Post by Mohammed IbRaHim on Feb 5, 2014 22:19:23 GMT 5.5
خوف کیا ہے ؟
خوف کیا ہے؟ :۔
حضرت محبوب سبحانی، قطب ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’اس کی بہت سی قسمیں ہیں (۱) خوف … یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے(۲)رہبہ … یہ عابدین کو ہوتا ہے (۳)خشیت …یہ علماء کو ہوتی ہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا: ’’گنہگار کا خوف عذاب سے، عابد کا خوف عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک خفی سے ہوتا ہے ۔‘‘
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیوں کہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پاجاتے ہیں۔‘‘(المرجع السابق)
وجد کیا ہے ؟
وجد کیا ہے؟ :۔
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالیٰ کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے ۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۶)
وفا کیا ہے ؟
وفا کیا ہے؟ :۔
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں اِن کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اُس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته مما يدل علي قدم راسخ، ص۲۳۵)
صبر کی حقیقت
صبر کی حقیقت :۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اُس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۴)
صدق کیا ہے ؟
صدق کیا ہے؟ :۔
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ
(۱)…اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو۔
(۲)…اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجالائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہاہے اور خود کو بھول جائے ۔
(۳)…احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعتِ انسانی ہمیشہ حالت ِحق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کاخوف ہویادوست کا ناحق مطالبہ ہو۔‘‘(المرجع السابق، ص۲۳۵)
شکر کیا ہے ؟
شکر کیا ہے؟ :۔
سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اوراسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۴)
دنیا کو دل سے نکال دو
دُنیا کو دل سے نکال دو :۔
حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ’’دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرریعنی نقصان نہیں پہنچائے گی۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ، ص۲۳۳)
توکل اور اخلاص
توکل اور اخلاص :۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی حضورغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ ’’ توکل کیا ہے؟‘‘ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:’’توکل کی حقیقت اخلاص کی حقیقت کی طرح ہے اور اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمل، عوض یعنی بدلہ حاصل کرنے کے لئے نہ کرے اور ایسا ہی توکل ہے کہ اپنی ہمت کوجمع کرکے سکون سے اپنے رب عزوجل کی طرف نکل جائے۔‘‘(المرجع السابق، ص۲۳۳)
توکل کی حقیقت
توَکُّل کی حقیقت :۔
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے توَکُّل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا کہ ’’توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور’’مذہب معرفت‘‘ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیوں کہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والانقص نہیں نکال سکتا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علي قدم راسخ … ص۲۳۲)
محبت کیا ہے ؟
محبت کیا ہے؟ :۔
ایک دفعہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی سے دریافت کیا گیا کہ ’’محبت کیا ہے؟‘‘ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’محبت، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محوہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا ان ہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے ،وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اُس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکرشي من اجوبته ممايدل علی قدم راسخ، ص۲۲۹)
ایک مومن کو کیسا ہونا چاہیے؟
ایک مومن کو کیسا ہونا چاہیے؟ :۔
حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان عالی شان ہے :’’محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگا دے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹا کر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضلِ عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اِس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کردے گا، عطائے الٰہی عزوجل سے تُو راحت و سکون پائے گا اور اگر تُو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اورتجھ سے فضلِ خداوندی رُک جائے گا۔‘‘
تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ جب تک تُو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تَو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی، توحید، قضائے نفس ،محویت ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کرد ے تو تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل،ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کرے گا۔
مزید فرماتے ہیں: تیرا نفس اور اعضاء غیر اللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر، ص۱۰۳)
اللہ عزوجل کی اطاعت کرو
اللہ عزوجل کی اطاعت کرو :۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اُس کا ادب کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے تمام کام صحیح ودرست ہوتے ہیں، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت عطا فرمانے والا ہے، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے کیا کچھ چھپا رکھا ہے، اس لئے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا۔
بندے کا شجرِ ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے، شجرِ ایمانی کی پرورش ضروری ہے، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو، اسے (نیک اعمال کی) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجرِ ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکرِ ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلیٰ مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کر، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹا کر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب العالمین عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو ۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر، ص۴۴)
ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو
ہرحال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو :۔
حضور سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ’’پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اور موجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء وقدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضا مندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالیٰ نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظٖت کی دعا کر، کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے ،محتاجی و فقر فاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے ،یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتر ی کس میں ہے۔یہ بات اللہ تعالیٰ کی تدبیر پر رضا مندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی ۔ (فتوح الغيب مع قلائد الجوهر، المقالة التاسعة والستون، ص۱۱۷)
رضائے الہٰی عزوجل
رضائے الہٰی عزوجل :۔
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالیٰ سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتۂِ تقدیرنے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالیٰ کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہوجاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے۔(فتوح العيوب مع قلائد الجواهر، المقالة الثامنة والستون، ص۱۱۵)
اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اورجگہ ارشاد فرمایا: ’’اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کر دے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے با وجود تُو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے؟‘‘(حوالہ)
اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے۔‘‘(فتوح الغيب، مترجم، ص۸۰)
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ
طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ :۔
حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعتِ مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
وَمَآاٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَانَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا
ترجمہ کنزالایمان:اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(پ۲۸،الحشر:۷)
کیونکہ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تُو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہوجائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کیے جائیں گے اللہ عزوجل تیری حفاظت فرمائے گا، موا فقتِ خداوندی حاصل ہوگی۔
اللہ عزوجل تجھے گناہوں سے محفوظ فرمائے گا اور تجھے اپنے فضل عظیم سے استقامت عطا فرمائے گا، تجھے دین کے تقاضوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریعت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دنیوی نعمتوں سے تَو حضور تاجدارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حدودِ شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ
سرکارِ دوجہان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’خوشبو اور عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘(مشکوٰة المصابيح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحديث۵۲۶۱،ج۲،ص۲۵۸)
لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کو نعمتِ الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اوروہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکامِ شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرتِ انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے۔ (فتوح الغيب، مترجم، ص۷۲)
اللہ عزوجل کے ولی کا مقام
اللہ عزوجل کے ولی کا مقام :۔
شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ارشاد مبارک ہے: ’’جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ، اور دنیا و آخرت کی آرزؤوں سے فنا ہو جاتا ہے تَو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تَو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کردیتا ہے ۔پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبیر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔(فتوح الغيب مع قلائد الجواهر، المقاله السادسة والخمسون، ص۱۰۰)