Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 13:00:24 GMT 5.5
بچپن کے واقعات
ولادت با سعادت :۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ مگر قول مشہور یہی ہے کہ واقعہ ’’ اصحاب فیل ‘‘ سے پچپن دن کے بعد ۱۲ ربیع الاول مطابق ۲۰ اپریل ۵۷۱ ء ولادت باسعادت کی تاریخ ہے۔ اہل مکہ کا بھی اسی پر عملدرآمد ہے کہ وہ لوگ بارہویں ربیع الاول ہی کو کاشانۂ نبوت کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور وہاں میلاد شریف کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۱۴)
تاریخ عالم میں یہ وہ نرالا اور عظمت والا دن ہے کہ اسی روز عالم ہستی کے ایجاد کا باعث، گردش لیل و نہار کا مطلوب، خلق آدم کارمز، کشتی نوح کی حفاظت کا راز، بانی کعبہ کی دعا،ابن مریم کی بشارت کا ظہور ہوا۔ کائناتِ وجود کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو سنوارنے والا، تمام جہان کے بگڑے نظاموں کو سدھارنے والا یعنی
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ماویٰ ، ضعیفوں کا ملجا یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
سند الاصفیاء، اشرف الانبیاء، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالمِ وجود میں رونق افروز ہوئے اور پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے ہوئے خوشبو میں بسے ہوئے بحالت سجدہ، مکہ مکرمہ کی مقدس سر زمین میں اپنے والد ماجد کے مکان کے اندر پیدا ہوئے باپ کہاں تھے جو بلائے جاتے اور اپنے نونہال کو دیکھ کر نہال ہوتے۔ وہ تو پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ دادا بلائے گئے جو اس وقت طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔ یہ خوشخبری سن کر دادا “عبدالمطلب” خوش خوش حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگا لیا۔ پھر کعبہ میں لے جا کر خیر و برکت کی دعا مانگی اور “محمد” نام رکھا۔ آپ صلی الله تعالیٰ عليه واله وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی “ثویبہ” خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور “ابو لہب” کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے “ثویبہ ” کو آزاد کر دیا جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال پوچھا، تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ (کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ “ثویبہ” کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتا ہوں۔ (بخاری ج۲ باب و امهاتکم التی ارضعنکم)
اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے، وہ لکھتے ہیں کہ
اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص ۱۹)
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ماویٰ ، ضعیفوں کا ملجا یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
سند الاصفیاء، اشرف الانبیاء، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالمِ وجود میں رونق افروز ہوئے اور پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے ہوئے خوشبو میں بسے ہوئے بحالت سجدہ، مکہ مکرمہ کی مقدس سر زمین میں اپنے والد ماجد کے مکان کے اندر پیدا ہوئے باپ کہاں تھے جو بلائے جاتے اور اپنے نونہال کو دیکھ کر نہال ہوتے۔ وہ تو پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ دادا بلائے گئے جو اس وقت طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔ یہ خوشخبری سن کر دادا “عبدالمطلب” خوش خوش حرم کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوشِ محبت میں اپنے پوتے کو کلیجے سے لگا لیا۔ پھر کعبہ میں لے جا کر خیر و برکت کی دعا مانگی اور “محمد” نام رکھا۔ آپ صلی الله تعالیٰ عليه واله وسلم کے چچا ابو لہب کی لونڈی “ثویبہ” خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور “ابو لہب” کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں شہادت کی انگلی کے اشارہ سے “ثویبہ ” کو آزاد کر دیا جس کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال پوچھا، تو اس نے اپنی انگلی اٹھا کر یہ کہا کہ تم لوگوں سے جدا ہونے کے بعد مجھے کچھ (کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ “ثویبہ” کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتا ہوں۔ (بخاری ج۲ باب و امهاتکم التی ارضعنکم)
اس موقع پر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بہت ہی فکر انگیز اور بصیرت افروز بات تحریر فرمائی ہے جو اہل محبت کے لئے نہایت ہی لذت بخش ہے، وہ لکھتے ہیں کہ
اس جگہ میلاد کرنے والوں کے لئے ایک سند ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب ولادت میں خوشی مناتے ہیں اور اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔مطلب یہ ہے کہ جب ابو لہب کو جو کافر تھااور اس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی منانے،اور باندی کا دودھ خرچ کرنے پرجزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتا ہے اور اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص ۱۹)
مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :۔
جس مقدس مکان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی، تاریخ اسلام میں اس مقام کا نام “مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم” (نبی کی پیدائش کی جگہ) ہے، یہ بہت ہی متبرک مقام ہے۔ سلاطینِ اسلام نے اس مبارک یادگار پر بہت ہی شاندار عمارت بنا دی تھی، جہاں اہل حرمین شریفین اور تمام دنیا سے آنے والے مسلمان دن رات محفل میلاد شریف منعقد کرتے اور صلوٰۃ و سلام پڑھتے رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب “فیوض الحرمین” میں تحریر فرمایا ہے کہ میں ایک مرتبہ اس محفل میلاد شریف میں حاضر ہوا، جو مکہ مکرمہ میں بارہویں ربیع الاول کو “مولد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم” میں منعقد ہوئی تھی جس وقت ولادت کا ذکر پڑھا جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی اس مجلس سے کچھ انوار بلند ہوئے، میں نے ان انوار پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رحمت ِالٰہی اور ان فرشتوں کے انوار تھے جو ایسی محفلوں میں حاضر ہوا کرتے ہیں۔ (فيوض الحرمين)
جب حجاز پر نجدی حکومت کا تسلط ہوا تو مقابر جنۃ المعلیٰ و جنۃ البقیع کے گنبدوں کے ساتھ ساتھ نجدی حکومت نے اس مقدس یادگار کو بھی توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور برسوں یہ مبارک مقام ویران پڑا رہا، مگر میں جب جون ۱۹۵۹ ء میں اس مرکز خیر و برکت کی زیارت کے لئے حاضر ہوا تو میں نے اس جگہ ایک چھوٹی سی بلڈنگ دیکھی جو مقفل تھی۔ بعض عربوں نے بتایا کہ اب اس بلڈنگ میں ایک مختصر سی لائبریری اور ایک چھوٹا سا مکتب ہے، اب اس جگہ نہ میلاد شریف ہو سکتا ہے نہ صلاۃ و سلام پڑھنے کی اجازت ہے ۔میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بلڈنگ سے کچھ دور کھڑے ہو کر چپکے چپکے صلاۃ و سلام پڑھا، اور مجھ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں کچھ دیر تک روتا رہا۔ -
دودھ پینے کا زمانہ:۔
سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابولہب کی لونڈی “حضرت ثویبہ” کا دودھ نوش فرمایا پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دودھ سے سیراب ہوتے رہے، پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلہ میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص ۱۸)
شرفاء عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے گردو نواح دیہاتوں میں بھیج دیتے تھے دیہات کی صاف ستھری آب و ہوا میں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص اور فصیح عربی زبان بھی سیکھ جاتے تھے کیونکہ شہر کی زبان باہر کے آدمیوں کے میل جول سے خالص اور فصیح و بلیغ زبان نہیں رہا کرتی۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں “بنی سعد” کی عورتوں کے ہمراہ دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ کو چلی۔ اس سال عرب میں بہت سخت کال پڑا ہوا تھا، میری گود میں ایک بچہ تھا، مگر فقر و فاقہ کی وجہ سے میری چھاتیوں میں اتنا دودھ نہ تھا جو اس کو کافی ہو سکے۔ رات بھر وہ بچہ بھوک سے تڑپتا اور روتا بلبلاتا رہتا تھا اور ہم اس کی دلجوئی اور دلداری کے لئے تمام رات بیٹھ کر گزارتے تھے۔ ایک اونٹنی بھی ہمارے پاس تھی۔ مگر اس کے بھی دودھ نہ تھا۔ مکہ مکرمہ کے سفر میں جس خچر پر میں سوار تھی وہ بھی اس قدر لاغر تھا کہ قافلہ والوں کے ساتھ نہ چل سکتا تھا میرے ہمراہی بھی اس سے تنگ آ چکے تھے۔ بڑی بڑی مشکلوں سے یہ سفر طے ہوا جب یہ قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو جو عورت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھتی اور یہ سنتی کہ یہ یتیم ہیں تو کوئی عورت آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی، کیونکہ بچے کے یتیم ہونے کے سبب سے زیادہ انعام و اکرام ملنے کی امید نہیں تھی۔ ادھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قسمت کا ستارہ ثریا سے زیادہ بلند اور چاند سے زیادہ روشن تھا، ان کے دودھ کی کمی ان کے لئے رحمت کی زیادتی کا باعث بن گئی، کیونکہ دودھ کم دیکھ کر کسی نے ان کو اپنا بچہ دینا گوارا نہ کیا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے شوہر “حارث بن عبدالعزیٰ” سے کہا کہ یہ تو اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں خالی ہاتھ واپس جاؤں اس سے تو بہتر یہی ہے کہ میں اس یتیم ہی کو لے چلوں، شوہر نے اس کو منظور کر لیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس در یتیم کو لے کر آئیں جس سے صرف حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کے گھر میں نہیں بلکہ کائناتِ عالم کے مشرق و مغرب میں اجالا ہونے والا تھا۔ یہ خداوند قدوس کا فضل عظیم ہی تھا کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوئی ہوئی قسمت بیدار ہو گئی اور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی آغوش میں آ گئے۔ اپنے خیمہ میں لا کر جب دودھ پلانے بیٹھیں تو باران رحمت کی طرح برکاتِ نبوت کا ظہور شروع ہو گیا، خدا کی شان دیکھیے کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک پستان میں اس قدر دودھ اترا کہ رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی اور ان کے رضاعی بھائی نے بھی خوب شکم سیر ہو کر دودھ پیا، اور دونوں آرام سے سو گئے، ادھر اونٹنی کو دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے تھے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر نے اس کا دودھ دوہا۔ اور میاں بیوی دونوں نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا اور دونوں شکم سیر ہو کر رات بھر سکھ اور چین کی نیند سوئے۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شوہر حضور رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ برکتیں دیکھ کر حیران رہ گیا، اور کہنے لگا کہ حلیمہ! تم بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ واقعی مجھے بھی یہی امید ہے کہ یہ نہایت ہی بابرکت بچہ ہے اور خدا کی رحمت بن کر ہم کو ملا ہے اور مجھے یہی توقع ہے کہ اب ہمارا گھر خیر و برکت سے بھر جائے گا۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی گود میں لے کر مکہ مکرمہ سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تو میرا وہی خچر اب اس قدر تیز چلنے لگا کہ کسی کی سواری اس کی گرد کو نہیں پہنچتی تھی، قافلہ کی عورتیں حیران ہو کر مجھ سے کہنے لگیں کہ اے حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیا یہ وہی خچر ہے جس پر تم سوار ہو کر آئی تھیں یا کوئی دوسرا تیز رفتار خچر تم نے خرید لیا ہے؟ الغرض ہم اپنے گھر پہنچے وہاں سخت قحط پڑا ہوا تھا تمام جانوروں کے تھن میں دودھ خشک ہو چکے تھے، لیکن میرے گھر میں قدم رکھتے ہی میری بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے، اب روزانہ میری بکریاں جب چراگاہ سے گھر واپس آتیں تو ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوتے حالانکہ پوری بستی میں اور کسی کو اپنے جانوروں کا ایک قطرہ دودھ نہیں ملتا تھا میرے قبیلہ والوں نے اپنے چرواہوں سے کہا کہ تم لوگ بھی اپنے جانوروں کو اسی جگہ چراؤ جہاں حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جانور چرتے ہیں۔ چنانچہ سب لوگ اسی چراگاہ میں اپنے مویشی چرانے لگے جہاں میری بکریاں چرتی تھیں، مگر یہاں تو چراگاہ اور جنگل کا کوئی عمل دخل ہی نہیں تھا یہ تو رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے برکات نبوت کا فیض تھا جس کو میں اور میرے شوہر کے سوا میری قوم کا کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا تھا -
الغرض اسی طرح ہر دم ہر قدم پر ہم برابر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی برکتوں کا مشاہدہ کرتے رہے یہاں تک کہ دو سال پورے ہو گئے اور میں نے آپ کا دودھ چھڑا دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تندرستی اور نشوونما کا حال دوسرے بچوں سے اتنا اچھا تھا کہ دو سال میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خوب اچھے بڑے معلوم ہونے لگے، اب ہم دستور کے مطابق رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی والدہ کے پاس لائے اور انہوں نے حسب توفیق ہم کو انعام و اکرام سے نوازا۔
گو قاعدہ کے مطابق اب ہمیں رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں تھا، مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی برکات نبوت کی وجہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی ہم کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جدائی گوارا نہیں تھی۔ عجیب اتفاق کہ اس سال مکہ معظمہ میں وبائی بیماری پھیلی ہوئی تھی چنانچہ ہم نے اس وبائی بیماری کا بہانہ کر کے حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رضا مند کر لیا اور پھر ہم رحمت ِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو واپس اپنے گھر لائے اور پھر ہمارا مکان رحمتوں اور برکتوں کی کان بن گیا اور آپ ہمارے پاس نہایت خوش و خرم ہو کر رہنے لگے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کچھ بڑے ہوئے تو گھر سے باہر نکلتے اور دوسرے لڑکوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود ہمیشہ ہر قسم کے کھیل کود سے علیٰحدہ رہتے۔ ایک روز مجھ سے کہنے لگے کہ اماں جان! میرے دوسرے بھائی بہن دن بھر نظر نہیں آتے یہ لوگ ہمیشہ صبح کو اٹھ کر روزانہ کہاں چلے جاتے ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ لوگ بکریاں چرانے چلے جاتے ہیں، یہ سن کر آپ نے فرمایا: مادر مہربان! آپ مجھے بھی میرے بھائی بہنوں کے ساتھ بھیجا کیجیے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصرار سے مجبور ہو کر آپ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بچوں کے ساتھ چراگاہ جانے کی اجازت دے دی ۔اور آپ روزانہ جہاں حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بکریاں چرتی تھیں تشریف لے جاتے رہے اور بکریاں چراگاہوں میں لے جا کر ان کی دیکھ بھال کرنا جو تمام انبیاء اور رسولوں علیہم الصلوۃ و السلام کی سنت ہے آپ نے اپنے عمل سے بچپن ہی میں اپنی ایک خصلت نبوت کا اظہار فرما دیا۔
شق صدر:۔
ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک فرزند “ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے، چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بدحواس ہو کر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے، حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمکار کر پوچھا کہ بیٹا! کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کر شگاف کو سی دیا لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۱)
یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰذا بہت جلد تم ان کو ان کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں، خدا کی قسم! میرے نور نظر پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے۔ -
ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک فرزند “ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے، چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بدحواس ہو کر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے، حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمکار کر پوچھا کہ بیٹا! کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کر شگاف کو سی دیا لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۱)
یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰذا بہت جلد تم ان کو ان کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں، خدا کی قسم! میرے نور نظر پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واالہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے۔ -
شق صدر کتنی بار ہوا ؟:۔
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورۂ “الم نشرح” کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ چار مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس سینہ چاک کیا گیا اور اس میں نور و حکمت کا خزینہ بھرا گیا۔
پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تھے جس کا ذکر ہو چکا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان وسوسوں اور خیالات سے محفوظ رہیں جن میں بچے مبتلا ہو کر کھیل کود اور شرارتوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ دوسری بار دس برس کی عمر میں ہوا تا کہ جوانی کی پر آشوب شہوتوں کے خطرات سے آپ بے خوف ہو جائیں۔ تیسری بار غارِ حرا میں شق صدر ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب میں نور سکینہ بھر دیا گیا تا کہ آپ وحی الٰہی کے عظیم اور گراں بار بوجھ کو برداشت کر سکیں ۔ چوتھی مرتبہ شب معراج میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک سینہ چاک کر کے نور و حکمت کے خزانوں سے معمور کیا گیا، تا کہ آپ کے قلب مبارک میں اتنی وسعت اور صلاحیت پیدا ہو جائے کہ آپ دیدار الٰہی عزوجل کی تجلیوں، اور کلام ربانی کی ہیبتوں اور عظمتوں کے متحمل ہو سکیں۔
ام ایمن :۔
جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت “امِ ایمن” جو آپکے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خاطر داری اور خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں۔ امِ ایمن کا نام “برکۃ” ہے یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو آپ کے والد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میراث میں ملی تھیں۔ یہی آپ کو کھانا کھلاتی تھیں کپڑے پہناتی تھیں آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ (رضی الله تعالیٰ عنهم)
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورۂ “الم نشرح” کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ چار مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس سینہ چاک کیا گیا اور اس میں نور و حکمت کا خزینہ بھرا گیا۔
پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تھے جس کا ذکر ہو چکا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان وسوسوں اور خیالات سے محفوظ رہیں جن میں بچے مبتلا ہو کر کھیل کود اور شرارتوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ دوسری بار دس برس کی عمر میں ہوا تا کہ جوانی کی پر آشوب شہوتوں کے خطرات سے آپ بے خوف ہو جائیں۔ تیسری بار غارِ حرا میں شق صدر ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب میں نور سکینہ بھر دیا گیا تا کہ آپ وحی الٰہی کے عظیم اور گراں بار بوجھ کو برداشت کر سکیں ۔ چوتھی مرتبہ شب معراج میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مبارک سینہ چاک کر کے نور و حکمت کے خزانوں سے معمور کیا گیا، تا کہ آپ کے قلب مبارک میں اتنی وسعت اور صلاحیت پیدا ہو جائے کہ آپ دیدار الٰہی عزوجل کی تجلیوں، اور کلام ربانی کی ہیبتوں اور عظمتوں کے متحمل ہو سکیں۔
ام ایمن :۔
جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت “امِ ایمن” جو آپکے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خاطر داری اور خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں۔ امِ ایمن کا نام “برکۃ” ہے یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو آپ کے والد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میراث میں ملی تھیں۔ یہی آپ کو کھانا کھلاتی تھیں کپڑے پہناتی تھیں آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ (رضی الله تعالیٰ عنهم)
بچپن کی ادائیں:۔
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے تو چاند آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔ جب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جو کلام آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر الحمد للّٰہ رب العالمین و سبحان اللّٰہ بکرۃ و اصیلا بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا۔ بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت فرماتے۔ اگر کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شرم گاہ کھل جاتی تو آپ رو رو کر فریاد کرتے۔ اور جب تک شرم گاہ نہ چھپ جاتی آپ کو چین اور قرار نہیں آتا تھا اور اگر شرم گاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تاخیر ہو جاتی تو غیب سے کوئی آپ کی شرم گاہ چھپا دیتا۔ جب آپ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۱)
حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے تو چاند آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔ جب آپ کی زبان کھلی تو سب سے اول جو کلام آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر الحمد للّٰہ رب العالمین و سبحان اللّٰہ بکرۃ و اصیلا بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا۔ بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفع حاجت فرماتے۔ اگر کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شرم گاہ کھل جاتی تو آپ رو رو کر فریاد کرتے۔ اور جب تک شرم گاہ نہ چھپ جاتی آپ کو چین اور قرار نہیں آتا تھا اور اگر شرم گاہ چھپانے میں مجھ سے کچھ تاخیر ہو جاتی تو غیب سے کوئی آپ کی شرم گاہ چھپا دیتا۔ جب آپ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہیں ہوتے تھے لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا ہوں۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۱)
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات :۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف جب چھ برس کی ہو گئی تو آپ کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ آپ کے دادا کے نانھیال بنو عدی بن نجار میں رشتہ داروں کی ملاقات یا اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے گئیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد کی باندی امِ ایمن بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھیں وہاں سے واپسی پر “ابواء” نامی گاؤں میں حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات ہو گئی اور وہ وہیں مدفون ہوئیں۔ والد ماجد کا سایہ تو ولادت سے پہلے ہی اٹھ چکا تھا اب والدہ ماجدہ کی آغوش شفقت کا خاتمہ بھی ہو گیا۔ لیکن حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ در یتیم جس آغوشِ رحمت میں پرورش پا کر پروان چڑھنے والا ہے وہ ان سب ظاہری اسبابِ تربیت سے بے نیاز ہے۔ -
حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو مکہ مکرمہ لائیں اور آپ کے دادا عبدالمطلب کے سپرد کیا اور دادا نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں انتہائی شفقت و محبت کے ساتھ پرورش کیا اور حضرت امِ ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی خدمت کرتی رہیں۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف آٹھ برس کی ہو گئی تو آپ کے دادا عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا -
ابو طالب کے پاس:۔
عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابو طالب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے۔ اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے، اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔
ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی کو کوئی ایذا پہنچائی ہو، یا بیہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے کے لئے گئے ہوں یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔
عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوشِ تربیت میں لے لیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نیک خصلتوں اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نے ابو طالب کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے۔ اپنے ساتھ کھلاتے پلاتے، اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔
ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو، یا کبھی کسی کو کوئی ایذا پہنچائی ہو، یا بیہودہ لڑکوں کے پاس کھیلنے کے لئے گئے ہوں یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔
آپ کی دُعا سے بارش :۔
ایک مرتبہ ملکِ عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا۔ اہلِ مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردار انِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ درمیان دعا میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیا اور کال کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا۔
چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ
وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه
ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ
یعنی وہ (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۱۹۰)
ایک مرتبہ ملکِ عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا۔ اہلِ مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ! ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردار انِ عرب ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب ! قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔ جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہوگئے۔ درمیان دعا میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیا اور کال کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا۔
چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ
وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه
ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ
یعنی وہ (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۱۹۰)
اُمّی لقب:۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لقب “اُمّی” ہے اس لفظ کے دو معنی ہیں یا تو یہ ” اُم القریٰ ” کی طرف نسبت ہے۔ “اُم القریٰ” مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا “اُمی” کے معنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا “اُمّی” کے یہ معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا۔ یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ کو نہیں پڑھایا لکھایا۔ مگر خداوند قدوس نے آپ کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔ اور آپ پر ایسی کتاب نازل ہوئی جس کی شان ’’تِبْيَانًا لِّکُلِّ شَيْئٍ‘‘ (ہر ہر چیز کا روشن بیان) ہے حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
َنگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت
َبغمزہ سبق آموز صد مدرس شد
َنگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت
َبغمزہ سبق آموز صد مدرس شد
یعنی میرے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہ کبھی مکتب میں گئے، نہ لکھنا سیکھا مگر اپنے چشم و ابرو کے اشارہ سے سیکڑوں مدرسوں کو سبق پڑھا دیا۔
ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلاق عالم جل جلالہ ہو بھلا اس کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی؟ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ
َایسا امی کس لئے منت کش استاذ ہو
َکیا کفایت اس کو اقرء ربک الاکرم نہیں
ظاہر ہے کہ جس کا استاد اور تعلیم دینے والا خلاق عالم جل جلالہ ہو بھلا اس کو کسی اور استاد سے تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہو گی؟ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ
َایسا امی کس لئے منت کش استاذ ہو
َکیا کفایت اس کو اقرء ربک الاکرم نہیں
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے امی لقب ہونے کا حقیقی راز کیا ہے؟ اس کو تو خدا وند علام الغیوب کے سوا اور کون بتا سکتا ہے ؟ لیکن بظاہر اس میں چند حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہیں ۔
اوّل۔ یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہوں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتا کہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔
دوم۔ یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ہو گا۔
سوم۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔
اوّل۔ یہ کہ تمام دنیا کو علم و حکمت سکھانے والے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہوں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا استاد صرف خداوند عالم ہی ہو، کوئی انسان آپ کا استاد نہ ہوتا کہ کبھی کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پیغمبر تو میرا پڑھایا ہوا شاگرد ہے۔
دوم۔ یہ کہ کوئی شخص کبھی یہ خیال نہ کر سکے کہ فلاں آدمی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا استاد تھا تو شاید وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ہو گا۔
سوم۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی یہ وہم بھی نہ کر سکے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم چونکہ پڑھے لکھے آدمی تھے اس لیے انہوں نے خود ہی قرآن کی آیتوں کو اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے اور قرآن انہیں کا بنایا ہوا کلام ہے۔
چہارم۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ساری دنیا کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پہلی اور پرانی کتابوں کو دیکھ دیکھ کر اس قسم کی انمول اور انقلاب آفریں تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
پنجم۔ اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی، حالانکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خالق کائنات نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تعظیم کرے، اس لیے حضرت حق جل شانہ نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استاد ہو۔ (والله تعالیٰ اعلم)
پنجم۔ اگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا کوئی استاد ہوتا تو آپ کو اس کی تعظیم کرنی پڑتی، حالانکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خالق کائنات نے اس لیے پیدا فرمایا تھا کہ سارا عالم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تعظیم کرے، اس لیے حضرت حق جل شانہ نے اس کو گوارا نہیں فرمایا کہ میرا محبوب کسی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرے اور کوئی اس کا استاد ہو۔ (والله تعالیٰ اعلم)
سفر شام اور بحیرٰی:۔
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف بارہ برس کی ہوئی تو اس وقت ابو طالب نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔ ابو طالب کو چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بہت ہی والہانہ محبت تھی اس لیے وہ آپ کو بھی اس سفر میں اپنے ہمراہ لے گئے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت سے قبل تین بار تجارتی سفر فرمایا۔ دو مرتبہ ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے، یہ ملک شام کا پہلا سفر ہے اس سفر کے دوران ” بُصریٰ ” میں ” بُحیریٰ ” راہب (عیسائی سادھو) کے پاس آپ کا قیام ہوا۔ اس نے توراۃ و انجیل میں بیان کی ہوئی نبی آخر الزماں کی نشانیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ اس نے آپ کے قافلہ والوں کی دعوت کی اور ابو طالب سے کہا کہ یہ سارے جہان کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں، جن کو خدا عزوجل نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں اور ابر ان پر سایہ کرتا ہے اور ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے۔ اس لئے تمہارے اور ان کے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ اب تم ان کو لے کر آگے نہ جاؤ اور اپنا مال تجارت یہیں فروخت کرکے بہت جلد مکہ چلے جاؤ۔ کیونکہ ملک شام میں یہودی لوگ ان کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی وہ لوگ ان کو شہید کر ڈالیں گے۔ بحیرٰی راہب کے کہنے پر ابو طالب کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی تجارت کا مال فروخت کر دیا اور بہت جلد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ بُحیریٰ راہب نے چلتے وقت انتہائی عقیدت کے ساتھ آپ کو سفر کا کچھ توشہ بھی دیا۔ (ترمذی ج۲ باب ماجاء فی بدء نبوة النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم)
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی عمر شریف بارہ برس کی ہوئی تو اس وقت ابو طالب نے تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا۔ ابو طالب کو چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بہت ہی والہانہ محبت تھی اس لیے وہ آپ کو بھی اس سفر میں اپنے ہمراہ لے گئے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت سے قبل تین بار تجارتی سفر فرمایا۔ دو مرتبہ ملک شام گئے اور ایک بار یمن تشریف لے گئے، یہ ملک شام کا پہلا سفر ہے اس سفر کے دوران ” بُصریٰ ” میں ” بُحیریٰ ” راہب (عیسائی سادھو) کے پاس آپ کا قیام ہوا۔ اس نے توراۃ و انجیل میں بیان کی ہوئی نبی آخر الزماں کی نشانیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ اس نے آپ کے قافلہ والوں کی دعوت کی اور ابو طالب سے کہا کہ یہ سارے جہان کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں، جن کو خدا عزوجل نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ شجر و حجران کو سجدہ کرتے ہیں اور ابر ان پر سایہ کرتا ہے اور ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے۔ اس لئے تمہارے اور ان کے حق میں یہی بہتر ہوگا کہ اب تم ان کو لے کر آگے نہ جاؤ اور اپنا مال تجارت یہیں فروخت کرکے بہت جلد مکہ چلے جاؤ۔ کیونکہ ملک شام میں یہودی لوگ ان کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ وہاں پہنچتے ہی وہ لوگ ان کو شہید کر ڈالیں گے۔ بحیرٰی راہب کے کہنے پر ابو طالب کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ چنانچہ انہوں نے وہیں اپنی تجارت کا مال فروخت کر دیا اور بہت جلد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ بُحیریٰ راہب نے چلتے وقت انتہائی عقیدت کے ساتھ آپ کو سفر کا کچھ توشہ بھی دیا۔ (ترمذی ج۲ باب ماجاء فی بدء نبوة النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم)
اعلانِ نبوّت سے پہلے
جنگِ فجار:۔
اسلام سے پہلے عربوں میں لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ انہی لڑائیوں میں سے ایک مشہور لڑائی “جنگ فجار” کے نام سے مشہور ہے۔ عرب کے لوگ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب، ان چار مہینوں کا بے حد احترام کرتے تھے اور ان مہینوں میں لڑائی کرنے کو گناہ جانتے تھے۔ یہاں تک کہ عام طور پر ان مہینوں میں لوگ تلواروں کو نیام میں رکھ دیتے۔ اور نیزوں کی برچھیاں اتار لیتے تھے۔ مگر اس کے باوجود کبھی کبھی کچھ ایسے ہنگامی حالات درپیش ہو گئے کہ مجبوراً ان مہینوں میں بھی لڑائیاں کرنی پڑیں۔ تو ان لڑائیوں کو اہل عرب “حروب فجار” (گناہ کی لڑائیاں) کہتے تھے۔ سب سے آخری جنگ فجار جو “قریش” اور “قیس” کے قبیلوں کے درمیان ہوئی اس وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف بیس برس کی تھی۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے، اس لئے ابو طالب وغیرہ اپنے چچاوں کے ساتھ آپ نے بھی اس جنگ میں شرکت فرمائی۔ مگر کسی پر ہتھیار نہیں اٹھایا۔ صرف اتنا ہی کیا کہ اپنے چچاوں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے۔ اس لڑائی میں پہلے قیس پھر قریش غالب آئے اور آخر کار صلح پر اس لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ (سيرت ابن هشام ج۲ ص۱۸۶)حلف الفُضول:۔
روز روز کی لڑائیوں سے عرب کے سیکڑوں گھرانے برباد ہو گئے تھے۔ ہر طرف بدامنی اور آئے دن کی لوٹ مار سے ملک کا امن و امان غارت ہو چکا تھا۔ کوئی شخص اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ نہ دن کو چین، نہ رات کو آرام، اس وحشت ناک صورتِ حال سے تنگ آکر کچھ صلح پسند لوگوں نے جنگ فجار کے خاتمہ کے بعد ایک اصلاحی تحریک چلائی۔ چنانچہ بنو ہاشم، بنو زہرہ، بنو اسد وغیرہ قبائل قریش کے بڑے بڑے سردار ان عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے یہ تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات کو سدھارنے کے لئے کوئی معاہدہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ خاندان قریش کے سرداروں نے ” بقائے باہم ” کے اصول پر ” جیو اور جینے دو ” کے قسم کا ایک معاہدہ کیا اور حلف اٹھا کر عہد کیا کہ ہم لوگ:
(۱) ملک سے بے امنی دور کریں گے۔
(۲) مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
(۳) غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
(۴) مظلوم کی حمایت کریں گے۔
(۵) کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔
اس معاہدہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور آپ کو یہ معاہدہ اس قدر عزیز تھا کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی ۔اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم “یاآل حلف الفضول ” کہہ کر مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔
اس تاریخی معاہدہ کو “حلف الفضول” اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ “جرہم” کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب لوگوں کا نام “فضل” تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام “حلف الفضول” رکھ دیا گیا، یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام “فضل” تھے۔ (سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۳۴)
اس تاریخی معاہدہ کو “حلف الفضول” اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ “جرہم” کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے ان سب لوگوں کا نام “فضل” تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام “حلف الفضول” رکھ دیا گیا، یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام “فضل” تھے۔ (سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۳۴)
ملک ِشام کا دوسرا سفر:۔
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف تقریباً پچیس سال کی ہوئی تو آپ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ کی ایک بہت ہی مالدار عورت تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنی تجارت کا مال و سامان ملک شام بھیجیں۔ چنانچہ ان کی نظر انتخاب نے اس کام کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو منتخب کیا اور کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا مال تجارت لے کر ملک شام جائیں جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں آپ کو اس کا دوگنا دوں گی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی اور تجارت کا مال و سامان لے کر ملک شام کو روانہ ہو گئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ایک معتمد غلام “میسرہ” کو بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ وہ آپ کی خدمت کرتا رہے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ملک شام کے مشہور شہر “بصریٰ” کے بازار میں پہنچے تو وہاں “نسطورا” راہب کی خانقاہ کے قریب میں ٹھہرے۔ “نسطورا” میسرہ کو بہت پہلے سے جانتا پہچانتا تھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صورت دیکھتے ہی “نسطورا” میسرہ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ اے میسرہ ! یہ کون شخص ہیں جو اس درخت کے نیچے اتر پڑے ہیں۔ میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکہ کے رہنے والے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ان کا نام نامی “محمد” اور لقب “امین” ہے۔ نسطورا نے کہا کہ سوائے نبی کے اس درخت کے نیچے آج تک کبھی کوئی نہیں اترا۔ اس لئے مجھے یقین کامل ہے کہ “نبی آخر الزماں” یہی ہیں۔ کیونکہ آخری نبی کی تمام نشانیاں جو میں نے توریت و انجیل میں پڑھی ہیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش ! میں اس وقت زندہ رہتا جب یہ اپنی نبوت کا اعلان کریں گے تو میں ان کی بھر پور مدد کرتا اور پوری جاں نثاری کے ساتھ ان کی خدمت گزاری میں اپنی تمام عمر گزار دیتا۔ اے میسرہ ! میں تم کو نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ خبردار ! ایک لمحہ کے لئے بھی تم ان سے جدا نہ ہونا اور انتہائی خلوص و عقیدت کے ساتھ ان کی خدمت کرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو “خاتم النبیین” ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بصریٰ کے بازار میں بہت جلد تجارت کا مال فروخت کر کے مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ واپسی میں جب آپ کا قافلہ شہر مکہ میں داخل ہونے لگا تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہھا ایک بالا خانے پر بیٹھی ہوئی قافلہ کی آمد کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب ان کی نظر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پڑی تو انہیں ایسا نظر آیا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر پر دھوپ سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قلب پر اس نورانی منظر کا ایک خاص اثر ہوا اور وہ فرط عقیدت سے انتہائی والہانہ محبت کے ساتھ یہ حسین جلوہ دیکھتی رہیں۔ پھر اپنے غلام میسرہ سے انہوں نے کئی دن کے بعد اس کا ذکر کیا تو میسرہ نے بتایا کہ میں تو پورے سفر میں یہی منظر دیکھتا رہا ہوں۔ اور اس کے علاوہ میں نے بہت سی عجیب و غریب باتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پھر میسرہ نے نسطورا راہب کی گفتگو اور اسکی عقیدت و محبت کا تذکرہ بھی کیا۔ یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ سے بے پناہ قلبی تعلق، اور بے حد عقیدت و محبت ہو گئی اور یہاں تک ان کا دل جھک گیا کہ انہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کی رغبت ہو گئی۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۷)
جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف تقریباً پچیس سال کی ہوئی تو آپ کی امانت و صداقت کا چرچا دور دور تک پہنچ چکا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مکہ کی ایک بہت ہی مالدار عورت تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کو ضرورت تھی کہ کوئی امانت دار آدمی مل جائے تو اس کے ساتھ اپنی تجارت کا مال و سامان ملک شام بھیجیں۔ چنانچہ ان کی نظر انتخاب نے اس کام کے لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو منتخب کیا اور کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرا مال تجارت لے کر ملک شام جائیں جو معاوضہ میں دوسروں کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امانت و دیانت داری کی بنا پر میں آپ کو اس کا دوگنا دوں گی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی اور تجارت کا مال و سامان لے کر ملک شام کو روانہ ہو گئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ایک معتمد غلام “میسرہ” کو بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ وہ آپ کی خدمت کرتا رہے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ملک شام کے مشہور شہر “بصریٰ” کے بازار میں پہنچے تو وہاں “نسطورا” راہب کی خانقاہ کے قریب میں ٹھہرے۔ “نسطورا” میسرہ کو بہت پہلے سے جانتا پہچانتا تھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صورت دیکھتے ہی “نسطورا” میسرہ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ اے میسرہ ! یہ کون شخص ہیں جو اس درخت کے نیچے اتر پڑے ہیں۔ میسرہ نے جواب دیا کہ یہ مکہ کے رہنے والے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں ان کا نام نامی “محمد” اور لقب “امین” ہے۔ نسطورا نے کہا کہ سوائے نبی کے اس درخت کے نیچے آج تک کبھی کوئی نہیں اترا۔ اس لئے مجھے یقین کامل ہے کہ “نبی آخر الزماں” یہی ہیں۔ کیونکہ آخری نبی کی تمام نشانیاں جو میں نے توریت و انجیل میں پڑھی ہیں وہ سب میں ان میں دیکھ رہا ہوں۔ کاش ! میں اس وقت زندہ رہتا جب یہ اپنی نبوت کا اعلان کریں گے تو میں ان کی بھر پور مدد کرتا اور پوری جاں نثاری کے ساتھ ان کی خدمت گزاری میں اپنی تمام عمر گزار دیتا۔ اے میسرہ ! میں تم کو نصیحت اور وصیت کرتا ہوں کہ خبردار ! ایک لمحہ کے لئے بھی تم ان سے جدا نہ ہونا اور انتہائی خلوص و عقیدت کے ساتھ ان کی خدمت کرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو “خاتم النبیین” ہونے کا شرف عطا فرمایا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بصریٰ کے بازار میں بہت جلد تجارت کا مال فروخت کر کے مکہ مکرمہ واپس آ گئے۔ واپسی میں جب آپ کا قافلہ شہر مکہ میں داخل ہونے لگا تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہھا ایک بالا خانے پر بیٹھی ہوئی قافلہ کی آمد کا منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب ان کی نظر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پڑی تو انہیں ایسا نظر آیا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر پر دھوپ سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قلب پر اس نورانی منظر کا ایک خاص اثر ہوا اور وہ فرط عقیدت سے انتہائی والہانہ محبت کے ساتھ یہ حسین جلوہ دیکھتی رہیں۔ پھر اپنے غلام میسرہ سے انہوں نے کئی دن کے بعد اس کا ذکر کیا تو میسرہ نے بتایا کہ میں تو پورے سفر میں یہی منظر دیکھتا رہا ہوں۔ اور اس کے علاوہ میں نے بہت سی عجیب و غریب باتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ پھر میسرہ نے نسطورا راہب کی گفتگو اور اسکی عقیدت و محبت کا تذکرہ بھی کیا۔ یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ سے بے پناہ قلبی تعلق، اور بے حد عقیدت و محبت ہو گئی اور یہاں تک ان کا دل جھک گیا کہ انہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح کی رغبت ہو گئی۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۷)
نکاح:۔
حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مال و دولت کے ساتھ انتہائی شریف اور عفت مآب خاتون تھیں۔ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی وجہ سے ان کو طاہرہ (پاکباز) کہا کرتے تھے۔ ان کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی پہلے ان کا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا تھا اور ان سے دو لڑکے “ہند بن ابو ہالہ”اور “ہالہ بن ابو ہالہ” پیدا ہو چکے تھے۔ پھر ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسرا نکاح “عتیق بن عابد مخزومی ” سے کیا۔ ان سے بھی دو اولاد ہوئی، ایک لڑکا ’’ عبداللہ بن عتیق ” اور ایک لڑکی “ہند بنت عتیق”۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دوسرے شوہر “عتیق” کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے سردار ان قریش ان کے ساتھ عقد نکاح کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے سب پیغاموں کو ٹھکرا دیا۔ مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و عادات کو دیکھ کر اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حیرت انگیز حالات کو سن کر یہاں تک ان کا دل آپ کی طرف مائل ہو گیا کہ خود بخود ان کے قلب میں آپ سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی۔ کہاں تو بڑے بڑے مالداروں اور شہر مکہ کے سرداروں کے پیغاموں کو رد کر چکی تھیں اور یہ طے کر چکی تھیں کہ اب چالیس برس کی عمر میں تیسرا نکاح نہیں کروں گی اور کہاں خود ہی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا جو ان کے بھائی عوام بن خویلد کی بیوی تھیں۔ ان سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں پھر ” نفیسہ” بنت امیہ کے ذریعہ خود ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ مشہور امام سیرت محمد بن اسحق نے لکھا ہے کہ اس رشتہ کو پسند کرنے کی جو وجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیان کی ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہے: ’’ اِنِّيْ قَدْ رَغِبْتُ فِيْكَ لِحُسْنِ خُلْقِكَ وَ صِدْقِ حَدِيْـثِكَ ‘‘ یعنی میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اچھے اخلاق اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سچائی کی وجہ سے آپ کو پسند کیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۰۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو اپنے چچا ابو طالب اور خاندان کے دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایا۔ بھلا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی پاک دامن، شریف، عقلمند اور مالدار عورت سے شادی کرنے کو کون نہ کہتا ؟ سارے خاندان والوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اس رشتہ کو منظور کر لیا۔اور نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد اور شرفاء بنی ہاشم و سرداران مضر کو اپنی برات میں لے کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور نکاح ہوا۔ اس نکاح کے وقت ابو طالب نے نہایت ہی فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کے خاندانی بڑے بوڑھوں کا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے متعلق کیسا خیال تھا اور آپ کے اخلاق و عادات نے ان لوگوں پر کیسا اثر ڈالا تھا۔ ابو طالب کے اس خطبہ کا ترجمہ یہ ہے:
حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مال و دولت کے ساتھ انتہائی شریف اور عفت مآب خاتون تھیں۔ اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی وجہ سے ان کو طاہرہ (پاکباز) کہا کرتے تھے۔ ان کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی پہلے ان کا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا تھا اور ان سے دو لڑکے “ہند بن ابو ہالہ”اور “ہالہ بن ابو ہالہ” پیدا ہو چکے تھے۔ پھر ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسرا نکاح “عتیق بن عابد مخزومی ” سے کیا۔ ان سے بھی دو اولاد ہوئی، ایک لڑکا ’’ عبداللہ بن عتیق ” اور ایک لڑکی “ہند بنت عتیق”۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دوسرے شوہر “عتیق” کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے سردار ان قریش ان کے ساتھ عقد نکاح کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے سب پیغاموں کو ٹھکرا دیا۔ مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و عادات کو دیکھ کر اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حیرت انگیز حالات کو سن کر یہاں تک ان کا دل آپ کی طرف مائل ہو گیا کہ خود بخود ان کے قلب میں آپ سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی۔ کہاں تو بڑے بڑے مالداروں اور شہر مکہ کے سرداروں کے پیغاموں کو رد کر چکی تھیں اور یہ طے کر چکی تھیں کہ اب چالیس برس کی عمر میں تیسرا نکاح نہیں کروں گی اور کہاں خود ہی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلایا جو ان کے بھائی عوام بن خویلد کی بیوی تھیں۔ ان سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں پھر ” نفیسہ” بنت امیہ کے ذریعہ خود ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ مشہور امام سیرت محمد بن اسحق نے لکھا ہے کہ اس رشتہ کو پسند کرنے کی جو وجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیان کی ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہے: ’’ اِنِّيْ قَدْ رَغِبْتُ فِيْكَ لِحُسْنِ خُلْقِكَ وَ صِدْقِ حَدِيْـثِكَ ‘‘ یعنی میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اچھے اخلاق اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سچائی کی وجہ سے آپ کو پسند کیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۰۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو اپنے چچا ابو طالب اور خاندان کے دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایا۔ بھلا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی پاک دامن، شریف، عقلمند اور مالدار عورت سے شادی کرنے کو کون نہ کہتا ؟ سارے خاندان والوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اس رشتہ کو منظور کر لیا۔اور نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد اور شرفاء بنی ہاشم و سرداران مضر کو اپنی برات میں لے کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور نکاح ہوا۔ اس نکاح کے وقت ابو طالب نے نہایت ہی فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کے خاندانی بڑے بوڑھوں کا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے متعلق کیسا خیال تھا اور آپ کے اخلاق و عادات نے ان لوگوں پر کیسا اثر ڈالا تھا۔ ابو طالب کے اس خطبہ کا ترجمہ یہ ہے:
تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہم لوگوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں بنایا اور ہم کو معد اور مضر کے خاندان میں پیدا فرمایا اور اپنے گھر (کعبہ) کا نگہبان اور اپنے حرم کا منتظم بنایااور ہم کو علم و حکمت والا گھر اور امن والا حرم عطا فرمایا اور ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا۔
یہ میرے بھائی کا فرزند محمد بن عبداللہ ہے۔ یہ ایک ایسا جوان ہے کہ قریش کے جس شخص کا بھی اس کے ساتھ موازنہ کیا جائے یہ اس سے ہر شان میں بڑھا ہوا ہی رہے گا۔ ہاں مال اس کے پاس کم ہے لیکن مال تو ایک ڈھلتی ہوئی چھاؤں اور ادل بدل ہونے والی چیز ہے۔ اما بعد ! میرا بھتیجا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ شخص ہے جس کے ساتھ میری قرابت اور قربت و محبت کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ وہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کرتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے اور اس کا مستقبل بہت ہی تابناک، عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۰۱)
جب ابو طالب اپنا یہ ولولہ انگیز خطبہ ختم کر چکے تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کھڑے ہو کر ایک شاندار خطبہ پڑھا۔ جس کا مضمون یہ ہے:
خدا ہی کے لئے حمد ہے جس نے ہم کو ایسا ہی بنایا جیسا کہ اے ابو طالب ! آپ نے ذکر کیا اور ہمیں وہ تمام فضیلتیں عطا فرمائی ہیں جن کو آپ نے شمار کیا۔ بلاشبہ ہم لوگ عرب کے پیشوا اور سردار ہیں اور آپ لوگ بھی تمام فضائل کے اہل ہیں۔ کوئی قبیلہ آپ لوگوں کے فضائل کا انکار نہیں کر سکتااور کوئی شخص آپ لوگوں کے فخر و شرف کو رد نہیں کر سکتا اور بے شک ہم لوگوں نے نہایت ہی رغبت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے اور رشتہ میں شامل ہونے کو پسند کیا۔ لہٰذا اے قریش ! تم گواہ رہو کہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میں نے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی زوجیت میں دیا چار سو مثقال مہر کے بدلے۔
یہ میرے بھائی کا فرزند محمد بن عبداللہ ہے۔ یہ ایک ایسا جوان ہے کہ قریش کے جس شخص کا بھی اس کے ساتھ موازنہ کیا جائے یہ اس سے ہر شان میں بڑھا ہوا ہی رہے گا۔ ہاں مال اس کے پاس کم ہے لیکن مال تو ایک ڈھلتی ہوئی چھاؤں اور ادل بدل ہونے والی چیز ہے۔ اما بعد ! میرا بھتیجا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ شخص ہے جس کے ساتھ میری قرابت اور قربت و محبت کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ وہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کرتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے اور اس کا مستقبل بہت ہی تابناک، عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۰۱)
جب ابو طالب اپنا یہ ولولہ انگیز خطبہ ختم کر چکے تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کھڑے ہو کر ایک شاندار خطبہ پڑھا۔ جس کا مضمون یہ ہے:
خدا ہی کے لئے حمد ہے جس نے ہم کو ایسا ہی بنایا جیسا کہ اے ابو طالب ! آپ نے ذکر کیا اور ہمیں وہ تمام فضیلتیں عطا فرمائی ہیں جن کو آپ نے شمار کیا۔ بلاشبہ ہم لوگ عرب کے پیشوا اور سردار ہیں اور آپ لوگ بھی تمام فضائل کے اہل ہیں۔ کوئی قبیلہ آپ لوگوں کے فضائل کا انکار نہیں کر سکتااور کوئی شخص آپ لوگوں کے فخر و شرف کو رد نہیں کر سکتا اور بے شک ہم لوگوں نے نہایت ہی رغبت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے اور رشتہ میں شامل ہونے کو پسند کیا۔ لہٰذا اے قریش ! تم گواہ رہو کہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو میں نے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی زوجیت میں دیا چار سو مثقال مہر کے بدلے۔
غرض حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا نکاح ہوگیا اور حضور محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خانہ معیشت ازدواجی زندگی کے ساتھ آباد ہو گیا۔ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً ۲۵ برس تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں رہیں اور ان کی زندگی میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا باقی آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ جن کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی ساری دولت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر قربان کر دی اور اپنی تمام عمر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غمگساری اور خدمت میں نثار کر دی۔
کعبہ کی تعمیر :۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کی بدولت خداوند عالم عزوجل نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو اس قدر مقبولِ خلائق بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثال دانائی کا ایسا عظیم جوہر عطا فرما دیا کہ کم عمری میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے جھگڑوں کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں اور سرداروں نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا، اور سب نے بالاتفاق آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنا حکم اور سردارِ اعظم تسلیم کر لیا۔ چنانچہ اس قسم کا ایک واقعہ تعمیر کعبہ کے وقت پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر پینتیس (۳۵) برس کی ہوئی تو زور دار بارش سے حرم کعبہ میں ایسا عظیم سیلاب آ گیا کہ کعبہ کی عمارت بالکل ہی منہدم ہو گئی۔ حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کا بنایا ہوا کعبہ بہت پرانا ہو چکا تھا۔ عمالقہ، قبیلۂ جرہم اور قصی وغیرہ اپنے اپنے وقتوں میں اس کعبہ کی تعمیر و مرمت کرتے رہے تھے مگر چونکہ عمارت نشیب میں تھی اس لئے پہاڑوں سے برساتی پانی کے بہاؤ کا زور دار دھارا وادیٔ مکہ میں ہو کر گزرتا تھا اور اکثر حرم کعبہ میں سیلاب آ جاتا تھا۔ کعبہ کی حفاظت کے لیے بالائی حصہ میں قریش نے کئی بند بھی بنائے تھے مگر وہ بند بار بار ٹوٹ جاتے تھے۔ اس لیے قریش نے یہ طے کیا کہ عمارت کو ڈھا کر پھر سے کعبہ کی ایک مضبوط عمارت بنائی جائے جس کا دروازہ بلند ہو اور چھت بھی ہو۔ چنانچہ قریش نے مل جل کر تعمیر کا کام شروع کر دیا۔اس تعمیر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور سردار ان قریش کے دوش بدوش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے مختلف قبیلوں نے تعمیر کے لیے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لئے۔ جب عمارت ’’ حجر اسود ‘‘ تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ ہم ہی ’’ حجراسود ‘‘ کو اٹھا کر دیوار میں نصب کریں۔ تا کہ ہمارے قبیلہ کے لئے یہ فخر و اعزاز کا باعث بن جائے۔ اس کشمکش میں چار دن گزر گئے یہاں تک نوبت پہنچی کہ تلواریں نکل آئیں بنو عبدالدار اور بنو عدی کے قبیلوں نے تو اس پر جان کی بازی لگا دی اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی قسموں کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پیالہ میں خون بھر کر اپنی انگلیاں اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔ پانچویں دن حرم کعبہ میں تمام قبائل عرب جمع ہوئے اور اس جھگڑے کو طے کرنے کے لئے ایک بڑے بوڑھے شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ کل جو شخص صبح سویرے سب
سے پہلے حرم کعبہ میں داخل ہو اس کو پنچ مان لیا جائے۔ وہ جو فیصلہ کر دے سب اس کو تسلیم کر لیں۔ چنانچہ سب نے یہ بات مان لی۔ خدا عزوجل کی شان کہ صبح کو جو شخص حرم کعبہ میں داخل ہوا وہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے کہ واللہ یہ ’’ امین ‘‘ ہیں لہٰذا ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا اس طرح تصفیہ فرمایا کہ پہلے آپ نے یہ حکم دیا کہ جس جس قبیلہ کے لوگ حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھنے کے مدعی ہیں ان کا ایک ایک سردار چن لیا جائے۔ چنانچہ ہر قبیلہ والوں نے اپنا اپنا سردار چن لیا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کو بچھا کر حجراسود کو اس پر رکھااور سرداروں کو حکم دیا کہ سب لوگ اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر کو اٹھائیں۔ چنانچہ سب سرداروں نے چادر کو اٹھایا اور جب حجر اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے متبرک ہاتھوں سے اس مقدس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح ایک ایسی خونریز لڑائی ٹل گئی جس کے نتیجہ میں نہ معلوم کتنا خون خرابا ہوتا۔ (سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۹۶ تا۱۹۷)
خانہ کعبہ کی عمارت بن گئی لیکن تعمیر کے لئے جو سامان جمع کیا گیا تھا وہ کم پڑ گیا اس لئے ایک طرف کا کچھ حصہ باہر چھوڑ کر نئی بنیاد قائم کر کے چھوٹا سا کعبہ بنا لیا گیا کعبہ معظمہ کا یہی حصہ جس کو قریش نے عمارت سے باہر چھوڑ دیا “حطیم” کہلاتا ہے جس میں کعبہ معظمہ کی چھت کا پرنالا گرتا ہے۔
کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟ :۔
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے “تاریخ مکہ” میں تحریر فرمایا ہے کہ “خانہ کعبہ” دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:
(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک “بیت المعمور” کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔
(۲) پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔
(۳) اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔
(۴) اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔ -
(۲) پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔
(۳) اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔
(۴) اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔ -
(۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔
(۶) اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔
(۷) قریش کے مورث اعلیٰ “قصی بن کلاب” کی تعمیر۔
(۸) قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ -
(۶) اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔
(۷) قریش کے مورث اعلیٰ “قصی بن کلاب” کی تعمیر۔
(۸) قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ -
(۹) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اور ایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔
(۱۰) عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔
بناء قريش
بناء عبدالله بن زبير
بناء حجاج بن يوسف ثقفی
لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:
(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر (۲) زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے (۳) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔ حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (حاشيه بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکه)
مخصوص احباب:۔
اعلانِ نبوت سے قبل جو لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخصوص احباب و رفقاء تھے وہ سب نہایت ہی بلند اخلاق، عالی مرتبہ، ہوش مند اور باوقار لوگ تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مقرب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو برسوں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ وطن اور سفر میں رہے۔ اور تجارت نیز دوسرے کاروباری معاملات میں ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شریک کا رو راز دار رہے۔ اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو قریش کے نہایت ہی معزز رئیس تھے اور جن کا ایک خصوصی شرف یہ ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی تھی، یہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخصوص احباب میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو زمانہ جاہلیت میں طبابت اور جراہی کا پیشہ کرتے تھے یہ بھی احباب خاص میں سے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ اپنے گاؤں سے مکہ آئے تو کفار قریش کی زبانی یہ پروپیگنڈا سنا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجنون ہو گئے ہیں۔ پھر یہ دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم راستہ میں تشریف لے جارہے ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے لڑکوں کا ایک غول ہے جو شور مچا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ شبہ پیدا ہوا اور پرانی دوستی کی بنا پر ان کو انتہائی رنج و قلق ہوا۔ چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں طبیب ہوں اور جنون کا علاج کر سکتا ہوں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداعزوجل کی حمد و ثنا کے بعد چند جملے ارشاد فرمائے جن کا حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ فوراً ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (مشکوٰة باب علامات النبوة ص ۲۲۵ و مسلم ج اول ص ۲۸۵ کتاب الجمعه)
حضرت قیس بن سائب مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شریک کار رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ اپنے تجارتی شرکا کے ساتھ ہمیشہ نہایت ہی صاف ستھرا رہتا تھا اور کبھی کوئی جھگڑا پیش نہیں آتا تھا۔ (استيعاب ج ۲ ص ۵۳۷)
موحدین عرب سے تعلقات:۔
عرب میں اگرچہ ہر طرف شرک پھیل گیا تھا اور گھر گھر میں بت پرستی کا چرچا تھا۔ مگر اس ماحول ميں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو توحید کے پرستار، اور شرک و بت پرستی سے بیزار تھے ۔ انہی خوش نصبوں ميں زید بن عمرو بن نفیل ہيں۔ یہ علی الاعلان شرک و بت پرستی سے انکار، اور جاہلیت کی مشرکانہ رسموں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی ہيں۔ شرک و بت پرستی کے خلاف اعلان مذمت کی بنا پر ان کا چچا “خطاب بن نفیل” ان کو بہت زیادہ تکلیفيں دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو مکہ سے شہر بدر کر دیا تھا اور ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ مگر یہ ہزاروں ایذاوں کے باوجود عقیدۂ توحید پر پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ کے دو شعر بہت مشہور ہیں جن کو یہ مشرکیں کے میلوں اور مجمعوں میں بہ آواز بلند سنایا کرتے تھے کہ
اَدِيْنُ اِذَا تُقُسِّمَتِ الْاُمُوْرِ اَرَبًّا وَّاحِدًا اَمْ اَلْفَ رَبٍّ
کَذَالِكَ يَفْعَلُ الرَّجُلُ الْبَصِيْر تَرَكْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّيٰ جَمِيْعًا
یعنی کیا میں ایک رب کی اطاعت کروں یا ایک ہزار رب کی ؟ جب کہ لوگوں کے دینی معاملات تقسیم ہو چکے ہیں۔ میں نے تو لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور ہر بصیرت والا ایسا ہی کرے گا (سيرت ابن هشام ج ۱ص۲۲۶)
اعلانِ نبوت سے قبل جو لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخصوص احباب و رفقاء تھے وہ سب نہایت ہی بلند اخلاق، عالی مرتبہ، ہوش مند اور باوقار لوگ تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مقرب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو برسوں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ وطن اور سفر میں رہے۔ اور تجارت نیز دوسرے کاروباری معاملات میں ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شریک کا رو راز دار رہے۔ اسی طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچا زاد بھائی حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو قریش کے نہایت ہی معزز رئیس تھے اور جن کا ایک خصوصی شرف یہ ہے کہ ان کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی تھی، یہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخصوص احباب میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو زمانہ جاہلیت میں طبابت اور جراہی کا پیشہ کرتے تھے یہ بھی احباب خاص میں سے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ اپنے گاؤں سے مکہ آئے تو کفار قریش کی زبانی یہ پروپیگنڈا سنا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجنون ہو گئے ہیں۔ پھر یہ دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم راستہ میں تشریف لے جارہے ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے لڑکوں کا ایک غول ہے جو شور مچا رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ شبہ پیدا ہوا اور پرانی دوستی کی بنا پر ان کو انتہائی رنج و قلق ہوا۔ چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں طبیب ہوں اور جنون کا علاج کر سکتا ہوں۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خداعزوجل کی حمد و ثنا کے بعد چند جملے ارشاد فرمائے جن کا حضرت ضماد بن ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ فوراً ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (مشکوٰة باب علامات النبوة ص ۲۲۵ و مسلم ج اول ص ۲۸۵ کتاب الجمعه)
حضرت قیس بن سائب مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شریک کار رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ اپنے تجارتی شرکا کے ساتھ ہمیشہ نہایت ہی صاف ستھرا رہتا تھا اور کبھی کوئی جھگڑا پیش نہیں آتا تھا۔ (استيعاب ج ۲ ص ۵۳۷)
موحدین عرب سے تعلقات:۔
عرب میں اگرچہ ہر طرف شرک پھیل گیا تھا اور گھر گھر میں بت پرستی کا چرچا تھا۔ مگر اس ماحول ميں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو توحید کے پرستار، اور شرک و بت پرستی سے بیزار تھے ۔ انہی خوش نصبوں ميں زید بن عمرو بن نفیل ہيں۔ یہ علی الاعلان شرک و بت پرستی سے انکار، اور جاہلیت کی مشرکانہ رسموں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی ہيں۔ شرک و بت پرستی کے خلاف اعلان مذمت کی بنا پر ان کا چچا “خطاب بن نفیل” ان کو بہت زیادہ تکلیفيں دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو مکہ سے شہر بدر کر دیا تھا اور ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ مگر یہ ہزاروں ایذاوں کے باوجود عقیدۂ توحید پر پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ کے دو شعر بہت مشہور ہیں جن کو یہ مشرکیں کے میلوں اور مجمعوں میں بہ آواز بلند سنایا کرتے تھے کہ
اَدِيْنُ اِذَا تُقُسِّمَتِ الْاُمُوْرِ اَرَبًّا وَّاحِدًا اَمْ اَلْفَ رَبٍّ
کَذَالِكَ يَفْعَلُ الرَّجُلُ الْبَصِيْر تَرَكْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّيٰ جَمِيْعًا
یعنی کیا میں ایک رب کی اطاعت کروں یا ایک ہزار رب کی ؟ جب کہ لوگوں کے دینی معاملات تقسیم ہو چکے ہیں۔ میں نے تو لات و عزیٰ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور ہر بصیرت والا ایسا ہی کرے گا (سيرت ابن هشام ج ۱ص۲۲۶)
یہ مشرکین کے دین سے متنفر ہو کر دین برحق کی تلاش میں ملک شام چلے گئے تھے۔ وہاں ایک یہودی عالم سے ملے۔ پھر ایک نصرانی پادری سے ملاقات کی اور جب آپ نے یہودی و نصرانی دین کو قبول نہیں کیا تو ان دونوں نے ” دین حنیف ” کی طرف آپ کی رہنمائی کی جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا دین تھا اور ان دونوں نے یہ بھی بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی، اور وہ ایک خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر زید بن عمرو بن نفیل ملک شام سے مکہ واپس آگئے۔ اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مکہ میں بہ آواز بلند یہ کہا کرتے تھے کہ اے لوگو ! گواہ رہو کہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں۔ (سيرت ابن هشام ج ۱ص۲۲۵)
اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ زید بن عمرو بن نفیل کو بڑا خاص تعلق تھا اور کبھی کبھی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وحی نازل ہونے سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقام ” بلدح ” کی ترائی میں زید بن عمرو بن نفیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے دستر خوان پر کھانا پیش کیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کر دیا، تو زید بن عمرو بن نفیل کہنے لگے کہ میں بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا۔ میں صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر قریش کے ذبیحوں کی برائی بیان کرنے لگے اور قریش کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بکری کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور اللہ تعالی ٰ نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے گھاس اگائی۔ پھر اے قریش ! تم بکری کو اللہ کے غیر (بتوں) کے نام پر ذبح کرتے ہو ؟(سيرت ابن هشام ج ۱ ص۲۲۶)
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے کہتے تھے کہ اے جماعت قریش ! خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر نہیں ہے۔ (بخاری ج۱ باب حديث زید بن عمرو بن نفيل ص۵۴۰)
اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ زید بن عمرو بن نفیل کو بڑا خاص تعلق تھا اور کبھی کبھی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وحی نازل ہونے سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقام ” بلدح ” کی ترائی میں زید بن عمرو بن نفیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے دستر خوان پر کھانا پیش کیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھانے سے انکار کر دیا، تو زید بن عمرو بن نفیل کہنے لگے کہ میں بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا۔ میں صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ پھر قریش کے ذبیحوں کی برائی بیان کرنے لگے اور قریش کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بکری کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور اللہ تعالی ٰ نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے گھاس اگائی۔ پھر اے قریش ! تم بکری کو اللہ کے غیر (بتوں) کے نام پر ذبح کرتے ہو ؟(سيرت ابن هشام ج ۱ ص۲۲۶)
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے کہتے تھے کہ اے جماعت قریش ! خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر نہیں ہے۔ (بخاری ج۱ باب حديث زید بن عمرو بن نفيل ص۵۴۰)
کاروباری مشاغل :۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اصل خاندانی پیشہ تجارت تھا اور چونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے۔ جس سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا۔ اس لئے ذریعہ معاش کے لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ اور تجارت کی غرض سے شام و بُصریٰ اور یمن کا سفر فرمایا۔ اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تجارتی کاروبار کیا کہ آپ کے شرکاء کار اور تمام اہل بازار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو “امین” کے لقب سے پکارنے لگے۔
ایک کامیاب تاجر کے لئے امانت، سچائی، وعدہ کی پابندی، خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔ ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نادر روزگار ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کر دوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔ بس صرف اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (سنن ابو داؤد ج۲ ص۳۳۴ باب فی العدة ۔ مجتبائی)
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اصل خاندانی پیشہ تجارت تھا اور چونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچپن ہی میں ابو طالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے۔ جس سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا تھا۔ اس لئے ذریعہ معاش کے لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا۔ اور تجارت کی غرض سے شام و بُصریٰ اور یمن کا سفر فرمایا۔ اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تجارتی کاروبار کیا کہ آپ کے شرکاء کار اور تمام اہل بازار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو “امین” کے لقب سے پکارنے لگے۔
ایک کامیاب تاجر کے لئے امانت، سچائی، وعدہ کی پابندی، خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں۔ ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نادر روزگار ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ خرید و فروخت کا معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کر دوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسی جگہ منتظر پایا۔ مگر میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔ بس صرف اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (سنن ابو داؤد ج۲ ص۳۳۴ باب فی العدة ۔ مجتبائی)
اسی طرح ایک صحابی حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہو کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو لوگ ان کی تعریف کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں انہیں تمہاری نسبت زیادہ جانتا ہوں۔ حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں عرض گزار ہوا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر فدا ہوں آپ نے سچ فرمایا، اعلان نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے، آپ نے کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا تھا۔ (سنن ابوداؤد ج۲ ص۳۱۷ باب کراهيةالمرا ۔ مجتبائی )
غیر معمولی کردار:۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا زمانہ طفولیت ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شباب مجسم حیاء اور چال چلن عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتہ داروں سے محبت، رحم و سخاوت، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اور مفلسوں کی خبرگیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوق خدا کی خیرخواہی، غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کیلئے وہاں تک رسائی تو کیا؟ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا۔ ہر معاملہ میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاص شیوہ تھا۔
حرص، طمع، دغا، فریب، جھوٹ، شراب خوری، بدکاری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی، عشق بازی، یہ تمام بری عادتیں اور مذموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام عیوب و نقائص سے پاک صاف رہی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے برگزیدہ اخلاق کا اعتبار، اور سب کی نظروں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک خاص وقار تھا۔
بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہو گئی۔ لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسوم، اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن عصمت پاک ہی رہا۔ مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خود خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کبھی بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا زمانہ طفولیت ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا شباب مجسم حیاء اور چال چلن عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتہ داروں سے محبت، رحم و سخاوت، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اور مفلسوں کی خبرگیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوق خدا کی خیرخواہی، غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کیلئے وہاں تک رسائی تو کیا؟ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا۔ ہر معاملہ میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاص شیوہ تھا۔
حرص، طمع، دغا، فریب، جھوٹ، شراب خوری، بدکاری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی، عشق بازی، یہ تمام بری عادتیں اور مذموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان تمام عیوب و نقائص سے پاک صاف رہی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے برگزیدہ اخلاق کا اعتبار، اور سب کی نظروں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک خاص وقار تھا۔
بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہو گئی۔ لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسوم، اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دامن عصمت پاک ہی رہا۔ مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خود خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کبھی بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔
اعلانِ نبوت کے بعد
غار ِحراء:۔
مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کی دوری پر “ جبل حراء ” نامی پہاڑ کے اُوپر ایک غار (کھوہ) ہے جس کو “ غار حراء ” کہتے ہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر کئی کئی دنوں کا کھانا پانی ساتھ لے کر اس غار کے پرسکون ماحول کے اندر خدا کی عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ جب کھانا پانی ختم ہو جاتا تو کبھی خود گھر پر آکر لے جاتے اور کبھی حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کھانا پانی غار میں پہنچا دیا کرتی تھیں۔ آج بھی یہ نورانی غار اپنی اصلی حالت میں موجود اور زیارت گاہ خلائق ہے۔
پہلی وحی:۔
ایک دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم “ غار حراء ” کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ بالکل اچانک غار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔ (یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو ہمیشہ خدا عزوجل کا پیغام اس کے رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام تک پہنچاتے رہے ہیں) فرشتے نے ایک دم کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں “ پڑھنے والا نہیں ہوں۔ ” فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکڑا اور نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زور دار معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ “ میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ ” فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا کہ “ میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ ” تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَكْرَمُ o الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ o
یہی سب سے پہلی وحی تھی جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ ان آیتوں کو یاد کر کے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے۔ مگر اس واقعہ سے جو بالکل ناگہانی طور پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش آیا اس سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر لرزہ طاری تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گھر والوں سے فرمایا کہ مجھے کملی اڑھاؤ۔ مجھے کملی اڑھاؤ۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خوف دور ہوا اور کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے غار میں پیش آنے والا واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ “ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ ” یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ نہیں، ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ کبھی بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رسوا نہیں کرے گا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو رشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں۔ دوسروں کا بار خود اٹھاتے ہیں۔ خود کما کما کر مفلسوں اور محتاجوں کو عطا فرماتے ہیں۔ مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق و انصاف کی خاطر سب کی مصیبتوں اور مشکلات میں کام آتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی “ ورقہ بن نوفل ” کے پاس لے گئیں۔ ورقہ ان لوگوں میں سے تھے جو “ موحد ” تھے اور اہل مکہ کے شرک و بت پرستی سے بیزار ہو کر “ نصرانی ” ہو گئے تھے اور انجیل کا عبرانی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا کرتے تھے۔ بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے کہا کہ بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ بتایئے۔ آپ نے کیا دیکھا ہے؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غار حراء کا پورا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے کہ کاش ! میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے زمانے میں تندرست جوان ہوتا۔ کاش ! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے باہر نکالے گی۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا کہ کیا مکہ والے مجھے مکہ سے نکال دیں گے تو ورقہ نے کہا جی ہاں ! جو شخص بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرح نبوت لے کر آیا لوگ اس کے ساتھ دشمنی پر کمر بستہ ہو گئے۔
اس کے بعد کچھ دنوں تک وحی اترنے کا سلسلہ بند ہو گیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وحی کے انتظار میں مضطرب اور بے قرار رہنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہیں گھر سے باہر تشریف لے جا رہے تھے کہ کسی نے “ یا محمد ” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہہ کر پکارا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو یہ نظر آیا کہ وہی فرشتہ (حضرت جبریل علیہ السلام) جو غار میں آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہو گئی اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکان پر آکر لیٹ گئے اور گھر والوں سے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ ناگہاں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سورہ “ مدثر ” کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں اور رب تعالیٰ کا فرمان اتر پڑا کہ
يٰـاَيُّهَاالْمُدَّثِّرُ o قُمْ فَاَنْذِرْ o وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ o وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ o وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ o (بخاری ج۱ ص۳)
یعنی اے بالا پوش اوڑھنے والے کھڑے ہو جاؤ پھر ڈر سناؤ اور اپنے رب ہی کی بڑائی بولو اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور بتوں سے دور رہو ۔
ان آیات کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند قدوس نے دعوتِ اسلام کے منصب پر مامور فرما دیا اور آپ خداوند تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعوت حق اور تبلیغ اسلام کے لئے کمر بستہ ہو گئے۔
دعوتِ اسلام کے لئے تین دور:۔
پہلا دور:۔
تین برس تک حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم انتہائی پوشیدہ طور پر نہایت رازداری کے ساتھ تبلیغ اسلام کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے پہلے حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور غلاموں میں سب سے پہلے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت و تبلیغ سے حضرت عثمان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جلد ہی دامن اسلام میں آ گئے۔ پھر چند دنوں کے بعد حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد، حضرت ارقم بن ابوارقم، حضرت عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی حضرت قدامہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر کچھ مدت کے بعد حضرت ابو ذر غفاری و حضرت صہیب رومی، حضرت عبیدہ بن الحارث بن عبدالمطلب، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور ان کی بیوی فاطمہ بنت الخطاب حضرت عمر کی بہن رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چچی حضرت ام الفضل حضرت عباس بن عبدالمطلب کی بیوی اور حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی مسلمان ہو گئیں۔ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے مردوں اور عورتوں نے بھی اسلام لانے کا شرف حاصل کر لیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۴۶)واضح رہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے جو “ سابقین اولین ” کے لقب سے سرفراز ہیں ان خوش نصیبوں کی فہرست پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے دامن اسلام میں آنے والے وہی لوگ ہیں جو فطرۃً نیک طبع اور پہلے ہی سے دین حق کی تلاش میں سرگرداں تھے اور کفار مکہ کے شرک و بت پرستی اور مشرکانہ رسوم جاہلیت سے متنفر اور بیزار تھے۔ چنانچہ نبی برحق کے دامن میں دین حق کی تجلی دیکھتے ہی یہ نیک بخت لوگ پروانوں کی طرح شمع نبوت پر نثار ہونے لگے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
دُوسرا دور:۔
تین برس کی اس خفیہ دعوت اسلام میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سورۂ “ شعراء ” کی آیت وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ o نازل فرمائی اور خداوند تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اے محبوب ! آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو خدا سے ڈرائیے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک دن کوہ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر “ یامعشر قریش ” کہہ کر قبیلہ قریش کو پکارا۔ جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میری قوم ! اگر میں تم لوگوں سے یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ میری بات کا یقین کر لو گے ؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ! ہاں ! ہم یقینا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ہمیشہ سچا اور امین ہی پایا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا رہا ہوں اور اگر تم لوگ ایمان نہ لاؤ گے تو تم پر عذاب الٰہی اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام قریش جن میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چچا ابو لہب بھی تھا، سخت ناراض ہو کر سب کے سب چلے گئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں اول فول بکنے لگے۔ (بخاری ج۲ ص۷۰۲ و عامه تفاسير)
تیسرا دور:۔
اب وہ وقت آگیا کہ اعلان نبوت کے چوتھے سال سورہ حجر کی آیت فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ نازل فرمائی اور حضرت حق جل شانہٗ نے یہ حکم فرمایا کہ اے محبوب ! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمائیے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علانیہ طور پر دین اسلام کی تبلیغ فرمانے لگے۔ اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی بیان فرمانے لگے۔ اور تمام قریش بلکہ تمام اہل مکہ بلکہ پورا عرب آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو گیا۔ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ایذا رسانیوں کا ایک طولانی سلسلہ شروع ہو گیا۔
رحمت عالم پر ظلم و ستم:۔
کفارِ مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قتل تو نہیں کر سکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاہن، ساحر، شاعر، مجنون ہونے کا ہر کوچہ و بازار میں زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے شریر لڑکوں کا غول لگا دیا جو راستوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر پھبتیاں کستے، گالیاں دیتے اور یہ دیوانہ ہے، یہ دیوانہ ہے، کا شور مچا مچا کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوپر پتھر پھینکتے۔ کبھی کفار مکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس اور نازک گردن میں چادر کا پھندہ ڈال کر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک دم سنگدل کافر عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گلے میں چادر کا پھندہ ڈال کر اس زور سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دم گھٹنے لگا۔ چنانچہ یہ منظر دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے قرار ہو کر دوڑ پڑے اور عقبہ بن ابی معیط کو دھکا دے کر دفع کیا اور یہ کہا کہ کیا تم لوگ ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ ” میرا رب اللہ ہے۔ ” اس دھکم دھکا میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفار کو مارا بھی اور کفار کی مار بھی کھائی۔ (زرقانی ج۱ ص۲۵۲ و بخاری ج۱ ص۵۴۴)
کفار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات اور روحانی تاثیرات و تصرفات کو دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سب سے بڑا جادو گر کہتے۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قرآن شریف کی تلاوت فرماتے تو یہ کفار قرآن اور قرآن کو لانے والے (جبریل) اور قرآن کو نازل فرمانے والے (اللہ تعالیٰ) کو اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے۔ اور گلی کوچوں میں پہرہ بٹھا دیتے کہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے اور تالیاں پیٹ پیٹ کر اور سیٹیاں بجا بجا کر اس قدر شوروغل مچاتے کہ قرآن کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تھی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب کہیں کسی عام مجمع میں یا کفار کے میلوں میں قرآن پڑھ کر سناتے یا دعوت ایمان کا وعظ فرماتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا چچا ابولہب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے چلا چلا کر کہتا جاتا تھا کہ اے لوگو ! یہ میرا بھتیجا جھوٹا ہے، یہ دیوانہ ہو گیا ہے، تم لوگ اس کی کوئی بات نہ سنو۔ (معاذ الله)
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم “ذوالمجاز” کے بازار میں دعوت اسلام کا وعظ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے اور لوگوں کو کلمۂ حق کی دعوت دی تو ابو جہل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر دھول اڑاتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو! اس کے فریب میں مت آنا، یہ چاہتا ہے کہ تم لوگ لات و عزیٰ کی عبادت چھوڑ دو۔ (مسند امام احمد ج۴ وغيره)
اسی طرح ایک مرتبہ جب کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے عین حالتِ نماز میں ابو جہل نے کہا کہ کوئی ہے؟ جو آل فلاں کے ذبح کیے ہوئے اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں ان کے کندھوں پر رکھ دے۔ یہ سن کر عقبہ بن ابی معیط کافر اٹھا اور اس اوجھڑی کو لا کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوش مبارک پر رکھ دیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سجدہ میں تھے دیر تک اوجھڑی کندھے اور گردن پر پڑی رہی اور کفار ٹھٹھا مار مار کر ہنستے رہے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر گر گر پڑتے رہے آخر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ان دنوں ابھی کمسن لڑکی تھی آئیں اور ان کافروں کو برا بھلا کہتے ہوئے اس اوجھڑی کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوش مبارک سے ہٹا دیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر قریش کی اس شرارت سے انتہائی صدمہ گزرا اور نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ یہ دعا مانگی کہ ’’ اَللّٰهمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ‘‘ یعنی اے اللہ ! تو قریش کو اپنی گرفت میں پکڑ لے، پھر ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عمارہ بن ولید کا نام لے کر دعا مانگی کہ الٰہی ! تو ان لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے ان سب کافروں کو جنگ بدر کے دن دیکھا کہ ان کی لاشیں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔ پھر ان سب کفار کی لاشوں کو نہایت ذلت کے ساتھ گھسیٹ کر بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان گڑھے والوں پر خدا کی لعنت ہے۔ (بخاری ج۱ ص۷۴ باب المرأه تطرح الخ)
چند شریر کفار :۔
جو کفار مکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دشمنی اور ایذا رسانی میں بہت زیادہ سر گرم تھے۔ ان میں سے چند شریروں کے نام یہ ہیں۔
(۱) ابو لہب (۲) ابوجہل (۳) اسود بن عبد یغوث (۴) حارث بن قیس بن عدی (۵) ولید بن مغیرہ (۶) امیہ بن خلف (۷) ابی بن خلف (۸) ابو قیس بن فاکہہ (۹) عاص بن وائل (۱۰) نضر بن حارث (۱۱) منبہ بن الحجاج (۱۲) زہیر بن ابی امیہ (۱۳) سائب بن صیفی (۱۴) عدی بن حمرا (۱۵) اسود بن عبدالاسد (۱۶) عاص بن سعید بن العاص ( ۱۷) عاص بن ہاشم (۱۸) عقبہ بن ابی معیط (۱۹) حکم بن ابی العاص۔ یہ سب کے سب حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پڑوسی تھے اور ان میں سے اکثر بہت ہی مالدار اور صاحب اقتدار تھے اور دن رات سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایذارسانی میں مصروف کار رہتے تھے۔ (نعوذ بالله من ذالك)
مسلمانوں پر مظالم:۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی کفار مکہ نے ایسے ایسے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کہ مکہ کی زمین بلبلا اُٹھی۔ یہ آسان تھا کہ کفار مکہ ان مسلمانوں کو دم زدن میں قتل کر ڈالتے مگر اس سے ان کافروں کے جوش انتقام کا نشہ نہیں اتر سکتا تھا کیونکہ کفار اس بات میں اپنی شان سمجھتے تھے کہ ان مسلمانوں کو اتنا ستاؤ کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر پھر شرک و بت پرستی کرنے لگیں۔ اس لئے قتل کر دینے کی بجائے کفار مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی سزاؤں اور ایذا رسانیوں کے ساتھ ستاتے تھے۔ مگر خدا کی قسم ! شراب توحید کے ان مستوں نے اپنے استقلال و استقامت کا وہ منظر پیش کر دیا کہ پہاڑوں کی چوٹیاں سر اٹھا اٹھا کر حیرت کے ساتھ ان بلاکشانِ اسلام کے جذبۂ استقامت کا نظارہ کرتی رہیں۔ سنگدل، بے رحم اور درندہ صفت کافروں نے ان غریب و بیکس مسلمانوں پر جبر و اکراہ اور ظلم و ستم کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا مگر ایک مسلمان کے پائے استقامت میں بھی ذرہ برابر تزلزل نہیں پیدا ہوا اور ایک مسلمان کا بچہ بھی اسلام سے منہ پھیر کر کافر و مرتد نہیں ہوا۔
کفار مکہ نے ان غرباء مسلمین پر جور و جفاکاری کے بے پناہ اندوہناک مظالم ڈھائے اور ایسے ایسے روح فرساء اور جاں سوز عذابوں میں مبتلا کیا کہ اگر ان مسلمانوں کی جگہ پہاڑ بھی ہوتا تو شاید ڈگمگانے لگتا۔ صحرائے عرب کی تیز دھوپ میں جب کہ وہاں کی ریت کے ذرات تنور کی طرح گرم ہو جاتے۔ ان مسلمانوں کی پشت کو کوڑوں کی مار سے زخمی کر کے اس جلتی ہوئی ریت پر پیٹھ کے بل لٹاتے اور سینوں پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیتے کہ وہ کروٹ نہ بدلنے پائیں لوہے کو آگ میں گرم کر کے ان سے ان مسلمانوں کے جسموں کو داغتے، پانی میں اس قدرڈبکیاں دیتے کہ ان کا دم گھٹنے لگتا۔ چٹائیوں میں ان مسلمانوں کو لپیٹ کر ان کی ناکوں میں دھواں دیتے جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا اور وہ کرب و بے چینی سے بدحواس ہو جاتے۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ اس زمانے میں اسلام لائے جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابو ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چند ہی آدمی مسلمان ہوئے تھے۔ قریش نے ان کو بے حد ستایا۔ یہاں تک کہ کوئلے کے انگاروں پر ان کو چت لٹایا اور ایک شخص ان کے سینے پر پاؤں رکھ کر کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ ان کی پیٹھ کی چربی اور رطوبت سے کوئلے بجھ گئے۔ برسوں کے بعد جب حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ واقعہ حضرت امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کیا تو اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی۔ پوری پیٹھ پر سفید سفید داغ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ اس عبرت ناک منظر کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ (طبقات ابن سعد ج۳ تذکره خباب)
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو امیہ بن خلف کافر کے غلام تھے۔ان کی گردن میں رسی باندھ کر کوچہ و بازار میں ان کو گھسیٹا جاتا تھا۔ ان کی پیٹھ پر لاٹھیاں برسائی جاتی تھیں اور ٹھیک دوپہر کے وقت تیز دھوپ میں گرم گرم ریت پر ان کو لٹا کر اتنا بھاری پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیا جاتا تھا کہ ان کی زبان باہر نکل آتی تھی۔ امیہ کافر کہتا تھا کہ اسلام سے باز آ جاؤ ورنہ اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے۔ مگر اس حال میں بھی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی پر بل نہیں آتا تھا بلکہ زور زور سے ” اَحَد، اَحَد ” کا نعرہ لگاتے تھے اور بلند آواز سے کہتے تھے کہ خدا ایک ہے۔ خدا ایک ہے۔ (سيرت ابن هشام ج۱ ص۳۱۷ تا ۳۱۸)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گرم گرم بالو پر چت لٹا کر کفار قریش اس قدر مارتے تھے کہ یہ بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی سُمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اسلام لانے کی بنا پر ابو جہل نے ان کی ناف کے نیچے ایسا نیزہ مارا کہ یہ شہید ہوگئیں۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کفار کی مار کھاتے کھاتے شہید ہو گئے۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفار مکہ اس قدر طرح طرح کی اذیت دیتے اور ایسی ایسی مار دھاڑ کرتے کہ یہ گھنٹوں بے ہوش رہتے۔ جب یہ ہجرت کرنے لگے تو کفار مکہ نے کہا کہ تم اپنا سارا مال و سامان یہاں چھوڑ کر مدینہ جا سکتے ہو۔ آپ خوشی خوشی دنیا کی دولت پر لات مار کر اپنی متاع ایمان کو ساتھ لے کر مدینہ چلے گئے۔
حضرت ابو فکیہہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفوان بن امیہ کافر کے غلام تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے تھے ۔جب صفوان کو ان کے اسلام کا پتا چلا تو اس نے ان کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر ان کو گھسیٹا اور گرم جلتی ہوئی زمین پر ان کو چت لٹا کر سینے پر وزنی پتھر رکھ دیا جب ان کو کفار گھسیٹ کر لے جا رہے تھے راستہ میں اتفاق سے ایک گبریلا نظر پڑا۔ امیہ کافر نے طعنہ مارتے ہوئے کہا کہ “دیکھ تیرا خدا یہی تو نہیں ہے۔” حضرت ابو فکیہہ نے فرمایا کہ “اے کافر کے بچے ! خاموش میرا اور تیرا خدا اللہ ہے۔ ‘‘ یہ سن کر امیہ کافر غضب ناک ہو گیا اور اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ وہ بے ہوش ہو گئے اور لوگوں نے سمجھا کہ ان کا دم نکل گیا۔
اسی طرح حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس قدر مارا جاتا تھا کہ ان کے جسم کی بوٹی بوٹی درد مند ہو جاتی تھی۔ حضرت بی بی لبینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو لونڈی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کفر کی حالت میں تھے اس غریب لونڈی کو اس قدر مارتے تھے کہ مارتے مارتے تھک جاتے تھے مگر حضرت لبینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اُف نہیں کرتی تھیں بلکہ نہایت جرأت و استقلال کے ساتھ کہتی تھیں کہ اے عمر ! اگر تم خدا کے سچے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے تو خدا تم سے ضرور اس کا انتقام لے گا۔
حضرت زنیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے کی باندی تھیں۔ یہ مسلمان ہوگئیں تو ان کو اس قدر کافروں نے مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ مگر خداوند تعالیٰ نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعا سے پھر ان کی آنکھوں میں روشنی عطا فرما دی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے جادو کا اثر ہے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۷۰)
اسی طرح حضرت بی بی “نہدیہ” اور حضرت بی بی ام عبیس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی باندیاں تھیں۔ اسلام لانے کے بعد کفار مکہ نے ان دونوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دے کر بے پناہ اذیتیں دیں مگر یہ اللہ والیاں صبر و شکر کے ساتھ ان بڑی بڑی مصیبتوں کو جھیلتی رہیں اور اسلام سے ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔
حضرت یارغار مصطفی ابوبکر صدیق باصفا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس کس طرح اسلام پر اپنی دولت نثار کی اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ آپ نے ان غریب و بے کس مسلمانوں میں سے اکثر کی جان بچائی۔ آپ نے حضرت بلال و عامر بن فہیرہ و ابو فکیہہ و لبینہ و زنیرہ و نہدیہ وام عنیس رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان تمام غلاموں کو بڑی بڑی رقمیں دے کر خریدااور سب کو آزاد کر دیا اور ان مظلوموں کو کافروں کی ایذاؤں سے بچا لیا۔ (زرقانی علی المواهب و سيرت ابن هشام ج۱ ص۳۱۹)
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دامن اسلام میں آئے تو مکہ میں ایک مسافر کی حیثیت سے کئی دن تک حرم کعبہ میں رہے۔ یہ روزانہ زور زور سے چلا چلا کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اور روزانہ کفار قریش ان کو اس قدر مارتے تھے کہ یہ لہولہان ہو جاتے تھے اور ان دنوں میں آب زمزم کے سوا ان کو کچھ بھی کھانے پینے کو نہیں ملا۔ (بخاری ج۱ ص۵۴۴ باب اسلام ابی ذر)
واضح رہے کہ کفار مکہ کا یہ سلوک صرف غریبوں اور غلاموں ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ اسلام لانے کے جرم میں بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں کو بھی ان ظالموں نے نہیں بخشا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو شہر مکہ کے ایک متمول اور ممتاز معززین میں سے تھے مگر ان کو بھی حرم کعبہ میں کفار قریش نے اس قدر مارا کہ ان کا سر خون سے لت پت ہو گیا۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نہایت مالدار اور صاحب اقتدار تھے۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو غیروں نے نہیں بلکہ خود ان کے چچا نے ان کو رسیوں میں جکڑ کر خوب خوب مارا۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے رعب اور دبدبہ کے آدمی تھے مگر انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے جس سے ان کا دم گھٹنے لگتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کتنے جاہ و اعزاز والے رئیس تھے مگر جب ان کے اسلام کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتا چلا تو ان کو رسی میں باندھ کر مارا اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن حضرت بی بی فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی اس زور سے تھپڑ مارا کہ ان کے کان کے آویزے گر پڑے اور چہرے پر خون بہہ نکلا۔
کفار کا وفد بارگاہ رسالت میں:۔
ایک مرتبہ سرداران قریش حرم کعبہ میں بیٹھے ہوئے یہ سوچنے لگے کہ آخر اتنی تکالیف اور سختیاں برداشت کرنے کے باوجود محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنی تبلیغ کیوں بند نہیں کرتے؟ آخر ان کا مقصد کیا ہے؟ ممکن ہے یہ عزت و جاہ یا سرداری و دولت کے خواہاں ہوں۔ چنانچہ سبھوں نے عتبہ بن ربیعہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ تم کسی طرح ان کا دلی مقصد معلوم کرو۔چنانچہ عتبہ تنہائی میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ملا اور کہنے لگا کہ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آخر اس دعوت اسلام سے آپ کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ مکہ کی سرداری چاہتے ہیں ؟ یا عزت و دولت کے خواہاں ہیں ؟ یا کسی بڑے گھرانے میں شادی کے خواہش مند ہیں ؟ آپ کے دل میں جو تمنا ہو کھلے دل کے ساتھ کہہ دیجیے۔ میں اس کی ضمانت لیتا ہوں کہ اگر آپ دعوت اسلام سے باز آجائیں تو پورا مکہ آپ کے زیر فرمان ہو جائے گا اور آپ کی ہر خواہش اور تمنا پوری کر دی جائے گی۔ عتبہ کی یہ ساحرانہ تقریر سن کر حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب میں قرآن مجید کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں۔ جن کو سن کر عتبہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس کے جسم کا رونگٹا رونگٹا اور بدن کا بال بال خوف ذوالجلال سے لرزنے اور کانپنے لگا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں آپ کو رشتہ داری کا واسطہ دے کر درخواست کرتا ہوں کہ بس کیجیے۔ میرا دل اس کلام کی عظمت سے پھٹا جا رہا ہے۔ عتبہ بارگاہ رسالت سے واپس ہوا مگر اس کے دل کی دنیا میں ایک نیا انقلاب رونما ہو چکا تھا۔ عتبہ ایک بڑا ہی ساحر البیان خطیب اور انتہائی فصیح و بلیغ آدمی تھا۔ اس نے واپس لوٹ کر سرداران قریش سے کہہ دیا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) جو کلام پیش کرتے ہیں وہ نہ جادو ہے نہ کہانت نہ شاعری بلکہ وہ کوئی اور ہی چیز ہے۔ لہٰذا میری رائے ہے کہ تم لوگ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ کامیاب ہو کر سارے عرب پر غالب ہوگئے تو اس میں ہم قریشیوں ہی کی عزت بڑھے گی، ورنہ سارا عرب ان کو خود ہی فنا کر دے گا مگر قریش کے سرکش کافروں نے عتبہ کا یہ مخلصانہ اور مد برانہ مشورہ نہیں مانا بلکہ اپنی مخالفت اور ایذا رسانیوں میں اور زیادہ اضافہ کر دیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص ۲۵۸ و سيرت ابن هشام ج۱ ص۲۹۴)
قریش کا وفد ابو طالب کے پاس:۔
کفار قریش میں کچھ لوگ صلح پسند بھی تھے وہ چاہتے تھے کہ بات چیت کے ذریعہ صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ طے ہو جائے۔ چنانچہ قریش کے چند معزز رؤسا ابوطالب کے پاس آئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام اور بت پرستی کے خلاف تقریروں کی شکایت کی۔ ابو طالب نے نہایت نرمی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا لیکن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے فرمان فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ کی تعمیل کرتے ہوئے علی الاعلان شرک و بت پرستی کی مذمت اور دعوت توحید کا وعظ فرماتے ہی رہے۔ اس لئے قریش کا غصہ پھر بھڑک اٹھا۔ چنانچہ تمام سردارانِ قریش یعنی عتبہ و شیبہ و ابو سفیان و عاص بن ہشام و ابوجہل و ولید بن مغیرہ و عاص بن وائل وغیرہ وغیرہ سب ایک ساتھ مل کر ابو طالب کے پاس آئے اور یہ کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے اس لئے یا تو آپ درمیان میں سے ہٹ جائیں اور اپنے بھتیجا کو ہمارے سپرد کر دیں یا پھر آپ بھی کھل کر ان کے ساتھ میدان میں نکل پڑیں تا کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے۔ ابو طالب نے قریش کا تیور دیکھ کر سمجھ لیا کہ اب بہت ہی خطرناک اور نازک گھڑی سر پر آن پڑی ہے۔ ظاہر ہے کہ اب قریش برداشت نہیں کر سکتے اور میں اکیلا تمام قریش کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ابو طالب نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو انتہائی مخلصانہ اور مشفقانہ لہجے میں سمجھایا کہ میرے پیارے بھتیجے ! اپنے بوڑھے چچا کی سفید داڑھی پر رحم کرواور بڑھاپے میں مجھ پر اتنا بوجھ مت ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں ۔اب تک تو قریش کا بچہ بچہ میرا احترام کرتا تھا مگر آج قریش کے سرداروں کا لب و لہجہ اور ان کا تیور اس قدر بگڑا ہوا تھا کہ اب وہ مجھ پر اور تم پر تلوار اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے دعوت اسلام موقوف کر دو۔ اب تک حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ظاہری معین، مددگار جو کچھ بھی تھے وہ صرف اکیلے ابو طالب ہی تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اب ان کے قدم بھی اکھڑ رہے ہیں چچا کی گفتگو سن کر حضورِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھرائی ہوئی مگر جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ چچا جان! خدا کی قسم! اگر قریش میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے اس فرض سے باز نہ آئوں گا۔ یا تو خدا اس کام کو پورا فرما دے گا یا میں خود دین اسلام پر نثار ہو جا ؤں گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ جذباتی تقریر سن کر ابو طالب کا دل پسیج گیا اور وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی ہاشمی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ بھتیجے کی محبت میں گرم ہو کر کھولنے لگا اور انتہائی جوش میں آ کر کہہ دیا کہ جان عم! جائو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب تک میں زندہ ہوں کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔(سيرت ابن هشام ج۱ ص۲۶۶ وغيره)
ہجرت حبشہ ۵ نبوی :۔
کفار مکہ نے جب اپنے ظلم و ستم سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو “حبشہ” جا کر پناہ لینے کا حکم دیا۔
نجاشی :۔
حبشہ کے بادشاہ کا نام “اصحمہ” اور لقب “نجاشی” تھا۔ عیسائی دین کا پابند تھا مگر بہت ہی انصاف پسند اور رحم دل تھا اور توراۃ و انجیل وغیرہ آسمانی کتابوں کا بہت ہی ماہر عالم تھا۔
اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینے میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ ان مہاجرین کرام کے مقدس نام حسب ذیل ہیں۔
(۱،۲) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں۔(۳،۴) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ۔ (۵،۶) حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اہلیہ حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ۔ (۷،۸) حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زوجہ حضرت لیلیٰ بنت ابی حشمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ۔ (۹) حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (۱۰) حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (۱۱) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (۱۲) حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (۱۳) حضرت ابو سبرہ بن ابی رہم یا حاطب بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ (۱۴) حضرت سہیل بن بیضاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (۱۵) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۷۰)
کفار مکہ کو جب ان لوگوں کی ہجرت کا پتا چلا تو ان ظالموں نے ان لوگوں کی گرفتاری کے لئے ان کا تعاقب کیا لیکن یہ لوگ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ اس لئے کفار ناکام واپس لوٹے۔ یہ مہاجرین کا قافلہ حبشہ کی سرزمین میں اتر کر امن و امان کے ساتھ خدا کی عبادت میں مصروف ہو گیا۔ چند دنوں کے بعد ناگہاں یہ خبر پھیل گئی کہ کفار مکہ مسلمان ہو گئے۔ یہ خبر سن کر چند لوگ حبشہ سے مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آکر پتا چلا کہ یہ خبر غلط تھی۔ چنانچہ بعض لوگ تو پھر حبشہ چلے گئے مگر کچھ لوگ مکہ میں روپوش ہو کر رہنے لگے لیکن کفار مکہ نے ان لوگوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان لوگوں پر پہلے سے بھی زیادہ ظلم ڈھانے لگے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر لوگوں کو حبشہ چلے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ حبشہ سے واپس آنے والے اور ان کے ساتھ دوسرے مظلوم مسلمان کل تراسی (۸۳) مرد اور اٹھارہ عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۸۷)
کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں :۔
تمام مہاجرین نہایت امن و سکون کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے۔ مگر کفار مکہ کو کب گوارا ہو سکتا تھا کہ فرزندان توحید کہیں امن و چین کے ساتھ رہ سکیں۔ ان ظالموں نے کچھ تحائف کے ساتھ “عمرو بن العاص” اور “عمارہ بن ولید” کو بادشاہ حبشہ کے دربار میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ ان دونوں نے نجاشی کے دربار میں پہنچ کر تحفوں کا نذرانہ پیش کیا اور بادشاہ کو سجدہ کر کے یہ فریاد کرنے لگے کہ اے بادشاہ ! ہمارے کچھ مجرم مکہ سے بھاگ کر آپ کے ملک میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ آپ ہمارے ان مجرموں کو ہمارے حوالہ کر دیجیے۔ یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے نمائندہ بن کر گفتگو کے لئے آگے بڑھے اور دربار کے آداب کے مطابق بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا بلکہ صرف سلام کر کے کھڑے ہو گئے۔ درباریوں نے ٹوکا تو حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے میں بادشاہ کو سجدہ نہیں کر سکتا۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص ۲۸۸)
اس کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار شاہی میں اس طرح تقریر شروع فرمائی کہ “اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے۔ شرک و بت پرستی کرتے تھے۔ لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، ظلم و ستم اور طرح طرح کی بدکاریوں اور بد اعمالیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم میں ایک شخص کو اپنا رسول بنا کر بھیجا جس کے حسب و نسب اور صدق و دیانت کو ہم پہلے سے جانتے تھے، اس رسول نے ہم کو شرک و بت پرستی سے روک دیا اور صرف ایک خدائے واحد کی عبادت کا حکم دیا اور ہر قسم کے ظلم و ستم اور تمام برائیوں اور بدکاریوں سے ہم کو منع کیا۔ ہم اس رسول پر ایمان لائے اور شرک و بت پرستی چھوڑ کر تمام برے کاموں سے تائب ہو گئے۔ بس یہی ہمارا گناہ ہے جس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور ان لوگوں نے ہمیں اتنا ستایا کہ ہم اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر آپ کی سلطنت کے زیر سایہ پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب یہ لوگ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم پھر اسی پرانی گمراہی میں واپس لوٹ جائیں۔”
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سے نجاشی بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ یہ دیکھ کر کفار مکہ کے سفیر عمرو بن العاص نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی پھینک دیا اور کہا کہ اے بادشاہ ! یہ مسلمان لوگ آپ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کچھ دوسرا ہی اعتقاد رکھتے ہیں جو آپ کے عقیدہ کے بالکل ہی خلاف ہے۔
یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے سورۂ مریم کی تلاوت فرمائی۔ کلام ربانی کی تاثیر سے نجاشی بادشاہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ اس پر رقت طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو کنواری مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے بغیر باپ کے خدا کی قدرت کا نشان بن کر پیدا ہوئے۔ نجاشی بادشاہ نے بڑے غور سے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کو سنا اور یہ کہا کہ بلاشبہ انجیل اور قرآن دونوں ایک ہی آفتاب ہدایت کے دو نور ہیں اور یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجیل میں دی ہے اور اگر میں دستور سلطنت کے مطابق تخت شاہی پر رہنے کا پابند نہ ہوتا تو میں خود مکہ جا کر رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوتیاں سیدھی کرتا اور ان کے قدم دھوتا۔ بادشاہ کی تقریر سن کر اس کے درباری جو کٹر قسم کے عیسائی تھے ناراض و برہم ہوگئے مگر نجاشی بادشاہ نے جوش ایمانی میں سب کو ڈانٹ پھٹکار کر خاموش کر دیا۔ اور کفار مکہ کے تحفوں کو واپس لوٹا کر عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو دربار سے نکلوا دیا اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میری سلطنت میں جہاں چاہو امن و سکون کے ساتھ آرام و چین کی زندگی بسر کرو۔ کوئی تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔(زرقانی ج۱ ص ۲۸۸)
واضح رہے کہ نجاشی بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس کے انتقال پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ نجاشی بادشاہ کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا اور وہ حبشہ ہی میں مدفون بھی ہوئے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غائبانہ ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی ۔
حضرت ابوبکر اور ابن دغنہ :۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی مگر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام “برک الغماد” میں پہنچے تو قبیلہ قارہ کا سردار “مالک بن د غنہ” راستے میں ملا اور دریافت کیا کہ کیوں ؟ اے ابوبکر ! کہاں چلے ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل مکہ کے مظالم کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ اب میں اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر خدا کی لمبی چوڑی زمین میں پھرتا رہوں گا اور خدا کی عبادت کرتا رہوں گا۔
ابن د غنہ نے کہا کہ اے ابوبکر ! آپ جیسا آدمی نہ شہر سے نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔ آپ دوسروں کا بار اٹھاتے ہیں، مہمانانِ حرم کی مہمان نوازی کرتے ہیں، خود کما کما کر مفلسوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرتے ہیں، حق کے کاموں میں سب کی امداد و اعانت کرتے ہیں۔ آپ میرے ساتھ مکہ واپس چلیے میں آپ کو اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ ابن دغنہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زبردستی مکہ واپس لایا اور تمام کفار مکہ سے کہہ دیا کہ میں نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ لہٰذا خبردار ! کوئی ان کو نہ ستائے کفار مکہ نے کہا کہ ہم کو اس شرط پر منظور ہے کہ ابوبکر اپنے گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں تاکہ ہماری عورتوں اور بچوں کے کان میں قرآن کی آواز نہ پہنچے۔ ابن دغنہ نے کفار کی شرط کو منظور کر لیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند دنوں تک اپنے گھر کے اندر قرآن پڑھتے رہے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبۂ اسلامی اور جوش ایمانی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ معبود ان باطل لات و عزیٰ کی عبادت تو علی الاعلان ہو اور معبود برحق اللہ تعالیٰ کی عبادت گھر کے اندر چھپ کرکی جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر کے باہر اپنے صحن میں ایک مسجد بنالی اور اس مسجد میں علی الاعلان نمازوں میں بلند آواز سے قرآن پڑھنے لگے اور کفار مکہ کی عورتیں اور بچے بھیڑ لگا کر قرآن سننے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر کفار مکہ نے ابن دغنہ کو مکہ بلایا اور شکایت کی کہ ابوبکر گھر کے باہر قرآن پڑھتے ہیں۔ جس کو سننے کے لئے ان کے گرد ہماری عورتوں اور بچوں کا میلہ لگ جاتا ہے۔ اس سے ہم کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لہٰذا تم ان سے کہہ دو کہ یا تو وہ گھر میں قرآن پڑھیں ورنہ تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے دست بردار ہو جاؤ۔ چنانچہ ابن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ گھر کے اندر چھپ کر قرآن پڑھیں ورنہ میں اپنی پناہ سے کنارہ کش ہو جاؤں گا اس کے بعد کفار مکہ آپ کو ستائیں گے تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابن دغنہ ! تم اپنی پناہ کی ذمہ داری سے الگ ہو جاؤ مجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں۔ (بخاری ج۱ ص۳۰۷ باب جوار ابی بکر الصديق)
حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے :۔
اعلان نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دو ایسی ہستیاں دامن اسلام میں آ گئیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کے جاہ و جلال اور ان کے عزت و اقبال کا پرچم بہت ہی سر بلند ہو گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچاؤں میں حضرت حمزہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑی والہانہ محبت تھی اور وہ صرف دو تین سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عمر میں زیادہ تھے اور چونکہ انہوں نے بھی حضرت ثویبہ کا دودھ پیا تھا اسلئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے ۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے اور شکار کے بہت ہی شوقین تھے۔ روزانہ صبح سویرے تیر کمان لے کر گھر سے نکل جاتے اور شام کو شکار سے واپس لوٹ کر حرم میں جاتے، خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور قریش کے سرداروں کی مجلس میں کچھ دیر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دن حسب معمول شکار سے واپس لوٹے تو ابن جدعان کی لونڈی اور خود ان کی بہن حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کو بتایا کہ آج ابوجہل نے کس کس طرح تمہارے بھتیجے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کی ہے۔ یہ ماجرا سن کر مارے غصہ کے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون کھولنے لگا۔ ایک دم تیر کمان لئے ہوئے مسجد حرام میں پہنچ گئے اور اپنی کمان سے ابوجہل کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور کہا کہ تو میرے بھتیجے کو گالیاں دیتا ہے ؟ تجھے خبر نہیں کہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔ یہ دیکھ کر قبیلۂ بنی مخزوم کے کچھ لوگ ابوجہل کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے تو ابوجہل نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنو ہاشم سے جنگ نہ چھڑ جائے یہ کہا کہ اے بنی مخزوم ! آپ لوگ حمزہ کو چھوڑ دیجیے۔ واقعی آج میں نے ان کے بھتیجے کو بہت ہی خراب خراب قسم کی گالیاں دی تھیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۴ و زرقانی ج۱ ص۲۵۶)
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان ہو جانے کے بعد زور زور سے ان اشعار کو پڑھنا شروع کر دیا :۔
اِلَي الْاِسْلَامِ وَ الدِّيْنِ الْحَنِيْفْ حَمِدْتُّ اللّٰه حِيْنَ هدٰي فُؤَادِيْ
تَحَدَّرَ دَمْعُ ذِي الْلُبِّ الْحَصِيْف اِذَا تُلِيَتْ رَسَائِلُه عَلَيْنَا
فَلاَ تَغْشَوْه بِالْقَوْلِ الْعَنِيْف وَ اَحْمَدُ مُصْطَفًي فِيْنَا مُطَاعٌ
وَ لَمَّا نَقْضِ فِيْهمْ بِالسُّيُوْف فَلاَ وَ اﷲِ نُسْلِمُه لِقَوْمٍ
(1) میں اﷲ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں جس وقت کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کی طرف ہدایت دی۔
(2)جب احکام اسلام کی ہمارے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو با کمال عقل والوں کے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
(3)اور خدا کے برگزیدہ احمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مقتدیٰ ہیں تو (اے کافرو) اپنی باطل بکواس سے ان پر غلبہ مت حاصل کرو۔
(4) تو خدا کی قسم ! ہم انہیں قوم کفار کے سپرد نہیں کریں گے۔ حالانکہ ابھی تک ہم نے ان کافروں کے ساتھ تلواروں سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ (زرقانی ج۱ ص۲۵۶)
حضرت عمر کا اسلام :۔
حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد تیسرے ہی دن حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی دولت اسلام سے مالا مال ہو گئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات میں بہت سی روایات ہیں۔
ایک روایت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن غصہ میں بھرے ہوئے ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے چلے کہ آج میں اسی تلوار سے پیغمبرِ اسلام کا خاتمہ کر دوں گا۔ اتفاق سے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداﷲ قریشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی۔ یہ مسلمان ہو چکے تھے مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ان کے اسلام کی خبر نہیں تھی۔ حضرت نعیم بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیوں ؟ اے عمر ! اس دوپہر کی گرمی میں ننگی تلوار لے کر کہاں چلے ؟ کہنے لگے کہ آج بانیٔ اسلام کا فیصلہ کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن “فاطمہ بنت الخطاب” اور تمہارے بہنوئی “سعید بن زید” بھی تو مسلمان ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر کے اندر چند مسلمان چھپ کر قرآن پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی آواز سن کر سب لوگ ڈر گئے اور قرآن کے اوراق چھوڑ کر ادھر ادھر چھپ گئے۔ بہن نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چلا کر بولے کہ اے اپنی جان کی دشمن ! کیا تو بھی مسلمان ہو گئی ہے ؟ پھر اپنے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر جھپٹے اور ان کی داڑھی پکڑ کر ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سینے پر سوار ہو کر مارنے لگے۔ ان کی بہن حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر کو بچانے کے لئے دوڑ پڑیں تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو ایسا طمانچہ مارا کہ ان کے کانوں کے جھومر ٹوٹ کر گر پڑے اور ان کا چہرہ خون سے لہو لہان ہو گیا۔ بہن نے صاف صاف کہہ دیا کہ عمر ! سن لو، تم سے جو ہو سکے کر لو مگر اب اسلام دل سے نہیں نکل سکتا۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بہن کا خون آلودہ چہرہ دیکھا اور ان کا عزم و استقامت سے بھرا ہوا یہ جملہ سنا تو ان پر رقت طاری ہو گئی اور ایک دم دل نرم پڑ گیا۔ تھوڑی دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ پھر کہا کہ اچھا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ۔ بہن نے قرآن کے اوراق کو سامنے رکھ دیا۔ اٹھا کر دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ سَبَّحَ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَ هوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيمُ اس آیت کا ایک ایک لفظ صداقت کی تاثیر کا تیر بن کر دل کی گہرائی میں پیوست ہوتا چلا گیا اور جسم کا ایک ایک بال لرزہ براندام ہونے لگا۔
جب اس آیت پر پہنچے کہ ٰامِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِه تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ ٰ”اَشْهدُ اَنْ لآَّ اِلٰه اِلَّا اللّٰه وَاَشْهدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ” یہ وہ وقت تھا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ارقم بن ابو ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں مقیم تھے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہن کے گھر سے نکلے اور سیدھے حضرت ارقم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بند پایا، کنڈی بجائی، اندر کے لوگوں نے دروازہ کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ننگی تلوار لئے کھڑے تھے۔ لوگ گھبرا گئے اور کسی میں دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی مگر حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ دروازہ کھول دو اور اندر آنے دو اگر نیک نیتی کے ساتھ آیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا ورنہ اسی کی تلوار سے اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اندر قدم رکھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود آگے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بازو پکڑا اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے ! تو مسلمان ہو جا آخر تو کب تک مجھ سے لڑتا رہے گا ؟ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مارے خوشی کے نعرہ تکبیر بلند فرمایا اور تمام حاضرین نے اس زور سے اﷲ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہنے لگے کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ چھپ چھپ کر خدا کی عبادت کرنے کے کیا معنی؟ اٹھئے ہم کعبہ میں چل کر علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے اور خدا کی قسم ! میں کفر کی حالت میں جن جن مجلسوں میں بیٹھ کر اسلام کی مخالفت کرتا رہا ہوں اب ان تمام مجالس میں اپنے اسلام کا اعلان کروں گا۔ پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت کو لے کر دو قطاروں میں روانہ ہوئے۔ ایک صف کے آگے آگے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے آگے آگے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس شان سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حرم کعبہ میں مشرکین کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے کفار دوڑ پڑے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مارنے لگے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی ان لوگوں سے لڑنے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا ماموں ابوجہل آ گیا۔ اس نے پوچھا کہ یہ ہنگامہ کیسا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں اس لئے لوگ برہم ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ یہ سن کر ابوجہل نے حطیم کعبہ میں کھڑے ہو کر اپنی آستین سے اشارہ کر کے اعلان کر دیا کہ میں نے اپنے بھانجے عمر کو پناہ دی۔ ابوجہل کا یہ اعلان سن کر سب لوگ ہٹ گئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں ہمیشہ کفار کو مارتا اور ان کی مار کھاتا رہا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو غالب فرما دیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۲۷۲)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مسلمان ہونے کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں کفر کی حالت میں قریش کے بتوں کے پاس حاضر تھا اتنے میں ایک شخص گائے کا ایک بچھڑا لے کر آیا اور اس کو بتوں کے نام پر ذبح کیا۔ پھر بڑے زور سے چیخ مار کر کسی نے یہ کہا کہ يَا جَلِيْحُ اَمْرٌ نَّجِيْحٌ رَجُلٌ فَصِيْحٌ يَقُوْلُ لَآ اِلٰه اِلَا اللّٰه یہ آواز سن کر سب لوگ ہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن میں نے یہ عزم کر لیا کہ میں اس آواز دینے والے کی تحقیق کئے بغیر ہرگز ہرگز یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ اس کے بعد پھر یہی آواز آئی کہ يَا جَلِيْحُ اَمْرٌ نَّجِيْحٌ رَجُلٌ فَصِيْحٌ يَقُوْلُ لَآ اِلٰه اِلاَّ اللّٰه یعنی اے کھلی ہوئی دشمنی کرنے والے ! ایک کامیابی کی چیز ہے کہ ایک فصاحت والا آدمی لَا اِلٰه َالِاَّ اللّٰه کہہ رہا ہے۔ حالانکہ بتوں کے آس پاس میرے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کے فوراً ہی بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بے حد متاثر تھے۔ اس لئے ان کے اسلام لانے کے اسباب میں اس واقعہ کو بھی کچھ نہ کچھ ضرور دخل ہے۔ (بخاری ج۱ ص۵۴۶ و زرقانی ج۱ ص۲۷۶ باب اسلام عمر)
شعب ابی طالب ۷ نبوی :۔
اعلان نبوت کے ساتویں سال ۷ نبوی میں کفار مکہ نے جب دیکھا کہ روز بروز مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور حضرت حمزہ و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جیسے بہادر ان قریش بھی دامن اسلام میں آ گئے تو غیظ و غضب میں یہ لوگ آپے سے باہر ہو گئے اور تمام سرداران قریش اور مکہ کے دوسرے کفار نے یہ اسکیم بنائی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے اور ان لوگوں کو کسی تنگ و تاریک جگہ میں محصور کر کے ان کا دانہ پانی بند کر دیا جائے تا کہ یہ لوگ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جائیں۔ چنانچہ اس خوفناک تجویز کے مطابق تمام قبائل قریش نے آپس میں یہ معاہدہ کیا کہ جب تک بنی ہاشم کے خاندان والے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو قتل کے لئے ہمارے حوالہ نہ کر دیں
(۱)کوئی شخص بنو ہاشم کے خاندان سے شادی بیاہ نہ کرے۔ (۲) کوئی شخص ان لوگوں کے ہاتھ کسی قسم کے سامان کی خریدوفروخت نہ کرے۔ (۳) کوئی شخص ان لوگوں سے میل جول، سلام و کلام اور ملاقات و بات نہ کرے۔ (۴) کوئی شخص ان لوگوں کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہ جانے دے۔
منصور بن عکرمہ نے اس معاہدہ کو لکھا اور تمام سرداران قریش نے اس پر دستخط کر کے اس دستاویز کو کعبہ کے اندر آویزاں کر دیا۔ ابو طالب مجبوراً حضورِاقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور دوسرے تمام خاندان والوں کو لے کر پہاڑ کی اس گھاٹی میں جس کا نام ” شعب ابی طالب ” تھا پناہ گزین ہوئے۔ ابولہب کے سوا خاندان بنو ہاشم کے کافروں نے بھی خاندانی حمیت و پاسداری کی بنا پر اس معاملہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور سب کے سب پہاڑ کے اس تنگ و تاریک درہ میں محصور ہو کر قیدیوں کی زندگی بسر کرنے لگے۔ اور یہ تین برس کا زمانہ اتنا سخت اور کٹھن گزرا کہ بنو ہاشم درختوں کے پتے اور سوکھے چمڑے پکا پکا کر کھاتے تھے۔اور ان کے بچے بھوک پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر دن رات رویا کرتے تھے۔ سنگدل اور ظالم کافروں نے ہر طرف پہرہ بٹھا دیا تھا کہ کہیں سے بھی گھاٹی کے اندر دانہ پانی نہ جانے پائے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص ۲۷۸)
مسلسل تین سال تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خاندان بنو ہاشم ان ہوش ربا مصائب کو جھیلتے رہے یہاں تک کہ خود قریش کے کچھ رحم دلوں کو بنو ہاشم کی ان مصیبتوں پر رحم آ گیااور ان لوگوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کو توڑنے کی تحریک اٹھائی۔ چنانچہ ہشام بن عمرو عامری، زہیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی، ابو البختری، زمعہ بن الاسود وغیرہ یہ سب مل کر ایک ساتھ حرم کعبہ میں گئے اور زہیر نے جو عبدالمطلب کے نواسے تھے کفار قریش کو مخاطب کرکے اپنی پر جوش تقریر میں یہ کہا کہ اے لوگو ! یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ کہ ہم لوگ تو آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور خاندان بنو ہاشم کے بچے بھوک پیاس سے بے قرار ہو کر بلبلا رہے ہیں۔ خدا کی قسم ! جب تک اس وحشیانہ معاہدہ کی دستاویز پھاڑ کر پاؤں سے نہ روند دی جائے گی میں ہرگز ہرگز چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ تقریر سن کر ابوجہل نے تڑپ کر کہا کہ خبردار ! ہرگز ہرگز تم اس معاہدہ کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ زمعہ نے ابوجہل کو للکارا اور اس زور سے ڈانٹا کہ ابوجہل کی بولتی بند ہو گئی۔ اسی طرح مطعم بن عدی اور ہشام بن عمرو نے بھی خم ٹھونک کر ابوجہل کو جھڑک دیا اور ابو البختری نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ اے ابوجہل ! اس ظالمانہ معاہدہ سے نہ ہم پہلے راضی تھے اور نہ اب ہم اس کے پابند ہیں۔
اسی مجمع میں ایک طرف ابو طالب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے لوگو ! میرے بھتیجے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ اس معاہدہ کی دستاویز کو کیڑوں نے کھا ڈالا ہے اور صرف جہاں جہاں خدا کا نام لکھا ہوا تھا اس کو کیڑوں نے چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ اس دستاویز کو نکال کر دیکھو اگر واقعی اس کو کیڑوں نے کھا لیا ہے جب تو اس کو چاک کرکے پھینک دو۔ اور اگر میرے بھتیجے کا کہنا غلط ثابت ہوا تو میں محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو تمہارے حوالے کردوں گا۔ یہ سن کر مطعم بن عدی کعبہ کے اندر گیا اور دستاویز کو اتار لایا اور سب لوگوں نے اس کو دیکھا تو واقعی بجز اﷲ تعالیٰ کے نام کے پوری دستاویز کو کیڑوں نے کھا لیا تھا۔ مطعم بن عدی نے سب کے سامنے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ اور پھر قریش کے چند بہادر باوجودیکہ یہ سب کے سب اس وقت کفر کی حالت میں تھے ہتھیار لے کر گھاٹی میں پہنچے اور خاندان بنو ہاشم کے ایک ایک آدمی کو وہاں سے نکال لائے اور ان کو ان کے مکانوں میں آباد کر دیا۔ یہ واقعہ ۱۰ نبوی کا ہے۔ منصور بن عکرمہ جس نے اس دستاویز کو لکھا تھا اس پر یہ قہر الٰہی ٹوٹ پڑا کہ اس کا ہاتھ شل ہو کر سوکھ گیا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۴۲ وغيره)
غم کا سال ۱۰ نبوی :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم “شعب ابی طالب” سے نکل کر اپنے گھر میں تشریف لائے اور چند ہی روز کفار قریش کے ظلم و ستم سے کچھ امان ملی تھی کہ ابو طالب بیمار ہو گئے اور گھاٹی سے باہر آنے کے آٹھ مہینے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
ابو طالب کی وفات حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے ایک بہت ہی جاں گداز اور روح فرسا حادثہ تھا کیونکہ بچپن سے جس طرح پیار و محبت کے ساتھ ابو طالب نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پرورش کی تھی اور زندگی کے ہر موڑ پر جس جاں نثاری کے ساتھ آپ کی نصرت و دستگیری کی اور آپ کے دشمنوں کے مقابل سینہ سپر ہو کر جس طرح آلام و مصائب کا مقابلہ کیا اس کو بھلا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کس طرح بھول سکتے تھے۔
ابو طالب کا خاتمہ :۔
جب ابو طالب مرض الموت میں مبتلا ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے چچا ! آپ کلمہ پڑھ لیجیے۔ یہ وہ کلمہ ہے کہ اس کے سبب سے میں خدا کے دربار میں آپ کی مغفرت کے لئے اصرار کروں گا۔ اس وقت ابوجہل اور عبداﷲ بن ابی امیہ ابو طالب کے پاس موجود تھے۔ ان دونوں نے ابو طالب سے کہا کہ اے ابو طالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کریں گے ؟ اور یہ دونوں برابر ابو طالب سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے کلمہ نہیں پڑھا بلکہ ان کی زندگی کا آخری قول یہ رہا کہ ” میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں۔ ” یہ کہا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس سے بڑا صدمہ پہنچا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے اس وقت تک دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک اﷲ تعالیٰ مجھے منع نہ فرمائے گا۔اس کے بعد یہ آیت نازل ہو گئی کہ
مَاکَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِيْنَ وَلَوْ کَانُوْآ اُولِيْ قُرْبٰي مِنْ مبَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهمْ اَنَّهمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
یعنی نبی اور مومنین کے لئے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ مشرکین جہنمی ہیں۔ (بخاری ج۱ ص ۵۴۸ باب قصه ابی طالب)
حضرت بی بی خدیجہ کی وفات :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر ابھی ابو طالب کے انتقال کا زخم تازہ ہی تھا کہ ابو طالب کی وفات کے تین دن یا پانچ دن کے بعد حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی دنیا سے رخصت فرما گئیں۔ مکہ میں ابو طالب کے بعد سب سے زیادہ جس ہستی نے رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نصرت و حمایت میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا وہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی ذات گرامی تھی۔ جس وقت دنیا میں کوئی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مخلص مشیر اور غمخوار نہیں تھا حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی تھیں کہ ہر پریشانی کے موقع پر پوری جاں نثاری کے ساتھ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی غمخواری اور دلداری کرتی رہتی تھیں اس لئے ابو طالب اور حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا دونوں کی وفات سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مددگار اور غمگسار دونوں ہی دنیا سے اٹھ گئے جس سے آپ کے قلب نازک پر اتنا عظیم صدمہ گزرا کہ آپ نے اس سال کا نام “عام الحزن” (غم کا سال) رکھ دیا۔
حضرت خديجه رضی الله تعالیٰ عنها مزار
حضرت خديجه رضی الله تعالیٰ عنها مزار
حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رمضان ۱۰ نبوی میں وفات پائی۔ بوقت وفات پینسٹھ برس کی عمر تھی۔ مقام حجون (قبرستان جنت المعلی) میں مدفون ہوئیں۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس ان کی قبر میں اترے اور اپنے مقدس ہاتھوں سے ان کی لاش مبارک کو زمین کے سپرد فرمایا۔ (زرقانی ج۱ ص۲۹۶)
طائف وغیرہ کا سفر :۔
مکہ والوں کے عناد اور سرکشی کو دیکھتے ہوئے جب حضور رَحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوسی نظر آئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے مکہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا رُخ کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے “طائف” کا بھی سفر فرمایا۔ اس سفر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ طائف میں بڑے بڑے اُمراء اور مالدار لوگ رہتے تھے۔ ان رئیسوں میں ’’ عمرو ‘‘ کا خاندان تمام قبائل کا سردار شمار کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ تین بھائی تھے۔ عبدیالیل۔ مسعود۔ حبیب۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان تینوں کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ انتہائی بیہودہ اور گستاخانہ جواب دیا۔ ان بدنصیبوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ طائف کے شریر غنڈوں کو ابھار دیا کہ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ برا سلوک کریں۔ چنانچہ لچوں لفنگوں کا یہ شریر گروہ ہر طرف سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑا اور یہ شرارتوں کے مجسمے آپ پر پتھر برسانے لگے یہاں تک کہ آپ کے مقدس پاؤں زخموں سے لہولہان ہو گئے۔
اور آپ کے موزے اور نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زخموں سے بے تاب ہو کر بیٹھ جاتے تو یہ ظالم انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ کا بازو پکڑ کر اٹھاتے اور جب آپ چلنے لگتے تو پھر آپ پر پتھروں کی بارش کرتے اور ساتھ ساتھ طعنہ زنی کرتے۔ گالیاں دیتے۔ تالیاں بجاتے۔ ہنسی اڑاتے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دوڑ دوڑ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بچاتے تھے یہاں تک کہ وہ بھی خون میں نہا گئے اور زخموں سے نڈھال ہو کر بے قابو ہو گئے۔ یہاں تک کہ آخر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انگور کے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ باغ مکہ کے ایک مشہور کافر عتبہ بن ربیعہ کا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کو آپ پر رحم آگیا اور کافر ہونے کے باوجود خاندانی حمیت نے جوش مارا۔ چنانچہ ان دونوں کافروں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے باغ میں ٹھہرایا اور اپنے نصرانی غلام “عداس” کے ہاتھ سے آپ کی خدمت میں انگور کا ایک خوشہ بھیجا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بسم اﷲ پڑھ کر خوشہ کو ہاتھ لگایا تو عداس تعجب سے کہنے لگا کہ اس اطراف کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارا وطن کہاں ہے؟ عداس نے کہا کہ میں ” شہر نینویٰ ” کا رہنے والا ہوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام کا شہر ہے۔ وہ بھی میری طرح خدا عزوجل کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عداس آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور فوراً ہی آپ کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۰۰)
اسی سفر میں جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام “نخلہ” میں تشریف فرما ہوئے اور رات کو نماز تہجد میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے تو “نصیبین” کے جنوں کی ایک جماعت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قرآن سن کر یہ سب جن مسلمان ہو گئے۔ پھر ان جنوں نے لوٹ کر اپنی قوم کو بتایا تو مکہ مکرمہ میں جنوں کی جماعت نے فوج در فوج آ کر اسلام قبول کیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورہ جن کی ابتدائی آیتوں میں خداوند عالم نے اس واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (زرقانی ج۱ ص۳۰۳)
مقام نخلہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چند دنوں تک قیام فرمایا۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام “حراء” میں تشریف لائے اور قریش کے ایک ممتاز سردار مطعم بن عدی کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ کیا تم مجھے اپنی پناہ میں لے سکتے ہو ؟ عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی شخص ان سے حمایت اور پناہ طلب کرتا تو وہ اگرچہ کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو وہ پناہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ مطعم بن عدی نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ تم لوگ ہتھیار لگا کر حرم میں جاؤ اور مطعم بن عدی خود گھوڑے پر سوار ہو گیااور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ مکہ لایااور حرم کعبہ میں اپنے ساتھ لے کر گیا اور مجمع عام میں اعلان کر دیا کہ میں نے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو پناہ دی ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اطمینان کے ساتھ حجر اسود کو بوسہ دیا اور کعبہ کا طواف کرکے حرم میں نماز ادا کی اور مطعم بن عدی اور اس کے بیٹوں نے تلواروں کے سائے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہوسلم کو آپ کے دولت خانہ تک پہنچا دیا۔
(زرقانی ج۱ ص۳۰۶)
اس سفر کے مدتوں بعد ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے ؟ تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں اے عائشہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ دن میرے لئے جنگ احد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار “عبد یالیل” کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوت اسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور اہل طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا۔ میں اس رنج و غم میں سر جھکائے چلتا رہا یہاں تک کہ مقام “قرن الثعالب” میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے۔ وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اس بادل میں سے حضرت جبریل علیہ السلام نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے۔ تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کر کے عرض کرنے لگا کہ اے محمد ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اﷲ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ سب کچھ سن لیا ہے اور مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں اور میں آپ کا حکم بجا لاؤں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں “اخشبین” (ابو قبیس اور قعیقعان) دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتا ہوں۔ یہ سن کر حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔(بخاری باب ذکر الملائکه ج۱ ص ۴۵۸ و زرقانی ج۱ ص۲۹۷)
قبائل میں تبلیغ اسلام :۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ حج کے زمانے میں جب کہ دور دور کے عربی قبائل مکہ میں جمع ہوتے تھے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام قبائل میں دورہ فرما کر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اسی طرح عرب میں جا بجا بہت سے میلے لگتے تھے جن میں دور دراز کے قبائل عرب جمع ہوتے تھے۔ ان میلوں میں بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ چنانچہ عکاظ، مجنہ، ذوالمجاز کے بڑے بڑے میلوں میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبائل عرب کے سامنے دعوت اسلام پیش فرمائی۔ عرب کے قبائل بنو عامر، محارب، فزارہ، غسان، مرہ، سلیم، عبس، بنو نصر، کندہ، کلب، عذرہ، حضارمہ وغیرہ ان سب مشہور قبائل کے سامنے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام پیش فرمایا مگر آپ کا چچا ابولہب ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ کسی قبیلہ کے سامنے وعظ فرماتے تو ابولہب چلا چلا کر یہ کہتا کہ ” یہ دین سے پھر گیا ہے، یہ جھوٹ کہتا ہے۔” (زرقانی ج۱ ص۳۰۹)
قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس قبیلہ کا سردار “مفروق” آپ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے کہا کہ اے قریشی برادر ! آپ لوگوں کے سامنے کونسا دین پیش کرتے ہیں ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورہ انعام کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں۔ یہ سب لوگ آپ کی تقریر اور قرآنی آیتوں کی تاثیر سے انتہائی متاثر ہوئے لیکن یہ کہا کہ ہم اپنے اس خاندانی دین کو بھلا ایک دم کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ جس پر ہم برسہا برس سے کار بند ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے زیر اثر اور رعیت ہیں۔ اور ہم یہ معاہدہ کر چکے ہیں کہ ہم بادشاہ کسریٰ کے سوا کسی اور کے زیر اثر نہیں رہیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صاف گوئی کی تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ خیر، خدا اپنے دین کا حامی و ناصر اور معین و مدد گار ہے۔ (روض الانف بحواله سيرة النبی)