم ہوجاتا ہے تو ان کے ضعف کا قول نقل کرنا اور بیس رکعت تراویح پر استقرار کے قول کو چھوڑ دینا ایسی بددیانتی ہے جس کی مثال سوامی دیانند کی کتابوں میں ہی مل سکتی ہے ، ادریس
نمبر 42 جامعہ ام القری مکۃ المکرمہ کے استاد الشیخ محمد علی صابونی نے شعبان 1403 ہجری میں ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا نام "الہدی النبوی الصحیح فی صلاۃ التراویح" جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ بیس رکعت تراویح ہی امت میں متواتر ہے - اس رسالہ کا جواب خطیب [عبداللہ بہاولپوری] صاحب نے آج تک نہیں لکھا شاید سعودیہ سے پیسے بند ہونے کا خطرہ ہو
نمبر 43 اسی طرح سلطنت سعودیہ کے ذمہ دار رکن فضیلۃ الشیخ عطیہ محمد سالم القاضی بالمحکمۃ الکبری بالمدینۃ المنورہ والمدرس فی مسجد النبوی نے 1407 ہجری میں ایک رسالہ "التراویح اکثر من الف عام فی مسجد النبی علیہ الصلوۃ والسلام" انہوں نے پوری اسلامی دنیا اور خصوصآ مسجد نبوی کا متواتر تعامل بیس [20] رکعت تراویح کا ہی ثابت کیا ہے اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ مسجد نبوی میں ایک قرآن پاک تراویح میں اور ایک قرآن پاک تہجد میں ختم ہوتا ہے - اور انہوں نے چار ہی مذاہب کا ذکر فرمایا ہے حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی اور کسی مذہب کا نام تک نہیں لیا
نمبر 44 یہ تو واضح ہے کہ حرم پاک اور مسجد نبوی میں بیس رکعت تراویح باجماعت ہوتی ہیں - فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح بن العثیمین فرماتے ہیں "ومنہم من یصلی بعضہا وینصرف قبل امامہ وھذا حرمان لفضیلتہا . وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من قام مع الامام حتی ینصرف کتب لہ قیام لیلة فاصبروا حتی یکمل الامام صلاتہ [الضیاء اللامع من الخطب الجوامع صفحہ نمبر 468]
إن أريدُ إلا الإصْلاحَ ما استطعتُ وَمَا توفيقي إلا باللہ
آپ اس آرٹیکلز کو رومن میں بھی پڑھ سکتے ہے