Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 11:05:08 GMT 5.5
محمد صلي الله عليه وسلم
شمائل و خصائل
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے جس طرح کمال سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل و اعلیٰ بنایا اسی طرح آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جمالِ صورت میں بھی بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا۔ ہم اور آپ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ بے مثال کو بھلا کیا سمجھ سکتے ہیں ؟ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو دن رات سفر و حضر میں جمال نبوت کی تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوب خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جمالِ بے مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس کو سن کر یہی کہنا پڑتا ہے جو کسی مداحِ رسول نے کیا خوب کہا ہے کہ
اَبَدًا وَّ عِلْمِيْ اَنَّهٗ لَا يَخْلُقُ لَمْ يَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ مِثْلَ مُحَمَّدٍ
یعنی اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں یہی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے گا۔ (حیاة الحیوان دمیری ج۱ ص۴۲)
صحابی رسول اور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے قصیدۂ ہمزیہ میں جمال نبوت کی شان بے مثال کو اس شان کے ساتھ بیان فرمایا کہ
وَ اَجْمَلَ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآءُ وَ اَحْسَنَ مِنْكَ لَمْ تَرَقَطُّ عَيْنِيْ !
یعنی یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں اور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔
كَاَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ خُلِقْتَ مُبَرَّئً مِّنْ کُلِ عَيْبٍ !
(یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ ہر عیب و نقصان سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا آپ ایسے ہی پیدا کئے گئے جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے۔
حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بردہ میں فرمایا کہ
فَجَوْهَرُ الْحُسْنِ فِيْهِ غَيْرُ مُنْقَسِمٖ مُنَزَّهٌ عَنْ شَرِيْكٍ فِيْ مَحَاسِنِهٖ
یعنی حضرت محبوب خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ اس معاملہ میں ان کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں جو حسن کا جوہر ہے وہ قابل تقسیم ہی نہیں۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہ العزیز نے بھی اس مضمون کی عکاسی فرماتے ہوئے کتنے نفیس انداز میں فرمایا ہے کہ
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خَلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم
بہر حال اس پر تمام امت کا ایمان ہے کہ تناسب ِ اعضاء اور حسن و جمال میں حضور نبی آخر الزمان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بے مثل و بے مثال ہیں۔ چنانچہ حضرات محدثین و مصنفین سیرت نے روایات صحیحہ کے ساتھ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہر ہر عضو شریفہ کے تناسب اور حسن و جمال کو بیان کیا ہے۔ ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں ” حلیۂ مبارکہ ” کے ذکر جمیل سے حسن و جمال پیدا کرنے کے لئے اس عنوان پر حضرت مولانا محمد کامل صاحب چراغ ربانی نعمانی ولید پوری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے منظوم حلیہ مبارکہ کے چند اشعار نقل کرتے ہیں تاکہ اس عالم کامل کی برکتوں سے بھی یہ کتاب سرفراز ہو جائے۔ حضرت مولانا موصوف نے اپنی کتاب ” پنجہ نور ” میں تحریر فرمایا ک
حلیۂ مقدسہ:۔
حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں
جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں
مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال
اور اس کی یاد بھی آسان ہو تاکہ یاروں کو مرے پہچان ہو
پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن تھا میانہ قد و اوسط پاک تن
تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے
چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی
اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال
یاکہ ادنیٰ قرب تھا “قوسین” کا اِتصال دو مہ “عیدین” تھا
دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں
ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند کان دونوں خوب صورت ارجمند
صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا
خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ
ہو ازار و جبہ یا پیر ہن تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن
پر کبھی سود و سپید و صاف تھا سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا
دونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی -
حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں
جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں
مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال
اور اس کی یاد بھی آسان ہو تاکہ یاروں کو مرے پہچان ہو
پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن تھا میانہ قد و اوسط پاک تن
تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے
چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی
اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال
یاکہ ادنیٰ قرب تھا “قوسین” کا اِتصال دو مہ “عیدین” تھا
دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں
ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند کان دونوں خوب صورت ارجمند
صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا
خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ
ہو ازار و جبہ یا پیر ہن تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن
پر کبھی سود و سپید و صاف تھا سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا
دونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی -
جسم اطہر:۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیبا و حریر (ریشمیں کپڑوں) کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔(بخاری ج۱ ص۵۰۳ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اسی کیفیت سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شاد مانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔ (بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
آپ کے رُخِ انور پر پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ایک چمڑے کا بستر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے بچھا دیتی تھیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس پر دوپہر کو قیلولہ فرمایا کرتے تھے تو آپ کے جسم اطہر کے پسینے کو وہ ایک شیشی میں جمع فرما لیتی تھیں پھر اس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔(بخاری ج۲ ص۹۲۹ باب من زار قوماً فقال عندهم و بخاری ج۱ ص۳۶۵ حدیث الافک)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اقدس کا رنگ گورا سپید تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جسم مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ میں نے دیبا و حریر (ریشمیں کپڑوں) کو بھی آپ کے بدن سے زیادہ نرم و نازک نہیں دیکھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو سے زیادہ اچھی کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی۔(بخاری ج۱ ص۵۰۳ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرۂ انور اس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم لوگ اسی کیفیت سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شاد مانی و مسرت کو پہچان لیتے تھے۔ (بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
آپ کے رُخِ انور پر پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ایک چمڑے کا بستر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے بچھا دیتی تھیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس پر دوپہر کو قیلولہ فرمایا کرتے تھے تو آپ کے جسم اطہر کے پسینے کو وہ ایک شیشی میں جمع فرما لیتی تھیں پھر اس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔(بخاری ج۲ ص۹۲۹ باب من زار قوماً فقال عندهم و بخاری ج۱ ص۳۶۵ حدیث الافک)
جسم انور کا سایہ نہ تھا:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵ ھ) نے اپنی کتاب ” نوادر الاصول ” میں حضرت ذکوان تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ امام ابن سبع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا اور بعض کا قول ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ کی اس دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تو میرے تمام اعضاء کو نور بنا دے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا کہ وَاجْعَلْنِيْ نُوْرًا یعنی یا اﷲ ! تو مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا ؟
اسی طرح عبداﷲ بن مبارک اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما نے بھی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔(زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ:.
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے اور علامہ حجازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے کہ بدن تو بدن، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ کپڑوں میں کبھی جوئیں پڑیں، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا، اس مضمون کو ابو الربیع سلیمان بن سبع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب شفاء الصدور في اعلام نبوة الرسول میں بیان فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نور تھے۔ پھر مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا چونکہ گندگی بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ چونکہ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک اور آپ کا جسم اطہر خوشبو دار تھا اس لئے آپ ان چیزوں سے محفوظ رہے۔ امام سبتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس مضمون کو اعظم الموارد میں مفصل لکھا ہے۔ (زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
مہر نبوت:.
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا۔ (شمائل ترمذی ص۳ وترمذی ج۲ص ۲۰۵)
لیکن ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مہر نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر تھی اور اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ
اَللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ بِوَجْهٍ حَيْثُ کُنْتَ فَاِنَّكَ مَنْصُوْرٌ
یعنی ایک اﷲ ہے اس کا کوئی شریک نہیں (اے رسول !) آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ
كَانَ نُوْرًا يَّتَلَا ْٔ لَا ُٔ
یعنی مہر نبوت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل و صورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔ (حاشیه ترمذی ج۲ ص۲۰۵ باب ماجاء في خاتم النبوة)
قد مبارک:۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۱)
اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ طویل القامت تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ میانہ قد تھے۔ بوقت ِ رفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔(شمائل ترمذی ص۱)
اس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اتفاق ہے کہ آپ میانہ قد تھے لیکن یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سر مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔
ظل ممدود رافت پہ لاکھوں سلام قد بے سایہ کے سایۂ مرحمت
اُس سہی سروِقامت پہ لاکھوں سلام طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قد مبارک کا سایہ نہ تھا۔ حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵ ھ) نے اپنی کتاب ” نوادر الاصول ” میں حضرت ذکوان تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ امام ابن سبع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور آپ نور تھے اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا اور بعض کا قول ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ کی اس دعا کا ذکر ہے کہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ خداوندا! تو میرے تمام اعضاء کو نور بنا دے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اس دعا کو اس قول پر ختم فرمایا کہ وَاجْعَلْنِيْ نُوْرًا یعنی یا اﷲ ! تو مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا ؟
اسی طرح عبداﷲ بن مبارک اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما نے بھی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا۔(زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
مکھی، مچھر، جوؤں سے محفوظ:.
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے اور علامہ حجازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے کہ بدن تو بدن، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ کپڑوں میں کبھی جوئیں پڑیں، نہ کبھی کھٹمل یا مچھر نے آپ کو کاٹا، اس مضمون کو ابو الربیع سلیمان بن سبع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب شفاء الصدور في اعلام نبوة الرسول میں بیان فرماتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نور تھے۔ پھر مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا چونکہ گندگی بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ چونکہ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک اور آپ کا جسم اطہر خوشبو دار تھا اس لئے آپ ان چیزوں سے محفوظ رہے۔ امام سبتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس مضمون کو اعظم الموارد میں مفصل لکھا ہے۔ (زرقانی ج۵ ص۲۴۹)
مہر نبوت:.
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت تھی۔ یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر کے انڈے کی مقدار میں سرخ اُبھرا ہوا ایک غدود تھا۔ (شمائل ترمذی ص۳ وترمذی ج۲ص ۲۰۵)
لیکن ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مہر نبوت کبوتر کے انڈے کے برابر تھی اور اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ
اَللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ بِوَجْهٍ حَيْثُ کُنْتَ فَاِنَّكَ مَنْصُوْرٌ
یعنی ایک اﷲ ہے اس کا کوئی شریک نہیں (اے رسول !) آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ
كَانَ نُوْرًا يَّتَلَا ْٔ لَا ُٔ
یعنی مہر نبوت ایک چمکتا ہوا نور تھا۔ راویوں نے اس کی ظاہری شکل و صورت اور مقدار کو کبوتر کے انڈے سے تشبیہ دی ہے۔ (حاشیه ترمذی ج۲ ص۲۰۵ باب ماجاء في خاتم النبوة)
قد مبارک:۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوب صورت تھا جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۱)
اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہ طویل القامت تھے نہ پستہ قد بلکہ آپ میانہ قد تھے۔ بوقت ِ رفتار ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔(شمائل ترمذی ص۱)
اس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اتفاق ہے کہ آپ میانہ قد تھے لیکن یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی معجزانہ شان ہے کہ میانہ قد ہونے کے باوجود اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تھے تو آپ کا سر مبارک سب سے زیادہ اونچا نظر آتا تھا۔
ظل ممدود رافت پہ لاکھوں سلام قد بے سایہ کے سایۂ مرحمت
اُس سہی سروِقامت پہ لاکھوں سلام طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں
سر اقدس:۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حلیہ مبارکہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” ضخم الراس ” یعنی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سر مبارک ” بڑا ” تھا (جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔) (شمائل ترمذی)
اُس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام جس کے آگے سرسروراں خم رہیں
مقدس بال:۔
حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھردار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے رہتے تھے مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان قبلہ بریلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کے مقدس بالوں کی ان تینوں صورتوں کو اپنے دو شعروں میں بہت ہی نفیس و لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تادوش
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے۔(شمائل ترمذی ص۴-۵)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب اپنے مقدس بال اتروائے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفاء حاصل ہوتی تھی۔ (بخاری ج۲ ص۸۷۵ باب ما یذکر فی الشیب)
لکۂ ابر رأفت پہ لاکھوں سلام وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
رُخِ انور:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ، پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ (چمک دمک میں) تلوار کی مانند تھا ؟ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ چاند کے مثل تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ
مَنْ رَاٰهُ بَدِيْهَةً هَابَهٗ وَ مَنْ خَالَطَهٗ مَعْرِفَةً اَحَبَّهٗ(شمائل ترمذی ص۲)
جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا وہ آپ کے رعب داب سے ڈر جاتا اور پہچاننے کے بعد آپ سے ملتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبرو اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرۂ انور کے بارے میں یہ کہا : فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهٗ عَرَفْتُ اَنَّ وَجْهَهٗ لَيْسَ بِوَجْهِ کَذَّابٍ یعنی میں نے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو بغور دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہے۔(مشکوٰۃ ج۱ ص۱۶۸ باب فضل الصدقه)
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب کہا کہ
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
عربی زبان میں بھی کسی مداح رسول نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور کے حسن و جمال کا کتنا حسین منظر اور کتنی بہترین تشریح پیش کی ہے
الْحُسْنِ لٰکِنْ وَجْهُهُ الْاٰیَةُ الْکُبْرٰي نَبِيُّ جَمَالٍ کُلُّ مَا فِيْهِ مُعْجِزٌ مِنَ
يُطَالِعُ مِنْ لَا ْٔ لَآئِ غُرَّتِهِ الْفَجْرَا يُنَادِيْ بَلَالُ الْخَالِ فِيْ صَحْنِ خَدِّهٖ
یعنی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حسن و جمال کے بھی نبی ہیں، یوں تو ان کی ہر ہر چیز حسن کا معجزہ ہے لیکن خاص کر ان کا چہرہ تو آیت کبریٰ (بہت ہی بڑا معجزہ) ہے۔
ان کے رخسار کے صحن میں ان کے تل کا بلال ان کی روشن پیشانی کی چمک سے صبح صادق کو دیکھ کر اذان کہا کرتا تھا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حلیہ مبارکہ بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” ضخم الراس ” یعنی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سر مبارک ” بڑا ” تھا (جو شاندار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔) (شمائل ترمذی)
اُس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام جس کے آگے سرسروراں خم رہیں
مقدس بال:۔
حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے موئے مبارک نہ گھونگھردار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس بال پہلے کانوں کی لو تک تھے پھر شانوں تک خوبصورت گیسو لٹکتے رہتے تھے مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان قبلہ بریلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کے مقدس بالوں کی ان تینوں صورتوں کو اپنے دو شعروں میں بہت ہی نفیس و لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تادوش
تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو آخرِ حج غمِ اُمت میں پریشاں ہو کر
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر بالوں میں تیل بھی ڈالتے تھے اور کبھی کبھی کنگھی بھی کرتے تھے اور اخیر زمانہ میں بیچ سر میں مانگ بھی نکالتے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس بال آخر عمر تک سیاہ رہے، سر اور داڑھی شریف میں بیس بالوں سے زیادہ سفید نہیں ہوئے تھے۔(شمائل ترمذی ص۴-۵)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں جب اپنے مقدس بال اتروائے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بطور تبرک تقسیم ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ اس موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور اس کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔
حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس شیشی کو پانی میں ڈبو کر دیتی تھیں اور اس پانی سے شفاء حاصل ہوتی تھی۔ (بخاری ج۲ ص۸۷۵ باب ما یذکر فی الشیب)
لکۂ ابر رأفت پہ لاکھوں سلام وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
رُخِ انور:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ، پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ (چمک دمک میں) تلوار کی مانند تھا ؟ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ چاند کے مثل تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ
مَنْ رَاٰهُ بَدِيْهَةً هَابَهٗ وَ مَنْ خَالَطَهٗ مَعْرِفَةً اَحَبَّهٗ(شمائل ترمذی ص۲)
جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا وہ آپ کے رعب داب سے ڈر جاتا اور پہچاننے کے بعد آپ سے ملتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبرو اور سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرۂ انور کے بارے میں یہ کہا : فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهٗ عَرَفْتُ اَنَّ وَجْهَهٗ لَيْسَ بِوَجْهِ کَذَّابٍ یعنی میں نے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو بغور دیکھا تو میں نے پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہے۔(مشکوٰۃ ج۱ ص۱۶۸ باب فضل الصدقه)
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب کہا کہ
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
عربی زبان میں بھی کسی مداح رسول نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور کے حسن و جمال کا کتنا حسین منظر اور کتنی بہترین تشریح پیش کی ہے
الْحُسْنِ لٰکِنْ وَجْهُهُ الْاٰیَةُ الْکُبْرٰي نَبِيُّ جَمَالٍ کُلُّ مَا فِيْهِ مُعْجِزٌ مِنَ
يُطَالِعُ مِنْ لَا ْٔ لَآئِ غُرَّتِهِ الْفَجْرَا يُنَادِيْ بَلَالُ الْخَالِ فِيْ صَحْنِ خَدِّهٖ
یعنی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حسن و جمال کے بھی نبی ہیں، یوں تو ان کی ہر ہر چیز حسن کا معجزہ ہے لیکن خاص کر ان کا چہرہ تو آیت کبریٰ (بہت ہی بڑا معجزہ) ہے۔
ان کے رخسار کے صحن میں ان کے تل کا بلال ان کی روشن پیشانی کی چمک سے صبح صادق کو دیکھ کر اذان کہا کرتا تھا۔
محراب اَبرو:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور ان دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔(شمائل ترمذی ص۲)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابروئے مبارک کی مدح میں فرماتے ہیں کہ
اُن بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
اور حضرت محسن کا کوروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے چہرۂ انور میں محراب ابرو کے حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ
یا کھنچی معرکۂ بدر میں شمشیریں ہیں مہ کامل میں مہ نور کی یہ تصویریں ہیں
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بھوئیں دراز و باریک اور گھنے بال والی تھیں اور دونوں بھوئیں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے دونوں ملی ہوئی معلوم ہوتی تھیں اور ان دونوں بھوؤں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔(شمائل ترمذی ص۲)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ابروئے مبارک کی مدح میں فرماتے ہیں کہ
اُن بھوؤں کی لطافت پہ لاکھوں سلام جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
اور حضرت محسن کا کوروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے چہرۂ انور میں محراب ابرو کے حسن کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ لکھا کہ
یا کھنچی معرکۂ بدر میں شمشیریں ہیں مہ کامل میں مہ نور کی یہ تصویریں ہیں
نورانی آنکھ:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔ (شمائل ترمذی ص۲ و دلائل النبوة ص۵۴)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔(زرقاني علي المواهب ج۵ ص۲۴۶ و خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۱)
چنانچہ بخاری و مسلم کی روایات میں آیا ہے کہ
اَقِيْمُوا الرُّكُوْعَ وَ السُّجُوْدَ فَوَ اللّٰهِ اِنِّيْ لَاَ رَاكُمْ مِنْ بَعْدِيْ(مشکوٰة ص۸۲ باب الرکوع)
یعنی اے لوگو ! تم رکوع و سجود کو درست طریقے سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم ! میں تم لوگوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔
صاحب ِ مرقاۃ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ
وَهِيَ مِنَ الْخَوَارِقِ الَّتِيْ اُعْطِيَهَا عَلَيْهِ السَّلَام (حاشیه مشکوٰة ص۸۲ باب الرکوع)
یعنی یہ باب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان معجزات میں سے ہے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں کا دیکھنا محسوسات ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو بھی جوآنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ وَاللّٰهِ مَا يَخْفٰي عَلَيَّ رَکُوْعُكُمْ وَلَا خُشُوْعُكُمْ(بخاری ج۱ ص۵۹)
یعنی خدا کی قسم ! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ سبحان اﷲ ! پیارے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی آنکھوں کے اعجاز کا کیا کہنا ؟ کہ پیٹھ کے پیچھے سے نمازیوں کے رکوع بلکہ ان کے خشوع کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
” خشوع ” کیا چیز ہے ؟ خشوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے جو آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ہے مگر نگاہ نبوت کا یہ معجزہ دیکھو کہ ایسی چیز کو بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ سبحان اﷲ ! چشمانِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعجاز کی شان کا کیا کوئی بیان کر سکتا ہے ؟ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہٗ نے کیا خوب فرمایا
دھوم ” والنجم ” میں ہے آپ کی بینائی کی شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال
بس قسم کھائیے امی تری دانائی کی فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر
بینی مبارک:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی متبرک ناک خوبصورت دراز اور بلند تھی جس پر ایک نور چمکتا تھا۔ جو شخص بغور نہیں دیکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی مبارک ناک بہت اونچی ہے حالانکہ آپ کی ناک بہت زیادہ اونچی نہ تھی بلکہ بلندی اس نور کی وجہ سے محسوس ہوتی تھی جو آپ کی مقدس ناک کے اوپر جلوہ فگن تھا۔(شمائل ترمذی ص۲ وغیره)
نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ پلکیں گھنی اور دراز تھیں۔ پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔ (شمائل ترمذی ص۲ و دلائل النبوة ص۵۴)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔(زرقاني علي المواهب ج۵ ص۲۴۶ و خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۱)
چنانچہ بخاری و مسلم کی روایات میں آیا ہے کہ
اَقِيْمُوا الرُّكُوْعَ وَ السُّجُوْدَ فَوَ اللّٰهِ اِنِّيْ لَاَ رَاكُمْ مِنْ بَعْدِيْ(مشکوٰة ص۸۲ باب الرکوع)
یعنی اے لوگو ! تم رکوع و سجود کو درست طریقے سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم ! میں تم لوگوں کو اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔
صاحب ِ مرقاۃ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ
وَهِيَ مِنَ الْخَوَارِقِ الَّتِيْ اُعْطِيَهَا عَلَيْهِ السَّلَام (حاشیه مشکوٰة ص۸۲ باب الرکوع)
یعنی یہ باب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان معجزات میں سے ہے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھوں کا دیکھنا محسوسات ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ غیر مرئی و غیر محسوس چیزوں کو بھی جوآنکھوں سے دیکھنے کے لائق ہی نہیں ہیں دیکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ وَاللّٰهِ مَا يَخْفٰي عَلَيَّ رَکُوْعُكُمْ وَلَا خُشُوْعُكُمْ(بخاری ج۱ ص۵۹)
یعنی خدا کی قسم ! تمہارا رکوع و خشوع میری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ سبحان اﷲ ! پیارے مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی آنکھوں کے اعجاز کا کیا کہنا ؟ کہ پیٹھ کے پیچھے سے نمازیوں کے رکوع بلکہ ان کے خشوع کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
” خشوع ” کیا چیز ہے ؟ خشوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے جو آنکھ سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ہے مگر نگاہ نبوت کا یہ معجزہ دیکھو کہ ایسی چیز کو بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ سبحان اﷲ ! چشمانِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعجاز کی شان کا کیا کوئی بیان کر سکتا ہے ؟ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب قبلہ بریلوی قدس سرہٗ نے کیا خوب فرمایا
دھوم ” والنجم ” میں ہے آپ کی بینائی کی شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال
بس قسم کھائیے امی تری دانائی کی فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر
بینی مبارک:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی متبرک ناک خوبصورت دراز اور بلند تھی جس پر ایک نور چمکتا تھا۔ جو شخص بغور نہیں دیکھتا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی مبارک ناک بہت اونچی ہے حالانکہ آپ کی ناک بہت زیادہ اونچی نہ تھی بلکہ بلندی اس نور کی وجہ سے محسوس ہوتی تھی جو آپ کی مقدس ناک کے اوپر جلوہ فگن تھا۔(شمائل ترمذی ص۲ وغیره)
نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام
مقدس پیشانی:۔
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا حلیہ بیان کرتے ہیں کہ واسع الجبين یعنی آپ کی مبارک پیشانی کشادہ اور چوڑی تھی۔(شمائل ترمذی ص۲)
قدرتی طور سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیشانی پر ایک نورانی چمک تھی۔ چنانچہ دربار رسالت کے شاعر مداح رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی حسین و جمیل نورانی منظر کو دیکھ کر یہ کہا ہے کہ
يَلُحْ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَي الْمُتَوَقِّدِ مَتَي يَبْدُ فِي الدَّاجِي الْبَهِيْمِ جَبِيْنُهٗ!
یعنی جب اندھیری رات میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں روشن چراغ چمکتے ہیں۔
گوش مبارک:۔
آپ کی آنکھوں کی طرح آپ کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ
اِنِّيْ اَرٰي مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْنَ(خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۷)
یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سمع و بصر کی قوت بے مثال اور معجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دور و نزدیک کی آوازوں کو یکساں طور پر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حلیف بنی خزاعہ نے، جیسا کہ فتح مکہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے ہیں، تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ لَا بُعْدَ فِيْ سَمَآعِهٖ صَلَي اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَانَ يَسْمَعُ اَطِيْطَ السَّمَآءِ یعنی اگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔(خصائص کبریٰ ج۱ ص۵۳ و حاشیہ الدولۃ المکیۃ ص۱۸۰)
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان
دہن شریف:۔
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(شمائل ترمذی ص۲ و خصائص کبریٰ ج۱ ص۷۴)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ ان کو کبھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیاء علیہم السلام شیطان کے تسلط سے محفوظ و معصوم ہیں۔(زرقانی ج۵ ص۲۴۸)
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا حلیہ بیان کرتے ہیں کہ واسع الجبين یعنی آپ کی مبارک پیشانی کشادہ اور چوڑی تھی۔(شمائل ترمذی ص۲)
قدرتی طور سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیشانی پر ایک نورانی چمک تھی۔ چنانچہ دربار رسالت کے شاعر مداح رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی حسین و جمیل نورانی منظر کو دیکھ کر یہ کہا ہے کہ
يَلُحْ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَي الْمُتَوَقِّدِ مَتَي يَبْدُ فِي الدَّاجِي الْبَهِيْمِ جَبِيْنُهٗ!
یعنی جب اندھیری رات میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس پیشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس طرح چمکتی ہے جس طرح رات کی تاریکی میں روشن چراغ چمکتے ہیں۔
گوش مبارک:۔
آپ کی آنکھوں کی طرح آپ کے کان میں بھی معجزانہ شان تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان اقدس سے ارشاد فرمایا کہ
اِنِّيْ اَرٰي مَالَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَالَا تَسْمَعُوْنَ(خصائص کبریٰ ج۱ ص۶۷)
یعنی میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں دیکھتا اور میں ان آوازوں کو سنتا ہوں جن کو تم میں سے کوئی نہیں سنتا۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سمع و بصر کی قوت بے مثال اور معجزانہ شان رکھتی تھی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دور و نزدیک کی آوازوں کو یکساں طور پر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حلیف بنی خزاعہ نے، جیسا کہ فتح مکہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے ہیں، تین دن کی مسافت سے آپ کو اپنی امداد و نصرت کے لئے پکارا تو آپ نے ان کی فریاد سن لی۔ علامہ زرقانی نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ لَا بُعْدَ فِيْ سَمَآعِهٖ صَلَي اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ کَانَ يَسْمَعُ اَطِيْطَ السَّمَآءِ یعنی اگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین دن کی مسافت سے ایک فریادی کی فریاد سن لی تو یہ آپ سے کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ آپ تو زمین پر بیٹھے ہوئے آسمانوں کی چرچراہٹ کو سن لیا کرتے تھے بلکہ عرش کے نیچے چاند کے سجدہ میں گرنے کی آواز کو بھی سن لیا کرتے تھے۔(خصائص کبریٰ ج۱ ص۵۳ و حاشیہ الدولۃ المکیۃ ص۱۸۰)
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان
دہن شریف:۔
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخسار نرم و نازک اور ہموار تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا منہ فراخ، دانت کشادہ اور روشن تھے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں آپ مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(شمائل ترمذی ص۲ و خصائص کبریٰ ج۱ ص۷۴)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کبھی جمائی نہیں آئی اور یہ تمام انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے کہ ان کو کبھی جمائی نہیں آتی کیونکہ جمائی شیطان کی طرف سے ہوا کرتی ہے اور حضرات انبیاء علیہم السلام شیطان کے تسلط سے محفوظ و معصوم ہیں۔(زرقانی ج۵ ص۲۴۸)
وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا چشمۂ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
زبان اقدس:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات و مخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے ۔
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
اسکی پیاری فصاحت پہ بیحد درود
اسکی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات و مخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے ۔
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ اعجاز تھا کہ زبان سے جو فرمادیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
اسکی پیاری فصاحت پہ بیحد درود
اسکی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام
لعابِ دہن:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لعابِ دہن (تھوک) زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن ” شفاء العین ” بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔(زاد المعاد غزوه بدر)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر تیر لگا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فوراً ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔(اصابه تذکره ابو قتادہ)
شفاء کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔(زرقانی ج۵ ص ۲۴۶)
امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عاشوراء کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماؤں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔(زرقانی ج۵ ص۲۴۶)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لعابِ دہن (تھوک) زخمیوں اور بیماریوں کے لئے شفاء اور زہروں کے لئے تریاقِ اعظم تھا۔ چنانچہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں غار ثور کے اندر سانپ نے کاٹا۔ اس کا زہر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعابِ دہن سے اتر گیا اور زخم اچھا ہو گیا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے آشوبِ چشم کے لئے یہ لعاب دہن ” شفاء العین ” بن گیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آنکھ میں جنگ بدر کے دن تیر لگا اور پھوٹ گئی مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ایسی شفا حاصل ہوئی کہ درد بھی جاتا رہا اور آنکھ کی روشنی بھی برقرار رہی۔(زاد المعاد غزوه بدر)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر تیر لگا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگا دیا فوراً ہی خون بند ہو گیا اور پھر زندگی بھر ان کو کبھی تیر و تلوار کا زخم نہ لگا۔(اصابه تذکره ابو قتادہ)
شفاء کے علاوہ اور بھی لعاب دہن سے بڑی بڑی معجزانہ برکات کا ظہور ہوا۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں ایک کنواں تھا۔ آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا تو اس کا پانی اتنا شیریں ہو گیا کہ مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر کوئی شیریں کنواں نہ تھا۔(زرقانی ج۵ ص ۲۴۶)
امام بیہقی نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عاشوراء کے دن دودھ پیتے بچوں کو بلاتے تھے اور ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے تھے۔ اور ان کی ماؤں کو حکم دیتے تھے کہ وہ رات تک اپنے بچوں کو دودھ نہ پلائیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہی لعاب دہن ان بچوں کو اس قدر شکم سیر اور سیراب کردیتا تھا کہ ان بچوں کو دن بھر نہ بھوک لگتی تھی نہ پیاس۔(زرقانی ج۵ ص۲۴۶)
جس کے پانی سے شاداب جان و جناں اس دہن کی طراوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنوئیں شیرئہ جاں بنے
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام
جس سے کھاری کنوئیں شیرئہ جاں بنے
اس زلال حلاوت پہ لاکھوں سلام
آواز مبارک:۔
یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضورِ سید المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے، خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔(زرقانی ج۴ ص۱۷۸)
جس میں نہریں ہیں شیروشکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام
یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے خصائص میں سے ہے کہ وہ خوب صورت اور خوش آواز ہوتے ہیں لیکن حضورِ سید المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ خوبرو اور سب سے بڑھ کر خوش گلو، خوش آواز اور خوش کلام تھے، خوش آوازی کے ساتھ ساتھ آپ اس قدر بلند آواز بھی تھے کہ خطبوں میں دور اور نزدیک والے سب یکساں اپنی اپنی جگہ پر آپ کا مقدس کلام سن لیا کرتے تھے۔(زرقانی ج۴ ص۱۷۸)
جس میں نہریں ہیں شیروشکر کی رواں
اس گلے کی نضارت پہ لاکھوں سلام
پرنور گردن:۔
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی گردن مبارک نہایت ہی معتدل،صراحی دار اور سڈول تھی۔ خوبصورتی اور صفائی میں نہایت ہی بے مثل خوب صورت اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔(شمائل ترمذی ص۲)
دست ِ رحمت:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُرگوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم اور دیبا کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و نازک نہیں پایا اور نہ کسی خوشبو کو آپ کی خوشبو سے بہتر اور بڑھ کر خوشبودار پایا۔(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم ج۲ ص۲۵۷)
جس شخص سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبو دار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا دست اقدس پھرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ کی طرف دوڑ پڑے تو آپ ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دست ِ رحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ نے اپنا دست ِ مبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔(مسلم ج۲ ص۲۵۶ باب طیب ریحه صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
اس دست مبارک سے کیسے کیسے معجزات و تصرفات عالم ظہور میں آئے ان کا کچھ تذکرہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے۔
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام
جس کو بار دو عالم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام
جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم اُس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام
انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی گردن مبارک نہایت ہی معتدل،صراحی دار اور سڈول تھی۔ خوبصورتی اور صفائی میں نہایت ہی بے مثل خوب صورت اور چاندی کی طرح صاف و شفاف تھی۔(شمائل ترمذی ص۲)
دست ِ رحمت:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس ہتھیلیاں چوڑی، پُرگوشت، کلائیاں لمبی، بازو دراز اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے۔(شمائل ترمذی ص۲)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم اور دیبا کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں سے زیادہ نرم و نازک نہیں پایا اور نہ کسی خوشبو کو آپ کی خوشبو سے بہتر اور بڑھ کر خوشبودار پایا۔(بخاری ج۱ ص۵۰۲ باب صفة النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم ج۲ ص۲۵۷)
جس شخص سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مصافحہ فرماتے وہ دن بھر اپنے ہاتھوں کو خوشبو دار پاتا۔ جس بچے کے سر پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا دست اقدس پھرا دیتے تھے وہ خوشبو میں تمام بچوں سے ممتاز ہوتا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر ادا کی پھر آپ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہی نکلا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے بچے آپ کی طرف دوڑ پڑے تو آپ ان میں سے ہر ایک کے رخسار پر اپنا دست ِ رحمت پھیرنے لگے میں سامنے آیا تو میرے رخسار پر بھی آپ نے اپنا دست ِ مبارک لگا دیا تو میں نے اپنے گالوں پر آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک محسوس کی اور ایسی خوشبو آئی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ کسی عطر فروش کی صندوقچی میں سے نکالا ہے۔(مسلم ج۲ ص۲۵۶ باب طیب ریحه صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم)
اس دست مبارک سے کیسے کیسے معجزات و تصرفات عالم ظہور میں آئے ان کا کچھ تذکرہ آپ معجزات کے بیان میں پڑھیں گے۔
ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کردیا موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام
جس کو بار دو عالم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام
کعبہ دین و ایماں کے دونوں ستون ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام
جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم اُس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام
انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں
شکم و سینہ:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شکم و سینہ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ نہ سینہ شکم سے اونچا تھا نہ شکم سینہ سے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سینہ چوڑا تھا اور سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر چلی گئی تھی مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ ہاں شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔(شمائل ترمذی ص۲)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شکم صبروقناعت کی ایک دنیا اور آپ کا سینہ معرفت الٰہی کے انوار کا سفینہ اور وحی الٰہی کا گنجینہ تھا۔
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اُس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شکم و سینہ اقدس دونوں ہموار اور برابر تھے۔ نہ سینہ شکم سے اونچا تھا نہ شکم سینہ سے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سینہ چوڑا تھا اور سینہ کے اوپر کے حصہ سے ناف تک مقدس بالوں کی ایک پتلی سی لکیر چلی گئی تھی مقدس چھاتیاں اور پورا شکم بالوں سے خالی تھا۔ ہاں شانوں اور کلائیوں پر قدرے بال تھے۔(شمائل ترمذی ص۲)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شکم صبروقناعت کی ایک دنیا اور آپ کا سینہ معرفت الٰہی کے انوار کا سفینہ اور وحی الٰہی کا گنجینہ تھا۔
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اُس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
پائے اقدس:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا دونوں پنڈلیاں قدرے پتلی اور صاف و شفاف، پاؤں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔(شمائل ترمذی ص۲ و مدارج النبوة وغیره)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چلنے میں بہت ہی وقار و تواضع کے ساتھ قدم شریف کو زمین پر رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چلنے میں میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جاتی تھی۔ ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور تیز چلنے سے مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر آپ نہایت ہی وقار و سکون کے ساتھ چلتے رہتے تھے مگر پھر بھی ہم سب لوگوں سے آپ آگے ہی رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۲ وغیره)
ساقِ اصل قدم شاخ نخل کرم شمع راہ اصابت پہ لاکھوں سلام
کھائی قرآن نے خاکِ گزر کی قسم
اُس کف پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا دونوں پنڈلیاں قدرے پتلی اور صاف و شفاف، پاؤں کی نرمی اور نزاکت کا یہ عالم تھا کہ ان پر پانی ذرا بھی نہیں ٹھہرتا تھا۔(شمائل ترمذی ص۲ و مدارج النبوة وغیره)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چلنے میں بہت ہی وقار و تواضع کے ساتھ قدم شریف کو زمین پر رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چلنے میں میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لئے لپیٹی جاتی تھی۔ ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑا کرتے تھے اور تیز چلنے سے مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر آپ نہایت ہی وقار و سکون کے ساتھ چلتے رہتے تھے مگر پھر بھی ہم سب لوگوں سے آپ آگے ہی رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۲ وغیره)
ساقِ اصل قدم شاخ نخل کرم شمع راہ اصابت پہ لاکھوں سلام
کھائی قرآن نے خاکِ گزر کی قسم
اُس کف پاکی حرمت پہ لاکھوں سلام
لباس:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے۔ اون اور کتان کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہمد، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی، موزہ ان سب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زیب تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ کبھی آپ نے پائجامہ پہنا ہو۔
عمامہ:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمامہ میں شملہ چھوڑتے تھے جو کبھی ایک شانہ پر اور کبھی دونوں شانوں کے درمیان پڑا رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عمامہ سفید، سبز، زعفرانی، سیاہ رنگ کا تھا۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے۔(شمائل ترمذی ص۹ وغیرہ)
عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور ہوتی تھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں یہی فرق و امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ (ابو داؤد باب العمائم ص ۲۰۹ ج۲ مجتبائی)
چادر:۔
یمن کی تیار شدہ سوتی دھاری دار چادریں جو عرب میں ” حبرہ ” یا بردیمانی کہلاتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھیں اور آپ ان چادروں کو بکثرت استعمال فرماتے تھے۔ کبھی کبھی سبز رنگ کی چادر بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی ہے۔(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخضرة مجتبائی)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زیادہ تر سوتی لباس پہنتے تھے۔ اون اور کتان کا لباس بھی کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے۔ لباس کے بارے میں کسی خاص پوشاک یا امتیازی لباس کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ جبہ، قبا، پیرہن، تہمد، حلہ، چادر، عمامہ، ٹوپی، موزہ ان سب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زیب تن فرمایا ہے۔ پائجامہ کو آپ نے پسند فرمایا اور منیٰ کے بازار میں ایک پائجامہ خریدا بھی تھا لیکن یہ ثابت نہیں کہ کبھی آپ نے پائجامہ پہنا ہو۔
عمامہ:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عمامہ میں شملہ چھوڑتے تھے جو کبھی ایک شانہ پر اور کبھی دونوں شانوں کے درمیان پڑا رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عمامہ سفید، سبز، زعفرانی، سیاہ رنگ کا تھا۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کالے رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے۔(شمائل ترمذی ص۹ وغیرہ)
عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور ہوتی تھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے اور مشرکین کے عماموں میں یہی فرق و امتیاز ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ (ابو داؤد باب العمائم ص ۲۰۹ ج۲ مجتبائی)
چادر:۔
یمن کی تیار شدہ سوتی دھاری دار چادریں جو عرب میں ” حبرہ ” یا بردیمانی کہلاتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھیں اور آپ ان چادروں کو بکثرت استعمال فرماتے تھے۔ کبھی کبھی سبز رنگ کی چادر بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی ہے۔(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخضرة مجتبائی)
کملی:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کملی بھی بکثرت استعمال فرماتے تھے یہاں تک کہ بوقت ِ وفات بھی ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک موٹا کمبل اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور فرمایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔(ترمذی ج۱ ص۲۰۶ باب ماجاء فی الثوب)
نعلین اقدس:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں۔ چمڑے کا ایک تلا ہوتا تھا جس میں تسمے لگے ہوتے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس جوتیوں میں دو تسمے عام طور پر لگے ہوتے تھے جو کروم چمڑے کے ہوا کرتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۷ وغیره)
پسندیدہ رنگ:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سفید، سیاہ، سبز، زعفرانی رنگوں کے کپڑے استعمال فرمائے ہیں۔ مگر سفید کپڑا آپ کو بہت زیادہ محبوب و مرغوب تھا، سرخ رنگ کے کپڑوں کو آپ بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ناگواری ظاہر فرماتے ہوئے دریافت فرمایا کہ یہ کپڑا کیسا ہے ؟ انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ اس کو جلانے کی ضرورت نہیں تھی کسی عورت کو دے دینا چاہیے تھا کیونکہ عورتوں کے لئے سرخ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو دو سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷،۲۰۸ باب فی الحمرة)
انگوٹھی:۔
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ سلاطین بغیر مہر والے خطوط کو قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اُوپر تلے تین سطروں میں مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کندہ کیا ہوا تھا۔(شمائل ترمذی ص۷ وغیره)
خوشبو:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خوشبو بہت زیادہ پسند تھی آپ ہمیشہ عطر کا استعمال فرمایا کرتے تھے حالانکہ خود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے ایسی خوشبو نکلتی تھی کہ جس گلی میں سے آپ گزر جاتے تھے وہ گلی معطر ہو جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ خوشبو پھیلے اور رنگ نظر نہ آئے اور عورتوں کے لئے وہ خوشبو بہتر ہے کہ وہ خوشبو نہ پھیلے اور رنگ نظر آئے ۔کوئی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس خوشبو بھیجتا تو آپ کبھی رد نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خوشبو کے تحفہ کو رد مت کرو کیونکہ یہ جنت سے نکلی ہوئی ہے۔(شمائل ترمذی ص۱۵)
سرمہ:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم روزانہ رات کو ” اِثمد ” کا سرمہ لگایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اثمد کا سرمہ لگایا کرو یہ نگاہ کو روشن اور تیز کرتا ہے اور پلک کے بال اُگاتا ہے۔(شمائل ترمذی ص۵)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کملی بھی بکثرت استعمال فرماتے تھے یہاں تک کہ بوقت ِ وفات بھی ایک کملی اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ایک موٹا کمبل اور ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور فرمایا کہ انہی دونوں کپڑوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔(ترمذی ج۱ ص۲۰۶ باب ماجاء فی الثوب)
نعلین اقدس:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں۔ چمڑے کا ایک تلا ہوتا تھا جس میں تسمے لگے ہوتے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس جوتیوں میں دو تسمے عام طور پر لگے ہوتے تھے جو کروم چمڑے کے ہوا کرتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۷ وغیره)
پسندیدہ رنگ:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سفید، سیاہ، سبز، زعفرانی رنگوں کے کپڑے استعمال فرمائے ہیں۔ مگر سفید کپڑا آپ کو بہت زیادہ محبوب و مرغوب تھا، سرخ رنگ کے کپڑوں کو آپ بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ناگواری ظاہر فرماتے ہوئے دریافت فرمایا کہ یہ کپڑا کیسا ہے ؟ انہوں نے ان کپڑوں کو جلا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا کہ اس کو جلانے کی ضرورت نہیں تھی کسی عورت کو دے دینا چاہیے تھا کیونکہ عورتوں کے لئے سرخ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو دو سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھا اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷،۲۰۸ باب فی الحمرة)
انگوٹھی:۔
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے کہا کہ سلاطین بغیر مہر والے خطوط کو قبول نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر اُوپر تلے تین سطروں میں مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کندہ کیا ہوا تھا۔(شمائل ترمذی ص۷ وغیره)
خوشبو:۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خوشبو بہت زیادہ پسند تھی آپ ہمیشہ عطر کا استعمال فرمایا کرتے تھے حالانکہ خود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے ایسی خوشبو نکلتی تھی کہ جس گلی میں سے آپ گزر جاتے تھے وہ گلی معطر ہو جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ خوشبو پھیلے اور رنگ نظر نہ آئے اور عورتوں کے لئے وہ خوشبو بہتر ہے کہ وہ خوشبو نہ پھیلے اور رنگ نظر آئے ۔کوئی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس خوشبو بھیجتا تو آپ کبھی رد نہ فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ خوشبو کے تحفہ کو رد مت کرو کیونکہ یہ جنت سے نکلی ہوئی ہے۔(شمائل ترمذی ص۱۵)
سرمہ:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم روزانہ رات کو ” اِثمد ” کا سرمہ لگایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک سرمہ دانی تھی اس میں سے تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اثمد کا سرمہ لگایا کرو یہ نگاہ کو روشن اور تیز کرتا ہے اور پلک کے بال اُگاتا ہے۔(شمائل ترمذی ص۵)
سواری:۔
گھوڑے کی سواری آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔ گھوڑوں کے علاوہ اونٹ، خچر حمار (عربی گدھا جو گھوڑے سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے) پر بھی سواری فرمائی ہے۔(صحیحین وغیره کتب احادیث و سیر)
نفاست پسندی:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مزاجِ اقدس نہایت ہی لطیف اور نفاست پسند تھا۔ ایک آدمی کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو ناگواری کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اپنے کپڑوں کو دھو لیا کرے ؟ اسی طرح ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال اُلجھے ہوئے ہیں تو فرمایا کہ کیا اس کو کوئی ایسی چیز (تیل کنگھی) نہیں ملتی کہ یہ اپنے بالوں کو سنوارلے۔(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخلقان الخ مجتبائی)
اسی طرح ایک آدمی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بہت ہی خراب قسم کے کپڑے پہنے ہوئے آگیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ مال بھی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں میرے پاس اونٹ بکریاں گھوڑے غلام سبھی قسم کے مال ہیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اﷲ تعالیٰ نے تم کو مال دیا ہے تو چاہیے کہ تمہارے اوپر اس کی نعمتوں کا کچھ نشان بھی نظر آئے۔ (یعنی اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنو)(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ مجتبائی)
مرغوب غذائیں:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ اور صبر و قناعت کا مکمل نمونہ تھی اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی لذیذ اور پر تکلف کھانوں کی خواہش ہی نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ کبھی آپ نے چپاتی نہیں کھائی پھر بھی بعض کھانے آپ کو بہت پسند تھے جن کو بڑی رغبت کے ساتھ آپ تناول فرماتے تھے۔ مثلاً عرب میں ایک کھانا ہوتا ہے جو ” حیس ” کہلاتا ہے یہ گھی، پنیر اور کھجور ملا کر پکایا جاتا ہے اس کو آپ بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے تھے۔
جوکی موٹی موٹی روٹیاں اکثر غذا میں استعمال فرماتے، سالنوں میں گوشت، سرکہ، شہد، روغن زیتون، کدو خصوصیت کے ساتھ مرغوب تھے۔ گوشت میں کدو پڑا ہوتا تو پیالہ میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھاتے تھے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بکری، دنبہ، بھیڑ، اونٹ، گورخر،خرگوش، مرغ، بٹیر، مچھلی کا گوشت کھایا ہے۔ اسی طرح کھجور اور ستو بھی بکثرت تناول فرماتے تھے۔ تربوز کو کھجور کے ساتھ ملا کر، کھجور کے ساتھ ککڑی ملا کر، روٹی کے ساتھ کھجور بھی کبھی کبھی تناول فرمایا کرتے تھے۔ انگور، انار وغیرہ پھل فروٹ بھی کھایا کرتے تھے۔
ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا دودھ میں کبھی پانی ملا کراور کبھی خالص دودھ نوش فرماتے کبھی کشمش اور کھجور پانی میں ملا کر اس کا رس پیتے تھے جو کچھ پیتے تین سانس میں نوش فرماتے۔
ٹیبل (میز) پر کبھی کھانا تناول نہیں فرمایا،ہمیشہ کپڑے یا چمڑے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے، مسند یا تکیہ پر ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کبھی کچھ نہ کھاتے نہ اس کو پسند فرماتے۔ کھانا صرف انگلیوں سے تناول فرماتے چمچہ کانٹا وغیرہ سے کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ہاں ابلے ہوئے گوشت کو کبھی کبھی چھری سے کاٹ کاٹ کر بھی کھاتے تھے۔(شمائل ترمذی)
روز مرہ کے معمولات:۔
احادیث ِ کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک خدا عزوجل کی عبادت کے لئے ،دوسرا عام مخلوق کے لئے، تیسرا اپنی ذات کے لئے۔
عام طور پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد آپ اپنے مصلیٰ پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ آفتاب خوب بلند ہو جاتا۔ عام لوگوں سے ملاقات کا یہی خاص وقت تھا لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے اور اپنی حاجات و ضروریات کو آپ کی بارگاہ میں پیش کرتے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی ضروریات کو پوری فرماتے اور لوگوں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین فرماتے اپنے اور لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرماتے۔ اس کے بعد مختلف قسم کی گفتگو فرماتے کبھی کبھی لوگ زمانہ جاہلیت کی باتوں اور رسموں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسکرا دیتے کبھی کبھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کو اشعار بھی سناتے۔ (مشکوٰة ج۲ ص۴۰۶ باب الضحک) ( ابو داؤد ج۲ ص۳۱۸ باب فی الرجل یجلس متربعاً)
اکثر اسی وقت میں مال غنیمت اور وظائف کی تقسیم بھی فرماتے۔ جب سورج خوب بلند ہو جاتا تو کبھی چار رکعت کبھی آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرماتے پھر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں میں تشریف لے جاتے اور گھریلو ضروریات کے بندوبست میں مصروف ہو جاتے اور گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی مدد فرماتے۔(بخاری ج۱ ص۹۳ باب من کان فی حاجة اہله)
نماز عصر کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو شرفِ ملاقات سے سرفراز فرماتے اور سب کے حجروں میں تھوڑی تھوڑی دیر ٹھہر کر کچھ گفتگو فرماتے پھر جس کی باری ہوتی وہیں رات بسر فرماتے، تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن وہیں جمع ہو جاتیں، عشاء تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے بات چیت فرماتے رہتے پھر نماز عشاء کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اور مسجد سے واپس آ کر آرام فرماتے اور عشاء کے بعد بات چیت کونا پسند فرماتے ۔(مسلم ج۱ ص۴۷۲ باب القسم بین الزوجات)
گھوڑے کی سواری آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔ گھوڑوں کے علاوہ اونٹ، خچر حمار (عربی گدھا جو گھوڑے سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے) پر بھی سواری فرمائی ہے۔(صحیحین وغیره کتب احادیث و سیر)
نفاست پسندی:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مزاجِ اقدس نہایت ہی لطیف اور نفاست پسند تھا۔ ایک آدمی کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو ناگواری کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اس سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ یہ اپنے کپڑوں کو دھو لیا کرے ؟ اسی طرح ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے بال اُلجھے ہوئے ہیں تو فرمایا کہ کیا اس کو کوئی ایسی چیز (تیل کنگھی) نہیں ملتی کہ یہ اپنے بالوں کو سنوارلے۔(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ باب فی الخلقان الخ مجتبائی)
اسی طرح ایک آدمی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بہت ہی خراب قسم کے کپڑے پہنے ہوئے آگیا تو آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کیا کچھ مال بھی ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ جی ہاں میرے پاس اونٹ بکریاں گھوڑے غلام سبھی قسم کے مال ہیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اﷲ تعالیٰ نے تم کو مال دیا ہے تو چاہیے کہ تمہارے اوپر اس کی نعمتوں کا کچھ نشان بھی نظر آئے۔ (یعنی اچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنو)(ابو داؤد ج۲ ص۲۰۷ مجتبائی)
مرغوب غذائیں:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ اور صبر و قناعت کا مکمل نمونہ تھی اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی لذیذ اور پر تکلف کھانوں کی خواہش ہی نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ کبھی آپ نے چپاتی نہیں کھائی پھر بھی بعض کھانے آپ کو بہت پسند تھے جن کو بڑی رغبت کے ساتھ آپ تناول فرماتے تھے۔ مثلاً عرب میں ایک کھانا ہوتا ہے جو ” حیس ” کہلاتا ہے یہ گھی، پنیر اور کھجور ملا کر پکایا جاتا ہے اس کو آپ بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے تھے۔
جوکی موٹی موٹی روٹیاں اکثر غذا میں استعمال فرماتے، سالنوں میں گوشت، سرکہ، شہد، روغن زیتون، کدو خصوصیت کے ساتھ مرغوب تھے۔ گوشت میں کدو پڑا ہوتا تو پیالہ میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھاتے تھے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بکری، دنبہ، بھیڑ، اونٹ، گورخر،خرگوش، مرغ، بٹیر، مچھلی کا گوشت کھایا ہے۔ اسی طرح کھجور اور ستو بھی بکثرت تناول فرماتے تھے۔ تربوز کو کھجور کے ساتھ ملا کر، کھجور کے ساتھ ککڑی ملا کر، روٹی کے ساتھ کھجور بھی کبھی کبھی تناول فرمایا کرتے تھے۔ انگور، انار وغیرہ پھل فروٹ بھی کھایا کرتے تھے۔
ٹھنڈا پانی بہت مرغوب تھا دودھ میں کبھی پانی ملا کراور کبھی خالص دودھ نوش فرماتے کبھی کشمش اور کھجور پانی میں ملا کر اس کا رس پیتے تھے جو کچھ پیتے تین سانس میں نوش فرماتے۔
ٹیبل (میز) پر کبھی کھانا تناول نہیں فرمایا،ہمیشہ کپڑے یا چمڑے کے دسترخوان پر کھانا کھاتے، مسند یا تکیہ پر ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کبھی کچھ نہ کھاتے نہ اس کو پسند فرماتے۔ کھانا صرف انگلیوں سے تناول فرماتے چمچہ کانٹا وغیرہ سے کھانا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ہاں ابلے ہوئے گوشت کو کبھی کبھی چھری سے کاٹ کاٹ کر بھی کھاتے تھے۔(شمائل ترمذی)
روز مرہ کے معمولات:۔
احادیث ِ کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک خدا عزوجل کی عبادت کے لئے ،دوسرا عام مخلوق کے لئے، تیسرا اپنی ذات کے لئے۔
عام طور پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ نماز فجر کے بعد آپ اپنے مصلیٰ پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ آفتاب خوب بلند ہو جاتا۔ عام لوگوں سے ملاقات کا یہی خاص وقت تھا لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے اور اپنی حاجات و ضروریات کو آپ کی بارگاہ میں پیش کرتے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی ضروریات کو پوری فرماتے اور لوگوں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین فرماتے اپنے اور لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرماتے۔ اس کے بعد مختلف قسم کی گفتگو فرماتے کبھی کبھی لوگ زمانہ جاہلیت کی باتوں اور رسموں کا تذکرہ کرتے اور ہنستے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مسکرا دیتے کبھی کبھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کو اشعار بھی سناتے۔ (مشکوٰة ج۲ ص۴۰۶ باب الضحک) ( ابو داؤد ج۲ ص۳۱۸ باب فی الرجل یجلس متربعاً)
اکثر اسی وقت میں مال غنیمت اور وظائف کی تقسیم بھی فرماتے۔ جب سورج خوب بلند ہو جاتا تو کبھی چار رکعت کبھی آٹھ رکعت نماز چاشت ادا فرماتے پھر ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں میں تشریف لے جاتے اور گھریلو ضروریات کے بندوبست میں مصروف ہو جاتے اور گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی مدد فرماتے۔(بخاری ج۱ ص۹۳ باب من کان فی حاجة اہله)
نماز عصر کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو شرفِ ملاقات سے سرفراز فرماتے اور سب کے حجروں میں تھوڑی تھوڑی دیر ٹھہر کر کچھ گفتگو فرماتے پھر جس کی باری ہوتی وہیں رات بسر فرماتے، تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن وہیں جمع ہو جاتیں، عشاء تک آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے بات چیت فرماتے رہتے پھر نماز عشاء کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے اور مسجد سے واپس آ کر آرام فرماتے اور عشاء کے بعد بات چیت کونا پسند فرماتے ۔(مسلم ج۱ ص۴۷۲ باب القسم بین الزوجات)
سونا جاگنا:۔
نماز عشاء پڑھ کر آرام کرنا عام طور پر یہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معمول تھا، سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ سورتیں ضرور تلاوت فرماتے اور کچھ دعاؤں کا بھی ورد فرماتے۔ پھر اکثر یہ دعا پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے کہ اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَاَحْيٰي يا الله تیرا نام لے کر وفات پاتا ہوں اور زندہ رہتا ہوں۔ نیند سے بیدار ہوتے تو اکثر یہ دعا پڑھتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَحْيَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ اس خدا کیلئے حمد ہے جس نے موت کے بعد ہم کو زندہ کیا اور اسی کی طرف حشر ہوگا۔
آدھی رات یا پہر رات رہے بستر سے اٹھ جاتے مسواک فرماتے پھر وضو کرتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ تلاوت فرماتے، مختلف دعاؤں کا وظیفہ فرماتے، خصوصیت کے ساتھ نماز تہجد ادا فرماتے، تہجد کی نماز میں کبھی لمبی لمبی کبھی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے، ضعف پیری میں کبھی کچھ رکعتیں بیٹھ کر بھی ادا فرماتے، نمازِ تہجد کے بعد وتر پڑھتے اور پھر صبح صادق طلوع ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا فرما کر نمازِ فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے، کبھی کبھی کئی کئی بار رات میں سوتے اور جاگتے اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرماتے اور کبھی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے گفتگو بھی فرماتے۔(صحاح سته وغیره)
رفتار:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت ہی باوقار رفتار کے ساتھ چلتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ بوقت رفتار حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قدر تیز چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے قدموں کے نیچے سے لپیٹی جا رہی ہے۔ ہم لوگ آ پ کے ساتھ چلنے میں ہانپنے لگتے اور مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بلا تکلف بغیر کسی مشقت کے تیز رفتاری کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۹)
کلام:۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے بلکہ کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملہ کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سامعین اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ” جوامع الکلم ” کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملہ میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔ حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۱۵)
نماز عشاء پڑھ کر آرام کرنا عام طور پر یہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معمول تھا، سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ سورتیں ضرور تلاوت فرماتے اور کچھ دعاؤں کا بھی ورد فرماتے۔ پھر اکثر یہ دعا پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے کہ اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَاَحْيٰي يا الله تیرا نام لے کر وفات پاتا ہوں اور زندہ رہتا ہوں۔ نیند سے بیدار ہوتے تو اکثر یہ دعا پڑھتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَحْيَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ اس خدا کیلئے حمد ہے جس نے موت کے بعد ہم کو زندہ کیا اور اسی کی طرف حشر ہوگا۔
آدھی رات یا پہر رات رہے بستر سے اٹھ جاتے مسواک فرماتے پھر وضو کرتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے۔ تلاوت فرماتے، مختلف دعاؤں کا وظیفہ فرماتے، خصوصیت کے ساتھ نماز تہجد ادا فرماتے، تہجد کی نماز میں کبھی لمبی لمبی کبھی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے، ضعف پیری میں کبھی کچھ رکعتیں بیٹھ کر بھی ادا فرماتے، نمازِ تہجد کے بعد وتر پڑھتے اور پھر صبح صادق طلوع ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا فرما کر نمازِ فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے جاتے، کبھی کبھی کئی کئی بار رات میں سوتے اور جاگتے اور قرآن مجید کی آیات تلاوت فرماتے اور کبھی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے گفتگو بھی فرماتے۔(صحاح سته وغیره)
رفتار:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت ہی باوقار رفتار کے ساتھ چلتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ بوقت رفتار حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قدر تیز چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے قدموں کے نیچے سے لپیٹی جا رہی ہے۔ ہم لوگ آ پ کے ساتھ چلنے میں ہانپنے لگتے اور مشقت میں پڑ جاتے تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بلا تکلف بغیر کسی مشقت کے تیز رفتاری کے ساتھ چلتے رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۹)
کلام:۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے بلکہ کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے۔ اگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملہ کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سامعین اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ” جوامع الکلم ” کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملہ میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔ حضرت ہند بن ابو ہالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔(شمائل ترمذی ص۱۵)
دربار نبوت:۔
حضور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا۔ یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اور باڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔ مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔(بخاری ج۱ ص۳۹۸)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان نبوت کو سنتے۔(بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجهاد)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اﷲ !
وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں
غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی
جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ و نصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار ميں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔ -
حضور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربار سلاطین اور بادشاہوں جیسا دربار نہ تھا۔ یہ دربار تخت و تاج، نقیب و دربان، پہرہ دار اور باڈی گارڈ وغیرہ کے تکلفات سے قطعاً بے نیاز تھا۔ مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک چھوٹا سا مٹی کا چبوترہ بنا دیا تھا یہی تاجدار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ تخت شاہی تھا جس پر ایک چٹائی بچھا کر دونوں عالم کے تاجدار اور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوتے تھے مگر اس سادگی کے باوجود جلالِ نبوت سے ہر شخص اس دربار میں پیکر تصویر نظر آتا تھا۔ بخاری شریف وغیرہ کی روایات میں آیا ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں بیٹھتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں کوئی ذرا جنبش نہیں کرتا تھا۔(بخاری ج۱ ص۳۹۸)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اس دربار میں سب سے پہلے اہل حاجت کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے۔ قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے تمام حاضرین کمال ادب سے سر جھکائے رہتے اور جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے تو مجلس پر سناٹا چھا جاتا اور سب لوگ ہمہ تن گوش ہو کر شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان نبوت کو سنتے۔(بخاری ج۱ ص۳۸۰ شروط فی الجهاد)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی امیر و فقیر شہری اور بدوی سب قسم کے لوگ حاضر دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔ سبحان اﷲ !
وہ عادل جس کے میزان عدالت میں برابر ہیں
غبار مسکنت ہو یا وقارِ تاجِ سلطانی
جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کمال حلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم و تلقین اور مواعظ و نصائح فرماتے رہتے اور اپنے مخصوص اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے رہتے اور صلح و جنگ اور امت کے نظام و انتظام کے بارے میں ضروری احکام بھی صادر فرمایا کرتے تھے۔ اسی دربار ميں آپ مقدمات کا فیصلہ بھی فرماتے تھے۔ -
تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبات:۔
نبی و رسول چونکہ دین کے داعی اور شریعت و ملت کے مبلغ ہوتے ہیں اور تعلیم شریعت اور تلقین دین کا بہترین ذریعہ خطبہ اور وعظ ہی ہے اس لئے ہر نبی و رسول کا خطبہ اور واعظ ہونا ضروریات و لوازمِ نبوت میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس بھیجا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِيْ ﴿۲۵﴾ وَ يَسِّرْ لِيْۤ اَمْرِيْ ﴿۲۶﴾ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ﴿۲۷﴾ یَفْقَهُوْا قَوْلِيْ ﴿۲۸﴾ (طه)
اے میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لئے میرَا کام آسان کر اور میری زَبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ تمام رسولوں کے سردارا اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اس لئے خداوند قدوس نے آپ کو خطابت و تقریر میں ایسا بے مثال کمال عطا فرمایا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم افصح العرب (تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فصیح) ہوئے اور آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا تھا اور آپ کے جوش تکلم کی تاثرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں انقلابِ عظیم پیدا ہو جاتا تھا۔
چنانچہ جمعہ و عیدین کے خطبوں کے سوا سینکڑوں مواقع پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے ایسے فصیح و بلیغ خطبات اور موثر مواعظ ارشاد فرمائے کہ فصحاء عرب حیران رہ گئے اور ان خطبوں کے اثرات و تاثیرات سے بڑے بڑے سنگدلوں کے دل موم کی طرح پگھل گئے اور دم زدن میں ان کے قلوب کی دنیا ہی بدل گئی۔
چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مختلف حیثیتوں کے جامع تھے اس لئے آپ کی یہ مختلف حیثیات آپ کے خطبات کے طرز بیان پر اثر انداز ہوا کرتی تھیں۔ آپ ایک دین کے داعی بھی تھے، فاتح بھی تھے، امیر لشکر بھی تھے، مصلح قوم بھی تھے، فرماں روا بھی تھے، اس لئے ان حیثیتوں کے لحاظ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبات میں قسم قسم کا زور بیان اور طرح طرح کا جوشِ کلام ہوا کرتا تھا۔ جوشِ بیان کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات خطبہ کے دوران میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ اور آواز بہت ہی بلند ہو جاتی تھی اور جلالِ نبوت کے جذبات سے آپ کے چہرۂ انور پر غضب کے آثار نمودار ہو جاتے تھے بار بار انگلیوں کو اٹھا اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو للکار رہے ہیں۔(مسلم جلد۱ ص۲۸۴ کتاب الجمعه)
چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پرجوش خطبہ اور تقریر کے جوش و خروش کی بہترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ خداوند جبار آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں جبار لوگ ؟ کدھر ہیں متکبرین ؟ یہ فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی مٹھی بند کر لیتے کبھی مٹھی کھول دیتے اور آپ کا جسم اقدس (جوش میں) کبھی دائیں کبھی بائیں جھک جھک جاتا یہاں تک کہ میں نے یہ دیکھا کہ منبر کا نچلا حصہ بھی اس قدر ہل رہا تھا کہ میں (اپنے دل میں) یہ کہنے لگا کہ کہیں یہ منبر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لے کر گر تو نہیں پڑے گا۔(ابن ماجه ص۳۲۶ ذکر البعث)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منبر پر، زمین پر، اُونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر جیسا موقع پیش آیا خطبہ دیا ہے۔ کبھی کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طویل خطبات بھی دیئے لیکن عام طور پر آپ کے خطبات بہت مختصر مگر جامع ہوتے تھے۔
میدانِ جنگ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے اور مسجدوں میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت دست ِ مبارک میں ” عصا ” ہوتا تھا۔ (ابن ماجه ص۷۹ باب ماجاء فی الخطبة یوم الجمعة)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبوں کے اثرات کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض مرتبہ سخت سے سخت اشتعال انگیز موقعوں پر آپ کے چند جملے محبت کا دریا بہا دیتے تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا اثر انگیز اور ولولہ خیز خطبہ پڑھا کہ میں نے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا درمیان خطبہ میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ زبانِ مبارک سے اس جملہ کا نکلنا تھا کہ سامعین کا یہ حال ہو گیا کہ لوگ کپڑوں میں منہ چھپا چھپا کر زار و قطار رونے لگے۔(بخاری جلد۲ ص۶۶۵ تفسیر سورئہ مائدہ)
نبی و رسول چونکہ دین کے داعی اور شریعت و ملت کے مبلغ ہوتے ہیں اور تعلیم شریعت اور تلقین دین کا بہترین ذریعہ خطبہ اور وعظ ہی ہے اس لئے ہر نبی و رسول کا خطبہ اور واعظ ہونا ضروریات و لوازمِ نبوت میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رسالت سے سرفراز فرما کر فرعون کے پاس بھیجا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِيْ ﴿۲۵﴾ وَ يَسِّرْ لِيْۤ اَمْرِيْ ﴿۲۶﴾ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ ﴿۲۷﴾ یَفْقَهُوْا قَوْلِيْ ﴿۲۸﴾ (طه)
اے میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لئے میرَا کام آسان کر اور میری زَبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھیں۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چونکہ تمام رسولوں کے سردارا اور سب نبیوں کے خاتم ہیں اس لئے خداوند قدوس نے آپ کو خطابت و تقریر میں ایسا بے مثال کمال عطا فرمایا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم افصح العرب (تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فصیح) ہوئے اور آپ کو جوامع الکلم کا معجزہ بخشا گیا کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ میں معانی و مطالب کا سمندر موجیں مارتا ہوا نظر آتا تھا اور آپ کے جوش تکلم کی تاثرات سے سامعین کے دلوں کی دنیا میں انقلابِ عظیم پیدا ہو جاتا تھا۔
چنانچہ جمعہ و عیدین کے خطبوں کے سوا سینکڑوں مواقع پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے ایسے فصیح و بلیغ خطبات اور موثر مواعظ ارشاد فرمائے کہ فصحاء عرب حیران رہ گئے اور ان خطبوں کے اثرات و تاثیرات سے بڑے بڑے سنگدلوں کے دل موم کی طرح پگھل گئے اور دم زدن میں ان کے قلوب کی دنیا ہی بدل گئی۔
چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مختلف حیثیتوں کے جامع تھے اس لئے آپ کی یہ مختلف حیثیات آپ کے خطبات کے طرز بیان پر اثر انداز ہوا کرتی تھیں۔ آپ ایک دین کے داعی بھی تھے، فاتح بھی تھے، امیر لشکر بھی تھے، مصلح قوم بھی تھے، فرماں روا بھی تھے، اس لئے ان حیثیتوں کے لحاظ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبات میں قسم قسم کا زور بیان اور طرح طرح کا جوشِ کلام ہوا کرتا تھا۔ جوشِ بیان کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات خطبہ کے دوران میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ اور آواز بہت ہی بلند ہو جاتی تھی اور جلالِ نبوت کے جذبات سے آپ کے چہرۂ انور پر غضب کے آثار نمودار ہو جاتے تھے بار بار انگلیوں کو اٹھا اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے گویا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو للکار رہے ہیں۔(مسلم جلد۱ ص۲۸۴ کتاب الجمعه)
چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پرجوش خطبہ اور تقریر کے جوش و خروش کی بہترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ خداوند جبار آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں جبار لوگ ؟ کدھر ہیں متکبرین ؟ یہ فرماتے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی مٹھی بند کر لیتے کبھی مٹھی کھول دیتے اور آپ کا جسم اقدس (جوش میں) کبھی دائیں کبھی بائیں جھک جھک جاتا یہاں تک کہ میں نے یہ دیکھا کہ منبر کا نچلا حصہ بھی اس قدر ہل رہا تھا کہ میں (اپنے دل میں) یہ کہنے لگا کہ کہیں یہ منبر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لے کر گر تو نہیں پڑے گا۔(ابن ماجه ص۳۲۶ ذکر البعث)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منبر پر، زمین پر، اُونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر جیسا موقع پیش آیا خطبہ دیا ہے۔ کبھی کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طویل خطبات بھی دیئے لیکن عام طور پر آپ کے خطبات بہت مختصر مگر جامع ہوتے تھے۔
میدانِ جنگ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے اور مسجدوں میں جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت دست ِ مبارک میں ” عصا ” ہوتا تھا۔ (ابن ماجه ص۷۹ باب ماجاء فی الخطبة یوم الجمعة)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خطبوں کے اثرات کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض مرتبہ سخت سے سخت اشتعال انگیز موقعوں پر آپ کے چند جملے محبت کا دریا بہا دیتے تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا اثر انگیز اور ولولہ خیز خطبہ پڑھا کہ میں نے کبھی ایسا خطبہ نہیں سنا تھا درمیان خطبہ میں آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! جو میں جانتا ہوں اگر تم جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ زبانِ مبارک سے اس جملہ کا نکلنا تھا کہ سامعین کا یہ حال ہو گیا کہ لوگ کپڑوں میں منہ چھپا چھپا کر زار و قطار رونے لگے۔(بخاری جلد۲ ص۶۶۵ تفسیر سورئہ مائدہ)
سرورِ کائنات کی عبادات:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمام انبیاء سابقین کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کا طریقہ عبادت کیا تھا ؟ اور ان کے کون کون سے اوقات عبادتوں کے لئے مخصوص تھے ؟ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں یہ فخرو شرف صرف حضور خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادات کے تمام طریقوں، ان کے اوقات و کیفیات غرض اس کے ایک ایک جزئیہ کو محفوظ رکھا ہے۔ گھروں کے اندر اور راتوں کی تاریکیوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو اور جس قدر عبادتیں فرماتے تھے ان کو ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے دیکھ کر یاد رکھا اور ساری امت کو بتا دیا اور گھر کے باہر کی عبادتوں کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام و قعود، رکوع و سجود اور ان کی کمیات و کیفیات، اذکار اور دعاؤں کے بعینہ الفاظ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات اور خضوع و خشوع کی کیفیات کو بھی اپنی یادداشت کے خزانوں میں محفوظ کر لیا۔ پھر امت کے سامنے ان عبادتوں کا اس قدر چرچا کیا کہ نہ صرف کتابوں کے اوراق میں وہ محفوظ ہو کر رہ گئے بلکہ امت کے ایک ایک فرد یہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کو بھی ان کا علم حاصل ہو گیا اور آج مسلمانوں کا ایک ایک بچہ خواہ وہ کرۂ زمین کے کسی بھی گوشہ میں رہتا ہو اس کو اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادتوں کے مکمل حالات معلوم ہیں اور وہ ان عبادتوں پر اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع میں جوش ایمان اور جذبہ عمل کے ساتھ کار بند ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادتوں کا ایک اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔
نماز:۔
اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غار حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب معراج میں نماز پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، صلوٰۃ الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوت
پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے۔ کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت، کبھی آٹھ رکعت، کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔(صحاح سته وغیره کتب حدیث) -
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باوجود بے شمار مشاغل کے اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ تمام انبیاء سابقین کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کا طریقہ عبادت کیا تھا ؟ اور ان کے کون کون سے اوقات عبادتوں کے لئے مخصوص تھے ؟ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امتوں میں یہ فخرو شرف صرف حضور خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادات کے تمام طریقوں، ان کے اوقات و کیفیات غرض اس کے ایک ایک جزئیہ کو محفوظ رکھا ہے۔ گھروں کے اندر اور راتوں کی تاریکیوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو اور جس قدر عبادتیں فرماتے تھے ان کو ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے دیکھ کر یاد رکھا اور ساری امت کو بتا دیا اور گھر کے باہر کی عبادتوں کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی اہتمام کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قیام و قعود، رکوع و سجود اور ان کی کمیات و کیفیات، اذکار اور دعاؤں کے بعینہ الفاظ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات اور خضوع و خشوع کی کیفیات کو بھی اپنی یادداشت کے خزانوں میں محفوظ کر لیا۔ پھر امت کے سامنے ان عبادتوں کا اس قدر چرچا کیا کہ نہ صرف کتابوں کے اوراق میں وہ محفوظ ہو کر رہ گئے بلکہ امت کے ایک ایک فرد یہاں تک کہ پردہ نشین خواتین کو بھی ان کا علم حاصل ہو گیا اور آج مسلمانوں کا ایک ایک بچہ خواہ وہ کرۂ زمین کے کسی بھی گوشہ میں رہتا ہو اس کو اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادتوں کے مکمل حالات معلوم ہیں اور وہ ان عبادتوں پر اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع میں جوش ایمان اور جذبہ عمل کے ساتھ کار بند ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادتوں کا ایک اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔
نماز:۔
اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غار حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے تھے، نزول وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب معراج میں نماز پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء، تحیۃ المسجد، صلوٰۃ الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کچھ دیر سوت
پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے۔ کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت، کبھی آٹھ رکعت، کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نماز تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں اور دعاؤں میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اقدس میں ورم آ جایا کرتا تھا۔(صحاح سته وغیره کتب حدیث) -
روزہ:۔
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایام بیض کے روزے، دو شنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرہ ذوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے، معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ” صوم وصال ” بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے ؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو (روحانی غذا) کھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری و مسلم صوم وصال)
زکوٰۃ:۔
چونکہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر خداوند قدوس نے زکوٰۃ فرض ہی نہیں فرمائی ہے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر زکوٰۃ فرض ہی نہیں تھی۔ (زرقانی ج۸ ص۹۰)
لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی یا تجارت کا کوئی سامان یا مویشیوں کا کوئی ریوڑ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب خدا عزوجل کی راہ میں مستحقین پر تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ گوارا ہی نہیں تھا کہ رات بھر کوئی مال و دولت کاشانہ نبوت میں رہ جائے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پڑا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ رات بھر مسجد ہی میں رہ گئے جب حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آکر یہ خبر دی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ نے اپنے مکان میں قدم رکھا۔(ابو داؤد باب قبول هدایا المشرکین)
حج:۔
اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو یا تین حج کئے۔ (ترمذی باب کم حج النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم و ابن ماجه)
لیکن ہجرت کے بعد مدینہ منورہ سے ۱۰ ھ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک حج فرمایا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ حج کے علاوہ ہجرت کے بعد آپ نے چار عمرے بھی ادا فرمائے۔(ترمذی و بخاری و مسلم کتاب الحج)
ذکر الٰہی:۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر وقت ہر گھڑی ہر لحظہ ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔(ابو داؤد کتاب الطہارة وغیره)
اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سواری سے اترتے، سفر میں جاتے، سفر سے واپس ہوتے، بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے، مسجد میں آتے جاتے، جنگ کے وقت، آندھی، بارش، بجلی کڑکتے وقت، ہر وقت ہر حال میں دعائیں وردِ زبان رہتی تھیں۔ خوشی اور غمی کے اوقات میں، صبح صادق طلوع ہونے کے وقت، غروبِ آفتاب کے وقت، مرغ کی آواز سن کر، گدھے کی آواز سن کر، غرض کون سا ایسا موقع تھا کہ آپ کوئی دعا نہ پڑھتے دن ہی میں نہیں بلکہ رات کے سناٹوں میں بھی برابر دعا خوانی اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتے یہاں تک کہ بوقتِ وفات بھی جو فقرہ بار بار وردِ زَبان رہا وہ اَللّٰهُمَّ فِي الرَّفِيْقِ الْاَعْلٰي کی دعا تھی۔ (صحاح سته و حصن حصین وغیره کتب احادیث)
رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ شعبان میں بھی قریب قریب مہینہ بھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روزہ دار ہی رہتے تھے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی یہی کیفیت رہتی تھی کہ اگر روزہ رکھنا شروع فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں چھوڑیں گے پھر ترک فرما دیتے تو معلوم ہوتا تھا کہ اب کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ خاص کر ہر مہینے میں تین دن ایام بیض کے روزے، دو شنبہ و جمعرات کے روزے، عاشوراء کے روزے، عشرہ ذوالحجہ کے روزے، شوال کے چھ روزے، معمولاً رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ” صوم وصال ” بھی رکھتے تھے، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ، مگر اپنی امت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے ؟ میں اپنے رب کے دربار میں رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو (روحانی غذا) کھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری و مسلم صوم وصال)
زکوٰۃ:۔
چونکہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام پر خداوند قدوس نے زکوٰۃ فرض ہی نہیں فرمائی ہے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر زکوٰۃ فرض ہی نہیں تھی۔ (زرقانی ج۸ ص۹۰)
لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی یا تجارت کا کوئی سامان یا مویشیوں کا کوئی ریوڑ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب خدا عزوجل کی راہ میں مستحقین پر تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ گوارا ہی نہیں تھا کہ رات بھر کوئی مال و دولت کاشانہ نبوت میں رہ جائے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پڑا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ رات بھر مسجد ہی میں رہ گئے جب حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آکر یہ خبر دی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ نے اپنے مکان میں قدم رکھا۔(ابو داؤد باب قبول هدایا المشرکین)
حج:۔
اعلانِ نبوت کے بعد مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو یا تین حج کئے۔ (ترمذی باب کم حج النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم و ابن ماجه)
لیکن ہجرت کے بعد مدینہ منورہ سے ۱۰ ھ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک حج فرمایا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے جس کا مفصل تذکرہ گزر چکا۔ حج کے علاوہ ہجرت کے بعد آپ نے چار عمرے بھی ادا فرمائے۔(ترمذی و بخاری و مسلم کتاب الحج)
ذکر الٰہی:۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر وقت ہر گھڑی ہر لحظہ ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔(ابو داؤد کتاب الطہارة وغیره)
اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سواری سے اترتے، سفر میں جاتے، سفر سے واپس ہوتے، بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے، مسجد میں آتے جاتے، جنگ کے وقت، آندھی، بارش، بجلی کڑکتے وقت، ہر وقت ہر حال میں دعائیں وردِ زبان رہتی تھیں۔ خوشی اور غمی کے اوقات میں، صبح صادق طلوع ہونے کے وقت، غروبِ آفتاب کے وقت، مرغ کی آواز سن کر، گدھے کی آواز سن کر، غرض کون سا ایسا موقع تھا کہ آپ کوئی دعا نہ پڑھتے دن ہی میں نہیں بلکہ رات کے سناٹوں میں بھی برابر دعا خوانی اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتے یہاں تک کہ بوقتِ وفات بھی جو فقرہ بار بار وردِ زَبان رہا وہ اَللّٰهُمَّ فِي الرَّفِيْقِ الْاَعْلٰي کی دعا تھی۔ (صحاح سته و حصن حصین وغیره کتب احادیث)
نسب نامه
حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے:
حضرت محمد صلی الله عليه وسلم بن عبدالله بن عبدالمطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانه بن خزيمه بن مدرکه بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔
(بخاری ، ج ۱، باب مبعث النبی صلی الله تعالیٰ عليه و سلم)
اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا شجرۂ نسب یہ ہے:
حضرت محمد صلی الله تعالیٰ عليه و سلم بن آمنه بنت وهب بن عبد مناف بن زهره بن کلاب بن مره ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین کا نسب نامہ ’’ کلاب بن مرہ ‘‘ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ ’’ عدنان‘‘ تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مؤرخین ثابت ہے اس کے بعد ناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ’’عدنان‘‘ ہی تک ذکر فرماتے تھے۔
(کرمانی بحواله حاشيه بخاری ، ج ۱، ص۵۴۳)
مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ’’عدنان‘‘ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند ارجمند ہیں۔
خاندانی شرافت :۔
حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان و نسب نجابت و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے بادشاہ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ’’هو فينا ذو نسب‘‘ یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ’’عالی خاندان‘‘ ہیں۔ (بخاری ج۱ ص۴)
حالانکہ اس وقت وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بد ترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کا وقار گرا دیں۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ’’ کنانہ ‘‘ کو برگزیدہ بنایا اور ’’ کنانہ ‘‘ میں سے ’’ قریش ‘‘ کو چنا ، اور ’’ قریش ‘‘ میں سے ’’ بنی ہاشم ‘‘ کو منتخب فرمایا، اور ’’ بنی ہاشم ‘‘ میں سے مجھ کو چن لیا۔ (مشکوٰة فضائل سيد المرسلين)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ
لَه النَّسْبُ الْعَالِیْ فَلَيْسَ کَمِثْلِه
حَسِيْبٌ نَسِيْبٌ مُنْعَمٌ مُتَکَرَّمٗ
یعنی حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا اور نعمت و بزرگی والا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے مثل نہیں ہے۔ -
حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نسب شریف والد ماجد کی طرف سے یہ ہے:
حضرت محمد صلی الله عليه وسلم بن عبدالله بن عبدالمطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانه بن خزيمه بن مدرکه بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔
(بخاری ، ج ۱، باب مبعث النبی صلی الله تعالیٰ عليه و سلم)
اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا شجرۂ نسب یہ ہے:
حضرت محمد صلی الله تعالیٰ عليه و سلم بن آمنه بنت وهب بن عبد مناف بن زهره بن کلاب بن مره ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین کا نسب نامہ ’’ کلاب بن مرہ ‘‘ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کردونوں سلسلے ایک ہو جاتے ہیں۔ ’’ عدنان‘‘ تک آپ کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ باتفاق مؤرخین ثابت ہے اس کے بعد ناموں میں بہت کچھ اختلاف ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو ’’عدنان‘‘ ہی تک ذکر فرماتے تھے۔
(کرمانی بحواله حاشيه بخاری ، ج ۱، ص۵۴۳)
مگر اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ ’’عدنان‘‘ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرزند ارجمند ہیں۔
خاندانی شرافت :۔
حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاندان و نسب نجابت و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے اشرف و اعلیٰ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن کفار مکہ بھی کبھی اس کا انکار نہ کر سکے۔ چنانچہ حضرت ابو سفیان نے جب وہ کفر کی حالت میں تھے بادشاہ روم ہر قل کے بھرے دربار میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ ’’هو فينا ذو نسب‘‘ یعنی نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ’’عالی خاندان‘‘ ہیں۔ (بخاری ج۱ ص۴)
حالانکہ اس وقت وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بد ترین دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرا بھی کوئی گنجائش ملے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پاک پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپ کا وقار گرا دیں۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ’’ کنانہ ‘‘ کو برگزیدہ بنایا اور ’’ کنانہ ‘‘ میں سے ’’ قریش ‘‘ کو چنا ، اور ’’ قریش ‘‘ میں سے ’’ بنی ہاشم ‘‘ کو منتخب فرمایا، اور ’’ بنی ہاشم ‘‘ میں سے مجھ کو چن لیا۔ (مشکوٰة فضائل سيد المرسلين)
بہر حال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ
لَه النَّسْبُ الْعَالِیْ فَلَيْسَ کَمِثْلِه
حَسِيْبٌ نَسِيْبٌ مُنْعَمٌ مُتَکَرَّمٗ
یعنی حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا خاندان اس قدر بلند مرتبہ ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا اور نعمت و بزرگی والا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے مثل نہیں ہے۔ -
قریش :۔
حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے خاندانِ نبوت میں سبھی حضرات اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے بڑے نامی گرامی ہیں۔ مگر چند ہستیاں ایسی ہیں جو آسمان فضل و کمال پر چاند تارے بن کر چمکے۔ ان با کمالوں میں سے ’’ فہر بن مالک ‘‘ بھی ہیں ان کا لقب ’’ قریش ‘‘ ہے اور ان کی اولاد قریشی ’’ یا قریش ‘‘ کہلاتی ہے۔
’’فہر بن مالک ‘‘ قریش اس لئے کہلاتے ہیں کہ ’’ قریش ‘‘ ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اور سمندری جانوروں کو کھا ڈالتا ہے یہ تمام جانوروں پر ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا چونکہ ’’ فہر بن مالک ‘‘ اپنی شجاعت اور خداداد طاقت کی بنا پر تمام قبائلِ عرب پر غالب تھے اس لئے تمام اہل عرب ان کو ’’ قریش ‘‘ کے لقب سے پکارنے لگے۔ چنانچہ اس بارے میں ’’ شمرخ بن عمرو حمیری ‘‘ کا شعر بہت مشہور ہے کہ
حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے خاندانِ نبوت میں سبھی حضرات اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے بڑے نامی گرامی ہیں۔ مگر چند ہستیاں ایسی ہیں جو آسمان فضل و کمال پر چاند تارے بن کر چمکے۔ ان با کمالوں میں سے ’’ فہر بن مالک ‘‘ بھی ہیں ان کا لقب ’’ قریش ‘‘ ہے اور ان کی اولاد قریشی ’’ یا قریش ‘‘ کہلاتی ہے۔
’’فہر بن مالک ‘‘ قریش اس لئے کہلاتے ہیں کہ ’’ قریش ‘‘ ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے، اور سمندری جانوروں کو کھا ڈالتا ہے یہ تمام جانوروں پر ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوتا چونکہ ’’ فہر بن مالک ‘‘ اپنی شجاعت اور خداداد طاقت کی بنا پر تمام قبائلِ عرب پر غالب تھے اس لئے تمام اہل عرب ان کو ’’ قریش ‘‘ کے لقب سے پکارنے لگے۔ چنانچہ اس بارے میں ’’ شمرخ بن عمرو حمیری ‘‘ کا شعر بہت مشہور ہے کہ
وَ قُرَيْشٌ هیَ الَّتِیْ تَسْکُنُ الْبَحْرَ
بِها سُمِّيَتْ قُرَيْشٌ قُرَيْشًا
یعنی ’’ قریش ‘‘ ایک جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔اسی کے نام پر قبیلۂ قریش کا نام ’’ قریش ‘‘ رکھ دیا گیا۔ (زرقانی علی المواهب ج ۱ ص۷۶)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے ماں باپ دونوں کا سلسلۂ نسب ’’ فہر بن مالک ‘‘ سے ملتا ہے اس لئے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ماں باپ دونوں کی طرف سے ’’ قریشی ‘‘ ہیں۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے ماں باپ دونوں کا سلسلۂ نسب ’’ فہر بن مالک ‘‘ سے ملتا ہے اس لئے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ماں باپ دونوں کی طرف سے ’’ قریشی ‘‘ ہیں۔
ہاشم :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پَر دادا ’’ ہاشم ‘‘ بڑی شان و شوکت کے مالک تھے۔ ان کا اصلی نام ’’ عمرو ‘‘ تھا انتہائی بہادر، بے حد سخی، اور اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے۔ ایک سال عرب میں بہت سخت قحط پڑ گیا اور لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے تو یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر حج کے دنوں میں مکہ پہنچے اور روٹیوں کا چورا کر کے اونٹ کے گوشت کے شوربے میں ثرید بنا کر تمام حاجیوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلایا۔ اس دن سے لوگ ان کو ’’ ہاشم ‘‘(روٹیوں کا چورا کرنے والا) کہنے لگے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص ۸)
چونکہ یہ ’’ عبدمناف ‘‘ کے سب لڑکوں میں بڑے اور با صلاحیت تھے اس لئے عبد مناف کے بعد کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے بہت حسین و خوبصورت اور وجیہ تھے جب سن شعور کو پہنچے تو ان کی شادی مدینہ میں قبیلہ خزرج کے ایک سردار عمرو کی صاحبزادی سے ہوئی جن کا نام ’’ سلمیٰ ‘‘ تھا۔ اور ان کے صاحبزادے ’’ عبد المطلب ‘‘ مدینہ ہی میں پیدا ہوئے چونکہ ہاشم پچیس سال کی عمر پاکر ملک شام کے راستہ میں بمقام ’’ غزہ ‘‘ انتقال کر گئے۔ اس لئے عبدالمطلب مدینہ ہی میں اپنے نانا کے گھر پلے بڑھے، اور جب سات یا آٹھ سال کے ہو گئے تو مکہ آکر اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہنے لگے۔ -
عبدالمطلب :۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے دادا ’’ عبدالمطلب ‘‘ کااصلی نام ’’ شیبہ ‘‘ ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ ’’ غار حرا ‘‘ میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور خداعزوجل کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نورِ نبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھااور ان کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اہل عرب خصوصاً قریش کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ مکہ والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا قحط پڑ جاتا تو لوگ عبدالمطلب کو ساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور بارگاہِ خداوندی میں ان کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے تھے تو دعا مقبول ہو جاتی تھی۔ یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے دادا ’’ عبدالمطلب ‘‘ کااصلی نام ’’ شیبہ ‘‘ ہے۔ یہ بڑے ہی نیک نفس اور عابد و زاہد تھے۔ ’’ غار حرا ‘‘ میں کھانا پانی ساتھ لے کر جاتے اور کئی کئی دنوں تک لگاتار خداعزوجل کی عبادت میں مصروف رہتے۔ رمضان شریف کے مہینے میں اکثر غارِ حرا میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور خداعزوجل کے دھیان میں گوشہ نشین رہا کرتے تھے۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نورِ نبوت ان کی پیشانی میں چمکتا تھااور ان کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اہل عرب خصوصاً قریش کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ مکہ والوں پر جب کوئی مصیبت آتی یا قحط پڑ جاتا تو لوگ عبدالمطلب کو ساتھ لے کر پہاڑ پر چڑھ جاتے اور بارگاہِ خداوندی میں ان کو وسیلہ بنا کر دعا مانگتے تھے تو دعا مقبول ہو جاتی تھی۔ یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے لوگوں کو بڑی سختی
کے ساتھ روکتے تھے اور چور کا ہاتھ کاٹ ڈالتے تھے۔ اپنے دسترخوان سے پرندوں کو بھی کھلایا کرتے تھے اس لئے ان کا لقب ’’ مطعم الطیر ‘‘ (پرندوں کو کھلانے والا) ہے۔ شراب اور زنا کو حرام جانتے تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے ’’ موحد ‘‘ تھے۔ ’’ زمزم شریف ‘‘ کا کنواں جو بالکل پٹ گیا تھا آپ ہی نے اس کو نئے سرے سے کھدوا کر درست کیا، اور لوگوں کو آب زمزم سے سیراب کیا۔ آپ بھی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین ہوئے ۔اصحاب فیل کا واقعہ آپ ہی کے وقت میں پیش آیا ۔ایک سو بیس برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۷۲)
اصحابِ فیل کا واقعہ :۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ ’’ ابرہہ ‘‘ ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ’’ ابرہہ ‘‘ نے یمن کے دارالسلطنت ’’ صنعاء ‘‘ میں ایک بہت ہی شاندار اور عالی شان ’’ گرجا گھر ‘‘ بنایا اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے یمن آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ ’’ کنانہ ‘‘ کا ایک شخص غیظ و غضب میں جل بھن کر یمن گیا،اور وہاں کے گرجا گھر میں پاخانہ پھر کر اس کو نجاست سے لت پت کر دیا۔ جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو وہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کر دیا۔ اور اس کی فوج کے اگلے دستہ نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے۔ (زرقانی ج۱ ص۸۵)
عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا۔ چنانچہ آپ اس معاملہ میں گفتگو کرنے کے لئے اس کے لشکر میں تشریف لے گئے۔ جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لئے آیا ہے تو اس نے آپ کو اپنے خیمہ میں بلا لیا اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ،رعب دار اور نہایت ہی حسین و جمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورِ نبوت کا جاہ و جلال چمک رہا ہے تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہو گیا۔ اور بے اختیار تخت شاہی سے اُتر کر آپ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑا ہو گیا اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ کہیے، سردار قریش! یہاں آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے؟ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپ کے لشکر کے سپاہی ہانک لائے ہیں آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجیے۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا کہ اے سردارِ قریش! میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ بہت ہی حوصلہ مند اور شاندار آدمی ہیں ۔مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظروں میں اپنا وقار کم کر دیا۔ اونٹ اور بکری کی حقیقت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لئے آیا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے کہا کہ مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ہے کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے۔ وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا۔ مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجہ میں کہنے لگا کہ اے سردار مکہ! سن لیجیے! میں کعبہ کو ڈھا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، اور روئے زمین سے اس کا نام و نشان مٹا دوں گا کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے اس لئے میں اس کا انتقام لینے کے لئے کعبہ کو مسمار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ عبدالمطلب نے فرمایا کہ پھر آپ جانیں اور خدا جانے۔ میں آپ سے سفارش کرنے والا کون؟ اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کر دینے کا حکم دے دیا۔ اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر مکہ سے باہر نکل جاؤ ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو۔ مکہ والوں سے یہ کہہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ و زاری کے ساتھ دربار باری میں اس طرح دعا مانگنے لگے کہ
لَاهمَّ اِنَّ الْمَرْئَ يَمْنعُ رَحْلَه فَامْنَعْ رِحَالَكَ
وَانْصُرْ عَلٰی اٰلِ الصَّلِيْبِ وَعَابِدِيْه اَ لْيَوْمَ اٰلَكَ
اے اللہ ! بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما، اور صلیب والوں اور صلیب کے پجاریوں (عیسائیوں) کے مقابلہ میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما۔ عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے۔ ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لئے اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام ’’ مغمس ‘‘ میں پہنچا تو خود اس کا ہاتھی جس کا نام ’’ محمود ‘‘ تھا ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند مارا، اور بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا۔ اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے۔ ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور شور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر، اور اس کے ہاتھیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار و جبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی فیل سوار کے سر پر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی تھی۔ ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں سمیت اس طرح ہلاک و برباد ہو گئے کہ ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں ۔ چنانچہ قرآن مجید کی ’’ سورۂ فیل ‘‘ میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
یعنی(اے محبوب) کیا آپنے نہ دیکھا کہ آپکے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تا کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چبائے ہوئے بھُس جیسا بنا ڈالا ۔
جب ابرہہ اور اس کے لشکروں کا یہ انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ ان کی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیااور تمام اہل عرب ان کو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی پیدائش سے صرف پچپن دن پہلے یمن کا بادشاہ ’’ ابرہہ ‘‘ ہاتھیوں کی فوج لے کر کعبہ ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ’’ ابرہہ ‘‘ نے یمن کے دارالسلطنت ’’ صنعاء ‘‘ میں ایک بہت ہی شاندار اور عالی شان ’’ گرجا گھر ‘‘ بنایا اور یہ کوشش کرنے لگا کہ عرب کے لوگ بجائے خانہ کعبہ کے یمن آ کر اس گرجا گھر کا حج کیا کریں۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو قبیلہ ’’ کنانہ ‘‘ کا ایک شخص غیظ و غضب میں جل بھن کر یمن گیا،اور وہاں کے گرجا گھر میں پاخانہ پھر کر اس کو نجاست سے لت پت کر دیا۔ جب ابرہہ نے یہ واقعہ سنا تو وہ طیش میں آپے سے باہر ہو گیا اور خانہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر حملہ کر دیا۔ اور اس کی فوج کے اگلے دستہ نے مکہ والوں کے تمام اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کو چھین لیا اس میں دو سو یا چار سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے۔ (زرقانی ج۱ ص۸۵)
عبدالمطلب کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا۔ چنانچہ آپ اس معاملہ میں گفتگو کرنے کے لئے اس کے لشکر میں تشریف لے گئے۔ جب ابرہہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا سردار اس سے ملاقات کرنے کے لئے آیا ہے تو اس نے آپ کو اپنے خیمہ میں بلا لیا اور جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ ایک بلند قامت ،رعب دار اور نہایت ہی حسین و جمیل آدمی ہیں جن کی پیشانی پر نورِ نبوت کا جاہ و جلال چمک رہا ہے تو صورت دیکھتے ہی ابرہہ مرعوب ہو گیا۔ اور بے اختیار تخت شاہی سے اُتر کر آپ کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑا ہو گیا اور اپنے برابر بٹھا کر دریافت کیا کہ کہیے، سردار قریش! یہاں آپ کی تشریف آوری کا کیا مقصد ہے؟ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ ہمارے اونٹ اور بکریاں وغیرہ جو آپ کے لشکر کے سپاہی ہانک لائے ہیں آپ ان سب مویشیوں کو ہمارے سپرد کر دیجیے۔ یہ سن کر ابرہہ نے کہا کہ اے سردارِ قریش! میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ بہت ہی حوصلہ مند اور شاندار آدمی ہیں ۔مگر آپ نے مجھ سے اپنے اونٹوں کا سوال کرکے میری نظروں میں اپنا وقار کم کر دیا۔ اونٹ اور بکری کی حقیقت ہی کیا ہے؟ میں تو آپ کے کعبہ کو توڑ پھوڑ کر برباد کرنے کے لئے آیا ہوں، آپ نے اس کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے کہا کہ مجھے تو اپنے اونٹوں سے مطلب ہے کعبہ میرا گھر نہیں ہے بلکہ وہ خدا کا گھر ہے۔ وہ خود اپنے گھر کو بچا لے گا۔ مجھے کعبہ کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔ یہ سن کر ابرہہ اپنے فرعونی لہجہ میں کہنے لگا کہ اے سردار مکہ! سن لیجیے! میں کعبہ کو ڈھا کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا، اور روئے زمین سے اس کا نام و نشان مٹا دوں گا کیونکہ مکہ والوں نے میرے گرجا گھر کی بڑی بے حرمتی کی ہے اس لئے میں اس کا انتقام لینے کے لئے کعبہ کو مسمار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ عبدالمطلب نے فرمایا کہ پھر آپ جانیں اور خدا جانے۔ میں آپ سے سفارش کرنے والا کون؟ اس گفتگو کے بعد ابرہہ نے تمام جانوروں کو واپس کر دینے کا حکم دے دیا۔ اور عبدالمطلب تمام اونٹوں اور بکریوں کو ساتھ لے کر اپنے گھر چلے آئے اور مکہ والوں سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے مال مویشیوں کو لے کر مکہ سے باہر نکل جاؤ ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اور دروں میں چھپ کر پناہ لو۔ مکہ والوں سے یہ کہہ کر پھر خود اپنے خاندان کے چند آدمیوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور دروازہ کا حلقہ پکڑ کر انتہائی بے قراری اور گریہ و زاری کے ساتھ دربار باری میں اس طرح دعا مانگنے لگے کہ
لَاهمَّ اِنَّ الْمَرْئَ يَمْنعُ رَحْلَه فَامْنَعْ رِحَالَكَ
وَانْصُرْ عَلٰی اٰلِ الصَّلِيْبِ وَعَابِدِيْه اَ لْيَوْمَ اٰلَكَ
اے اللہ ! بے شک ہر شخص اپنے اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما، اور صلیب والوں اور صلیب کے پجاریوں (عیسائیوں) کے مقابلہ میں اپنے اطاعت شعاروں کی مدد فرما۔ عبدالمطلب نے یہ دعا مانگی اور اپنے خاندان والوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور خدا کی قدرت کا جلوہ دیکھنے لگے۔ ابرہہ جب صبح کو کعبہ ڈھانے کے لئے اپنے لشکر جرار اور ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ آگے بڑھا اور مقام ’’ مغمس ‘‘ میں پہنچا تو خود اس کا ہاتھی جس کا نام ’’ محمود ‘‘ تھا ایک دم بیٹھ گیا۔ ہر چند مارا، اور بار بار للکارا مگر ہاتھی نہیں اٹھا۔ اسی حال میں قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے۔ ابابیلوں کے ان دل بادل لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور شور سے سنگ باری شروع کر دی کہ آن کی آن میں ابرہہ کے لشکر، اور اس کے ہاتھیوں کے پرخچے اڑ گئے۔ ابابیلوں کی سنگ باری خداوند قہار و جبار کے قہر و غضب کی ایسی مار تھی کہ جب کوئی کنکری کسی فیل سوار کے سر پر پڑتی تھی تو وہ اس آدمی کے بدن کو چھیدتی ہوئی ہاتھی کے بدن سے پار ہو جاتی تھی۔ ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں سمیت اس طرح ہلاک و برباد ہو گئے کہ ان کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئیں ۔ چنانچہ قرآن مجید کی ’’ سورۂ فیل ‘‘ میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
یعنی(اے محبوب) کیا آپنے نہ دیکھا کہ آپکے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کر ڈالا کیا انکے داؤں کو تباہی میں نہ ڈالا اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں تا کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے ماریں تو انہیں چبائے ہوئے بھُس جیسا بنا ڈالا ۔
جب ابرہہ اور اس کے لشکروں کا یہ انجام ہوا تو عبدالمطلب پہاڑ سے نیچے اترے اور خدا کا شکر ادا کیا۔ ان کی اس کرامت کا دور دور تک چرچا ہو گیااور تمام اہل عرب ان کو ایک خدا رسیدہ بزرگ کی حیثیت سے قابل احترام سمجھنے لگے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ :۔
یہ ہمارے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد ہیں ۔یہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ چونکہ ان کی پیشانی میں نور محمدی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر تھا اس لئے حسن و خوبی کے پیکر، اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار، اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے۔ قبیلۂ قریش کی تمام حسین عورتیں ان کے حسن و جمال پر فریفتہ اور ان سے شادی کی خواست گار تھیں۔ مگر عبدالمطلب ان کے لئے ایک ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی شرافت اور عفت و پارسائی میں بھی ممتاز ہو۔ عجیب اتفاق کہ ایک دن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکار کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں کے والد ماجد یہی ہیں۔ چنانچہ ان یہودیوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہا قتل کر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت مسلح ہو کر اس نیت سے جنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہائی میں دھوکہ سے قتل کر دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ بھی اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ عالم غیب سے چند ایسے سوار ناگہاں نمودار ہوئے جو اس دنیا کے لوگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتے تھے،ان سواروں نے آ کر یہودیوں کو مار بھگایا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحفاظت ان کے مکان تک پہنچا دیا۔ ’’ وہب بن مناف ‘‘ بھی اس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا، اس لئے ان کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے انتہا محبت و عقیدت پیدا ہو گئی، اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دلی تمنا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعہ انہوں نے عبدالمطلب تک پہنچا دیا۔ خدا کی شان کہ عبدالمطلب اپنے نورِ نظر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت وہب میں موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ چوبیس سال کی عمر میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ہو گیااور نور محمدی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منتقل ہو کر حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم اطہر میں جلوہ گر ہو گیا اور جب حمل شریف کو دو مہینے پورے ہو گئے تو عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھجوریں لینے کے لئے مدینہ بھیجا، یا تجارت کے لئے ملک شام روانہ کیا، وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے مدینہ میں اپنے والد کے ننہال ’’ بنو عدی بن نجار ‘‘ میں ایک ماہ بیمار رہ کر پچیس برس کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں ’’ دارِ نابغہ ‘‘ میں مدفون ہوئے۔
(زرقانی علی المواهب ج ۱ ص۱۰۱ و مدارج جلد۲ ص۱۴)
قافلہ والوں نے جب مکہ واپس لوٹ کر عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کا حال سنایا تو انہوں نے خبر گیری کے لئے اپنے سب سے بڑے لڑکے ’’ حارث ‘‘ کو مدینہ بھیجا۔ان کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راہی ملک بقا ہو چکے تھے۔ حارث نے مکہ واپس آ کر جب وفات کی خبر سنائی تو سارا گھر ماتم کدہ بن گیااور بنو ہاشم کے ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا ۔خود حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مرحوم شوہر کا ایسا پُر درد مرثیہ کہا ہے کہ جس کو سن کر آج بھی دل درد سے بھر جاتا ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر فرشتوں نے غمگین ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ الٰہی ! عزوجل تیرا
مزار مبارک حضرت عبدالله رضی الله عنه
نبی یتیم ہو گیا ۔حضرت حق نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں اس کا حامی و حافظ ہوں ۔ (مدارج النبوة
یہ ہمارے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد ہیں ۔یہ عبد المطلب کے تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ چونکہ ان کی پیشانی میں نور محمدی اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر تھا اس لئے حسن و خوبی کے پیکر، اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار، اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے۔ قبیلۂ قریش کی تمام حسین عورتیں ان کے حسن و جمال پر فریفتہ اور ان سے شادی کی خواست گار تھیں۔ مگر عبدالمطلب ان کے لئے ایک ایسی عورت کی تلاش میں تھے جو حسن و جمال کے ساتھ ساتھ حسب و نسب کی شرافت اور عفت و پارسائی میں بھی ممتاز ہو۔ عجیب اتفاق کہ ایک دن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکار کے لئے جنگل میں تشریف لے گئے تھے ملک شام کے یہودی چند علامتوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں کے والد ماجد یہی ہیں۔ چنانچہ ان یہودیوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہا قتل کر ڈالنے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی یہودیوں کی ایک بہت بڑی جماعت مسلح ہو کر اس نیت سے جنگل میں گئی کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہائی میں دھوکہ سے قتل کر دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ بھی اپنے فضل و کرم سے بچا لیا۔ عالم غیب سے چند ایسے سوار ناگہاں نمودار ہوئے جو اس دنیا کے لوگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتے تھے،ان سواروں نے آ کر یہودیوں کو مار بھگایا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحفاظت ان کے مکان تک پہنچا دیا۔ ’’ وہب بن مناف ‘‘ بھی اس دن جنگل میں تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا، اس لئے ان کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے انتہا محبت و عقیدت پیدا ہو گئی، اور گھر آ کر یہ عزم کرلیا کہ میں اپنی نورِ نظر حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے کروں گا۔ چنانچہ اپنی اس دلی تمنا کو اپنے چند دوستوں کے ذریعہ انہوں نے عبدالمطلب تک پہنچا دیا۔ خدا کی شان کہ عبدالمطلب اپنے نورِ نظر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے جیسی دلہن کی تلاش میں تھے، وہ ساری خوبیاں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت وہب میں موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ چوبیس سال کی عمر میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ہو گیااور نور محمدی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منتقل ہو کر حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم اطہر میں جلوہ گر ہو گیا اور جب حمل شریف کو دو مہینے پورے ہو گئے تو عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھجوریں لینے کے لئے مدینہ بھیجا، یا تجارت کے لئے ملک شام روانہ کیا، وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے مدینہ میں اپنے والد کے ننہال ’’ بنو عدی بن نجار ‘‘ میں ایک ماہ بیمار رہ کر پچیس برس کی عمر میں وفات پا گئے اور وہیں ’’ دارِ نابغہ ‘‘ میں مدفون ہوئے۔
(زرقانی علی المواهب ج ۱ ص۱۰۱ و مدارج جلد۲ ص۱۴)
قافلہ والوں نے جب مکہ واپس لوٹ کر عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیماری کا حال سنایا تو انہوں نے خبر گیری کے لئے اپنے سب سے بڑے لڑکے ’’ حارث ‘‘ کو مدینہ بھیجا۔ان کے مدینہ پہنچنے سے قبل ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راہی ملک بقا ہو چکے تھے۔ حارث نے مکہ واپس آ کر جب وفات کی خبر سنائی تو سارا گھر ماتم کدہ بن گیااور بنو ہاشم کے ہر گھر میں ماتم برپا ہو گیا ۔خود حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مرحوم شوہر کا ایسا پُر درد مرثیہ کہا ہے کہ جس کو سن کر آج بھی دل درد سے بھر جاتا ہے ۔روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پر فرشتوں نے غمگین ہو کر بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہا کہ الٰہی ! عزوجل تیرا
مزار مبارک حضرت عبدالله رضی الله عنه
نبی یتیم ہو گیا ۔حضرت حق نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں اس کا حامی و حافظ ہوں ۔ (مدارج النبوة
ج۲ ص۱۴)
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ترکہ ایک لونڈی ’’اُم ایمن‘‘ جس کا نام ’’برکہ‘‘ تھا کچھ اونٹ کچھ بکریاں تھیں، یہ سب ترکہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ملا۔ “اُمِ ایمن” بچپن میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کرتی تھیں کھلاتیں، کپڑا پہناتیں، پرورش کی پوری ضروریات مہیا کرتیں، اس لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام عمر “اُم ایمن” کی دل جوئی فرماتے رہے اپنے محبوب و متبنٰی غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا، اور ان کے شکم سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ (عامه کتب سير)
ایمانِ والدین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما :۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ وہ دونوں مؤمن ہیں یا نہیں؟ بعض علماء ان دونوں کو مؤمن نہیں مانتے اور بعض علماء نے اس مسئلہ میں توقف کیا اور فرمایا کہ ان دونوں کو مؤمن یا کافر کہنے سے زبان کو روکنا چاہیے اور اس کا علم خدا عزوجل کے سپرد کر دینا چاہیے، مگر اہل سنت کے علماء محققین مثلاً امام جلال الدین سیوطی و علامہ ابن حجر ہیتمی و امام قرطبی و حافظ الشام ابن ناصر الدین و حافظ شمس الدین دمشقی و قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی و شیخ عبدالحق محدث دہلوی و صاحب الاکلیل مولانا عبدالحق مہاجر مدنی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی عقیدہ اور قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں یقینا بلا شبہ مؤمن ہیں۔ چنانچہ اس بار ے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مؤمن نہ ماننا یہ علماء متقدمین کا مسلک ہے لیکن علماء متأخرین نے تحقیق کے ساتھ اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب ’’ مؤمن ‘‘ ہیں اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء متأخرین کے تین طریقے ہیں:
اول یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور آباء و اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے، لہٰذا ’’ مؤمن ‘‘ ہوئے۔ دوم یہ کہ یہ تمام حضرات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلان نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانہ ’’ فترت ‘‘ کہلاتا ہے اور ان لوگوں تک حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعوتِ ایمان پہنچی ہی نہیں لہٰذا ہر گز ہر گز ان حضرات کو کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان لوگوں کو مؤمن ہی کہا جائے گا۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق کی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو زندہ کرنے کی حدیث اگرچہ بذات خود ضعیف ہے مگر اس کی سندیں اس قدر کثیر ہیں کہ یہ حدیث ’’صحیح‘‘ اور ’’حسن‘‘ کے درجے کو پہنچ گئی ہے۔
اور یہ وہ علم ہے جو علماء متقدمین پر پوشیدہ رہ گیا جس کو حق تعالیٰ نے علماء متأخرین پر منکشف فرمایا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرما لیتا ہے اور شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں چند رسائل تصنیف کیے ہیں اور اس مسئلہ کو دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور مخالفین کے شبہات کا جواب دیا ہے۔ (اشعة اللمعات ج اول ص ۷۱۸)
اسی طرح خاتمۃ المفسرین حضرت شیخ اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ
امام قرطبی نے اپنی کتاب ’’ تذکرہ ‘‘ میں تحریر فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب ’’ حجۃ الوداع ‘‘ میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور ’’ حجون ‘‘ کی گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر کے بعد میرے پاس واپس تشریف لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ !عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا بات ہے؟ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم رنج و غم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے تو خداوند تعالیٰ نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں۔
اور ’’الاشباه والنظائر‘‘ میں ہے کہ ہر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مر گیا ہو اس پر لعنت کرنا جائز ہے بجز رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے، کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو زندہ فرمایااور یہ دونوں ایمان لائے۔
یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماں باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبروں کے پاس روئے اور ایک خشک درخت زمین میں بو دیا،اور فرمایا کہ اگر یہ درخت ہرا ہو گیا تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان دونوں کا ایمان لانا ممکن ہے ۔ چنانچہ وہ درخت ہرا ہو گیا پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی برکت سے وہ دونوں اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اسلام لائے اور پھر اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے۔
اور ان دونوں کا زندہ ہونا، اور ایمان لانا، نہ عقلاً محال ہے نہ شرعاً کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتایا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دست مبارک سے بھی چند مردے زندہ ہوئے۔ جب یہ سب باتیں ثابت ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زندہ ہو کر ایمان لانے میں بھلا کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے؟ اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ ’’ میں نے اپنی والدہ کے لئے دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ‘‘ یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زندہ ہو کر ایمان لانے سے بہت پہلے کی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا زندہ ہو کر ایمان لانا یہ ’’ حجۃ الوداع ‘‘ کے موقع پر ہوا ہے (جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال سے چند ہی ماہ پہلے کا واقعہ ہے) اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مراتب و درجات ہمیشہ بڑھتے ہی رہے تو ہو سکتا ہے کہ پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند تعالیٰ نے یہ شرف نہیں عطا فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما مسلمان ہوں مگر بعد میں اس فضل و شرف سے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سر فراز فرمادیا کہ آپ کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو صاحب ایمان بنا دیا اور قاضی امام ابوبکر ابن العربی مالکی سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آباء و اجداد جہنم میں ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ملعون ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت میں ملعون کر دے گا۔
حافظ شمس الدین د مشقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلہ کو اپنے نعتیہ اشعار میں اس طرح بیان فرمایا ہے :
حَبَا اللّٰه النَّبِيَّ مَزِيْدَ فَضْلٍ
عَلٰي فَضْلٍ وَّ کَانَ بِه رَءُ وْفًا
اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو فضل بالائے فضل سے بھی بڑھ کر فضیلت عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ ان پر بہت مہربان ہے۔
فَاَحْيَا اُمَّه وَکَذَا اَبَاهُ
لِاِيْمَان بِه فَضْلاً لَّطِيْفًا
کیونکہ خداوند تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ کو حضور پر ایمان لانے کے لئے اپنے فضل لطیف سے زندہ فرما دیا۔
فَسَلِّمْ فَالْقَدِيْمُ بِه قَدِيْرٌ
وَاِنْ کَانَ الْحَدِيْثُ بِه ضَعِيْفًا
تو تم اس بات کو مان لو کیونکہ خداوند قدیم اس بات پر قادر ہے اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (انتهی ملتقطاً، تفسير روح البيان ج ۱ ص۲۱۷ تا ۲۱۸)
صاحب الاکلیل حضرت علامہ شیخ عبدالحق مہاجر مدنی قدس سرہ الغنی نے تحریر فرمایا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی نے مشکوٰۃ کی شرح میں فرمایا ہے کہ ’’ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا، یہاں تک کہ وہ دونوں ایمان لائے اور پھر وفات پا گئے۔ ‘‘ یہ حدیث صحیح ہے اور جن محدثین نے اس حدیث کو صحیح بتایا ہے ان میں سے امام قرطبی اور شام کے حافظ الحدیث ابن ناصر الدین بھی ہیں اور اس میں طعن کرنا بے محل اور بے جا ہے، کیونکہ کرامات اور خصوصیات کی شان ہی یہ ہے کہ وہ قواعد اور عادات کے خلاف ہوا کرتی ہیں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا موت کے بعد اٹھ کر ایمان لانا، یہ ایمان ان کے لئے نافع ہے حالانکہ دوسروں کے لئے یہ ایمان مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نسبت رسول کی وجہ سے جو کمال حاصل ہے وہ دوسروں کے لئے نہیں ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی حدیث لیت شعری ما فعل ابوای (کاش! مجھے خبر ہوتی کہ میرے والدین کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا) کے بارے میں امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ’’ درمنثور ‘‘ میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث مرسل اور ضعیف الاسناد ہے۔ (اکليل علیٰ مدارک التنزيل ج ۲ ص۱۰)
بہر کیف مندرجہ بالا اقتباسات جو معتبر کتابوں سے لئے گئے ہیں ان کو پڑھ لینے کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور تمام آباء و اجداد بلکہ تمام رشتہ داروں کے ساتھ ادب و احترام کا التزام رکھا جائے۔ بجز ان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور جہنمی ہونا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ’’ ابو لہب ‘‘ اور اس کی بیوی ’’ حمالۃ الحطب ‘‘ باقی تمام قرابت والوں کا ادب ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے کیونکہ جن لوگوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نسبت قرابت حاصل ہے ان کی بے ادبی و گستاخی یقینا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایذا رسانی کا باعث ہو گا اور آپ قرآن کا فرمان پڑھ چکے کہ جو لوگ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں، وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں۔
اس مسئلہ میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک محققانہ رسالہ بھی ہے جس کا نام ’’ شمول الاسلام لاباء الکرام ‘‘ ہے۔ جس میں آپ نے نہایت ہی مفصل و مدلل طور پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آباء و اجداد موحد و مسلم ہیں۔ (والله تعالیٰ اعلم)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ وہ دونوں مؤمن ہیں یا نہیں؟ بعض علماء ان دونوں کو مؤمن نہیں مانتے اور بعض علماء نے اس مسئلہ میں توقف کیا اور فرمایا کہ ان دونوں کو مؤمن یا کافر کہنے سے زبان کو روکنا چاہیے اور اس کا علم خدا عزوجل کے سپرد کر دینا چاہیے، مگر اہل سنت کے علماء محققین مثلاً امام جلال الدین سیوطی و علامہ ابن حجر ہیتمی و امام قرطبی و حافظ الشام ابن ناصر الدین و حافظ شمس الدین دمشقی و قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی و شیخ عبدالحق محدث دہلوی و صاحب الاکلیل مولانا عبدالحق مہاجر مدنی وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا یہی عقیدہ اور قول ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ دونوں یقینا بلا شبہ مؤمن ہیں۔ چنانچہ اس بار ے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مؤمن نہ ماننا یہ علماء متقدمین کا مسلک ہے لیکن علماء متأخرین نے تحقیق کے ساتھ اس مسئلہ کو ثابت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام آباء و اجداد حضرت آدم علیہ السلام تک سب کے سب ’’ مؤمن ‘‘ ہیں اور ان حضرات کے ایمان کو ثابت کرنے میں علماء متأخرین کے تین طریقے ہیں:
اول یہ کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور آباء و اجداد سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھے، لہٰذا ’’ مؤمن ‘‘ ہوئے۔ دوم یہ کہ یہ تمام حضرات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلان نبوت سے پہلے ہی ایسے زمانے میں وفات پا گئے جو زمانہ ’’ فترت ‘‘ کہلاتا ہے اور ان لوگوں تک حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی دعوتِ ایمان پہنچی ہی نہیں لہٰذا ہر گز ہر گز ان حضرات کو کافر نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان لوگوں کو مؤمن ہی کہا جائے گا۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو زندہ فرما کر ان کی قبروں سے اٹھایا اور ان لوگوں نے کلمہ پڑھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصدیق کی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو زندہ کرنے کی حدیث اگرچہ بذات خود ضعیف ہے مگر اس کی سندیں اس قدر کثیر ہیں کہ یہ حدیث ’’صحیح‘‘ اور ’’حسن‘‘ کے درجے کو پہنچ گئی ہے۔
اور یہ وہ علم ہے جو علماء متقدمین پر پوشیدہ رہ گیا جس کو حق تعالیٰ نے علماء متأخرین پر منکشف فرمایا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرما لیتا ہے اور شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں چند رسائل تصنیف کیے ہیں اور اس مسئلہ کو دلیلوں سے ثابت کیا ہے اور مخالفین کے شبہات کا جواب دیا ہے۔ (اشعة اللمعات ج اول ص ۷۱۸)
اسی طرح خاتمۃ المفسرین حضرت شیخ اسمٰعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ
امام قرطبی نے اپنی کتاب ’’ تذکرہ ‘‘ میں تحریر فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب ’’ حجۃ الوداع ‘‘ میں ہم لوگوں کو ساتھ لے کر چلے اور ’’ حجون ‘‘ کی گھاٹی پر گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی اونٹنی سے اتر پڑے اور کچھ دیر کے بعد میرے پاس واپس تشریف لائے تو خوش خوش مسکراتے ہوئے تشریف لائے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ !عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، کیا بات ہے؟ کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم رنج و غم میں ڈوبے ہوئے اونٹنی سے اترے اور واپس لوٹے تو شاداں و فرحاں مسکراتے ہوئے تشریف فرما ہوئے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی زیارت کے لئے گیا تھا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ ان کو زندہ فرما دے تو خداوند تعالیٰ نے ان کو زندہ فرما دیا اور وہ ایمان لائیں۔
اور ’’الاشباه والنظائر‘‘ میں ہے کہ ہر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مر گیا ہو اس پر لعنت کرنا جائز ہے بجز رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے، کیونکہ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو زندہ فرمایااور یہ دونوں ایمان لائے۔
یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماں باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قبروں کے پاس روئے اور ایک خشک درخت زمین میں بو دیا،اور فرمایا کہ اگر یہ درخت ہرا ہو گیا تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان دونوں کا ایمان لانا ممکن ہے ۔ چنانچہ وہ درخت ہرا ہو گیا پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کی برکت سے وہ دونوں اپنی اپنی قبروں سے نکل کر اسلام لائے اور پھر اپنی اپنی قبروں میں تشریف لے گئے۔
اور ان دونوں کا زندہ ہونا، اور ایمان لانا، نہ عقلاً محال ہے نہ شرعاً کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتایا اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دست مبارک سے بھی چند مردے زندہ ہوئے۔ جب یہ سب باتیں ثابت ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زندہ ہو کر ایمان لانے میں بھلا کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے؟ اور جس حدیث میں یہ آیا ہے کہ ’’ میں نے اپنی والدہ کے لئے دعائے مغفرت کی اجازت طلب کی تو مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ‘‘ یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زندہ ہو کر ایمان لانے سے بہت پہلے کی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا زندہ ہو کر ایمان لانا یہ ’’ حجۃ الوداع ‘‘ کے موقع پر ہوا ہے (جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال سے چند ہی ماہ پہلے کا واقعہ ہے) اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مراتب و درجات ہمیشہ بڑھتے ہی رہے تو ہو سکتا ہے کہ پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند تعالیٰ نے یہ شرف نہیں عطا فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما مسلمان ہوں مگر بعد میں اس فضل و شرف سے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سر فراز فرمادیا کہ آپ کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو صاحب ایمان بنا دیا اور قاضی امام ابوبکر ابن العربی مالکی سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آباء و اجداد جہنم میں ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ملعون ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا و آخرت میں ملعون کر دے گا۔
حافظ شمس الدین د مشقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلہ کو اپنے نعتیہ اشعار میں اس طرح بیان فرمایا ہے :
حَبَا اللّٰه النَّبِيَّ مَزِيْدَ فَضْلٍ
عَلٰي فَضْلٍ وَّ کَانَ بِه رَءُ وْفًا
اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو فضل بالائے فضل سے بھی بڑھ کر فضیلت عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ ان پر بہت مہربان ہے۔
فَاَحْيَا اُمَّه وَکَذَا اَبَاهُ
لِاِيْمَان بِه فَضْلاً لَّطِيْفًا
کیونکہ خداوند تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماں باپ کو حضور پر ایمان لانے کے لئے اپنے فضل لطیف سے زندہ فرما دیا۔
فَسَلِّمْ فَالْقَدِيْمُ بِه قَدِيْرٌ
وَاِنْ کَانَ الْحَدِيْثُ بِه ضَعِيْفًا
تو تم اس بات کو مان لو کیونکہ خداوند قدیم اس بات پر قادر ہے اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (انتهی ملتقطاً، تفسير روح البيان ج ۱ ص۲۱۷ تا ۲۱۸)
صاحب الاکلیل حضرت علامہ شیخ عبدالحق مہاجر مدنی قدس سرہ الغنی نے تحریر فرمایا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی نے مشکوٰۃ کی شرح میں فرمایا ہے کہ ’’ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اللہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا، یہاں تک کہ وہ دونوں ایمان لائے اور پھر وفات پا گئے۔ ‘‘ یہ حدیث صحیح ہے اور جن محدثین نے اس حدیث کو صحیح بتایا ہے ان میں سے امام قرطبی اور شام کے حافظ الحدیث ابن ناصر الدین بھی ہیں اور اس میں طعن کرنا بے محل اور بے جا ہے، کیونکہ کرامات اور خصوصیات کی شان ہی یہ ہے کہ وہ قواعد اور عادات کے خلاف ہوا کرتی ہیں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا موت کے بعد اٹھ کر ایمان لانا، یہ ایمان ان کے لئے نافع ہے حالانکہ دوسروں کے لئے یہ ایمان مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نسبت رسول کی وجہ سے جو کمال حاصل ہے وہ دوسروں کے لئے نہیں ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی حدیث لیت شعری ما فعل ابوای (کاش! مجھے خبر ہوتی کہ میرے والدین کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا) کے بارے میں امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ’’ درمنثور ‘‘ میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث مرسل اور ضعیف الاسناد ہے۔ (اکليل علیٰ مدارک التنزيل ج ۲ ص۱۰)
بہر کیف مندرجہ بالا اقتباسات جو معتبر کتابوں سے لئے گئے ہیں ان کو پڑھ لینے کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والدین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور تمام آباء و اجداد بلکہ تمام رشتہ داروں کے ساتھ ادب و احترام کا التزام رکھا جائے۔ بجز ان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور جہنمی ہونا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ’’ ابو لہب ‘‘ اور اس کی بیوی ’’ حمالۃ الحطب ‘‘ باقی تمام قرابت والوں کا ادب ملحوظ خاطر رکھنا لازم ہے کیونکہ جن لوگوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نسبت قرابت حاصل ہے ان کی بے ادبی و گستاخی یقینا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایذا رسانی کا باعث ہو گا اور آپ قرآن کا فرمان پڑھ چکے کہ جو لوگ اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں، وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں۔
اس مسئلہ میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب قبلہ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک محققانہ رسالہ بھی ہے جس کا نام ’’ شمول الاسلام لاباء الکرام ‘‘ ہے۔ جس میں آپ نے نہایت ہی مفصل و مدلل طور پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آباء و اجداد موحد و مسلم ہیں۔ (والله تعالیٰ اعلم)
برکات نبوت کا ظہور :۔
جس طرح سورج نکلنے سے پہلے ستاروں کی روپوشی، صبح صادق کی سفیدی، شفق کی سرخی سورج نکلنے کی خوشخبری دینے لگتی ہیں اسی طرح جب آفتاب رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تو اطراف عالم میں بہت سے ایسے عجیب عجیب واقعات اور خوارق عادات بطور علامات کے ظاہر ہونے لگے جو ساری کائنات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ بشارت دینے لگے کہ اب رسالت کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔
جس طرح سورج نکلنے سے پہلے ستاروں کی روپوشی، صبح صادق کی سفیدی، شفق کی سرخی سورج نکلنے کی خوشخبری دینے لگتی ہیں اسی طرح جب آفتاب رسالت کے طلوع کا زمانہ قریب آ گیا تو اطراف عالم میں بہت سے ایسے عجیب عجیب واقعات اور خوارق عادات بطور علامات کے ظاہر ہونے لگے جو ساری کائنات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ بشارت دینے لگے کہ اب رسالت کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہونے والا ہے۔
چنانچہ اصحابِ فیل کی ہلاکت کا واقعہ، ناگہاں بارانِ رحمت سے سر زمین عرب کا سر سبز و شاداب ہو جانا،اور برسوں کی خشک سالی دفع ہو کر پورے ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو جانا، بتوں کا منہ کے بل گر پڑنا، فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال سے جلائی ہوئی آگ کا ایک لمحہ میں بجھ جانا، کسریٰ کے محل کا زلزلہ، اور اس کے چودہ کنگوروں کا منہدم ہو جانا، ’’ ہمدان ‘‘ اور ’’ قم ‘‘ کے درمیان چھ میل لمبے چھ میل چوڑے ’’ بحرۂ ساوہ ‘‘ کا یکایک بالکل خشک ہو جانا، شام اور کوفہ کے درمیان وادی ’’ سماوہ ‘‘ کی خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ کے بدن سے ایک ایسے نور کا نکلنا جس سے ’’ بصریٰ ‘‘ کے محل روشن ہو گئے۔ یہ سب واقعات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں جو حضور علیہ الصلوات والتسلیمات کی تشریف آوری سے پہلے ہی ’’ مبشرات ‘‘ بن کر عالم کائنات کو یہ خوشخبری دینے لگے کہ
مبارک ہو وہ شہ پردے سے باہرآنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
گدائی کو زمانہ جس کے در پر آنے والا ہے
ضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے قبل اعلان نبوت جو خلاف عادت اور عقل کو حیرت میں ڈالنے والے واقعات صادر ہوتے ہیں ان کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ ارہاص ‘‘ کہتے ہیں اور اعلان نبوت کے بعد انہی کو ’’ معجزہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا تمام واقعات ’’ ارہاص ‘‘ ہیں جو حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کرنے سے قبل ظاہر ہوئے جن کو ہم نے ’’ برکات نبوت ‘‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ اس قسم کے واقعات جو ’’ ارہاص ‘‘ کہلاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں سے چند کا ذکر ہو چکا ہے چند دوسرے واقعات بھی پڑھ لیجئے۔
{۱} محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’ دلائل النبوۃ ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس رات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نورِ نبوت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن مقدس میں منتقل ہوا ، روئے زمین کے تمام چوپایوں، خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ عزوجل کاوہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہو گیا جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے اور جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔ مشرق کے جانوروں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی۔اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا وقت قریب آ گیا۔ (زرقانی علی المواهب ج ۱ ص ۱۰۸)
{۱} محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’ دلائل النبوۃ ‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس رات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا نورِ نبوت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن مقدس میں منتقل ہوا ، روئے زمین کے تمام چوپایوں، خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ عزوجل کاوہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہو گیا جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے اور جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔ مشرق کے جانوروں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی۔اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابو القاسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا وقت قریب آ گیا۔ (زرقانی علی المواهب ج ۱ ص ۱۰۸)
{۲} خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی بدلی آئی جس میں روشنی کے ساتھ گھوڑوں کے ہنہنانے اور پرندوں کے اُڑنے کی آواز تھی اور کچھ انسانوں کی بولیاں بھی سنائی دیتی تھیں۔ پھر ایک دم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے سامنے سے غیب ہو گئے اور میں نے سنا کہ ایک اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو مشرق و مغرب میں گشت کراؤ اور ان کو سمندروں کی بھی سیر کراؤ تا کہ تمام کائنات کو ان کا نام، ان کاحلیہ، ان کی صفت معلوم ہو جائے اور ان کو تمام جاندار مخلوق یعنی جن و انس، ملائکہ اور چرندوں و پرندوں کے سامنے پیش کرواور انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی صورت، حضرت شیث علیہ السلام کی معرفت، حضرت نوح علیہ السلام کی شجاعت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلت، حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی زبان، حضرت اسحق علیہ السلام کی رضا، حضرت صالح علیہ السلام کی فصاحت، حضرت لوط علیہ السلام کی حکمت، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شدت، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت یونس علیہ السلام کی طاعت، حضرت یوشع علیہ السلام کا جہاد، حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز، حضرت دانیال علیہ السلام کی محبت، حضرت الیاس علیہ السلام کا وقار، حضرت یحییٰ علیہ السلام کی عصمت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد عطا کرکے ان کو تمام پیغمبروں کے کمالات اور اخلاق حسنہ سے مزین کر دو۔ اس کے بعد وہ بادل چھٹ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ آپ ریشم کے سبز کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں اور اس کپڑے سے پانی ٹپک رہا ہے اور کوئی منادی اعلان کر رہا ہے کہ واہ وا! کیا خوب محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تمام دنیا پر قبضہ دے دیا گیا اور کائناتِ عالم کی کوئی چیز باقی نہ رہی جو ان کے قبضۂ اقتدار و غلبۂ اطاعت میں نہ ہو۔ اب میں نے چہرۂ انور کو دیکھا تو چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور بدن سے پاکیزہ مشک کی خوشبو آ رہی تھی پھر تین شخص نظر آئے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت، تیسرے کے ہاتھ میں ایک چمک دار انگوٹھی تھی۔ انگوٹھی کو سات مرتبہ دھو کر اس نے حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی، پھر حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر اٹھایااور ایک لمحہ کے بعد مجھے سپرد کر دیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۱۱۳ تا ص۱۱۵) -