Post by Mohammed IbRaHim on Feb 6, 2014 12:28:00 GMT 5.5
عقائد کے بارے میں کیسا اِعْتِقاد ہونا چاہیے؟
فرمایا’’اِلہِٰیَّات‘‘و’’ نَبُوَّات‘‘و’’مَعاد‘‘(یعنی عقیدہ ء آخرت)کو جو میزانِ عقل (یعنی عقل کے ترازو)سے تولنا چاہے گا وہ لغزش (یعنی خطا)کریگا۔عقائدِ سَمْعِیّہَ کے بارے میں ان نصوصِ شرعیّہ کے ہاتھ میں ایسا ہوجائے جیسے غَسَّال کے ہاتھ میں میّت ،بس!
اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا
ترجمہ کنز الایمان:ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص432)
گناہِ کبیرہ اور صغیرہ میں کیا فرق ہے
عرض :گناہِ کبیرہ وصغیر ہ میں کیا فر ق ہے ؟
ارشاد :گناہِ کبیرہ سات سو ہیں ، اِ ن کی تفصیل بہت طویل ۔اللہ عَزَّوَجَل کی معصیت جس قدر ہے سب کبیرہ ہے ۔ اگر صغیرہ وکبیرہ کو علیحدہ شمار کرایا جائے تو لوگ صغائر (یعنی صغیرہ گناہوں)کو ہلکا سمجھیں گے، وہ کبیرہ سے بھی بد تر ہوجائے گا ،غرض جس گناہ کو ہلکا جان کر کریگا وہی کبیرہ ہے۔ اِن کے امتیاز کے لئے صرف اس قدر کافی ہے کہ: فرض کا ترک کبیرہ ہے اور واجب کا صغیرہ۔ جو گناہ بے باکی اور اِصرار سے کیا جائے کبیرہ ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص137)
نفسانی اور شیطانی خواہش میں فرق
(گناہ کی خواہش سے متعلق گفتگو میں ارشاد فرمایا)اس قسم کی خواہش یا تو نفسانی ہو اکرتی ہے یا شیطانی ،جس کے دو امتیاز سَہل(یعنی آسان) ہیں، ایک یہ کہ شیطانی خواہش میں بہت جلد کا تقاضا ہوتا ہے کہ ابھی کرلواَلْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ،عجلت (یعنی جلدی)شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔
اور نفس کو ایسی جلدی نہیں ہوتی ، دوسری یہ کہ نفس اپنی خواہش پر جمار ہتا ہے جب تک پوری نہ ہو اُسے بدلتا نہیں ۔ اُسے واقعی اُسی شے کی خواہش ہے ۔ اگر شیطانی ہے تو ایک چیزکی خواہش ہوئی ،وہ نہ ملی، دوسری چیز کی ہوگئی ، وہ نہ ملی تیسری کی ہوگئی ،اس واسطے کہ اُس کا مقصد گمراہ کرنا ہے خواہ کسی طورپرہو ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص158)
اللہ و رسول کی محبت کیسے حاصل کی جائے؟
عرض:خدا اور رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کس طر ح دل میں پیدا ہو؟
ارشاد: تلاوتِ قرآنِ مجید اور دُرود شریف کی کثرت اور نعت شریف کے صحیح اشعار خوش اِلحانوں (یعنی سریلی آواز والے)سے بکثرت سُنے اور اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نعمتوں اور رحمتوں میں جو اس پر ہیں،غور کرے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص173)
جشنِ ولادت کا چراغاں
عرض : میلاد شریف میں جھاڑ (یعنی پنج شاخہ مشعل)،فانوس ،فروش وغیرہ سے زیب وزینت اِسراف ہے یا نہیں ؟
ارشاد:علما ء فرماتے ہیں:
لَاخَیْرَ فِی الْاِسْرَافِ وَلَا اِسْرَافَ فِی الْخَیْرِیعنی اسراف میں کوئی بھلائی نہیں اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں کوئی اسراف نہیں۔ جس شے سے تعظیمِ ذکر شریف مقصود ہو ، ہر گز ممنوع نہیں ہوسکتی ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی174 )
ایک ہزار شمعیں:
اِمام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے’’ اِحیاء ُ العلوم‘‘ شریف میں سید ابوعلی رود باری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے نقل کیا کہ ایک بندہء صالح نے مجلسِ ذکر شریف ترتیب دی اور اس میں ایک ہزار شمعیں روشن کیں۔ ایک شخص ظاہربین پہنچے اور یہ کیفیت دیکھ کر واپس جانے لگے ۔بانیء مجلس نے ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر فرمایا کہ جو شمع مَیں نے غیرِ خدا کے لئے روشن کی ہو وہ بجھا دیجئے۔ کوششیں کی جاتی تھیں اور کوئی شمع ٹھنڈی نہ ہوتی ۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص174)
ننانوے باتیں کفر کی ہوں اور ایک اسلام کی تو ؟
عرض:حضو ر!جس میں 99 باتیں کفر کی ہوں اور ایک اسلام کی اُس کے لئے کیا حکم ہے ؟
ارشاد:کافر ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک سجدہ کر ے اللہ عَزَّوَجَلّ کو اور99 مہادیو(یعنی ہندؤں کے تین بڑے دیوتاؤں)کو تو مسلمان رہے گا،اگر 99سجدے اللہ عَزَّوَجَلّ کو اور ایک بھی مہادیوکو کیا تو کافر ہوجائے گا ۔ گلاب میں ایک قطرہ پیشاب کا ڈالا جائے وہ پاک رہے گا یا ناپاک۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص291)
قیامت کی تین قسمیں
(فرمایا)قیامت تین قسم کی ہے:
پہلی قیامتِ صغریٰ :یہ موت ہے۔
مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ
جو مرگیا اس کی قیامت ہوگئی ۔
دوسری قیامت ِوُسطیٰ: وہ یہ کہ ایک قَرْن(یعنی ایک زمانہ )کے تمام لوگ فَنَا ہوجائیں اور دوسرے قَرْن کے نئے لوگ پیدا ہوجائیں۔
تیسری قیامت کُبر یٰ :وہ یہ کہ آسمان و زمین سب فَنَاہوجائیں گے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص386)
اپنی زندگی میں اپنے لئے ایصالِ ثواب کرنا
عرض:زید اپنی زندگی میں اپنے لیے ایصالِ ثواب کرسکتا ہے یا نہیں؟
ارشاد:ہاں کرسکتا ہے،محتاجوں کو چھپا کر دے یہ جو عام رواج ہے کہ کھانا پکایا جاتا ہے اور تمام اَغْنِیَاء اوربِرَادَری کی دعوت ہوتی ہے ایسا نہ کرنا چاہیے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص391)
قبرستان میں جانے کاطریقہ
عرض:حکم یہ ہے کہ قبر کی پائنتی سے حاضر ہو ،قبرستان میں جب کہ قُبُور کا اِ ختلاط ہے ایسا کیونکر ہوگا؟
ارشاد :سب سے پہلے قبرستان کی پائنتی جانِب سے آئے اور اُسی پائنتی کنارے پر کھڑا ہو کرسلام کہے اور جوکچھ چاہے عام اِیصالِ ثواب کرے،کسی کو سر ُاٹھانے کی حاجت نہ ہوگی اور اگر کسی خاص کے پاس جانا ہے تو ایسے راستہ سے جائے جو اس قبر کی پائنتی کی جانب کو آیا ہو بشرطیکہ کوئی قبر درمیان میں نہ پڑے ورنہ ناجائِز ہوگا۔
فُقَہائے کرام فرماتے ہیں زِیارت کے واسطے قبروں کو پھاند (یعنی پھلانگ)کر جانا حرام ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص392)
خلافتِ راشدہ
عرض:خلافتِ راشدہ کس کس کی خلافت تھی؟
ارشاد:ابوبکر صدیق ، عمر فاروق ، عثمان غنی ، مولیٰ علی، اِمَام حسن، امیر معاویہ، عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت ،خلافتِ راشدہ تھی اور اب سَیِّدُنا اِمَام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت، خلافتِ راشدہ ہوگی۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص415)
کس کس کے بدن کومٹی نہیں کھاتی؟
عرض:وہ کون کون ہیں جن کے بدن کو زمین نہیں کھاتی؟
ارشاد:حافظ ،بشرطیکہ عمل کرتا ہو قرآن پر،بہتیرے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن اُنہیں لعنت کرتا ہے۔
رُبَّ تَالِی الْقُراٰنِ وَالْقُراٰنُ یَلْعَنُہ،
بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔
اور عالمِ دین اور شہید ِفی سبیل اﷲاور ولی اور وہ کہ درود شریف بکثرت پڑھا کرتا ہو اور وہ جسم جس نے کبھی اﷲعَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہ کی اور وہ مؤذن جو بلا اجرت اذان دیا کرتا ہو ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص503)
چار انبیاء کرام علیہم السلام کو ابھی تک وعدہ ء الٰہیہ نہیں پہنچا
( فرمایا)چار انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام وہ ہیں جن پر ابھی ایک آن کے لیے بھی موت طاری نہیں ہوئی۔ دو آسمان پر سیدنا ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیدنا عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوز مین پر ،سیدنا الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سیدنا خضر علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
ہرسال حج میں یہ دونوں حضرات جمع ہوتے ہیں، حج کرتے ہیں، ختم حج پر زمزم شریف کا پانی پیتے ہیں کہ وہ پانی ان کو کفایت کرتا ہے سال بھر کے طعام و شرب (یعنی کھانے ،پینے)سے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص505)
پیر کامل کے لئے شرائطِ اربعہ
عرض :حضور! طلب اور بیعت میں کیا فرق ہے ؟
ارشاد : طالب ہونے میں صرف طلبِ فیض ہے اور بیعت کے معنیٰ پورے طور سے بِکنا،بیعت اس شخص سے کرنا چاہیے جس میں یہ چار باتیں ہوں ورنہ بیعت جائز نہ ہوگی:
اوّلاً: سنی صحیح العقیدہ ہو۔
ثانیاً :کم ازکم اتنا علم ضروری ہے کہ بلا کسی کی اِمداد کے اپنی ضرورت کے مسائل کتاب سے خود نکال سکے ۔
ثانیاً : اُس کا سلسلہ حضور اَقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک مُتَّصِل( یعنی مِلا ہوا) ہو، کہیں سے مُنْقَطِع ( یعنی ٹوٹاہوا)نہ ہو ۔
رابعا ً: فاسقِ مُعلِن(اعلانیہ گناہ کرنے والا ) نہ ہو۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص228)
تَصَوّرِ شیخ کا طریقہ کیا ہے؟
عرض : حضور “فَنَا فِی الشَّیْخ” کا مرتبہ کس طر ح حاصل ہوتا ہے ؟
ارشاد:یہ خیال رکھے کہ میرا شیخ میرے سامنے ہے اور اپنے قلب کو اُس کے قلب کے نیچے تصور کر کے اِس طر ح سمجھے کہ سرکا رِ رسالت(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم)سے فیوض و انوار قلبِ شیخ پر فائز ہوتے اور اس سے چھلک کر میرے دل میں آرہے ہیں، پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ حالت ہوجائے گی کہ شجر وحجر ،در و دیوار پر شیخ کی صورت صاف نظر آئے گی، یہاں تک کہ نماز میں بھی جدا نہ ہوگی اور پھر ہر حال اپنے ساتھ پاؤگے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص234)
سچےمجذوب کی پہچان کیا ہے؟
عرض:حضور مجذوب کی کیا پہچا ن ہے ؟
ارشاد : سچے مجذوب کی یہ پہچان ہے کہ شریعتِ مطہرہ کا کبھی مقابلہ نہ کریگا ۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص278)
اولیاء اللہ کی پہچان کیا ہے؟
عرض : اولیائے الہٰی کی کیا پہچان ہے؟
ارشاد : حدیث میں ارشاد فرمایا:
اَوْلِیَاء ُ اللّٰہِ الَّذِیْنَ اِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اللّٰہُ
اولیاء اﷲوہ لوگ ہیں جن کے دیکھنے سے خدا یاد آئے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی354)
عُرس کا دن خاص کرنے میں حکمت
عرض :حضور!بزرگانِ دِین کے اَعْرَاس کی تَعْیِیْن (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے )میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟
ارشاد : ہاں اولیائے کرام کی اَرْوَاحِ طَیِّبہ کو اُن کے وِصال شریف کے دن قُبُورِ کریمہ کی طرف تَوَجُّہ زیادہ ہوتی ہے چُنانچہ وہ وقت جو خاص وِصال کا ہے اَخْذِ برکات کے لیے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص383)
کیانفس اور رُوح میں فرق ہے؟
عرض: حضور!نَفس اور رُوح میں فَرق اِعتباری معلو م ہوتا ہے؟
ارشاد: اصل میں تین چیزیں علیحدہ علیحدہ ہیں،نفس ۔۔۔رُوح۔۔۔قَلب۔۔۔رُوح بمنزلہ بادشاہ کے ہے۔۔۔ اورنَفس وقَلب اس کے دو وَزیرہیں۔نَفس اس کو ہمیشہ شَرّ کی طرف لے جاتا ہے اورقَلب جب تک صاف ہے خیر کی طرف بلاتا ہے اور مَعاذَ اﷲعَزَّوَجَل کثرتِ مَعَاصِی(یعنی گناہوں کی زیادتی)اور خصوصاً کثرتِ بِدْعَات سے اندھا کردیا جاتا ہے ۔ اب اُس میں حق کے دیکھنے،سمجھنے، غور کرنے کی قابِلیت نہیں رہتی، مگر اَبھی حق سننے کی اِسْتِعْدَاد (یعنی قابلیت)باقی رہتی ہے اور پھر مَعاذَ اﷲعَزَّوَجَل اَوندھا کردیا جاتا ہے اب وہ نہ حق سن سکتا ہے اور نہ دیکھ سکتا ہے، بالکل چَوپَٹ (یعنی ویران)ہو کر رہ جاتا ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی ص405)
دنیا کی حیثیت
(ایک سلسلہءگفتگو میں اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا) حدیث میں ہے’’اگر دنیا کی قَدر اﷲعَزَّوَجَل کے نزدیک ایک مچھر کے پَر کے برابربھی ہوتی تو ایک گھونٹ اس میں سے کافر کو نہ دیتا ۔‘‘ ذلیل ہے (اِسی لیے)ذلیلوں کو دی گئی، جب سے اسے بنایا ہے کبھی اس کی طرف نظر نہ فرمائی۔دنیا کی رُوحانیت آسمان و زمین کے درمیان جَوّ (یعنی فَضا)میں مُعَلَّق ہے، فریادوزاری کرتی ہے اور کہتی ہے:
اے میرے رب !تُو مجھ سے کیوں ناراض ہے؟ مُدّتوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے’’چُپ خبیثہ‘‘۔۔۔’’سورۃ زُخْرُف شریف ‘‘میں تو یہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
’’ اندھے کہیں گے، یہ کفر ہی حق ہے، ورنہ ہم کافروں کے واسطے ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی بنا دیتے اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت سونے کے‘‘۔
مزید قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:’’اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک دین پر ہو جائیں تو ہم ضرور رحمن کے منکروں کے لئے چاندی کی چھتیں اور سیڑھیاں بناتے جن پرچڑھتے اور ان کے گھروں کے لئے چاندی کے دروازے اور چاندی کے تخت جن پر تکیہ لگاتے اور طرح طرح کی آرائش اور یہ جو کچھ ہے جیتی دنیا ہی کااسباب ہے اور آخرت تمھارے رب کے پاس پر ہیز گاروں کے لیے ہے‘‘۔
صرف اِس بات پر کہ کفار کو دنیا بہت دی ہے اور ہم کو تھوڑی ،اس پر تو آپ جیسے عالم یہ کہہ رہے ہیں تو اگر سب دنیا انہیں دے دی جاتی اور ہم کو بالکل نہ ملتی تو نہ معلوم کیا حال ہوتا۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص 464)
زندہ رہنے کے لئے تین چیزیں درکار ہیں:
ایک لقمہ جس سے جان باقی رہے ۔۔۔اور ایک پارچہ ( یعنی کپڑا )جس سے اپنا سِتر ڈھانک لے ۔۔۔اور ایک سوراخ جس میں گھس کر بیٹھ رہے۔ اس کے لیے حلال مال بہت مل سکتا ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص469)
اِنجیل اور تَورات کونسی زبان میں نازِل ہوئیں؟
عرض :عبرانی اور سریانی ایک ہی(زبان) ہیں؟
ارشاد:عبرانی اور ہے اور سریانی اور ،عبرانی میں انجیل نازل ہوئی اور سریانی میں تورات ہے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص447)
کیا ہر ممکن چیز پیدا ہو چکی ہے؟
عرض:کیا جس قدر ممکنات ہیں وہ تحتِ قدرت بایں معنیٰ (یعنی اس طور پر کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت میں)داخل ہیں کہ اِن کو پیدا فرما چکا ہے ؟
ارشاد :نہیں، بلکہ بہت سی چیزیں وہ ہیں جو ممکن ہیں اور پیدا نہ فرمائیں، مثلاً کوئی شخص ایسا پیدا کر سکتا ہے کہ سر آسمان سے لگ جائے مگر پیدا نہ فرمایا ۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص64)
مِرگی کی بیماری
عرض :حضور !یہ صَرْع کیا کوئی بلا ہے؟
ارشاد: ہاں !اور بہت خبیث بلا ہے اور اسی کو “اُمُّ الصِبْیَان” کہتے ہیں،اگر بچوں کو ہو، ورنہ صَرْع(مرگی)۔ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ اگر پچیس بَرَس کے اندر اندر ہوگی تو اُمید ہے کہ جاتی رہے اور اگر پچیس بَرَس کے بعد یا پچیس بَرَس والے کو ہوئی تو اَب نہ جائے گی۔ ہاں کسی ولی کی کرامت یا تعویذ سے جاتی رہے تو یہ اَمر آخَر(یعنی دوسری بات)ہے۔ یہ فی الحقیقت ایک شیطان ہے جو انسان کو ستاتا ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص417)
بچوں کے نام کیسے ہونے چاہئیں؟
عرض : حضور! میرے بھتیجا پیدا ہوا ہے، اس کا کوئی تاریخی نام تجویز فرمادیں ۔
ارشاد :تاریخی نام سے کیا فائدہ ، نام وہ ہوں جن کے احادیث میں فضائل آئے ہیں ۔میرے اور بھائیوں کے جتنے لڑکے پیدا ہوئے میں نے سب کا نام محمد رکھا ،یہ اور بات ہے کہ یہی نام تاریخی بھی ہوجائے ۔ حامد رضاخاں کانام محمد ہے اور ان کی ولادت 1292ھ میں ہوئی اور اس نامِ مبارک کے عدد بھی بانوے ہیں ، ایک دِقت (یعنی دشواری)تاریخی نام میں یہ ہے کہ اسماء حُسنٰی سے ایک یا دو جن کے اعداد موافقِ عددِنامِ قاری (یعنی پڑھنے والے کے نام کے اعداد کے مطابق)ہوں عد دِ نام دو چند(یعنی دُگنے)کر کے پڑھے جاتے ہیں ۔ وہ قاری کو اسمِ اعظم کا فائدہ دیتے ہیں ،تاریخی نام سے مقداربہت زیادہ ہوجائے گی۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص73)
اللّٰہ میاں کہنا کیسا؟
عرض :حضور! “اللہ میاں” کہنا جائز ہے یا نہیں ؟
ارشاد :زبانِ اُردو میں لفظِ میاں کے تین معنی ہیں ، ان میں سے دو ایسے ہیں جن سے شانِ اُلُوہیت پاک ومُنزَّہ ہے اور ایک کا صِدق ہوسکتا ہے ۔ تو جب لفظ دو خبیث معنوں میں اور ایک اچھے معنی میں مشترک ٹھہرا، اور شرع میں وارِد نہیں تو ذاتِ باری پر اس کا اِطلاق ممنوع ہوگا ۔اس کے ایک معنی مولیٰ، اللہ تعالیٰ بے شک مولیٰ ہے ، دوسرے معنی شوہر ، تیسرے معنی زنا کا دلال کہ زانی اور زانیہ میں متوسط ہو۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص173)
دائرۂ دنیا کہاں تک ہے؟
عرض:دائرۂ دنیا کہاں تک ہے؟
ارشاد :ساتوں آسمان، ساتوں زمین دنیا ہے اور ان سے ورا(یعنی ان کے علاوہ)سدرۃُ المنتہیٰ،عرش وکرسی،دارِآخرت ہیں۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ص 507)