Post by Mohammed IbRaHim on Feb 6, 2014 11:21:58 GMT 5.5
شجرہء مبارکہ
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرائطِ اربعہ کے جامع پیر کامل وولیِّ کامل تھے آپ کا سلسلہ حضور صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم تک متصل تھا اعلیٰ حضرت کے کمالات ِ ولایت کے بیانات سے پہلے مناسب یہ ہے کہ ہم ان کی اتصال ِسند کو جان لیں۔
اگرچہ کئی (تیرہ)سلاسل بلخصوص’’ سلاسل ِ اربعہ‘‘(قادریہ ۔چشتیہ ۔ نقشبندیہ ۔سہروردیہ) میں خلافت و اجازت حاصل تھی لیکن اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف سلسلہءعالیہ قادریہ کے مشائخ ِکرام کے اسمائے گرامی پیش کئے جاتے ہیں :
سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے مشائخِ عظام:
حضر ت سید المرسلین جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم
حضرت امیر المومینن علی ِ مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
حضرت امام ِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ جیند بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ عبدا لواحد تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ ا بو الفرج طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ ابوالحسن علی ہکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ ابو سعید مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضور سیدنا غوثِ اعظم شیخ عبدا لقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید عبدا لرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید ابوصالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید محی الدین ابونصر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید احمد الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ بہاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید ابراہیم ایرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید محمدنظام الدین بھکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت شیخ محمد ضیاء الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید شاہ جمال اولیا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید شاہ محمد کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید شاہ احمد کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیدشاہ برکت اللہ مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیدشاہ آلِ محمد مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضر ت سید شاہ حمزہ مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیدنا شاہ آلِ احمد اچھے میاں مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص728)
مرشدِ گرامی
اعلیٰ حضرت مادر زاد ولی تھے ۔آ پ نہ صرف بہت بڑے عالم ،فاضل ،فقیہہ اور محدث، بلکہ اپنے وقت کے کامل صوفی بزرگ بھی تھے آپ کی شانِ ولایت کے بیان سے پہلے اُس سرچشمہء فیض کا ذِکرِ خیر کیا جاتاہے جسکی تابانیوں سے فیض لے کر یہ ماہ ِ کامل پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو ا۔جی ہاں ! یہ ذِکر ِ خیر ہے سید ی اعلیٰ حضرت امام ِ اہلسنت کے پیر و مرشد وشیخ ِ طریقت، حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ۔
اسمِ گرامی :
’’خاتم الاکابر‘‘ حضرتِ سید نا مخدوم سید شاہ آلِ رسول مارِہروی قادری برکاتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت ِ باسعادت:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادتِ باسعادت ماہِ رجب المرجب 1209ھ ’’مارہرہ شریف‘‘ ضلع ’’ایٹہ‘‘ یو پی ہند وستان میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت :
سید شاہ آلِ رسول مارِہروی کی تعلیم و تربیت اپنے والدِ ماجدحضرت سید نا شاہ آلِ برکات’’ستھرے میاں‘‘کی آغوش ِ شفقت میں ہوئی اور انہیں کی نگرانی میں آپ کی نشوو نما ہوئی آ پ نے ابتدائی تعلیم حضرت عین الحق شاہ عبد المجید بدایونی صاحب اورحضرت مولانا شاہ سلامت اللہ کشفی بدایونی سے خانقاہ ِ برکاتیہ میں حاصل کی بعدازاں ’’فرنگی محلّ ‘‘کے علماء مولانا انوار احمد صاحب،مولاناعبدا لواسع صاحب اور مولانا شاہ نور الحق رزاقی صاحب سے کتب ِمعقولات ،علم ِ کلام ،فقہ و اصولِ فقہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی ۔
حضرت مولانا شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی کے درسِ حدیث میں بھی شریک ہوئے ۔ صحاح کا دورہ کرنے کے بعد سلاسلِ حدیث و طریقت کی سندیں مرحمت ہوئیں ۔
بیعت و خلافت :
حضرت کو خلافت و اجازت حضور سیدآلِ احمد’’ اچھے میاں‘‘(اپنے تایا جان )سے تھی ، والد ِماجد نے بھی اجازت مرحمت فرمائی تھی مگر مرید حضرت اچھے میاں کے سلسلے ہی میں فرماتے تھے۔
فضائل :
حضرت شاہ آلِ رسول رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرھویں صدی ہجری کے اکابر اولیا ء اللہ میں سے تھے ۔آپ کی وہ عظیم شخصیت تھی جس کی مساعی و کوشش سے اسلام و مذہب ِاہلسنت وجماعت کو استحکام حاصل ہوا۔ بڑے نڈر، بے باک،شفیق اور مہربان تھے ۔ آپ کی شان بڑی ارفع و اعلیٰ ہے ،اعلیٰ حضرت نے آپ کے فضائل فارسی اشعار میں قلمبندفرمائے ہیں جس کا مطلع اِس طرح ہے :
خوشا!دلے کہ دہند ش ولائے آلِ رسول
خوشا !سرے کہ کنند ش فدائے آلِ رسول
عادات وصفات :
آپ کے عادات و صفات میں بھی شریعت کی پوری جلوہ گری تھی اور شریعت ِمطہرہ کی غایت درجہ پابندی فرماتے ،نماز باجماعت مسجد میں ادا فرماتے اور تہجد کی نماز کبھی قضاء نہ ہونے دیتے ۔نہایت کریم النفس ،عیب پوش اور حاجت براری میں یگانہء عصر تھے۔
محافلِ سماع قطعاً مسدود بلکہ صرف مجالسِ و عظ و نعت و منقبت و ختم قرآن ودلائل الخیرات شریف ،حُضَّارِعرس(حاضرین ِعرس) کی مہمانداری باقی رکھی تھی، فضولیات کی حضور کے دربار میں جگہ نہ تھی ،ظاہر شریعت سے ایک زرہ تجاوزبھی گوارہ نہ فرماتے ۔
جودو سخا:
آپ کے جودوسخا کا عالم یہ تھا کہ لوگ مصنوعی ضروریات بتا کر جب چاہتے روپیہ مانگ کر آپ سے لے جاتے اور چور بھی بعض اوقات مسافروں کی صورت میں آتے اور آ پ کی بارگاہ سے بامراد لوٹتے،آپ کی اہلیہ محترمہ عرض کرتیں کہ:”آپ خود ولی ہیں تو سب کو ولی ہی سمجھتے ہیں کچھ احتیا ط فرمائیں”مگر آپ خود گھر میں جا کر سائل کے لیے ضروری اشیاء لاتے اور دیدیتے جو حاجت مند آتا اس کی حاجت براری کرتے اور اکثر اپنے کپڑے تک اتار کر دیدیتے ۔عاجز ی کی انتہا یہ تھی کہ آ پ خود کبھی امام نہ بنتے بلکہ کسی اور سے ہی نماز پڑھواتے ۔
بیعت و خلافت
1294ھ جمادی الاخریٰ کا واقعہ ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ(کسی خیال سے) روتے روتے سو گئے، خواب میں دیکھا کہ آپ کے جدامجد حضرت مولانا شاہ رضاعلی خان صاحب تشریف لائے، ایک صندوقچی عطا فرمائی اور فرمایا عنقریب وہ شخص آنے والا ہے جو تمہارے درد ِدل کی دوا کرے گا۔
دوسرے ہی روز تاج الفحول محب ِ رسول حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب عثمانی بدایونی علیہ الرحمہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ(بغرضِ بیعت) مارہر ہ مقدسہ لے گئے، مارہرہ مقدسہ کے اسٹیشن ہی پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا! شیخ ِکامل کی خوشبو آرہی ہے ۔ (بعد ازاں ایک سرائے میں ٹھہرے اور نہا دھو کر نئے کپڑے پہننے کے بعد خانقاہِ برکاتیہ میں بیعت کے لئے حاضر ہوئے)۔
ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں:
جب امامُ الاولیاء، سلطان العارفین ،تا جدارِ مارہر ہ حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول صاحب حسینی علیہ الرحمہ کی خدمت ِبابرکت میں پہنچے حضرت نے دیکھتے ہی فرمایا: آئیے! ہم تو کئی روز سے انتظار کر رہے ہیں ۔ پھر بیعت فرمایا اور اُسی وقت تما م سلاسل کی اجازت بھی عطا فرمادی اور خلافت بھی بخش دی نیز جو عطیات سلف سے چلے آرہے تھے وہ بھی سب عطا فرمادیئے اور ایک صندوقچی جو وظیفہ کی صندوقچی کے نام سے منسوب تھی عطا فرمائی۔آپ کو جن سلاسل ِطریقت کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی ان کی تفصیل درجہ ذیل ہے :
(1)قادریہ برکاتیہ جدیدہ (2)قادریہ آبائیہ قدیمہ (3)قادریہ ہدایہ (4)قادریہ رزاقیہ (5)قادریہ منصوریہ (6)چشتیہ نظامیہ قدیمہ (7)چشتیہ محبوبیہ جدیدہ (8)سہروردیہ واحدیہ (9)سہروردیہ فضیلیہ (10)نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ (11)نقشبندیہ علائیہ علویہ (12)بدیعہ (13)علویہ منامیہ
حضور بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟
اتنی عطائیں دیکھ کر تمام مریدین کو جو حاضر تھے تعجب ہوا، جن میں قطب ِدوراں تاج الاولیاء حضرت مولانا شاہ سید ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب علیہ الرحمہ نے( جو حضرت کے پوتے اور جانشین تھے) اپنے جدِا مجد سے عرض کیا حضور! بائیس سال کے اس بچہ پر یہ کر م کیوں ہوا؟ جبکہ حضور کے یہاں کی خلافت و اجازت اتنی عام نہیں، برسوں ،مہینوں آپ چلّے ریاضتیں کراتے ہیں ’’جو‘‘کی روٹی کھلواکر منزلیں طے کراتے ہیں ،پھر اگر اس قابل پاتے ہیں تب بھی ایک یا دو سلسلہ کی اجازت و خلافت عطا فرماتے ہیں (نہ کہ تمام سلاسل کی)۔
میں’’ احمد رضا ‘‘ کو پیش کر دوں گا:
حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ بھی بہت بڑے روشن ضمیر وعارف باللہ تھے، اِسی لئے یہ سب کچھ دریافت کیا تاکہ زمانے کو اس بچے کا مقام ولایت و شانِ مجددیت کا پتہ چل جائے ۔ سیدناشاہ آلِ رسول نے ارشاد فرمایا اے لوگو! احمدرضا کو کیا جانو یہ فرما کر رونے لگے اور ارشاد فرمایا۔میاں صاحب! میں متفکر تھا کہ اگر قیامت کے دن رب العزت جل مجدہ ٗ نے ارشاد فرمایا کہ آلِ رسول !تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں کیا جواب دوں گا ۔الحمد للہ آج وہ فکر دور ہو گئی، مجھ سے رب تعالیٰ جب یہ پوچھے گا کہ آلِ رسول! تو دُنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں مولانا احمد رضا کو پیش کر دوں گا،اور حضرات اپنے قلب زنگ آلود لیکر آتے ہیں، اُن کو تیار ہونا پڑتا ہے ،یہ اپنے قلب کو مجلّیٰ و مصفّیٰ لے کر بالکل تیار آئے، ان کو تو صرف نسبت کی ضرورت تھی ۔
مرشد کی شفقتیں
واللّٰہ! یہ چشم وچراغ ِخاندانِ برکات ہیں:
حضرت مولانا سید شاہ آلِ رسول صاحب حسینی علیہ الرحمہ نے ایک موقع پر حضرت نوری میاں علیہ الرحمہ سے فرمایا میاں صاحب! میری اور میرے مشائخ کی تمام تصانیف مطبوعہ یا غیر مطبوعہ جب تک مولانا احمد رضاکو نہ دکھالی جائیں ،شائع نہ کی جائیں، جس کو یہ بتائیں کہ چھپے، وہی چھاپی جائے جس کو منع کریں وہ ہرگز نہ چھاپی جائے، جو عبارت یہ بڑھا دیں وہ میری اور میرے مشائخ کی جانب سے بڑھی ہوئی سمجھی جائے اور جس عبارت کو کاٹ دیں وہ کٹی ہوئی سمجھی جائے، بارگاہ ِ نبوی صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم سے یہ اختیارات ان کو عطا ہوئے ہیں، حضرت نوری میاں صاحب نے پھر اعلیٰ حضرت کے چہرہء مبارک پر نظر ڈالی تو برجستہ فرمانے لگے’’ واللہ یہ چشم وچراغ ِخاندانِ برکات ہیں‘‘ ۔ (تجلیات ِ امام احمد رضا از قاری محمد امانت رسول مطبوعہ کراچی ص38 )
1294ھ میں اعلیٰ حضرت کی عمر صرف بائیس (22) سا ل تھی ،لیکن اُن کا قلب ِمبارک ایسا روشن ہو چکا تھا کہ اُس بار گاہِ عالی میں ایسی قدر دانی و عزت افزائی ہوئی ، ایک تو فوراً خلافت عطا کی گئی ، دوسرا عظیم امتیازیہ ملاکہ روزِ قیامت’’ احکم الحاکمین ‘‘کی بارگاہ میں اپنی کمائی پیش کرنے کا موقع آیا تو فرمایا: احمد رضا کو پیش کروں گا ۔تیسرا یہ کہ توجہ تشبیہی (اپنے مشابہ کرنے کے لیے روحانی نظر) سے نوازے گئے ۔
(امام احمد رضا اور تصوف از مولانا محمد احمد مصباحی اعظمی مکتبہ کرمانوالہ لاہور ص19)
توجہِ تشبیہی :
جب مرُشدِ گرامی سے توجہ تشبیہی پا کر اعلیٰ حضرت اپنے مرشد گرامی کے ساتھ خانقاہ کے داروازہ ءسنگینی سے برآمدہوئے تو ایسا معلوم ہوتاتھا کہ حضرت سیدناشاہ آل ِ رسول مارہروی عنفوانِ شباب میں رونق افروز ہیں ، فقط داڑھی کی سفیدی اور سیا ہی سے سیدناشاہ آلِ رسول اور مولاناشاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں امتیاز کیا جا سکا ۔
جب ابتداء کا یہ حال ہے ۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد احمد مصباحی صاحب اپنی کتاب ’’امام احمد رضا اور تصوف‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
جب ابتداء کا یہ حال و کمال ہے تو انتہا کا عروج و ارتقاء کیا ہوگا؟ اصل تو مرشدکی عنایت ہے جس کے بغیرہ راہِ سلوک طے نہیں ہوتی اور مرشِدنے اُسی دن بلکہ اُسی وقت توجہِ تشبیہی اور دوسری عنایات سے یہ عیاں کر دیا کہ ہم نے احمدر ضا کو سب معارف و حقائق سپر د کر دیئے، اُسے اپنا نائب و خلیفہ ہی نہیں بلکہ اپنا مظہرِ اتم اور پرتو ِکامل بنا دیا۔
اب وہ اِس کا اہل ہے کہ میرے بیان کردہ اور تحریر فرمودہ حقائق و معارف پر نظر ثانی کرسکے اور اسکی نظر کے بغیر کوئی کتاب شائع نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ شریعت یا اہلِ طریقت، اصحابِ مدارس ہو ں یا اربابِ خانقاہ ، سبھی امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں استفادہ و استصواب کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔
اگر ایک طرف و ہ صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور محد ث اعظم ہند مولانا سید محمد کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذِ جلیل حافظِ صحیح بخاری مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بلند پایہ درس گاہی سوالات کا حل لکھ رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا سید شاہ احمد اشرف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اہم خانقاہی سوالات کے جوابات بھی دے رہے ہیں ۔
’’فتاویٰ رضویہ‘‘ کی جلدوں اورمختلف رسائل کے صفحات پر اس سے زیادہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں جو یہ ثبوت فراہم کرنے کے لیے کافی سے زائد ہیں کہ یہ عبقریء زمانہ ’’شریعت و طریقت‘‘ دونوں کا عالم اور’’ علماء و صوفیاء‘‘ دونوں کا امام ہے۔ (امام احمد رضا اور تصوف از مولانا محمد احمد مصباحی اعظمی مکتبہ کرمانوالہ لاہور ص19)
محبتِ مرشد
سلوک و تصوف او رارادت و طریقت میں ضروری ہے کہ اپنے آقائے نعمت سے بھر پور تعلقِ خاطر ہو، جبھی فیضانِ قلب و نظر سے بہر ور ہواجا سکتاہے ۔ اعلی حضرت اپنے مرشدِ گرامی سے سچی عقیدت رکھتے تھے ، اور کیوں نہ ہو کہ خودہی فرماتے ہیں :
ارادت شرطِ اہم ہے بیعت میں ،بس مرشد کی ذرہ سی توجہ درکا رہے اور دوسری طرف اگر ارادت نہیں تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔
جب تک مرید یہ اِعْتِقَاد(یعنی یقین)نہ رکھے کہ میرا شیخ تمام اَولیائے ِزمانہ سے میرے لیے بہترہے، نَفع نہ پائے گا۔
اپنے تمام حَوَائج (یعنی حاجتوں)میں اپنے شیخ ہی کی طرف رجوع کرے۔
اَصلِ کارحُسْنِ عقیدت ہے یہ نہیں تو کچھ نفع نہیں، اور صر ف حُسْنِ عقیدت ہے تو خیر اِتِّصَال (یعنی قُرب)تو ہے۔
پَرنالہ کی مثل تم کو فیض پہنچے گا۔حُسْنِ عقیدت ہونا چاہیے (ملفوظاتِ اعلی حضرت مکتبہ المدینہ ص401-402-403)
ننگے پاؤں خانقاہ ِ برکاتیہ تک جاتے:
صاحبزادہ سید محمد امین میاں برکاتی نبیرہء خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آلِ رسول برکاتی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضرت اپنے مرشدان ِعظام کا اِس درجہ ادب ملحوظ رکھتے تھے کہ مارہرہ کے اسٹیشن سے خانقاہ ِبرکاتیہ تک برہنہ پا(ننگے پاؤں) پیدل تشریف لاتے تھے اور مارہرہ سے جب کبھی حجام خط یا پیالہ لے کر بریلی جاتا تو ’’حجام شریف‘‘ فرماتے اور اس کے لئے کھانے کا خوان اپنے سرِ اقدس پر رکھ کر لایا کرتے تھے۔ (احترام سادات ِ اور امام احمد رضا صاحب بریلوی از سید صابر حسین بخاری قادری مطبوعہ لاہو ر ص 35)
غوثِ پاک سے محبت
سید ی اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پیر و مُرشِد سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی کے ذریعے محبوبِ سبحانی ،قطبِ ربانی ،حضرت سیدنا شیخ عبدا لقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غلامی و نسبت کا شرف حاصل ہوا۔
آپ کو سرکارِ بغدادِ حضور ِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ِ بابرکات سے بے پناہ عشق او روالہانہ لگاؤ تھا آ پ کی مجلس میں بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ حضو رِ غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا جاتا اور اس غلامی کا اظہار اعلیٰ حضرت اپنے اشعار میں کس والہانہ انداز سے کرتے ہیں:
تجھ سے در،در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا
چوں قلم دردستِ کاتب:
اعلیٰ حضرت کے کمالِ ادب ِ غوثِ اعظم کی ایک جھلک آپ کے چہیتے خلیفہ و شاگرد حضرت ِ محدث اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ( جو کہ غوثِ پاک کی اولاد میں سے تھے اور آپ سے کارِ افتا ء کی تربیت حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تھے )یوں دکھاتے ہیں ۔
دوسرے دن کارِ افتاء پر لگانے سے پہلے خود گیارہ روپے کی شیرینی منگائی ،اپنے پلنگ پر مجھ کو بٹھا کر اور شیرینی رکھ کر فاتحہ ء غوثیہ پڑھ کر دستِ کرم سے شیرینی مجھ کو بھی عطا فرمائی اور حاضرین میں تقسیم کا حکم دیا۔(کیا دیکھتا ہوں ) کہ اچانک اعلیٰ حضرت پلنگ سے اُٹھ پڑے ۔ سب حاضرین بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے کہ شاید کسی حاجت سے اندر تشریف لے جائیں گے ۔لیکن حیرت بالائے حیرت یہ ہوئی کہ اعلیٰ حضرت زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے ۔سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ دیکھا تو یہ دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کی غفلت سے شیرینی کا ایک ذرہ زمین پر گر گیا تھا اور اعلیٰ حضرت اس ذرہ کوزبان کی نوک سے اُٹھا رہے ہیں،اور پھر اپنی نشت گاہ پر بدستور تشریف فرما ہوئے ۔
اس واقعہ کو دیکھ کر سارے حاضرین سرکارِ غوثیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت و محبت میں ڈوب گئے اور فاتحہءغوثیہ کی شیرینی کے ایک ایک ذرے کے تبرک ہو جانے میں کسی دوسری دلیل کی حاجت نہ رہ گئی۔
اور اب میں نے سمجھا کہ بار بار مجھ سے جو فرمایا جاتا کہ میں کچھ نہیں یہ آپ کے جد امجد (حضور ِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کا صدقہ ہے و ہ مجھے خاموش کر دینے کے لیے ہی نہ تھا،اور نہ صرف مجھ کو شرم دلانا ہی تھا بلکہ درحقیقت اعلیٰ حضرت حضور ِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘(جیسے لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم) تھے، جس طرح کہ غوث ِ پا ک سرکا ر ِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ہاتھ میں ’’چوں قلم دردستِ کاتب ‘‘تھے ۔
(فیضانِ اعلٰی حضرت مطبوعہ شبیر برادرز لاہور ص322)
بارگاہ غوثیت میں مقامِ اعلٰی حضرت
میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں:
’’علی پورسیداں‘‘ ضلع سیالکوٹ کے مشہور و معروف بزرگ امیرِ ملت حضرت مولانا الحاج پیر سید جماعت علی شاہ صاحب نقشبند ی مجددی محدث علی پوری علیہ الرحمہ کی ذات ِگرامی محتاج تعارف نہیں۔انہیں کا واقعہ ہے کہ اپنے نانا جا ن’’ قطبِ اقطابِ جہاں‘‘’’شہنشاہِ بغداد‘‘سرکارِغوث ِ اعظم رضی للہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کا شرف حاصل ہو اتو آ پ سے سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :
’’ہندوستان میں میرے نائب مولانا احمد رضا خان ہیں‘‘
چنانچہ امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب اعلیٰ حضر ت کی زیارت کے لیے بریلی تشریف لائے اور اعلیٰ حضرت سے یہ خواب بھی بیان کیا ۔ (تجلیاتِ امام احمد رضا از مولانا امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشرز ص89)
بریلی میں مولانا احمد رضا خان:
شیر ربانی، حضرت پیر روشن ضمیر،میاںشیر محمد صاحب شرقپوری نقشبند ی کوایک مرتبہ شہنشاہِ بغداد، سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواب میں زیارت ہوئی ،میاں صاحب نے دریافت کیا حضور ! اس وقت دُنیامیں آپ کا نائب کون ہے ؟ سرکارِ غوث ِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:
بریلی میں مولانا احمد رضا خان
بیداری کے بعد صبح ہی کو سفر کی تیاری شروع کر دی، مریدوں نے پوچھا حضور کہاں کا ارادہ ہے ؟ فرمایا : بریلی شریف کا قصد ہے ،رات فقیرنے خواب میں سرکارِ غوث ِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیار ت کی اور پوچھا حضور اس وقت دُنیا میں آپ کا نائب کون ہے تو فرمایا کہ ’’احمد رضا ‘‘ لہٰذا ان کی زیارت کرنے جا رہا ہوں ۔
مریدوں نے عرض کیا حضور! ہم کو بھی اجازت ہو تو ہم بھی چلیں اور ان کی زیارت کریں آپ نے اجازت عطا فرمائی ۔شیر ربانی میاں شیر محمد صاحب اپنے مریدین کے ہمراہ شرقپور شریف سے بریلی شریف چل دیئے ۔
یہاں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ آج شیخ ِ پنجاب تشریف لارہے ہیں، اوپر والے کمرے میں ان کے قیام کا انتظام کیا جائے اس کمرے کو صاف کر کے فرش لگایا جائے۔جس وقت شیر پنجاب اعلیٰ حضر ت کے کاشانہء اقدس پر پہنچے تو اعلیٰ حضر ت پھاٹک پر تشریف فرما تھے اور فرما رہے تھے کہ فقیر استقبال کے لیے حاضر ہے۔ مصافحہ ومعانقہ کے بعد پھاٹک والے مکان کے اوپر حضرت کا قیام ہوا، تین روز تک یہیں قیام فرمایا، پھر اجازت چاہی۔
(تجلیات امام احمد رضا از مولانا محمد امانت رسول قادری مطبوعہ برکاتی پبلیشر ز ص97)
قطبُ الارشاد:
خواص ہی نہیں عوام کو بھی بارہا اعلیٰ حضرت کے مقام کے بارے میں سرکارِ غوث پا ک کی طرف سے اشارے ملتے رہے، چنانچہ نامور صاحب ِقلم علامہ ارشدالقادری صاحب ایک واقعہ کی منظر نگاری یوں کرتے ہیں:
’’بریلی کے اسٹیشن پر ایک سرحدی پٹھان کہیں سے اتر ا، متصل ہی نوری مسجد میں اس نے صبح کی نماز ادا کی ، نماز سے فراغت کے بعد جاتے ہوئے نمازیوں کو روک کر اس نے پوچھا ’’یہاں مولانا احمد رضا خان نامی کوئی بزرگ رہتے ہیں ؟‘‘ ان کا پتہ ہو تو بتا دیجئے ۔ ایک شخص نے جواب دیا ۔۔۔ یہاں سے دو تین میل کے فاصلے پر ’’سوداگران ‘‘ نام کا ایک محلہ ہے وہیں اس کے علم و فضل کی راجدھانی ہے ۔ سرحدی پٹھا ن اٹھنا ہی چاہتا تھاکہ اس(نمازی) نے سوال کیا۔ کیا میں یہ معلوم کر سکتا ہوں کہ آپ کہاں سے تشریف لا رہے ہیں؟ جواب دیا سرحد کے قبائلی علاقے سے میرا تعلق ہے ۔ وہیں پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹا ساگاؤں ہے جہاں میرا آبائی مکان ہے ۔
آپ مولانا احمد رضا خان کی تلاش میں کیوں آئے ہیں ؟ اس سوال پر اس کے جذبات کے ہیجان کا عالم قابلِ دید تھا ، فوراً ہی آبدیدہ ہو گیا ۔ ـ’’یہ سوال نہ چھیڑئیے تو بہتر ہے‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا۔اس پر اسرار جواب سے پو چھنے والوں کا اشتیاق اور بڑھ گیا ۔ جب لوگ زیادہ مصر ہوگئے تو اس نے بتایا ۔ ۔۔ میں نے گزشتہ شب ِ جمعہ کو نیم بیداری کی حالت میں ایک خواب دیکھا ہے جس کی لذت میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
اے خوشا نصیب! اولیا ئے مقربین اور ائمہء سادات کی نورانی محفل ہے جہاں بریلی کے ’’احمدرضا‘‘نامی ایک بزرگ کے سر پر امامت کی دستار لپیٹی گئی ہے ۔ اور انہیں ’’قطب الارشاد‘‘ کے منصب پر سرفراز کیا گیا ہے۔ میری نگاہوں میں اب تک وہ منظرمحفوظ ہے ۔ اس دن سے میں اس مردِ مومن کی زیارت کے لئے بے تاب ہو گیاہوں ۔
سرحدی پٹھان نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ حضرات قابلِ رشک ہیں کہ اپنے وقت کے’’ قطب لارشاد ‘‘کے چشمہ ء فیضان کے کنارے شب و روز کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اتناکہہ کر وہ بے تابیء شوق میں اٹھا اور تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے محلہ سوداگران کی طرف چل پڑا ۔
اس ایک واقعہ میں دوسرے بہت سے غیر معمولی پہلوؤں کے سوا ایک تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی برکتوں نے آپ کو مناز لِ ولایت میں ایک اہم منز ل، عظیم منصب ’’قطب الارشاد ‘‘ پر فائز کر دیا تھا ۔ اس شانِ ولایت کی توثیق متعدد واقعات سے ہوتی ہے ۔
فرشتوں کے کاندھوں پر’’ قطب الارشاد ‘‘کا جنازہ :
مخدوم ُ الملت ،محدث اعظم ہند حضرت سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں:
’’میں اپنے مکان پر (کچھوچھہ شریف میں)تھا، اوربریلی کے حالات سے بے خبر تھا ۔ میرے حضور شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں وضو فرمارہے تھے کہ یکبارگی رونے لگے ۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ۔ میں آگے بڑھا تو فرمایا کہ: بیٹا میں فرشتوں کے کاندھوںپر ’’ قطب الارشاد ‘‘ کا جناز ہ دیکھ کر رو پڑا ہوں ، چند گھنٹے کے بعد بریلی کا تار ملا(کہ اعلیٰ حضرت کا وصال ہو گیا ہے ) تو ہمارے گھر میں کہرام پڑ گیا۔ (حضرت بریلوی کی شخصیت از مولانا ڈاکٹر غلام مصطفی مطبوعہ جمعیت اشاعت اہلسنت کراچی ص 17-19)
مقام اعلٰی حضرت اولیاءکرام کی نظر میں
آپ کی اسی شانِ ولایت کا اثر تھا کہ ہندوستان بھر کے جیَّد بزرگانِ دین ،صوفیا ،علماء ، و مجاذیب آپ کی قدرو منزلت کا اظہار برملا کیا کرتے تھے۔آیئے! ان میں سے چند ایک کی جھلکیاںمُلاحظہ کرتے ہیں:
مولانا شاہ فضل رحمن گنج ِ مرادآبادی:
حضرت مولاناشاہ فضل رحمن صاحب گنج ِ مرادآبادی علیہ الرحمہ 1208ھ میں پیداہوئے۔ ’’تذکرہ علمائے ہند ‘‘ میں ہے:
مولاناشاہ فضل رحمن صاحب کے اوصافِ حمید ہ ایسے نہیں کہ زبان ِ بریدہ، قلم ِبے بُنیا د ،کاغذ پر اِن میں سے تھوڑے بھی لکھ سکے اور انسان ضعیف البیان کی کیا مجال ہے کہ ان کا عشرِ عشیر بھی بیان کر سکے ۔ آپ مرید و خلیفہ حضرت ِ شاہ محمد آفاق دہلوی اور شاہ غلام علی دہلوی علیہماالرحمہ کے ہیں۔مخلوق اُ ن کی طرف رجوع کرتی ہے، چھوٹے بڑے ، مالدار و مفلس ،مشہور و غیر مشہور ، دور و نزدیک سے آتے ہیں اور بیعت سے سر فراز ہوتے ہیں ۔ (تذکرہ ء علمائے ہند از مولوی رحمن علی مطبوعہ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی ص 328)
1292ھ کا واقعہ ہے 27رمضا ن المبارک کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ گنج مراد آباد تشریف لے گئے ۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت مولانا شاہ وصی احمد صاحب محدثِ سورتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی تھے۔ (جوکہ حضرت مولانا فضلِ رحمن کے خلیفہ ء مجاز تھے)حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب علیہ الرحمہ نے آپ کی آمد سے مطلع ہو کر اپنے مریدوں سے فرمایا کہ’’ آج ایک شیر حق آرہا ہے ‘‘ پھرقصبہ سے باہر نکل کر آپ کا استقبال کیا۔ خانقاہ ِرحمانیہ میں شاہ صاحب کے مخصوص حجرہ میں اعلیٰ حضرت قیام پذیر ہوئے ۔ عصر کے بعدکی مجلس میں شاہ صاحب نے حاضرین سے یہ فرمایاکہ:
’’مجھے آپ میں نور ہی نور نظرآتا ہے ‘‘
نیز فرمایا:
’’میرا جی چاہتا کہ میں اپنی ٹوپی آپ کو اوڑھا دو ں اور آپ کی ٹوپی خود اوڑھ لوں‘‘۔ یہ فرما کر اپنی ٹوپی اعلیٰ حضرت کو اوڑھائی اورحضرت کی ٹوپی خود اوڑھ لی۔
اعلیٰ حضرت نے واپسی کی اجازت چاہی اور فرمایا کہ والد ِ ماجد سے اتنی ہی اجاز ت لے کر آیا تھا۔ شاہ صاحب نے فرمایا اُن سے میرا سلام کہنااورکہنا کہ دو روزفضل ِرحمن نے روک لیا تھا اور یوں 29رمضا ن کو رخصت فرمایا ۔یہاں پر قابلِ ذکریہ بات ہے کہ اُس وقت اعلیٰ حضرت کی عمر صرف 20سال تھی ، حضرت شاہ صاحب کی عمر تقریباً 84سال تھی، لیکن ایک اللہ کے ولی نے اپنی نگاہِ ولایت سے پہچان لیا کہ اِ س نوجوان کا آفتابِ ولایت ایک وقت میں طلوع ہو کر چمکے گا اور اپنی نورانیت سے عالم کو منور فرمائے گا۔ (تجلیاتِ امام احمدر ضا از مولانا امانت رسول صاحب مطبوعہ کراچی پبلیشرز ص 32)
’’حیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘میں اتنا زائد ہے:بعدِ ملاقات اعلیٰ حضرت نے مجلسِ میلا د شریف کے(جواز کے) متعلق شاہ صاحب سے سُوال کیا فرمایا:تم عالم ہو پہلے تم بتاؤ۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا :میں تو مستحب جانتا ہوں ۔شاہ صاحب نے فرمایا: لوگ اسے بدعتِ حسنہ کہتے ہیں اور میں سنت جانتا ہوں،صحابہءکرام جو جہاد کو جاتے تھے تو کیا کہتے تھے یہی نہ کہ مکے میں ایک نبی پیدا ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن پر قرآن اُتارا،اُنہوں نے یہ ،یہ معجزے دکھائے، اللہ تعالیٰ نے اُن کو یہ، یہ فضائل عطا فرمائے ، بتائیے اور مجلسِ میلاد میں کیا ہوتا ہے ؟یہی تو بیان ہو تا ہے جو صحابہءکرام اُس مجمع میں بیان کیا کرتے تھے۔فرق اتنا ہے کہ تم اپنی مجلس میں لڑوا(لڈو) بانٹتے ہو اور صحابہ ء کرام اپناموڑ( سر) بانٹتے تھے۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص1005)
حاجی وارث علی شاہ( دیوا شریف):
حاجی سید وارث علی شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں ،بڑی ساد ہ زندگی گزاری ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے شہر مدینے شریف پہنچے توجوتی اُتار دی پھر ساری زندگی جوتی کے بغیر ہی گزاردی ۔
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت نے سید صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ فرمایا، آپ کی عمر 25سال تھی، آپ سید صاحب کی زیارت کے لیے ’’دیواشریف‘‘ پہنچے۔ اعلیٰ حضرت اور سید وارث علی شاہ کا اس وقت تک آپس میں کوئی تعارف نہیں تھا ،ملاقات کا یہ پہلا موقعہ تھا ،پیر صاحب رونق افروز تھے ،مریدین آپ کی خدمت میں حاضرتھے۔جب اعلیٰ حضرت پہنچے تو سید صاحب فوراً سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا:’’مولانا اعلیٰ حضرت آگئے ‘‘۔
حضرت سید وارث علی شاہ صاحب کے پاس بڑے بڑے علما ء آتے تھے آپ کسی کو مولانا نہیں کہتے تھے اور نہ ہی اعلیٰ حضرت کہتے تھے۔پہلی مرتبہ آپ نے جس کو مولانا اور اعلیٰ حضرت کہا تو وہ سید ی امام احمد رضا خا ن ہی ہیں۔ (چہر ہ والضحیٰ از مولانا الہٰی بخش قادری مطبوعہ انجمن غلامانِ قطبِ مدینہ لاہور ص 105)
حضرت ِ سیدنا پیر مہر علی شاہ( گولڑہ شریف ):
ماہِ شریعت ،مہرِ طریقت ،حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی تعارف کے محتا ج نہیں۔ آپ یکم رمضا ن المبار ک 1275ھ بروز سوموار گولڑہ شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے عمر بھر شریعت و طریقت کی بے مثال خدمات انجا م دیں ۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرتِ خواجہ شمس الدین سیالوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے ۔فتنہ ء قادیانیت کے خلاف آپ کی خدمات مثالی ہیں ۔ 29صفر 1356ھ بروز منگل آپ کا وصال ہوا ۔گولڑہ شریف میں ہی تدفین ہوئی۔ (تذکرہ اکابرِ اہلسنت از مولانا عبدالحکیم شرف قادری مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور ص536)
آپ اعلیٰ حضرت کے ہمعصر تھے ،آپ نے اعلیٰ حضرت سے جس طرح محبت کا اظہار کیا مفتی محمد غلام سرور قادری صاحب اپنی کتاب ’’الشاہ احمد رضا ‘‘ میں اُس کا بیان یو ں کرتے ہیں :
جامع مسجد ہارون آباد کے امام اور غلہ منڈی ہارون آبا د کی مسجد کے خطیب مولانا مولوی احمد الدین صاحب فاضل مدرسہ انوارالعلوم نے راقم الحروف کو بتایا کہ میں حضرت مولانا مولوی نوراحمد صاحب فریدی کو بار ہایہ فرماتے سُنا کہ: عارفِ باللہ امام اہلسنت حضرت مولانا سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’آپ اعلیٰ حضرت کی زیارت کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت حدیث پڑھا رہے تھے فرماتے ہیں مجھے یوں محسوس ہوتا کہ اعلیٰ حضرت بریلوی حضو رِ پُر نور حضرت ِ محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو دیکھ دیکھ کر آپ کی زیارت شریفہ کے انوار کی روشنی میں حدیث پڑھا رہے ہیں‘‘۔ (الشاہ احمد رضا از غلام سرور قادری مطبوعہ مکتبہ فریدیہ ساہیوال ص103)
مولانا نواب الدین گولڑوی روایت فرماتے ہیں کہ :
استاذُ العلماء حضرت مولانا فیض احمد صاحب مؤلف ’’مہر منیر‘‘ 1963میں قبلہ غلام محی الدین عرف ’’بابو جی ‘‘رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حرمین شریفین حاضر ہوئے تو مدینہ منورہ میں قطب ِمدینہ حضرت مولانا شیخ ضیاء الدین احمد مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں بھی حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا کہ کیا اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات ثابت ہے ۔ تو سید ی قطب مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ:
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اور پیر مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی ملاقات کا ثبوت تو نہیں ملتا(یعنی مجھ تک یہ بات نہیں پہنچی) البتہ حضرت ِاعلیٰ گولڑوی کا ذکر ِخیر اور مرزا قادیانی کے جھوٹے دعویٰ کے خلاف آپ کے مجاہدانہ کارناموں کا تذکرہ اعلیٰ حضرت کی مجالس میں بارہا سنا جاتا رہا ۔
(ملخصاً’’ لمعات قطب مدینہ‘‘ از خلیل احمد رانا مطبوعہ دار الفیض گنج بخش لاہور ص27)
بیعت کرنا کیسے شروع فرمایا
جنابِ سیدایوب علی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ :
پہلے جوبھی مرید ہونے کے لیے بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں عرض کرتا،تو آپ اُسے سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب مارہروی یاحضرت ِمولانا شاہ عبدا لقادر صاحب بدایونی علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔
کچھ دنوں کے بعد عالم ِرؤیا(خواب) میں اپنے شیخِ کامل خاتم الاکابر حضرتِ سیدنا شاہ آلِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ارشاد فرمایا:
’’آپ سلسلے کا دائرہ کیوں تنگ کرتے ہیں مرید کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘
اس حکم کے بعد آپ نے سلسلہء بیعت شروع فرمادیا ۔
عام روش سے ہٹ کر :
مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
اعلیٰ حضرت نے پیری مریدی کے اُن ذرائع کی طرف جو اس زمانہ میں مروج ہیں کبھی اصلاً توجہ نہ فرمائی، نہ کبھی اُن طریقوں سے کام لیا ،نہ کبھی اس کا پروپیگنڈاکیا،نہ ہر شہر میں بھاری ایجنٹ ہی مقرر کئے، مگر پھر بھی جن کی قسمت میں قسامِ ازل نے داخل سلسلہء عالیہ قادریہ رضویہ ہونا تحریر فرمادیا تھا، اطراف و اکنافِ عالم سے آ آ کر داخل سلسلہ ء عالیہ ہوتے رہے ۔
دُنیا بھرمیں سلسلہ کی وسعت:
یہ سلسلہ صرف اپنے صوبہ(U.P) ،مغربی و شمالی ’’آگرہ‘‘اور’’اودھ ‘‘ہی تک محدودنہ رہا بلکہ ہندوستان کے اکیس صوبوں، اسلامی ریاستوں اور ریاست ہائے راجگانِ راجپوتا نہ وغیرہ سے تجاوز کر کے بیرونِ ہند، کابل ، ایران ، ترکی سے بھی بڑھ کر عرب اور شام حتیٰ کہ حرمین شریفین تک وسیع ہو گیاتھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص708)
ایک لاکھ مریدین :
’’حیاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ہی میں ہے کہ :
آ پ کے مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر کے قریب ایک لاکھ کے پہنچ گئی تھی ۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص696)
(اور اب موجودہ دور میں یہی سلسلہ ء قادریہ رضویہ شیخ ِ طریقت بانی ء دعوتِ اسلامی امیرِ اہلسنت ابو بلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار ؔقادری رضوی ضیائی کے ذریعے دُنیا بھر کے بیشتر ممالک میں پھیل چکا ہے اور آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ سبحان اللہ )
خلفائے اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالی عنہ کے خلفاء کی صحیح تعدا د کا تعین تو نہیں کیا جا سکتا لیکن قرین ِ قیاس یہ تعد ا دسو سے اوپر تجاوز کر تی ہے۔ اعلیٰ حضرت کے خلفاء نہ صرف برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ عرب و افریقہ کے بلاد میں بھی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے خلفاء کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
خلفاء و پاک و ہند:
حضرت ِ حجۃُ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان
مفتیء اعظم ہند مولانا محمد مصطفی رضا خان
صدر الشریعہ مولانا محمدامجد علی اعظمی
صدرالافاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی
ملک العلماء مولانا طفرالدین بہاری
سیدا حمد اشرف کچھوچھوی
سید محمد محدث کچھوچھوی
مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مدنی
مولانا شاہ عبدالسلام جبل پوری
قاری بشیر الدین صاحب جبلپوری
مولانا عبدالباقی برھان الحق جبلپوری
مولانا سید سلیمان اشرف بہاری
مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری
ابوالبرکات سید احمد قادری
مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن قادری
فقیہ اعظم مولانا محمد شریف محدث کوٹلوی
مولانا محمد امام الدین کوٹلوی
مولانا شاہ ہدایت رسول قادری
مفتی محمد غلام جان ہزاروی
سید محمد عبدالسلام باندوی
مولانا عبد الاحد صاحب پیلی بھیتی
سلطان الوعظین
مولانا عبدالحق صاحب پیلی بھیتی
مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی
مولانا حبیب الرحمن خان صاحب پیلی بھیتی
مولانا عبدالحئی صاحب پیلی بھیتی
مولانا شاہ محمد حبیب اللہ قادری میرٹھی
مولانا محمد شفیع صاحب بیسلپوری
مولانا محمد عمرالدین ہزاروی
مولانا احمد بخش صادق صاحب
مولانا احمد حسین امروہوی
مولانا رحیم بخش آروی قادری
مولانا رحم الہٰی منگلوری
مولانا عبدالعزیز خاں بجنوری
مولانا عزیز الحسن پھپھوندوی
مولانا محمد حسنین رضا خان
مولانا احمد مختار صدیقی میرٹھی
قاضی عبدالوحید عظیم آبادی
قاضی شمس الدین جونپوری
مولانا سید غلام جان جود ہپوری
مولانا محمد اسمعیل فخری محمود آبادی
حضرت مولانا سید محمد حسین میرٹھی
منشی حاجی محمد لعل خان مدراسی
مولانا مشتاق احمد کانپوری
میر مومن علی جنیدی
مولانا سید نور الحسن نگینوی
مولانا نثار احمد کانپوری
مولانا حافظ یقین الدین بریلوی
حاجی کفایت اللہ صاحب
خلفائے عرب و افریقہ:
سید اسمعیل خلیل مکی
الشیخ احمد الخضراوی المکی
الشیخ اسعد بن احمد الدھان مکی
سید ابو بکر بن سالم البار العلوی
مولانا شیخ بکر رفیع
حضرت شیخ حسن العجیمی
حضرت سید حسین جمال بن عبدالرحیم
سید حسین بن سید عبدالقادرمدنی
مولانا سید عبدالرشید مظفر پوری
سید فتح علی شاہ صاحب
حضرت شیخ عبداللہ بن ابو الخیر میرداد
علامہ سید عبداللہ دحلان مکی
حضرت شیخ عبداللہ فرید بن عبد القادرکردی
شیخ علی بن حسین مکی
سید علوی بن حسن الکاف الحضری
حضرت شیخ عمر بن حمدان المحرسی
حضرت شیخ مامون البری المدنی
مولانا سید محمد ابراھیم مدنی
ابوالحسن بن عبدالرحمن المرزوقی
سید محمد بن عثمان دحلان
حضرت شیخ محمد جمال بن محمد الامیر
محمد سعید بن محمد بالصبیل مفتیء شافعیہ
السید محمد سعید بن السید محمد المغربی
الشیخ محمد صالح کمال مفتیء حنفیہ
محمد عبدالحئی بن سید عبدالکبیر الکتانی
السید محمد عمر بن ابو بکر رشیدی
الشیخ مولانا محمد یوسف
سید مصطفی خلیل مکی آفندی
خدّامِ اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلفاء کے ذکرِ خیر کے بعد مناسب ہے کہ اُن کے خوش نصیب خدام کا ذکر ِ خیر بھی کر دیا جائے جنھوں نے شب و روز آپ کی خدمات سر انجام دیں۔مولانا حسنین رضا خان صاحب ’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
خاص خدام کی اگر فہر ست کھولی جائے تو اِس میں تین نام خاص طور پر سامنے آتے ہیں الحاج کفایت اللہ صاحب ،حاجی نذیر احمد صاحب اورجناب ذکا اللہ خان صاحب ۔۔۔
حاجی کفایت اللہ صاحب:
حاجی کفایت اللہ صاحب رنگ سازی میں قلم کا کام خوب کرتے ،بورڈوغیرہ اچھے تیار کرتے تھے ،جوانی میں بیعت ہوئے ،اُس وقت تک اُنکی شادی نہ ہوئی تھی ،بیعت کے بعد انہوں نے شادی ہی نہ کی اور اپنے مرشد کی خدمت اختیار کر لی۔
بیعت ہونے سے لے کر اعلیٰ حضرت کی وفات تک سایہ کی طرح سفر و حضر میں ہر وقت ساتھ رہے حتیٰ کہ یہ اور حاجی نذیر احمد صاحب دوسرے سفرِ حج میں بھی ساتھ ہی تھے۔حاجی کفایت اللہ صاحب کی خدمات تاحیات مسلسل جاری رہیں ، اس تاحیات سے مراد ا علیٰ حضرت کی حیاتِ ظاہر ی نہیں بلکہ حاجی کفایت اللہ صاحب کی زندگی مراد ہے ، اس لئے کہ وہ اعلیٰ حضرت کی وفات کے بعد بھی اُنہی کے قدموں میں پڑے رہے اور وہیں دم دیا اور اب بھی وہ اعلیٰ حضرت کے بائیں جانب دفن ہیں۔
وہ در حقیقت اولیائے سابقین اور علمائے سلف کے خدام کا صحیح نمونہ تھے، اِس دور میں تو وہ اپنے اس طرزِ معاشرت میں اپنا نمونہ آپ ہی تھے۔ کہیں اورایسے پر خلوص خدام نہ دیکھے گئے، وہ بڑے متقی و پر ہیز گار تھے ۔
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعدبھی ہر وقت مزار شریف پر حاضر رہتے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے بعض نقوش کی انھیں اجازت دیدی تھی وہ لوگوں کو لکھ لکھ کر دیتے رہتے، یوں اُن کی ذات سے بھی خدمت ِخلق کا سلسلہ تاحیات جاری رہا ۔
اس قدر غیور تھے کہ ُانھیں کسی سے کچھ لیتے سنا بھی نہیں،اعلیٰ حضرت کے صاحبزادگان اور اِنکے بعض فدائی ممکن ہے کہ حاجی صاحب کی خفیہ امداد کرتے رہے ہوں۔
میری زندگی کی تمام نیکیاں لے لیں:
اعلیٰ حضرت کا وصال 1340ھ 1921ء میں ہوا اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سردار احمد صاحب پڑھنے کے لئے 1344ھ 1924ء کے لگ بھگ بریلی حاضر ہوئے ۔ اس طرح آپ امام احمد رضا کی زیارت و ملاقات نہ کر سکے ،جس کازندگی بھر احساس رہا ، اس کا اظہار یوں ہوتا کہ بارہا آپ حضرت حاجی کفایت اللہ صاحب سے فرمایا کرتے کہ ’’میری زندگی کی تمام نیکیاں لے لیں اور اعلیٰ حضرت کی ایک زیارت ایسی نیکی کا ثواب مجھے دے دیں‘‘۔ (محدث اعظم پاکستان جلد 1از مولانا جلال الدین قادری مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور ص149)
حاجی نذیر احمد صاحب:
حاجی نذیر احمد صاحب مرحوم چند سال حاجی کفایت اللہ صاحب کے دوش بدوش حاضر خدمت رہے، وہ قوم کے راعین تھے اور شاید زمیندار بھی تھے،انھیں زمیندار ی کے کاموں کی وجہ سے کچھ روز گھر بھی رہنا پڑتا تھا تو اس سنہری موقع کو ذکا ء اللہ خاں صاحب نے ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ان کی غیر حاضری میں خالی جگہ اُنہوں نے پرُ کی۔
جنابِ ذکاء اللہ خان صاحب:
جب حاجی نذیر ا حمد صاحب معذور ہو گئے تو ذکاء اللہ خان صاحب اُن کی جگہ آگئے ۔اُن کی حاضری اور خدمت وقتی تھی،وہ معاش کی ضرورتوں سے جب فرصت پاتے تو آتے۔
حاجی خدا بخش صاحب:
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خدام میں خدابخش مرحوم بھی تھے،ہمارے خاندان اور بعض دیگر اہلِ محلہ میں پانی بھرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت کے گھر کی ملازم عورتیں اور باہر کے ملازم مرد اگر کام کاج کے قابل نہ رہے تو خود گئے یا یہیں مرض الموت میں مبتلا ہوئے اوراگر گھر والے لے گئے تو ان کی وفات پرتنخواہ روزِ رحلت تک کی ادا کی گئی اور جو کچھ امداد ہو سکی وہ کی گئی،کسی خادم کا نکالا جانا مجھے یاد نہیں ہے۔
(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص 132,133)
جنابِ سید ایو ب علی رضو ی صاحب :
’’فدائے رضویت ‘‘ جناب ِمولاناسید ایو ب علی رضو ی صاحب کے ذکرِ خیر کے بغیرخدامِ اعلیٰ حضرت کا ذکرِ خیر مکمل نہیں ہو سکتا۔آپ سیرتِ اعلیٰ حضرت کے حوالے سے بے شمار واقعات کے راوی ہیں۔آئیے !کچھ ان کی شخصیت کے بارے میں بھی جانتے ہیں:
آپ کا سلسلہء نسب کچھ یوں ہے۔۔۔
سید ایو ب علی رضو ی صاحب بن سید شجاعت علی بن سید تراب علی بن سید ببر علی۔۔۔ بریلی شریف میں پیدا ہوئے ،مڈل سکول میں مڈل کرنے کے بعد فارسی کی تعلیم حاصل کی، کچھ عرصہ’’ اسلامیہ سکول‘‘ بریلی میں پڑھاتے رہے، پھر جب اعلیٰ حضرت سے بیعت کا شرف حاصل ہوا تو اپنے آپ کو بارگاہِ رضویت کے لیے وقف کر دیا ۔
لکھائی کا جو کام آپ کے سپر د کیا جاتا اسے حسنِ اہتمام سے انجام دیتے ،رمضان شریف میں سحری اورافطاری کے نقشے مرتب فرماتے،دیگر علوم کے علاوہ ریاضی اور توقیت میں اعلیٰ حضرت سے خوب خوب استفادہ کیا۔
سید صاحب کر بلائے معلیٰ ،بغداد شریف ، نجف اشرف اور بصرہ میں بزرگانِ دین کے مزارت پر حاضری سے بھی مشرف ہوئے ،تین دفعہ حج و زیارت کی سعادت سے بہر ہ ور ہوئے، اڑھائی سال تک مدینہ طیبہ میں قیام پذیر رہے ۔
اعلیٰ حضرت کے وصال کے دو سال بعد بریلی شریف میں ’’رضوی کتب خانہ‘‘ قائم کیا اور اعلیٰ حضرت کے متعدد رسائل شائع کئے۔
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد اُن کی سوانحِ حیات مرتب کرنے کی تحریک آپ ہی نے شروع کی تھی ۔’’حیات اعلیٰ حضرت‘‘مؤلفہ مولانا ظفرالدین بہاری صاحب کے اکثر و بیشتر واقعات آپ ہی کی روایات پر مبنی ہیں ۔ مولانا ظفرالدین بہاری صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم رضویوں کو جنابِ حاجی مولوی سید ایوب علی صاحب کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اِس کی طرف سب سے پہلے انہوں نے توجہ فرمائی اور برادرانِ طریقت کو بھی توجہ دلائی۔ اُن کی تحریک سے بعض احباب نے کچھ حالات اُن کے پاس لکھ بھیجے اور زیادہ تر حصہ خود سید صاحب موصوف نے لکھا ۔جب اُن کو میرے’’ حیات اعلیٰ حضرت‘‘ لکھنے کی خبر ہوئی تو جو کچھ مواد اُن کے پاس تھا سب مجھے عنایت کر دیا ۔‘‘
مولاناسید ایوب علی صاحب اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیضِ صحبت سے حد درجہ متاثر تھے ۔تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے، معاملات میں اسقدر محتاط تھے کہ جب تک ایک ایک پیسے کا حساب نہ چکا دیتے مطمئن نہ ہوتے۔
1370ھ 1950ء میں پاکستان آکر لاہور میں قیام پذیر ہو گئے، یہاں بھی ’’رضوی کتب خانہ‘‘ قائم کرکے متعدد رسائل شائع کئے۔ محدثِ اعظمِ پاکستان مولانا سردار احمد صاحب اور حضرت مولانا سید ابوالبرکات شاہ صاحب کے دل میں آپ کی بے حدقدر ومنزلت تھی ، آخری چند سال آپ نے’’ جامعہ رضویہ‘‘ فیصل آباد میں گزارے ۔
قدرت نے آپکو شعر و سخن کا پاکیز ہ ذوق عطا کیا تھا ، حمد و نعت اور منقبت ایسے محبوب موضوعا ت پر عام فہم اور دلنشیں انداز میں اظہارِ خیال کیا کرتے تھے ۔مجموعہء کلام ’’باغ ِفردوس‘‘کے نام سے دوحصوں میں طبع ہو چکا ہے۔ ہر سال عرسِ رضوی پر نئی منقبت لکھ کر پیش کیا کرتے تھے، ایک نعت کے دو بند ملاحظہ ہوں :
ہوئی ختم دن را ت کی آہ و زاری
بہت کی ہے سرکار اختر شماری
نہ ہیں سرد آہیں نہ ہے اشکبار ی
بس اب آپ ہی کے کرم کی ہے باری
لحد میں تھپک کر سلادیجئے گا
شہا ! میری تربت پہ للہ آئیں
نکیرین جس وقت تشریف لائیں
شبیہ مبارک کے جلوے دکھائیں
اور ایوب رضوی کو جب آزمائیں
تو کلمہ نبی کا پڑھا دیجئے گا
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک منقبت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تمہارے لطف و کر م سے آقا، ہوائیں طیبہ کی کھارہا ہوں
جو داغ ِفرقت تھے دل پہ کھائے، وہ رفتہ رفتہ مٹا رہا ہوں
کوئی بغلگیر ہو رہا ہے ،تو کوئی پیشانی چومتاہے
جو نام والا کو سن رہا ہے ،جسے سکونت بتا رہاہوں
سنے جو حالاتِ حاضری تھے ، یہ ان کی تصدیق ہورہی ہے
حرم کے ذی احترام علماء ،تمہارے مدَّاح پا رہاہوں
فقیرِ ایوب قادری کی ،قبول فرما لے منقبت کو
ترے نقیبوں میں بندہ پر ور، ہمیشہ مدح سرارہا ہوں
26رمضان المبارک 1390 ھ بمطابق26نومبر 1970بروز جمعۃ الوداع نماز ِفجر سے قبل آپ کا وصال ہوا اور’’میانی صاحب ‘‘ لاہو ر کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔ (تذکرہء اکابرِ اہلسنت ص108)
تلامذہء اعلیٰ حضرت
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے،مندرجہ بالاخلفاء وخدام کے علاوہ درجہ ذیل حضرات کا ذکر بھی مولانا حسنین رضا خان نے’’سیرتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں کیا ہے،تحریر فرماتے ہیں:
حسبِ ذیل حضرات بھی اعلیٰ حضرت کے حلقہء درس میں شامل تھے :
مولانا شاہ ابو الخیر سید غلام محمد صاحب بہاری
مولانا سید عبدا لرشید صاحب بہاری
مولوی حکیم عزیر غوث صاحب
مولوی واعظ الدین صاحب چاٹگام
مولوی سلطان الدین سلہٹ
مولوی نوراحمد صاحب بنگال
نواب مرزا طوسی ۔۔۔وغیرہ
یہ حضرات آپ کے پا س خصوصیت سے توقیت ، لوگارثم ،تکسیر ، ریاضی اور کتبِ احادیث پڑھتے تھے۔
حسبِ مراتب فتاویٰ بھی اِنکے سپر د ہوتے تھے اِن دنوں اعلیٰ حضرت کو بہت کام کرنا پڑتا تھا تو اِن سب حضرات کی مشاورت سے ایک نیا نظم قائم کیا گیا ۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص 133)
تعارف
وِلاد ت باسعادت
اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔
آ پ ایک صحابی کی اولاد ہیں
آپ کا نسبی سلسلہ افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغانوں کے جدِا مجد قیس عبد الرشید( جنہیں سرکار دو عالم ،نور ِ مجسم ، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ عالیہ میں حاضری دی کر دینِ اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی) کے پوتے ’’شرجنون‘‘الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔(گویا آپ ایک صحابی ء رسو ل صلی اللہ علیہ والہ ٖ وسلم کی اولاد سے ہیں)(شاہ احمد رضا خان بڑیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ص 35)
مولانا شاہ نقی علی خان صاحب
مولانا شاہ نقی علی خان اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدِ گرامی ہیں ۔آپ زبر دست عالمِ دین ،کثیر التصانیف بزرگ اور بڑے پائے کے عاشقِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تھے۔
پیدائش:
رئیس الاتقیا ءحضرت مولاناشاہ نقی علی خان بریلی شریف میں یکم رجب 1246ھ بمطابق 1830 ء میں مولانارضاعلی خان صاحب کے ہاں پیداہوئے ۔
تعلیم و تربیت :
اپنے والدِ ماجد سے تعلیم وتربیت پائی اور ان ہی سے درسی علوم سے فراغت حاصل کی ۔ حق تعالیٰ نے اُن کو اپنے ہمعصر وں میں معاش ومعاد میں ممتاز فرمایا تھا۔ فطری شجاعت کے علاوہ سخاوت،تواضع اور استغناء کی صفات سے متصف تھے ۔ اپنی عمر عزیز کو سنت کی اشاعت اوربدعت کے رد میں صر ف کیا۔ (تذکرہ علمائے ہند ص449مطبوعہ کراچی)
اخلاق و عادات:
اعلیٰ حضرت اپنے والد ِ گرامی کے تذکر ے میں تحریر فرماتے ہیں :
فراستِ صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملے میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا،عقلِ معاش ومعاد دونوں کا بروجہِ کمال اجتماع بہت کم سنا،یہاں آنکھوں سے دیکھا۔علاوہ بریں سخاوت،شجاعت ،علو ّ ِہمت ،کرم و مروت ،صدقاتِ خفیہ ،میراث ِ جلیہ ، بلندی ء اقبال ، دبدبہ و جلال،موالاتِ فقرائ، حکام سے عزلت ،رزقِ موروث پر قناعت وغیرہ ذالک ۔
فضائل ِ جلیلہ و خصائل ِ جمیلہ کا حال وہی جانتا ہے جس نے اُس جناب کی برکت ِ صحبت سے شرف پایا ہے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص65)
عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم :
ٓآپ کو حضورِ اکرم رحمت ِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ ٖوسلم سے کمال درجہ کا عشق تھا ۔ایک بار بیما ر ہوگئے جس کی وجہ سے نقاہت بہت ہو گئی، محبو بِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ ٖوسلم نے اپنے فدائی کے جذبہء محبت کی لاج رکھی،اور خواب ہی میں ایک پیالے میں دوا عنایت فرمائی، جس کے پینے سے افاقہ ہوا اور آپ جلد ہی رُو بصحت ہوگئے ۔ (مولانا نقی علی خان از شہاب الدین رضوی ،مطبوعہ لاہورص37)
القابات
سید ی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیشمار القابات ہیں ،جن میں سے آپ کا مشہور ترین لقب ’’اعلیٰ حضرت‘‘ہے ۔مولانا بدر الدین احمد قادری صاحب’’سوانح امام احمد ر ضا‘‘ میں’’اعلیٰ حضرت‘‘کے اس لقب کی وجہِ تسمیہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔
اعلیٰ حضرت:
خاندان کے لوگ امتیاز و تعارف کے طور پر اپنی بول چال میں اُنھیں ’’اعلیٰ حضر ت ‘‘کہتے تھے۔ معارف و کمالات اور فضائل و مکارم میں اپنے معاصرین کے درمیان برتری کے لحاظ سے یہ لفظ اپنے ممدوح کی شخصیت پر اس طرح منطبق ہو گیا کہ آج ملک کے عوام و خواص ہی نہیں بلکہ ساری دُنیا کی زبانوں پر چڑھ گیا۔ اور اب قبول عام کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کیا موافق کیا مخالف ،کسی حلقے میں بھی ، اعلیٰ حضرت کہے بغیر شخصیت کی تعبیر ہی مکمل نہیں ہوتی ۔(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص8)
دیگر القابات:
مز ید علمائے اہلِ سنت آپ کو بے شمار القابات سے یاد کرتے ہیں مثلاً۔۔۔
اعلیٰ حضرت ۔عظیم البرکت۔عظیم المرتبت۔امامِ اہلسنت۔ مجدّدِ دین و ملت۔ پروانہءشمع ِرسالت ۔عالَمِ شریعت ۔واقفِ اَسرارِ حقیقت ۔پیرِ طریقت۔رہبرِ شریعت۔ مخزنِ علم وحکمت ۔پیکرِ رُشد و ہدایت۔عارفِ شریعت وطریقت ۔غواصِ بحرِحقیقت ومعرفت۔تاجدارِ ولایت ۔شیخ الا سلام والمسلمین ۔حُجۃ اللہ فی الارضین۔تاج الفحول الکاملین۔ضیاء الملۃ ِوالدِّین ۔وارثُ الانبیا ء والمرسلین۔سراج ُالفقہا و المحدِّثین ۔زبدۃ العارفین والسالکین۔آیتُٗ من آیت اللہ ربّ العالمین۔معجزۃُٗ من معجزات رحمتہ للعالمین۔ تاج المحققین۔سراج المدققین۔حامی السنن۔۔ماحی الفتن۔بقیۃ السلف۔حجۃ الخلف ۔مجددِ اعظم۔ وغیرہ من ذالک۔
علمائے حجا ز کی طرف سے القابات:
علمائے حجاز نے آپ کو ان القابات سے یاد فرمایا ہے:
معرفت کاآفتاب۔فضائل کاسَمندر۔بلندستارہ۔دریاے ذخار۔بحرنا پیدکنا ر۔یکتائے زمانہ، دین ِاسلام کی سعادت ۔دائرہ ء علوم کا مرکز۔ سحبان ِفصیح اللسان ۔یکتائے روز گار۔ وغیرہ او ر علامہ اسمعیل خلیل المکی نے تو یہاں تک فرمادیا:
’’اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجد دہے تو بلا شبہ حق و صحیح ہے‘‘
(فاضلِ بریلوی اور ترکِ موالات از پروفیسر مسعود احمد صاحب مطبوعہ لاہور ص 15)
حلیہ مبارک
حضرت علامہ مولانا محمد منشا ء تابش قصوری صاحب مد ظلہ العالی کی فرمائش پر مولانا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آ پ کو اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہءمبار کہ اپنے مکتوب میں تحریر فرماکر بھیجا جو کہ مندرجہ ذیل ہے :
ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ چمکد ار گند می تھا۔
چہر ہء مبار ک پر ہر چیز نہایت موزوں و مناسب تھی۔
بلند پیشانی ،بینی مبارک نہایت ستواں تھی۔
ہر دو آنکھیں بہت موزوں اور خوبصورت تھیں ۔
نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔
ہر دو ابر و کمان ابرو کے پورے مصداق تھے۔
لاغری کے سبب سے چہر ہ میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قد رعطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احسا س بھی نہ ہوتا تھا۔
کنپٹیا ں اپنی جگہ بہت مناسب تھیں ۔
داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔
سر مبارک پرپٹے(زلفیں) تھے جو کان کی لو تک تھے۔
سرمبارک پر ہمیشہ عمامہ بند ھا رہتا تھا جس کے نیچے دو پلی ٹوپی ضر ور اوڑھتے تھے۔
آپ کا سینہ باوجود اس لا غری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔
گرد ن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔
آپ کا قد میانہ تھا۔
ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید) ہی کپڑ ے زیب ِ تن فرماتے ۔
موسم سرما میں رضائی بھی اوڑھا کرتے تھے۔
مگر سبز کا ہی اونی چادر بہت پسند فرماتے تھے اور وہ آپ کے تن ِمبارک پر سجتی بھی خوب تھی۔
آپ بچپن ہی میں کچھ روز گداز رہے پھر تو سب نے آپ کو چھریرا اور لاغر ہی دیکھا ۔
آپ کی آواز نہایت پر درد تھی اور کسی قدر بلند بھی تھی۔
آپ جب اذان دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔
آپ بخاری طرز پر قرآن ِپا ک پڑھتے تھے۔
آپ کا طرز اداعام حفاظ سے جدا تھا۔
آپ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتا پہنا جسے سلیم شاہی جوتا کہتے ہیں ۔
آپ کی رفتا ایسی نرم کہ برابر کے آدمی کو بھی چلتا محسوس نہ ہوتا تھا۔
(مجدد اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 33,32)
بچپن میں تقویٰ و پرہیز گاری
محافظتِ نماز
مولانا حسنین رضا خان صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواہے کہ وہ بدوِ(ابتدائے) شعورہی سے نمازِ باجماعت کے سخت پابند رہے ،گویا قبلِ بلوغ ہی و ہ اصحابِ ترتیب کے ذیل میں داخل ہو چکے تھے اور وقت ِ وفات تک صاحب ِترتیب ہی رہے۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص48)
محافظتِ روزہ:
جب بچپن میں آپ نے پہلا روزہ رکھا تو روزہ کشائی کی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی، اس کا نقشہ مولا نا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کھینچتے ہیں:
سارے خاندان اور حلقہء احباب کو مدعو کیا گیا ، کھانے دانے پکے، رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرت خوردسال تھے مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا ۔ ٹھیک دوپہر میں چہرہ ء مبارک پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ،آپ کے والدِ ماجد نے دیکھا تو انہیں کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرت کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر دیا اور فرمایا کہ کھالو! آپ نے فرمایا میرا تو روزہ ہے ۔ اُنھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہوا کرتے ہیں کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ۔ تو اعلیٰ حضرت نے عرض کی کہ’’جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے‘‘اس پر باپ آبدیدہ ہو گئے ۔ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ خداکے عہد کو یہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ۔ جس کو بھوک پیاس کی شدت، کمزوری اور کم سنی میں بھی ہر فرض کی فرضیت سے پہلے وفائے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپا س ہے ۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص87)
محافظتِ نگاہ :
آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں توکرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے ۔آپ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑ ا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آ پ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جوا ب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے او ر جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔
آپ کے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آ پ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اورنہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیر ت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد و ہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص117)
بچپن کی ایک حکایت
حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھرپر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کوبتاتے تھے۔ مگر آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کواپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ،صاحبزادے ! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن ؟ آپ نے فرمایا کہ اﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں اﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔(حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)بچپن ہی سے نہایت نیک طبیعت واقع ہوئے تھے۔
محافظتِ نماز
مولانا حسنین رضا خان صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواہے کہ وہ بدوِ(ابتدائے) شعورہی سے نمازِ باجماعت کے سخت پابند رہے ،گویا قبلِ بلوغ ہی و ہ اصحابِ ترتیب کے ذیل میں داخل ہو چکے تھے اور وقت ِ وفات تک صاحب ِترتیب ہی رہے۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص48)
محافظتِ روزہ:
جب بچپن میں آپ نے پہلا روزہ رکھا تو روزہ کشائی کی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی، اس کا نقشہ مولا نا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کھینچتے ہیں:
سارے خاندان اور حلقہء احباب کو مدعو کیا گیا ، کھانے دانے پکے، رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرت خوردسال تھے مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا ۔ ٹھیک دوپہر میں چہرہ ء مبارک پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ،آپ کے والدِ ماجد نے دیکھا تو انہیں کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرت کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر دیا اور فرمایا کہ کھالو! آپ نے فرمایا میرا تو روزہ ہے ۔ اُنھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہوا کرتے ہیں کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ۔ تو اعلیٰ حضرت نے عرض کی کہ’’جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے‘‘اس پر باپ آبدیدہ ہو گئے ۔ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ خداکے عہد کو یہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ۔ جس کو بھوک پیاس کی شدت، کمزوری اور کم سنی میں بھی ہر فرض کی فرضیت سے پہلے وفائے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپا س ہے ۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص87)
محافظتِ نگاہ :
آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں توکرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے ۔آپ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑ ا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آ پ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جوا ب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے او ر جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔
آپ کے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آ پ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اورنہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیر ت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد و ہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص117)
بچپن کی ایک حکایت
حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھرپر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کوبتاتے تھے۔ مگر آپ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کواپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ کے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ،صاحبزادے ! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن ؟ آپ نے فرمایا کہ اﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں اﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔(حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)بچپن ہی سے نہایت نیک طبیعت واقع ہوئے تھے۔
چھ سال کی عمر میں پہلی تقریر
چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبار ک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ نے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفا ن کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولاد ت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپاکوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص41)
چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبار ک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ نے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفا ن کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولاد ت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپاکوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔ (مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص41)
اساتذہ کرام
اعلیٰ حضرت کے اساتذ ہ کی فہرست بہت مختصر ہے:
حضر تِ والدِ ماجد مولانا شاہ نقی علی خان (اور ان کے علاوہ صر ف درجہ ذیل پانچ نفوسِ قدسیہ ہیں جن سے آپ کو نسبتِ تلمذ ہے)
اعلیٰ حضرت کے وہ استاذ جن سے ابتدائی کتابیں پڑھیں
جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب(جن سے آپ نے میزانِ منشعب تک کی تعلیم حاصل کی)
حضرت مولانا عبدا لعلی صاحب رامپوری (ان سے اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے)
آپ کے پیر ومرشد حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ سے تصوف و طریقت اور افکا رکی تعلیم حاصل کی )
حضر ت سالارِ خاندان برکاتیہ سید شاہ ابوالحسین احمدنوری (ان سے علمِ جفر ،تکسیر اور علمِ تصوف حاصل کئے)
:
جب آپ زیارتِ حرمین شریفین کے لیے مکتہ المکرمہ حاضر ہوئے تو مندرجہ ذیل تین شیوخ سے بھی سند حدیث و فقہ حاصل فرمائی ۔
شیخ احمد بن زین دحلان مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ عبد الرحمن سراجِ مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ حسین بن صالح مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
اعلیٰ حضرت کے اساتذ ہ کی فہرست بہت مختصر ہے:
حضر تِ والدِ ماجد مولانا شاہ نقی علی خان (اور ان کے علاوہ صر ف درجہ ذیل پانچ نفوسِ قدسیہ ہیں جن سے آپ کو نسبتِ تلمذ ہے)
اعلیٰ حضرت کے وہ استاذ جن سے ابتدائی کتابیں پڑھیں
جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحب(جن سے آپ نے میزانِ منشعب تک کی تعلیم حاصل کی)
حضرت مولانا عبدا لعلی صاحب رامپوری (ان سے اعلیٰ حضرت نے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے)
آپ کے پیر ومرشد حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ سے تصوف و طریقت اور افکا رکی تعلیم حاصل کی )
حضر ت سالارِ خاندان برکاتیہ سید شاہ ابوالحسین احمدنوری (ان سے علمِ جفر ،تکسیر اور علمِ تصوف حاصل کئے)
:
جب آپ زیارتِ حرمین شریفین کے لیے مکتہ المکرمہ حاضر ہوئے تو مندرجہ ذیل تین شیوخ سے بھی سند حدیث و فقہ حاصل فرمائی ۔
شیخ احمد بن زین دحلان مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ عبد الرحمن سراجِ مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ حسین بن صالح مکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
پونے چودہ سال کی عمر میں پہلا فتویٰ
اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تیرہ سال دس ماہ چاردن کی عمرمیں رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والدِ ماجد صاحب قبلہ کی خدمت ِ عالی میں پیش کیا ،جواب بالکل دُرست تھا آپ کے والد ماجدنے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ کرلیا اور اسی دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سُپر دکر دیا چنانچہ عرصہء دراز کے بعد ایک بار ایک سائل نے آپ سے سوال کیا کہ’’اگر بچے کی ناک میں دودھ چڑھ کر حلق میں اتر جائے تو رضا عت ثابت ہو گی یا نہیں‘‘۔؟
آپ نے جواب دیا’’منہ یا ناک سے عورت کا دودھ بچے کے جوف میں پہنچے گا حر مت ِ رضاعت لائے گا‘‘۔ اور یہ فرمایا یہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان 1286ھ 1869ء میں اس فقیر نے لکھا اور اسی چودہ شعبان میں منصب ِ افتاء عطا ہوا اور اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت 10شوال المکرم 1272ھ بروزشنبہ(ہفتہ) وقتِ ظہر مطابق 14جون 11جیٹھ سد ی 1913ء سمبت بکرمی تو منصب ِ افتاء ملنے کے وقت فقیر کی عمر 13برس 10مہینے 4دن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خد متِ دین جاری ہے والحمد للہ ۔(تذکرہء مشائخ ِ قادریہ رضویہ از مولانا عبد المجتبی رضوی مطبوعہ لاہور ص 395)
مولانا ظفر الدین بہار ی صاحب کے نام ایک مکتوب(محررہ 7شعبان 1336ھ بمطابق 1918) میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
بحمد للہ تعالیٰ فقیر نے 14شعبان 1286کو 13برس 10مہینے 4دن کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا،اگر سات دن اور زندگی بالخیر ہے تو اس شعبان 1336ھ کو اس فقیر کو فتاویٰ لکھتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ پور ے 50سال ہوں گے ، اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کرسکتا ہے؟ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)
مستقل فتویٰ نویسی :
پروفیسر مسعو داحمد صاحب تحر یر فرماتے ہیں:۔
مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیر ہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغا ز کیا ، سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے ۔ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)
اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تیرہ سال دس ماہ چاردن کی عمرمیں رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والدِ ماجد صاحب قبلہ کی خدمت ِ عالی میں پیش کیا ،جواب بالکل دُرست تھا آپ کے والد ماجدنے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ کرلیا اور اسی دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سُپر دکر دیا چنانچہ عرصہء دراز کے بعد ایک بار ایک سائل نے آپ سے سوال کیا کہ’’اگر بچے کی ناک میں دودھ چڑھ کر حلق میں اتر جائے تو رضا عت ثابت ہو گی یا نہیں‘‘۔؟
آپ نے جواب دیا’’منہ یا ناک سے عورت کا دودھ بچے کے جوف میں پہنچے گا حر مت ِ رضاعت لائے گا‘‘۔ اور یہ فرمایا یہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان 1286ھ 1869ء میں اس فقیر نے لکھا اور اسی چودہ شعبان میں منصب ِ افتاء عطا ہوا اور اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت 10شوال المکرم 1272ھ بروزشنبہ(ہفتہ) وقتِ ظہر مطابق 14جون 11جیٹھ سد ی 1913ء سمبت بکرمی تو منصب ِ افتاء ملنے کے وقت فقیر کی عمر 13برس 10مہینے 4دن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خد متِ دین جاری ہے والحمد للہ ۔(تذکرہء مشائخ ِ قادریہ رضویہ از مولانا عبد المجتبی رضوی مطبوعہ لاہور ص 395)
مولانا ظفر الدین بہار ی صاحب کے نام ایک مکتوب(محررہ 7شعبان 1336ھ بمطابق 1918) میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
بحمد للہ تعالیٰ فقیر نے 14شعبان 1286کو 13برس 10مہینے 4دن کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا،اگر سات دن اور زندگی بالخیر ہے تو اس شعبان 1336ھ کو اس فقیر کو فتاویٰ لکھتے ہوئے بفضلہ تعالیٰ پور ے 50سال ہوں گے ، اس نعمت کا شکر فقیر کیا ادا کرسکتا ہے؟ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)
مستقل فتویٰ نویسی :
پروفیسر مسعو داحمد صاحب تحر یر فرماتے ہیں:۔
مولانا احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تیر ہ سال دس مہینے اور چاردن کی عمر میں 14شعبان 1286ھ کو اپنے والد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نگرانی میں فتویٰ نویسی کا آغا ز کیا ، سات برس بعد تقریباً 1293ھ میں فتویٰ نویسی کی مستقل اجازت مل گئی۔پھر جب 1297میں مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولانا بریلوی فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دینے لگے ۔ (حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مطبوعہ کراچی ص50)
شادی
تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اعلیٰ حضرت قبلہ کی شادی کا نمبر آیا ۔آپ کا نکاح سن 1291ھ میں جناب ِ شیخ فضل حسین صاحب (رامپور) کی صاحبزادی’’ارشاد بیگم‘‘سے ہوا ،یہ شادی مسلمانوں کے لیے ایک شرعی نمونہ تھی ،مکان تو مکان آپ نے لڑکی والے کے یہاں بھی خبر بھجوا دی تھی کہ کوئی بات شریعتِ مطہرہ کے خلاف نہ ہو ،چنانچہ اُن حضرات نے غلط رسم ورواج سے اتنا لحاظ کیا کہ لوگ ان کی دین داری اور پاسِ شرع کے قائل ہو گئے اور بڑی تعریف کی۔(مجد د اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاھور ص45)
اہلیہء محترمہ ارشادبیگم :
مولانا حسنین رضا خان صاحب’’سیر تِ اعلیٰ حضرت‘‘میں لکھتے ہیں :
یہ ہماری محترمہ اماں جان رشتہ میں اعلیٰ حضرت کی پھوپھی زادی تھیں ۔ صوم و صلوٰۃ کی سختی سے پابند تھیں ۔ نہایت خوش اخلاق،بڑی سیر چشم، انتہائی مہمان نواز،نہایت متین و سنجیدہ بی بی تھیں۔ اعلیٰ حضرت کے یہاں مہمانوں کی بڑی آمد ورفت تھی ،ایسا بھی ہوا ہے کہ عین کھانے کے وقت ریل سے مہمان اترآئے اور جو کچھ کھاناپکنا تھا وہ سب پک چکا تھا اب پکانے والیوں نے ناک بھوں سمیٹی آپ نے فوراً مہمانوں کے لیے کھانا اُتار کر باہر بھیج دیا اور سارے گھر کے لیے دال چاول یا کھچڑی پکنے کو رکھوا دی گئی کہ اس کا پکنا کوئی دشوار کام نہ تھا۔ جب تک مہمانوں نے باہر کھانا کھایا گھروالوں کے لئے بھی کھانا تیار ہوگیا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی ضروری خدمات وہ اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ خصوصاً اعلیٰ حضرت کے سر میں تیل ملنا یہ اُن کا روز مرہ کا کام تھا،جس میں کم وبیش آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑتا تھا اور اس شان سے تیل جذب کیا جاتا تھا کہ اُن کے لکھنے میں اصلاً فرق نہ پڑے ،یہ عمل اُن کا روزانہ مسلسل تاحیاتِ اعلیٰ حضرت برابر جاری رہا۔سارے گھر کا نظم اور مہمان نوازی کا عظیم بار بڑی خاموشی اور صبر و استقلا ل سے برداشت کر گئیں ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ کے وصال کے بعد بھی کئی سال زندہ رہیں ،مگر اب بجز یاد ِالٰہی کے انھیں اور کوئی کام نہ رہاتھا۔
اعلیٰ حضرت کے گھر کے لیے اُن کا انتخاب بڑا کامیاب تھا،رب العزت نے اعلیٰ حضرت قبلہ کی دینی خدمات کے لیے جو آسانیاں عطا فرمائی تھیں اُن آسانیوں میں ایک بڑی چیز اماں جان کی ذات گرامی تھی۔ قرآنِ پاک میں رب العزت نے اپنے بندوں کو دعائیں اور مناجاتیں بھی عطا فرمائی ہیں ۔تاکہ بندوں کو اپنے رب سے مانگنے کا سلیقہ آجائے ان میں سے ایک دُعا یہ بھی ہے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
ترجمہ کنزالایمان:۔اے ربّ ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ (سورۃ بقرہ آیت 201)
تو دُنیا کی بھلائی سے بعض مفسرین نے ایک پاکدامن، ہمدرد اور شوہر کی جاں نثار بی بی مراد لی ہے ۔ ہماری اماں جان عمر بھر اس دُعا کا پورا اثر معلوم ہوتی رہیں، اپنے دیوروں اور نندوں کی اولاد سے بھی اپنے بچوں جیسی محبت فرماتی تھیں گھرانے کے اکثربچے انھیں اماں جان ہی کہتے تھے۔ اب کہاں ایسی پاک ہستیاں۔رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہا (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان برکاتی پبلیشرز ص53)
تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اعلیٰ حضرت قبلہ کی شادی کا نمبر آیا ۔آپ کا نکاح سن 1291ھ میں جناب ِ شیخ فضل حسین صاحب (رامپور) کی صاحبزادی’’ارشاد بیگم‘‘سے ہوا ،یہ شادی مسلمانوں کے لیے ایک شرعی نمونہ تھی ،مکان تو مکان آپ نے لڑکی والے کے یہاں بھی خبر بھجوا دی تھی کہ کوئی بات شریعتِ مطہرہ کے خلاف نہ ہو ،چنانچہ اُن حضرات نے غلط رسم ورواج سے اتنا لحاظ کیا کہ لوگ ان کی دین داری اور پاسِ شرع کے قائل ہو گئے اور بڑی تعریف کی۔(مجد د اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاھور ص45)
اہلیہء محترمہ ارشادبیگم :
مولانا حسنین رضا خان صاحب’’سیر تِ اعلیٰ حضرت‘‘میں لکھتے ہیں :
یہ ہماری محترمہ اماں جان رشتہ میں اعلیٰ حضرت کی پھوپھی زادی تھیں ۔ صوم و صلوٰۃ کی سختی سے پابند تھیں ۔ نہایت خوش اخلاق،بڑی سیر چشم، انتہائی مہمان نواز،نہایت متین و سنجیدہ بی بی تھیں۔ اعلیٰ حضرت کے یہاں مہمانوں کی بڑی آمد ورفت تھی ،ایسا بھی ہوا ہے کہ عین کھانے کے وقت ریل سے مہمان اترآئے اور جو کچھ کھاناپکنا تھا وہ سب پک چکا تھا اب پکانے والیوں نے ناک بھوں سمیٹی آپ نے فوراً مہمانوں کے لیے کھانا اُتار کر باہر بھیج دیا اور سارے گھر کے لیے دال چاول یا کھچڑی پکنے کو رکھوا دی گئی کہ اس کا پکنا کوئی دشوار کام نہ تھا۔ جب تک مہمانوں نے باہر کھانا کھایا گھروالوں کے لئے بھی کھانا تیار ہوگیا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی ضروری خدمات وہ اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ خصوصاً اعلیٰ حضرت کے سر میں تیل ملنا یہ اُن کا روز مرہ کا کام تھا،جس میں کم وبیش آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا پڑتا تھا اور اس شان سے تیل جذب کیا جاتا تھا کہ اُن کے لکھنے میں اصلاً فرق نہ پڑے ،یہ عمل اُن کا روزانہ مسلسل تاحیاتِ اعلیٰ حضرت برابر جاری رہا۔سارے گھر کا نظم اور مہمان نوازی کا عظیم بار بڑی خاموشی اور صبر و استقلا ل سے برداشت کر گئیں ۔ اعلیٰ حضرت قبلہ کے وصال کے بعد بھی کئی سال زندہ رہیں ،مگر اب بجز یاد ِالٰہی کے انھیں اور کوئی کام نہ رہاتھا۔
اعلیٰ حضرت کے گھر کے لیے اُن کا انتخاب بڑا کامیاب تھا،رب العزت نے اعلیٰ حضرت قبلہ کی دینی خدمات کے لیے جو آسانیاں عطا فرمائی تھیں اُن آسانیوں میں ایک بڑی چیز اماں جان کی ذات گرامی تھی۔ قرآنِ پاک میں رب العزت نے اپنے بندوں کو دعائیں اور مناجاتیں بھی عطا فرمائی ہیں ۔تاکہ بندوں کو اپنے رب سے مانگنے کا سلیقہ آجائے ان میں سے ایک دُعا یہ بھی ہے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
ترجمہ کنزالایمان:۔اے ربّ ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ (سورۃ بقرہ آیت 201)
تو دُنیا کی بھلائی سے بعض مفسرین نے ایک پاکدامن، ہمدرد اور شوہر کی جاں نثار بی بی مراد لی ہے ۔ ہماری اماں جان عمر بھر اس دُعا کا پورا اثر معلوم ہوتی رہیں، اپنے دیوروں اور نندوں کی اولاد سے بھی اپنے بچوں جیسی محبت فرماتی تھیں گھرانے کے اکثربچے انھیں اماں جان ہی کہتے تھے۔ اب کہاں ایسی پاک ہستیاں۔رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہا (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان برکاتی پبلیشرز ص53)
اولاد ِامجاد
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کو اللہ عزوجل نے سات اولادیں عطا فرمائیں ،دو صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں۔
صاحبزادوں کے نام یہ ہیں:
حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
مفتیٔ اعظم ِہند مولانا محمد مصطفی رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
اور صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں۔
مصطفائی بیگم
کنیزِ حسن
کنیزِ حسین
کنیزِ حسنین
مرتضائی بیگم
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کو اللہ عزوجل نے سات اولادیں عطا فرمائیں ،دو صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں۔
صاحبزادوں کے نام یہ ہیں:
حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
مفتیٔ اعظم ِہند مولانا محمد مصطفی رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
اور صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں۔
مصطفائی بیگم
کنیزِ حسن
کنیزِ حسین
کنیزِ حسنین
مرتضائی بیگم
وفات حسرت آیات
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی وفات سے چارماہ بائیس دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر ایک آیتِ قرآنی سے سالِ وفات کا اِستخراج فرمایا تھا۔وہ آیتِ مبارکہ یہ ہے:
وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکْوَابٍ
ترجمہ کنزالایمان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا۔(پ ۲۹، الدھر:۱۵)
(سوانح امام احمد رضا ، ص ۳۸۴، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )
۲۵صفَر الْمُظَفَّر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ کو جُمُعَۃُ الْمبارَک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق2 بج کر38 منٹ پر،عین اذان کے وقت اِدھر مُؤَذِّن نے حَیَّ عَلَی الفَلاح کہا اور اُدھر اِمامِ اَہلسُنَّت ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ الْمَرْتَبَت، پروانہ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین ومِلّت، حامیِ سُنّت، ماحیِ بدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافِظ القاری الشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے داعئ اَجل کو لبیک کہا۔
اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُون۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی وفات سے چارماہ بائیس دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر ایک آیتِ قرآنی سے سالِ وفات کا اِستخراج فرمایا تھا۔وہ آیتِ مبارکہ یہ ہے:
وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکْوَابٍ
ترجمہ کنزالایمان:اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا۔(پ ۲۹، الدھر:۱۵)
(سوانح امام احمد رضا ، ص ۳۸۴، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر )
۲۵صفَر الْمُظَفَّر ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ کو جُمُعَۃُ الْمبارَک کے دن ہندوستان کے وقت کے مطابق2 بج کر38 منٹ پر،عین اذان کے وقت اِدھر مُؤَذِّن نے حَیَّ عَلَی الفَلاح کہا اور اُدھر اِمامِ اَہلسُنَّت ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ الْمَرْتَبَت، پروانہ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین ومِلّت، حامیِ سُنّت، ماحیِ بدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِطریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافِظ القاری الشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے داعئ اَجل کو لبیک کہا۔
اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُون۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوار بریلی شریف میں آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔
قلیلُ الغذا
اعلیٰ حضرت نحیف الجثہ(کمزور جسم والے) اور نہایت قلیلُ الغذا تھے،اُن کی عام غذا چکی کے پسے ہوئے آٹے کی روٹی اور بکری کا قورمہ تھا ۔آخرِ عمر میں اُن کی غذا اور بھی کم رہ گئی تھی فقط ایک پیالی شوربا بکری کا بغیر مرچ کا اور ایک ڈیڑھ بسکٹ سوجی کا تناول فرماتے تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں آپ نہایت سادہ تھے۔
ایک بارآپ کی اہلیہء محترمہ نے آپ کی علمی مصروفیت دیکھ کر جہاں آپ کاغذات اور کتابیں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے،دستر خوان بچھا کر قورمہ کا پیالہ رکھ دیا اور چپاتیاں دسترخوان کے ایک گوشے میں لپیٹ دیں کہ ٹھنڈی نہ ہو جائیں۔ کچھ دیر بعد دیکھنے تشریف لائیں کہ حضرت کھانا تناول فرماچکے یا نہیں تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ سالن آپ نے نوش فرما لیا ہے لیکن چپاتیاں دسترخوان میں اُسی طرح لپٹی رکھی ہوئی ہیں،پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ: چپاتیاں تو میں نے دیکھی نہیں،سمجھا ابھی نہیں پکی ہیں لہٰذامیں نے اطمینا ن سے بوٹیاں کھا لیں، اور شوربا پی لیاہے۔ (فقیہِ اسلام از ڈاکٹر حسن رضا اعظمی مطبوعہ کراچی ص145)
روزہ میں ایک وقت کھانا
ماہِ رمضان المبارک میں تو آپ کی غذابالکل ہی قلیل ہو جاتی، مولانا محمد حسین صاحب میرٹھی بیان کرتے ہیں کہ ایک سال میں نے بریلی شریف میں رمضان شریف کی 20تاریخ سے اعتکاف کیا ،حضورِ اعلیٰ حضرت جب مسجد میں آتے تو فرماتے جی چاہتا ہے کہ میں بھی اعتکاف کروں مگر فرصت نہیں ملتی ،آخر 26ماہ مبارک کو فرمایا کہ آج سے میں بھی معتکف ہو جاؤں(اور آپ معتکف ہو گئے)۔ آپ افطار کے بعد صرف پان کھالیتے اور سحر کے وقت ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرنی اور ایک پیالے میں چٹنی آیا کرتی تھی ایک دن میں نے عرض کی حضور!فیرنی اور چٹنی کا کیا جوڑ؟فرمایا: نمک سے کھانا شروع کرنا اور نمک ہی پر ختم کرنا سنت ہے۔
(مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 95)
اعلیٰ حضرت نحیف الجثہ(کمزور جسم والے) اور نہایت قلیلُ الغذا تھے،اُن کی عام غذا چکی کے پسے ہوئے آٹے کی روٹی اور بکری کا قورمہ تھا ۔آخرِ عمر میں اُن کی غذا اور بھی کم رہ گئی تھی فقط ایک پیالی شوربا بکری کا بغیر مرچ کا اور ایک ڈیڑھ بسکٹ سوجی کا تناول فرماتے تھے۔ کھانے پینے کے معاملے میں آپ نہایت سادہ تھے۔
ایک بارآپ کی اہلیہء محترمہ نے آپ کی علمی مصروفیت دیکھ کر جہاں آپ کاغذات اور کتابیں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے،دستر خوان بچھا کر قورمہ کا پیالہ رکھ دیا اور چپاتیاں دسترخوان کے ایک گوشے میں لپیٹ دیں کہ ٹھنڈی نہ ہو جائیں۔ کچھ دیر بعد دیکھنے تشریف لائیں کہ حضرت کھانا تناول فرماچکے یا نہیں تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ سالن آپ نے نوش فرما لیا ہے لیکن چپاتیاں دسترخوان میں اُسی طرح لپٹی رکھی ہوئی ہیں،پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ: چپاتیاں تو میں نے دیکھی نہیں،سمجھا ابھی نہیں پکی ہیں لہٰذامیں نے اطمینا ن سے بوٹیاں کھا لیں، اور شوربا پی لیاہے۔ (فقیہِ اسلام از ڈاکٹر حسن رضا اعظمی مطبوعہ کراچی ص145)
روزہ میں ایک وقت کھانا
ماہِ رمضان المبارک میں تو آپ کی غذابالکل ہی قلیل ہو جاتی، مولانا محمد حسین صاحب میرٹھی بیان کرتے ہیں کہ ایک سال میں نے بریلی شریف میں رمضان شریف کی 20تاریخ سے اعتکاف کیا ،حضورِ اعلیٰ حضرت جب مسجد میں آتے تو فرماتے جی چاہتا ہے کہ میں بھی اعتکاف کروں مگر فرصت نہیں ملتی ،آخر 26ماہ مبارک کو فرمایا کہ آج سے میں بھی معتکف ہو جاؤں(اور آپ معتکف ہو گئے)۔ آپ افطار کے بعد صرف پان کھالیتے اور سحر کے وقت ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرنی اور ایک پیالے میں چٹنی آیا کرتی تھی ایک دن میں نے عرض کی حضور!فیرنی اور چٹنی کا کیا جوڑ؟فرمایا: نمک سے کھانا شروع کرنا اور نمک ہی پر ختم کرنا سنت ہے۔
(مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 95)
مسجد کا ادب و احترام
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ مساجد کا بہت ادب و احترام فرمایا کرتے ،جس کی چند جھلکیاں درجہ ذیل سطور میں پیش کی جاتی ہیں :
درمیانی دروازے سے داخل ہوتے
جب بھی مسجد میں تشریف لاتے ہمیشہ وسطی در سے داخل ہوا کرتے ،اگرچہ آس پاس کے درواز وں سے داخل ہونے میں سہولت ہی کیوں نہ ہو،بعض اوقات اورادو وظائف مسجد شریف ہی میں بحالتِ خرام (چلتے ہوئے)شمالاً جنوباً پڑھا کرتے مگر منتہائے فرشِ مسجد سے واپسی ہمیشہ قبلہ رو ہو کر ہی ہوتی،کبھی پشت کرتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص,261)
ہر قدم دایاں
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فریضہء فجر ادا کرنے کے لیے خلاف ِمعمول کسی قدر حضور(اعلیٰ حضرت) کو دیر ہو گئی ، نمازیوں کی نگاہیں بار بار کاشانہء اقدس کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اُس وقت برادرم قناعت علی نے اپنا یہ خیال مجھ سے کہا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ حضور دایاں قدم مسجد میں پہلے رکھتے ہیں یا بایاں ۔ مگرقربان اُس ذاتِ کریم کے کہ دروازہ ء مسجد کے زینے پر جس وقت قدمِ مبارک پہنچتا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، قدیمی فرش ِمسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا ، آگے صحن مسجد میں ایک صف بچھی تھی اس پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، اور اسی پر بس نہیں ہر صف پر تقدیم سیدھے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلیٰ پر قدمِ پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے۔
مسجد میں پورا قدم نہ رکھتے
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرشِ مسجد پر ایڑھی اور انگوٹھے کے بل چلا کرتے تھے اوردوسروں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے کہ مسجد کے فرش پر چلتے ہوئے آواز پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص862)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ مساجد کا بہت ادب و احترام فرمایا کرتے ،جس کی چند جھلکیاں درجہ ذیل سطور میں پیش کی جاتی ہیں :
درمیانی دروازے سے داخل ہوتے
جب بھی مسجد میں تشریف لاتے ہمیشہ وسطی در سے داخل ہوا کرتے ،اگرچہ آس پاس کے درواز وں سے داخل ہونے میں سہولت ہی کیوں نہ ہو،بعض اوقات اورادو وظائف مسجد شریف ہی میں بحالتِ خرام (چلتے ہوئے)شمالاً جنوباً پڑھا کرتے مگر منتہائے فرشِ مسجد سے واپسی ہمیشہ قبلہ رو ہو کر ہی ہوتی،کبھی پشت کرتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص,261)
ہر قدم دایاں
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فریضہء فجر ادا کرنے کے لیے خلاف ِمعمول کسی قدر حضور(اعلیٰ حضرت) کو دیر ہو گئی ، نمازیوں کی نگاہیں بار بار کاشانہء اقدس کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اُس وقت برادرم قناعت علی نے اپنا یہ خیال مجھ سے کہا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ حضور دایاں قدم مسجد میں پہلے رکھتے ہیں یا بایاں ۔ مگرقربان اُس ذاتِ کریم کے کہ دروازہ ء مسجد کے زینے پر جس وقت قدمِ مبارک پہنچتا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، قدیمی فرش ِمسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا ، آگے صحن مسجد میں ایک صف بچھی تھی اس پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، اور اسی پر بس نہیں ہر صف پر تقدیم سیدھے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلیٰ پر قدمِ پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے۔
مسجد میں پورا قدم نہ رکھتے
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرشِ مسجد پر ایڑھی اور انگوٹھے کے بل چلا کرتے تھے اوردوسروں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے کہ مسجد کے فرش پر چلتے ہوئے آواز پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص862)
فتویٰ اور تقویٰ
جس فقیہ کے پاس فتوے اتنی کثرت سے آتے ہوں کہ اُس کے اوقات جوابِ مسائل میں مصروف ہوں،اُس سے جماعت جو واجب ہے اور سنن ِ موکدہ جو قریب بواجب ہیں معاف ہوجاتی ہیں، لیکن اس کثرت ِ فتویٰ کے باوجود ہمیشہ آپ نے جماعت کی پابندی فرمائی اورکبھی بھی سنن ِ موکدہ نہ چھوڑیں۔
جو شخص بیماری میں اتنا لاغر ہو کہ مسجد نہیں پہنچ سکتا ،یا جا سکتا ہے لیکن مرض بڑھ جائے گا ،اُس کے لیے جماعت چھوڑنا جائز ہے مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری بیماری جس میں وصال فرمایا، حال یہ تھا کہ مسجد تک از خود نہیں جا سکتے تھے پھر بھی فوتِ جماعت گوارا نہ فرمائی ۔اِن ہی دنو ں میں’’فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ میں ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’آپ کی رجسٹری 15ربیع الآخر شریف کو آئی ۔میں 12ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر ایسا علیل ہوا کہ کبھی نہ ہواتھا۔ میں نے وصیت نامہ بھی لکھوا دیا تھا ۔ آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے ‘‘متصل مسجد ہے ،چارآدمی کرسی پربٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں ۔
شیخ ِفانی جو روزہ سے عاجزہو اُس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اورفدیہ ادا کرے۔ یا جو سخت بیمار ہے کہ طاقتِ روزہ نہیں، اس کے لیے قضاء جائز ہے ۔زندگی کے آخری سالوں میں اعلیٰ حضرت کا یہی حال تھا کہ بریلی میں روزہ نہیں رکھ سکتے تھے ۔لیکن اُنہوں نے اپنے لیے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ مجھ پر روزہ فرض ہے کیونکہ نینی تال (ایک پہاڑی علاقہ) میں ٹھنڈ ک کے باعث روزہ رکھا جا سکتاہے اور میں وہاں جا کر قیام کرنے پر قادر ہوں لہٰذا مجھ پر روزہ فرض ہے ۔
باقاعدہ ٹوپی کرتا ،پاجامہ،یا تہبند پہن کر نماز بلاشبہ جائز ہے۔تنزیہی کراہت بھی نہیں، ہاں عمامہ بھی ہو تو یقینا مستحب ہے ۔ اعلیٰ حضرت باوجودیکہ بہت حار(گرم) مزاج تھے۔ مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دستار اور انگرکھے کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیے۔
(امام احمد رضا اور ردبدعات ومنکرات از علامہ یسین اختر مصباحی مطبوعہ لاہور ص62)
جس فقیہ کے پاس فتوے اتنی کثرت سے آتے ہوں کہ اُس کے اوقات جوابِ مسائل میں مصروف ہوں،اُس سے جماعت جو واجب ہے اور سنن ِ موکدہ جو قریب بواجب ہیں معاف ہوجاتی ہیں، لیکن اس کثرت ِ فتویٰ کے باوجود ہمیشہ آپ نے جماعت کی پابندی فرمائی اورکبھی بھی سنن ِ موکدہ نہ چھوڑیں۔
جو شخص بیماری میں اتنا لاغر ہو کہ مسجد نہیں پہنچ سکتا ،یا جا سکتا ہے لیکن مرض بڑھ جائے گا ،اُس کے لیے جماعت چھوڑنا جائز ہے مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری بیماری جس میں وصال فرمایا، حال یہ تھا کہ مسجد تک از خود نہیں جا سکتے تھے پھر بھی فوتِ جماعت گوارا نہ فرمائی ۔اِن ہی دنو ں میں’’فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ میں ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’آپ کی رجسٹری 15ربیع الآخر شریف کو آئی ۔میں 12ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر ایسا علیل ہوا کہ کبھی نہ ہواتھا۔ میں نے وصیت نامہ بھی لکھوا دیا تھا ۔ آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے ‘‘متصل مسجد ہے ،چارآدمی کرسی پربٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں ۔
شیخ ِفانی جو روزہ سے عاجزہو اُس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اورفدیہ ادا کرے۔ یا جو سخت بیمار ہے کہ طاقتِ روزہ نہیں، اس کے لیے قضاء جائز ہے ۔زندگی کے آخری سالوں میں اعلیٰ حضرت کا یہی حال تھا کہ بریلی میں روزہ نہیں رکھ سکتے تھے ۔لیکن اُنہوں نے اپنے لیے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ مجھ پر روزہ فرض ہے کیونکہ نینی تال (ایک پہاڑی علاقہ) میں ٹھنڈ ک کے باعث روزہ رکھا جا سکتاہے اور میں وہاں جا کر قیام کرنے پر قادر ہوں لہٰذا مجھ پر روزہ فرض ہے ۔
باقاعدہ ٹوپی کرتا ،پاجامہ،یا تہبند پہن کر نماز بلاشبہ جائز ہے۔تنزیہی کراہت بھی نہیں، ہاں عمامہ بھی ہو تو یقینا مستحب ہے ۔ اعلیٰ حضرت باوجودیکہ بہت حار(گرم) مزاج تھے۔ مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دستار اور انگرکھے کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیے۔
(امام احمد رضا اور ردبدعات ومنکرات از علامہ یسین اختر مصباحی مطبوعہ لاہور ص62)
قرضِ حسنہ دیا کرتے
اعلیٰ حضرت کے ایک خلیفہ حافظ یقین الدین صاحب فرماتے ہیں :
(جنابِ مولانا حضرت حافظ یقین الدین صاحب اُن خوش نصیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کے پیچھے اعلیٰ حضرت نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔چنانچہ مولاناامجد علی اعظمی صاحب فرماتے ہیں
اعلیٰ حضرت کی مسجد میں اُن کی موجودگی میں اُن کے حکم سے صر ف چار اشخاص نمازیں پڑھایا کرتے تھے ۔
مولانا حامد رضا خان صاحب
مولانا محمد رضا خان صاحب
حافظ یقین الدین صاحب ۔یہ اعلیٰ حضرت کے خلیفہ بھی تھے اور قرآن ِپاک رمضان میں بھی سُنایا کرتے تھے ۔
یہ فقیر (مولانا امجد علی اعظمی صاحب )۔۔۔نمازوں کی ادائیگی میں اتنی احتیاطیں کی جاتیں جن کو کہیں نہ دیکھا ۔
(تذکرہ اعلیٰ حضرت بزبان صدر الشریعہ از مولانا عطا ء الرحمن مکتبہ اعلیٰ حضرت ص 32)
شعبان کا مہینہ تھااور مجھ(حافظ یقین الدین صاحب ) پر ساڑھے چار سو روپے قرضہ تھا ،میں نے اعلیٰ حضر ت کی بارگاہ میں درخواست بھیجی کہ غلام قرضدار ہے ،اگر حضور غلام کی رمضان ِ مبارک میں غیر حاضری منظور فرمالیں تو غلام کے لیے بہتر ہو ۔
اس کے جواب میں بذریعہء تار مجھے ارشاد فرمایا: قرضہ کو خدا کے سُپر د کرکے فوراً حاضر ہو ۔ میں شعبان کی آخری تاریخ کو بریلی شریف پہنچا اور فضلِ الہٰی سے قرآن ِعظیم (تراویح میں پڑھانا )شروع کر دیا ۔اعلیٰ حضر ت نے ارشاد فرمایا:قرضہ ادا کر دیا جائے ؟میں نے عرض کی حضور! ایک برس کا وعدہ ہے اور چھے مہینے گزر چکے ہیں ،شوال میں مَیں واپس چلا گیا ۔ اعلیٰ حضرت مجھے ماہانہ کچھ رقم بھیجتے رہے یہاں تک کہ وقتِ معینہ پر قرضہ ادا ہو گیا ۔ بریلی شریف رہتے ہوئے بھی مجھ پر کچھ قرض ہو گیا تھا ، وہ بھی اعلیٰ حضرت نے ادا فرمایا ،یہ روپیہ میں کئی برس تک آپ کو واپس نہ دے سکا ۔
کسی کے ذمہ میں آخرت پر نہیں رکھا
درمیان میں آپ نے کئی مرتبہ ارشاد فرمایا :جو صاحب نہ دے سکے اُن کو معاف ہے،کسی کے ذمہ میں آخرت پر نہیں رکھا ، قریب چودہ سو روپے کے لوگوں نے قرض لیا ہے،شاید اِسی کے مثل الفاظ فرمائے’’اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے کر نہ دے سکے اور قرض دینے والا اس سے طلب نہ کرے تو اللہ تعالیٰ روزانہ اسی تعداد پر(صدقہ کرنے کا) ثواب عطا فرماتا ہے ۔ ہم میں اس قدرتو طاقت نہیں کہ روزانہ چودہ سو روپیہ دیا کریں مگر مولیٰ تعالیٰ اس قدر ثواب عطا فرمارہاہے‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ ص 969)
اعلٰی حضر ت کا دور یا د آتا ہے
یہی حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ غلام رمضا ن المبارک میں ہمیشہ حاضر ہوتا تھا، اور بفضلہ تعالیٰ کبھی(مالی) مجبوری نہ ہوئی۔جب سے حضور کا وصال ہوا تب سے یہ حالت ہے کہ تین تین برس گزرجاتے ہیں،ماہانہ ستر اسی روپے(گھر) بھیجے جاتے ہیں ۔۔۔۔کبھی تو ماہوار ایک سو تیس روپے تک نوبت پہنچتی ہے ،بہت دقت سے ماہوار بھیجتا ہوں۔اکثر قرضہ بھی ہو جاتاہے،حضورکا اس عالم سے تشریف لے جانا خادم کے لیے مصیبت کا سامنا ہو گیا ہے ۔ مولیٰ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے صدقے سے جلد حضور کی خدمت میں پہنچائے ۔
اعلیٰ حضرت کے ایک خلیفہ حافظ یقین الدین صاحب فرماتے ہیں :
(جنابِ مولانا حضرت حافظ یقین الدین صاحب اُن خوش نصیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کے پیچھے اعلیٰ حضرت نماز پڑھ لیا کرتے تھے)۔چنانچہ مولاناامجد علی اعظمی صاحب فرماتے ہیں
اعلیٰ حضرت کی مسجد میں اُن کی موجودگی میں اُن کے حکم سے صر ف چار اشخاص نمازیں پڑھایا کرتے تھے ۔
مولانا حامد رضا خان صاحب
مولانا محمد رضا خان صاحب
حافظ یقین الدین صاحب ۔یہ اعلیٰ حضرت کے خلیفہ بھی تھے اور قرآن ِپاک رمضان میں بھی سُنایا کرتے تھے ۔
یہ فقیر (مولانا امجد علی اعظمی صاحب )۔۔۔نمازوں کی ادائیگی میں اتنی احتیاطیں کی جاتیں جن کو کہیں نہ دیکھا ۔
(تذکرہ اعلیٰ حضرت بزبان صدر الشریعہ از مولانا عطا ء الرحمن مکتبہ اعلیٰ حضرت ص 32)
شعبان کا مہینہ تھااور مجھ(حافظ یقین الدین صاحب ) پر ساڑھے چار سو روپے قرضہ تھا ،میں نے اعلیٰ حضر ت کی بارگاہ میں درخواست بھیجی کہ غلام قرضدار ہے ،اگر حضور غلام کی رمضان ِ مبارک میں غیر حاضری منظور فرمالیں تو غلام کے لیے بہتر ہو ۔
اس کے جواب میں بذریعہء تار مجھے ارشاد فرمایا: قرضہ کو خدا کے سُپر د کرکے فوراً حاضر ہو ۔ میں شعبان کی آخری تاریخ کو بریلی شریف پہنچا اور فضلِ الہٰی سے قرآن ِعظیم (تراویح میں پڑھانا )شروع کر دیا ۔اعلیٰ حضر ت نے ارشاد فرمایا:قرضہ ادا کر دیا جائے ؟میں نے عرض کی حضور! ایک برس کا وعدہ ہے اور چھے مہینے گزر چکے ہیں ،شوال میں مَیں واپس چلا گیا ۔ اعلیٰ حضرت مجھے ماہانہ کچھ رقم بھیجتے رہے یہاں تک کہ وقتِ معینہ پر قرضہ ادا ہو گیا ۔ بریلی شریف رہتے ہوئے بھی مجھ پر کچھ قرض ہو گیا تھا ، وہ بھی اعلیٰ حضرت نے ادا فرمایا ،یہ روپیہ میں کئی برس تک آپ کو واپس نہ دے سکا ۔
کسی کے ذمہ میں آخرت پر نہیں رکھا
درمیان میں آپ نے کئی مرتبہ ارشاد فرمایا :جو صاحب نہ دے سکے اُن کو معاف ہے،کسی کے ذمہ میں آخرت پر نہیں رکھا ، قریب چودہ سو روپے کے لوگوں نے قرض لیا ہے،شاید اِسی کے مثل الفاظ فرمائے’’اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے کر نہ دے سکے اور قرض دینے والا اس سے طلب نہ کرے تو اللہ تعالیٰ روزانہ اسی تعداد پر(صدقہ کرنے کا) ثواب عطا فرماتا ہے ۔ ہم میں اس قدرتو طاقت نہیں کہ روزانہ چودہ سو روپیہ دیا کریں مگر مولیٰ تعالیٰ اس قدر ثواب عطا فرمارہاہے‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ ص 969)
اعلٰی حضر ت کا دور یا د آتا ہے
یہی حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ غلام رمضا ن المبارک میں ہمیشہ حاضر ہوتا تھا، اور بفضلہ تعالیٰ کبھی(مالی) مجبوری نہ ہوئی۔جب سے حضور کا وصال ہوا تب سے یہ حالت ہے کہ تین تین برس گزرجاتے ہیں،ماہانہ ستر اسی روپے(گھر) بھیجے جاتے ہیں ۔۔۔۔کبھی تو ماہوار ایک سو تیس روپے تک نوبت پہنچتی ہے ،بہت دقت سے ماہوار بھیجتا ہوں۔اکثر قرضہ بھی ہو جاتاہے،حضورکا اس عالم سے تشریف لے جانا خادم کے لیے مصیبت کا سامنا ہو گیا ہے ۔ مولیٰ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے صدقے سے جلد حضور کی خدمت میں پہنچائے ۔
ایک غریب‘یتیم بچے کی دلجوئی
سید ایوب علی صاحب فرماتے ہیں کہ:
ایک کمسن صاحبزادے نہایت ہی بے تکلفانہ انداز میں سادگی کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کی :میری بوا(یعنی والدہ ) نے آپ کی دعوت کی ہے،کل صبح کو بلایا ہے ۔اعلیٰ حضرت نے اُن سے دریافت فرمایا مجھے دعوت میں کیا کھلاؤ گے؟اس پر اُن صاحبزادے نے اپنے کُرتے کا دامن جو دونوں ہاتھوں سے پکڑ ے ہوئے تھے پھیلا دیا، جس میں ماش کی دال اور دو چار مرچیں پڑی ہوئی تھیں، کہنے لگے دیکھئے ناں!یہ دال لایا ہوں ۔ حضورنے اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا :اچھا! میں اوریہ( حاجی کفایت اللہ صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )کل دس بجے دن کے آئیں گے، پھر حاجی صاحب سے فرمایا مکان کا پتہ دریافت کر لیجئے ۔ غرض صاحبزادے مکان کا پتہ بتا کر خوش خوش چلے گئے ۔ دوسرے دن وقت ِ معین پر حضور عصائے مبارک ہاتھ میں لئے ہوئے باہر تشریف لائے اور حاجی صاحب سے فرمایا چلئے۔ اُنہوں نے عرض کی کہاں؟فرمایا اُن صاحبزادے کے ہاں دعو ت کا وعدہ جو کیا تھا،آپ کو مکان کا پتا معلوم ہو گیا یا نہیں ؟عرض کیا :جی حضور ’’ محلہ ملوکپور ‘‘ میں ہے اور ساتھ ہو لئے ۔
جس وقت مکان پر پہنچے تو وہ صاحبزادے دروازہ پر کھڑے انتظار میں تھے ،حضور کو دیکھتے ہی یہ کہتے ہوئے بھاگے ارے بوا! مولوی صاحب آگئے،آپ مکان کے اند ر تشریف لے گئے، اندر دروازہ کے قریب ہی ایک چھپرپڑا ہوا تھا ،وہاں کھڑے ہو کر انتظار فرمانے لگے کچھ دیرکے بعد ایک بوسید ہ چٹائی (آپ کے تشریف فرما ہونے کے لیے )آئی اور ڈھلیا میں موٹی موٹی باجر ہ کی روٹیا ں اور مٹی کی رکابی میں وہی ماش کی دال جس میں مرچوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے(سامنے) لا کر رکھی دی اور کہنے لگے: کھائیے!
حضور نے فرمایا بہت اچھا کھاتا ہوں! ہاتھ دھونے کے لیے پانی لے آئیے ۔ادھر وہ صاحبزادے پانی لانے کو گئے اور اِدھر حاجی صاحب نے کہا کہ حضور یہ مکان نقارچی(نقارہ بجانے والا) کا ہے۔حضور یہ سن کر(غایت تقویٰ کی وجہ سے) کبیدہ خاطر ہوئے او رفرمایا’’ابھی کیوں کہا،کھانے کے بعد کہاہوتا‘‘۔
اتنے میں وہ صاحبزادے پانی لے کر حاضر ہوئے ، حضور نے دریافت فرمایا کہ: آپ کے والد کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں ؟ دروازے کے پردے میں سے اُن صاحبزاد ے کی والد ہ نے عرض کی :حضور !میر ے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، وہ کسی زمانے میں نوبت بجاتے تھے اس کے بعد توبہ کر لی تھی ، اب صرف یہ لڑکا ہے جو راج مزدوروں کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔حضور نے(مسرت سے) الحمد للہ کہا اور دُعائے خیر و برکت فرمائی ۔
حاجی صاحب نے حضور کے ہاتھ دھلوائے اور خود بھی ہاتھ دھو کر شریکِ طعام ہو گئے ،مگر دل ہی دل میں حاجی صاحب کے یہ خیال گشت کر رہا تھا کہ حضور کو کھانے میں بہت احتیاط ہے ۔ غذا میں سوجی کا بسکٹ استعمال ہو تا ہے ۔ یہ روٹی اوروہ بھی باجرہ کی اور اس پر ماش کی دال کس طرح تناول فرمائیں گے۔مگر قربان اِس اخلا ق اور دلداری کے کہ میزبان کی خوشی کے لیے خوب سیر ہو کر کھایا ۔
حاجی صاحب فرماتے تھے کہ میں جب تک کھاتا رہاحضور بھی برابر تناول فرماتے رہے، وہاں سے واپسی پر حاجی صاحب کے شبہ کو رفع فرمانے کے لیے ارشاد فرمایا: اگر ایسی خلوص کی دعوت روز ہو تو میں روز قبول کر وں۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص165)
سید ایوب علی صاحب فرماتے ہیں کہ:
ایک کمسن صاحبزادے نہایت ہی بے تکلفانہ انداز میں سادگی کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کی :میری بوا(یعنی والدہ ) نے آپ کی دعوت کی ہے،کل صبح کو بلایا ہے ۔اعلیٰ حضرت نے اُن سے دریافت فرمایا مجھے دعوت میں کیا کھلاؤ گے؟اس پر اُن صاحبزادے نے اپنے کُرتے کا دامن جو دونوں ہاتھوں سے پکڑ ے ہوئے تھے پھیلا دیا، جس میں ماش کی دال اور دو چار مرچیں پڑی ہوئی تھیں، کہنے لگے دیکھئے ناں!یہ دال لایا ہوں ۔ حضورنے اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا :اچھا! میں اوریہ( حاجی کفایت اللہ صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )کل دس بجے دن کے آئیں گے، پھر حاجی صاحب سے فرمایا مکان کا پتہ دریافت کر لیجئے ۔ غرض صاحبزادے مکان کا پتہ بتا کر خوش خوش چلے گئے ۔ دوسرے دن وقت ِ معین پر حضور عصائے مبارک ہاتھ میں لئے ہوئے باہر تشریف لائے اور حاجی صاحب سے فرمایا چلئے۔ اُنہوں نے عرض کی کہاں؟فرمایا اُن صاحبزادے کے ہاں دعو ت کا وعدہ جو کیا تھا،آپ کو مکان کا پتا معلوم ہو گیا یا نہیں ؟عرض کیا :جی حضور ’’ محلہ ملوکپور ‘‘ میں ہے اور ساتھ ہو لئے ۔
جس وقت مکان پر پہنچے تو وہ صاحبزادے دروازہ پر کھڑے انتظار میں تھے ،حضور کو دیکھتے ہی یہ کہتے ہوئے بھاگے ارے بوا! مولوی صاحب آگئے،آپ مکان کے اند ر تشریف لے گئے، اندر دروازہ کے قریب ہی ایک چھپرپڑا ہوا تھا ،وہاں کھڑے ہو کر انتظار فرمانے لگے کچھ دیرکے بعد ایک بوسید ہ چٹائی (آپ کے تشریف فرما ہونے کے لیے )آئی اور ڈھلیا میں موٹی موٹی باجر ہ کی روٹیا ں اور مٹی کی رکابی میں وہی ماش کی دال جس میں مرچوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے(سامنے) لا کر رکھی دی اور کہنے لگے: کھائیے!
حضور نے فرمایا بہت اچھا کھاتا ہوں! ہاتھ دھونے کے لیے پانی لے آئیے ۔ادھر وہ صاحبزادے پانی لانے کو گئے اور اِدھر حاجی صاحب نے کہا کہ حضور یہ مکان نقارچی(نقارہ بجانے والا) کا ہے۔حضور یہ سن کر(غایت تقویٰ کی وجہ سے) کبیدہ خاطر ہوئے او رفرمایا’’ابھی کیوں کہا،کھانے کے بعد کہاہوتا‘‘۔
اتنے میں وہ صاحبزادے پانی لے کر حاضر ہوئے ، حضور نے دریافت فرمایا کہ: آپ کے والد کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں ؟ دروازے کے پردے میں سے اُن صاحبزاد ے کی والد ہ نے عرض کی :حضور !میر ے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، وہ کسی زمانے میں نوبت بجاتے تھے اس کے بعد توبہ کر لی تھی ، اب صرف یہ لڑکا ہے جو راج مزدوروں کے ساتھ مزدوری کرتا ہے۔حضور نے(مسرت سے) الحمد للہ کہا اور دُعائے خیر و برکت فرمائی ۔
حاجی صاحب نے حضور کے ہاتھ دھلوائے اور خود بھی ہاتھ دھو کر شریکِ طعام ہو گئے ،مگر دل ہی دل میں حاجی صاحب کے یہ خیال گشت کر رہا تھا کہ حضور کو کھانے میں بہت احتیاط ہے ۔ غذا میں سوجی کا بسکٹ استعمال ہو تا ہے ۔ یہ روٹی اوروہ بھی باجرہ کی اور اس پر ماش کی دال کس طرح تناول فرمائیں گے۔مگر قربان اِس اخلا ق اور دلداری کے کہ میزبان کی خوشی کے لیے خوب سیر ہو کر کھایا ۔
حاجی صاحب فرماتے تھے کہ میں جب تک کھاتا رہاحضور بھی برابر تناول فرماتے رہے، وہاں سے واپسی پر حاجی صاحب کے شبہ کو رفع فرمانے کے لیے ارشاد فرمایا: اگر ایسی خلوص کی دعوت روز ہو تو میں روز قبول کر وں۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص165)
قدم بوسی نہ کرنے دیتے
’’ملفوظات ِ اعلیٰ حضر ت‘‘ میں ہے کہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضر ت ایک صاحب کی طرف متوجہ ہو کر حکم ِ مسئلہ ارشاد فرمارہے تھے ،کہ ایک دوسرے صاحب نے یہ موقع قدم بوسی سے فیض یاب ہونے کا اچھا سمجھا،قد م بوس ہوئے، فوراً(اعلیٰ حضرت کے) چہرہء مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا اور ارشاد فرمایا:
’’اس طرح میرے قلب کو سخت اذیت (یعنی تکلیف ) ہوتی ہے ۔ یوں تو ہر وقت قدم بوسی ناگوار ہوتی ہے مگر دو صورتوں میں سخت تکلیف ہوتی ہے ،ایک تو اُس وقت کہ میں وظیفہ میں ہوں ،دوسرے جب میں مشغول ہوں اور غفلت میں کوئی قدم بوس ہو کہ اُس وقت میں بول سکتا نہیں‘‘۔ (ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت حصہ چہارم از محمد مصطفی رضا خان مکتبہ المدینہ ص473)
ان قدموں میں کیا رکھا ہے ؟
اس ملفوظ کی تصدیق ’’حیات ِاعلیٰ حضرت‘‘میں درج اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے چنانچہ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ :
ایک مرتبہ حضورسید ی اعلیٰ حضرت کسی دوسرے شخص کی طرف متوجہ تھے کہ پیچھے سے (آپ کے مرید)حاجی نصرت یار خان صاحب قادری رضوی نے آکر قدم چوم لیے۔ اعلیٰ حضرت کو اس سے بہت رنج ہوا اورچہرہء مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا :
’’نصرت یار خان! اس سے بہتر تھا کہ میرے سینے میں تلوار کی نوک پیوست کرکے پیٹھ کی طرف نکال لیتے ، مجھے سخت اذیت اس سے ہوئی ، ان قدموں میں کیا رکھا ہے ؟ خوب یاد رکھو! اب کبھی ایسا نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گئے‘‘۔
جنابِ سید ایو ب علی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’جب بھی مزارِ پُر انوارِ (سید ی اعلیٰ حضرت )پر حاضری ہوتی ہے فوراً نصر ت یار خان کا واقعہ یاد آجاتا ہے اور اسی وجہ سے پائنتی کی جانب قبر شریف کو کبھی ہاتھ نہیں لگا تاکہ حضور کی روح ِپا ک کو ایذا پہنچے گی‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص739)
’’ملفوظات ِ اعلیٰ حضر ت‘‘ میں ہے کہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضر ت ایک صاحب کی طرف متوجہ ہو کر حکم ِ مسئلہ ارشاد فرمارہے تھے ،کہ ایک دوسرے صاحب نے یہ موقع قدم بوسی سے فیض یاب ہونے کا اچھا سمجھا،قد م بوس ہوئے، فوراً(اعلیٰ حضرت کے) چہرہء مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا اور ارشاد فرمایا:
’’اس طرح میرے قلب کو سخت اذیت (یعنی تکلیف ) ہوتی ہے ۔ یوں تو ہر وقت قدم بوسی ناگوار ہوتی ہے مگر دو صورتوں میں سخت تکلیف ہوتی ہے ،ایک تو اُس وقت کہ میں وظیفہ میں ہوں ،دوسرے جب میں مشغول ہوں اور غفلت میں کوئی قدم بوس ہو کہ اُس وقت میں بول سکتا نہیں‘‘۔ (ملفوظات ِ اعلیٰ حضرت حصہ چہارم از محمد مصطفی رضا خان مکتبہ المدینہ ص473)
ان قدموں میں کیا رکھا ہے ؟
اس ملفوظ کی تصدیق ’’حیات ِاعلیٰ حضرت‘‘میں درج اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے چنانچہ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ :
ایک مرتبہ حضورسید ی اعلیٰ حضرت کسی دوسرے شخص کی طرف متوجہ تھے کہ پیچھے سے (آپ کے مرید)حاجی نصرت یار خان صاحب قادری رضوی نے آکر قدم چوم لیے۔ اعلیٰ حضرت کو اس سے بہت رنج ہوا اورچہرہء مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا :
’’نصرت یار خان! اس سے بہتر تھا کہ میرے سینے میں تلوار کی نوک پیوست کرکے پیٹھ کی طرف نکال لیتے ، مجھے سخت اذیت اس سے ہوئی ، ان قدموں میں کیا رکھا ہے ؟ خوب یاد رکھو! اب کبھی ایسا نہ کرنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گئے‘‘۔
جنابِ سید ایو ب علی صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’جب بھی مزارِ پُر انوارِ (سید ی اعلیٰ حضرت )پر حاضری ہوتی ہے فوراً نصر ت یار خان کا واقعہ یاد آجاتا ہے اور اسی وجہ سے پائنتی کی جانب قبر شریف کو کبھی ہاتھ نہیں لگا تاکہ حضور کی روح ِپا ک کو ایذا پہنچے گی‘‘۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص739)
ساد گی
حضور سید ی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بڑی سادگی سے زندگی بسر فرمائی ۔آپ نے ہر شعبہء زندگی میں سادگی کواپنایا ،خواہ لباس ہو ، خوارک ہو ،یا رہن سہن ۔
’’حیات ِاعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ آپ اس قدر سادہ وضع میں رہتے کہ کوئی(نووارد)شخص یہ بھی خیال نہیں کرسکتا تھاکہ حضرت مولاناامام احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ،جن کی شہرت شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک ہے، یہی ہیں۔
احمد رضا میں ہی ہوں
ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہو ا کہ ایک صاحب کا ٹھیاواڑ سے حضور کی شہرت سن کر بریلی تشریف لائے ۔ ظہر کا وقت تھا اعلیٰ حضرت مسجد میں وضو فرما رہے تھے۔ سادہ وضع تھی ،چوڑی مہری کا پاجامہ ،ململ کا چھوٹا کرتہ ،معمولی ٹوپی ، مسجد کی فصیل پر بیٹھے ہوئے مٹی کے لوٹو ں سے وضو فرمارہے تھے کہ وہ صاحب مسجد میں تشریف لائے اور انہوں نے السلام علیکم کہا، اعلیٰ حضرت نے جوابِ سلام دیا ۔ اِس کے بعد انہوں نے اعلیٰ حضرت ہی سے دریافت فرمایا:’’میں مولانا احمد رضا خان کی زیارت کو آیا ہوں‘‘۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا :
احمد رضا میں ہی ہوں ،انہوں نے کہا کہ میں آپ کو نہیں میں مولانا احمد رضا خان کو ملنے آیا ہوں۔
آپ کبھی شہرت کا لباس،قیمتی عبا،قیمتی عمامہ وغیرہ استعمال نہیں فرماتے تھے،نہ ہی خاص مشائخانہ انداز اختیا ر فرمایا مثلاً خانقاہ، چلہ ، حلقہ وغیرہ، نہ ہی خدام کا مجمع ۔ آگے ،پیچھے ،ہٹو ،بڑھو کا اندازبھی نہ رکھا کہ اس کی وجہ سے لوگ خواہ مخواہ داخل ِسلسلہ ء عالیہ ہوتے ،پھر بھی مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرکے قریب ایک لاکھ کے پہنچ گئی تھی۔
دیگر مشائخِ عظام سے ہٹ کر
مزید ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ :
باوجود یکہ تبرکاتِ شریفہ و آثارِ منیفہ میں بہت سی نایاب چیزیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائیں مگر ہر مہینہ ان کی زیارت کرانے کا بھی دستور نہ تھا کہ اس ذریعہ سے لوگ خواہ مخواہ رجوع (مائل)ہوتے ۔ نہ اورپیروں کی طرح’’اللہ بھلا کرے بابا‘‘نہ آپ کا طریقہ یہ رہا جس میں ہر شخص خوش رہے ،نہ مذہب سے بحث نہ ملت سے غرض ۔ جو آیا سلام میاں کہا، فرمایا اللہ بھلا کرے ۔
بلکہ آپ ہمیشہ مرابط(وابستہ) فی سبیل اللہ رہے ۔ غازی جہادِ بالسیف والسِّنان (تیر و تلوار کے ساتھ ) کرتا ہے جبکہ آپ ہمیشہ ترقیءاسلام و دین کے لیے جہاد بالقلم واللِّسان(قلم و زبان کے ذریعے) میں مشغول رہے اور دین کے خلاف جس نے کوئی آواز بلند کی یا تحریر لکھی فوراً اس کی سرکوبی کے لیے مستعد(تیار)ہوگئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 696)
حضور سید ی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بڑی سادگی سے زندگی بسر فرمائی ۔آپ نے ہر شعبہء زندگی میں سادگی کواپنایا ،خواہ لباس ہو ، خوارک ہو ،یا رہن سہن ۔
’’حیات ِاعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ آپ اس قدر سادہ وضع میں رہتے کہ کوئی(نووارد)شخص یہ بھی خیال نہیں کرسکتا تھاکہ حضرت مولاناامام احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ،جن کی شہرت شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک ہے، یہی ہیں۔
احمد رضا میں ہی ہوں
ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہو ا کہ ایک صاحب کا ٹھیاواڑ سے حضور کی شہرت سن کر بریلی تشریف لائے ۔ ظہر کا وقت تھا اعلیٰ حضرت مسجد میں وضو فرما رہے تھے۔ سادہ وضع تھی ،چوڑی مہری کا پاجامہ ،ململ کا چھوٹا کرتہ ،معمولی ٹوپی ، مسجد کی فصیل پر بیٹھے ہوئے مٹی کے لوٹو ں سے وضو فرمارہے تھے کہ وہ صاحب مسجد میں تشریف لائے اور انہوں نے السلام علیکم کہا، اعلیٰ حضرت نے جوابِ سلام دیا ۔ اِس کے بعد انہوں نے اعلیٰ حضرت ہی سے دریافت فرمایا:’’میں مولانا احمد رضا خان کی زیارت کو آیا ہوں‘‘۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا :
احمد رضا میں ہی ہوں ،انہوں نے کہا کہ میں آپ کو نہیں میں مولانا احمد رضا خان کو ملنے آیا ہوں۔
آپ کبھی شہرت کا لباس،قیمتی عبا،قیمتی عمامہ وغیرہ استعمال نہیں فرماتے تھے،نہ ہی خاص مشائخانہ انداز اختیا ر فرمایا مثلاً خانقاہ، چلہ ، حلقہ وغیرہ، نہ ہی خدام کا مجمع ۔ آگے ،پیچھے ،ہٹو ،بڑھو کا اندازبھی نہ رکھا کہ اس کی وجہ سے لوگ خواہ مخواہ داخل ِسلسلہ ء عالیہ ہوتے ،پھر بھی مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرکے قریب ایک لاکھ کے پہنچ گئی تھی۔
دیگر مشائخِ عظام سے ہٹ کر
مزید ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ :
باوجود یکہ تبرکاتِ شریفہ و آثارِ منیفہ میں بہت سی نایاب چیزیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرمائیں مگر ہر مہینہ ان کی زیارت کرانے کا بھی دستور نہ تھا کہ اس ذریعہ سے لوگ خواہ مخواہ رجوع (مائل)ہوتے ۔ نہ اورپیروں کی طرح’’اللہ بھلا کرے بابا‘‘نہ آپ کا طریقہ یہ رہا جس میں ہر شخص خوش رہے ،نہ مذہب سے بحث نہ ملت سے غرض ۔ جو آیا سلام میاں کہا، فرمایا اللہ بھلا کرے ۔
بلکہ آپ ہمیشہ مرابط(وابستہ) فی سبیل اللہ رہے ۔ غازی جہادِ بالسیف والسِّنان (تیر و تلوار کے ساتھ ) کرتا ہے جبکہ آپ ہمیشہ ترقیءاسلام و دین کے لیے جہاد بالقلم واللِّسان(قلم و زبان کے ذریعے) میں مشغول رہے اور دین کے خلاف جس نے کوئی آواز بلند کی یا تحریر لکھی فوراً اس کی سرکوبی کے لیے مستعد(تیار)ہوگئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ازمولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 696)
اطاعتِ والدین
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات میں جہاں اور بہت سی خصوصیات تھیں وہیں پر آپ میں اطاعت ِ والدین کی خصوصیت بدرجہء اتم موجودتھی ۔ آپ نے ہمیشہ اُن کی اطاعت کی، یہاں تک کہ بعد از وصال اگر والدین نے خواب میں آکر کوئی حکم فرمایا تو آپ نے اُس کی بھی پیروی فرمائی ۔
والدِ گرامی کے وصال کے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی والدہ محترمہ کی کس طرح اطاعت و دلجوئی فرمائی ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ کے درجہ ذیل اقتباس سے آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں :
سب اختیا روالد ہء ماجد ہ کے سپرد تھا:
چنانچہ مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
جب اعلیٰ حضرت کے والد ماجد مولاناشاہ نقی علی خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہواتو آپ اپنے حصہءجائیداد کے خود مالک تھے،مگر سب اختیاروالد ہء ماجد ہ کے سپرد تھا ۔ وہ پوری مالکہ و متصرفہ تھیں، جس طرح چاہتیں صرف کرتیں ۔ جب آپ کو کتابوں کی خریداری کے لیے کسی غیر معمولی رقم کی ضرورت پڑتی تو والدہ ماجدہ کی خدمت میں درخواست کرتے، اور اپنی ضرورت ظاہر کرتے ۔جب وہ اجازت دیتیں اور درخواست منظور کرتیں تو کتابیں منگواتے تھے۔
اماں اور ماریئے:
اعلیٰ حضر ت کی والد ہ کی اطاعت کا ایک عجیب منظر ملاحظہ کیجئے جس کا ذکر مولانا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کرتے ہیں :
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت قبلہ(اپنے صاحبزادے)حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کو(جبکہ وہ چھوٹے بچے تھے) گھر کے ایک دالان میں پڑھانے بیٹھے ،وہ پچھلا سبق سنکر آگے سبق دیتے تھے پچھلا سبق جو سنا تو وہ یاد نہ تھا اس پر ان کو سزادی ۔ اعلیٰ حضرت کی والدہ محترمہ جو دوسرے دالان کے کسی گوشے میں تشریف فرماتھیں انھیں کسی طرح اس کی خبر ہو گئی وہ(اپنے پوتے) حضر ت حجۃ الاسلام کو بہت چاہتی تھیں ، غصہ میں بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دوہتڑ(دونوں ہاتھوں سے مارنا )مارا اور فرمایا ’’تم میرے حامد کو مارتے ہو‘‘ اعلیٰ حضرت فوراً جھک کر کھڑے ہو گئے اوراپنی والدہ محترمہ سے عرض کیا کہ ’’اماں اور ماریئے جب تک کہ آپ کا غصہ فر و نہ ہو‘‘ ۔یہ سننے کے بعد انہوں نے ایک دوہتڑاورمارا،اعلیٰ حضرت سر جھکائے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خو د واپس تشریف لے گئیں ۔ اس وقت تو جو غصہ میں ہونا تھا ہو گیا مگربعدمیں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دو ہتڑ مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے کہ ایسے مطیع و فرماں بردار بیٹے کہ جس نے خود کو پٹنے کے لیے پیش کر دیاکیسے مارا۔ افسوس ۔
(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص91)
دوسرے حج پر والدہ سے اجازت کیسے لی:
مولانا محمد ظفرالدین بہاری قادری صاحب نقل فرماتے ہیں :
یہ میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا محمد رضا خان (اعلیٰ حضر ت کے برادرِ اصغر ) اور(شہزادہ ء اعلیٰ حضرت) حضرتِ حجۃ الاسلام مولاناشاہ حامد رضا خان اور حضور (اعلیٰ حضرت)کی اہلیہ محترمہ 1323ھ بمطابق 1905ء میں حج و زیارت کے لیے روانہ ہوئیں،تواعلیٰ حضرت خود جھانسی تک اُن کو پہنچانے تشریف لے گئے ۔ کہ وہاں سے بمبئی میل (ریل کا نام )پر وہ لوگ روانہ ہونے تھے۔ جو سیدھی بمبئی جاتی اور کہیں بدلنا نہ پڑتی۔
اس وقت تک اعلیٰ حضرت کا قصد حج و زیارت کے لیے سفر کا بالکل نہ تھا۔کیونکہ پہلے ہی حجِ فرض ادا ہو چکا تھا ۔ زیارت سے مشرف ہوچکے تھے ،صرف ان کو مشایعت(رخصت کرنے کے لیے چند قدم ساتھ جانا ) مقصود تھی۔ اسی درمیان میں اعلیٰ حضرت کو اپنی نعتیہ غزل یاد آگئی۔ جس کا مطلع یہ ہے:
گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سار ا ہو کر
اس کا ایک شعر یہ بھی ہے:
وائے محرومیء قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرَہ ِ زُوّارِ مدینہ ہوکر
اس کا یاد آنا تھا کہ آپ کا دل بے چین ہو گیا اور وہی ہوا جس کو حضور نے دوسری غزل میں فرمایا ہے:
پھر اٹھا ولولہء یادِ مغیلانِ عرب
پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابانِ عرب
اُسی وقت حج وزیارت بلکہ خاص زیارتِ سرور ِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا قصدِ مصمم فرمایا ، لیکن والدہ ماجدہ کی اجازت کے بغیر سفر مناسب نہ جانا،(کیونکہ نفلی حج کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے )اس لیے ان کی گاڑی چھوٹنے کے بعد بریلی واپس تشریف لائے اور والدہ ماجدہ سے اجازت کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت مکتبہ نبویہ لاہور ص108)
قدموں پر سر رکھ دیا :
اس سے آگے کا ذکر خود اعلیٰ حضرت ہی کی زبانی سنئے ۔’’ملفوظات ِاعلیٰ حضرت‘‘ حصہ دوم میں ہے ۔
(بریلی شریف واپس پہنچنے کے بعد میں)عشاکی نماز سے اول وقت ہی فارغ ہولیا ۔شِکْرَم(یعنی چار پہیوں والی مخصوص گاڑی)بھی آگئی ۔ صرف والدہ ماجدہ سے اِجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مَسْئَلَہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اِجازت نہ دیں گی، کس طرح عرض کروں،اور بغیر اجازتِ والد ہ حج ِ نفل کو جانا حرام ۔ آخر کار اندر مکان میں گیا، دیکھا کہ حضرت ِوالدہ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرماتی ہیں ۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا ،وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں اور فرمایا :’’کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’حضور !مجھے حج کی اجازت دے دیجئے۔‘‘ پہلا لفظ جو فرمایا یہ تھا کہ :’’خدا حافظ!‘‘۔
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات میں جہاں اور بہت سی خصوصیات تھیں وہیں پر آپ میں اطاعت ِ والدین کی خصوصیت بدرجہء اتم موجودتھی ۔ آپ نے ہمیشہ اُن کی اطاعت کی، یہاں تک کہ بعد از وصال اگر والدین نے خواب میں آکر کوئی حکم فرمایا تو آپ نے اُس کی بھی پیروی فرمائی ۔
والدِ گرامی کے وصال کے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی والدہ محترمہ کی کس طرح اطاعت و دلجوئی فرمائی ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ کے درجہ ذیل اقتباس سے آپ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں :
سب اختیا روالد ہء ماجد ہ کے سپرد تھا:
چنانچہ مولانا ظفرالدین بہاری صاحب تحریر فرماتے ہیں :
جب اعلیٰ حضرت کے والد ماجد مولاناشاہ نقی علی خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہواتو آپ اپنے حصہءجائیداد کے خود مالک تھے،مگر سب اختیاروالد ہء ماجد ہ کے سپرد تھا ۔ وہ پوری مالکہ و متصرفہ تھیں، جس طرح چاہتیں صرف کرتیں ۔ جب آپ کو کتابوں کی خریداری کے لیے کسی غیر معمولی رقم کی ضرورت پڑتی تو والدہ ماجدہ کی خدمت میں درخواست کرتے، اور اپنی ضرورت ظاہر کرتے ۔جب وہ اجازت دیتیں اور درخواست منظور کرتیں تو کتابیں منگواتے تھے۔
اماں اور ماریئے:
اعلیٰ حضر ت کی والد ہ کی اطاعت کا ایک عجیب منظر ملاحظہ کیجئے جس کا ذکر مولانا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کرتے ہیں :
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت قبلہ(اپنے صاحبزادے)حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کو(جبکہ وہ چھوٹے بچے تھے) گھر کے ایک دالان میں پڑھانے بیٹھے ،وہ پچھلا سبق سنکر آگے سبق دیتے تھے پچھلا سبق جو سنا تو وہ یاد نہ تھا اس پر ان کو سزادی ۔ اعلیٰ حضرت کی والدہ محترمہ جو دوسرے دالان کے کسی گوشے میں تشریف فرماتھیں انھیں کسی طرح اس کی خبر ہو گئی وہ(اپنے پوتے) حضر ت حجۃ الاسلام کو بہت چاہتی تھیں ، غصہ میں بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دوہتڑ(دونوں ہاتھوں سے مارنا )مارا اور فرمایا ’’تم میرے حامد کو مارتے ہو‘‘ اعلیٰ حضرت فوراً جھک کر کھڑے ہو گئے اوراپنی والدہ محترمہ سے عرض کیا کہ ’’اماں اور ماریئے جب تک کہ آپ کا غصہ فر و نہ ہو‘‘ ۔یہ سننے کے بعد انہوں نے ایک دوہتڑاورمارا،اعلیٰ حضرت سر جھکائے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خو د واپس تشریف لے گئیں ۔ اس وقت تو جو غصہ میں ہونا تھا ہو گیا مگربعدمیں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دو ہتڑ مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے کہ ایسے مطیع و فرماں بردار بیٹے کہ جس نے خود کو پٹنے کے لیے پیش کر دیاکیسے مارا۔ افسوس ۔
(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص91)
دوسرے حج پر والدہ سے اجازت کیسے لی:
مولانا محمد ظفرالدین بہاری قادری صاحب نقل فرماتے ہیں :
یہ میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا محمد رضا خان (اعلیٰ حضر ت کے برادرِ اصغر ) اور(شہزادہ ء اعلیٰ حضرت) حضرتِ حجۃ الاسلام مولاناشاہ حامد رضا خان اور حضور (اعلیٰ حضرت)کی اہلیہ محترمہ 1323ھ بمطابق 1905ء میں حج و زیارت کے لیے روانہ ہوئیں،تواعلیٰ حضرت خود جھانسی تک اُن کو پہنچانے تشریف لے گئے ۔ کہ وہاں سے بمبئی میل (ریل کا نام )پر وہ لوگ روانہ ہونے تھے۔ جو سیدھی بمبئی جاتی اور کہیں بدلنا نہ پڑتی۔
اس وقت تک اعلیٰ حضرت کا قصد حج و زیارت کے لیے سفر کا بالکل نہ تھا۔کیونکہ پہلے ہی حجِ فرض ادا ہو چکا تھا ۔ زیارت سے مشرف ہوچکے تھے ،صرف ان کو مشایعت(رخصت کرنے کے لیے چند قدم ساتھ جانا ) مقصود تھی۔ اسی درمیان میں اعلیٰ حضرت کو اپنی نعتیہ غزل یاد آگئی۔ جس کا مطلع یہ ہے:
گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سار ا ہو کر
اس کا ایک شعر یہ بھی ہے:
وائے محرومیء قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرَہ ِ زُوّارِ مدینہ ہوکر
اس کا یاد آنا تھا کہ آپ کا دل بے چین ہو گیا اور وہی ہوا جس کو حضور نے دوسری غزل میں فرمایا ہے:
پھر اٹھا ولولہء یادِ مغیلانِ عرب
پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابانِ عرب
اُسی وقت حج وزیارت بلکہ خاص زیارتِ سرور ِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا قصدِ مصمم فرمایا ، لیکن والدہ ماجدہ کی اجازت کے بغیر سفر مناسب نہ جانا،(کیونکہ نفلی حج کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے )اس لیے ان کی گاڑی چھوٹنے کے بعد بریلی واپس تشریف لائے اور والدہ ماجدہ سے اجازت کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت مکتبہ نبویہ لاہور ص108)
قدموں پر سر رکھ دیا :
اس سے آگے کا ذکر خود اعلیٰ حضرت ہی کی زبانی سنئے ۔’’ملفوظات ِاعلیٰ حضرت‘‘ حصہ دوم میں ہے ۔
(بریلی شریف واپس پہنچنے کے بعد میں)عشاکی نماز سے اول وقت ہی فارغ ہولیا ۔شِکْرَم(یعنی چار پہیوں والی مخصوص گاڑی)بھی آگئی ۔ صرف والدہ ماجدہ سے اِجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مَسْئَلَہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اِجازت نہ دیں گی، کس طرح عرض کروں،اور بغیر اجازتِ والد ہ حج ِ نفل کو جانا حرام ۔ آخر کار اندر مکان میں گیا، دیکھا کہ حضرت ِوالدہ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرماتی ہیں ۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا ،وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں اور فرمایا :’’کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’حضور !مجھے حج کی اجازت دے دیجئے۔‘‘ پہلا لفظ جو فرمایا یہ تھا کہ :’’خدا حافظ!‘‘۔
حیرت انگیز قُوتِ حافظہ
حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہتکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرمادیتے کہ “رَدُّالمُحْتَار”جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔”دُرِّ مُخْتَار” کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔ “عالمگیری”میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں “مَبْسُوط” میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتادیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خُداداد قوّتِ حافِظہ سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج ۱، ص ۲۱۰ ،مکتبۃ المدینہ ، بابُ المدینہ کراچی)
صرف ایک ماہ میں حِفْظِ قراٰن
حضرتِ جناب سیِّد ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سَیِّدایّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی روز سے دَور شُروع کردیا جس کا وَقْت غالِباً عشاء کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روزتیسواں پارہ یاد فرمالیا۔ایک موقعہ پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اِس لیے کہ ان بندگانِ خُداکا (جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں) کہنا غلط ثابت نہ ہو۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج۱، ص ۲۰۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہتکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرمادیتے کہ “رَدُّالمُحْتَار”جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔”دُرِّ مُخْتَار” کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔ “عالمگیری”میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں “مَبْسُوط” میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتادیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خُداداد قوّتِ حافِظہ سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج ۱، ص ۲۱۰ ،مکتبۃ المدینہ ، بابُ المدینہ کراچی)
صرف ایک ماہ میں حِفْظِ قراٰن
حضرتِ جناب سیِّد ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سَیِّدایّوب علی صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی روز سے دَور شُروع کردیا جس کا وَقْت غالِباً عشاء کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روزتیسواں پارہ یاد فرمالیا۔ایک موقعہ پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اِس لیے کہ ان بندگانِ خُداکا (جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں) کہنا غلط ثابت نہ ہو۔ (حیاتِ اعلٰی حضرت، ج۱، ص ۲۰۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
صبرو رضاکی تلقینِ
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نہ صرف خود صبر ورضا کا پیکر تھے بلکہ دوسروں کو بھی صبر ورضا کی تلقین فرمایا کرتے، چنانچہ حضرت مولانا عرفان علی صاحب بیسلپوری کے صاحبزادے کے وصال پر اُن سے تعزیت کرتے ہوئے اپنے مکتوب محررہ 1336ھ میں تحریر فرماتے ہیں:
انتقال ِبرخوردار معلوم ہوااِنَّا لِلّٰہِِ وَاِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡن اللہ کا ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا، اور ہر چیز کی اس کے یہاں عمر مقرر ہے ،اس سے کمی بیشی نامتصورہے ، بے صبری سے گئی چیز واپس نہیں آ سکتی ہاں! اللہ کا ثواب جاتا ہے جو ہر چیز سے اعزواعلی ہے اور محروم تو وہی ہے جو ثواب سے محروم رہا۔
صحیح حدیث میں ہے:
جب فرشتے مسلمان کے بچے کی روح قبض کر کے حاضر ِ ِبار گاہ ہوتے ہیں تو مولیٰ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے(اور وہ خوب جانتا ہے)کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی؟، عرض کرتے ہیں’’ہاں! اے رب ہمارے‘‘ فرماتاہے’’کیا تم نے دل کا پھل توڑ لیا‘‘عرض کرتے ہیں ’’ہاں !اے رب ہمارے‘‘فرماتا ہے پھر اُس نے کیا کہا ؟عرض کرتے ہیں’’تیری حمد بجالایا اور الحمد للہ کہا‘‘فرماتا ہے’’گواہ رہو میں نے اُسے بخش دیا اور جنت میں اس کے لیے مکان تیار کر واور ا س کا نام بیت الحمد رکھو‘‘۔ (مکتوبات اعلیٰ حضرت از مولانا پیر محمود احمد صاحب مکتبہ نبویہ لاہور ص113)
صابروں کو بے حساب اجر دیا جائے گا
اِنہی کے نام دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
اُسی کاہے جو اُس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا ،اور ہر چیز کی اس کے یہاں ایک عمر مقرر ہے جس میں کمی بیشی نامتصور ہے اور محروم تو وہ ہے جو ثواب سے محروم رہا بے صبری سے جانے والی چیز واپس آئے گی؟ ہرگز نہیں، مگر مولیٰ تبارک و تعالیٰ کا ثواب جائے گا ۔ وہ ثواب کہ لاکھوں جانوں کی قیمت سے اعلیٰ ہے ۔توکیا مقتضائے عقل (عقل کا تقاضا)ہے کہ کھوئی ہوئی چیز ملے بھی نہیں اور ایسی عظیم ملتی ہوئی دولت (یعنی ثواب)خود ہاتھ سے کھوئی جائے ،صابروں کو اجر حساب سے نہ دیا جائے گا بلکہ بے حساب یہا ں تک کہ جنہوں نے صبر نہ کیا تھا روز ِ قیامت تمنا کریں گے کاش! اُن کے گوشت قینچیوں سے کترے جاتے اور یہ ثواب پاتے ۔
دوسرے کے جانے کی فکر اس وقت چاہیے کہ خود جانا(مرنا) نہ ہو اورجب اپنے سر پر بھی جانا رکھا ہے تو فکر اس کی چاہیے کہ جانا اچھی طرح ہو، کہ وہاں مسلمان عزیزوں سے نعمت کے گھر میں ایسا ملنا ہو کہ پھر کبھی جدائی نہیں۔
’’لاحول شریف‘‘کی کثرت کیجئے اور ساٹھ بار پڑھ کر پانی پر دم کر کے پی لیا کیجئے ۔آپ بفضلہ تعالیٰ عاقل ہیں،اوروں کو ہدایت ِ صبر کیجئے ،سب کو دعا و سلام ۔ (مکتوبات اعلیٰ حضرت از مولانا پیر محمود احمد صاحب مکتبہ نبویہ لاہور ص114)
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نہ صرف خود صبر ورضا کا پیکر تھے بلکہ دوسروں کو بھی صبر ورضا کی تلقین فرمایا کرتے، چنانچہ حضرت مولانا عرفان علی صاحب بیسلپوری کے صاحبزادے کے وصال پر اُن سے تعزیت کرتے ہوئے اپنے مکتوب محررہ 1336ھ میں تحریر فرماتے ہیں:
انتقال ِبرخوردار معلوم ہوااِنَّا لِلّٰہِِ وَاِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡن اللہ کا ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا، اور ہر چیز کی اس کے یہاں عمر مقرر ہے ،اس سے کمی بیشی نامتصورہے ، بے صبری سے گئی چیز واپس نہیں آ سکتی ہاں! اللہ کا ثواب جاتا ہے جو ہر چیز سے اعزواعلی ہے اور محروم تو وہی ہے جو ثواب سے محروم رہا۔
صحیح حدیث میں ہے:
جب فرشتے مسلمان کے بچے کی روح قبض کر کے حاضر ِ ِبار گاہ ہوتے ہیں تو مولیٰ تعالیٰ عزوجل فرماتا ہے(اور وہ خوب جانتا ہے)کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کر لی؟، عرض کرتے ہیں’’ہاں! اے رب ہمارے‘‘ فرماتاہے’’کیا تم نے دل کا پھل توڑ لیا‘‘عرض کرتے ہیں ’’ہاں !اے رب ہمارے‘‘فرماتا ہے پھر اُس نے کیا کہا ؟عرض کرتے ہیں’’تیری حمد بجالایا اور الحمد للہ کہا‘‘فرماتا ہے’’گواہ رہو میں نے اُسے بخش دیا اور جنت میں اس کے لیے مکان تیار کر واور ا س کا نام بیت الحمد رکھو‘‘۔ (مکتوبات اعلیٰ حضرت از مولانا پیر محمود احمد صاحب مکتبہ نبویہ لاہور ص113)
صابروں کو بے حساب اجر دیا جائے گا
اِنہی کے نام دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
اُسی کاہے جو اُس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا ،اور ہر چیز کی اس کے یہاں ایک عمر مقرر ہے جس میں کمی بیشی نامتصور ہے اور محروم تو وہ ہے جو ثواب سے محروم رہا بے صبری سے جانے والی چیز واپس آئے گی؟ ہرگز نہیں، مگر مولیٰ تبارک و تعالیٰ کا ثواب جائے گا ۔ وہ ثواب کہ لاکھوں جانوں کی قیمت سے اعلیٰ ہے ۔توکیا مقتضائے عقل (عقل کا تقاضا)ہے کہ کھوئی ہوئی چیز ملے بھی نہیں اور ایسی عظیم ملتی ہوئی دولت (یعنی ثواب)خود ہاتھ سے کھوئی جائے ،صابروں کو اجر حساب سے نہ دیا جائے گا بلکہ بے حساب یہا ں تک کہ جنہوں نے صبر نہ کیا تھا روز ِ قیامت تمنا کریں گے کاش! اُن کے گوشت قینچیوں سے کترے جاتے اور یہ ثواب پاتے ۔
دوسرے کے جانے کی فکر اس وقت چاہیے کہ خود جانا(مرنا) نہ ہو اورجب اپنے سر پر بھی جانا رکھا ہے تو فکر اس کی چاہیے کہ جانا اچھی طرح ہو، کہ وہاں مسلمان عزیزوں سے نعمت کے گھر میں ایسا ملنا ہو کہ پھر کبھی جدائی نہیں۔
’’لاحول شریف‘‘کی کثرت کیجئے اور ساٹھ بار پڑھ کر پانی پر دم کر کے پی لیا کیجئے ۔آپ بفضلہ تعالیٰ عاقل ہیں،اوروں کو ہدایت ِ صبر کیجئے ،سب کو دعا و سلام ۔ (مکتوبات اعلیٰ حضرت از مولانا پیر محمود احمد صاحب مکتبہ نبویہ لاہور ص114)
حق گوئی
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی بھی حق بات کہنے میں نہ ہچکچائے ،اپنا ہو،پرایاہو، بڑاہو، چھوٹا ہو،حاکم ہو،یا محکوم الغرض آپ نے ہمیشہ حق بات کہی،حق گوئی کی صفت بچپن ہی سے آپ میں نمایا ں رہی چنانچہ۔
یہ تو جواب نہ ہوا
ایک دن آپ کے استاد ِگرامی بچوں کوتعلیم دے رہے تھے کہ ایک لڑکے نے سلام کیا استاد نے جواب میں فرمایا ’’جیتے رہو‘‘اس پر حضورِ اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو جواب نہ ہوا’’وعلیکم السلام‘‘کہنا چاہیے تھا آپ کے اس جذبہء اظہار پر آپ کے استاد بے حد مسرور ہوئے اور آ پ کو بڑی بڑی نیک دُعاؤں سے نوازا۔
قربان جائیے !آپ کو ابتدائے عمر ہی میں اِسلام کا کتنا بلند فکر و شعور عطا ہو ا تھا۔ (مجدد اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 37)
فتاویٰ لکھنے میں اظہارِ حق
اعلیٰ حضرت کی عمر شریف ابھی صرف 19-20سال تھی اور آپ کو فتاویٰ تحریر کرتے ہوئے تقریباً 6 سال ہوچکے تھے کہ آپ کے ساتھ یہ دلچسپ واقعہ پیش آیا جس سے آپ کی حق گوئی و حق پسندی کا اندازہ ہو تا ہے ،چنانچہ:
ایک صاحب ’’رام پور‘‘ سےحضرتِ اقدس مولاناشاہ نقی علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم ِگرامی سن کر بریلی آئے اور ایک فتویٰ پیش کیا ، جس میں جناب مولانا ارشاد حسین مجددی رامپوری(صاحب ِ ارشاد الصرف) کا فتویٰ تحریر تھا ،جس پر اکثر علمائے کرام کی مہریں اور دستخط تھے۔ حضرت مولانا شاہ نقی علی خان صاحب نے فرمایا کہ کمرے میں مولوی صاحب ہیں اُن کو دیدیجئے جواب لکھ دیں گے ،وہ کمرے میں گئے اور واپس آکر عرض کیا کہ وہاں تو کوئی مولوی صاحب نہیں ہیں ،فقط ایک صاحبزادے ہیں ۔
حضرت نے فرمایا’’اُنہیں کو دے دیں وہ لکھ دیں گے‘‘۔انہوں نے عرض کی :حضور میں تو آپ کا شہر ہ سن کر آیا ہوں ،حضرت نے فرمایا’’آج کل وہی فتویٰ لکھا کرتے ہیں اُنہیں کو دے دیجئے‘‘غرض ان صاحب نے یہ فتویٰ اعلی حضرت کی بارگاہ میں پیش کر دیا ۔
اعلیٰ حضرت نے جو اس فتویٰ کو دیکھاتو ٹھیک نہ تھا۔ آ پ نے اس جواب کے خلاف جواب تحریر فرما کر اپنے والد ِماجد کی خدمت میں پیش کیا اورحضرت مولاناشاہ نقی علی خان صاحب نے اس جواب کی تصدیق فرما دی ۔
حق وہی ہے جو اعلیٰ حضرت نے لکھا
وہ صاحب اِس فتوے کو لے کر رامپور پہنچے،(یہ فتویٰ دراصل نواب آف رامپور ہی کی طرف سے تصدیق کے لیے بھیجا گیا تھا )جب نواب آف رامپور(نواب کلب علی خان) کی نظر سے یہ فتویٰ گزرا توشروع سے آخر تک اس فتوے کو پڑھا۔ اورمولانا ارشادحسین صاحب کو بلالیا،آپ تشریف لائے تو وہ فتویٰ آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔
مولاناارشادحسین صاحب کی حق پسند ی و حق گوئی ملاحظہ ہو ،صاف فرمایا’’فی الحقیقت وہی حکم صحیح ہے جو بریلی شریف سے آیا ہے‘‘نواب صاحب نے پوچھا پھر اتنے علماء نے آپ کے جواب کی تصدیق کس طرح کر دی ۔ فرمایا اُن حضرات نے مجھ پر میری شہرت کی وجہ سے اعتما دکیا اور میرے فتویٰ کی تصدیق کر دی ورنہ حق وہی ہے جو اِنہوں نے لکھا ۔۔۔۔۔۔یہ سن کر کہ اعلیٰ حضرت جنہوں نے یہ فتویٰ لکھا ہے کی عمر شریف صرف 19-20سال ہے، نواب صاحب کو ملاقات کا شوق ہوا ۔
(اعلیٰ حضرت کی شادی رامپور میں جنابِ شیخ فضل حسین صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی تھی، شیخ فضل حسین صاحب رامپور کے ڈاک خانے میں اعلیٰ افسر کی حیثیت سے تھے اور نواب صاحب کے مقربین میں سے تھے ۔ اُن کے ذریعے نوا ب صاحب اعلیٰ حضرت سے ملاقات کے متمنی ہوئے ۔)
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی بھی حق بات کہنے میں نہ ہچکچائے ،اپنا ہو،پرایاہو، بڑاہو، چھوٹا ہو،حاکم ہو،یا محکوم الغرض آپ نے ہمیشہ حق بات کہی،حق گوئی کی صفت بچپن ہی سے آپ میں نمایا ں رہی چنانچہ۔
یہ تو جواب نہ ہوا
ایک دن آپ کے استاد ِگرامی بچوں کوتعلیم دے رہے تھے کہ ایک لڑکے نے سلام کیا استاد نے جواب میں فرمایا ’’جیتے رہو‘‘اس پر حضورِ اعلیٰ حضر ت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو جواب نہ ہوا’’وعلیکم السلام‘‘کہنا چاہیے تھا آپ کے اس جذبہء اظہار پر آپ کے استاد بے حد مسرور ہوئے اور آ پ کو بڑی بڑی نیک دُعاؤں سے نوازا۔
قربان جائیے !آپ کو ابتدائے عمر ہی میں اِسلام کا کتنا بلند فکر و شعور عطا ہو ا تھا۔ (مجدد اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 37)
فتاویٰ لکھنے میں اظہارِ حق
اعلیٰ حضرت کی عمر شریف ابھی صرف 19-20سال تھی اور آپ کو فتاویٰ تحریر کرتے ہوئے تقریباً 6 سال ہوچکے تھے کہ آپ کے ساتھ یہ دلچسپ واقعہ پیش آیا جس سے آپ کی حق گوئی و حق پسندی کا اندازہ ہو تا ہے ،چنانچہ:
ایک صاحب ’’رام پور‘‘ سےحضرتِ اقدس مولاناشاہ نقی علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسم ِگرامی سن کر بریلی آئے اور ایک فتویٰ پیش کیا ، جس میں جناب مولانا ارشاد حسین مجددی رامپوری(صاحب ِ ارشاد الصرف) کا فتویٰ تحریر تھا ،جس پر اکثر علمائے کرام کی مہریں اور دستخط تھے۔ حضرت مولانا شاہ نقی علی خان صاحب نے فرمایا کہ کمرے میں مولوی صاحب ہیں اُن کو دیدیجئے جواب لکھ دیں گے ،وہ کمرے میں گئے اور واپس آکر عرض کیا کہ وہاں تو کوئی مولوی صاحب نہیں ہیں ،فقط ایک صاحبزادے ہیں ۔
حضرت نے فرمایا’’اُنہیں کو دے دیں وہ لکھ دیں گے‘‘۔انہوں نے عرض کی :حضور میں تو آپ کا شہر ہ سن کر آیا ہوں ،حضرت نے فرمایا’’آج کل وہی فتویٰ لکھا کرتے ہیں اُنہیں کو دے دیجئے‘‘غرض ان صاحب نے یہ فتویٰ اعلی حضرت کی بارگاہ میں پیش کر دیا ۔
اعلیٰ حضرت نے جو اس فتویٰ کو دیکھاتو ٹھیک نہ تھا۔ آ پ نے اس جواب کے خلاف جواب تحریر فرما کر اپنے والد ِماجد کی خدمت میں پیش کیا اورحضرت مولاناشاہ نقی علی خان صاحب نے اس جواب کی تصدیق فرما دی ۔
حق وہی ہے جو اعلیٰ حضرت نے لکھا
وہ صاحب اِس فتوے کو لے کر رامپور پہنچے،(یہ فتویٰ دراصل نواب آف رامپور ہی کی طرف سے تصدیق کے لیے بھیجا گیا تھا )جب نواب آف رامپور(نواب کلب علی خان) کی نظر سے یہ فتویٰ گزرا توشروع سے آخر تک اس فتوے کو پڑھا۔ اورمولانا ارشادحسین صاحب کو بلالیا،آپ تشریف لائے تو وہ فتویٰ آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔
مولاناارشادحسین صاحب کی حق پسند ی و حق گوئی ملاحظہ ہو ،صاف فرمایا’’فی الحقیقت وہی حکم صحیح ہے جو بریلی شریف سے آیا ہے‘‘نواب صاحب نے پوچھا پھر اتنے علماء نے آپ کے جواب کی تصدیق کس طرح کر دی ۔ فرمایا اُن حضرات نے مجھ پر میری شہرت کی وجہ سے اعتما دکیا اور میرے فتویٰ کی تصدیق کر دی ورنہ حق وہی ہے جو اِنہوں نے لکھا ۔۔۔۔۔۔یہ سن کر کہ اعلیٰ حضرت جنہوں نے یہ فتویٰ لکھا ہے کی عمر شریف صرف 19-20سال ہے، نواب صاحب کو ملاقات کا شوق ہوا ۔
(اعلیٰ حضرت کی شادی رامپور میں جنابِ شیخ فضل حسین صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی تھی، شیخ فضل حسین صاحب رامپور کے ڈاک خانے میں اعلیٰ افسر کی حیثیت سے تھے اور نواب صاحب کے مقربین میں سے تھے ۔ اُن کے ذریعے نوا ب صاحب اعلیٰ حضرت سے ملاقات کے متمنی ہوئے ۔)
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی انفرادی کوشش
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ قرآنِ پاک کی اِس آیت ۔
‘‘اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ’’
ترجمہ کنز الایمان :اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے ۔(سورۃ النحل 125)کے خصوصی فیض سے فیض یافتہ تھے ۔
مولانا حسنین رضا خان صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ’’سیرت ِ اعلیٰ حضرت‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضرت قبلہ ہر شخص سے اُس کی سمجھ کے موافق بات چیت کرنے کی مہارت رکھتے تھے، وہ ہر شخص سے اُس کی سمجھ کے موافق بات چیت کرتے تھے۔ایسے موقع پر اُن کی زبانِ مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ ان کے ہر مخاطب کے دل میں اتر گئے، اس واسطے کہ انھیں اپنی بلند سطح سے ہر شخص کی سطح پر اتر کر بات چیت کر نے کا پورا ملکہ تھا، اور ارشادِ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پورے عامل تھے سرکا رصَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
‘‘کَلِّمُوالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِعُقُولِھِمْ’’
“لوگوں سے ان کی سمجھ کے موافق بات چیت کرو۔”
سجدہ کیاآپ ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محب اللہ خان صاحب مرحوم جو بڑے پکے نمازی تھے، (وہ بہت غریب اوربڑے اکھڑ پٹھان تھے اور سوداگر ی محلہ میں رہتے تھے ۔)وہ کبھی اعلیٰ حضرت کی ملازمت کرتے تھےاورکبھی وہاں سے ناراض ہو کر حلوائی کا خوانچہ لگا لیتے تھے، یوں اُن کی گذراوقات تھی۔
ایک مرتبہ ظہر کی نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہوئے اور انھوں نے سنتوں کی نیت کی، اعلیٰ حضرت اس وقت وظیفہ پڑھ رہے تھے، وہ اپنے وظیفے میں دوسرے نمازیوں کی نگرانی فرماتے تھے کہ و ہ کس طرح نماز ادا کر رہے ہیں ۔
محب اللہ خان صاحب کو اعلیٰ حضرت نے دیکھا کہ وہ رکوع میں اوپر کو سر اٹھا ئے ہوئے جانب ِ قبلہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ جب انھوں نےسلام پھیر ا تو اعلیٰ حضرت نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ رکوع میں آپ سر اُٹھائے آگے کو کیوں دیکھتے ہیں ؟وہ بولے’’تو کیا میں رکوع میں کعبہ سے منہ پھیر لوں‘‘اعلیٰ حضرت نے فرمایا: کہ سجدہ آپ کیا ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟اِس واسطے کہ پیشانی زمین پر رکھنے سے کعبہ سے منہ پھر جاتا ہے، اس پر وہ سناٹے میں رہ گئے ۔
مگر اِس نماز کے بعد اُنہوں نے رکوع میں حسبِ ہدایت پاؤں کی انگلیوں پرہی نظر رکھی، منہ اٹھا کر سامنے کی طر ف نہ دیکھا ۔یہ مسئلہ اگر انھیں مسئلہ کے طور پر سمجھایا جاتا تو وہ نہ سمجھ سکتے تھے اور اپنے بنائے ہوئے اصول ہرگز نہ چھوڑتے مگر اعلیٰ حضرت کے اس معارضہ نے ان کے خود ساختہ اصول کو درہم برہم کر دیا اور اس معاملے میں ان کے دماغ کی کایا پلٹ دی۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولاناحسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص100)
نماز پڑھتے نظریں کہاں رکھے
اسی سے ملتا جلتا واقعہ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘میں بھی ہے ،جنابِ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ:
ایک مرتبہ بعد نماز ظہراعلیٰ حضرت مسجد میں وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک اجنبی صاحب نے سامنے آکرنما ز کی نیت باندھ لی، جب رکوع کیا تو گردن اٹھائے ہوئے سجدہ گاہ(جہاں سجدے میں سر رکھا جاتا ہے) کو دیکھتے رہے ۔
فارغ ہونے پراعلیٰ حضرت نے پاس بلا کر دریافت فرمایا کہ’’رکوع کی حالت میں گردن اس قدر کیوں اٹھائی ہوئی تھی؟‘‘انہوں نے عرض کیا ’’حضور سجدے کی جگہ کو دیکھ رہاتھا‘‘ فرمایا ’’سجدہ میں کیا کیجئے گا‘‘پھر فرمایا :بحالت ِ قیام نظر سجدہ گاہ پر، اور بحالتِ رکوع پاؤں کی انگلیوں پر، اور بحالت ِتسمیع سینہ پر، اور بحالتِ سجود ناک پر، اور بحالتِ قعود اپنی گود پر نظر رکھنا چاہیے ،نیز سلام پھیرتے وقت کاتبین کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے شانوں پر نظر ہونا چاہیے۔ (حیاتِ اعلی حضر ت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص304)
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ قرآنِ پاک کی اِس آیت ۔
‘‘اُدْعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ’’
ترجمہ کنز الایمان :اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے ۔(سورۃ النحل 125)کے خصوصی فیض سے فیض یافتہ تھے ۔
مولانا حسنین رضا خان صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ’’سیرت ِ اعلیٰ حضرت‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
اعلیٰ حضرت قبلہ ہر شخص سے اُس کی سمجھ کے موافق بات چیت کرنے کی مہارت رکھتے تھے، وہ ہر شخص سے اُس کی سمجھ کے موافق بات چیت کرتے تھے۔ایسے موقع پر اُن کی زبانِ مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ ان کے ہر مخاطب کے دل میں اتر گئے، اس واسطے کہ انھیں اپنی بلند سطح سے ہر شخص کی سطح پر اتر کر بات چیت کر نے کا پورا ملکہ تھا، اور ارشادِ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پورے عامل تھے سرکا رصَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
‘‘کَلِّمُوالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِعُقُولِھِمْ’’
“لوگوں سے ان کی سمجھ کے موافق بات چیت کرو۔”
سجدہ کیاآپ ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ محب اللہ خان صاحب مرحوم جو بڑے پکے نمازی تھے، (وہ بہت غریب اوربڑے اکھڑ پٹھان تھے اور سوداگر ی محلہ میں رہتے تھے ۔)وہ کبھی اعلیٰ حضرت کی ملازمت کرتے تھےاورکبھی وہاں سے ناراض ہو کر حلوائی کا خوانچہ لگا لیتے تھے، یوں اُن کی گذراوقات تھی۔
ایک مرتبہ ظہر کی نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہوئے اور انھوں نے سنتوں کی نیت کی، اعلیٰ حضرت اس وقت وظیفہ پڑھ رہے تھے، وہ اپنے وظیفے میں دوسرے نمازیوں کی نگرانی فرماتے تھے کہ و ہ کس طرح نماز ادا کر رہے ہیں ۔
محب اللہ خان صاحب کو اعلیٰ حضرت نے دیکھا کہ وہ رکوع میں اوپر کو سر اٹھا ئے ہوئے جانب ِ قبلہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ جب انھوں نےسلام پھیر ا تو اعلیٰ حضرت نے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ رکوع میں آپ سر اُٹھائے آگے کو کیوں دیکھتے ہیں ؟وہ بولے’’تو کیا میں رکوع میں کعبہ سے منہ پھیر لوں‘‘اعلیٰ حضرت نے فرمایا: کہ سجدہ آپ کیا ٹھوڑی پر کرتے ہیں؟اِس واسطے کہ پیشانی زمین پر رکھنے سے کعبہ سے منہ پھر جاتا ہے، اس پر وہ سناٹے میں رہ گئے ۔
مگر اِس نماز کے بعد اُنہوں نے رکوع میں حسبِ ہدایت پاؤں کی انگلیوں پرہی نظر رکھی، منہ اٹھا کر سامنے کی طر ف نہ دیکھا ۔یہ مسئلہ اگر انھیں مسئلہ کے طور پر سمجھایا جاتا تو وہ نہ سمجھ سکتے تھے اور اپنے بنائے ہوئے اصول ہرگز نہ چھوڑتے مگر اعلیٰ حضرت کے اس معارضہ نے ان کے خود ساختہ اصول کو درہم برہم کر دیا اور اس معاملے میں ان کے دماغ کی کایا پلٹ دی۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولاناحسنین رضا خان مکتبہ برکاتی پبلشرز ص100)
نماز پڑھتے نظریں کہاں رکھے
اسی سے ملتا جلتا واقعہ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘میں بھی ہے ،جنابِ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ:
ایک مرتبہ بعد نماز ظہراعلیٰ حضرت مسجد میں وظیفہ پڑھ رہے تھے کہ ایک اجنبی صاحب نے سامنے آکرنما ز کی نیت باندھ لی، جب رکوع کیا تو گردن اٹھائے ہوئے سجدہ گاہ(جہاں سجدے میں سر رکھا جاتا ہے) کو دیکھتے رہے ۔
فارغ ہونے پراعلیٰ حضرت نے پاس بلا کر دریافت فرمایا کہ’’رکوع کی حالت میں گردن اس قدر کیوں اٹھائی ہوئی تھی؟‘‘انہوں نے عرض کیا ’’حضور سجدے کی جگہ کو دیکھ رہاتھا‘‘ فرمایا ’’سجدہ میں کیا کیجئے گا‘‘پھر فرمایا :بحالت ِ قیام نظر سجدہ گاہ پر، اور بحالتِ رکوع پاؤں کی انگلیوں پر، اور بحالت ِتسمیع سینہ پر، اور بحالتِ سجود ناک پر، اور بحالتِ قعود اپنی گود پر نظر رکھنا چاہیے ،نیز سلام پھیرتے وقت کاتبین کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے شانوں پر نظر ہونا چاہیے۔ (حیاتِ اعلی حضر ت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص304)