Post by Mohammed IbRaHim on Jan 23, 2014 23:14:40 GMT 5.5
آمین آھستہ کہنے کے دلائل
علماء_امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت" سے ثابت ہیں، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعآ درست سمجھنا ضروری ہے. اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلک_مختار (اختیار شدہ راستہ) کا اتنا اصرار کرے، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض، دشنام طرازی اور دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے. باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و فقہ میں صرف ناسخ و منسوخ کا یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و غیر افضل) کا ہوتا ہے.
ہم نماز میں آمین آہستہ کیوں کہتے ہیں
القرآن : ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً {7:55} یعنی تم دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے
الحدیث : "قال عطاء آمین دعا" یعنی حضرت عطاءؒ نے فرمایا کہ آمین دعا ہے.[صحیح بخاري: ۱/۱۰۷، کتاب الأذان، باب جہر الإمام بالتأمین]؛
القرآن : وَاذْكُرْ رَبَّكَ فـي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً {7:205} یعنی ذکر کر اپنے رب کا اپنے دل (جی) میں عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے
الحدیث : آمِينَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. یعنی آمین الله تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے.[مصنف عبد الرزاق: ٢/٦٤ ، مصنف ابن أبي شيبة::٢/٣١٦]؛
التفسير الكبير للرازي : امام رازیؒ (606هـ) فرماتے ہیں:؛
قال أبو حنيفة - رحمه الله - : إخفاء التأمين أفضل . وقال الشافعي - رحمه الله - : إعلانه أفضل ، واحتج أبو حنيفة على صحة قوله ، قال : في قوله : " آمين " وجهان : أحدهما : أنه دعاء . والثاني : أنه من أسماء الله . فإن كان دعاء وجب إخفاؤه لقوله تعالى : ( ادعوا ربكم تضرعا وخفية ) [الأعراف : 55] وإن كان اسما من أسماء الله تعالى وجب إخفاؤه لقوله تعالى : ( واذكر ربك في نفسك تضرعا وخيفة ) [الأعراف : 205] فإن لم يثبت الوجوب فلا أقل من الندبية . ونحن بهذا القول نقول . [التفسير الكبير أو مفاتيح الغيب » سورة الأعراف » قوله تعالى ادعوا ربكم تضرعا وخفية إنه لا يحب المعتدين(7:55)]؛
امام رازیؒ (606هـ) اپنی [تفسیر کبیر] میں فرماتے ہیں
ترجمہ : فرمایا امام ابو حنیفہؒ نے کہ پوشیدہ (چھپاکر) آمین کہنا افضل ہے. اور امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اعلانیہ کہنا افضل ہے، اور دلیل قائم کی امام ابو حنیفہؒ نے اپنے قول کے صحیح ہونے پر ، فرمایا : اس قول (یعنی آمین) میں دو وجہیں ہیں : پہلی یہ کہ وہ دعا ہے اور دوسری یہ کہ وہ الله کے ناموں میں سے ہے. پس اگر وہ دعا ہو تو واجب ہے اس کا چھپانا (یعنی پوشیدہ کہنا) الله تعالیٰ کے فرمان (کے سبب) کہ : (تم دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے) [الأعراف : 25] اور اگر وہ (آمین) ہو نام الله تعالیٰ کے ناموں میں سے تو بھی واجب ہے چھپانا (یعنی پوشیدہ کہنا) اس کا الله تعالیٰ کے فرمان کے سبب کہ (ذکر کر اپنے رب کا اپنے دل (جی) میں عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے) [الأعراف : 205] پس ثابت ہوا واجب ہونا اور مندوب (مستحب) سے کم تو پھر بھی نہیں. ہم (شافعیہ) بھی یہ قول (مندوب و مستحب ہونے) کا کہتے ہیں.
الحدیث : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". [مسند أبي داود الطيالسي (سنة الوفاة:204 ھہ) » وَحَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى ...رقم الحديث: 1108(صفحہ:138)]
ترجمہ : حضرت وائلؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جب آپ نے پڑھا "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" (تو) کہا آمین پست (آہستہ) کرتے اپنی آواز کو اور رکھتے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر (اور ختم نماز پر) سلام پھیرا اپنے دائیں طرف اور (پھر) بائیں طرف.
تخريج الحديث:
[حديث السراج برواية الشحامي (سنة الوفاة: 313) » سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ » أَبُو خَالِدٍ ... رقم الحديث: 351] [الحكم: إسناده متصل، رجاله ثقات]
ترجمہ :علقمہ بن وائل اپنے والد (حضرت وائلؓ) سے مروی ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے، جب آپ نے پڑھا "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" (تو) کہا آمین پست (آہستہ) کرتے اپنی آواز کو ... (امام حاکم فرماتے ہیں کہ) یہ حدیث (سند کے اعتبار سے) صحیح ہے جسے شیخین (یعنی امام بخاری و مسلم) نے نہیں لیا.[المستدرك على الصحيحين (سنة الوفاة: 405) » » كِتَابُ التَّفْسِيرِ ، رقم الحديث: 2972(2/278)]
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين ، رقم الحديث: 18460(18362) سنة الوفاة: 241
قراءة النبي للدوري (سنة الوفاة:246) » رقم الحديث: 11
-----------------------
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَاعِدٍ ، ثنا أَبُو الأَشْعَثِ ، ثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , ثنا شُعْبَةُ , عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , عَنْ حُجْرِ أَبِي الْعَنْبَسِ , عَنْعَلْقَمَةَ , ثنا وَائِلٌ , أَوْ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ قَالَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 , قَالَ : " آمِينَ " , وَأَخْفَى بِهَا صَوْتَهُ ... [سنن الدارقطني (سنة الوفاة: 385) » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ التَّأْمِينِ فِي الصَّلاةِ بعد فاتحة الكتاب ...رقم الحديث: 1102(1256)]
ترجمہ: حضرت علقمہ بن وائل نے اپنے والد حضرت وائل بن حجر رضی الله عنه سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ "غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ" پر پہنچے تو آپ نے آمین کہی اور اس میں آواز کا اخفاء (پوشیدہ) کیا(یعنی چھپایا).
[سنن الدارقطني (سنة الوفاة: 385) » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ التَّأْمِينِ فِي الصَّلاةِ بعد فاتحة الكتاب ...رقم الحديث: 1102(1256)]
تخريج الحديث:
جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ ... رقم الحديث: 231
==========================================
عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ ، قَالَ : " سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ فِيهِ : قَالَ سَعِيدٌ : قُلْنَا لِقَتَادَةَ : مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ ؟ قَالَ : إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ : وَإِذَا قَالَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية ٧."
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ، رقم الحديث: 661 (780)]
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ الله سے روایت ہے کہ کہ سمرہ بن جندب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمران بن حصین رضی اللہ عنہ آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے سمرہ نے کہا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سکتے یاد کیے ہیں ایک سکتہ تکبیر تحریمہ کے بعد اور دوسرا سکتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھ چکتے عمران بن حصین نے اسکو نہ مانا انہوں نے (اپنے اختلاف کو) ابی بن کعب کے پاس لکھا حضرت ابی بن کعب نے جواب میں فرمایا کہ سمرہ نے ٹھیک یاد رکھا۔
[سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 776, نماز کا بیان :نماز کے آغاز میں سکتہ کا بیان]
=================================
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ ، قَالَ : " سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، وَقَالَ : حَفِظْنَا سَكْتَةً ، فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ ، فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ ، قَالَ سَعِيدٌ : فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ : مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ ؟ قَالَ : إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ ، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ : وَإِذَا قَرَأَ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 قَالَ : وَكَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ ، قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى : حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ، يَسْتَحِبُّونَ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْقِرَاءَةِ ، وَبِهِ يَقُولُ : أَحْمَدُ وَإِسْحَاق وَأَصْحَابُنَا .
[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ ... رقم الحديث: 233]
ترجمہ: حضرت سمرہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سکتے یاد کئے ہیں اس پر عمران بن حصین نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو ایک ہی سکتہ یاد ہے پھر ہم نے ابی بن کعب کو مدینہ لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سمرہ کو صحیح یاد ہے سعید نے کہا ہم نے قتادہ سے پوچھا کہ دو سکتے کیا ہیں تو آپ نے فرمایا جب نماز شروع کرتے اور جب قرأت سے فارغ ہوتے پھر بعد میں فرمایا جب (وَلَا الضَّالِّينَ) پڑھتے راوی کہتے ہیں انہیں یہ قرأت سے فارغ ہونے کے بعد والا سکتہ بہت پسند آیا تھا یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روایت ہے کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث سمرہ حسن ہے اور یہ کئی اہل علم کا قول ہے کہ نماز شروع کرنے کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہنا اور قرأت سے فارغ ہونے کے تھوڑی دیر سکوت کرنا مستحب ہے یہ احمد اسحاق اور ہمارے اصحاب کا قول ہے.[جامع ترمذی: جلد اول: حدیث نمبر 242(26113) - نماز کا بیان : نماز میں دو مرتبہ خاموشی اختیار کرنا]؛
=========================
اس طریقے سے آمین کے بارے میں دو حدیثیں ہیں کہ آمین اونچی ہونی چاہیے یا آہستہ ہونی چاہیے تو ہمارے امام صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو سامنے رکھا کہ اس میں اتفاق ہے کہ آمین "دعا" ہے اور یہ بات قرآن پاک سے ثابت ہے. سورہ یونس میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے لیے ایک بد دعا فرمائی وہاں "یا موسی" صیغہ واحد سے لفظ شروع ہوتے ہیں اور جب دعا مکمل ہوگئی تو اب اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے دعا کی قبولیت کا حکم نازل ہوا لیکن اس میں تثنیہ کا صیغہ ہے فرمایا: "قد اجبیت دعوتکما" کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی. اب تلاوت کرنے والا سوچتا ہے کہ دعا کرنے والے تو ایک موسی علیہ السلام ہیں واحد کا صیغہ ہے اب یہ قبولیت کے وقت "دو" کا صغیہ کہاں سے آگیا؟ دوسرا کون ہے؟ تو اس بات پر سب مفسرین کا اتفاق و اجماع ہے کہ وہ دوسرے حضرت ہارون علیہ السلام تھے۔
اور پھر یہ سوال ہوتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کی دعا کیا تھی اور کہاں ہے؟ تو سب کا اتفاق ہے کہ انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعا پر آمین کہ دی تھی تو اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول ہوگئی ۔
---------------
آمین دعا/ذکر ہے :
اس سے ثابت ہوا کہ آمین دعا ہے اور صحیح بخاری شر یف میں بھی ہے کہ "قال عطاء آ مین دعا" عطاء نے کہا کہ آمین دعا ہے[صحیح بخاري: ۱/۱۰۷، کتاب الأذان، باب جہر الإمام بالتأمین]. اس کا معنی ہے کہ اے اللہ قبو ل فرما! یہ بھی دعا ہی کا معنی ہے، اب دعا کے بارے میں قرآن پاک کا فیصلہ یہ ہے کہ "ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً " {7:55} کہ تم دعا کرو اللہ سے عاجزی سے گڑگڑا کر اور خفیہ (دبی) آواز سے" بلکہ پہلے انبیاء کا طریقہ یہی بیا ن کیا کہ "ذکر رحمة ربک عبدہ زکریا اذ ناءدی ربہ ندا خفیا" کہ اللہ کے بندے زکریا کا یہاں ذکر کرو انہوں نے اللہ تعالی سے خفیہ (دبی) آواز میں دعا مانگی ۔
تو جب آمین دعا ہے اور دعا میں اصل اخفاء ہے اس سے ان احادیث کو ترجیح دی جا ئے گی جن میں آمیں آہستہ کہنا ثابت ہوتا ہے کیو نکہ وہ قرآن پا ک کے موافق ہیں اور یہ جو میں نے عرض کیا کہ اصل اخفا ہے اس کا مطلب ہے کہ کبھی کبھی عارضہ کی وجہ سے اصل کی مخالفت کی جاسکتی ہے تو جہاں آمین اونچی کہنے کی روایت تھی تو وہ اصل سے متعلق نہیں بلکہ تعلیم وغیرہ سے متعلق ہے کی نکہ رسول اقدس صلی اللہ علیہِ وسَلم کے زمانہ میں نہ تو پریس تھا کہ چھپی ہوئی نماز سب کو مل جائے اور ترتیب سے لکھی ہوئی سب کو مل جائے اس لئے آپ صلی اللہ علیہِ وسَلم اسی طریقہ سے نماز سکھاتے تھے تو جس طرح ہمارے ہاں مدارس میں بچوں کو نماز سکھائی جاتی ہے کہ ایک بچہ پوری نماز اونچی اونچی پڑھتا ہے اور پچھلے بھی اونچی اونچی پڑھتے ہیں ۔
اسی طرح لئے رسول اقدس صلی اللہ علیہِ وسَلم نماز سکھانے کے لئے بعض چیزیں اونچی بھی بیان کر دیتے تھے کہ جو اصل میں آہسة پڑھنے والی تھیں ۔
علامہ عینی عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں کہ آمین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ دو ہی قول ہیں ایک تو یہ ہے کہ یہ "دعا" ہے اور دعا کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے "ادعوا ربکم تضرعا و خفیة" کہ تم دعا کرو اللہ سے عاجزی سے گڑگڑاکر اور خفیہ آہستہ آ واز سے, اور بعض کا ایک قول یہ ہے کہ یہ "اللہ پاک کے ناموں میں سے ایک نام ہے" تو پھر بھی حکم یہی ہے کہ "واذکر ربک فی نفسک" کہ اپنے رب کا ذکر اپنے دل اور جی میں کرنا چاہئے, تو اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی طرف سے کوئی قاعدہ نہیں گھڑا بلکہ جو کچھ رسول اقدس صلی اللہ علیہِ وسَلم نے قاعدہ بتایا تھا کہ جب احادیث میں اختلاف نظر آئے تو اس حدیث کو اختیار کرو جو کتاب اللہ کے موافق ہو ۔
==========================================
عبداللہ بن مبارک کا قول:
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں جس مسئلہ میں دو امام تحقیق کرلیں پھر اس پر اتفاق کر لیں پھر اگر پوری دنیا اس میں اختلاف کر لے لےکن میں اس کو نہیں چھوڑتا. پوچھا کون سے? فرمایا: امام سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ, کیونکہ سفیان ثوری حدیث زیادہ یاد کر تے تھے اور امام ابوحنیفہ مسائل زیادہ نکالتے تھے حدیث سے ۔
آج غیر مقلدین نے جن مسائل میں بڑے فتنے ڈال رکھے ہیں (مثلاً)آمین آہسة کہتے ہیں سفیان ثوری امام ابو حنیفہ اکٹھے ہیں اور امام محمدؒ امام ابو یو سفؒ اکٹھے ہیں ترک رفع یدین میں سفیان ثوری امام صاحب کے ساتھ ہیں دوسرے دوامام بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں تو امام صاحب نے جب یہ بیٹھ کر تحقیق کہ اس حدث کا مطلب کیا ہے تو اکیلے بیٹھ کر نہیں کی امام شافعی نے اکیلے بیٹھ کر تحقیق کی اور یہ امام شافعی کی شخصی تحقیق ہے امام مالک کی تحقیق شخصی ہے امام احمد بن حنبل کی شخصی تحقیق ہے لیکن امام اعظمؒ کی شخصی تحقیق نہیں ہے بلکہ جماعت بنائی اور اس نے تحقیق کی ۔
جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ, رقم الحديث: 231(248)
العلل الكبير للترمذي » أَبْوَابُ الصَّلاةِرقم الحديث: 56(98)
====================================
"آمین سے مسجد گونج اٹھی" والی روایت کی تحقیق:
1. اس روایت (ابن_ماجہ: ص# ٦١) کی سند کا راوی "بشر بن رافع" ہے، امام ذہبی رح نے میزان الاعتدال:١/١٤٧ پر امام بخاری، امام احمد، امام ابن_معین اور امام نسائی (رحمہم الله) سے اس کا ضعیف ہونا نقل کر کے پھر ابن_حبان سے تو یہ نقل کیا ہے کہ "یروی اشیاء موضوعہ" یعنی وہ بلکل جھوٹی حدیثیں روایت کیا کرتا تھا. اور علامہ ابن_عبد البر نے "کتاب الانصاف" میں لکھا ہے کہ محدثین کا اتیفاق ہے کہ اس کی روایت کا شدت سے انکار کیا جاۓ اور اٹھا کر پھینک دیا جاۓ.
2. یہی روایت ابو-داود:١/٩٤، مسند ابو يعلى (آثار السنن: ١/٩٤) پر بھی موجود ہے، مگر وہاں گونج پیدا ہونے والا جملہ نہیں.
اختلافی روایت_وائل بن حجر (رضی الله عنہ) کا فیصلہ ان ہی سے:
١. فرمایا: "آمین ثلاث مرات" یعنی آپ نے ساری عمر میں صرف تین دفعہ آمین سنی
[ المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الْوَاوِ » وَائِلُ بْنُ حَجَرٍ الْحَضْرَمِيُّ القيل، رقم الحديث: 17543 ، مجمع الزوائد:١/١٨٧]
٢. "ما أراه إلا ليعلما" يعنى یہ (بلند آواز میں آمین) ہماری تعلیم کے لئے کہی تھی.
[مجمع الزوائد:٧/١٦١،
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++++
سُلَيْمَانُ بْنُ شُعَيْبٍ الْكَيْسَانِيُّ ، قَالَ : ثنا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ ، قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : كَانَ عُمَرُ وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَا يَجْهَرَانِ ( بِبَسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ) وَلَا بِالتَّعَوُّذِ ، وَلَا بِالتَّأْمِينِ . [شَرْح مَعَانِي الْآثَار - كِتَابُ الصَّلَاةِ - قراءة بسم الله الرحمن الرحيم في الصلاة ، 1/205]؛
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی الله عنه سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علي رضی الله عنہ وہ دونوں نہ بَسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ بلند آواز میں پڑھا کرتے تھے، اور نہ تعوذ اور نہ ہی آمین.
عن ابن مسعود قال : يخفي الإمام ثلاثا : التعوذ ، وبسم الله الرحمن الرحيم ، وآمين.[المحلي بالاثار، لامام ابن حزم : كتاب الصلاة ، أوقات الصلاة ، مسالة الركوع في الصلاة ولطمانية فيه : 2//280(295)]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود نے فرمایا : امام پوشیدہ رکھے تین باتیں : تعوذ (یعنی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) کو ، اور بسم الله الرحمٰن الرحیم کو ، اور آمین کو.
library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=17&ID=374
مسألة: الجزء الثاني التحليل الموضوعي
369 - مسألة : والركوع في الصلاة فرض ، والطمأنينة في الركوع حتى تعتدل جميع أعضائه ويضع فيه يديه على ركبتيه - : فرض ، لا صلاة لمن ترك شيئا من ذلك عامدا . ومن ترك ذلك ناسيا ألغاه وأتم صلاته كما أمر ، ثم سجد للسهو ، فإن عجز عن الطمأنينة والاعتدال لعذر بصلبه أجزأه ما قدر عليه من ذلك ، وسقط عنه ما عجز عنه والتكبير للركوع فرض ، وقوله " سبحان ربي العظيم " في الركوع فرض والقيام إثر الركوع فرض لمن قدر عليه حتى يعتدل قائما وقول " سمع الله لمن حمده " عند القيام من الركوع فرض على كل مصل ، من إمام أو منفرد أو مأموم لا تجزئ الصلاة إلا به ، فإن كان مأموما ففرض عليه أن يقول بعد ذلك " ربنا لك الحمد " أو " ولك الحمد " وليس هذا فرضا على إمام ولا فذ . وإن قالاه كان حسنا وسنة وقول المأموم " آمين " إذا قال الإمام { ولا الضالين } فرض ; وإن قاله الإمام فهو حسن وسنة ، ولا يحل للمأموم أن يركع ، ولا أن يرفع ، ولا أن يسجد مع إمامه ولا قبله ; لكن بعده ولا بد ، ومن قرأ القرآن في ركوعه أو سجوده بطلت صلاته إن تعمد ذلك ; فإن نسي ألغى تلك المدة من سجوده ثم سجد للسهو ، وسجدتان إثر القيام المذكور فرض ; والطمأنينة فيهما فرض ; والتكبير لكل سجدة منهما فرض وقول " سبحان ربي الأعلى " في كل سجدة فرض ، ووضع الجبهة والأنف واليدين والركبتين وصدور القدمين على ما هو قائم عليه - مما أبيح له التصرف عليه - : فرض كل ذلك والجلوس بين السجدتين فرض ; والطمأنينة فيه فرض ; والتكبير له فرض لا [ ص: 287 ] تجزئ صلاة لأحد بأن يدع من هذا كله عامدا شيئا ; فإن لم يأت به ناسيا ألغى ذلك وأتى به كما أمر ، ثم سجد للسهو ; فإن عجز عن شيء منه لجهل أو عذر مانع سقط عنه وتمت صلاته ، ولا يجزئ السجود على الجبهة ، والأنف : إلا مكشوفين ; ويجزئ في سائر الأعضاء مغطاة ، ويفعل في كل ركعة من صلاته ما ذكرنا برهان ذلك - : ما حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن خالد ثنا إبراهيم بن أحمد البلخي ثنا الفربري ثنا البخاري ثنا مسدد ثنا يحيى بن سعيد ثنا عبيد الله بن عمر حدثني سعيد المقبري عن أبيه عن أبي هريرة { أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل المسجد فدخل رجل فصلى ; ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فرد عليه ، وقال له : ارجع فصل فإنك لم تصل فرجع فصلى ، ثم جاء فسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال : ارجع فصل فإنك لم تصل ثلاثا ; فقال : والذي بعثك بالحق ما أحسن غيره فعلمني ، فقال : إذا قمت إلى الصلاة فكبر ، ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن ، ثم اركع حتى تطمئن راكعا ، ثم ارفع حتى تعتدل قائما ، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ، ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ، ثم افعل ذلك في صلاتك كلها } . حدثنا عبد الله بن ربيع ثنا عبد الله بن محمد بن عثمان ثنا أحمد بن خالد ثنا علي بن عبد العزيز ثنا الحجاج بن المنهال ثنا همام بن يحيى ثنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة حدثني علي بن يحيى بن خلاد عن أبيه عن عمه رفاعة بن رافع { كنت جالسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل فدخل المسجد فصلى ، فلما قضى صلاته جاء فسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم : وعليك ارجع فصل فإنك لم تصل ، فرجع فلما قضى صلاته جاء فسلم ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليك ارجع فصل فإنك لم تصل ، فذكر ذلك مرتين أو ثلاثا ، فقال الرجل : لا أدري ما عبت علي ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : إنه لا تتم صلاة أحدكم [ ص: 288 ] حتى يسبغ الوضوء كما أمره الله ، ويغسل وجهه ويديه إلى المرفقين ، ويمسح برأسه ورجليه إلى الكعبين ، ثم يكبر الله ويحمده ويمجده ، ويقرأ من القرآن ما أذن الله له فيه وتيسر ، ثم يكبر فيركع فيضع كفيه على ركبتيه حتى تطمئن مفاصله وتسترخي ، ثم يقول : سمع الله لمن حمده ، ويستوي قائما حتى يأخذ كل عضو مأخذه ، ويقيم صلبه ، ثم يكبر فيسجد ويمكن جبهته من الأرض حتى تطمئن مفاصله وتسترخي ، ثم يكبر فيرفع رأسه ويستوي قاعدا على مقعدته ويقيم صلبه . فوصف الصلاة هكذا حتى فرغ . ثم قال : لا تتم صلاة أحدكم حتى يفعل ذلك } .
قال علي : التحميد المذكور والتمجيد المذكور هو قراءة أم القرآن . برهان ذلك - : قول رسول الله صلى الله عليه وسلم { إذا قال العبد في صلاته : { الحمد لله رب العالمين } يقول الله : حمدني عبدي ، وإذا قال : { مالك يوم الدين } قال الله : مجدني عبدي }
حدثنا عبد الله بن ربيع ثنا محمد بن إسحاق ثنا ابن الأعرابي ثنا أبو داود ثنا حفص بن عمر ثنا شعبة عن سليمان هو الأعمش - عن عمارة بن عمير عن أبي معمر عن أبي مسعود البدري قال : قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم : { لا تجزئ صلاة الرجل حتى يقيم ظهره في الركوع والسجود } . قال أبو حنيفة : تجزئ وإن لم يقم ظهره في ركوعه وسجوده . حدثنا عبد الله بن ربيع ثنا محمد بن معاوية ثنا أحمد بن شعيب ثنا أحمد بن عمرو بن السرح ويونس بن عبد الأعلى والحارث بن مسكين - قراءة عليه واللفظ له - كلهم عن ابن وهب عن ابن جريج عن عبد الله بن طاوس عن أبيه عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال - : { أمرت أن أسجد على سبع ولا أكفت الشعر ولا الثياب : الجبهة ، والأنف ، واليدين ، والركبتين والقدمين } . قال أبو حنيفة : إن وضع جبهته في السجود ولم يضع أنفه ولا يديه ولا ركبتيه أجزأه [ ص: 289 ] ذلك ، وكذلك يجزئه أن يضع في السجود أنفه ولا يضع جبهته ولا يديه ولا ركبتيه . حدثنا عبد الله بن ربيع ثنا محمد بن إسحاق ثنا ابن الأعرابي ثنا أبو داود ثنا أحمد بن حنبل ثنا يحيى بن سعيد القطان ثنا هشام هو الدستوائي - عن قتادة عن يونس بن جبير عن حطان بن عبد الله الرقاشي قال لنا أبو موسى الأشعري : { إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فبين لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا فقال : إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ، ثم ليؤمكم أحدكم ، فإذا كبر فكبروا وإذا قال : { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } فقولوا : آمين ، يحبكم الله وإذا كبر وركع فكبروا واركعوا ، فإن الإمام يركع قبلكم ويرفع قبلكم ، فتلك بتلك ، وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا ربنا لك الحمد يسمع الله لكم فإن الله قال على لسان نبيه سمع الله لمن حمده فإذا كبر وسجد فكبروا واسجدوا ، فإن الإمام يسجد قبلكم ويرفع قبلكم ; فتلك بتلك } وذكر باقي الحديث . قال علي : من العظائم التي نعوذ بالله عز وجل منها أن يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تتم صلاة أحدكم حتى يفعل كذا أو كذا ، وافعلوا كذا وكذا ، فيقول قائل بعد أن سمع هذه الأخبار : إن الصلاة تتم دون ذلك ، مقلدا لمن أخطأ ممن لم يبلغه الخبر ، أو بلغه فتأول غير قاصد لخلاف رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذلك من الباطل والتلعب بالسنن أن ينص رسول الله صلى الله عليه وسلم على أمور ذكر أن الصلاة لا تتم إلا بها - : فيقول قائل من عند نفسه ; بعض هذه الأمور هو كذلك ، وبعضها ليس كذلك ، فإن أقدم كاذب على دعوى الإجماع في شيء من ذلك فقد كذب على جميع الأمة . وادعى ما لا علم له به . ولا يحل لمسلم خلاف اليقين الصادق من أمر الله تعالى على لسان رسوله صلى الله عليه وسلم - " لظن كاذب افترى فيه الذي ظنه على الأمة كلها ; إذ نسب إليها مخالفة أمر الله تعالى " . والعجب من قولهم : لا يجزئ تكبير المأموم إلا بعد تكبير الإمام ولا يجزئ سلامه إلا بعد سلام الإمام - : أما ركوعه ورفعه وسجوده فمع الإمام ، وهذا تحكم عجيب ، وكل ما موهوا به ههنا فهو لازم لهم في التكبير والتسليم . [ ص: 290 ] فإن قال قائل : قد قال عليه الصلاة والسلام { وإذا قال : سمع الله لمن حمده فقولوا : ربنا ولك الحمد } قلنا : نعم ، وليس في هذا الخبر منع من قول الإمام : ربنا ولك الحمد ولا منع المأموم من قول : سمع الله لمن حمده . وإيجاب هذا مذكور في الخبر الذي أوردناه . ولا سبيل إلى أن توجد جميع الشرائع في خبر واحد ، ولا في آية واحدة ، ولا في سورة واحدة . حدثنا هشام بن سعيد الخير كتابا إلي قال : ثنا عبد الجبار بن أحمد المغربي الطرسوسي ثنا الحسن بن الحسين النجيرمي ثنا جعفر بن محمد بن الحسن بن سعيد الأصبهاني بسيراف ثنا أبو بشر يونس بن حبيب الزبيري ثنا أبو داود الطيالسي ثنا عبد الله بن المبارك عن موسى بن أيوب الغافقي عن عمه إياس بن عامر عن عقبة بن عامر الجهني قال : { لما نزلت { فسبح باسم ربك العظيم } قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اجعلوها في الركوع فلما نزلت : { سبح اسم ربك الأعلى } . قال النبي صلى الله عليه وسلم : اجعلوها في سجودكم } . قال علي : وبإيجاب فرض هذا يقول أحمد بن حنبل ، وأبو سليمان وغيرهما . فإن قيل : قد جاء أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في سجوده { سبوح قدوس رب الملائكة والروح } وأنه قال عليه السلام ما حدثناه عبد الله بن ربيع ثنا محمد بن إسحاق ثنا ابن الأعرابي ثنا أبو داود ثنا مسدد ثنا سفيان عن سليمان بن سحيم عن إبراهيم بن عبد الله بن معبد بن العباس عن أبيه عن عمه عن عبد الله بن عباس { أن النبي صلى الله عليه وسلم كشف الستارة عن وجهه ، والناس صفوف خلف أبي بكر ، فقال : يا أيها الناس ، إنه لم يبق من مبشرات النبوة إلا الرؤيا الصالحة يراها المسلم أو ترى له وإني نهيت أن أقرأ راكعا أو ساجدا ، فأما الركوع فعظموا فيه الرب ، وأما السجود فاجتهدوا فيه الدعاء فقمن أن يستجاب لكم . } " قلنا : نعم ، وليس في هذا كله سقوط ما أوجبه عليه السلام في حديث عقبة بن عامر ; بل قوله عليه السلام : " فعظموا الرب " موافق لقوله " سبحان ربي العظيم " . [ ص: 291 ] وأما اجتهاد الدعاء في السجود وقول { سبوح قدوس رب الملائكة والروح } فزيادة خير ، وحسنة لمن فعلها مع الذي أمر به من التسبيح وفرق مالك بين من أسقط تكبيرتين وبين من أسقط ثلاث تكبيرات . وهذا قول بلا دليل أصلا . وقد ذكرنا بطلان قول من فرق بين العمل القليل والكثير في الصلاة برأيه وبينا أنه قول فاسد ، لأنه لا كثير إلا وهو قليل بالإضافة إلى ما هو أكثر منه ، ولا قليل إلا وهو كثير بالإضافة إلى ما هو أقل منه ، وإن العمل الواجب فترك قليله وترك كثيره سواء في مخالفة أمر الله عز وجل ، وإن العمل المحرم فكثيره وقليله سواء في ارتكاب المحرم ، وإن المباح قليله وكثيره مباح وما عدا هذا فباطل لا خفاء به ; إلا أن يأتي نص بالفرق بين المقادير في الأعمال فيوقف عنده . حدثنا عبد الله بن ربيع ثنا محمد بن معاوية ثنا أحمد بن شعيب أنا سويد بن نصر أنا عبد الله بن المبارك عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه { أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه حذو منكبيه ، وإذا كبر للركوع وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما أيضا كذلك وقال : سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد } . وروينا أيضا من طريق يحيى بن سعيد القطان عن مالك بإسناده نحوه ومن طريق عبد الله بن أبي أوفى وأبي سعيد الخدري أيضا مسندا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن خالد ثنا إبراهيم بن أحمد ثنا الفربري ثنا البخاري ثنا أبو اليمان أنا شعيب هو ابن أبي حمزة - عن الزهري أخبرني أبو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، وأبو سلمة بن عبد الرحمن " أن أبا هريرة كان يكبر في كل صلاة من المكتوبة وغيرها ، في رمضان وغيره ، فيكبر حين يقوم ، ثم يكبر حين يركع ، ثم يقول : " سمع الله لمن حمده ، ثم يقول : ربنا ولك الحمد ، - وذكر الحديث وفيه - : ثم يقول أبو هريرة " والذي نفسي بيده ، إني لأقربكم شبها بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كانت هذه لصلاته حتى فارق الدنيا " . [ ص: 292 ] فهذا آخر عمل رسول الله صلى الله عليه وسلم تركه المالكيون برأي لا بخبر أصلا ، وما لهم متعلق إلا قوله عليه السلام { وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، فقولوا : ربنا ولك الحمد } . قال علي : وهذا لا حجة لهم فيه ; لأنه عليه السلام لم يمنع الإمام في هذا الخبر من أن يقول : ربنا ولك الحمد ولا منع المأموم من أن يقول : سمع الله لمن حمده ، فلا حجة في هذا الخبر في قولهما لذلك ، ولا في تركهما لقول ذلك ، فوجب طلب حكم ذلك من أحاديث أخر . وقد صح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول وهو إمام : ربنا ولك الحمد ، وأنه عمله إلى أن مات ; فبطل قول كل من خالف ذلك ; وهو أيضا عمل السلف . حدثنا حمام ثنا ابن مفرج ثنا ابن الأعرابي ثنا الدبري ثنا عبد الرزاق عن ابن جريج أخبرني نافع : أن عبد الله بن عمر كان إذا كان إماما قال : سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد كثيرا ، ثم يسجد لا يخطئه . وبه إلى ابن جريج عن إسماعيل بن أمية عن سعيد بن أبي سعيد المقبري . أنه سمع أبا هريرة وهو إمام للناس في الصلاة يقول : سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد كثيرا ، يرفع بذلك صوته ونتابعه معا . وروينا أيضا عن علي بن أبي طالب ، وابن مسعود نحو ذلك . وبالسند المذكور إلى ابن جريج عن عطاء قال : إن كنت مع الإمام فقال : سمع الله لمن حمده ، فإن قلت : سمع الله لمن حمده ، فحسن ; وإن لم تقلها فقد أجزأ عنك ، وإن تجمعهما مع الإمام أحب إلي قال علي : وهو قول الشافعي . وأما أبو حنيفة فإنه قال يقول الإمام : ربنا ولك الحمد ، ولا يقول المأموم : سمع الله لمن حمده . قال علي : ففرق بلا دليل ; فإن كان تعلق بقوله عليه السلام { وإذا قال : سمع الله لمن حمده فقولوا : ربنا ولك الحمد } فقد تناقض ; لأنه ليس في هذا الخبر قول الإمام : ربنا ولك الحمد [ ص: 293 ] فإن قال : قد صح أنه عليه السلام كان يقولها وهو إمام ، قلنا : وقد صح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علم الصلاة . وفيها أن يقال : سمع الله لمن حمده ، ولم يخص بذلك مأموما من إمام ، من منفرد . قال علي : وأما قول : آمين فإنه كما ذكرنا يقوله الإمام والمنفرد ندبا وسنة ، ويقولها المأموم فرضا ولا بد حدثنا عبد الله بن يوسف ثنا أحمد بن فتح ثنا عبد الوهاب بن عيسى ثنا أحمد بن محمد ثنا أحمد بن علي ثنا مسلم بن الحجاج أنا يحيى بن يحيى قال : قرأت على مالك عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب ، وأبي سلمة بن عبد الرحمن أنهما أخبراه عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { إذا أمن الإمام فأمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه } . قال ابن شهاب " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : آمين " . حدثنا عبد الله بن ربيع ثنا محمد بن إسحاق ثنا ابن الأعرابي ثنا أبو داود ثنا نصر بن علي هو الجهضمي - ثنا صفوان بن عيسى عن بشر بن رافع عن أبي عبد الله ابن عم أبي هريرة عن أبي هريرة قال { كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا تلا عليهم { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } قال : آمين ، حتى يسمع من يليه من الصف الأول } . حدثنا محمد بن سعيد بن نبات ثنا عبد الله بن نصر ثنا قاسم بن أصبغ ثنا ابن وضاح ثنا موسى بن معاوية ثنا وكيع ثنا سفيان الثوري عن عاصم الأحول عن أبي عثمان النهدي { أن بلالا قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله لا تسبقني بآمين } . وبه إلى وكيع : حدثنا سفيان الثوري عن سلمة بن كهيل عن حجر بن عنبس عن [ ص: 294 ] وائل بن حجر قال { سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ : ولا الضالين فقال آمين يمد بها صوته } . قال علي : فهذه آثار متواترة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بأنه كان يقول : " آمين " وهو إمام في الصلاة ، يسمعها من وراءه ، وهو عمل السلف كما حدثنا حمام ثنا ابن مفرج ثنا ابن الأعرابي ثنا الدبري ثنا عبد الرزاق عن ابن جريج قال : قلت لعطاء : أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن ؟ قال : نعم ، ويؤمن من وراءه ، حتى إن للمسجد للجة . قال عطاء : وكان أبو هريرة يدخل المسجد وقد قام الإمام قبله فيقول ويناديه : لا تسبقني بآمين . قال عطاء : ولقد كنت أسمع الأئمة يقولون هم أنفسهم على إثر أم القرآن " آمين " هم ومن وراءهم حتى إن للمسجد للجة . قال علي : اللجة ، الجلبة ، وبه إلى عبد الرزاق عن معمر عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف عن أبي هريرة : أنه كان مؤذنا للعلاء بن الحضرمي بالبحرين فاشترط عليه أن لا يسبقه بآمين . وروينا عن عبد الرحمن بن أبي ليلى أن عمر بن الخطاب قال : يخفي الإمام أربعا : " التعوذ " " وبسم الله الرحمن الرحيم " " وآمين " " وربنا لك الحمد " . وعن علقمة والأسود كليهما عن ابن مسعود قال : يخفي الإمام ثلاثا : التعوذ ، " وبسم الله الرحمن الرحيم " " وآمين " . وعن عكرمة : لقد أدركت الناس ولهم ضجة بآمين . قال علي : فهذا عمل الصحابة رضي الله عنهم . [ ص: 295 ] فأما أحمد وإسحاق ، وداود وجمهور أصحاب الحديث فيرون الجهر بها للإمام ، والمأموم ، وبه نقول ; لأن الثابت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم : الجهر . وقال سفيان الثوري ، وأبو حنيفة : يقولها الإمام سرا - ذهبوا إلى تقليد عمر بن الخطاب ، وابن مسعود رضي الله عنهما ولا حجة في أحد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم . وذهب مالك إلى أن يقول المأموم " آمين " ولا يقولها الإمام . قال علي : وهذا قول لا يعلم عن أحد من الصحابة رضي الله عنهم قطعا ، نعم ، ولا نعرفه عن أحد من التابعين ، ولا حجة لهم أصلا في المنع من ذلك . إلا أن بعض الممتحنين بتقليده قال : إن سميا مولى أبي بكر ، وسهيل بن أبي صالح رويا كلاهما عن أبي صالح عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال { إذا قال القارئ : { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } فقال من خلفه آمين فوافق قوله قول أهل السماء غفر له ما تقدم من ذنبه } . هذا لفظ سهيل . وأما لفظ سمي فإنه قال { إذا قال الإمام : { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } فقولوا : آمين } . قال : فليس في هذا تأمين الإمام . قال علي : وهذا غاية المقت في الاحتجاج ، إذ ذكروا حديثا ليس فيه شريعة قد ذكرت في حديث آخر ، فراموا إسقاطها بذلك ، ولا شيء في إسقاط جميع شرائع الإسلام أقوى من هذا العمل ; فإنه لم تذكر كل شريعة في كل آية ، ولا في كل حديث ، ثم من العجب احتجاجهم بأبي صالح في أنه لم يرو عن أبي هريرة لفظا رواه سعيد بن المسيب ، وأبو سلمة عن أبي هريرة . ولو انفرد سعيد لكان يعدل جماعة مثل أبي صالح فكيف وليس في رواية أبي صالح : أن لا يقول الإمام " آمين " فبطل تمويههم بهذا الخبر ، وقال بعضهم : إن معنى قوله عليه السلام { إذا أمن الإمام فأمنوا } إنما معناه إذا قال { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } قال علي : فيقال له : كذبت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقلت عليه الباطل الذي لم يقله [ ص: 296 ] عليه السلام عن نفسه ، وأخبرت عن مراده بالإفك ، وحرفت الكلم عن مواضعه بلا برهان ; وما قال قط أحد من أهل اللغة أن قول { غير المغضوب عليهم ولا الضالين } يسمى تأمينا فاحتج لقوله الفاسد بطامة أخرى وهي : أنه قال : قد جاء أن معنى قول الله تعالى لموسى وهارون عليهما السلام { قد أجيبت دعوتكما } أنه كان موسى يدعو وهارون يؤمن . قال علي : وهذا أدهى وأمر ليت شعري أين وجد هذه الرواية ، أو من بلغه إلى موسى ، وهارون عليهما السلام وإنما هو قول قائل لا يدرى من أين قاله ، ثم لو صح يقينا لما كان له فيه حجة أصلا ; لأن المؤمن في اللغة داع بلا شك ، لأن معنى " آمين " اللهم افعل ذلك فالتأمين دعاء صحيح بلا شك ، ولا يسمى الداعي مؤمنا أصلا ، ولا يسمى الدعاء تأمينا حتى يلفظ بآمين : فكل تأمين دعاء ، وليس كل دعاء تأمينا . فكيف وقد صح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يقول : آمين ، وهو الإمام ، وهذا مما انفردوا به عن الصحابة رضي الله عنهم وجمهور السلف برأيهم بلا برهان أصلا - وبالله تعالى التوفيق .
حضرت حماد حضرت ابراہیم نخعي سے مروی ہیں کہ انہوں نے فرمایا : (نماز میں) چار باتیں آھستہ کرنی ہیں امام کو؛ (١) سبحانك اللهم وبحمدك، اور (٢) پناہ پکڑنا (یعنی أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ)، اور (٣) آمین ، اور (٤) جب کہے : سمع الله لمن حمدہ، تو (آھستہ) کہے: ربنا لک الحمد.[مصنف عبد الرزاق:٢/٨٧ ، ٢٥٩٦]
[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ مَا يُخْفِي الْإِمَامُ، رقم الحديث: 2509]
دوسری روایت میں حضرت منصور حضرت ابراہیم نخعي سے مروی ہیں کہ انہوں نے فرمایا : (نماز میں) پانچ باتیں آھستہ کرنی ہیں؛ (١) سبحانك اللهم وبحمدك، اور (٢) پناہ پکڑنا (یعنی أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ)، اور (٣) بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ، اور (٤) آمین ، اور (٥) اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.[مصنف عبد الرزاق:٢/٨٧ ، ٢٥٩٧]
[مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ مَا يُخْفِي الْإِمَامُ، رقم الحديث: 2510]