Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 16:06:14 GMT 5.5
انٹر نیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے گذشتہ عشرے میں مغربی تہذیب کا مشرقی معاشرے پر تیزی سے اثر انداز ہونا
کسی المیہ سے کم نہیں فکرو خیالات کانام تہذیب اور اس کی عملی صورت تمدن اور تمدن کے نتیجے میں ثقافت کلچر پروان چڑھتا ہے اسلامی تہذیب سے معاشرے میں اخلاقی روحانی قدریں پروان چڑھتی ہے مثبت سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتاہے رشتوں کے تقدس کی اہمیت حاصل ہوتی ہیں ا س کے برعکس عیسائی تہذیب جیسے مغربی تہذیب لکھا وکہا جاتاہے ،انقلاب فرانس کے نتیجے میں یورپی معاشرے سے چرچ کے کردار کو ختم کردیاگیامذہب فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا گیا جس نے مغربی معاشرے کو کھوکھلااور اخلاقی قدروں سے آزاد کردیاکوئی بھی تہوار یادن جیسے خصوصیت حاصل ہوتی ہے بالواسطہ یابلاواسطہ مذہب وتاریخ سے جڑاں ہواہوتاہے ۔ویلنٹائن ڈے سالانہ مغربی تہوار جو ہر سال 14فروری کومنایاجاتاہے ۔الیکڑانک میڈیااور ملٹی نیشنل کمپنیوں وانٹر نیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بالخصوص عالم اسلام وپاکستان میں پروان چڑھایاجارہاہے ۔جس کاحقیقت میں مذہب وتہذیب سے کوئی تعلق نہیں ۔مولانا شہزاد ترابی اپنے مقالے ویلنٹائن ڈ ے کیا ہے میں رقمطراز ہیں انسائیکلوپیڈیا برٹیسیکا (Britanica)کے مطابق یوم ویلنٹائن کے بارے میں تاریخ دومختلف موقف بیان کرتی ہے یہ دونوں موقف ایک ہی ہستی سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے بیان ہوتی ہیں ۔
ایک عیسائی ،ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے اس یوم کی تاریخ ،تہوار ،رسم ورواج کی،تحریف درتحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں ایک شرمناک رسم کا حصہ بن گیا جن کی عملی ،عقلی فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کررہاہے ۔
یوم ویلنٹائن کی تاریخ ہمیں روایات کے انبار میں بھی ملتی ہیں روایات کا یہ دفتر اسرائیلی روایات سے بھی بدتردرجے کی چیز ہے لوگوں نے اپنی سفلی جذبات کی تسکین کیلئے سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے کیا کچھ تخلیق کیا اس کی ہلکی سی جھلک مندرجہ ذیل روایتوں میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے جس کا مطالعہ مغربی تہذیب میں بے حیائی ،بے شرمی کی تاریخ کے آغا زکا اشارہ دیتاہے روایتوں کے مطابق یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے انہیں محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا،کئی لوگ اسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا )اور وینس (حسن کی دیوی )سے موسوم کرتے ہیں جوکیوپڈ کی ماں تھی ۔یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلاکر انہیں گھائل کرتاتھا تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں ،۱۴ فروری کادن وہاں رومن دیوی ،دیوتاؤں کی ملکہ جونو کے اعزازمیں یوم تعطیل کے طورپر منایاجاتاہے ۔اہل روم ملکہ جو نو کو صنف نازک اور شادی کی دیوی کے نام موسوم کرتے ہیں جبکہ ۱۵ فروری لیوپرکس دیوتاکا دن مشہو ر تھا اور اس دن اہل روم جشن زرخیزی مناتے تھے اس موقع پر وہ پورے روم میں رنگا رنگ میلوں کا اہتمام کرتے جشن کی سب سے مشہور چیز نوجوان لڑکے لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی ہوتا یوں تھا کہ اس رسم میں لڑکیوں کانام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیئے جاتے تھے اور وہاں موجود نوجوان اس میں سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی میں لکھا نام جشن کے اختتام تک اس نوجوان کاساتھی بن جاتاجو آخر کار مستقل بندھن یعنی شادی پر ختم ہوتا ،ایک دوسری روایات کے مطابق شہنشاہ کلاڈلیس دوم کے عہد میں روم کی سرزمین مسلسل جنگوں کی وجہ سے گشت وخون کامرکز بنی رہی اور یہ عالم ہواکہ ایک وقت کلاڈلیس دوم کی اپنی فوج کیلئے مردوں کی تعداد بہت کم آئی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں اور ہم سفروں کو چھوڑ کرپردیس جاناپسند نہ کرتے تھے اس کا شہنشاہ کلاڈلیس نے حل نکالاکہ ایک خاص عرصے کیلئے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کوفوج میں آنے کیلئے آمادہ کیا جائے اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ مارلیس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا ان کایہ کام چھپ نہ سکا اور شہنشاہ کارڈلیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کوگرفتار کرلیاگیااور اذیتیں دے کر 14فروری 270ءکو بعض حوالوں کے مطابق 269ء میں قتل کردیاگیا،اس طرح 14فروری ملکہ جونو،جشن زرخیزی اور سینٹ ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کیلئے معتبرو محترم دن قرار پایا۔سینٹ ویلنٹائن کانام ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا یہ بشپ آف ٹیرنی تھا جسے عیسائیت پرایمان کے جرم میں 14فروری 269ءکوپھانسی دے دی گئی تھی کہاجاتاہے کہ قید کے دوران بشپ کوجیلرکی بیٹی سے محبت ہوگئی اوروہ اسے محبت بھرے خطوط لکھاکرتاتھا اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن ڈے کہاجاتاہے ۔چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتاتھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کارتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کواس دن محبت بھرے خطوط ،پیغامات ،کارڈز،اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پایا۔
برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کوبعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایاجانےلگاتاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایات نہیں تھی برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ 14فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والوں کیلئے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میرے بنددل کواپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کواگر کوئی لڑکی چڑیادیکھ لے تواس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے جبکہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی ۔اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پرکسی سنہری پرندے کودیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیرشخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گوارگزرے گی ۔امریکہ میں روایات مشہورہے کہ 14 فروری کووہ لڑکے اور لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں جو نہی رقص کا عمل ختم ہوگااور جو آخری نام ان کے لبوں پر ہوگااس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی جبکہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں دلچسپ روایت بھی زبان زدعام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہشمندہیں کہ یہ جان سکیں آپ کی کتنی اولادہوگی توویلنٹائن ڈے پرایک سیب درمیان سے کاٹیں کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے میں جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی آپ کے بچے ہوں گے ۔جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پراپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش کرتی ہیں اٹلی میں غیرشادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جو پہلے مردان کے سامنے سے گزرتاہے ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کاہونے والا خاوند ہوتاہے۔جبکہ ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کوبھیجے جاتے ہیں ۔تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کارواج ۱۴ صدی میں ہوا ابتدامیں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیاجاتاتھاجس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن ،کٹ آؤٹ ،اورپرل پر س ویلنٹائن کارخانوں میں بننے لگے 19ویں صدی کے آغاز پرویلنٹائن کارڈزبھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پرپڑی جواب ایک مستقبل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔اس روایتوں کے سرسری مطالعے سے ہی اندازہ ہوتاہے کہ لوگوں نے اپنی خوابیدہ تمناؤں کولفظوں کے کوزے میںدفنادیاہے انسانی جذبات کی ناکامیاں ،محرومیاں زندگی کے اداس لمحے ،کچلی ہوئی خواہشات ،دبے ہوئے ارمان جنہیں غلط سلط رسوم ورواج کے باعث فطری نشوونما،ارتقاء اور اظہار کا موقع نہیں ملااس معاشرے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کے پیرہن میں اپنی تمام شرارتیں لے کر سماگئے ہیں جن معاشروں میں انسانی جذبات کااحترام نہ ہو۔انسان کے فطر ی مطالبات کوشائستہ اور شریفانہ طریقے سے پوراکرنے کا کوئی نظام نہ ہواور زندگی حرکت ،حرارت ،مسرت ،خوشیاں چندمخصوص لوگوں کامقدربن جائیں توبغاوت مذہبی شخصیات کے مقدس ایام کے لبادے میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ سینٹ ویلنٹائن بھی اپنے نام پر ہونے والے ان جرائم کاتصور کرکے ہی لرزہ براندام ہوگا۔بااثر برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق چندسالوں سے ایک دوسرے سے انس اور یگانگت کے اظہار کیلئے حصص کی خریداری زوروں پر ہے۔انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کے ایک سروے کے مطابق پچاس فی صد عورتیں اور چالیس فیصد مرد ایک دوسرے کو حصص کے تحفے دے رہے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن نام کے تین سینٹ گزرے ہیں ان تینوں خداترسوں میں سے دوکے تیسری عیسوی میں سرقلم کردیئے گئے تھے ان میں سے کسی کاتعلق ایسی کسی تقریب سے نہ تھانہ ہی ان میں سے کوئی دنیاوی محبت کے جذبے سے ہی آشناتھا۔اکاؤنسٹ کی رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن ڈے بہارکی آمدآمدپرپرندوں کی مسرت کے اظہار کی علامت ہے۔انگریزی میں ویلنٹائن پر سب سے پہلی نظم چوسرنے (1382ءمیں)پارلیمنٹ آف فاؤلز کے عنوان پر لکھی تھی اس میں انسانوں سے کہاگیاہے کہ وہ اپنی جنس تبدیل کرنے کیلئے کسی نہ کسی پرندے کاانتخاب کریں ۔علم الانسان کے کئی ماہرین کے خیال میں یہ دن سردی کے خاتمے پرمنایاتھا اور لوگ بکری کی کھال اُوڑ ھ کرہراس عورت پر ٹوٹ پڑتے تھے جو انہیں نظر آتی تھی ۔
اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق یوم ویلنٹائن ایک مقدس دن کے طور پرطلوع ہوتاہے وہ تین خدا ترس عیسائی جس کانام ویلنٹائن تھااپنے دین پر چلنے کے جرم میں قتل کردیئے گئے ان کی قربانی کیااس دن کیلئے تھی کہ عیسائی اور مغربی دنیاان کے لہوکی مہک سے اپنے دلوں کی جلن کو مٹاڈالے مغربی تاریخ میں قرون وسطی کی ایک اور تقریب سینٹ اوسوالڈ کے نام سے موسوم ہے ۔اس روز26فروری کوہر چار سال بعد لیپ کے سال کے موقع پر عورتیں کھل کر سامنے آتی ہیں اگر لیپ کاسال نہ ہواور فروری کامہینہ 28تاریخ کوختم ہونے والاہوتو وہ رومن کیتھولک چرچ میں جاکرسینٹ اوسوالڈ کی یاد میں عبادت کرتی تھی ایک اور ایک دن سینٹ جارج کی یاد میں 23اپریل کومنایاجاتاہے جو شیکسپیئر کا یوم پیدائش بھی ہے اس روز گلابوں کے تحفے دیئے جاتے ہیں ۔
مغربی پروپیگنڈے سے مرعوب اشرافیہ اور اخلاقی قدروں سے محروم نوجوان لڑکے لڑکیاں اس دن کا اہتمام کرتے ہیں ذرائع ابلاغ ،خصوصی ایڈیشنوں کے ذریعے اس بدتہذیب اور غیر اخلاقی دن کواجاگر کیاجاتاہے۔اسلام میں خوشیوں کے اظہار پر کوئی پابندی عائدنہیںہرخوشی کاآغازاﷲتعالیٰ کی حمدوثناء وسجدہ شکر ادا کرکے کیا جاتاہے مگر اُن لوگوں کاکیا؟کیاجائے جو اخلاقی وروحانی قدروں سے دور ہے مغربی دنیامیں ہم جنس پرستی جیسے حرام ومکروہ فعل کوبھی قانونی تحفظ دیاجارہاہے،جہاں بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہاؤس میں داخل کروادیاجاتاہے،ان کی عقلوں پر ماتم ہی کیاجاسکتاہے ،بعض مغربی دانشوروں نے یورپی معاشرے کی تباہ ہوتی ساکھ کوبچانے کیلئے مدر ڈے ،کبھی فادر ڈے توکبھی کچھ کبھی کچھ ایام مناکر ماضی کی خوبصورت یادوں کوزندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اﷲتعالیٰ کے کرم سے ہمارامعاشرہ ابھی اُس تباہی کی جانب نہیں بڑھا۔رشتوں کا احترام ،رواداری کا جو سبق ہماری نبی کریم ﷺکی تعلیمات سے ہمیں ملتا ہے ،ہم میں موجودہے جیسے مغربی وملٹی نیشنل کمپنیاں ختم کرنا چاہتی ہیں ہمیں اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہراُس سازش کوناکام بنادیں جوہماری اخلاقی وروحانی تہذیبی قدروں کوہم سے چھینا چاہتے ہے ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقاء صرف اسلامی تہذیب سے تمدن سے وابستگی میں ہے ۔
حقیقی محبت اور
’’ویلنٹائن ڈے‘‘
کی محبت
’’ محبت‘‘ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرداس کا متلاشی نظر آتا ہے اگر چہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت ، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے دیا گیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ’’ محبت ‘‘ کے لفظ کو بد نام کر دیا گیا ہے۔ صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے حقیقی محبت کا اظہار کرنا چاہے تو وہ بھی تذبذب کا شکار رہتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جس سے محبت ہو اس سے محبت کا اظہار بھی کیا جائے۔ ( سنن ابی داؤد: 5124 ) اس تمام صورت حال کا سبب فقط اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں۔ جہاں محبت کے لفظ کو بد نام کر دیا گیا ہے وہیں ہمارے معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کا منایا جانا ہے۔ ہر سال 14 فروری کو یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے گفتگو کرنے سے پہلے ہم ’’ محبت‘‘ کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کی حقیقت کو جاننے کے لئے اسلام کا ’’ معیار محبت ‘‘ اور اس کی ترتیب کو جاننا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت :
قرآن و حدیث میں محبت کو ایمان کا حصہ قراردیا گیا ہے۔ اس میں سر فہرست بندوں کا اپنے رب سے محبت کرنا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کو جز و ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پر کسی اور شخص یا چیز کی محبت غالب نہیں آتی۔ مومنوں کی اس محبت کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے: {والذین امنوا اشد حبا للّٰہ } ’’ اہل ایمان اللہ کے ساتھ محبت کرنے میں بہت سخت ہیں۔‘‘ (البقرۃ: 165:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ثلاث من کن فیہ وجد حلاوہ الایمان: ان یکون اللّٰہ ورسولہ احب الیہ مما سواھما… ’’ تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرنے لگتا ہے: ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں…‘‘ ( صحیح البخاری: 16 ) یہ ایک طبعی امر ہے کہ آدمی کو جس سے محبت ہو وہ اس سے ملاقات کا مشتاق بھی بہت ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو بیان فرمایا ہے: (من احب لقاء اللّٰہ احب اللہ لقاء ہ ) ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم : 2686)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت:
سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ایک مسلمان کی کامیابی کا انحصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو قرار دیا گیا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ( والذی نفسی بیدہ لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ) ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘ (صحیح البخاری: 14 ) ایک روایت میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے: ( والناس اجمعین) ’’ جب تک تمام لوگوں سے بڑھ کر ان کے نزدیک محبوب نہ ہوجاؤں‘‘
( صحیح البخاری: 15 )
ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اعتراف یوں کیا تھا۔ (ما رایت فی الناس احد ایحب احدا کحب اصحاب محمد محمدا) ’’ میں نے کسی کو کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی اور شاگردان سے کرتے ہیں۔ ‘‘ ( تاریخ الطبری: 216/2 )
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت:
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغض و عناد رکھنا کفر و نفاق اور الحاد کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ایمان کو مسلمانوں کے لئے آئیڈیل قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار ہا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو برا بھلا کہنے اور ان سے بغض رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے ، خصوصاً انصار صحابہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (الانصار لا یحبھم الا مومن ولا یبغضھم الا منافق، فمن احبھم اھبہ اللہ، ومن ابغضھم ابغضہ اللہ )‘‘ مومن شخص ہی انصار سے محبت رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔ جو ان سے محبت رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ ‘‘ ( صحیح البخاری: 3783)
میاں بیوی کی باہمی محبت:
میاں بیوی کا آپس میں محبت کرنا شرعاً پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے۔ دین اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ میاں بیوی آپس میں محبت کرنے کے بجائے غیروں سے محبت کی پینگیں بڑھاتے پھریں۔ شریعت یہ چاہتی ہے کہ میاں بیوی کا یہ پاکیزہ بندھن خوش حال زندگی کا باعث بنے، اسی لئے شریعت نے ان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ ان حقوق میں سے ایک اہم حق ان کا آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کی باہمی محبت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے : {ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ ور حمۃ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون} ’’ اور( یہ بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے عظیم نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘ ( الروم 12:30 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفیقۂ حیات کے انتخاب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: (تزوجو ا الودود الولود فانی مکاثر بکم المم) ’’ تم اس عورت سے شادی کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو۔ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ ‘‘ ( سنن ابی داؤد: 2050)
والدین اور اولاد کی آپس میں محبت:
والدین اور اولاد کے درمیان محبت کا ہونا ایک فطری چیز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس محبت کے اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب ہونے کی صورت میں سخت وعید فرمائی ہے ، اس لئے کہ محبت کا پہلا حق اللہ اور اس کے رسول کا ہے ۔ گویا والدین اور اولاد کے مابین محبت شرعی طور پر مطلوب ہے مگر اس وقت جب اسے ثانوی حیثیت دی جائے اور اس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو ترجیح حاصل ہو جیسا کہ بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
عام افراد کی آپس میں محبت:
اسلام امن و امان، اخوت اور محبت کا دین ہے ۔ تمام لوگ معاشرے میں امن و امان اور محبت کے ساتھ پر سکون زندگی گزاریں، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کلام مقدس میں تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے۔ گویا جس طرح سگے بھائیوں کے درمیان محبت ہوتی ہے اسی طرح تمام لوگوں سے محبت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے آپس میں محبت کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ما احب عبد عبدا للّٰہ الا اکرم ربہ عزوجل ) ’’ جب کوئی بندہ کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے محبت رکھتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے پروردگار کی تکریم کرتا ہے۔ ‘‘ ( مسند احمد: 259/6) یہ محبت اسی صورت لائق تحسین ہے جب بغیر کسی لالچ اور طمع کے ہو۔
ویلنٹائن ڈے:
عالمی سطح پر ’’ یوم ِ محبت‘‘ کے طور پر ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال پاکستان میں دیمک کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ تہوار منانے والے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ دن منانے کی وجہ کیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہے۔ اگر ان روایات کو بھی بنیاد بنایا جائے تو ایک عقل مند اور باشعور انسان اس تہوار کو منانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کوئی بھی باغیرت اور باحمیت شخص کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ کوئی راہ چلتا شخص اس کی بیٹی کو پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا پھرے۔ اسی طرح کوئی بھی باحیاء، با غیرت اور پاکدامن لڑکی کبھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ اس کا کلاس فیلو، یونیورسٹی فیلو یا کوئی بھی راہ چلتا نوجوان اسے پھول پیش کرے اور محبت کی پینگیں بڑھائے۔
ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس دن کے حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے کوئی مستند نہیں ہے، البتہ ایک خیالی داستان جو اس حوالے سے بہت مشہور ہو چکی ہے، اسے بطور مثال ذکر کرتے ہیں: تیسری صدی عیسوی میں روم میں ’’ ویلنٹائن ‘‘ نامی ایک پادری کو ایک راہبہ سے ’’ عشق ‘‘ ہو گیا۔ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا اور اب بھی ممنوع ہے۔ اس نے عشق کو انتہا تک پہنچانے کے لئے ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی معشوقہ سے کہا: ’’ مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر 14 فروری کو راہب اور راہبہ ( بغیر نکاح کے ) صنفی ملاپ کر لیں تو ان پر کوئی حد نہیں لگے گی۔‘‘ راہبہ اس کے چکر میں آگئی اور دونوں ’’ جوش عشق‘‘ میں ’’ منہ کالا ‘‘ کر بیٹھے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس پادری کا نام ’’ ویلنٹائن‘‘ بتایا جاتا ہے جسے بعد میں ’’ عشاق ‘‘ کی طرف سے ’’ شہید محبت ‘‘کا لقب دیا گیا۔ اسی عاشق راہب ویلنٹائن کی یاد میں ہر سال 14فروری کو ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔
یہ وہ داستان ہے جس کی بنیاد پر ایک جنونی گروہ مسلم معاشرے خصوصاً پاکستان میں بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ باعث شرم بات تو یہ ہے کہ اس عاشق راہب اور معشوقہ راہبہ کا جس مذہب سے تعلق تھا وہ اس تہوار کو اپنا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں مگر مسلمان ہیں کہ بے حیائی کے اس کلچر کو دل و جاں سے قبول کیے ہوئے ہیں۔ باعث صد افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو یوم تجدید محبت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ’’ محبت ‘‘ کو باعث عار سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق کی بیماری لگ جاتی تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ مگر آج وطن عزیز میں صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہمارا میڈیا اس مرض کو ایک ’’ مقدس شے ‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویلنٹائن جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جارہا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت خداداد میں لادینیت اور جنسی بداعتدالیوں کو کس طرح تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے اس کا انداز اسطرح کے حیا باختہ تہواروں سے با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ غیر مسلم این۔ جی۔ اوز کے تحت چلنے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ طور پر اس بے ہودہ تہوار کو منایا جاتا ہے۔ یقینا ان سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہمارے ہی بچے،ہماری بیٹیاں اور بہنیں ہوتی ہیں جن کو دنیاوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ دین سے دور بھی لے جایاجارہا ہے۔ گلی کوچوں، محلوں، بازاروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لفنگے نوجوان ان باحیا اور شریف لڑکیوں کو پھول پیش کر کے چھیڑ خانی کرتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مغربی تہذیب سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔ عفت و عصمت کی پیکر یہ لڑکیاں اس بد اخلاقی کا جواب دینے کے بجائے عزت بچا کر وہاں سے بچ نکلنے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں۔
فحاشی اور بے حیائی کے اس تہوار کو ’’ یوم محبت ‘‘ قرار دیے جانے کے بجائے ’’ یوم اوباشی ‘‘ قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، اس لئے کہ اس تہوار کا اصل مقصود مرد اور عورت کے درمیان ناجائز تعلقات کو فروغ دینا بلکہ تقدس عطا کرنا ہے۔ اہل مغرب کی یہ کوشش ہے کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی کو عام کر کے مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی عورت کو ’’ تماشا‘‘ بنادیا جائے۔ قدیم رومی کلچر کی روایات ہوں یا جدید مغرب کا اسلوبِ جنس پرستی، ان کا ہماری مذہبی تعلیمات تو ایک طرف، مشرقی کلچر سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ مغرب میں ’’ محبت‘‘ کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے۔ جس جذبے کو وہاں محبت (Love) کا نام دیا جاتا ہے، وہ در حقیقت بوالہوسی اور خواہش پرستی ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور فسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ مرد و زن کی باہمی رضا مندی ، ہر طرح کی شہوت رانی اور زنا کاری وہاں ’’ محبت‘‘ ہی کہلاتی ہے۔اسی طرح ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے والوں کی جانب سے ’’ محبت‘‘ کا لفظ جنسی بے راہ روی کے لئے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ گویا ’’ حقیقی محبت ‘‘ اور ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ جنسی بے راہ روی کا دوسرانام ہے۔
قدیم روم میں اس تہوار کو ’’ خاوند کے شکار ‘‘ کا دن سمجھا جاتا تھا، یعنی عورت خود ہی بازار میں نکلتی اور اپنے ہونے والے شوہر کا خود ہی انتخاب کرتی۔ اسلام اس بے حمیتی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی معاشرے میں عورت کی شادی کی ذمہ داری اس کے ولی کی ہے ۔ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے اس نکاح کو شریعت نے زنا قرار دیا ہے۔ اسی طرح اسلام میں میاں بیوی کے درمیان محبت کے اظہار پر کوئی بندش نہیں ہے لیکن اس کے لئے ایک ایسے دن کا انتخاب کرنا جو مغرب کی جنس پرست تہذیب کا علامتی اظہار بن چکا ہے، کسی بھی اعتبار سے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو ان خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔ انہیں اس بات سے مطلع نہیں کیا جارہا کہ جس بات کو وہ ’’ محبت ‘‘ سمجھ کر منا رہے ہیں ، وہ در حقیقت شہوت رانی اور جنسی بے راہ روی کی علامت ہے۔اس کا ان کی سماجی روایات اور اخلاقی قدروں سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
بے حیائی پر مبنی یہ تہوار جس تیزی کے ساتھ پاکستان میں پھیلتا جارہا ہے وہ بہت تشویشناک ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق صرف لاہور کے اندر گزشتہ سال 14 فروری کو کڑوروں روپے کے پھول فروخت ہوئے۔ اس قدر بڑی مقدار میں پھول بوالہوس عشاق کی طرف سے ایک دوسرے کو پیش کرنے کے لئے خرید ے گئے۔ اس تمام صورت حال کا ذمہ دار ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ محض خبروں کی سنسنی خیز اشاعت کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل میں پاکستانی قوم کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کریں؟ ہر سال ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے بے شمار قیمتی اشتہار شائع کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے حوالے سے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ اوباش نوجوانوں کی طرف سے شریف لڑکیوں کے نام پیغام نشر کئے جاتے ہیں، اسی طرح کچھ ’’ روشن خیال‘‘ نوجوان لڑکیاں بھی اپنے عاشقوں کے نام پیغام نشر کرواتی ہیں۔ گویا جس طرح ہمارا میڈیا بے حیائی کے اس کلچر کو کوریج دیتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ بے حیائی کے اس پروگرام کو پھیلانے میں مغربی ممالک کی طرف سے میڈیا کو خاص ہدف سونپا گیا ہے۔
بے حیائی کو فروغ دینے میں موبائل فون کمپنیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایسے موقع پر ان کمپنیوں کی طرف سے بھی عجیب و غریب قسم کے ایس۔ ایم ایس بھیجے جاتے ہیں۔ ٹاک میسجز اور کالرٹونز کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
روزنامہ جنگ لاہور: 15 فروری2012 ء کے مطابق گزشتہ سال سیاستدانوں میں سے بھی اکثریت نے بے غیرتی کے اس کلچر میں پورا پورا حصہ لیا۔ انہوں نے بھی خوب جوش و خروش سے ویلنٹائن ڈے منایا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ ہمارا تعلق ’’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سے نہیں بلکہ جنسی بے راہ روی کے علمبردارمسیحی راہب ’’ ویلنٹائن ‘‘ سے ہے۔ صاحب اقتدار طبقے کی اس روش پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔
حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو لہو ولعب اور جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر گلاب کے پھول اور کارڈز کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرے۔ اخبارات کے مالکان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کسی قسم کے اشتہارات اور پیغامات شائع نہیں کریں گے۔ ویلنٹائن ڈے اور اس جیسی بے ہودہ سرگرمیاں جو اسلامی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں، ان کے متعلق حکومت کو خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔ نئی نسل کی جنسی آوارگی کی طرف رہنمائی کرنے کے بجائے ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ انہیں اس بات سے آگاہ کریں کہ جس راہ پر تم چل نکلے ہو اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔
تعلیمی اداروں کے منتظمین اور اساتذہ کرام کے نام بھی یہ پیغام ہے کہ تعلیم کے حصول کے لئے آنے والے بچے آپ کے پاس امانت ہیں۔والدین اپنے بچوں کو کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی بھیجتے ہیں تو ان کا مقصود ان کو اچھی تعلیم دلوانا ہوتا ہے نہ کہ ان کے اخلاق کا جنازہ نکلوانا۔ اب آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں۔ انہیں حیا باختہ تہواروں کے بارے میں آگاہ کریں کہ ہمارے مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب یورپی تہذیب ہے جو ہمارے صاف ستھرے چہرے کو مسخ کرنا چاہتی ہے۔
حکومت ، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے منتظمین و اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔ انہیں ان بے ہودہ تہواروں سے لاتعلق رہنے کی تلقین کریں اور ان دنوں ان کی خصوصی نگرانی بھی کریں کہ کہیں وہ شیطان کے جال میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں۔
یاد رکھیں ! اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور تمام ذمہ داران اخلاقیات کے دشمن ان تہواروں سے صرف نظر کرتے رہے تو آج مغرب جس صورت حال سے دو چار ہے وطن عزیز میں اس کے پیدا ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ یورپ حیا سے عاری ان تہواروں کے نتائج دیکھ چکا ہے۔ اگر ان حیا سوز تہواروں کے آگے بند نہ باندھا گیا تو ہم بھی اس عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یورپ میں بھی یہ سب کچھ ایک سال میںنہیں ہوگیا تھا، ان کے ہاں بھی خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی انقلاب آہستہ آہستہ وقوع پزیر ہوا تھا۔ یورپ کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کی دہائی دے رہے ہیں مگر اب پانی ان کے سروں سے گزر چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت محض ایک قلیل تعداد اس خطرناک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے، ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی…!!!