Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 14:49:13 GMT 5.5
ہجرت کا پہلا سال
مسجد قباء :۔
مسجد قباء
” قبا” میں سب سے پہلا کام ایک مسجد کی تعمیر تھی۔ اس مقصد کے لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایک زمین کو پسند فرمایا جہاں خاندان عمرو بن عوف کی کھجوریں سکھائی جاتی تھیں اسی جگہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ یہی وہ مسجد ہے جو آج بھی ” مسجد قباء ” کے نام سے مشہور ہے اور جس کی شان میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْه ط فِيْه رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهرُوْا ط وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُطَّهرِيْنَ (توبه)
یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیزگاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس (مسجد) میں ایسے لوگ ہیں جن کو پاکی بہت پسند ہے اور اﷲ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
اس مبارک مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اپنے دست مبارک سے اتنے بڑے بڑے پتھر اُٹھاتے تھے کہ ان کے بوجھ سے جسم نازک خم ہو جاتا تھا اور اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جاں نثار اصحاب میں سے کوئی عرض کرتا یا رسول اﷲ ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر ہمارے ماں باپ قربان ہو جائیں آپ چھوڑ دیجیے ہم اٹھائیں گے، تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی دلجوئی کے لیے چھوڑ دیتے مگر پھر اسی وزن کا دوسرا پتھر اٹھا لیتے اور خود ہی اس کو لاکر عمارت میں لگاتے اور تعمیری کام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ
اَفْلَحَ مَنْ يُّعَالِجُ الْمَسْجِدَا
وَيَقْرَئُ الْقُرْاٰنَ قَائِمًا وَّقَاعِدًا
وَلَا يَبِيْتُ اللَّيْلَ عَنْه رَاقِدًا
وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور سوتے ہوئے رات نہیں گزارتا۔(وفاء الوفاء ج۱ ص۱۸۰)
مسجد الجمعہ :۔
چودہ یا چوبیس روز کے قیام میں مسجد قباء کی تعمیر فرما کر جمعہ کے دن آپ ” قباء ” سے شہر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں قبیلۂ بنی سالم کی مسجد میں پہلا جمعہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے پڑھا۔ یہی وہ مسجد ہے جو آج تک ” مسجد الجمعہ ” کے نام سے مشہور ہے۔ اہل شہر کو خبر ہوئی تو ہر طرف سے لوگ جذبات شوق میں مشتاقانہ استقبال کے لیے دوڑ پڑے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے ننہالی رشتہ دار ” بنو النجار ” ہتھیار لگائے ” قباء ” سے شہر تک دورویہ صفیں باندھے مستانہ وار چل رہے تھے۔ آپ راستہ میں تمام قبائل کی محبت کا شکریہ ادا کرتے اور سب کو خیر و برکت کی دعائیں دیتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ شہر قریب آگیا تو اہل مدینہ کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ پردہ نشین خواتین مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئیں اور یہ استقبالیہ اشعار پڑھنے لگیں کہ
طَلَعَ لْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاع
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا مَا دَٰعي لِلّٰه دَاعِي ْ
ہم پر چاند طلوع ہو گیا و داع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے۔ جب تک اﷲ سے دعاء مانگنے والے دعا مانگتے رہیں۔
اَيُّها الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاع
اَنْتَ شَرَّفْتَ الْمَدِيْنَة مَرْحَبًا يَاخَيْرَ دَاعٖ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا مَا دَٰعي لِلّٰه دَاعِي ْ
ہم پر چاند طلوع ہو گیا و داع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے۔ جب تک اﷲ سے دعاء مانگنے والے دعا مانگتے رہیں۔
اَيُّها الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاع
اَنْتَ شَرَّفْتَ الْمَدِيْنَة مَرْحَبًا يَاخَيْرَ دَاعٖ
اے وہ ذات گرامی ! جو ہمارے اندر مبعوث کئے گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم وہ دین لائے جو اطاعت کے قابل ہے آپ نے مدینہ کو مشرف فرما دیا تو آپ کے لیے ” خوش آمدید ” ہے اے بہترین دعوت دینے والے۔
فَلَبِسْنَا ثَوْبَ يَمَنٍ بَعْدَ تَلْفِيْقِ الرِّقَاعٖ
فَعَلَيْكَ اللّٰه صَلّٰی مَا سَعیٰ لِلّٰه سَاعٖ
تو ہم لوگوں نے یمنی کپڑے پہنے حالانکہ اس سے پہلے پیوند جوڑ جوڑ کر کپڑے پہنا کرتے تھے تو آپ پر اﷲ تعالیٰ اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے۔ جب تک اﷲ کے لئے کوشش کرنے والے کوشش کرتے رہیں۔
مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں جوشِ مسرت میں جھوم جھوم کر اور دف بجا بجا کر یہ گیت گاتی تھیں کہ
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارْٖ
يَاحَبَّذا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارْٖ
ہم خاندان ” بنو النجار ” کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے جوش مسرت اور ان کی والہانہ محبت سے متاثر ہو کر پوچھا کہ اے بچیو ! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو ؟ تو بچیوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ” جی ہاں ! جی ہاں۔ ” یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ” میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ ” (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۵۹ و ۳۶۰)
چھوٹے چھوٹے لڑکے اور غلام جھنڈ کے جھنڈ مارے خوشی کے مدینہ کی گلیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کا نعرہ لگاتے ہوئے دوڑتے پھرتے تھے۔ صحابی رسول براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو فرحت و سرور اور انوار و تجلیات حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے دن ظاہر ہوئے نہ اس سے پہلے کبھی ظاہر ہوئے تھے نہ اس کے بعد۔ (مدارج النبوة ج ۲ ص۶۵)
فَلَبِسْنَا ثَوْبَ يَمَنٍ بَعْدَ تَلْفِيْقِ الرِّقَاعٖ
فَعَلَيْكَ اللّٰه صَلّٰی مَا سَعیٰ لِلّٰه سَاعٖ
تو ہم لوگوں نے یمنی کپڑے پہنے حالانکہ اس سے پہلے پیوند جوڑ جوڑ کر کپڑے پہنا کرتے تھے تو آپ پر اﷲ تعالیٰ اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے۔ جب تک اﷲ کے لئے کوشش کرنے والے کوشش کرتے رہیں۔
مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں جوشِ مسرت میں جھوم جھوم کر اور دف بجا بجا کر یہ گیت گاتی تھیں کہ
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارْٖ
يَاحَبَّذا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارْٖ
ہم خاندان ” بنو النجار ” کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان بچیوں کے جوش مسرت اور ان کی والہانہ محبت سے متاثر ہو کر پوچھا کہ اے بچیو ! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو ؟ تو بچیوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ” جی ہاں ! جی ہاں۔ ” یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ” میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ ” (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۵۹ و ۳۶۰)
چھوٹے چھوٹے لڑکے اور غلام جھنڈ کے جھنڈ مارے خوشی کے مدینہ کی گلیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کا نعرہ لگاتے ہوئے دوڑتے پھرتے تھے۔ صحابی رسول براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو فرحت و سرور اور انوار و تجلیات حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدینہ میں تشریف لانے کے دن ظاہر ہوئے نہ اس سے پہلے کبھی ظاہر ہوئے تھے نہ اس کے بعد۔ (مدارج النبوة ج ۲ ص۶۵)
ابو ایوب انصاری کا مکان :۔
ابو ايوب انصاری کا مکان
تمام قبائل انصار جو راستہ میں تھے انتہائی جوش مسرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ ہمارے گھروں کو شرفِ نزول بخشیں مگر آپ ان سب محبین سے یہی فرماتے کہ میری اونٹنی کی مہار چھوڑ دو جس جگہ خدا کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ چنانچہ جس جگہ آج مسجد نبوی شریف ہے اس کے پاس حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان تھا اُسی جگہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اجازت سے آپ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر میں لے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی کے مکان پر قیام فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اوپر کی منزل پیش کی مگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ملاقاتیوں کی آسانی کا لحاظ فرماتے ہوئے نیچے کی منزل کو پسند فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دونوں وقت آپ کے لئے کھانا بھیجتے اور آپ کا بچا ہوا کھانا تبرک سمجھ کر میاں بیوی کھاتے۔ کھانے میں جہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگلیوں کا نشان پڑا ہوتا حصولِ برکت کے لئے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اسی جگہ سے لقمہ اُٹھاتے اور اپنے ہر قول و فعل سے بے پناہ ادب و احترام اور عقیدت و جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے
ابو ايوب انصاری کا مکان
ایک مرتبہ مکان کے اوپر کی منزل پر پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا تو اس اندیشہ سے کہ کہیں پانی بہہ کر نیچے کی منزل میں نہ چلا جائے اور حضور رحمت ِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کچھ تکلیف نہ ہو جائے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سارا پانی اپنے لحاف میں خشک کر لیا، گھر میں یہی ایک لحاف تھا جو گیلا ہو گیا۔ رات بھر میاں بیوی نے سردی کھائی مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ذرہ برابر تکلیف پہنچ جائے یہ گوارا نہیں کیا۔ سات مہینے تک حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی شان کے ساتھ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ جب مسجد نبوی اور اس کے آس پاس کے حجرے تیار ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان حجروں میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ساتھ قیام پذیر ہوگئے۔(زرقانی علی المواهب، ج۱، ص۳۵۷ وغیره)
ہجرت کا پہلا سال قسم قسم کے بہت سے واقعات کو اپنے دامن میں لئے ہے مگر ان میں سے چند بڑے بڑے واقعات کو نہایت اختصار کے ساتھ ہم تحریر کرتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن سلام کا اسلام :۔
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم تھے، خود ان کا اپنا بیان ہے کہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں تشریف لائے اور لوگ جوق در جوق ان کی زیارت کے لئے ہر طرف سے آنے لگے تو میں بھی اُسی وقت خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جونہی میری نظر جمالِ نبوت پر پڑی تو پہلی نظر میں میرے دل نے یہ فیصلہ کر دیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے وعظ میں یہ ارشاد فرمایا ک
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم تھے، خود ان کا اپنا بیان ہے کہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں تشریف لائے اور لوگ جوق در جوق ان کی زیارت کے لئے ہر طرف سے آنے لگے تو میں بھی اُسی وقت خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جونہی میری نظر جمالِ نبوت پر پڑی تو پہلی نظر میں میرے دل نے یہ فیصلہ کر دیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے وعظ میں یہ ارشاد فرمایا ک
اَيُّها النَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ صِلُوا الْاَرْحَامَ وَ صَلُّوْا بِاللَّيْلِ وَ النَّاسُ نِيَامٌ
اے لوگو! سلام کا چرچا کرو اور کھانا کھلاؤ اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرو اور راتوں کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھو۔
حضرت عبداﷲ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک نظر دیکھا اور آپ کے یہ چار بول میرے کان میں پڑے تو میں اس قدر متاثر ہو گیا کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن اسلام میں آ جانا یہ اتنا اہم واقعہ تھا کہ مدینہ کے یہودیوں میں کھلبلی مچ گئی۔(مدارج النبوة ج ۲ ص۶۶ و بخاری وغیره)
حضور کے اہل و عیال مدینہ میں :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب کہ ابھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان ہی میں تشریف فرما تھے آپ نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو پانچ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ بھیجا تا کہ یہ دونوں صاحبان اپنے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل و عیال کو مدینہ لائیں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات جا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت اسامہ بن زید اور حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو مدینہ لے آئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نہ آسکیں کیونکہ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن الربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو مکہ میں روک لیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ” حبشہ ” میں تھیں۔ انہی لوگوں کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنے سب گھر والوں کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ آ گئے ان میں حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں یہ سب لوگ مدینہ آ کر پہلے حضرت حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر ٹھہرے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۷۲)
مسجد نبوی کی تعمیر :۔
مدینہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان باجماعت نماز پڑھ سکیں اس لئے مسجد کی تعمیر نہایت ضروری تھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قیام گاہ کے قریب ہی ” بنو النجار ” کا ایک باغ تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے اس باغ کو قیمت دے کر خریدنا چاہا۔ ان لوگوں نے یہ کہہ کر ” یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم خدا ہی سے اس کی قیمت (اجرو ثواب) لیں گے۔ ” مفت میں زمین مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دی لیکن چونکہ یہ زمین اصل میں دو یتیموں کی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلا بھیجا۔ ان یتیم بچوں نے بھی زمین مسجد کے لئے نذر کرنی چاہی مگر حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت ادا فرما دی۔(مدارج النبوة، ج۲، ص۶۸)
اے لوگو! سلام کا چرچا کرو اور کھانا کھلاؤ اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرو اور راتوں کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھو۔
حضرت عبداﷲ بن سلام فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایک نظر دیکھا اور آپ کے یہ چار بول میرے کان میں پڑے تو میں اس قدر متاثر ہو گیا کہ میرے دل کی دنیا ہی بدل گئی اور میں مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دامن اسلام میں آ جانا یہ اتنا اہم واقعہ تھا کہ مدینہ کے یہودیوں میں کھلبلی مچ گئی۔(مدارج النبوة ج ۲ ص۶۶ و بخاری وغیره)
حضور کے اہل و عیال مدینہ میں :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب کہ ابھی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان ہی میں تشریف فرما تھے آپ نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو پانچ سو درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ بھیجا تا کہ یہ دونوں صاحبان اپنے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اہل و عیال کو مدینہ لائیں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات جا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور حضرت اسامہ بن زید اور حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو مدینہ لے آئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نہ آسکیں کیونکہ ان کے شوہر حضرت ابو العاص بن الربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو مکہ میں روک لیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ” حبشہ ” میں تھیں۔ انہی لوگوں کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنے سب گھر والوں کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ آ گئے ان میں حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں یہ سب لوگ مدینہ آ کر پہلے حضرت حارثہ بن نعمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان پر ٹھہرے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۷۲)
مسجد نبوی کی تعمیر :۔
مدینہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں مسلمان باجماعت نماز پڑھ سکیں اس لئے مسجد کی تعمیر نہایت ضروری تھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قیام گاہ کے قریب ہی ” بنو النجار ” کا ایک باغ تھا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسجد تعمیر کرنے کے لئے اس باغ کو قیمت دے کر خریدنا چاہا۔ ان لوگوں نے یہ کہہ کر ” یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم خدا ہی سے اس کی قیمت (اجرو ثواب) لیں گے۔ ” مفت میں زمین مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کر دی لیکن چونکہ یہ زمین اصل میں دو یتیموں کی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں یتیم بچوں کو بلا بھیجا۔ ان یتیم بچوں نے بھی زمین مسجد کے لئے نذر کرنی چاہی مگر حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مال سے آپ نے اس کی قیمت ادا فرما دی۔(مدارج النبوة، ج۲، ص۶۸)
اس زمین میں چند درخت، کچھ کھنڈرات اور کچھ مشرکوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے درختوں کے کاٹنے اور مشرکین کی قبروں کو کھود کر پھینک دینے کا حکم دیا۔ پھر زمین کو ہموار کرکے خود آپ نے اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد ڈالی اور کچی اینٹوں کی دیوار اور کھجور کے ستونوں پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنائی جو بارش میں ٹپکتی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جوش دلانے کے لئے ان کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رجز کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ - See more at:
اَللّٰهُمَّ لَاخَيْرَ اِلَّا خَيْرُ الْاٰخِرَة فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَ الْمُهَاجِرَة
(بخاری ج۱ ص۶۱)
اے اﷲ ! بھلائی تو صرف آخرت ہی کی بھلائی ہے۔ لہٰذا اے اﷲ ! تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔ اسی مسجد کا نام ” مسجد نبوی ” ہے۔ یہ مسجد ہر قسم کے دُنیوی تکلفات سے پاک اور اسلام کی سادگی کی سچی اور صحیح تصویر تھی، اس مسجد کی عمارتِ اوّل طول و عرض میں ساٹھ گز لمبی اور چوّن گز چوڑی تھی اور اس کا قبلہ بیت المقدس کی طرف بنایا گیا تھا مگر جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو مسجد کے شمالی جانب ایک نیا دروازہ قائم کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف زمانوں میں مسجد نبوی کی تجدید و توسیع ہوتی رہی۔
مسجد کے ایک کنارے پر ایک چبوترہ تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترہ کا نام ” صفہ ” ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترہ پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ ” اصحاب صفہ ” کہلاتے ہیں۔ (مدارج النبوة، ج۲، ص۶۹ و بخاری)
مسجد کے ایک کنارے پر ایک چبوترہ تھا جس پر کھجور کی پتیوں سے چھت بنا دی گئی تھی۔ اسی چبوترہ کا نام ” صفہ ” ہے جو صحابہ گھر بار نہیں رکھتے تھے وہ اسی چبوترہ پر سوتے بیٹھتے تھے اور یہی لوگ ” اصحاب صفہ ” کہلاتے ہیں۔ (مدارج النبوة، ج۲، ص۶۹ و بخاری)
ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے مکانات :۔
مسجد نبوی کے متصل ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لئے حجرے بھی بنوائے۔اس وقت تک حضرت بی بی سودہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نکاح میں تھیں اس لئے دوہی مکان بنوائے۔ جب دوسری ازواجِ مطہرات آتی گئیں تو دوسرے مکانات بنتے گئے۔ یہ مکانات بھی بہت ہی سادگی کے ساتھ بنائے گئے تھے۔ دس دس ہاتھ لمبے چھ چھ، سات سات ہاتھ چوڑے کچی اینٹوں کی دیواریں، کھجور کی پتیوں کی چھت وہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں میں کواڑ بھی نہ تھے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔(طبقات ابن سعد وغيرہ)
اﷲ اکبر ! یہ ہے شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ کاشانہ نبوت جس کی آستانہ بوسی اور دربانی جبریل علیہ السلام کے لئے سرمایہ سعادت اور باعث افتخار تھی۔
اﷲ اﷲ ! وہ شہنشاہ کونین جس کو خالق کائنات نے اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر مسند نشین بنایا اور جس کے سر پر اپنی محبوبیت کا تاج پہنا کر زمین کے خزانوں کی کنجیاں جس کے ہاتھوں میں عطا فرما دیں اور جس کو کائنات عالم میں قسم قسم کے تصرفات کا مختار بنا دیا، جس کی زَبان کا ہر فرمان کن کی کنجی، جس کی نگاہ کرم کے ایک اشارہ نے ان لوگوں کو جن کے ہاتھوں میں اونٹوں کی مہار رہتی تھی انہیں اقوامِ عالم کی قسمت کی لگام عطا فرما دی۔ اﷲ اکبر ! وہ تاجدار رسالت جو سلطان دارین اور شہنشاہ کونین ہے اس کی حرم سرا کا یہ عالم ! اے سورج ! بول، اے چاند ! بتا تم دونوں نے اس زمین کے بے شمار چکر لگائے ہیں مگر کیا تمہاری آنکھوں نے ایسی سادگی کا کوئی منظر کبھی بھی اور کہیں بھی دیکھا ہے ؟
مسجد نبوی کے متصل ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لئے حجرے بھی بنوائے۔اس وقت تک حضرت بی بی سودہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نکاح میں تھیں اس لئے دوہی مکان بنوائے۔ جب دوسری ازواجِ مطہرات آتی گئیں تو دوسرے مکانات بنتے گئے۔ یہ مکانات بھی بہت ہی سادگی کے ساتھ بنائے گئے تھے۔ دس دس ہاتھ لمبے چھ چھ، سات سات ہاتھ چوڑے کچی اینٹوں کی دیواریں، کھجور کی پتیوں کی چھت وہ بھی اتنی نیچی کہ آدمی کھڑا ہو کر چھت کو چھو لیتا، دروازوں میں کواڑ بھی نہ تھے کمبل یا ٹاٹ کے پردے پڑے رہتے تھے۔(طبقات ابن سعد وغيرہ)
اﷲ اکبر ! یہ ہے شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وہ کاشانہ نبوت جس کی آستانہ بوسی اور دربانی جبریل علیہ السلام کے لئے سرمایہ سعادت اور باعث افتخار تھی۔
اﷲ اﷲ ! وہ شہنشاہ کونین جس کو خالق کائنات نے اپنا مہمان بنا کر عرش اعظم پر مسند نشین بنایا اور جس کے سر پر اپنی محبوبیت کا تاج پہنا کر زمین کے خزانوں کی کنجیاں جس کے ہاتھوں میں عطا فرما دیں اور جس کو کائنات عالم میں قسم قسم کے تصرفات کا مختار بنا دیا، جس کی زَبان کا ہر فرمان کن کی کنجی، جس کی نگاہ کرم کے ایک اشارہ نے ان لوگوں کو جن کے ہاتھوں میں اونٹوں کی مہار رہتی تھی انہیں اقوامِ عالم کی قسمت کی لگام عطا فرما دی۔ اﷲ اکبر ! وہ تاجدار رسالت جو سلطان دارین اور شہنشاہ کونین ہے اس کی حرم سرا کا یہ عالم ! اے سورج ! بول، اے چاند ! بتا تم دونوں نے اس زمین کے بے شمار چکر لگائے ہیں مگر کیا تمہاری آنکھوں نے ایسی سادگی کا کوئی منظر کبھی بھی اور کہیں بھی دیکھا ہے ؟
مہاجرین کے گھر :۔
مہاجرین جو اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے، ان لوگوں کی سکونت کے لئے بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے قرب و جوار ہی میں انتظام فرمایا۔انصار نے بہت بڑی قربانی دی کہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنے مکانات اور زمینیں دیں اور مکانوں کی تعمیرات میں ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی جس سے مہاجرین کی آبادکاری میں بڑی سہولت ہو گئی۔
سب سے پہلے جس انصاری نے اپنا مکان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بطور ہبہ کے نذر کیا اس خوش نصیب کا نام نامی حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، چنانچہ ازواجِ مطہرات کے مکانات حضرت حارثہ بن نعمان ہی کی زمین میں بنائے گئے۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رُخصتی :۔
حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح تو ہجرت سے قبل ہی مکہ میں ہو چکا تھا مگر ان کی رُخصتی ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ میں ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک پیالہ دودھ سے لوگوں کی دعوت ولیمہ فرمائی۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۷۰)
اذان کی ابتداء :۔
مسجد نبوی کی تعمیر تو مکمل ہو گئی مگر لوگوں کو نمازوں کے وقت جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے نماز با جماعت کا انتظام ہوتا، اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا، بعض نے نمازوں کے وقت آگ جلانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کی رائے دی مگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر نماز کے وقت کسی آدمی کو بھیج دیا جائے جو پوری مسلم آبادی میں نماز کا اعلان کردے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ نمازوں کے وقت لوگوں کو پکار دیا کریں۔ چنانچہ وہ ’’ الصلوٰۃُ جامعۃٌ ‘‘ کہہ کر پانچوں نمازوں کے وقت اعلان کرتے تھے، اسی درمیان میں ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اذان شرعی کے الفاظ کوئی سنا رہا ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کو بھی اسی قسم کے خواب نظر آئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منجانب اﷲ سمجھ کر قبول فرمایا اور حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم بلال کو اذان کے کلمات سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا شروع ہو گیا۔(زرقانی، ج۲، ص۳۷۶ و بخاری)
مہاجرین جو اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے، ان لوگوں کی سکونت کے لئے بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے قرب و جوار ہی میں انتظام فرمایا۔انصار نے بہت بڑی قربانی دی کہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے اپنے مکانات اور زمینیں دیں اور مکانوں کی تعمیرات میں ہر قسم کی امداد بہم پہنچائی جس سے مہاجرین کی آبادکاری میں بڑی سہولت ہو گئی۔
سب سے پہلے جس انصاری نے اپنا مکان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بطور ہبہ کے نذر کیا اس خوش نصیب کا نام نامی حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، چنانچہ ازواجِ مطہرات کے مکانات حضرت حارثہ بن نعمان ہی کی زمین میں بنائے گئے۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رُخصتی :۔
حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نکاح تو ہجرت سے قبل ہی مکہ میں ہو چکا تھا مگر ان کی رُخصتی ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ میں ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک پیالہ دودھ سے لوگوں کی دعوت ولیمہ فرمائی۔(مدارج النبوۃ، ج۲، ص۷۰)
اذان کی ابتداء :۔
مسجد نبوی کی تعمیر تو مکمل ہو گئی مگر لوگوں کو نمازوں کے وقت جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے نماز با جماعت کا انتظام ہوتا، اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا، بعض نے نمازوں کے وقت آگ جلانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کی رائے دی مگر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر نماز کے وقت کسی آدمی کو بھیج دیا جائے جو پوری مسلم آبادی میں نماز کا اعلان کردے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ نمازوں کے وقت لوگوں کو پکار دیا کریں۔ چنانچہ وہ ’’ الصلوٰۃُ جامعۃٌ ‘‘ کہہ کر پانچوں نمازوں کے وقت اعلان کرتے تھے، اسی درمیان میں ایک صحابی حضرت عبداﷲ بن زید انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اذان شرعی کے الفاظ کوئی سنا رہا ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کو بھی اسی قسم کے خواب نظر آئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منجانب اﷲ سمجھ کر قبول فرمایا اور حضرت عبداﷲ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم بلال کو اذان کے کلمات سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا شروع ہو گیا۔(زرقانی، ج۲، ص۳۷۶ و بخاری)
انصار و مہاجر بھائی بھائی :۔
حضرات مہاجرین چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں بالکل خالی ہاتھ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر مدینہ آئے تھے اس لئے پردیس میں مفلسی کے ساتھ وحشت و بیگانگی اور اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انصار نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور دل جوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ سے اپنے دست و بازو کی کمائی کھانے کے خوگر تھے۔ اس لئے ضرور ت تھی کہ مہاجرین کی پریشانی کو دور کرنے اور ان کے لئے مستقل ذریعۂ معاش مہیا کرنے کے لئے کوئی انتظام کیا جائے۔ اس لئے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ انصار و مہاجرین میں رشتہ اخوت (بھائی چارہ) قائم کر کے ان کو بھائی بھائی بنا دیا جائے تا کہ مہاجرین کے دلوں سے اپنی تنہائی اور بے کسی کا احساس دور ہوجائے اور ایک دوسرے کے مددگار بن جانے سے مہاجرین کے ذریعۂ معاش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ چنانچہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اس وقت تک مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں پھر مہاجرین و انصار میں سے دو دو شخص کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔ چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لئے ان سب سامانوں میں آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ حد ہو گئی کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری جو حضرت عبدالرحمن بن عوف مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے ان کی دو بیویاں تھیں، حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کر لیں۔
اﷲ اکبر ! اس میں شک نہیں کہ انصار کا یہ ایثار ایک ایسا بے مثال شاہکار ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی مگر مہاجرین نے کیا طرز عمل اختیار کیا یہ بھی ایک قابل تقلید تاریخی کارنامہ ہے۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس مخلصانہ پیشکش کو سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ یہ سب مال و متاع اور اہل و عیال آ پ کو مبارک فرمائے مجھے تو آپ صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انہوں نے مدینہ کے مشہور بازار ” قینقاع ” کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بازار گئے اور کچھ گھی، کچھ پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔ اسی طرح روزانہ وہ بازار جاتے رہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ کافی مالدار ہو گئے اور ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا کہ انہوں نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا۔ جب یہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے بیوی کو کتنا مہر دیا ؟ عرض کیا کہ پانچ درہم برابر سونا۔ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں برکتیں عطا فرمائے تم دعوتِ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ (بخاری، باب الوليمة ولو بشاة، ص۷۷۷ ،ج۲)
اور رفتہ رفتہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تجارت میں اتنی خیر و برکت اور ترقی ہوئی کہ خود ان کا قول ہے کہ ” میں مٹی کو چھو دیتا ہوں تو سونا بن جاتی ہے ” منقول ہے کہ ان کا سامان تجارت سات سو اونٹوں پر لد کر آتا تھا اور جس دن مدینہ میں ان کا تجارتی سامان پہنچتا تھا تو تمام شہر میں دھوم مچ جاتی تھی۔ (اسد الغابه، ج۳، ص۳۱۴)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح دوسرے مہاجرین نے بھی دکانیں کھول لیں ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ “قینقاع” کے بازار میں کھجوروں کی تجارت کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے۔ دوسرے مہاجرین نے بھی چھوٹی بڑی تجارت شروع کر دی۔ غرض باوجودیکہ مہاجرین کے لئے انصار کا گھر مستقل مہمان خانہ تھا مگر مہاجرین زیادہ دنوں تک انصار پر بوجھ نہیں بنے بلکہ اپنی محنت اور بے پناہ کوششوں سے بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
مشہور مؤرخِ اسلام حضرت علامہ ابن عبدالبررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ عقد مواخاۃ (بھائی چارہ کا معاہدہ) تو انصار و مہاجرین کے درمیان ہوا،اس کے علاوہ ایک خاص “عقد مواخاۃ”مہاجرین کے درمیان بھی ہوا جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مہاجر کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنا دیا ۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور حضرت عثمان و حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے درمیان جب بھائی چارہ ہو گیا تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے اپنے صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے آپ نے کسی کا بھائی نہیں بنایا آخر میرا بھائی کون ہے؟ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اَنْتَ اَخِيْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ یعنی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (مدارج النبوۃ ج۲ص۷۱)
حضرات مہاجرین چونکہ انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں بالکل خالی ہاتھ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر مدینہ آئے تھے اس لئے پردیس میں مفلسی کے ساتھ وحشت و بیگانگی اور اپنے اہل و عیال کی جدائی کا صدمہ محسوس کرتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ انصار نے ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور دل جوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن مہاجرین دیر تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ ہمیشہ سے اپنے دست و بازو کی کمائی کھانے کے خوگر تھے۔ اس لئے ضرور ت تھی کہ مہاجرین کی پریشانی کو دور کرنے اور ان کے لئے مستقل ذریعۂ معاش مہیا کرنے کے لئے کوئی انتظام کیا جائے۔ اس لئے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ انصار و مہاجرین میں رشتہ اخوت (بھائی چارہ) قائم کر کے ان کو بھائی بھائی بنا دیا جائے تا کہ مہاجرین کے دلوں سے اپنی تنہائی اور بے کسی کا احساس دور ہوجائے اور ایک دوسرے کے مددگار بن جانے سے مہاجرین کے ذریعۂ معاش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ چنانچہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں انصار و مہاجرین کو جمع فرمایا اس وقت تک مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں پھر مہاجرین و انصار میں سے دو دو شخص کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارشاد فرماتے ہی یہ رشتہ اخوت بالکل حقیقی بھائی جیسا رشتہ بن گیا۔ چنانچہ انصار نے مہاجرین کو ساتھ لے جا کر اپنے گھر کی ایک ایک چیز سامنے لا کر رکھ دی اور کہہ دیا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں اس لئے ان سب سامانوں میں آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے۔ حد ہو گئی کہ حضرت سعد بن ربیع انصاری جو حضرت عبدالرحمن بن عوف مہاجر کے بھائی قرار پائے تھے ان کی دو بیویاں تھیں، حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میری ایک بیوی جسے آپ پسند کریں میں اس کو طلاق دے دوں اور آپ اس سے نکاح کر لیں۔
اﷲ اکبر ! اس میں شک نہیں کہ انصار کا یہ ایثار ایک ایسا بے مثال شاہکار ہے کہ اقوام عالم کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل سے ہی ملے گی مگر مہاجرین نے کیا طرز عمل اختیار کیا یہ بھی ایک قابل تقلید تاریخی کارنامہ ہے۔ حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس مخلصانہ پیشکش کو سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ یہ سب مال و متاع اور اہل و عیال آ پ کو مبارک فرمائے مجھے تو آپ صرف بازار کا راستہ بتا دیجیے۔ انہوں نے مدینہ کے مشہور بازار ” قینقاع ” کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بازار گئے اور کچھ گھی، کچھ پنیر خرید کر شام تک بیچتے رہے۔ اسی طرح روزانہ وہ بازار جاتے رہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ کافی مالدار ہو گئے اور ان کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا کہ انہوں نے شادی کرکے اپنا گھر بسا لیا۔ جب یہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے بیوی کو کتنا مہر دیا ؟ عرض کیا کہ پانچ درہم برابر سونا۔ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں برکتیں عطا فرمائے تم دعوتِ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ (بخاری، باب الوليمة ولو بشاة، ص۷۷۷ ،ج۲)
اور رفتہ رفتہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تجارت میں اتنی خیر و برکت اور ترقی ہوئی کہ خود ان کا قول ہے کہ ” میں مٹی کو چھو دیتا ہوں تو سونا بن جاتی ہے ” منقول ہے کہ ان کا سامان تجارت سات سو اونٹوں پر لد کر آتا تھا اور جس دن مدینہ میں ان کا تجارتی سامان پہنچتا تھا تو تمام شہر میں دھوم مچ جاتی تھی۔ (اسد الغابه، ج۳، ص۳۱۴)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح دوسرے مہاجرین نے بھی دکانیں کھول لیں ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ “قینقاع” کے بازار میں کھجوروں کی تجارت کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تجارت میں مشغول ہو گئے تھے۔ دوسرے مہاجرین نے بھی چھوٹی بڑی تجارت شروع کر دی۔ غرض باوجودیکہ مہاجرین کے لئے انصار کا گھر مستقل مہمان خانہ تھا مگر مہاجرین زیادہ دنوں تک انصار پر بوجھ نہیں بنے بلکہ اپنی محنت اور بے پناہ کوششوں سے بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
مشہور مؤرخِ اسلام حضرت علامہ ابن عبدالبررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ یہ عقد مواخاۃ (بھائی چارہ کا معاہدہ) تو انصار و مہاجرین کے درمیان ہوا،اس کے علاوہ ایک خاص “عقد مواخاۃ”مہاجرین کے درمیان بھی ہوا جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مہاجر کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنا دیا ۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اور حضرت عثمان و حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے درمیان جب بھائی چارہ ہو گیا تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں عرض کیا کہ یارسول اﷲ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے اپنے صحابہ کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا لیکن مجھے آپ نے کسی کا بھائی نہیں بنایا آخر میرا بھائی کون ہے؟ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اَنْتَ اَخِيْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ یعنی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (مدارج النبوۃ ج۲ص۷۱)
یہودیوں سے معاہدہ :۔
مدینہ میں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔ ان یہودیوں کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر، قریظہ مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت مضبوط محلات اور مستحکم قلعے بنا کر رہتے تھے۔ ہجرت سے پہلے یہودیوں اور انصار میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھا اور وہ اختلاف اب بھی موجود تھا اور انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج بہت کمزور ہو چکے تھے۔ کیونکہ مشہور لڑائی ” جنگ بعاث ” میں ان دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار اور نامور بہادر آپس میں لڑ لڑ کر قتل ہو چکے تھے اور یہودی ہمیشہ اس قسم کی تدبیروں اور شرارتوں میں لگے رہتے تھے کہ انصار کے یہ دونوں قبائل ہمیشہ ٹکراتے رہیں اور کبھی بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ ان وجوہات کی بنا پر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہودیوں اور مسلمانوں کے آئندہ تعلقات کے بارے میں ایک معاہدہ کی ضرورت محسوس فرمائی تاکہ دونوں فریق امن و سکون کے ساتھ رہیں اور آپس میں کوئی تصادم اور ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار اور یہود کوبلا کر معاہدہ کی ایک دستاویز لکھوائی جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔
اس معاہدہ کی دفعات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے۔
مدینہ میں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔ ان یہودیوں کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر، قریظہ مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت مضبوط محلات اور مستحکم قلعے بنا کر رہتے تھے۔ ہجرت سے پہلے یہودیوں اور انصار میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھا اور وہ اختلاف اب بھی موجود تھا اور انصار کے دونوں قبیلے اوس و خزرج بہت کمزور ہو چکے تھے۔ کیونکہ مشہور لڑائی ” جنگ بعاث ” میں ان دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار اور نامور بہادر آپس میں لڑ لڑ کر قتل ہو چکے تھے اور یہودی ہمیشہ اس قسم کی تدبیروں اور شرارتوں میں لگے رہتے تھے کہ انصار کے یہ دونوں قبائل ہمیشہ ٹکراتے رہیں اور کبھی بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ ان وجوہات کی بنا پر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہودیوں اور مسلمانوں کے آئندہ تعلقات کے بارے میں ایک معاہدہ کی ضرورت محسوس فرمائی تاکہ دونوں فریق امن و سکون کے ساتھ رہیں اور آپس میں کوئی تصادم اور ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار اور یہود کوبلا کر معاہدہ کی ایک دستاویز لکھوائی جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔
اس معاہدہ کی دفعات کا خلاصہ حسب ِ ذیل ہے۔
(۱) خون بہا (جان کے بدلے جو مال دیا جاتا ہے) اور فدیہ (قیدی کو چھڑانے کے بدلے جو رقم دی جاتی ہے) کا جو طریقہ پہلے سے چلا آتا تھا اب بھی وہ قائم رہے گا۔
(۲) یہودیوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے گی ان کے مذہبی رسوم میں کوئی دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔
(۳)یہودی اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
(۴)یہودی یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا۔
(۵) اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے۔
(۶) کوئی فریق قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دے گا۔
(۷) کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کرے گا تو دوسرا فریق بھی اس مصالحت میں شامل ہو گا لیکن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ رہے گی۔
(سيرتِ ابن هشام ج۴ ص۵۰۱ تا ۵۰۲)
(۶) کوئی فریق قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دے گا۔
(۷) کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کرے گا تو دوسرا فریق بھی اس مصالحت میں شامل ہو گا لیکن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ رہے گی۔
(سيرتِ ابن هشام ج۴ ص۵۰۱ تا ۵۰۲)
مدینہ کے لئے دُعا :۔
چونکہ مدینہ کی آب و ہوا اچھی نہ تھی یہاں طرح طرح کی وبائیں اور بماریاں پھیلتی رہتی تھیں اس لئے کثرت سے مہاجرین بیمار ہونے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شدید لرزہ بخار میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئے اور بخار کی شدت میں یہ حضرات اپنے وطن مکہ کو یاد کر کے کفار مکہ پر لعنت بھیجتے تھے اور مکہ کی پہاڑیوں اور گھاسوں کے فراق میں اشعار پڑھتے تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ دعا فرمائی کہ یااﷲ ! ہمارے دلوں مں مدینہ کی ایسی ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور مدینہ کے صاع اور مُد (ناپ تول کے برتنوں) میں خیر و برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو ” جحفہ ” کی طرف منتقل فرما دے۔ (مدارج جلد ۲ ص۷۰ و بخاری)
حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے :۔
۱ ھ کے واقعات میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ فارس کے رہنے والے تھے۔ ان کے آباء و اجداد بلکہ ان کے ملک کی پوری آبادی مجوسی (آتش پرست) تھی۔ یہ اپنے آبائی دین سے بیزار ہو کر دین حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکلے مگر ڈاکوؤں نے ان کو گرفتار کر کے اپنا غلام بنا لیا پھر ان کو بیچ ڈالا۔ چنانچہ یہ کئی بار بکتے رہے اور مختلف لوگوں کی غلامی میں رہے۔ اسی طرح یہ مدینہ پہنچے، کچھ دنوں تک عیسائی بن کر رہے اور یہودیوں سے بھی میل جول رکھتے رہے۔ اس طرح ان کو توریت و انجیل کی کافی معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو پہلے دن تازہ کھجوروں کا ایک طباق خدمت اقدس میں یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ” صدقہ ” ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو ہمارے سامنے سے اٹھا کر فقرا و مساکین کو دے دو کیونکہ میں صدقہ نہیں کھاتا۔ پھر دوسرے دن کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور یہ کہہ کر کہ یہ ” ہدیہ ” ہے سامنے رکھ دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہاتھ بڑھانے کا اشارہ فرمایا اور خود بھی کھا لیا۔ اس درمیان میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان جو نظر ڈالی تو ” مہر نبوت ” کو دیکھ لیا چونکہ یہ توراۃ و انجیل میں نبی آخر الزمان کی نشانیاں پڑھ چکے تھے اس لئے فوراً ہی اسلام قبول کر لیا۔ (مدارج جلد۲ ص۷۱ وغيره)
نمازوں کی رکعت میں اضافہ :۔
اب تک فرض نمازوں میں صرف دو ہی رکعتیں تھیں مگر ہجرت کے سال اول ہی میں جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ظہر و عصر و عشاء میں چار چار رکعتیں فرض ہو گئیں لیکن سفر کی حالت میں اب بھی وہی دو رکعتیں قائم رہیں اسی کو سفر کی حالت میں نمازوں میں ” قصر ” کہتے ہیں۔ (مدارج جلد۲ ص۷۱)
چونکہ مدینہ کی آب و ہوا اچھی نہ تھی یہاں طرح طرح کی وبائیں اور بماریاں پھیلتی رہتی تھیں اس لئے کثرت سے مہاجرین بیمار ہونے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شدید لرزہ بخار میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئے اور بخار کی شدت میں یہ حضرات اپنے وطن مکہ کو یاد کر کے کفار مکہ پر لعنت بھیجتے تھے اور مکہ کی پہاڑیوں اور گھاسوں کے فراق میں اشعار پڑھتے تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ دعا فرمائی کہ یااﷲ ! ہمارے دلوں مں مدینہ کی ایسی ہی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا دے اور مدینہ کے صاع اور مُد (ناپ تول کے برتنوں) میں خیر و برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو ” جحفہ ” کی طرف منتقل فرما دے۔ (مدارج جلد ۲ ص۷۰ و بخاری)
حضرت سلمان فارسی مسلمان ہو گئے :۔
۱ ھ کے واقعات میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ فارس کے رہنے والے تھے۔ ان کے آباء و اجداد بلکہ ان کے ملک کی پوری آبادی مجوسی (آتش پرست) تھی۔ یہ اپنے آبائی دین سے بیزار ہو کر دین حق کی تلاش میں اپنے وطن سے نکلے مگر ڈاکوؤں نے ان کو گرفتار کر کے اپنا غلام بنا لیا پھر ان کو بیچ ڈالا۔ چنانچہ یہ کئی بار بکتے رہے اور مختلف لوگوں کی غلامی میں رہے۔ اسی طرح یہ مدینہ پہنچے، کچھ دنوں تک عیسائی بن کر رہے اور یہودیوں سے بھی میل جول رکھتے رہے۔ اس طرح ان کو توریت و انجیل کی کافی معلومات حاصل ہو چکی تھیں۔ یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو پہلے دن تازہ کھجوروں کا ایک طباق خدمت اقدس میں یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ” صدقہ ” ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو ہمارے سامنے سے اٹھا کر فقرا و مساکین کو دے دو کیونکہ میں صدقہ نہیں کھاتا۔ پھر دوسرے دن کھجوروں کا خوان لے کر پہنچے اور یہ کہہ کر کہ یہ ” ہدیہ ” ہے سامنے رکھ دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہاتھ بڑھانے کا اشارہ فرمایا اور خود بھی کھا لیا۔ اس درمیان میں حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان جو نظر ڈالی تو ” مہر نبوت ” کو دیکھ لیا چونکہ یہ توراۃ و انجیل میں نبی آخر الزمان کی نشانیاں پڑھ چکے تھے اس لئے فوراً ہی اسلام قبول کر لیا۔ (مدارج جلد۲ ص۷۱ وغيره)
نمازوں کی رکعت میں اضافہ :۔
اب تک فرض نمازوں میں صرف دو ہی رکعتیں تھیں مگر ہجرت کے سال اول ہی میں جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ظہر و عصر و عشاء میں چار چار رکعتیں فرض ہو گئیں لیکن سفر کی حالت میں اب بھی وہی دو رکعتیں قائم رہیں اسی کو سفر کی حالت میں نمازوں میں ” قصر ” کہتے ہیں۔ (مدارج جلد۲ ص۷۱)
تین جاں نثاروں کی وفات :۔
اس سال حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے تین نہایت ہی شاندار اور جاں نثار حضرات نے وفات پائی جو درحقیقت اسلام کے سچے جاں نثار اور بہت ہی بڑے معین و مددگار تھے۔
اوّل :۔ حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ وہ خوش نصیب مدینہ کے رہنے والے انصاری ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر ” قبا ” میں تشریف لائے تو سب سے پہلے انہی کے مکان کو شرفِ نزول بخشا اور بڑے بڑے مہاجرین صحابہ بھی انہی کے مکان میں ٹھہرے تھے اور انہوں نے دونوں عالم کے میزبان کو اپنے گھر میں مہمان بنا کر ایسی میزبانی اور مہمان نوازی کی کہ قیامت تک تاریخ رسالت کے صفحات پر ان کا نام نامی ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا۔
دوم :۔حضرت براء بن معرور انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ وہ شخص ہیں کہ ” بیعت عقبہ ثانیہ میں سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ اپنے قبیلہ ” خزرج ” کے نقیبوں میں تھے۔
سوم :۔حضرت اسعد بن زرارہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ بیعتِ عقبۂ اولیٰ اور بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی دونوں بیعتوں میں شامل رہے اور یہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مدینہ میں اسلام کا ڈنکا بجایا اور ہر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔
جب مذکورہ بالا تینوں معززین صحابہ نے وفات پائی تو منافقین اور یہودیوں نے اس کی خوشی منائی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو طعنہ دینا شروع کیا کہ اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان کو یہ صدمات کیوں پہنچاتا ؟ خدا کی شان کہ ٹھیک اسی زمانے میں کفار کے دو بہت ہی بڑے بڑے سردار بھی مر کر مردار ہو گئے۔ ایک ” عاص بن وائل سہمی ” جو حضرت عمرو بن العاص صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فاتح مصر کا باپ تھا۔ دوسرا ” ولید بن مغیرہ ” جو حضرت خالد سیف اﷲ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا باپ تھا۔
روایت ہے کہ ” ولید بن مغیرہ ” جاں کنی کے وقت بہت زیادہ بے چین ہو کر تڑپنے اور بے قرار ہو کر رونے لگا اور فریاد کرنے لگا تو ابوجہل نے پوچھا کہ چچا جان ! آخر آپ کی بے قراری اور اس گریہ و زاری کی کیا و جہ ہے ؟ تو ” ولید بن مغیرہ ” بولا کہ میرے بھتیجے ! میں اس لئے اتنی بے قراری سے رو رہا ہوں کہ مجھے اب یہ ڈر ہے کہ میرے بعد مکہ میں محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے گا۔ یہ سن کر ابو سفیان نے تسلی دی اور کہا کہ چچا ! آپ ہرگز ہرگز اس کا غم نہ کریں میں ضامن ہوتا ہوں کہ میں دین اسلام کو مکہ میں نہیں پھیلنے دوں گا۔ چنانچہ ابو سفیان اپنے اس عہد پر اس طرح قائم رہے کہ مکہ فتح ہونے تک وہ برابر اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہے مگر فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ایسے صادق الاسلام بن گئے کہ اسلام کی نصرت و حمایت کے لئے زندگی بھر جہاد کرتے رہے اور انہی جہادوں میں کفار کے تیروں سے ان کی آنکھیں زخمی ہو گئیں اور روشنی جاتی رہی۔ یہی وہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں جن کے سپوت بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۷۳ وغرنه)
اس سال حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے تین نہایت ہی شاندار اور جاں نثار حضرات نے وفات پائی جو درحقیقت اسلام کے سچے جاں نثار اور بہت ہی بڑے معین و مددگار تھے۔
اوّل :۔ حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ وہ خوش نصیب مدینہ کے رہنے والے انصاری ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر ” قبا ” میں تشریف لائے تو سب سے پہلے انہی کے مکان کو شرفِ نزول بخشا اور بڑے بڑے مہاجرین صحابہ بھی انہی کے مکان میں ٹھہرے تھے اور انہوں نے دونوں عالم کے میزبان کو اپنے گھر میں مہمان بنا کر ایسی میزبانی اور مہمان نوازی کی کہ قیامت تک تاریخ رسالت کے صفحات پر ان کا نام نامی ستاروں کی طرح چمکتا رہے گا۔
دوم :۔حضرت براء بن معرور انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ وہ شخص ہیں کہ ” بیعت عقبہ ثانیہ میں سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور یہ اپنے قبیلہ ” خزرج ” کے نقیبوں میں تھے۔
سوم :۔حضرت اسعد بن زرارہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ بیعتِ عقبۂ اولیٰ اور بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی دونوں بیعتوں میں شامل رہے اور یہ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مدینہ میں اسلام کا ڈنکا بجایا اور ہر گھر میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔
جب مذکورہ بالا تینوں معززین صحابہ نے وفات پائی تو منافقین اور یہودیوں نے اس کی خوشی منائی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو طعنہ دینا شروع کیا کہ اگر یہ پیغمبر ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان کو یہ صدمات کیوں پہنچاتا ؟ خدا کی شان کہ ٹھیک اسی زمانے میں کفار کے دو بہت ہی بڑے بڑے سردار بھی مر کر مردار ہو گئے۔ ایک ” عاص بن وائل سہمی ” جو حضرت عمرو بن العاص صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فاتح مصر کا باپ تھا۔ دوسرا ” ولید بن مغیرہ ” جو حضرت خالد سیف اﷲ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا باپ تھا۔
روایت ہے کہ ” ولید بن مغیرہ ” جاں کنی کے وقت بہت زیادہ بے چین ہو کر تڑپنے اور بے قرار ہو کر رونے لگا اور فریاد کرنے لگا تو ابوجہل نے پوچھا کہ چچا جان ! آخر آپ کی بے قراری اور اس گریہ و زاری کی کیا و جہ ہے ؟ تو ” ولید بن مغیرہ ” بولا کہ میرے بھتیجے ! میں اس لئے اتنی بے قراری سے رو رہا ہوں کہ مجھے اب یہ ڈر ہے کہ میرے بعد مکہ میں محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے گا۔ یہ سن کر ابو سفیان نے تسلی دی اور کہا کہ چچا ! آپ ہرگز ہرگز اس کا غم نہ کریں میں ضامن ہوتا ہوں کہ میں دین اسلام کو مکہ میں نہیں پھیلنے دوں گا۔ چنانچہ ابو سفیان اپنے اس عہد پر اس طرح قائم رہے کہ مکہ فتح ہونے تک وہ برابر اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہے مگر فتح مکہ کے دن ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا اور پھر ایسے صادق الاسلام بن گئے کہ اسلام کی نصرت و حمایت کے لئے زندگی بھر جہاد کرتے رہے اور انہی جہادوں میں کفار کے تیروں سے ان کی آنکھیں زخمی ہو گئیں اور روشنی جاتی رہی۔ یہی وہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں جن کے سپوت بیٹے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۷۳ وغرنه)
اسی سال ۱ ھ میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔ ہجرت کے بعد مہاجرین کے یہاں سب سے پہلا بچہ جو پیدا ہوا وہ یہی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ ان کی والدہ حضرت بی بی اسماء جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں پیدا ہوتے ہی ان کو لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں۔ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں بٹھا کر اور کھجور چبا کر ان کے منہ میں ڈال دی۔ اس طرح سب سے پہلی غذا جو ان کے شکم میں پہنچی وہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا لعابِ دہن تھا۔ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی پیدائش سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اس لئے کہ مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں نے مہاجرین پر ایسا جادو کر دیا ہے کہ ان لوگوں کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہی نہیں ہو گا۔ (زرقانی ج۱ ص۴۶۰ و اکمال)
ہجرت کا دوسرا سال
۱ ھ کی طرح ۲ ھ میں بھی بہت سے اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے جن میں سے چند بڑے بڑے واقعات یہ ہیں :۔
جب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ میں رہے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے مگر ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو خداوند تعالیٰ کا یہ حکم ہوا کہ آپ اپنی نمازوں میں ” بیت المقدس ” کو اپنا قبلہ بنائیں۔ چنانچہ آپ سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے رہے مگر آپ کے دل کی تمنا یہی تھی کہ کعبہ ہی کو قبلہ بنایا جائے۔ چنانچہ آپ اکثر آسمان کی طرف چہرہ اٹھا اٹھا کر اس کے لئے وحیِ الٰہی کا انتظار فرماتے رہے یہاں تک کہ ایک دن اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قلبی آرزو پوری فرمانے کے لئے قرآن کی یہ آیت نازل فرما دی کہ
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ ج فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا ص فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط (بقره)
ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپکا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ہم ضرور آپ کو پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں آپ کی خوشی ہے تو ابھی آپ پھیر دیجیے اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف ۔
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ ج فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰهَا ص فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط (بقره)
ہم دیکھ رہے ہیں بار بار آپکا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ہم ضرور آپ کو پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں آپ کی خوشی ہے تو ابھی آپ پھیر دیجیے اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف ۔
چنانچہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبیلۂ بنی سلمہ کی مسجد میں نمازِ ظہر پڑھا رہے تھے کہ حالت نماز ہی میں یہ وحی نازل ہوئی اور نماز ہی میں آپ نے بیت المقدس سے مڑ کر خانہ کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کر لیا اور تمام مقتدیوں نے بھی آپ کی پیروی کی۔ اس مسجد کو جہاں یہ واقعہ پیش آیا ” مسجد القبلتین ” کہتے ہیں اور آج بھی یہ تاریخی مسجد زیارت گاہ خواص و عوام ہے جو شہر مدینہ سے تقریباً دو کلو میٹر دور جانب شمال مغرب واقع ہے۔
اس قبلہ بدلنے کو ” تحویل قبلہ ” کہتے ہیں۔ تحویل قبلہ سے یہودیوں کو بڑی سخت تکلیف پہنچی جب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے تو یہودی بہت خوش تھے اور فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) بھی ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کر کے عبادت کرتے ہیں مگر جب قبلہ بدل گیا تو یہودی اس قدر برہم اور ناراض ہو گئے کہ وہ یہ طعنہ دینے لگے کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) چونکہ ہر بات میں ہم لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے انہوں نے محض ہماری مخالفت میں قبلہ بدل دیا ہے۔ اسی طرح منافقین کا گروہ بھی طرح طرح کی نکتہ چینی اور قسم قسم کے اعتراضات کرنے لگا تو ان دونوں گروہوں کی زبان بندی اور دہن دوزی کے لئے خداوند کریم نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
سَيَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِيْ کَانُوْا عَلَيْهَا ط قُلْ لِّـلّٰهِ لا الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ ط يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ
اب کہیں گے بیوقوف لوگوں میں سے کس نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے آپ کہہ دیجیے کہ پورب پچھم سب اﷲ ہی کا ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِيْ کُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ط وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ هَدَي اللّٰهُ ط (بقره)
اور (اے محبوب) آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بلاشبہ یہ بڑی بھاری بات تھی مگر جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دے دی ہے (ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں)
اس قبلہ بدلنے کو ” تحویل قبلہ ” کہتے ہیں۔ تحویل قبلہ سے یہودیوں کو بڑی سخت تکلیف پہنچی جب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے تو یہودی بہت خوش تھے اور فخر کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) بھی ہمارے ہی قبلہ کی طرف رُخ کر کے عبادت کرتے ہیں مگر جب قبلہ بدل گیا تو یہودی اس قدر برہم اور ناراض ہو گئے کہ وہ یہ طعنہ دینے لگے کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) چونکہ ہر بات میں ہم لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں اس لئے انہوں نے محض ہماری مخالفت میں قبلہ بدل دیا ہے۔ اسی طرح منافقین کا گروہ بھی طرح طرح کی نکتہ چینی اور قسم قسم کے اعتراضات کرنے لگا تو ان دونوں گروہوں کی زبان بندی اور دہن دوزی کے لئے خداوند کریم نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
سَيَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِيْ کَانُوْا عَلَيْهَا ط قُلْ لِّـلّٰهِ لا الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ ط يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ
اب کہیں گے بیوقوف لوگوں میں سے کس نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر وہ تھے آپ کہہ دیجیے کہ پورب پچھم سب اﷲ ہی کا ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِيْ کُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ط وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ هَدَي اللّٰهُ ط (بقره)
اور (اے محبوب) آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بلاشبہ یہ بڑی بھاری بات تھی مگر جن کو اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دے دی ہے (ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں)
پہلی آیت میں یہودیوں کے اعتراض کا جواب دیا گیا کہ خدا کی عبادت میں قبلہ کی کوئی خاص جہت ضروری نہیں ہے۔ اس کی عبادت کے لئے پورب، پچھم، اتر، دکھن، سب جہتیں برابر ہیں اﷲ تعالیٰ جس جہت کو چاہے اپنے بندوں کے لئے قبلہ مقرر فرما دے لہٰذا اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ دوسری آیت میں منافقین کی زَبان بندی کی گئی ہے جو تحویل قبلہ کے بعد ہر طرف یہ پروپیگنڈا کرنے لگے تھے کہ پیغمبر اسلام تو اپنے دین کے بارے میں خود ہی متردد ہیں کبھی بیت المقدس کو قبلہ مانتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ کعبہ قبلہ ہے۔ آیت میں تحویل قبلہ کی حکمت بتا دی گئی کہ منافقین جو محض نمائشی مسلمان بن کر نمازیں پڑھا کرتے تھے وہ قبلہ کے بدلتے ہی بدل گئے اور اسلام سے منحرف ہو گئے۔ اس طرح ظاہر ہو گیا کہ کون صادق الایمان ہے اور کون منافق اور کون رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہے اور کون دین سے پھر جانے والا۔ (عام کتب تفسير و سيرت)
لڑائیوں کا سلسلہ :۔
اب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے صرف یہ حکم تھا کہ دلائل اور موعظۂ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہیں اور مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر کا حکم تھا اسی لئے کافروں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، مگر مسلمانوں نے انتقام کے لئے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ کفار کی ایذاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن ہجرت کے بعد جب سارا عرب اور یہودی ان مٹھی بھر مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان مسلمانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کا عزم کر لیا تو خداوند قدوس نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا کریں ان سے تم بھی لڑ سکتے ہو۔
چنانچہ ۱۲ صفر ۲ ھ تواریخ اسلام میں وہ یادگار دن ہے جس میں خداوند کردگار نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور یہ آیت نازل فرمائی کہ
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ط اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ
جن سے لڑائی کی جاتی ہے (مسلمان) ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر یقینا قادر ہے۔
حضرت امام محمد بن شہاب زہری علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ جہاد کی اجازت کے بارے میں یہی وہ آیت ہے جو سب سے پہلے نازل ہوئی۔ مگر تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلے جو آیت اتری وہ یہ ہے :۔
وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ (بقره)
خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔
بہر حال ۲ ھ میں مسلمانوں کو خداوند تعالیٰ نے کفار سے لڑنے کی اجازت دے دی مگر ابتداء میں یہ اجازت مشروط تھی یعنی صرف انہیں کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت تھی جو مسلمانوں پر حملہ کریں۔ مسلمانوں کو ابھی تک اس کی اجازت نہیں ملی تھی کہ وہ جنگ میں اپنی طرف سے پہل کریں لیکن حق واضح ہو جانے اور باطل ظاہر ہو جانے کے بعد چونکہ تبلیغ حق اور احکام الٰہی کی نشر و اشاعت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر فرض تھی اس لئے تمام اُن کفار سے جو عناد کے طور پر حق کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے جہاد کا حکم نازل ہو گیا خواہ وہ مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کریں یا نہ کریں کیونکہ حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کو قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا اور باطل کو جبراً ترک کرانا یہ عین حکمت اور بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح کے لئے انتہائی ضروری تھا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہجرت کے بعد جتنی لڑائیاں بھی ہوئیں اگر پورے ماحول کو گہری نگاہ سے بغور دیکھا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب لڑائیاں کفار کی طرف سے مسلمانوں کے سر پر مسلط کی گئیں اور غریب مسلمان بدرجۂ مجبوری تلوار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ مثلاً مندرج ذیل چند واقعات پر ذرا تنقیدی نگاہ سے نظر ڈالیے۔
لڑائیوں کا سلسلہ :۔
اب تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے صرف یہ حکم تھا کہ دلائل اور موعظۂ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہیں اور مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر کا حکم تھا اسی لئے کافروں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، مگر مسلمانوں نے انتقام کے لئے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ کفار کی ایذاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن ہجرت کے بعد جب سارا عرب اور یہودی ان مٹھی بھر مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان مسلمانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کا عزم کر لیا تو خداوند قدوس نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا کریں ان سے تم بھی لڑ سکتے ہو۔
چنانچہ ۱۲ صفر ۲ ھ تواریخ اسلام میں وہ یادگار دن ہے جس میں خداوند کردگار نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور یہ آیت نازل فرمائی کہ
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ط اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ
جن سے لڑائی کی جاتی ہے (مسلمان) ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر یقینا قادر ہے۔
حضرت امام محمد بن شہاب زہری علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ جہاد کی اجازت کے بارے میں یہی وہ آیت ہے جو سب سے پہلے نازل ہوئی۔ مگر تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلے جو آیت اتری وہ یہ ہے :۔
وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ (بقره)
خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔
بہر حال ۲ ھ میں مسلمانوں کو خداوند تعالیٰ نے کفار سے لڑنے کی اجازت دے دی مگر ابتداء میں یہ اجازت مشروط تھی یعنی صرف انہیں کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت تھی جو مسلمانوں پر حملہ کریں۔ مسلمانوں کو ابھی تک اس کی اجازت نہیں ملی تھی کہ وہ جنگ میں اپنی طرف سے پہل کریں لیکن حق واضح ہو جانے اور باطل ظاہر ہو جانے کے بعد چونکہ تبلیغ حق اور احکام الٰہی کی نشر و اشاعت حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر فرض تھی اس لئے تمام اُن کفار سے جو عناد کے طور پر حق کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے جہاد کا حکم نازل ہو گیا خواہ وہ مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کریں یا نہ کریں کیونکہ حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کو قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا اور باطل کو جبراً ترک کرانا یہ عین حکمت اور بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح کے لئے انتہائی ضروری تھا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہجرت کے بعد جتنی لڑائیاں بھی ہوئیں اگر پورے ماحول کو گہری نگاہ سے بغور دیکھا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب لڑائیاں کفار کی طرف سے مسلمانوں کے سر پر مسلط کی گئیں اور غریب مسلمان بدرجۂ مجبوری تلوار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ مثلاً مندرج ذیل چند واقعات پر ذرا تنقیدی نگاہ سے نظر ڈالیے۔
(۱)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر انتہائی بیکسی کے عالم میں مدینہ چلے آئے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کفار مکہ اب اطمینان سے بیٹھ رہتے کہ ان کے دشمن یعنی رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمان ان کے شہر سے نکل گئے مگر ہوا یہ کہ ان کافروں کے غیظ و غضب کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ اب یہ لوگ اہل مدینہ کے بھی دشمن جان بن گئے۔ چنانچہ ہجرت کے چند روز بعد کفار مکہ نے رئیس انصار ” عبداﷲ بن ابی ” کے پاس دھمکیوں سے بھرا ہوا ایک خط بھیجا۔ ” عبداﷲ بن ابی ” وہ شخص ہے کہ واقعۂ ہجرت سے پہلے تمام مدینہ والوں نے اس کو اپنا بادشاہ مان کر اس کی تاج پوشی کی تیاری کر لی تھی مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہ اسکیم ختم ہو گئی۔ چنانچہ اسی غم و غصہ میں عبداﷲ بن اُبی عمر بھر منافقوں کا سردار بن کر اسلام کی بیخ کنی کرتا رہا اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف رہا۔(بخاری باب التسليم فی مجلس فی اخلاط ج۲ ص۹۲۴)
بہر کیف کفار مکہ نے اس دشمن اسلام کے نام جو خط لکھا اس کا مضمون یہ ہے کہ تم نے ہمارے آدمی (محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیں گے اور تمہارے تمام لڑنے والے جوانوں کو قتل کرکے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے۔(ابو داؤد ج۲ ص۶۷ باب فی خبر النفير)
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کفار مکہ کے اس تہدید آمیز اور خوفناک خط کی خبر معلوم ہوئی تو آپ نے عبداﷲ بن اُبی سے ملاقات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ” کیا تم اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کرو گے۔ ” چونکہ اکثر انصار دامن اسلام میں آ چکے تھے اس لئے عبداﷲ بن اُبی نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور کفار مکہ کے حکم پر عمل نہیں کر سکا۔
(۲)ٹھیک اسی زمانے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے عمرہ ادا کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ گئے اور پرانے تعلقات کی بنا پر ” اُمیہ بن خلف ” کے مکان پر قیام کیا۔ جب اُمیہ ٹھیک دوپہر کے وقت ان کو ساتھ لے کر طوافِ کعبہ کے لئے گیا تو اتفاق سے ابوجہل سامنے آ گیا اور ڈانٹ کر کہا کہ اے اُمیہ ! یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اُمیہ نے کہا کہ یہ مدینہ کے رہنے والے ” سعد بن معاذ ” ہیں۔ یہ سن کر ابوجہل نے تڑپ کر کہا کہ تم لوگوں نے بے دھرموں (محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے۔ خدا کی قسم ! اگر تم اُمیہ کے ساتھ میں نہ ہوتے تو بچ کر واپس نہیں جا سکتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی انتہائی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ جواب دیا کہ اگر تم لوگوں نے ہم کو کعبہ کی زیارت سے روکا تو ہم تمہاری شام کی تجارت کا راستہ روک دیں گے۔(بخاری کتاب المغازی ج۲ ص۵۶۳ )
(۳)کفارِ مکہ نے صرف انہی دھمکیوں پر بس نہیں کیا بلکہ وہ مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کرنے لگے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنانے لگے۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم راتوں کو جاگ جاگ کر بسر کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے۔ کفار مکہ نے سارے عرب پر اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے تمام قبائل میں یہ آگ بھڑکا دی تھی کہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کرنا ضروری ہے۔
مذکورہ بالا تینوں وجوہات کی موجودگی میں ہر عاقل کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ ان حالات میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حفاظت خود اختیاری کے لئے کچھ نہ کچھ تدبیر کرنی ضروری ہی تھی تا کہ انصار و مہاجرین اور خود اپنی زندگی کی بقاء اور سلامتی کا سامان ہو جائے۔
چنانچہ کفارِ مکہ کے خطرناک ارادوں کا علم ہو جانے کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اور صحابہ کی حفاظت خود اختیاری کے لئے دو تدبیروں پر عمل درآمد کا فیصلہ فرمایا۔
اوّل :۔یہ کہ کفار مکہ کی شامی تجارت جس پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے اس میں رکاوٹ ڈال دی جائے تا کہ وہ مدینہ پر حملہ کا خیال چھوڑ دیں اور صلح پر مجبور ہو جائیں۔
بہر کیف کفار مکہ نے اس دشمن اسلام کے نام جو خط لکھا اس کا مضمون یہ ہے کہ تم نے ہمارے آدمی (محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیں گے اور تمہارے تمام لڑنے والے جوانوں کو قتل کرکے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے۔(ابو داؤد ج۲ ص۶۷ باب فی خبر النفير)
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کفار مکہ کے اس تہدید آمیز اور خوفناک خط کی خبر معلوم ہوئی تو آپ نے عبداﷲ بن اُبی سے ملاقات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ” کیا تم اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کرو گے۔ ” چونکہ اکثر انصار دامن اسلام میں آ چکے تھے اس لئے عبداﷲ بن اُبی نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور کفار مکہ کے حکم پر عمل نہیں کر سکا۔
(۲)ٹھیک اسی زمانے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے عمرہ ادا کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ گئے اور پرانے تعلقات کی بنا پر ” اُمیہ بن خلف ” کے مکان پر قیام کیا۔ جب اُمیہ ٹھیک دوپہر کے وقت ان کو ساتھ لے کر طوافِ کعبہ کے لئے گیا تو اتفاق سے ابوجہل سامنے آ گیا اور ڈانٹ کر کہا کہ اے اُمیہ ! یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اُمیہ نے کہا کہ یہ مدینہ کے رہنے والے ” سعد بن معاذ ” ہیں۔ یہ سن کر ابوجہل نے تڑپ کر کہا کہ تم لوگوں نے بے دھرموں (محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے۔ خدا کی قسم ! اگر تم اُمیہ کے ساتھ میں نہ ہوتے تو بچ کر واپس نہیں جا سکتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی انتہائی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ جواب دیا کہ اگر تم لوگوں نے ہم کو کعبہ کی زیارت سے روکا تو ہم تمہاری شام کی تجارت کا راستہ روک دیں گے۔(بخاری کتاب المغازی ج۲ ص۵۶۳ )
(۳)کفارِ مکہ نے صرف انہی دھمکیوں پر بس نہیں کیا بلکہ وہ مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کرنے لگے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنانے لگے۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم راتوں کو جاگ جاگ کر بسر کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے۔ کفار مکہ نے سارے عرب پر اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے تمام قبائل میں یہ آگ بھڑکا دی تھی کہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کرنا ضروری ہے۔
مذکورہ بالا تینوں وجوہات کی موجودگی میں ہر عاقل کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ ان حالات میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حفاظت خود اختیاری کے لئے کچھ نہ کچھ تدبیر کرنی ضروری ہی تھی تا کہ انصار و مہاجرین اور خود اپنی زندگی کی بقاء اور سلامتی کا سامان ہو جائے۔
چنانچہ کفارِ مکہ کے خطرناک ارادوں کا علم ہو جانے کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اور صحابہ کی حفاظت خود اختیاری کے لئے دو تدبیروں پر عمل درآمد کا فیصلہ فرمایا۔
اوّل :۔یہ کہ کفار مکہ کی شامی تجارت جس پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے اس میں رکاوٹ ڈال دی جائے تا کہ وہ مدینہ پر حملہ کا خیال چھوڑ دیں اور صلح پر مجبور ہو جائیں۔
دوم :۔یہ کہ مدینہ کے اطراف میں جو قبائل آباد ہیں ان سے امن و امان کا معاہدہ ہو جائے تا کہ کفار مکہ مدینہ پر حملہ کی نیت نہ کر سکیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی دو تدبیروں کے پیش نظر صحابہ کرام کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کو مدینہ کے اطراف میں بھیجنا شروع کر دیااور بعض بعض لشکروں کے ساتھ خود بھی تشریف لے گئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے یہ چھوٹے چھوٹے لشکر کبھی کفار مکہ کی نقل و حرکت کا پتہ لگانے کے لئے جاتے تھے اور کہیں بعض قبائل سے معاہدۂ امن و امان کرنے کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ کہیں اس مقصد سے بھی جاتے تھے کہ کفارِ مکہ کی شامی تجارت کا راستہ بند ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں کفارِ مکہ اور ان کے حلیفوں سے مسلمانوں کا ٹکراؤ شروع ہوا اور چھوٹی بڑی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا انہی لڑائیوں کو تاریخ اسلام میں ” غزوات و سرایا ” کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔
غزوہ و سریّہ کا فرق :۔
یہاں مصنفین سیرت کی یہ اصطلاح یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے اس کو ” غزوہ ” کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام شامل نہیں ہوئے ان کو ” سرِیّہ ” کہتے ہیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۷۶ وغيره )
“غزوات ” یعنی جن جن لشکروں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شریک ہوئے ان کی تعداد میں مورخین کا اختلاف ہے۔ ” مواہب لدنیہ ” میں ہے کہ ” غزوات ” کی تعداد ” ستائیس ” ہے اور روضۃ الاحباب میں یہ لکھا ہے کہ ” غزوات کی تعداد ” ایک قول کی بنا پر ” اکیس ” اور بعض کے نزدیک ” چوبیس ” ہے اور بعض نے کہا کہ ” پچیس ” اور بعض نے لکھا ” چھبیس ” ہے۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۸۸)
مگر حضرت امام بخاری نے حضرت زید بن ارقم صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جو روایت تحریر کی ہے اس میں غزوات کی کل تعداد ” انیس ” بتائی گئی ہے اور ان میں سے جن نو غزوات میں جنگ بھی ہوئی وہ یہ ہیں :۔
(۱) جنگ بدر (۲) جنگ اُحد (۳) جنگ احزاب (۴) جنگ بنو قریظہ (۵) جنگ بنو المصطلق (۶) جنگ خیبر (۷) فتح مکہ (۸) جنگ حنین(۹) جنگ طائف
“سرایا ” یعنی جن لشکروں کیساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف نہیں لے گئے ان کی تعداد بعض مورخین کے نزدیک ” سینتالیس ” اور بعض کے نزدیک ” چھپن ” ہے۔
امام بخاری نے محمد بن اسحق سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلا غزوہ ” ابواء ” اور سب سے آخری غزوہ “تبوک” ہے اور سب سے پہلا “سریہ” جو مدینہ سے جنگ کے لیے روانہ ہوا وہ ” سریۂ حمزہ ” ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
غزوات و سرایا :۔
ہجرت کے بعد کا تقریباً کل زمانہ ” غزوات و سرایا ” کے اہتمام و انتظام میں گزرااس لیے کہ اگر” غزوات ” کی کم سے کم تعداد جو روایات میں آئی ہے۔ یعنی ” انیس ” اور ” سرایا ” کی کم سے کم تعداد جو روایتوں میں ہے یعنی ” سینتالیس ” شمار کرلی جائے تو نو سال میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چھوٹی بڑی ” چھیاسٹھ ” لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا ” غزوات وسرایا ” کا عنوان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرتِ مقدسہ کا بہت ہی عظیم الشان حصہ ہے اور بحمدہ تعالیٰ ان تمام غزوات و سرایا اور ان کے وجوہ و اسباب کا پورا پورا حال اسلامی تاریخوں میں مذکور و محفوظ ہے، مگر یہ اتنا لمبا چوڑا مضمون ہے کہ ہماری اس کتاب کا تنگ دامن ان تمام مضامین کو سمیٹنے سے بالکل ہی قاصر ہے لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر ہم بالکل ہی ان مضامین کو چھوڑ دیں تو یقینا ” سیرتِ رسول ” کا مضمون بالکل ہی ناقص اور نامکمل رہ جائے گا اس لیے مختصر طور پر چند مشہور غزوات و سرایا کا یہاں ذکر کر دینا نہایت ضروری ہے تاکہ سیرتِ مقدسہ کا یہ اہم باب بھی ناظرین کے لیے نظر افروز ہو جائے۔
یہاں مصنفین سیرت کی یہ اصطلاح یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ جنگی لشکر جس کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے اس کو ” غزوہ ” کہتے ہیں اور وہ لشکروں کی ٹولیاں جن میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام شامل نہیں ہوئے ان کو ” سرِیّہ ” کہتے ہیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۷۶ وغيره )
“غزوات ” یعنی جن جن لشکروں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شریک ہوئے ان کی تعداد میں مورخین کا اختلاف ہے۔ ” مواہب لدنیہ ” میں ہے کہ ” غزوات ” کی تعداد ” ستائیس ” ہے اور روضۃ الاحباب میں یہ لکھا ہے کہ ” غزوات کی تعداد ” ایک قول کی بنا پر ” اکیس ” اور بعض کے نزدیک ” چوبیس ” ہے اور بعض نے کہا کہ ” پچیس ” اور بعض نے لکھا ” چھبیس ” ہے۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۸۸)
مگر حضرت امام بخاری نے حضرت زید بن ارقم صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جو روایت تحریر کی ہے اس میں غزوات کی کل تعداد ” انیس ” بتائی گئی ہے اور ان میں سے جن نو غزوات میں جنگ بھی ہوئی وہ یہ ہیں :۔
(۱) جنگ بدر (۲) جنگ اُحد (۳) جنگ احزاب (۴) جنگ بنو قریظہ (۵) جنگ بنو المصطلق (۶) جنگ خیبر (۷) فتح مکہ (۸) جنگ حنین(۹) جنگ طائف
“سرایا ” یعنی جن لشکروں کیساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف نہیں لے گئے ان کی تعداد بعض مورخین کے نزدیک ” سینتالیس ” اور بعض کے نزدیک ” چھپن ” ہے۔
امام بخاری نے محمد بن اسحق سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلا غزوہ ” ابواء ” اور سب سے آخری غزوہ “تبوک” ہے اور سب سے پہلا “سریہ” جو مدینہ سے جنگ کے لیے روانہ ہوا وہ ” سریۂ حمزہ ” ہے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
غزوات و سرایا :۔
ہجرت کے بعد کا تقریباً کل زمانہ ” غزوات و سرایا ” کے اہتمام و انتظام میں گزرااس لیے کہ اگر” غزوات ” کی کم سے کم تعداد جو روایات میں آئی ہے۔ یعنی ” انیس ” اور ” سرایا ” کی کم سے کم تعداد جو روایتوں میں ہے یعنی ” سینتالیس ” شمار کرلی جائے تو نو سال میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو چھوٹی بڑی ” چھیاسٹھ ” لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا ” غزوات وسرایا ” کا عنوان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرتِ مقدسہ کا بہت ہی عظیم الشان حصہ ہے اور بحمدہ تعالیٰ ان تمام غزوات و سرایا اور ان کے وجوہ و اسباب کا پورا پورا حال اسلامی تاریخوں میں مذکور و محفوظ ہے، مگر یہ اتنا لمبا چوڑا مضمون ہے کہ ہماری اس کتاب کا تنگ دامن ان تمام مضامین کو سمیٹنے سے بالکل ہی قاصر ہے لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر ہم بالکل ہی ان مضامین کو چھوڑ دیں تو یقینا ” سیرتِ رسول ” کا مضمون بالکل ہی ناقص اور نامکمل رہ جائے گا اس لیے مختصر طور پر چند مشہور غزوات و سرایا کا یہاں ذکر کر دینا نہایت ضروری ہے تاکہ سیرتِ مقدسہ کا یہ اہم باب بھی ناظرین کے لیے نظر افروز ہو جائے۔
سریۂ حمزہ :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب جہاد کی آیت نازل ہوگئی تو سب سے پہلے جو ایک چھوٹا سا لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا اس کا نام ” سریۂ حمزہ ” ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوایک سفید جھنڈا عطا فرمایا اور اس جھنڈے کے نیچے صرف ۳۰ مہاجرین کو ایک لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے بھیجا جو تین سو کی تعداد میں تھے اور ابوجہل ان کا سپہ سالار تھا۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ” سیف البحر ” تک پہنچے اور دونوں طرف سے جنگ کے لیے صف بندی بھی ہو گئی لیکن ایک شخص مجدی بن عمرو جہنی نے جو دونوں فریق کا حلیف تھا بیچ میں پڑ کر لڑائی موقوف کرا دی۔(مدارج جلد۲ ص۷۸ و زُر قانی ج۱ ص۳۹۰)
سریۂ عبیدہ بن الحارث :۔
اسی سال ساٹھ یا اسّی مہاجرین کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفید جھنڈے کے ساتھ امیر بنا کر ” رابغ ” کی طرف روانہ فرمایا۔ اس سریہ کے علمبردار حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ جب یہ لشکر ” ثنیۂ مرہ ” کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور ابوجہل کے لڑکے عکرمہ کی کمان میں دو سو کفار قریش جمع تھے دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کفار پر تیر پھینکا یہ سب سے پہلا تیر تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کفار مکہ پر چلایا گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کل آٹھ تیر پھینکے اور ہر تیر نشانہ پر ٹھیک بیٹھا۔ کفار ان تیروں کی مار سے گھبرا کر فرار ہو گئے اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔(مدارج جلد۲ ص۷۸ و زر قانی ج۱ ص۳۹۲)
سریۂ سعد بن ابی وقاص :۔
اسی سال ماہ ذوالقعدہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیس سواروں کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس مقصد سے بھیجا تا کہ یہ لوگ کفار قریش کے ایک لشکر کا راستہ روکیں، اس سریہ کا جھنڈا بھی سفید رنگ کا تھا اور حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس لشکر کے علمبردار تھے۔ یہ لشکر راتوں رات سفر کرتے ہوئے جب پانچویں دن مقام ” خرار ” پر پہنچا تو پتہ چلا کہ مکہ کے کفار ایک دن پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں اس لیے کسی تصادم کی نوبت ہی نہیں آئی۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۲)
غزوۂ ابواء :۔
اس غزوہ کو ” غزوہ ودان ” بھی کہتے ہیں۔ یہ سب سے پہلا غزوہ ہے یعنی پہلی مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جہاد کے ارادہ سے ماہ صفر ۲ ھ میں ساٹھ مہاجرین کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایا اور حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جھنڈا دیااور مقام ” ابواء ” تک کفار کا پیچھا کرتے ہوئے تشریف لے گئے مگر کفار مکہ فرار کر چکے تھے اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ” ابواء ” مدینہ سے اسّی میل دور ایک گاؤں ہے جہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کا مزار ہے۔ یہاں چند دن ٹھہر کر قبیلہ بنو ضمرہ کے سردار ” مخشی بن عمرو ضمری ” سے امداد باہمی کا ایک تحریری معاہدہ کیااور مدینہ واپس تشریف لائے اس غزوہ میں پندرہ دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۳)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب جہاد کی آیت نازل ہوگئی تو سب سے پہلے جو ایک چھوٹا سا لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے روانہ فرمایا اس کا نام ” سریۂ حمزہ ” ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوایک سفید جھنڈا عطا فرمایا اور اس جھنڈے کے نیچے صرف ۳۰ مہاجرین کو ایک لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے بھیجا جو تین سو کی تعداد میں تھے اور ابوجہل ان کا سپہ سالار تھا۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ” سیف البحر ” تک پہنچے اور دونوں طرف سے جنگ کے لیے صف بندی بھی ہو گئی لیکن ایک شخص مجدی بن عمرو جہنی نے جو دونوں فریق کا حلیف تھا بیچ میں پڑ کر لڑائی موقوف کرا دی۔(مدارج جلد۲ ص۷۸ و زُر قانی ج۱ ص۳۹۰)
سریۂ عبیدہ بن الحارث :۔
اسی سال ساٹھ یا اسّی مہاجرین کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفید جھنڈے کے ساتھ امیر بنا کر ” رابغ ” کی طرف روانہ فرمایا۔ اس سریہ کے علمبردار حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ جب یہ لشکر ” ثنیۂ مرہ ” کے مقام پر پہنچا تو ابو سفیان اور ابوجہل کے لڑکے عکرمہ کی کمان میں دو سو کفار قریش جمع تھے دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کفار پر تیر پھینکا یہ سب سے پہلا تیر تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کفار مکہ پر چلایا گیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کل آٹھ تیر پھینکے اور ہر تیر نشانہ پر ٹھیک بیٹھا۔ کفار ان تیروں کی مار سے گھبرا کر فرار ہو گئے اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔(مدارج جلد۲ ص۷۸ و زر قانی ج۱ ص۳۹۲)
سریۂ سعد بن ابی وقاص :۔
اسی سال ماہ ذوالقعدہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیس سواروں کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس مقصد سے بھیجا تا کہ یہ لوگ کفار قریش کے ایک لشکر کا راستہ روکیں، اس سریہ کا جھنڈا بھی سفید رنگ کا تھا اور حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس لشکر کے علمبردار تھے۔ یہ لشکر راتوں رات سفر کرتے ہوئے جب پانچویں دن مقام ” خرار ” پر پہنچا تو پتہ چلا کہ مکہ کے کفار ایک دن پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں اس لیے کسی تصادم کی نوبت ہی نہیں آئی۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۲)
غزوۂ ابواء :۔
اس غزوہ کو ” غزوہ ودان ” بھی کہتے ہیں۔ یہ سب سے پہلا غزوہ ہے یعنی پہلی مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جہاد کے ارادہ سے ماہ صفر ۲ ھ میں ساٹھ مہاجرین کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایا اور حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جھنڈا دیااور مقام ” ابواء ” تک کفار کا پیچھا کرتے ہوئے تشریف لے گئے مگر کفار مکہ فرار کر چکے تھے اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ” ابواء ” مدینہ سے اسّی میل دور ایک گاؤں ہے جہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کا مزار ہے۔ یہاں چند دن ٹھہر کر قبیلہ بنو ضمرہ کے سردار ” مخشی بن عمرو ضمری ” سے امداد باہمی کا ایک تحریری معاہدہ کیااور مدینہ واپس تشریف لائے اس غزوہ میں پندرہ دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔(زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۳)
غزوۂ بواط :۔
ہجرت کے تیرھویں مہینے ۲ ھ میں مدینہ پر حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاکم بنا کر دو سو مہاجرین کو ساتھ لے کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جہاد کی نیت سے روانہ ہوئے۔ اس غزوہ کا جھنڈا بھی سفید تھا اور علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس غزوہ کا مقصد کفار مکہ کے ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا۔ اس قافلہ کا سالار ” امیہ بن خلف جمحی ” تھا اور اس قافلہ میں ایک سو قریشی کفار اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قافلہ کی تلاش میں مقام ” بواط ” تک تشریف لے گئے مگر کفار قریش کا کہیں سامنا نہیں ہوا اس لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بغیر کسی جنگ کے مدینہ واپس تشریف لائے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۳ )
غزوۂ سفوان :۔
اسی سال ” کرزبن جابر فہری ” نے مدینہ کی چراگاہ میں ڈاکہ ڈالا اور کچھ اونٹوں کو ہانک کر لے گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنا کر اور حضر ت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علمبردار بنا کر صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ وادی سفوان تک اس ڈاکو کا تعاقب کیا مگر وہ اس قدر تیزی کے ساتھ بھاگا کہ ہاتھ نہیں آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے۔ وادی سفوان ” بدر ” کے قریب ہے اسی لیے بعض مؤرخین نے اس غزوہ کا نام ” غزوۂ بدرِ اولیٰ ” رکھا ہے۔ اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزوۂ سفوان اور غزوۂ بدرِ اولیٰ دونوں ایک ہی غزوہ کے دو نام ہیں۔ (مدارج جلد ۲ص ۷۹)
غزوۂ ذی العُشیرہ :۔
اسی ۲ ھ میں کفار قریش کا ایک قافلہ مال تجارت لے کر مکہ سے شام جا رہا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ڈیڑھ سو یا دو سو مہاجرین صحابہ کو ساتھ لے کر اس قافلہ کا راستہ روکنے کے لیے مقام ” ذی العشیرہ ” تک تشریف لے گئے جو ” ینبوع ” کی بندرگاہ کے قریب ہے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ اس لیے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا مگر یہی قافلہ جب شام سے واپس لوٹا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی مزاحمت کے لیے نکلے تو جنگ بدر کا معرکہ پیش آ گیا جس کا مفصل ذکر آگے آتا ہے۔ (زرقانی ج۱ ص۳۹۵)
سریۂ عبد اﷲ بن جحش :۔
اسی سال ماہ رجب ۲ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر بنا کر ان کی ماتحتی میں آٹھ یا بارہ مہاجرین کا ایک جتھ روانہ فرمایا، دو دو آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لفافہ میں ایک مہر بند خط دیا اور فرمایا کہ دو دن سفر کرنے کے بعد اس لفافہ کو کھول کر پڑھنا اور اس میں جو ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان پر عمل کرنا۔ جب خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ درج تھا کہ تم طائف اور مکہ کے درمیان مقام ” نخلہ ” میں ٹھہر کر قریش کے قافلوں پر نظر رکھو اور صورت حال کی ہمیں برابر خبر دیتے رہو۔ یہ بڑا ہی خطرناک کام تھا کیونکہ دشمنوں کے عین مرکز میں قیام کر کے جاسوسی کرنا گویا موت کے منہ میں جانا تھا مگر یہ سب جاں نثار بے دھڑک مقام ” نخلہ ” پہنچ گئے۔ عجیب اتفاق کہ رجب کی آخری تاریخ کو یہ لوگ نخلہ میں پہنچے اور اسی دن کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ آیا جس میں عمرو بن الحضرمی اور عبد اﷲ بن مغیرہ کے دو لڑکے عثمان و نوفل اور حکم بن کیسان وغیرہ تھے اور اونٹوں پر کھجور اور دوسرا مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔
امیر سریہ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اگر ہم ان قافلہ والوں کو چھوڑ دیں تو یہ لوگ مکہ پہنچ کر ہم لوگوں کی یہاں موجودگی سے مکہ والوں کو باخبر کردیں گے اور ہم لوگوں کو قتل یا گرفتار کرا دیں گے اور اگر ہم ان لوگوں سے جنگ کریں تو آج رجب کی آخری تاریخ ہے لہٰذا شہر حرام میں جنگ کرنے کا گناہ ہم پر لازم ہو گا۔ آخر یہی رائے قرار پائی کہ ان لوگوں سے جنگ کر کے اپنی جان کے خطرہ کو دفع کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت واقد بن عبداﷲ تمیمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسا تاک کر تیر مارا کہ وہ عمرو بن الحضرمی کو لگا اور وہ اسی تیر سے قتل ہو گیااور عثمان و حکم کو ان لوگوں نے گرفتار کر لیا، نوفل بھاگ نکلا۔ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اونٹوں اور ان پر لدے ہوئے مال و اسباب کو مال غنیمت بنا کر مدینہ لوٹ آئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں اس مال غنیمت کا پانچواں حصہ پیش کیا۔(زُرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۸)
ہجرت کے تیرھویں مہینے ۲ ھ میں مدینہ پر حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حاکم بنا کر دو سو مہاجرین کو ساتھ لے کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جہاد کی نیت سے روانہ ہوئے۔ اس غزوہ کا جھنڈا بھی سفید تھا اور علمبردار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس غزوہ کا مقصد کفار مکہ کے ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنا تھا۔ اس قافلہ کا سالار ” امیہ بن خلف جمحی ” تھا اور اس قافلہ میں ایک سو قریشی کفار اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قافلہ کی تلاش میں مقام ” بواط ” تک تشریف لے گئے مگر کفار قریش کا کہیں سامنا نہیں ہوا اس لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بغیر کسی جنگ کے مدینہ واپس تشریف لائے۔ (زرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۳ )
غزوۂ سفوان :۔
اسی سال ” کرزبن جابر فہری ” نے مدینہ کی چراگاہ میں ڈاکہ ڈالا اور کچھ اونٹوں کو ہانک کر لے گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنا کر اور حضر ت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علمبردار بنا کر صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ وادی سفوان تک اس ڈاکو کا تعاقب کیا مگر وہ اس قدر تیزی کے ساتھ بھاگا کہ ہاتھ نہیں آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے۔ وادی سفوان ” بدر ” کے قریب ہے اسی لیے بعض مؤرخین نے اس غزوہ کا نام ” غزوۂ بدرِ اولیٰ ” رکھا ہے۔ اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزوۂ سفوان اور غزوۂ بدرِ اولیٰ دونوں ایک ہی غزوہ کے دو نام ہیں۔ (مدارج جلد ۲ص ۷۹)
غزوۂ ذی العُشیرہ :۔
اسی ۲ ھ میں کفار قریش کا ایک قافلہ مال تجارت لے کر مکہ سے شام جا رہا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ڈیڑھ سو یا دو سو مہاجرین صحابہ کو ساتھ لے کر اس قافلہ کا راستہ روکنے کے لیے مقام ” ذی العشیرہ ” تک تشریف لے گئے جو ” ینبوع ” کی بندرگاہ کے قریب ہے مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ اس لیے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا مگر یہی قافلہ جب شام سے واپس لوٹا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی مزاحمت کے لیے نکلے تو جنگ بدر کا معرکہ پیش آ گیا جس کا مفصل ذکر آگے آتا ہے۔ (زرقانی ج۱ ص۳۹۵)
سریۂ عبد اﷲ بن جحش :۔
اسی سال ماہ رجب ۲ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو امیر لشکر بنا کر ان کی ماتحتی میں آٹھ یا بارہ مہاجرین کا ایک جتھ روانہ فرمایا، دو دو آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبد اﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لفافہ میں ایک مہر بند خط دیا اور فرمایا کہ دو دن سفر کرنے کے بعد اس لفافہ کو کھول کر پڑھنا اور اس میں جو ہدایات لکھی ہوئی ہیں ان پر عمل کرنا۔ جب خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ درج تھا کہ تم طائف اور مکہ کے درمیان مقام ” نخلہ ” میں ٹھہر کر قریش کے قافلوں پر نظر رکھو اور صورت حال کی ہمیں برابر خبر دیتے رہو۔ یہ بڑا ہی خطرناک کام تھا کیونکہ دشمنوں کے عین مرکز میں قیام کر کے جاسوسی کرنا گویا موت کے منہ میں جانا تھا مگر یہ سب جاں نثار بے دھڑک مقام ” نخلہ ” پہنچ گئے۔ عجیب اتفاق کہ رجب کی آخری تاریخ کو یہ لوگ نخلہ میں پہنچے اور اسی دن کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ آیا جس میں عمرو بن الحضرمی اور عبد اﷲ بن مغیرہ کے دو لڑکے عثمان و نوفل اور حکم بن کیسان وغیرہ تھے اور اونٹوں پر کھجور اور دوسرا مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔
امیر سریہ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اگر ہم ان قافلہ والوں کو چھوڑ دیں تو یہ لوگ مکہ پہنچ کر ہم لوگوں کی یہاں موجودگی سے مکہ والوں کو باخبر کردیں گے اور ہم لوگوں کو قتل یا گرفتار کرا دیں گے اور اگر ہم ان لوگوں سے جنگ کریں تو آج رجب کی آخری تاریخ ہے لہٰذا شہر حرام میں جنگ کرنے کا گناہ ہم پر لازم ہو گا۔ آخر یہی رائے قرار پائی کہ ان لوگوں سے جنگ کر کے اپنی جان کے خطرہ کو دفع کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت واقد بن عبداﷲ تمیمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسا تاک کر تیر مارا کہ وہ عمرو بن الحضرمی کو لگا اور وہ اسی تیر سے قتل ہو گیااور عثمان و حکم کو ان لوگوں نے گرفتار کر لیا، نوفل بھاگ نکلا۔ حضرت عبداﷲ بن جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اونٹوں اور ان پر لدے ہوئے مال و اسباب کو مال غنیمت بنا کر مدینہ لوٹ آئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں اس مال غنیمت کا پانچواں حصہ پیش کیا۔(زُرقانی علی المواهب ج۱ ص۳۹۸)
جو لوگ قتل یا گرفتار ہوئے وہ بہت ہی معزز خاندان کے لوگ تھے۔ عمرو بن الحضرمی جو قتل ہوا عبداﷲ حضرمی کا بیٹا تھا۔ عمرو بن الحضرمی پہلا کافر تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ جو لوگ گرفتار ہوئے یعنی عثمان او ر حکم، ان میں سے عثمان تو مغیرہ کا پوتا تھا جو قریش کا ایک بہت بڑا رئیس شمار کیا جاتا تھا اور حکم بن کیسان ہشام بن المغیرہ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اس بنا پر اس واقعہ نے تمام کفار قریش کو غیظ و غضب میں آگ بگولہ بنا دیااور ” خون کا بدلہ خون ” لینے کا نعرہ مکہ کے ہر کوچہ و بازار میں گونجنے لگا اور در حقیقت جنگ بدر کا معرکہ اسی واقعہ کا رد عمل ہے۔ چنانچہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ بدر اور تمام لڑائیاں جو کفار قریش سے ہوئیں ان سب کا بنیادی سبب عمرو بن الحضرمی کا قتل ہے جس کو حضرت واقد بن عبداﷲ تمیمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تیر مار کر قتل کردیا تھا۔ (تاريخ طبری ص۱۲۸۴)
جنگ ِ بدر :۔
” بدر” مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں زمانۂ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام ” بدر ” تھا اسی کے نام پر اس جگہ کا نام ” بدر ” رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر جنگ ِ بدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں کفار ِ قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت و اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہوگیا کہ کفار قریش کی عظمت و شوکت بالکل ہی خاک میں مل گئی۔ اﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام ” یومُ الفرقان ” رکھا۔ قرآن کی سورۂ انفال میں تفصیل کے ساتھ اور دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں احسان جتاتے ہوئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ج فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ
اور یقینا خداوند تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سر و سامان تھے تو تم لوگ اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جاؤ۔
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ج فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ
اور یقینا خداوند تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سر و سامان تھے تو تم لوگ اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جاؤ۔
جنگ بدر کا سبب :۔
جنگ ِ بدر کا اصلی سبب تو جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں “عمرو بن الحضرمی” کے قتل سے کفار قریش میں پھیلا ہوا زبردست اشتعال تھا جس سے ہر کافر کی زبان پر یہی ایک نعرہ تھا کہ ” خون کا بدلہ خو ن لے کر رہیں گے۔”
مگر بالکل نا گہاں یہ صورت پیش آگئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” ذی العشیرہ ” تک تشریف لے گئے تھے مگر وہ قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا بالکل اچانک مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلہ میں ابو سفیان بن حرب و مخرمہ بن نوفل و عمرو بن العاص وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہیں اور کفار قریش کا مال تجارت جو اس قافلہ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور ” کرز بن جابر فہری ” مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری اور ڈاکہ زنی کر گیا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم بھی کفار قریش کے اس قافلہ پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تاکہ کفار قریش کی شامی تجارت بند ہو جائے اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر انصار و مہاجرین اس کے لیے تیار ہوگئے۔
جنگ ِ بدر کا اصلی سبب تو جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں “عمرو بن الحضرمی” کے قتل سے کفار قریش میں پھیلا ہوا زبردست اشتعال تھا جس سے ہر کافر کی زبان پر یہی ایک نعرہ تھا کہ ” خون کا بدلہ خو ن لے کر رہیں گے۔”
مگر بالکل نا گہاں یہ صورت پیش آگئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” ذی العشیرہ ” تک تشریف لے گئے تھے مگر وہ قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا بالکل اچانک مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلہ میں ابو سفیان بن حرب و مخرمہ بن نوفل و عمرو بن العاص وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہیں اور کفار قریش کا مال تجارت جو اس قافلہ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور ” کرز بن جابر فہری ” مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری اور ڈاکہ زنی کر گیا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم بھی کفار قریش کے اس قافلہ پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تاکہ کفار قریش کی شامی تجارت بند ہو جائے اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر انصار و مہاجرین اس کے لیے تیار ہوگئے۔
مدینہ سے روانگی :۔
چنانچہ ۱۲ رمضان ۲ ھ کو بڑی عجلت کے ساتھ لوگ چل پڑے، جو جس حال میں تھااسی حال میں روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نہ زیادہ ہتھیار تھے نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔
مگر جب مکہ میں یہ خبر پھیلی کہ مسلمان مسلح ہو کر قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو مکہ میں ایک جوش پھیل گیا اور ایک دم کفار قریش کی فوج کا دل بادل مسلمانوں پر حملہ کر نے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرما کر صورتِ حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ ممکن ہے کہ اس سفر میں کفار قریش کے قافلہ سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آجائے۔ ارشاد گرامی سن کر حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔
انصار میں سے قبیلۂ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے ؟ خدا کی قسم ! ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔(بخاری غزوه بدر ج۲ ص۵۶۴)
مدینہ سے ایک میل دور چل کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا، جو لوگ کم عمر تھے ان کو واپس کر دینے کا حکم دیا کیونکہ جنگ کے پر خطر موقع پر بھلا بچوں کا کیا کام ؟
ننھا سپاہی :۔
مگر انہی بچوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جب ان سے واپس ہونے کو کہا گیا تو وہ مچل گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کسی طرح واپس ہونے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری دیکھ کر رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک متاثر ہو گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ننھے سپاہی کے گلے میں بھی ایک تلوار حمائل کر دی مدینہ سے روانہ ہونے کے وقت نمازوں کے لئے حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آپ نے مسجد نبوی کا امام مقرر فرما دیا تھا لیکن جب آپ مقام ” روحا ” میں پہنچے تو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے کچھ خطرہ محسوس فرمایا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر ان کو مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور حضرت عاصم بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کے چڑھائی والے گاؤں پر نگرانی رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔
ان انتظامات کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم “بدر” کی جانب چل پڑے جدھر سے کفار مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ اب کل فوج کی تعداد تین سو تیرہ تھی جن میں ساٹھ مہاجراور باقی انصار تھے۔ منزل بہ منزل سفر فرماتے ہوئے جب آپ مقام “صفرا” میں پہنچے تو دو آدمیوں کو جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا تا کہ وہ قافلہ کا پتہ چلائیں کہ وہ کدھر ہے؟ اور کہاں تک پہنچا ہے ؟ (زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)
چنانچہ ۱۲ رمضان ۲ ھ کو بڑی عجلت کے ساتھ لوگ چل پڑے، جو جس حال میں تھااسی حال میں روانہ ہو گیا۔ اس لشکر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نہ زیادہ ہتھیار تھے نہ فوجی راشن کی کوئی بڑی مقدار تھی کیونکہ کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ اس سفر میں کوئی بڑی جنگ ہوگی۔
مگر جب مکہ میں یہ خبر پھیلی کہ مسلمان مسلح ہو کر قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو مکہ میں ایک جوش پھیل گیا اور ایک دم کفار قریش کی فوج کا دل بادل مسلمانوں پر حملہ کر نے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع فرما کر صورتِ حال سے آگاہ کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ ممکن ہے کہ اس سفر میں کفار قریش کے قافلہ سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آجائے۔ ارشاد گرامی سن کر حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے اور یہاں مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔
انصار میں سے قبیلۂ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے ؟ خدا کی قسم ! ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں اسی طرح انصار کے ایک اور معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ انصار کے ان دونوں سرداروں کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔(بخاری غزوه بدر ج۲ ص۵۶۴)
مدینہ سے ایک میل دور چل کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا، جو لوگ کم عمر تھے ان کو واپس کر دینے کا حکم دیا کیونکہ جنگ کے پر خطر موقع پر بھلا بچوں کا کیا کام ؟
ننھا سپاہی :۔
مگر انہی بچوں میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جب ان سے واپس ہونے کو کہا گیا تو وہ مچل گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور کسی طرح واپس ہونے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری دیکھ کر رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک متاثر ہو گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس ننھے سپاہی کے گلے میں بھی ایک تلوار حمائل کر دی مدینہ سے روانہ ہونے کے وقت نمازوں کے لئے حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آپ نے مسجد نبوی کا امام مقرر فرما دیا تھا لیکن جب آپ مقام ” روحا ” میں پہنچے تو منافقین اور یہودیوں کی طرف سے کچھ خطرہ محسوس فرمایا اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر فرما کر ان کو مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور حضرت عاصم بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کے چڑھائی والے گاؤں پر نگرانی رکھنے کا حکم صادر فرمایا۔
ان انتظامات کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم “بدر” کی جانب چل پڑے جدھر سے کفار مکہ کے آنے کی خبر تھی۔ اب کل فوج کی تعداد تین سو تیرہ تھی جن میں ساٹھ مہاجراور باقی انصار تھے۔ منزل بہ منزل سفر فرماتے ہوئے جب آپ مقام “صفرا” میں پہنچے تو دو آدمیوں کو جاسوسی کے لئے روانہ فرمایا تا کہ وہ قافلہ کا پتہ چلائیں کہ وہ کدھر ہے؟ اور کہاں تک پہنچا ہے ؟ (زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)
ادھر کفار قریش کے جاسوس بھی اپنا کام بہت مستعدی سے کر رہے تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے تو ابو سفیان کو اس کی خبر مل گئی۔ اس نے فوراً ہی “ضمضم بن عمرو غفاری” کو مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تا کہ وہ اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خود راستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب لے کر روانہ ہو گیا۔ ابو سفیان کا قاصد ضمضم بن عمرو غفاری جب مکہ پہنچا تو اس وقت کے دستور کے مطابق کہ جب کوئی خوفناک خبر سنانی ہوتی تو خبر سنانے والا اپنے کپڑے پھاڑ کراور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہوکر چلا چلا کر خبر سنایا کرتا تھا۔ ضمضم بن عمرو غفاری نے اپنا کرتا پھاڑ ڈالا اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے اہل مکہ ! تمہارا سارا مال تجارت ابو سفیان کے قافلہ میں ہے اور مسلمانوں نے اس قافلہ کا راستہ روک کر قافلہ کو لوٹ لینے کا عزم کر لیا ہے لہٰذا جلدی کرو اور بہت جلد اپنے اس قافلہ کو بچانے کے لئے ہتھیار لے کر دوڑ پڑو۔(زُرقانی ج۱ ص۴۱۱)
کفار قریش کا جوش :۔
جب مکہ میں یہ خوفناک خبر پہنچی تو اس قدر ہل چل مچ گئی کہ مکہ کا سارا امن و سکون غارت ہو گیا، تمام قبائل قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے، سرداران مکہ میں سے صرف ابولہب اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلا، اس کے سوا تمام روساء قریش پوری طرح مسلح ہو کر نکل پڑے اور چونکہ مقام نخلہ کا واقعہ بالکل ہی تازہ تھا جس میں عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس کے قافلہ کو مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا اس لئے کفار قریش جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ ایک ہزار کا لشکر جرار جس کا ہر سپاہی پوری طرح مسلح، دوہرے ہتھیار، فوج کی خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کے مالدار لوگ یعنی عباس بن عبدالمطلب، عتبہ بن ربیعہ، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، ابوجہل، اُمیہ وغیرہ باری باری سے روزانہ دس دس اونٹ ذبح کرتے تھے اور پورے لشکر کو کھلاتے تھے عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس اعظم تھا اس پورے لشکر کا سپہ سالار تھا۔
ابو سفیان بچ کر نکل گیا :۔
ابو سفیان جب عام راستہ سے مڑ کر ساحل سمندر کے راستہ پر چل پڑا اور خطرہ کے مقامات سے بہت دور پہنچ گیا اور اس کو اپنی حفاظت کا پورا پورا اطمینان ہوگیا تو اس نے قریش کو ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعہ خط بھیج دیا کہ تم لوگ اپنے مال اور آدمیوں کو بچانے کے لئے اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے تھے اب تم لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ کیونکہ ہم لوگ مسلمانوں کی یلغار اور لوٹ مار سے بچ گئے ہیں اور جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ہم مکہ پہنچ رہے ہیں۔
کفار میں اختلاف :۔
ابو سفیان کا یہ خط کفار مکہ کو اس وقت ملا جب وہ مقام ” جحفہ ” میں تھے۔ خط پڑھ کر قبیلۂ بنو زہرہ اور قبیلۂ بنو عدی کے سرداروں نے کہا کہ اب مسلمانوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہٰذا ہم لوگوں کو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ یہ سن کر ابوجہل بگڑ گیا اور کہنے لگا کہ ہم خدا کی قسم ! اسی شان کے ساتھ بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح کریں گے اور خوب کھائیں گے، کھلائیں گے، شراب پئیں گے، ناچ رنگ کی محفلیں جمائیں گے تا کہ تمام قبائل عرب پر ہماری عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ جائے اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں۔ کفار قریش نے ابوجہل کی رائے پر عمل کیا لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے دونوں قبائل واپس لوٹ گئے۔ ان دونوں قبیلوں کے سوا باقی کفار قریش کے تمام قبائل جنگ بدر میں شامل ہوئے۔ (سيرتِ ابن هشام ج۲ ص۶۱۸ تا ۶۱۹)
جب مکہ میں یہ خوفناک خبر پہنچی تو اس قدر ہل چل مچ گئی کہ مکہ کا سارا امن و سکون غارت ہو گیا، تمام قبائل قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے، سرداران مکہ میں سے صرف ابولہب اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلا، اس کے سوا تمام روساء قریش پوری طرح مسلح ہو کر نکل پڑے اور چونکہ مقام نخلہ کا واقعہ بالکل ہی تازہ تھا جس میں عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس کے قافلہ کو مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا اس لئے کفار قریش جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ ایک ہزار کا لشکر جرار جس کا ہر سپاہی پوری طرح مسلح، دوہرے ہتھیار، فوج کی خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کے مالدار لوگ یعنی عباس بن عبدالمطلب، عتبہ بن ربیعہ، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، ابوجہل، اُمیہ وغیرہ باری باری سے روزانہ دس دس اونٹ ذبح کرتے تھے اور پورے لشکر کو کھلاتے تھے عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس اعظم تھا اس پورے لشکر کا سپہ سالار تھا۔
ابو سفیان بچ کر نکل گیا :۔
ابو سفیان جب عام راستہ سے مڑ کر ساحل سمندر کے راستہ پر چل پڑا اور خطرہ کے مقامات سے بہت دور پہنچ گیا اور اس کو اپنی حفاظت کا پورا پورا اطمینان ہوگیا تو اس نے قریش کو ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعہ خط بھیج دیا کہ تم لوگ اپنے مال اور آدمیوں کو بچانے کے لئے اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے تھے اب تم لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ کیونکہ ہم لوگ مسلمانوں کی یلغار اور لوٹ مار سے بچ گئے ہیں اور جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ہم مکہ پہنچ رہے ہیں۔
کفار میں اختلاف :۔
ابو سفیان کا یہ خط کفار مکہ کو اس وقت ملا جب وہ مقام ” جحفہ ” میں تھے۔ خط پڑھ کر قبیلۂ بنو زہرہ اور قبیلۂ بنو عدی کے سرداروں نے کہا کہ اب مسلمانوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہٰذا ہم لوگوں کو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ یہ سن کر ابوجہل بگڑ گیا اور کہنے لگا کہ ہم خدا کی قسم ! اسی شان کے ساتھ بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح کریں گے اور خوب کھائیں گے، کھلائیں گے، شراب پئیں گے، ناچ رنگ کی محفلیں جمائیں گے تا کہ تمام قبائل عرب پر ہماری عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ جائے اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں۔ کفار قریش نے ابوجہل کی رائے پر عمل کیا لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے دونوں قبائل واپس لوٹ گئے۔ ان دونوں قبیلوں کے سوا باقی کفار قریش کے تمام قبائل جنگ بدر میں شامل ہوئے۔ (سيرتِ ابن هشام ج۲ ص۶۱۸ تا ۶۱۹)
کفار قریش بدر میں :۔
کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے تھے اس لئے مناسب جگہوں پر ان لوگوں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب بدر کے قریب پہنچے تو شام کے وقت حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو بدر کی طرف بھیجا تاکہ یہ لوگ کفار قریش کے بارے میں خبر لائیں۔ ان حضرات نے قریش کے دو غلاموں کو پکڑ لیا جو لشکر کفار کے لئے پانی بھرنے پر مقرر تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں غلاموں سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس قریشی فوج میں قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہے ؟ تو دونوں غلاموں نے بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، زمعہ بن الاسود، ابوجہل بن ہشام، اُمیہ بن خلف، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود، عباس بن عبدالمطلب وغیرہ سب اس لشکر میں موجود ہیں۔ یہ فہرست سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ مسلمانو ! سن لو ! مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے۔ (مسلم ج۲ ص۱۰۲ غزوه بدر و زُرقانی وغيره)
تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ سلم بدر کے میدان میں :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب بدر میں نزول فرمایا تو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ جہاں نہ کوئی کنواں تھا نہ کوئی چشمہ اور وہاں کی زمین اتنی ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں زمین میں دھنستے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے پڑاؤ کے لئے جس جگہ کو منتخب فرمایا ہے یہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر ہے ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ہے۔ حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ پھر میری رائے میں جنگی تدابیر کی رو سے بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ آگے بڑھ کر پانی کے چشموں پر قبضہ کر لیں تا کہ کفار جن کنوؤں پر قابض ہیں وہ بیکار ہو جائیں کیونکہ انہی چشموں سے ان کے کنوؤں میں پانی جاتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا گیا۔ خدا کی شان کہ بارش بھی ہو گئی جس سے میدان کی گرد اور ریت جم گئی جس پر مسلمانوں کے لئے چلنا پھرنا آسان ہو گیا اور کفار کی زمین پر کیچڑ ہو گئی جس سے ان کو چلنے پھرنے میں دشواری ہو گئی اور مسلمانوں نے بارش کا پانی روک کر جا بجا حوض بنالئے تا کہ یہ پانی غسل اور وضو کے کام آئے۔ اسی احسان کو خداوند عالم نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
وَ يُنَزِّلُ عَلَيْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ (انفال)
اور خدا نے آسمان سے پانی برسا دیا تا کہ وہ تم لوگوں کو پاک کرے۔
سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب بیداری :۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کی رات تھی تمام فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات تھی جو ساری رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قرآن کی آیات جہاد سنا کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور لوگ میدان جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔
کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ گئے تھے اس لئے مناسب جگہوں پر ان لوگوں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب بدر کے قریب پہنچے تو شام کے وقت حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو بدر کی طرف بھیجا تاکہ یہ لوگ کفار قریش کے بارے میں خبر لائیں۔ ان حضرات نے قریش کے دو غلاموں کو پکڑ لیا جو لشکر کفار کے لئے پانی بھرنے پر مقرر تھے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں غلاموں سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ اس قریشی فوج میں قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہے ؟ تو دونوں غلاموں نے بتایا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر، نضر بن الحارث، زمعہ بن الاسود، ابوجہل بن ہشام، اُمیہ بن خلف، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود، عباس بن عبدالمطلب وغیرہ سب اس لشکر میں موجود ہیں۔ یہ فہرست سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ مسلمانو ! سن لو ! مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے۔ (مسلم ج۲ ص۱۰۲ غزوه بدر و زُرقانی وغيره)
تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ سلم بدر کے میدان میں :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب بدر میں نزول فرمایا تو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ جہاں نہ کوئی کنواں تھا نہ کوئی چشمہ اور وہاں کی زمین اتنی ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں زمین میں دھنستے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے پڑاؤ کے لئے جس جگہ کو منتخب فرمایا ہے یہ وحی کی رو سے ہے یا فوجی تدبیر ہے ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ہے۔ حضرت حباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ پھر میری رائے میں جنگی تدابیر کی رو سے بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ آگے بڑھ کر پانی کے چشموں پر قبضہ کر لیں تا کہ کفار جن کنوؤں پر قابض ہیں وہ بیکار ہو جائیں کیونکہ انہی چشموں سے ان کے کنوؤں میں پانی جاتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی رائے کو پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا گیا۔ خدا کی شان کہ بارش بھی ہو گئی جس سے میدان کی گرد اور ریت جم گئی جس پر مسلمانوں کے لئے چلنا پھرنا آسان ہو گیا اور کفار کی زمین پر کیچڑ ہو گئی جس سے ان کو چلنے پھرنے میں دشواری ہو گئی اور مسلمانوں نے بارش کا پانی روک کر جا بجا حوض بنالئے تا کہ یہ پانی غسل اور وضو کے کام آئے۔ اسی احسان کو خداوند عالم نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
وَ يُنَزِّلُ عَلَيْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمْ بِهٖ (انفال)
اور خدا نے آسمان سے پانی برسا دیا تا کہ وہ تم لوگوں کو پاک کرے۔
سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شب بیداری :۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کی رات تھی تمام فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات تھی جو ساری رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قرآن کی آیات جہاد سنا کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش و خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور لوگ میدان جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔
کون کب ؟ اور کہاں مرے گا ؟ :۔
رات ہی میں چند جاں نثاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ اُسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس جگہ جس کافر کی قتل گاہ بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔(ابو داؤد ج۲ ص۳۶۴ مطبع نامی و مسلم ج۲ ص۱۰۲ غزوه بدر)
اس حدیث سے صاف اور صریح طور پر یہ مسئلہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کون کب ؟ اور کہاں مرے گا ؟ ان دونوں غیب کی باتوں کا علم اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا۔
لڑائی ٹلتے ٹلتے پھر ٹھن گئی :۔
کفار قریش لڑنے کے لئے بے تاب تھے مگر ان لوگوں میں کچھ سلجھے دل و دماغ کے لوگ بھی تھے جو خون ریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گئے بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے کہا کہ آخر اس خون ریزی سے کیا فائدہ ؟ میں آپ کو ایک نہایت ہی مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ قریش کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ عمرو بن الحضرمی کا خون ہے اور وہ آپ کا حلیف ہے آپ اس کا خون بہا ادا کر دیجیے، اس طرح یہ لڑائی ٹل جائے گی اور آج کا دن آپ کی تاریخ زندگی میں آپ کی نیک نامی کی یادگار بن جائے گا کہ آپ کے تدبر سے ایک بہت ہی خوفناک اور خون ریز لڑائی ٹل گئی۔ عتبہ بذات خود بہت ہی مدبر اور نیک نفس آدمی تھا۔ اس نے بخوشی اس مخلصانہ مشورہ کو قبول کر لیا مگر اس معاملہ میں ابوجہل کی منظوری بھی ضروری تھی۔ چنانچہ حکیم بن حزام جب عتبہ بن ربیعہ کا یہ پیغام لے کر ابوجہل کے پاس گئے تو ابوجہل کی رگِ جہالت بھڑک اُٹھی اور اُس نے ایک خون کھولا دینے والا طعنہ مارا اور کہا کہ ہاں ہاں ! میں خوب سمجھتا ہوں کہ عتبہ کی ہمت نے جواب دے دیا چونکہ اس کا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر کے ساتھ آیا ہے اس لئے وہ جنگ سے جی چراتا ہے تا کہ اس کے بیٹے پر آنچ نہ آئے۔
پھر ابوجہل نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عمرو بن الحضرمی مقتول کے بھائی عامر بن الحضرمی کو بلا کر کہا کہ دیکھو تمہارے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کی ساری اسکیم تہس نہس ہوئی جا رہی ہے کیونکہ ہمارے لشکر کا سپہ سالار عتبہ بزدلی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عامر بن الحضرمی نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے سر پر دھول ڈالتے ہوئے “ وا عمراہ وا عمراہ ” کا نعرہ مارنا شروع کر دیا۔ اس کارروائی نے کفار قریش کی تمام فوج میں آگ لگا دی اور سارا لشکر “ خون کا بدلہ خون ” کے نعروں سے گونجنے لگا اور ہر سپاہی جوش میں آپے سے باہر ہو کر جنگ کے لئے بے تاب و بے قرار ہو گیا۔ عتبہ نے جب ابوجہل کا طعنہ سنا تو وہ بھی غصہ میں بھر گیا اور کہا کہ ابوجہل سے کہہ دو کہ میدان جنگ بتائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ یہ کہہ کر لوہے کی ٹوپی طلب کی مگر اس کا سر اتنا بڑا تھا کہ کوئی ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک نہیں بیٹھی تو مجبوراً اس نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شوروغل نہ مچائے۔ عین ایسے وقت میں کہ جنگ کا نقارہ بجنے والا ہی ہے دو ایسے واقعات در پیش ہو گئے جو نہایت ہی عبرت خیز اور بہت زیادہ نصیحت آموز ہیں۔
رات ہی میں چند جاں نثاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میدان جنگ کا معائنہ فرمایا، اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ اُسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس جگہ جس کافر کی قتل گاہ بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔(ابو داؤد ج۲ ص۳۶۴ مطبع نامی و مسلم ج۲ ص۱۰۲ غزوه بدر)
اس حدیث سے صاف اور صریح طور پر یہ مسئلہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کون کب ؟ اور کہاں مرے گا ؟ ان دونوں غیب کی باتوں کا علم اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا۔
لڑائی ٹلتے ٹلتے پھر ٹھن گئی :۔
کفار قریش لڑنے کے لئے بے تاب تھے مگر ان لوگوں میں کچھ سلجھے دل و دماغ کے لوگ بھی تھے جو خون ریزی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام جو بعد میں مسلمان ہو گئے بہت ہی سنجیدہ اور نرم خو تھے۔ انہوں نے اپنے لشکر کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ سے کہا کہ آخر اس خون ریزی سے کیا فائدہ ؟ میں آپ کو ایک نہایت ہی مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ قریش کا جو کچھ مطالبہ ہے وہ عمرو بن الحضرمی کا خون ہے اور وہ آپ کا حلیف ہے آپ اس کا خون بہا ادا کر دیجیے، اس طرح یہ لڑائی ٹل جائے گی اور آج کا دن آپ کی تاریخ زندگی میں آپ کی نیک نامی کی یادگار بن جائے گا کہ آپ کے تدبر سے ایک بہت ہی خوفناک اور خون ریز لڑائی ٹل گئی۔ عتبہ بذات خود بہت ہی مدبر اور نیک نفس آدمی تھا۔ اس نے بخوشی اس مخلصانہ مشورہ کو قبول کر لیا مگر اس معاملہ میں ابوجہل کی منظوری بھی ضروری تھی۔ چنانچہ حکیم بن حزام جب عتبہ بن ربیعہ کا یہ پیغام لے کر ابوجہل کے پاس گئے تو ابوجہل کی رگِ جہالت بھڑک اُٹھی اور اُس نے ایک خون کھولا دینے والا طعنہ مارا اور کہا کہ ہاں ہاں ! میں خوب سمجھتا ہوں کہ عتبہ کی ہمت نے جواب دے دیا چونکہ اس کا بیٹا حذیفہ مسلمان ہو کر اسلامی لشکر کے ساتھ آیا ہے اس لئے وہ جنگ سے جی چراتا ہے تا کہ اس کے بیٹے پر آنچ نہ آئے۔
پھر ابوجہل نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ عمرو بن الحضرمی مقتول کے بھائی عامر بن الحضرمی کو بلا کر کہا کہ دیکھو تمہارے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کی ساری اسکیم تہس نہس ہوئی جا رہی ہے کیونکہ ہمارے لشکر کا سپہ سالار عتبہ بزدلی ظاہر کر رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عامر بن الحضرمی نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے سر پر دھول ڈالتے ہوئے “ وا عمراہ وا عمراہ ” کا نعرہ مارنا شروع کر دیا۔ اس کارروائی نے کفار قریش کی تمام فوج میں آگ لگا دی اور سارا لشکر “ خون کا بدلہ خون ” کے نعروں سے گونجنے لگا اور ہر سپاہی جوش میں آپے سے باہر ہو کر جنگ کے لئے بے تاب و بے قرار ہو گیا۔ عتبہ نے جب ابوجہل کا طعنہ سنا تو وہ بھی غصہ میں بھر گیا اور کہا کہ ابوجہل سے کہہ دو کہ میدان جنگ بتائے گا کہ بزدل کون ہے ؟ یہ کہہ کر لوہے کی ٹوپی طلب کی مگر اس کا سر اتنا بڑا تھا کہ کوئی ٹوپی اس کے سر پر ٹھیک نہیں بیٹھی تو مجبوراً اس نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا اور ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔
۱۷ رمضان ۲ ھ جمعہ کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام کو صف بندی کا حکم دیا۔ دست مبارک میں ایک چھڑی تھی اس کے اشارہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صفیں درست فرما رہے تھے کہ کوئی شخص آگے پیچھے نہ رہنے پائے اور یہ بھی حکم فرما دیا کہ بجز ذکر الٰہی کے کوئی شخص کسی قسم کا کوئی شوروغل نہ مچائے۔ عین ایسے وقت میں کہ جنگ کا نقارہ بجنے والا ہی ہے دو ایسے واقعات در پیش ہو گئے جو نہایت ہی عبرت خیز اور بہت زیادہ نصیحت آموز ہیں۔
شکم مبارک کا بوسہ :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چھڑی کے اشارہ سے صفیں سیدھی فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ حضرت سواد انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پیٹ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا۔ آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا کہ اِسْتَوِ یَا سَوَادُ (اے سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ) حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! آپ نے میرے شکم پر چھڑی ماری ہے مجھے آپ سے اس کا قصاص (بدلہ) لینا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا پیراہن شریف اٹھا کر فرمایا کہ اے سواد ! لو میرا شکم حاضر ہے تم اس پر چھڑی مار کر مجھ سے اپنا قصاص لے لو۔ حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر آپ کے شکم مبارک کو چوم لیا اور پھر نہایت ہی والہانہ انداز میں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ آپ کے جسم اقدس سے لپٹ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے سواد ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس وقت جنگ کی صف میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوں شاید موت کا وقت آ گیا ہو، اس وقت میرے دل میں اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش ! مرتے وقت میرا بدن آپ کے جسم اطہر سے چھو جائے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس جذبۂ محبت کی قدر فرماتے ہوئے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی اور حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں معذرت کرتے ہوئے اپنا قصاص معاف کر دیااور تمام صحابۂ کرام حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس عاشقانہ ادا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔(سيرت ابن هشام غزوه بدر ج۲ ص۶۲۶)
عہد کی پابندی :۔
اتفاق سے حضرت حذیفہ بن الیمان اور حضرت حسیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہما یہ دونوں صحابی کہیں سے آ رہے تھے راستہ میں کفار نے ان دونوں کو روکا کہ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ان دونوں نے انکار کیا اور جنگ میں شریک نہ ہونے کا عہد کیا چنانچہ کفار نے ان دونوں کو چھوڑ دیا۔ جب یہ دونوں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لڑائی کی صفوں سے الگ کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے۔(مسلم باب الوفا بالعهد ج۲ ص۱۰۶)
ناظرین کرام ! غور کیجیے۔ دنیا جانتی ہے کہ جنگ کے موقع پر خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دشمنوں کے عظیم الشان لشکر کا مقابلہ ہو ایک ایک سپاہی کتنا قیمتی ہوتا ہے مگر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی کمزور فوج کو دو بہادر اور جانباز مجاہدوں سے محروم رکھنا پسند فرمایا مگر کوئی مسلمان کسی کافر سے بھی بد عہدی اور وعدہ خلافی کرے اس کو گوارا نہیں فرمایا۔
اﷲ اکبر ! اے اقوام عالم کے بادشاہو ! ﷲ مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری تاریخ زندگی کے بڑے بڑے دفتروں میں کوئی ایسا چمکتا ہوا ورق بھی ہے ؟ اے چاند و سورج کی دوربین نگاہو ! تم خدا کے لئے بتاؤ ! کیا تمہاری آنکھوں نے بھی کبھی صفحۂ ہستی پر پابندی عہد کی کوئی ایسی مثال دیکھی ہے ؟ خدا کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ تم اس کے جواب میں ” نہیں ” کے سوا کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
دونوں لشکر آمنے سامنے :۔
اب وہ وقت ہے کہ میدان بدر میں حق و باطل کی دونوں صفیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ
قَدْکَانَ لَکُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَاط فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰي کَافِرَةٌ (آل عمران)
جو لوگ باہم لڑے ان میں تمہارے لئے عبرت کا نشان ہے ایک خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا منکر خدا تھا۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چھڑی کے اشارہ سے صفیں سیدھی فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ حضرت سواد انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پیٹ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا۔ آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا کہ اِسْتَوِ یَا سَوَادُ (اے سواد سیدھے کھڑے ہو جاؤ) حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! آپ نے میرے شکم پر چھڑی ماری ہے مجھے آپ سے اس کا قصاص (بدلہ) لینا ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا پیراہن شریف اٹھا کر فرمایا کہ اے سواد ! لو میرا شکم حاضر ہے تم اس پر چھڑی مار کر مجھ سے اپنا قصاص لے لو۔ حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر آپ کے شکم مبارک کو چوم لیا اور پھر نہایت ہی والہانہ انداز میں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ آپ کے جسم اقدس سے لپٹ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے سواد ! تم نے ایسا کیوں کیا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس وقت جنگ کی صف میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر کھڑا ہوں شاید موت کا وقت آ گیا ہو، اس وقت میرے دل میں اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش ! مرتے وقت میرا بدن آپ کے جسم اطہر سے چھو جائے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس جذبۂ محبت کی قدر فرماتے ہوئے ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی اور حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں معذرت کرتے ہوئے اپنا قصاص معاف کر دیااور تمام صحابۂ کرام حضرت سواد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس عاشقانہ ادا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔(سيرت ابن هشام غزوه بدر ج۲ ص۶۲۶)
عہد کی پابندی :۔
اتفاق سے حضرت حذیفہ بن الیمان اور حضرت حسیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہما یہ دونوں صحابی کہیں سے آ رہے تھے راستہ میں کفار نے ان دونوں کو روکا کہ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ان دونوں نے انکار کیا اور جنگ میں شریک نہ ہونے کا عہد کیا چنانچہ کفار نے ان دونوں کو چھوڑ دیا۔ جب یہ دونوں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کو لڑائی کی صفوں سے الگ کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے۔(مسلم باب الوفا بالعهد ج۲ ص۱۰۶)
ناظرین کرام ! غور کیجیے۔ دنیا جانتی ہے کہ جنگ کے موقع پر خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دشمنوں کے عظیم الشان لشکر کا مقابلہ ہو ایک ایک سپاہی کتنا قیمتی ہوتا ہے مگر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی کمزور فوج کو دو بہادر اور جانباز مجاہدوں سے محروم رکھنا پسند فرمایا مگر کوئی مسلمان کسی کافر سے بھی بد عہدی اور وعدہ خلافی کرے اس کو گوارا نہیں فرمایا۔
اﷲ اکبر ! اے اقوام عالم کے بادشاہو ! ﷲ مجھے بتاؤ کہ کیا تمہاری تاریخ زندگی کے بڑے بڑے دفتروں میں کوئی ایسا چمکتا ہوا ورق بھی ہے ؟ اے چاند و سورج کی دوربین نگاہو ! تم خدا کے لئے بتاؤ ! کیا تمہاری آنکھوں نے بھی کبھی صفحۂ ہستی پر پابندی عہد کی کوئی ایسی مثال دیکھی ہے ؟ خدا کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ تم اس کے جواب میں ” نہیں ” کے سوا کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
دونوں لشکر آمنے سامنے :۔
اب وہ وقت ہے کہ میدان بدر میں حق و باطل کی دونوں صفیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ قرآن اعلان کر رہا ہے کہ
قَدْکَانَ لَکُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَاط فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰي کَافِرَةٌ (آل عمران)
جو لوگ باہم لڑے ان میں تمہارے لئے عبرت کا نشان ہے ایک خدا کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا منکر خدا تھا۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجاہدین اسلام کی صف بندی سے فارغ ہو کر مجاہدین کی قرارداد کے مطابق اپنے اس چھپر میں تشریف لے گئے جس کو صحابہ کرام نے آپ کی نشست کے لئے بنا رکھا تھا۔ اب اس چھپر کی حفاظت کا سوال بے حد اہم تھا کیونکہ کفار قریش کے حملوں کا اصل نشانہ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اس چھپر کا پہرہ دے لیکن اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے یار غار حضرت صدیق با وقار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی کہ وہ ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے اور حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی چند انصاریوں کے ساتھ اس چھپر کے گرد پہرہ دیتے رہے۔(زُرقانی ج۱ ص۴۱۸)
دعائے نبوی :۔
حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس نازک گھڑی میں جناب باری سے لو لگائے گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلائے یہ دعا مانگ رہے تھے کہ ” خداوندا ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورافرما دے۔ ” آپ پر اس قدر رقت اور محویت طاری تھی کہ جوشِ گریہ میں چادر مبارک دوش انور سے گر گر پڑتی تھی مگر آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی، کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس طرح دعا مانگتے کہ ” الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔ “(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۲۷
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے یارغار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہو گئی اور انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دی اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور ! اب بس کیجیے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
اپنے یار غار صدیق جاں نثار کی بات مان کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا کہ
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ
عنقریب (کفار کی) فوج کو شکست دے دی جائیگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے
آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے جس میں فتح مبین کی بشارت کی طرف اشارہ تھا۔
لڑائی کس طرح شروع ہوئی :۔
جنگ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سب سے پہلے عامر بن الحضرمی جو اپنے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بے قرار تھا جنگ کے لئے آگے بڑھا اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت مہجع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میدان میں نکلے اور لڑتے ہوئے شہادت سے سر فراز ہو گئے۔ پھر حضرت حارثہ بن سراقہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حوض سے پانی پی رہے تھے کہ ناگہاں ان کو کفار کا ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۲۷)
حضور سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس نازک گھڑی میں جناب باری سے لو لگائے گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہو کر ہاتھ پھیلائے یہ دعا مانگ رہے تھے کہ ” خداوندا ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے آج اسے پورافرما دے۔ ” آپ پر اس قدر رقت اور محویت طاری تھی کہ جوشِ گریہ میں چادر مبارک دوش انور سے گر گر پڑتی تھی مگر آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی، کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس طرح دعا مانگتے کہ ” الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔ “(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۲۷
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے یارغار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون و قرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہو گئی اور انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دی اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور ! اب بس کیجیے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
اپنے یار غار صدیق جاں نثار کی بات مان کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا کہ
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ
عنقریب (کفار کی) فوج کو شکست دے دی جائیگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے
آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے جس میں فتح مبین کی بشارت کی طرف اشارہ تھا۔
لڑائی کس طرح شروع ہوئی :۔
جنگ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سب سے پہلے عامر بن الحضرمی جو اپنے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بے قرار تھا جنگ کے لئے آگے بڑھا اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت مہجع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میدان میں نکلے اور لڑتے ہوئے شہادت سے سر فراز ہو گئے۔ پھر حضرت حارثہ بن سراقہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حوض سے پانی پی رہے تھے کہ ناگہاں ان کو کفار کا ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۲۷)
حضرت عمیر کا شوقِ شہادت :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جوش جہاد کا وعظ فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ مسلمانو !اس جنت کی طرف بڑھے چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو حضرت عمیر بن الحمام انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ” ہاں ” یہ سن کر حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا : ” واہ وا ” آپ نے دریافت فرمایا کہ کیوں اے عمیر ! تم نے ” واہ وا ” کس لئے کہا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقط اس امید پر کہ میں بھی جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے عمیر! تو بے شک جنتی ہے۔ حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سنی تو مارے خوشی کے کھجوریں پھینک کر کھڑے ہو گئے اور ایک دم کفار کے لشکر پر تلوار لے کر ٹوٹ پڑے اور جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔(مسلم کتاب الجهاد باب سقوط فرض الجهاد عن المعذورين ج۲ ص۱۳۹)
کفار کا سپہ سالار مارا گیا :۔
کفار کا سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ اپنے سینہ پر شتر مرغ کا پر لگائے ہوئے اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر غصہ میں بھرا ہوا اپنی صف سے نکل کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا۔ اسلامی صفوں میں سے حضرت عوف و حضرت معاذ و عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم مقابلہ کو نکلے۔ عتبہ نے ان لوگوں کا نام و نسب پوچھا، جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ انصاری ہیں تو عتبہ نے کہا کہ ہم کو تم لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ پھر عتبہ نے چلا کر کہا اے محمد ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں اشراف قریش کو ہم سے لڑنے کے لئے میدان میں بھیجئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ آپ لوگ ان تینوں کے مقابلہ کے لئے نکلیں۔
چنانچہ یہ تینوں بہادران اسلام میدان میں نکلے۔ چونکہ یہ تینوں حضرات سر پر خود پہنے ہوئے تھے جس سے ان کے چہرے چھپ گئے تھے اس لئے عتبہ نے ان حضرات کو نہیں پہچانا اور پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟ جب ان تینوں نے اپنے اپنے نام و نسب بتائے تو عتبہ نے کہا کہ ’’ ہاں اب ہمارا جوڑ ہے ” جب ان لوگوں میں جنگ شروع ہوئی تو حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اپنی ایمانی شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ بدر کی زمین دہل گئی اور کفار کے دل تھرا گئے اور ان کی جنگ کا انجام یہ ہوا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کا مقابلہ کیا، دونوں انتہائی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے مگر آخرکار حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلوار کے وار سے مار مار کر عتبہ کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ ولید نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ کی، دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر قاتلانہ حملہ کیا اور خوب لڑے لیکن اسد اﷲ الغالب کی ذوالفقار نے ولید کو مار گرایا اور وہ ذلت کے ساتھ قتل ہو گیا۔ مگر عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس طرح زخمی کر دیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جھپٹے اور آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے کاندھے پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے، ان کی پنڈلی ٹوٹ کر چور چور ہو گئی تھی اور نلی کا گودابہہ رہا تھا، اس حالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا میں شہادت سے محروم رہا ؟ ارشاد فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں ! بلکہ تم شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آج میرے اور آپ کے چچا ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ مان لیتے کہ ان کے اس شعر کا مصداق میں ہوں کہ
وَنُسْلِمُهٗ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَهٗ وَنَذْهَلُ عَنْ اَبْنَائِنَا وَ الْحَلَائِلِ
یعنی ہم محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس وقت دشمنوں کے حوالہ کریں گے جب ہم ان کے گرد لڑ لڑ کر پچھاڑ دیئے جائیں گے اور ہم اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں گے۔(ابو داؤد ج۲ ص۳۶۱ مطبع نامی و زُرقانی علی المواهب ج۱ ص۴۱۸)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جوش جہاد کا وعظ فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ مسلمانو !اس جنت کی طرف بڑھے چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے تو حضرت عمیر بن الحمام انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ” ہاں ” یہ سن کر حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا : ” واہ وا ” آپ نے دریافت فرمایا کہ کیوں اے عمیر ! تم نے ” واہ وا ” کس لئے کہا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فقط اس امید پر کہ میں بھی جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے عمیر! تو بے شک جنتی ہے۔ حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سنی تو مارے خوشی کے کھجوریں پھینک کر کھڑے ہو گئے اور ایک دم کفار کے لشکر پر تلوار لے کر ٹوٹ پڑے اور جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔(مسلم کتاب الجهاد باب سقوط فرض الجهاد عن المعذورين ج۲ ص۱۳۹)
کفار کا سپہ سالار مارا گیا :۔
کفار کا سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ اپنے سینہ پر شتر مرغ کا پر لگائے ہوئے اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر غصہ میں بھرا ہوا اپنی صف سے نکل کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا۔ اسلامی صفوں میں سے حضرت عوف و حضرت معاذ و عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم مقابلہ کو نکلے۔ عتبہ نے ان لوگوں کا نام و نسب پوچھا، جب معلوم ہوا کہ یہ لوگ انصاری ہیں تو عتبہ نے کہا کہ ہم کو تم لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ پھر عتبہ نے چلا کر کہا اے محمد ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں ہیں اشراف قریش کو ہم سے لڑنے کے لئے میدان میں بھیجئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ آپ لوگ ان تینوں کے مقابلہ کے لئے نکلیں۔
چنانچہ یہ تینوں بہادران اسلام میدان میں نکلے۔ چونکہ یہ تینوں حضرات سر پر خود پہنے ہوئے تھے جس سے ان کے چہرے چھپ گئے تھے اس لئے عتبہ نے ان حضرات کو نہیں پہچانا اور پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟ جب ان تینوں نے اپنے اپنے نام و نسب بتائے تو عتبہ نے کہا کہ ’’ ہاں اب ہمارا جوڑ ہے ” جب ان لوگوں میں جنگ شروع ہوئی تو حضرت حمزہ و حضرت علی و حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اپنی ایمانی شجاعت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ بدر کی زمین دہل گئی اور کفار کے دل تھرا گئے اور ان کی جنگ کا انجام یہ ہوا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کا مقابلہ کیا، دونوں انتہائی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے مگر آخرکار حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلوار کے وار سے مار مار کر عتبہ کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ ولید نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ کی، دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر قاتلانہ حملہ کیا اور خوب لڑے لیکن اسد اﷲ الغالب کی ذوالفقار نے ولید کو مار گرایا اور وہ ذلت کے ساتھ قتل ہو گیا۔ مگر عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس طرح زخمی کر دیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر زمین پر بیٹھ گئے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جھپٹے اور آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنے کاندھے پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے، ان کی پنڈلی ٹوٹ کر چور چور ہو گئی تھی اور نلی کا گودابہہ رہا تھا، اس حالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا میں شہادت سے محروم رہا ؟ ارشاد فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں ! بلکہ تم شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ حضرت عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آج میرے اور آپ کے چچا ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ مان لیتے کہ ان کے اس شعر کا مصداق میں ہوں کہ
وَنُسْلِمُهٗ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَهٗ وَنَذْهَلُ عَنْ اَبْنَائِنَا وَ الْحَلَائِلِ
یعنی ہم محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس وقت دشمنوں کے حوالہ کریں گے جب ہم ان کے گرد لڑ لڑ کر پچھاڑ دیئے جائیں گے اور ہم اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں گے۔(ابو داؤد ج۲ ص۳۶۱ مطبع نامی و زُرقانی علی المواهب ج۱ ص۴۱۸)
حضرت زبیر کی تاریخی برچھی :۔
اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا ” عبیدہ ” سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیاروں سے چھپا ہوا صف سے باہر نکلا اور یہ کہہ کر اسلامی لشکر کو للکارنے لگا کہ ” میں ابو کرش ہوں ” اس کی یہ مغرورانہ للکار سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اپنی برچھی لے کر مقابلہ کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کر خم ہو گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ برچھی طلب فرما لی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔ پھر حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے پاس آئی یہاں تک کہ ۷۳ ھ میں جب بنو اُمیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنو اُمیہ کے قبضہ میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہو گئی۔(بخاری غزوه بدر ج۲ ص۵۷۰)
ابوجہل ذلت کے ساتھ مارا گیا :۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں دو نو عمر لڑکے کھڑے تھے۔ ایک نے چپکے سے پوچھا کہ چچا جان ! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے اس سے کہا کہ کیوں بھتیجے ! تم کو ابوجہل سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا کہ چچا جان ! میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرت سے اس نوجوان کا منہ تاک رہا تھا کہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے یہی کہا اتنے میں ابوجہل تلوار گھماتا ہوا سامنے آ گیا اور میں نے اشارہ سے بتا دیا کہ ابوجہل یہی ہے، بس پھر کیا تھا یہ دونوں لڑکے تلواریں لے کر اس پر اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواروں سے مار مار کر ابوجہل کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ یہ دونوں لڑکے حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم تھے جو ” عفراء ” کے بیٹے تھے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے اپنے باپ کے قاتل حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کر دیا اور پیچھے سے ان کے بائیں شانہ پر تلوار ماری جس سے ان کا بازو کٹ گیا لیکن تھوڑا سا چمڑا باقی رہ گیا اور ہاتھ لٹکنے لگا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ کا پیچھا کیا اور دور تک دوڑایا مگر عکرمہ بھاگ کر بچ نکلا۔ حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حالت میں بھی لڑتے رہے لیکن کٹے ہوئے ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہو رہی تھی تو انہوں نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو پاؤں سے دبا کر اس زور سے کھینچا کہ تسمہ الگ ہو گیا اور پھر وہ آزاد ہو کر ایک ہاتھ سے لڑتے رہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابوجہل کے پاس سے گزرے، اس وقت ابوجہل میں کچھ کچھ زندگی کی رمق باقی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی گردن کو اپنے پاؤں سے روند کر فرمایا کہ ” تو ہی ابوجہل ہے ! بتا آج تجھے اﷲ نے کیسا رسوا کیا۔ ” ابوجہل نے اس حالت میں بھی گھمنڈ کے ساتھ یہ کہا کہ تمہارے لئے یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے میرا قتل ہو جانا اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ایک آدمی کو اس کی قوم نے قتل کر دیا۔ ہاں ! مجھے اس کا افسوس ہے کہ کاش ! مجھے کسانوں کے سوا کوئی دوسرا شخص قتل کرتا۔ حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم چونکہ یہ دونوں انصاری تھے اور انصار کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور قبیلۂ قریش کے لوگ کسانوں کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اس لئے ابوجہل نے
کسانوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کو اپنے لئے قابل افسوس بتایا۔
جنگ ختم ہو جانے کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر جب ابوجہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابوجہل اس زمانے کا ” فرعون ” ہے۔ پھر عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دیا۔(بخاری غزوه بدر و دلائل النبوة ج۲ ص۱۷۳)
اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا ” عبیدہ ” سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیاروں سے چھپا ہوا صف سے باہر نکلا اور یہ کہہ کر اسلامی لشکر کو للکارنے لگا کہ ” میں ابو کرش ہوں ” اس کی یہ مغرورانہ للکار سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اپنی برچھی لے کر مقابلہ کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کر خم ہو گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے یہ برچھی طلب فرما لی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد چاروں خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔ پھر حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے پاس آئی یہاں تک کہ ۷۳ ھ میں جب بنو اُمیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنو اُمیہ کے قبضہ میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہو گئی۔(بخاری غزوه بدر ج۲ ص۵۷۰)
ابوجہل ذلت کے ساتھ مارا گیا :۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں صف میں کھڑا تھا اور میرے دائیں بائیں دو نو عمر لڑکے کھڑے تھے۔ ایک نے چپکے سے پوچھا کہ چچا جان ! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے اس سے کہا کہ کیوں بھتیجے ! تم کو ابوجہل سے کیا کام ہے ؟ اس نے کہا کہ چچا جان ! میں نے خدا سے یہ عہد کیا ہے کہ میں ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا یا تو اس کو قتل کر دوں گا یا خود لڑتا ہوا مارا جاؤں گا کیونکہ وہ اﷲ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بہت ہی بڑا دشمن ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرت سے اس نوجوان کا منہ تاک رہا تھا کہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے یہی کہا اتنے میں ابوجہل تلوار گھماتا ہوا سامنے آ گیا اور میں نے اشارہ سے بتا دیا کہ ابوجہل یہی ہے، بس پھر کیا تھا یہ دونوں لڑکے تلواریں لے کر اس پر اس طرح جھپٹے جس طرح باز اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ دونوں نے اپنی تلواروں سے مار مار کر ابوجہل کو زمین پر ڈھیر کر دیا۔ یہ دونوں لڑکے حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم تھے جو ” عفراء ” کے بیٹے تھے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے اپنے باپ کے قاتل حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کر دیا اور پیچھے سے ان کے بائیں شانہ پر تلوار ماری جس سے ان کا بازو کٹ گیا لیکن تھوڑا سا چمڑا باقی رہ گیا اور ہاتھ لٹکنے لگا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ کا پیچھا کیا اور دور تک دوڑایا مگر عکرمہ بھاگ کر بچ نکلا۔ حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حالت میں بھی لڑتے رہے لیکن کٹے ہوئے ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہو رہی تھی تو انہوں نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو پاؤں سے دبا کر اس زور سے کھینچا کہ تسمہ الگ ہو گیا اور پھر وہ آزاد ہو کر ایک ہاتھ سے لڑتے رہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابوجہل کے پاس سے گزرے، اس وقت ابوجہل میں کچھ کچھ زندگی کی رمق باقی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کی گردن کو اپنے پاؤں سے روند کر فرمایا کہ ” تو ہی ابوجہل ہے ! بتا آج تجھے اﷲ نے کیسا رسوا کیا۔ ” ابوجہل نے اس حالت میں بھی گھمنڈ کے ساتھ یہ کہا کہ تمہارے لئے یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے میرا قتل ہو جانا اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ایک آدمی کو اس کی قوم نے قتل کر دیا۔ ہاں ! مجھے اس کا افسوس ہے کہ کاش ! مجھے کسانوں کے سوا کوئی دوسرا شخص قتل کرتا۔ حضرت معوذ اور حضرت معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم چونکہ یہ دونوں انصاری تھے اور انصار کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور قبیلۂ قریش کے لوگ کسانوں کو بڑی حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اس لئے ابوجہل نے
کسانوں کے ہاتھ سے قتل ہونے کو اپنے لئے قابل افسوس بتایا۔
جنگ ختم ہو جانے کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر جب ابوجہل کی لاش کے پاس سے گزرے تو لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابوجہل اس زمانے کا ” فرعون ” ہے۔ پھر عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دیا۔(بخاری غزوه بدر و دلائل النبوة ج۲ ص۱۷۳)
ابو البختری کا قتل :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ کچھ لوگ کفار کے لشکر میں ایسے بھی ہیں جن کو کفار مکہ دباؤ ڈال کر لائے ہیں ایسے لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں کے نام بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بتا دیئے تھے۔ انہی لوگوں میں سے ابو البختری بھی تھا جو اپنی خوشی سے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ کفار قریش اس پر دباؤ ڈال کر زبردستی کرکے لائے تھے۔ عین جنگ کی حالت میں حضرت مجذر بن ذیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نظر ابو البختری پر پڑی جو اپنے ایک گہرے دوست جنادہ بن ملیحہ کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا۔ حضرت مجذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو البختری ! چونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے میں تجھ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ابو البختری نے کہا کہ میرے ساتھی جنادہ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ تو حضرت مجذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کو ہم زندہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سن کر ابو البختری طیش میں آ گیا اور کہا کہ میں عرب کی عورتوں کا یہ طعنہ سننا پسند نہیں کر سکتا کہ ابو البختری نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ساتھی کو تنہا چھوڑ دیا۔ یہ کہہ کر ابو البختری نے رجز کا یہ شعر پڑھا کہ
َلَنْ يُّسْلِمَ ابْنُ حُرَّةٍ زَمِیْلَهٗ حَتّٰي يَمُوْتَ اَوْ يَرٰی سَبِيْلَهٗ
ایک شریف زادہ اپنے ساتھی کو کبھی ہر گز نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ مر نہ جائے یا اپنا راستہ نہ دیکھ لے۔
اُمیّہ کی ہلاکت :۔
اُمیہ بن خلف بہت ہی بڑا دشمن رسول تھا۔ جنگ بدر میں جب کفر و اسلام کے دونوں لشکر گتھم گتھا ہو گئے تو اُمیہ اپنے پرانے تعلقات کی بنا پر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے چمٹ گیا کہ میری جان بچائیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رحم آ گیا اور آپ نے چاہا کہ اُمیہ بچ کر نکل بھاگے مگر حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ کو دیکھ لیا۔ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اُمیہ کے غلام تھے تو اُمیہ نے ان کو بہت زیادہ ستایا تھا اس لئے جوشِ انتقام میں حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انصار کو پکارا، انصاری لوگ دفعۃً ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ سے کہا کہ تم زمین پر لیٹ جاؤ وہ لیٹ گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کو بچانے کے لئے اس کے اوپر لیٹ کر اس کو چھپانے لگے لیکن حضرت بلال اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان کی ٹانگوں کے اندر ہاتھ ڈال کر اور بغل سے تلوار گھونپ گھونپ کر اس کو قتل کر دیا۔ (بخاری ج۱ ص۳۰۸ باب اذاوکل المسلم حربيًا)
فرشتوں کی فوج :۔
جنگ بدر میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کا لشکر اتار دیا تھا۔ پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ہو گئے اس کے بعد پانچ ہزار ہو گئے۔ (قرآن سوره آل عمران و انفال )
جب خوب گھمسان کا رن پڑا تو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے تھے مگر ان کی حرب و ضرب کے اثرات صاف نظر آتے تھے۔ بعض کافروں کی ناک اور منہ پر کوڑوں کی مار کا نشان پایا جاتا تھا، کہیں بغیر تلوار مارے سر کٹ کر گرتا نظر آتا تھا، یہ آسمان سے آنے والے فرشتوں کی فوج کے کارنامے تھے۔
کفار نے ہتھیار ڈال دیئے :۔
عتبہ، شیبہ، ابوجہل وغیرہ کفار قریش کے سرداروں کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
اس جنگ میں کفار کے ستر آدمی قتل اور ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے اس جنگ میں کفارِ مکہ کو ایسی زبردست شکست ہوئی کہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہو گئی۔ کفار قریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اور فن سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے ایک ایک کرکے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ ان ناموروں میں عتبہ، شیبہ، ابوجہل، ابو البختری، زمعہ، عاص بن ہشام، اُمیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن الحارث وغیرہ قریش کے سرتاج تھے یہ سب مارے گئے۔
شہدائے بدر :۔
جنگ ِ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ شہداء مہاجرین کے نام یہ ہیں:
اسماء شهداء غزوة بدر
ان شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ” صفراء ” میں وفات پائی اس لئے ان کی قبر شریف منزل ” صفراء ” میں ہے۔ (زُرقانی ج۱ ص۴۴۵)
بدر کا گڑھا :۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہ طرز عمل رہا کہ جہاں کبھی کوئی لاش نظر آتی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کو دفن کروا دیتے تھے لیکن جنگ ِ بدر میں قتل ہونے والے کفار چونکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، سب کو الگ الگ دفن کرنا ایک دشوار کام تھا اس لئے تمام لاشوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تمام لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا۔ اُمیہ بن خلف کی لاش پھول گئی تھی، صحابۂ کرام نے اس کو گھسیٹنا چاہا تو اس کے اعضاء الگ الگ ہونے لگے اس لئے اس کی لاش وہیں مٹی میں دبا دی گئی۔( بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جهل ج۲ ص۵۶۶)
کفار کی لاشوں سے خطاب :۔
جب کفار کی لاشیں بدر کے گڑھے میں ڈال دی گئیں تو حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر مقتولین کا نام لے کر اس طرح پکارا کہ اے عتبہ بن ربیعہ ! اے شیبہ بن ربیعہ ! اے فلاں ! اے فلاں ! کیا تم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدہ کو بالکل ٹھیک ٹھیک سچ پایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کفار کی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں توان کو بڑا تعجب ہوا۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ان بے روح کے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! قسم خدا کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ تم (زندہ لوگ) میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن اتنی بات ہے کہ یہ مردے جواب نہیں دے سکتے۔
ضروری تنبیہ :۔
بخاری وغیرہ کی اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ جب کفار کے مردے زندوں کی بات سنتے ہیں تو پھر مومنین خصوصاً اولیاء، شہداء، انبیاء علیہم السلام وفات کے بعد یقینا ہم زندوں کا سلام و کلام اور ہماری فریادیں سنتے ہیں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب کفار کی مردہ لاشوں کو پکارا توپھر خدا کے برگزیدہ بندوں یعنی ولیوں، شہیدوں اور نبیوں کو ان کی وفات کے بعد پکارنا بھلا کیوں نہ جائز و درست ہوگا ؟ اسی لئے تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب مدینہ کے قبرستان میں تشریف لے جاتے تو قبروں کی طرف اپنا رخِ انور کرکے یوں فرماتے کہ
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا اَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَنَا وَ لَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثَرِ(مشکوٰة باب زیارة القبور ص۱۵۴)
یعنی ” اے قبر والو ! تم پر سلام ہو خدا ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ ” اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی یہی حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے کہ جب تم لوگ قبروں کی زیارت کے لئے جاؤ تو
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ اَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَآءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللّٰهَ لَنَا وَ لَکُمُ الْعَافِيَةَ(مشکوٰة باب زيارة القبور ص۱۵۴)
ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ مردے زندوں کا سلام و کلام سنتے ہیں ورنہ ظاہر ہے کہ جو لوگ سنتے ہی نہیں ان کو سلام کرنے سے کیا حاصل ؟
مدینہ کو واپسی :۔
فتح کے بعد تین دن تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” بدر ” میں قیام فرمایا پھر تمام اموال غنیمت اور کفار قیدیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب ” وادی صفرا ” میں پہنچے تو اموالِ غنیمت کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرمایا۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں جنگ ِ بدر کے موقع پر بیمار تھیں اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صاحبزادی کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا تھا اس لئے وہ جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے ان کو مجاہدین بدر کے برابر ہی حصہ دیا اور ان کے برابر ہی اجر و ثواب کی بشارت بھی دی اسی لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اصحاب بدر کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔
مجاہدین بدر کا استقبال :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فتح مبین کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ بھیج دیا تھا۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ خوشخبری لے کر جب مدینہ پہنچے تو تمام اہل مدینہ جوش مسرت کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کے انتظار میں بے قرار رہنے لگے اور جب تشریف آوری کی خبر پہنچی تو اہل مدینہ نے آگے بڑھ کر مقام ” روحاء ” میں آپ کا پر جوش استقبال کیا۔(ابن هشام ج۲ ص۶۴۳)
قیدیوں کے ساتھ سلوک :۔
کفار مکہ جب اسیران جنگ بن کر مدینہ میں آئے توان کو دیکھنے کے لئے بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور لوگ ان کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ بولتے رہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان قیدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور یہ دیکھا کہ ان قیدیوں میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار ” سہیل ” بھی ہیں تو وہ بے ساختہ بول اٹھیں کہ ” اے سہیل ! تم نے بھی عورتوں کی طرح بیڑیاں پہن لیں تم سے یہ نہ ہو سکا کہ بہادر مردوں کی طرح لڑتے ہوئے قتل ہو جاتے۔”(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۴۵)
ان قیدیوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں تقسیم فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ ان قیدیوں کو آرام کے ساتھ رکھا جائے۔ چنانچہ دو دو، چار چار قیدی صحابہ کے گھروں میں رہنے لگے اور صحابہ نے ان لوگوں کے ساتھ یہ حسن سلوک کیا کہ ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب مقدور بہترین کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ (ابن هشام ج ۲ ص ۶۴۶)
قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے بدن پر کرتا نہیں تھا لیکن وہ اتنے لمبے قد کے آدمی تھے کہ کسی کا کرتا ان کے بدن پر ٹھیک نہیں اترتا تھا عبداﷲ بن اُبی(منافقین کا سردار) چونکہ قد میں ان کے برابر تھا اس لئے اس نے اپنا کرتا ان کو پہنا دیا۔ بخاری میں یہ روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبداﷲ بن اُبی کے کفن کے لئے جو اپنا پیراہن شریف عطا فرمایا تھا وہ اسی احسان کا بدلہ تھا۔ (بخاری باب الکسوة للاساری ج۱ ص۴۲۲)
اسیرانِ جنگ کا انجام :۔
ان قیدیوں کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ اِن سب دشمنانِ اسلام کو قتل کر دینا چاہیے اور ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے قریبی رشتہ دار کو اپنی تلوار سے قتل کرے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ آخر یہ سب لوگ اپنے عزیز و اقارب ہی ہیں لہٰذا انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان لوگوں سے بطور فدیہ کچھ رقم لے کر ان سب کو رہا کر دیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے فدیہ کی رقم سے مسلمانوں کی مالی امداد کا سامان بھی ہو جائے گا اور شاید آئندہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی توفیق نصیب فرمائے۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سنجیدہ رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں سے چار چار ہزار درہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جو لوگ مفلسی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دیئے گئے۔ ان قیدیوں میں جو لوگ لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے دس لڑکوں کو لکھنا سکھا دیں۔ (ابن هشام ج۲ ص۶۴۶)
حضرت عباس کا فدیہ :۔
انصار نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ درخواست عرض کی کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عباس ہمارے بھانجے ہیں لہٰذا ہم ان کا فدیہ معاف کرتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور نہیں فرمائی۔ حضرت عباس قریش کے ان دس دولت مند رئیسوں میں سے تھے جنہوں نے لشکر کفار کے راشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس غرض کے لئے حضرت عباس کے پاس بیس اوقیہ سونا تھا۔ چونکہ فوج کو کھانا کھلانے میں ابھی حضرت عباس کی باری نہیں آئی تھی اس لئے وہ سونا ابھی تک ان کے پاس محفوظ تھا۔ اس سونے کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں شامل فرما لیا اور حضرت عباس سے مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو بن جحدم چار شخصوں کا فدیہ ادا کریں۔ حضرت عباس نے کہا کہ میرے پاس کوئی مال ہی نہیں ہے، میں کہاں سے فدیہ ادا کروں ؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا جان ! آپ کا وہ مال کہاں ہے ؟ جو آپ نے جنگ ِ بدر کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی ” ام الفضل ” کو دیا تھا اور یہ کہا تھا اگر میں اس لڑائی میں مارا جاؤں تو اس میں سے اتنا اتنا مال میرے لڑکوں کو دے دینا۔ یہ سن کر حضرت عباس نے کہا کہ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ یقینا آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ اس مال کا علم میرے اور میری بیوی ام الفضل کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کرکے رہائی حاصل کی پھر اس کے بعد حضرت عباس اور حضرت عقیل اور حضرت نوفل تینوں مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) (مدارج النبوة ج۲ ص۹۷ و زُرقانی ج۱ ص۴۴۷)
حضرت زینب کا ہار :۔
جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابو العاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ” اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو ” یہ سن کر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سر تسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔(تاريخ طبری ص ۱۳۴۸)
ابو العاص رہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے اور حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر تھے یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آرہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں پر تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ آ کر حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔(تاريخ طبری)
مقتولین بدر کا ماتم :۔
بدر میں کفارِ قریش کی شکست فاش کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو ایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے کہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے ابو سفیان نے تمام شہر میں اعلان کرا دیا کہ خبردار کوئی شخص رونے نہ پائے۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دو لڑکے ” عقیل ” اور ” زمعہ ” اور ایک پوتا ” حارث بن زمعہ ” قتل ہوئے تھے۔ اس صدمۂ جان کاہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی بھٹراس نکل جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتا تھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے ؟ کیا بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہو گئی ہے ؟ میرے سینے میں رنج و غم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونے کے لیے بے قرار ہوں۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رو رہی ہے۔ اسود شاعر تھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ درد ناک اشعار نکل پڑے جس کے لفظ لفظ سے خون ٹپک رہا ہے
اَتَبْکِيْ اَنَ يَّضِلَّ لَهَا بَعِيْرٌ وَ يَمْنَعُهَا مِنَ النَّوْمِ السُّهُوْدُ
کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پر رو رہی ہے ؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کو روک دیا ہے۔
فَلاَ تَبْکِیْ عَلٰی بَکْرٍ وَّ لٰکِنْ عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے لیکن “بدر” پر روئے جہاں قسمتوں نے کوتا ہی کی ہے۔
وَ بَکِّيْ اِنْ بَکَيْتِ عَلٰي عَقِيْلٍ وَ بَکِّیْ حَارِثًا اَسَدَ الْاُسُوْدِ
اگر تجھ کو رونا ہے تو “عقیل” پر رویا کر اور “حارث” پر رویا کر جو شیروں کا شیر تھا۔
وَبَکِّيْهِمْ وَ لَا تَسَمِيْ جَمِيْعًا وَ مَا لِاَبِيْ حَکِيْمَةَ مِنْ نَدِيْد
اور ان سب پر رویا کر مگر ان سبھوں کا نام مت لے اور ” ابو حکیمہ ” ” زمعہ ” کا تو کوئی ہمسر ہی نہیں ہے۔( ابن هشام ج ۲ص ۶۵۷)
عمیر اور صفوان کی خوفناک سازش :۔
ایک دن عمیر اور صفوان دونوں حطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر پر آنسو بہا رہے تھے۔ ایک دم صفوان بول اُٹھا کہ اے عمیر ! میرا باپ اور دوسرے روسائے مکہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہو رہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ عمیر نے کہا کہ اے صفوان ! تم سچ کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، میرے اعزہ و اقرباء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میرا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میں قرضدار نہ ہوتا اور بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تو ابھی ابھی میں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ جاتا اور دم زدن میں دھوکہ سے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کر صفوان نے کہا کہ اے عمیر ! تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو۔ میں خدا کے گھر میں عہد کرتا ہوں کہ تمہارا سارا قرض ادا کردوں گا اور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں۔ اس معاہدہ کے بعد عمیر سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہوئی تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلہ دبائے اور گردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں عمیر ! کس ارادہ سے آئے ہو ؟ جواب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اور صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے ؟ عمیر یہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آگیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم ! میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ادھر مکہ میں صفوان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کے لیے انتہائی بے قرار تھا اور دن گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمان ہو گیا تو فرطِ حیرت سے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔(تاريخ طبری ص۱۳۵۴)
مجاہدین بدر کے فضائل :۔
جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنگ ِ بدر کے جہاد میں شریک ہو گئے وہ تمام صحابہ میں ایک خصوصی شرف کے ساتھ ممتاز ہیں اور ان خوش نصیبوں کے فضائل میں ایک بہت ہی عظیم الشان فضیلت یہ ہے کہ ان سعادت مندوں کے بارے میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ
“بے شک اﷲ تعالیٰ اہل بدر سے واقف ہے اور اس نے یہ فرما دیا ہے کہ تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے یا (یہ فرمایا) کہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔”(بخاری باب فضل من شهد بدرًا ج۲ ص۵۶۷)
ابو لہب کی عبر تناک موت :۔
ابولہب جنگ ِ بدر میں شریک نہیں ہو سکا۔ جب کفارِ قریش شکست کھا کر مکہ واپس آئے تو لوگوں کی زبانی جنگ ِ بدر کے حالات سن کر ابولہب کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑ گیا اور آٹھویں دن مر گیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتے تھے اس لیے اس کے بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اور بعض مورخین نے تحریر فرمایا کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (زُرقانی ج۱ ص۴۵۲)
غزوہ بنی قینقاع :۔
رمضان ۲ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے معرکہ سے واپس ہوکر مدینہ واپس لوٹے۔ اس کے بعد ہی ۱۵ شوال ۲ ھ میں ” غزوہ بنی قینقاع ” کا واقعہ درپیش ہو گیا۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین بڑے بڑے قبائل آباد تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ۔ ان تینوں سے مسلمانوں کا معاہدہ تھا مگر جنگ ِ بدر کے بعد جس قبیلہ نے سب سے پہلے معاہدہ توڑا وہ قبیلہ بنو قینقاع کے یہودی تھے جو سب سے زیادہ بہادر اور دولت مند تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک برقع پوش عرب عورت یہودیوں کے بازار میں آئی، دکانداروں نے شرارت کی اور اس عورت کو ننگا کر دیا اس پر تمام یہودی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے، عورت چلائی تو ایک عرب آیا اور دکاندار کو قتل کر دیا اس پر یہودیوں اور عربوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو تشریف لائے اور یہودیوں کی اس غیر شریفانہ حرکت پر ملامت فرمانے لگے۔ اس پر بنو قینقاع کے خبیث یہودی بگڑ گئے اور بولے کہ جنگ ِ بدر کی فتح سے آپ مغرور نہ ہو جائیں مکہ والے جنگ کے معاملہ میں بے ڈھنگے تھے اس لئے آپ نے ان کو مار لیا اگر ہم سے آپ کا سابقہ پڑا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ کس چیز کا نام ہے ؟ اور لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں ؟ جب یہودیوں نے معاہدہ توڑ دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نصف شوال ۲ ھ سنیچر کے دن ان یہودیوں پر حملہ کردیا۔ یہودی جنگ کی تاب نہ لا سکے اور اپنے قلعوں کا پھاٹک بند کرکے قلعہ بند ہو گئے مگر پندرہ دن کے محاصرہ کے بعد بالآخر یہودی مغلوب ہو گئے اور ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورہ سے ان یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور یہ عہد شکن، بد ذات یہودی ملک شام کے مقام ” اذرعات ” میں جاکر آباد ہو گئے۔(زُرقانی ج۱ ص۴۵۸)
غزوۂ سویق :۔
یہ ہم تحریر کر چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر کے بعد مکہ کے ہر گھر میں سرداران قریش کے قتل ہو جانے کا ماتم برپا تھااور اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے کے لئے مکہ کا بچہ بچہ مضطرب اور بے قرار تھا۔ چنانچہ غزوۂ سویق اور جنگ ِ اُحد وغیرہ کی لڑائیاں مکہ والوں کے اسی جوشِ انتقام کا نتیجہ ہیں۔
عتبہ اور ابو جہل کے قتل ہو جانے کے بعد اب قریش کا سردارِ اعظم ابو سفیان تھا اور اس منصب کا سب سے بڑا کام غزوۂ بدر کا انتقام تھا۔ چنانچہ ابو سفیان نے قسم کھا لی کہ جب تک بدر کے مقتولوں کا مسلمانوں سے بدلہ نہ لوں گا نہ غسل جنابت کروں گا نہ سر میں تیل ڈالوں گا۔ چنانچہ جنگ ِ بدر کے دو ماہ بعد ذوالحجہ ۲ ھ میں ابو سفیان دو سو شتر سواروں کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف بڑھا۔ اس کو یہودیوں پر بڑا بھروسا بلکہ ناز تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ اس کی امداد کریں گے۔ اسی امید پر ابو سفیان پہلے ” حیی بن اخطب ” یہودی کے پاس گیا مگر اس نے دروازہ بھی نہیں کھولا۔ وہاں سے مایوس ہو کر سلام بن مشکم سے ملا جو قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کا سردار تھااور یہود کے تجارتی خزانہ کا مینجر بھی تھا اس نے ابو سفیان کا پر جوش استقبال کیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام جنگی رازوں سے ابو سفیان کو آگاہ کر دیا۔ صبح کو ابوسفیان نے مقام ” عریض ” پر حملہ کیا یہ بستی مدینہ سے تین میل کی دوری پر تھی، اس حملہ میں ابو سفیان نے ایک انصاری صحابی کو جن کا نام سعد بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا شہید کر دیا اور کچھ درختوں کو کاٹ ڈالا اور مسلمانوں کے چند گھروں اور باغات کو آگ لگا کر پھونک دیا، ان حرکتوں سے اس کے گمان میں اس کی قسم پوری ہو گئی۔ جب حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کا تعاقب کیا لیکن ابو سفیان بد حواس ہو کر اس قدر تیزی سے بھاگا کہ بھاگتے ہوئے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ستو کی بوریاں جو وہ اپنی فوج کے راشن کے لئے لایا تھا پھینکتا چلا گیا جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ عربی زبان میں ستو کو سویق کہتے ہیں اسی لئے اس غزوہ کا نام غزوہ سویق پڑ گیا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۰۴)
حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی :۔
اسی سال ۲ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوئی۔ یہ شادی انتہائی وقار اور سادگی کے ساتھ ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرات ابوبکر صدیق و عمر و عثمان و عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے چند مہاجرین و انصار رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مدعو کریں۔ چنانچہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جمع ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور نکاح پڑھا دیا۔ شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شہزادی اسلام حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جہیز میں جو سامان دیا اس کی فہرست یہ ہے۔ ایک کملی، بان کی ایک چارپائی، چمڑے کا گدا جس میں روئی کی جگہ کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک چھاگل، ایک مشک، دو چکیاں، دو مٹی کے گھڑے۔ حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپناایک مکان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس لئے نذر کر دیا کہ اس میں حضرت علی اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سکونت فرمائیں۔ جب حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رخصت ہو کر نئے گھر میں گئیں تو عشاء کی نماز کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور ایک برتن میں پانی طلب فرمایا اور اس میں کلی فرما کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سینہ اور بازوؤں پر پانی چھڑکا پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور ان کے سر اور سینہ پر بھی پانی چھڑکا اور پھر یوں دعا فرمائی کہ یااﷲ میں علی اور فاطمہ اور ان کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں کہ یہ سب شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔
ھ ۲ کے متفرق واقعات :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یہ فرما دیا تھا کہ کچھ لوگ کفار کے لشکر میں ایسے بھی ہیں جن کو کفار مکہ دباؤ ڈال کر لائے ہیں ایسے لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں کے نام بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بتا دیئے تھے۔ انہی لوگوں میں سے ابو البختری بھی تھا جو اپنی خوشی سے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ کفار قریش اس پر دباؤ ڈال کر زبردستی کرکے لائے تھے۔ عین جنگ کی حالت میں حضرت مجذر بن ذیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نظر ابو البختری پر پڑی جو اپنے ایک گہرے دوست جنادہ بن ملیحہ کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا۔ حضرت مجذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو البختری ! چونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے میں تجھ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ ابو البختری نے کہا کہ میرے ساتھی جنادہ کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ تو حضرت مجذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس کو ہم زندہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سن کر ابو البختری طیش میں آ گیا اور کہا کہ میں عرب کی عورتوں کا یہ طعنہ سننا پسند نہیں کر سکتا کہ ابو البختری نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ساتھی کو تنہا چھوڑ دیا۔ یہ کہہ کر ابو البختری نے رجز کا یہ شعر پڑھا کہ
َلَنْ يُّسْلِمَ ابْنُ حُرَّةٍ زَمِیْلَهٗ حَتّٰي يَمُوْتَ اَوْ يَرٰی سَبِيْلَهٗ
ایک شریف زادہ اپنے ساتھی کو کبھی ہر گز نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ مر نہ جائے یا اپنا راستہ نہ دیکھ لے۔
اُمیّہ کی ہلاکت :۔
اُمیہ بن خلف بہت ہی بڑا دشمن رسول تھا۔ جنگ بدر میں جب کفر و اسلام کے دونوں لشکر گتھم گتھا ہو گئے تو اُمیہ اپنے پرانے تعلقات کی بنا پر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے چمٹ گیا کہ میری جان بچائیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رحم آ گیا اور آپ نے چاہا کہ اُمیہ بچ کر نکل بھاگے مگر حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ کو دیکھ لیا۔ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اُمیہ کے غلام تھے تو اُمیہ نے ان کو بہت زیادہ ستایا تھا اس لئے جوشِ انتقام میں حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انصار کو پکارا، انصاری لوگ دفعۃً ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اُمیہ سے کہا کہ تم زمین پر لیٹ جاؤ وہ لیٹ گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کو بچانے کے لئے اس کے اوپر لیٹ کر اس کو چھپانے لگے لیکن حضرت بلال اور انصار رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان کی ٹانگوں کے اندر ہاتھ ڈال کر اور بغل سے تلوار گھونپ گھونپ کر اس کو قتل کر دیا۔ (بخاری ج۱ ص۳۰۸ باب اذاوکل المسلم حربيًا)
فرشتوں کی فوج :۔
جنگ بدر میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کا لشکر اتار دیا تھا۔ پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ہو گئے اس کے بعد پانچ ہزار ہو گئے۔ (قرآن سوره آل عمران و انفال )
جب خوب گھمسان کا رن پڑا تو فرشتے کسی کو نظر نہیں آتے تھے مگر ان کی حرب و ضرب کے اثرات صاف نظر آتے تھے۔ بعض کافروں کی ناک اور منہ پر کوڑوں کی مار کا نشان پایا جاتا تھا، کہیں بغیر تلوار مارے سر کٹ کر گرتا نظر آتا تھا، یہ آسمان سے آنے والے فرشتوں کی فوج کے کارنامے تھے۔
کفار نے ہتھیار ڈال دیئے :۔
عتبہ، شیبہ، ابوجہل وغیرہ کفار قریش کے سرداروں کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
اس جنگ میں کفار کے ستر آدمی قتل اور ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے اس جنگ میں کفارِ مکہ کو ایسی زبردست شکست ہوئی کہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہو گئی۔ کفار قریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اور فن سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے ایک ایک کرکے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ ان ناموروں میں عتبہ، شیبہ، ابوجہل، ابو البختری، زمعہ، عاص بن ہشام، اُمیہ بن خلف، منبہ بن الحجاج، عقبہ بن ابی معیط، نضر بن الحارث وغیرہ قریش کے سرتاج تھے یہ سب مارے گئے۔
شہدائے بدر :۔
جنگ ِ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے جن میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔ شہداء مہاجرین کے نام یہ ہیں:
(۱) حضرت عبیدہ بن الحارث
(۲) حضرت عمیر بن ابی وقاص
(۳) حضرت ذوالشمالین عمیر بن عبد عمرو
(۴) حضرت عاقل بن ابی بکی
(۵) حضرت مہجع
(۶) حضرت صفوان بن بیضاء اور انصار کے ناموں کی فہرست یہ ہے
(۷) حضرت سعد بن خیثمہ
(۸) حضرت مبشر بن عبدالمنذر
(۹) حضرت حارثہ بن سراقہ
(۱۰) حضرت معوذ بن عفراء
(۱۱) حضرت عمیر بن حمام
(۱۲) حضرت رافع بن معلی
(۱۳) حضرت عوف بن عفراء
(۱۴) حضرت یزید بن حارث۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین
(زُرقانی ج۱ ص ۴۴۴ و ص۴۴۵)
اسماء شهداء غزوة بدر
ان شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل ” صفراء ” میں وفات پائی اس لئے ان کی قبر شریف منزل ” صفراء ” میں ہے۔ (زُرقانی ج۱ ص۴۴۵)
بدر کا گڑھا :۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہمیشہ یہ طرز عمل رہا کہ جہاں کبھی کوئی لاش نظر آتی تھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کو دفن کروا دیتے تھے لیکن جنگ ِ بدر میں قتل ہونے والے کفار چونکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، سب کو الگ الگ دفن کرنا ایک دشوار کام تھا اس لئے تمام لاشوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تمام لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا۔ اُمیہ بن خلف کی لاش پھول گئی تھی، صحابۂ کرام نے اس کو گھسیٹنا چاہا تو اس کے اعضاء الگ الگ ہونے لگے اس لئے اس کی لاش وہیں مٹی میں دبا دی گئی۔( بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جهل ج۲ ص۵۶۶)
کفار کی لاشوں سے خطاب :۔
جب کفار کی لاشیں بدر کے گڑھے میں ڈال دی گئیں تو حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر مقتولین کا نام لے کر اس طرح پکارا کہ اے عتبہ بن ربیعہ ! اے شیبہ بن ربیعہ ! اے فلاں ! اے فلاں ! کیا تم لوگوں نے اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا ؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدہ کو بالکل ٹھیک ٹھیک سچ پایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کفار کی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں توان کو بڑا تعجب ہوا۔ چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ان بے روح کے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! قسم خدا کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ تم (زندہ لوگ) میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے لیکن اتنی بات ہے کہ یہ مردے جواب نہیں دے سکتے۔
ضروری تنبیہ :۔
بخاری وغیرہ کی اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ جب کفار کے مردے زندوں کی بات سنتے ہیں تو پھر مومنین خصوصاً اولیاء، شہداء، انبیاء علیہم السلام وفات کے بعد یقینا ہم زندوں کا سلام و کلام اور ہماری فریادیں سنتے ہیں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب کفار کی مردہ لاشوں کو پکارا توپھر خدا کے برگزیدہ بندوں یعنی ولیوں، شہیدوں اور نبیوں کو ان کی وفات کے بعد پکارنا بھلا کیوں نہ جائز و درست ہوگا ؟ اسی لئے تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب مدینہ کے قبرستان میں تشریف لے جاتے تو قبروں کی طرف اپنا رخِ انور کرکے یوں فرماتے کہ
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَا اَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَنَا وَ لَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَ نَحْنُ بِالْاَثَرِ(مشکوٰة باب زیارة القبور ص۱۵۴)
یعنی ” اے قبر والو ! تم پر سلام ہو خدا ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم لوگ ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ ” اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی یہی حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے کہ جب تم لوگ قبروں کی زیارت کے لئے جاؤ تو
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ اَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُسْلِمِيْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَآءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللّٰهَ لَنَا وَ لَکُمُ الْعَافِيَةَ(مشکوٰة باب زيارة القبور ص۱۵۴)
ان حدیثوں سے ظاہر ہے کہ مردے زندوں کا سلام و کلام سنتے ہیں ورنہ ظاہر ہے کہ جو لوگ سنتے ہی نہیں ان کو سلام کرنے سے کیا حاصل ؟
مدینہ کو واپسی :۔
فتح کے بعد تین دن تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” بدر ” میں قیام فرمایا پھر تمام اموال غنیمت اور کفار قیدیوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب ” وادی صفرا ” میں پہنچے تو اموالِ غنیمت کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرمایا۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں جنگ ِ بدر کے موقع پر بیمار تھیں اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صاحبزادی کی تیمارداری کے لئے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا تھا اس لئے وہ جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے ان کو مجاہدین بدر کے برابر ہی حصہ دیا اور ان کے برابر ہی اجر و ثواب کی بشارت بھی دی اسی لئے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھی اصحاب بدر کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔
مجاہدین بدر کا استقبال :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتح کے بعد حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فتح مبین کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ بھیج دیا تھا۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ خوشخبری لے کر جب مدینہ پہنچے تو تمام اہل مدینہ جوش مسرت کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کے انتظار میں بے قرار رہنے لگے اور جب تشریف آوری کی خبر پہنچی تو اہل مدینہ نے آگے بڑھ کر مقام ” روحاء ” میں آپ کا پر جوش استقبال کیا۔(ابن هشام ج۲ ص۶۴۳)
قیدیوں کے ساتھ سلوک :۔
کفار مکہ جب اسیران جنگ بن کر مدینہ میں آئے توان کو دیکھنے کے لئے بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا اور لوگ ان کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ بولتے رہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت بی بی سودہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ان قیدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لائیں اور یہ دیکھا کہ ان قیدیوں میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار ” سہیل ” بھی ہیں تو وہ بے ساختہ بول اٹھیں کہ ” اے سہیل ! تم نے بھی عورتوں کی طرح بیڑیاں پہن لیں تم سے یہ نہ ہو سکا کہ بہادر مردوں کی طرح لڑتے ہوئے قتل ہو جاتے۔”(سيرت ابن هشام ج۲ ص۶۴۵)
ان قیدیوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں تقسیم فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ ان قیدیوں کو آرام کے ساتھ رکھا جائے۔ چنانچہ دو دو، چار چار قیدی صحابہ کے گھروں میں رہنے لگے اور صحابہ نے ان لوگوں کے ساتھ یہ حسن سلوک کیا کہ ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب مقدور بہترین کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجوریں کھا کر رہ جاتے تھے۔ (ابن هشام ج ۲ ص ۶۴۶)
قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے بدن پر کرتا نہیں تھا لیکن وہ اتنے لمبے قد کے آدمی تھے کہ کسی کا کرتا ان کے بدن پر ٹھیک نہیں اترتا تھا عبداﷲ بن اُبی(منافقین کا سردار) چونکہ قد میں ان کے برابر تھا اس لئے اس نے اپنا کرتا ان کو پہنا دیا۔ بخاری میں یہ روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبداﷲ بن اُبی کے کفن کے لئے جو اپنا پیراہن شریف عطا فرمایا تھا وہ اسی احسان کا بدلہ تھا۔ (بخاری باب الکسوة للاساری ج۱ ص۴۲۲)
اسیرانِ جنگ کا انجام :۔
ان قیدیوں کے بارے میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ اِن سب دشمنانِ اسلام کو قتل کر دینا چاہیے اور ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے قریبی رشتہ دار کو اپنی تلوار سے قتل کرے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ آخر یہ سب لوگ اپنے عزیز و اقارب ہی ہیں لہٰذا انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان لوگوں سے بطور فدیہ کچھ رقم لے کر ان سب کو رہا کر دیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے فدیہ کی رقم سے مسلمانوں کی مالی امداد کا سامان بھی ہو جائے گا اور شاید آئندہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی توفیق نصیب فرمائے۔ حضور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سنجیدہ رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں سے چار چار ہزار درہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جو لوگ مفلسی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دیئے گئے۔ ان قیدیوں میں جو لوگ لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصار کے دس لڑکوں کو لکھنا سکھا دیں۔ (ابن هشام ج۲ ص۶۴۶)
حضرت عباس کا فدیہ :۔
انصار نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ درخواست عرض کی کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عباس ہمارے بھانجے ہیں لہٰذا ہم ان کا فدیہ معاف کرتے ہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور نہیں فرمائی۔ حضرت عباس قریش کے ان دس دولت مند رئیسوں میں سے تھے جنہوں نے لشکر کفار کے راشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس غرض کے لئے حضرت عباس کے پاس بیس اوقیہ سونا تھا۔ چونکہ فوج کو کھانا کھلانے میں ابھی حضرت عباس کی باری نہیں آئی تھی اس لئے وہ سونا ابھی تک ان کے پاس محفوظ تھا۔ اس سونے کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں شامل فرما لیا اور حضرت عباس سے مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو بن جحدم چار شخصوں کا فدیہ ادا کریں۔ حضرت عباس نے کہا کہ میرے پاس کوئی مال ہی نہیں ہے، میں کہاں سے فدیہ ادا کروں ؟ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا جان ! آپ کا وہ مال کہاں ہے ؟ جو آپ نے جنگ ِ بدر کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی ” ام الفضل ” کو دیا تھا اور یہ کہا تھا اگر میں اس لڑائی میں مارا جاؤں تو اس میں سے اتنا اتنا مال میرے لڑکوں کو دے دینا۔ یہ سن کر حضرت عباس نے کہا کہ قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ یقینا آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ اس مال کا علم میرے اور میری بیوی ام الفضل کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کرکے رہائی حاصل کی پھر اس کے بعد حضرت عباس اور حضرت عقیل اور حضرت نوفل تینوں مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) (مدارج النبوة ج۲ ص۹۷ و زُرقانی ج۱ ص۴۴۷)
حضرت زینب کا ہار :۔
جنگِ بدر کے قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشورہ لے کر اپنی لڑکی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا ابو العاص بن الربیع سے نکاح کر دیا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابو العاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں۔ حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جہیز میں ایک قیمتی ہار بھی دیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فدیہ کی رقم کے ساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مدینہ بھیج دیا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نظر اس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسا رقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اور صحابہ سے فرمایا کہ ” اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دو ” یہ سن کر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سر تسلیم خم کر دیا اور یہ ہار حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔(تاريخ طبری ص ۱۳۴۸)
ابو العاص رہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے اور حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مدینہ بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر تھے یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آرہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مالِ غنیمت تمام سپاہیوں پر تقسیم بھی ہو گیا۔ ابو العاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے ان کو پناہ دے کر اپنے گھر میں اتارا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو۔ فرمانِ رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابو العاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارا مال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آکر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارا روپیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مدینہ آ کر حضرت بی بی زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔(تاريخ طبری)
مقتولین بدر کا ماتم :۔
بدر میں کفارِ قریش کی شکست فاش کی خبر جب مکہ میں پہنچی تو ایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے کہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے ابو سفیان نے تمام شہر میں اعلان کرا دیا کہ خبردار کوئی شخص رونے نہ پائے۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دو لڑکے ” عقیل ” اور ” زمعہ ” اور ایک پوتا ” حارث بن زمعہ ” قتل ہوئے تھے۔ اس صدمۂ جان کاہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تاکہ دل کی بھٹراس نکل جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتا تھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے ؟ کیا بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہو گئی ہے ؟ میرے سینے میں رنج و غم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونے کے لیے بے قرار ہوں۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رو رہی ہے۔ اسود شاعر تھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ درد ناک اشعار نکل پڑے جس کے لفظ لفظ سے خون ٹپک رہا ہے
اَتَبْکِيْ اَنَ يَّضِلَّ لَهَا بَعِيْرٌ وَ يَمْنَعُهَا مِنَ النَّوْمِ السُّهُوْدُ
کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پر رو رہی ہے ؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کو روک دیا ہے۔
فَلاَ تَبْکِیْ عَلٰی بَکْرٍ وَّ لٰکِنْ عَلٰی بَدْرٍ تَقَاصَرَتِ الْجُدُوْدُ
تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے لیکن “بدر” پر روئے جہاں قسمتوں نے کوتا ہی کی ہے۔
وَ بَکِّيْ اِنْ بَکَيْتِ عَلٰي عَقِيْلٍ وَ بَکِّیْ حَارِثًا اَسَدَ الْاُسُوْدِ
اگر تجھ کو رونا ہے تو “عقیل” پر رویا کر اور “حارث” پر رویا کر جو شیروں کا شیر تھا۔
وَبَکِّيْهِمْ وَ لَا تَسَمِيْ جَمِيْعًا وَ مَا لِاَبِيْ حَکِيْمَةَ مِنْ نَدِيْد
اور ان سب پر رویا کر مگر ان سبھوں کا نام مت لے اور ” ابو حکیمہ ” ” زمعہ ” کا تو کوئی ہمسر ہی نہیں ہے۔( ابن هشام ج ۲ص ۶۵۷)
عمیر اور صفوان کی خوفناک سازش :۔
ایک دن عمیر اور صفوان دونوں حطیم کعبہ میں بیٹھے ہوئے مقتولین بدر پر آنسو بہا رہے تھے۔ ایک دم صفوان بول اُٹھا کہ اے عمیر ! میرا باپ اور دوسرے روسائے مکہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہو رہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ عمیر نے کہا کہ اے صفوان ! تم سچ کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، میرے اعزہ و اقرباء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میرا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میں قرضدار نہ ہوتا اور بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تو ابھی ابھی میں تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ جاتا اور دم زدن میں دھوکہ سے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کر صفوان نے کہا کہ اے عمیر ! تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو۔ میں خدا کے گھر میں عہد کرتا ہوں کہ تمہارا سارا قرض ادا کردوں گا اور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں۔ اس معاہدہ کے بعد عمیر سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہوئی تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچا تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلہ دبائے اور گردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں عمیر ! کس ارادہ سے آئے ہو ؟ جواب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اور صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے ؟ عمیر یہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آگیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اﷲ عزوجل کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم ! میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ ادھر مکہ میں صفوان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی خبر سننے کے لیے انتہائی بے قرار تھا اور دن گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمان ہو گیا تو فرطِ حیرت سے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔(تاريخ طبری ص۱۳۵۴)
مجاہدین بدر کے فضائل :۔
جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنگ ِ بدر کے جہاد میں شریک ہو گئے وہ تمام صحابہ میں ایک خصوصی شرف کے ساتھ ممتاز ہیں اور ان خوش نصیبوں کے فضائل میں ایک بہت ہی عظیم الشان فضیلت یہ ہے کہ ان سعادت مندوں کے بارے میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ
“بے شک اﷲ تعالیٰ اہل بدر سے واقف ہے اور اس نے یہ فرما دیا ہے کہ تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے یا (یہ فرمایا) کہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔”(بخاری باب فضل من شهد بدرًا ج۲ ص۵۶۷)
ابو لہب کی عبر تناک موت :۔
ابولہب جنگ ِ بدر میں شریک نہیں ہو سکا۔ جب کفارِ قریش شکست کھا کر مکہ واپس آئے تو لوگوں کی زبانی جنگ ِ بدر کے حالات سن کر ابولہب کو انتہائی رنج و ملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک کی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑ گیا اور آٹھویں دن مر گیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتے تھے اس لیے اس کے بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش کو ہاتھ نہیں لگایا مگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اور بعض مورخین نے تحریر فرمایا کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (زُرقانی ج۱ ص۴۵۲)
غزوہ بنی قینقاع :۔
رمضان ۲ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے معرکہ سے واپس ہوکر مدینہ واپس لوٹے۔ اس کے بعد ہی ۱۵ شوال ۲ ھ میں ” غزوہ بنی قینقاع ” کا واقعہ درپیش ہو گیا۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے تین بڑے بڑے قبائل آباد تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ۔ ان تینوں سے مسلمانوں کا معاہدہ تھا مگر جنگ ِ بدر کے بعد جس قبیلہ نے سب سے پہلے معاہدہ توڑا وہ قبیلہ بنو قینقاع کے یہودی تھے جو سب سے زیادہ بہادر اور دولت مند تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک برقع پوش عرب عورت یہودیوں کے بازار میں آئی، دکانداروں نے شرارت کی اور اس عورت کو ننگا کر دیا اس پر تمام یہودی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے، عورت چلائی تو ایک عرب آیا اور دکاندار کو قتل کر دیا اس پر یہودیوں اور عربوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو تشریف لائے اور یہودیوں کی اس غیر شریفانہ حرکت پر ملامت فرمانے لگے۔ اس پر بنو قینقاع کے خبیث یہودی بگڑ گئے اور بولے کہ جنگ ِ بدر کی فتح سے آپ مغرور نہ ہو جائیں مکہ والے جنگ کے معاملہ میں بے ڈھنگے تھے اس لئے آپ نے ان کو مار لیا اگر ہم سے آپ کا سابقہ پڑا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ کس چیز کا نام ہے ؟ اور لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں ؟ جب یہودیوں نے معاہدہ توڑ دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نصف شوال ۲ ھ سنیچر کے دن ان یہودیوں پر حملہ کردیا۔ یہودی جنگ کی تاب نہ لا سکے اور اپنے قلعوں کا پھاٹک بند کرکے قلعہ بند ہو گئے مگر پندرہ دن کے محاصرہ کے بعد بالآخر یہودی مغلوب ہو گئے اور ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورہ سے ان یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور یہ عہد شکن، بد ذات یہودی ملک شام کے مقام ” اذرعات ” میں جاکر آباد ہو گئے۔(زُرقانی ج۱ ص۴۵۸)
غزوۂ سویق :۔
یہ ہم تحریر کر چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر کے بعد مکہ کے ہر گھر میں سرداران قریش کے قتل ہو جانے کا ماتم برپا تھااور اپنے مقتولوں کا بدلہ لینے کے لئے مکہ کا بچہ بچہ مضطرب اور بے قرار تھا۔ چنانچہ غزوۂ سویق اور جنگ ِ اُحد وغیرہ کی لڑائیاں مکہ والوں کے اسی جوشِ انتقام کا نتیجہ ہیں۔
عتبہ اور ابو جہل کے قتل ہو جانے کے بعد اب قریش کا سردارِ اعظم ابو سفیان تھا اور اس منصب کا سب سے بڑا کام غزوۂ بدر کا انتقام تھا۔ چنانچہ ابو سفیان نے قسم کھا لی کہ جب تک بدر کے مقتولوں کا مسلمانوں سے بدلہ نہ لوں گا نہ غسل جنابت کروں گا نہ سر میں تیل ڈالوں گا۔ چنانچہ جنگ ِ بدر کے دو ماہ بعد ذوالحجہ ۲ ھ میں ابو سفیان دو سو شتر سواروں کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف بڑھا۔ اس کو یہودیوں پر بڑا بھروسا بلکہ ناز تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ اس کی امداد کریں گے۔ اسی امید پر ابو سفیان پہلے ” حیی بن اخطب ” یہودی کے پاس گیا مگر اس نے دروازہ بھی نہیں کھولا۔ وہاں سے مایوس ہو کر سلام بن مشکم سے ملا جو قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کا سردار تھااور یہود کے تجارتی خزانہ کا مینجر بھی تھا اس نے ابو سفیان کا پر جوش استقبال کیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تمام جنگی رازوں سے ابو سفیان کو آگاہ کر دیا۔ صبح کو ابوسفیان نے مقام ” عریض ” پر حملہ کیا یہ بستی مدینہ سے تین میل کی دوری پر تھی، اس حملہ میں ابو سفیان نے ایک انصاری صحابی کو جن کا نام سعد بن عمرو رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا شہید کر دیا اور کچھ درختوں کو کاٹ ڈالا اور مسلمانوں کے چند گھروں اور باغات کو آگ لگا کر پھونک دیا، ان حرکتوں سے اس کے گمان میں اس کی قسم پوری ہو گئی۔ جب حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کا تعاقب کیا لیکن ابو سفیان بد حواس ہو کر اس قدر تیزی سے بھاگا کہ بھاگتے ہوئے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ستو کی بوریاں جو وہ اپنی فوج کے راشن کے لئے لایا تھا پھینکتا چلا گیا جو مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ عربی زبان میں ستو کو سویق کہتے ہیں اسی لئے اس غزوہ کا نام غزوہ سویق پڑ گیا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۰۴)
حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی :۔
اسی سال ۲ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوئی۔ یہ شادی انتہائی وقار اور سادگی کے ساتھ ہوئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرات ابوبکر صدیق و عمر و عثمان و عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے چند مہاجرین و انصار رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مدعو کریں۔ چنانچہ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جمع ہو گئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور نکاح پڑھا دیا۔ شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شہزادی اسلام حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو جہیز میں جو سامان دیا اس کی فہرست یہ ہے۔ ایک کملی، بان کی ایک چارپائی، چمڑے کا گدا جس میں روئی کی جگہ کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، ایک چھاگل، ایک مشک، دو چکیاں، دو مٹی کے گھڑے۔ حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپناایک مکان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس لئے نذر کر دیا کہ اس میں حضرت علی اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سکونت فرمائیں۔ جب حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رخصت ہو کر نئے گھر میں گئیں تو عشاء کی نماز کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور ایک برتن میں پانی طلب فرمایا اور اس میں کلی فرما کر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سینہ اور بازوؤں پر پانی چھڑکا پھر حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور ان کے سر اور سینہ پر بھی پانی چھڑکا اور پھر یوں دعا فرمائی کہ یااﷲ میں علی اور فاطمہ اور ان کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتا ہوں کہ یہ سب شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔
ھ ۲ کے متفرق واقعات :۔
(۱) اسی سال روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت کے احکام نازل ہوئے اور نماز کی طرح روزہ اور زکوٰۃ بھی مسلمانوں پر فرض ہو گئے۔
(۲) اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عیدالفطر کی نماز جماعت کے ساتھ عیدگاہ میں ادا فرمائی، اس سے قبل عیدالفطر کی نماز نہیں ہوئی تھی۔
(۳) صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم اسی سال جاری ہوا۔
(۴) اسی سال ۱۰ ذوالحجہ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بقر عید کی نماز ادا فرمائی اور نماز کے بعد دو مینڈھوں کی قربانی فرمائی۔
(۵) اسی سال ” غزوۂ قرقرالکدر ” و ” غزوۂ بحران ” وغیرہ چند چھوٹے چھوٹے غزوات بھی پیش آئے جن میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی مگر ان غزوات میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔