Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 11:56:59 GMT 5.5
تصوف = Tasawwuf
أُولٰئِكَ الَّذينَ يَعلَمُ اللَّهُ ما فى قُلوبِهِم فَأَعرِض عَنهُم وَعِظهُم وَقُل لَهُم فى أَنفُسِهِم قَولًا بَليغًا {4:63}
ان لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے خدا اس کو خوب جانتا ہے تم ان (کی باتوں) کو کچھ خیال نہ کرو اور انہیں نصیحت کرو اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں
اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان کی قسم اور ان کی معذرت سابقہ کی تکذیب فرمائی کہ منافقین جو کچھ زبانی باتیں بنائیں بنانے دو اللہ تعالیٰ کو ان کےدل کی باتیں خوب معلوم ہیں یعنی ان کے نفاق اور ان کے جھوٹ کو خوب جانتا ہے سو آپ بھی علم خداوندی پر بس کر کے منافقوں کی بات سے تغافل کیجئے اور ان کی بات کی پروا نہ کیجئے مگر ان کو نصیحت کرنے اور کام کی باتیں بتانے میں ہر گز کوتاہی نہ فرمائیں اور ان کی ہدایت سے مایوس نہ ہو جائیے۔
صوفیاء کی مطلقاً برائی کرنے والا حد اعتدال سے باھر ہے
امام ابن تیمیہؒ (٧٨٤ ھہ) فرماتے ہیں: ایک جماعت نے مطلق صوفیاء و تصوف کی برائی کی ہے، اور ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کا طبقہ ہے جو اہل السنّت والجماعت سے خارج ہے. اور ایک جماعت نے صوفیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء کے بعد ان کو سب سے افضل دیا ہے، اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں؛
درست بات یہ ہے کہ صوفیاء الله کی طاعت کے مسئلہ میں مجتہد ہیں، جیسے دوسرے اہل طاعات اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں، اس لئے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں اور ان میں مقتصدین کا بھی طبقہ ہے جو اہل یمین میں سے ہیں اور اس طبقہ میں سے بعض ظالم ہیں اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہوتے ہیں.[مجموع الفتاویٰ، لابن تیمیہ:١١/١٨]؛
اور وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے
وقال امام ابن تيمية (٧٨٤ ھہ) في مجموع الفتاوى ( 11 / 65 ) : وأما خواص الناس فقد يعلمون عواقب أقوام بما كشف الله لهم ...؛یعنی (الله کے) مخصوص بندے کچھ لوگوں کے انجام بذریعہ کشف معلوم کرلیتے.؛
تصرفاتِ ولی کا انکار ممکن نہیں
علامہ ابن تیمیہؒ (٧٨٤ ھہ) فرماتے ہیں کہ : بہت سے لوگ ولی اسے سمجھتے ہیں جس کے ہاتھ میں خوارقِ عادت چیزوں کا ظہور ہو، اور اس سے کشف کا ظہور ہو، اس سے بعض خارقِ عادت تصرفات کا ظہور ہو، مَثَلاً : وہ کسی کی طرف اشارہ کرے تو وہ مرجاۓ یا وہ ہوا میں اڑ کر مکہ یا دوسرے شہر پہنچ جاۓ یا وہ پانی پر چلے یا وہ ہوا سے لوٹا بھردے یا اس کے پاس کچھ نہیں مگر وہ غیب سے خرچ کرتا ہے، یا وہ نگاہوں سے غائب ہوجاتا ہے، یا جب کوئی اس سے مدد چاہتا ہے اور وہ اس کے پاس نہیں ہے، یا وہ اپنی قبر میں ہے تو وہ اس کے پاس آتا ہے اور وہ اس کی مدد کرتا ہے، یا چوری شدہ مال کی خبر دیتا ہے یا غائب آدمی کا حال بتلادیتا ہے، یا مریض کے احوال سے آگاہ کردیتا ہے .......... ان خوارق عادت باتوں کا صدور اگرچہ کبھی الله کے ولی سے ہوتا ہے مگر کبھی اس طرح کی باتیں الله کے دشمنوں سے بھی ظاہر ہوتی ہیں ............. بلکہ ولی الله ہونے کا اعتبار ان کی صفات، افعال اور احوال سے ہوگا کہ وہ کتاب الله اور سنّت کے مطابق ہیں؟ [مجموع الفتاوى : 11 / 214]؛
عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أنه قال علمني رسول الله صلي الله عليه وسلم سبعين بابا من العلم لم يعلم ذلك أحدا غيري.[كتاب اللمع في التصوف؛ للطوسي : صفحه # ١٩]