Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 15:48:54 GMT 5.5
ہجرت کا تیسرا سال
جنگ اُحد :۔
جبل احد
اس سال کاسب سے بڑا واقعہ “جنگ ِ اُحد” ہے۔ “احد” ایک پہاڑ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریباً تین میل دور ہے۔ چونکہ حق و باطل کا یہ عظیم معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں درپیش ہوا اسی لئے یہ لڑائی ” غزوۂ اُحد ” کے نام سے مشہور ہے اور قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں اس لڑائی کے واقعات کا خداوند عالم نے تذکرہ فرمایا ہے۔
یہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ جنگ ِ بدر میں ستر کفار قتل اور ستر گرفتار ہوئے تھے۔ اور جو قتل ہوئے ان میں سے اکثر کفارِ قریش کے سردار بلکہ تاجدار تھے۔ اس بنا پر مکہ کا ایک ایک گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ اور قریش کا بچہ بچہ جوشِ انتقام میں آتش غیظ و غضب کا تنور بن کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے بے قرار تھا۔ عرب خصوصاً قریش کا یہ طرۂ امتیاز تھا کہ وہ اپنے ایک ایک مقتول کے خون کا بدلہ لینے کو اتنا بڑا فرض سمجھتے تھے جس کو ادا کئے بغیر گویا ان کی ہستی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ چنانچہ جنگ ِ بدر کے مقتولوں کے ماتم سے جب قریشیوں کو فرصت ملی تو انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ جس قدر ممکن ہو جلد سے جلد مسلمانوں سے اپنے مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا چاہیے۔ چنانچہ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اور اُمیہ کا لڑکا صفوان اور دوسرے کفارِ قریش جن کے باپ، بھائی، بیٹے جنگ ِ بدر میں قتل ہو چکے تھے سب کے سب ابو سفیان کے پاس گئے اور کہا کہ مسلمانوں نے ہماری قوم کے تمام سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے۔ اس کا بدلہ لینا ہمارا قومی فریضہ ہے لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ قریش کی مشترکہ تجارت میں امسال جتنا نفع ہوا ہے وہ سب قوم کے جنگی فنڈ میں جمع ہو جانا چاہیے اوراس رقم سے بہترین ہتھیار خرید کر اپنی لشکری طاقت بہت جلد مضبوط کر لینی چاہیے اور پھر ایک عظیم فوج لے کر مدینہ پر چڑھائی کرکے بانیء اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کر دینا چاہیے۔ ابو سفیان نے خوشی خوشی قریش کی اس درخواست کو منظور کر لیا۔ لیکن قریش کو جنگ ِ بدر سے یہ تجربہ ہو چکا تھا کہ مسلمانوں سے لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ، سمندر کی موجوں سے ٹکرانا، پہاڑوں سے ٹکر لینا بہت آسان ہے مگر محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے عاشقوں سے جنگ کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی جنگی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ کرنا نہایت ضروری خیال کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ہتھیاروں کی تیاری اور سامان جنگ کی خریداری میں پانی کی طرح روپیہ بہانے کے ساتھ ساتھ پورے عرب میں جنگ کا جوش اور لڑائی کا بخار پھیلانے کے لئے بڑے بڑے شاعروں کو منتخب کیا جو اپنی آتش بیانی سے تمام قبائل عرب میں جوشِ انتقام کی آگ لگا دیں “عمر وجمحی” اور “مسافع” یہ دونوں اپنی شاعری میں طاق اور آتش بیانی میں شہرۂ آفاق تھے، ان دونوں نے باقاعدہ دورہ کرکے تمام قبائل عرب میں ایسا جوش اور اشتعال پیدا کر دیا کہ بچہ بچہ “خون کا بدلہ خون” کا نعرہ لگاتے ہوئے مرنے اور مارنے پر تیار ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی فوج تیار ہو گئی۔ مردوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے معزز اور مالدار گھرانوں کی عورتیں بھی جوش انتقام سے لبریز ہو کر فوج میں شامل ہو گئیں۔ جن کے باپ، بھائی، بیٹے، شوہر جنگ ِ بدر میں قتل ہوئے تھے۔ ان عورتوں نے قسم کھا لی تھی کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے قاتلوں کا خون پی کر ہی دم لیں گی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ہند کے باپ عتبہ اور جبیر بن مطعم کے چچا کو جنگ ِ بدر میں قتل کیا تھا۔ اس بنا پر ” ہند ” نے ” وحشی ” کو جو جبیر بن مطعم کا غلام تھا حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل پر آمادہ کیا اور یہ وعدہ کیا کہ اگر اس نے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قتل کر دیا تو وہ اس کارگزاری کے صلہ میں آزاد کر دیا جائے گا۔
مدینہ پر چڑھائی :۔
الغرض بے پناہ جوش و خروش اور انتہائی تیاری کے ساتھ لشکر کفار مکہ سے روانہ ہوا اور ابو سفیان اس لشکر جرار کا سپہ سالار بنا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو خفیہ طور پر مسلمان ہو چکے تھے اور مکہ میں رہتے تھے انہوں نے ایک خط لکھ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کفارِ قریش کی لشکر کشی سے مطلع کر دیا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خوفناک خبر ملی تو آپ نے ۵ شوال ۳ ھ کو حضرت عدی بن فضالہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دونوں لڑکوں حضرت انس اور حضرت مونس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو جاسوس بنا کر کفارِ قریش کے لشکر کی خبر لانے کے لئے روانہ فرمایا۔ چنانچہ ان دونوں نے آکر یہ پریشان کن خبر سنائی کہ ابو سفیان کا لشکر مدینہ کے بالکل قریب آ گیا ہے اور ان کے گھوڑے مدینہ کی چراگاہ (عریض) کی تمام گھاس چر گئے۔
مسلمانوں کی تیاری اور جوش :۔
یہ خبر سن کر ۱۴ شوال ۳ ھ جمعہ کی رات میں حضرت سعد بن معاذ و حضرت اسید بن حضیر و حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم ہتھیار لے کر چند انصاریوں کے ساتھ رات بھر کا شانہ نبوت کا پہرہ دیتے رہے اور شہر مدینہ کے اہم ناکوں پر بھی انصار کا پہرہ بٹھا دیا گیا۔ صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کو جمع فرما کر مشورہ طلب فرمایا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کی فوج کا مقابلہ کیا جائے یا شہر سے باہر نکل کر میدان میں یہ جنگ لڑی جائے ؟ مہاجرین نے عام طور پر اور انصار میں سے بڑے بوڑھوں نے یہ رائے دی کہ عورتوں اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کر دیا جائے اور شہر کے اندر رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے۔ منافقوں کا سردار عبداﷲ بن اُبی بھی اس مجلس میں موجود تھا۔ اس نے بھی یہی کہا کہ شہر میں پناہ گیر ہو کر کفارِ قریش کے حملوں کی مدافعت کی جائے، مگر چند کمسن نوجوان جو جنگ ِ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور جوش جہاد میں آپے سے باہر ہو رہے تھے وہ اس رائے پر اڑ گئے کہ میدان میں نکل کر ان دشمنان اسلام سے فیصلہ کن جنگ لڑی جائے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سب کی رائے سن لی۔ پھر مکان میں جا کر ہتھیار زیب تن فرمایا اور باہر تشریف لائے۔ اب تمام لوگ اس بات پر متفق ہو گئے کہ شہر کے اندر ہی رہ کر کفارِ قریش کے حملوں کو روکا جائے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیغمبر کے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار پہن کر اتار دے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اب تم لوگ خدا کا نام لے کر میدان میں نکل پڑو۔ اگر تم لوگ صبر کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹے رہو گے تو ضرور تمہاری فتح ہو گی۔(مدارج ج۲ ص۱۱۴)
پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کے قبیلۂ اوس کا جھنڈا حضرت اُسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اور قبیلۂ خزرج کا جھنڈا حضرت خباب بن منذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیا اور ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ سے باہر نکلے۔(مدارج ج۲ ص۱۱۴)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے یہود کی امداد کو ٹھکرا دیا :۔
شہر سے نکلتے ہی آپ نے دیکھا کہ ایک فوج چلی آ رہی ہے۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی کے حلیف یہودیوں کا لشکر ہے جو آپ کی امداد کے لئے آ رہا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
“ان لوگوں سے کہہ دو کہ واپس لوٹ جائیں۔ ہم مشرکوں کے مقابلہ میں مشرکوں کی مدد نہیں لیں گے۔”(مدارج جلد۲ ص۱۱۴)
چنانچہ یہودیوں کا یہ لشکر واپس چلا گیا۔ پھر عبداﷲ بن اُبی (منافقوں کا سردار) بھی جو تین سو آدمیوں کو لے کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ آیا تھا یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا اور میری رائے کے خلاف میدان میں نکل پڑے، لہٰذا میں ان کا ساتھ نہیں دوں گا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۱۵)
عبداﷲ بن اُبی کی بات سن کر قبیلہ خزرج میں سے ” بنو سلمہ ” کے اور قبیلۂ اوس میں سے ” بنو حارثہ ” کے لوگوں نے بھی واپس لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا مگر اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے دلوں میں اچانک محبت اسلام کا ایسا جذبہ پیدا فرما دیا کہ ان لوگوں کے قدم جم گئے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
َاِذْهَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَـلَا لا وَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا ط وَ عَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (آلِ عمران)
جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کر جائیں اور اﷲ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اﷲ ہی پر بھروسا ہونا چاہیے
اب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر میں کل سات سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم رہ گئے جن میں کل ایک سو زرہ پوش تھے اور کفار کی فوج میں تین ہزار اشرار کا لشکر تھا جن میں سات سو زرہ پوش جوان، دو سو گھوڑے، تین ہزار اونٹ اور پندرہ عورتیں تھیں۔
شہر سے باہر نکل کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی فوج کا معائنہ فرمایااور جو لوگ کم عمر تھے، ان کو واپس لوٹا دیا کہ جنگ کے ہولناک موقع پر بچوں کا کیا کام ؟
بچوں کا جوش جہاد :۔
مگر جب حضرت رافع بن خدیج رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ تم بہت چھوٹے ہو، تم بھی واپس چلے جاؤ تو وہ فوراً انگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے تا کہ ان کا قد اونچا نظر آئے۔ چنانچہ ان کی یہ ترکیب چل گئی اور وہ فوج میں شامل کر لئے گئے۔
حضرت سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو ایک کم عمر نوجوان تھے جب ان کو واپس کیا جانے لگا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں رافع بن خدیج کو کشتی میں پچھاڑ لیتا ہوں۔ اس لئے اگر وہ فوج میں لے لئے گئے ہیں تو پھر مجھ کو بھی ضرور جنگ میں شریک ہونے کی اجازت ملنی چاہیے چنانچہ دونوں کا مقابلہ کرایا گیا اور واقعی حضرت سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زمین پر دے مارا۔ اس طرح ان دونوں پر جوش نوجوانوں کو جنگ ِ اُحد میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گئی۔(مدارج جلد۲ ص۱۱۴)
تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میدان جنگ میں :
مشرکین تو ۱۲ شوال ۳ ھ بدھ کے دن ہی مدینہ کے قریب پہنچ کر کوہِ اُحد پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے مگر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۱۴ شوال ۳ ھ بعد نماز جمعہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ رات کو بنی نجار میں رہے اور ۱۵ شوال سنیچر کے دن نماز فجر کے وقت اُحد میں پہنچے۔ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اذان دی اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز فجر پڑھا کر میدان جنگ میں مورچہ بندی شروع فرمائی۔ حضرت عکاشہ بن محصن اسدی کو لشکر کے میمنہ (دائیں بازو) پر اور حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی کو میسرہ (بائیں بازو) پر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح و حضرت سعد بن ابی وقاص کو مقدمہ (اگلے حصہ) پر اور حضرت مقداد بن عمرو کو ساقہ( پچھلے حصہ) پر افسر مقرر فرمایا (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم) اور صف بندی کے وقت اُحد پہاڑ کو پشت پر رکھا اور کوہ عینین کو جو وادی قناۃ میں ہے اپنے بائیں طرف رکھا۔ لشکر کے پیچھے پہاڑ میں ایک درہ (تنگ راستہ) تھا جس میں سے گزر کر کفارِ قریش مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے سے حملہ آور ہو سکتے تھے اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس درہ کی حفاظت کے لئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر فرما دیا اور حضرت عبداﷲ بن جبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس دستہ کا افسر بنا دیا اور یہ حکم دیا کہ دیکھو ہم چاہے مغلوب ہوں یا غالب مگر تم لوگ اپنی اس جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں تمہارے پاس کسی کو نہ بھیجوں۔(مدارج جلد۲ ص۱۱۵ و بخاری باب ما يکره من التنازع)
مشرکین نے بھی نہایت باقاعدگی کے ساتھ اپنی صفوں کو درست کیا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لشکر کے میمنہ پر خالد بن ولید کو اور میسرہ پر عکرمہ بن ابو جہل کو افسر بنا دیا، سواروں کا دستہ صفوان بن اُمیہ کی کمان میں تھا۔ تیر اندازوں کا ایک دستہ الگ تھا جن کا سردار عبداﷲ بن ربیعہ تھا اور پورے لشکر کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ تھا جو قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک آدمی تھا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۱۵)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ پورے لشکر کفار کا علمبردار قبیلۂ بنی عبدالدار کا ایک شخص ہے تو آپ نے بھی اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا جو قبیلۂ بنو عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے۔
جنگ کی ابتداء :۔
سب سے پہلے کفارِ قریش کی عورتیں دف بجا بجا کر ایسے اشعار گاتی ہوئی آگے بڑھیں جن میں جنگ ِ بدر کے مقتولین کا ماتم اور انتقامِ خون کا جوش بھرا ہوا تھا۔ لشکر کفار کے سپہ سالار ابو سفیان کی بیوی “ہند” آگے آگے اور کفارِ قریش کے معزز گھرانوں کی چودہ عورتیں اس کے ساتھ ساتھ تھیں اور یہ سب آواز ملا کر یہ اشعار گا رہی تھیں کہ
َنَحْنُ بَنَاتُ طَارِقْ
نَمْشِيْ عَلَي النَّمَارِقْ
ہم آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں ہم قالینوں پر چلنے والیاں ہیں
َاِنْ تُقْبِلُوْا نُعَانِقْ
اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقْ
اگر تم بڑھ کر لڑو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گے اور پیچھے قدم ہٹایا تو ہم تم سے الگ ہو جائیں گے۔
مشرکین کی صفوں میں سے سب سے پہلے جو شخص جنگ کے لئے نکلا وہ ” ابو عامر اوسی ” تھا۔ جس کی عبادت اور پارسائی کی بنا پر مدینہ والے اس کو ” راہب ” کہا کرتے تھے مگر رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس کا نام ’’ فاسق ‘‘ رکھا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ شخص اپنے قبیلہ اوس کا سردار تھا اور مدینہ کا مقبول عام آدمی تھا۔ مگر جب رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو یہ شخص جذبۂ حسد میں جل بھن کر خدا کے محبوب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے لگا اور مدینہ سے نکل کر مکہ چلا گیا اور کفارِ قریش کو آپ سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کو بڑا بھروسا تھا کہ میری قوم جب مجھے دیکھے گی تو رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دے گی۔ چنانچہ اس نے میدان میں نکل کر پکارا کہ اے انصار ! کیا تم لوگ مجھے پہچانتے ہو ؟ میں ابو عامر راہب ہوں۔ انصار نے چلا کر کہا ہاں ہاں ! اے فاسق ! ہم تجھ کو خوب پہچانتے ہیں۔ خدا تجھے ذلیل فرمائے۔ ابو عامر اپنے لئے فاسق کا لفظ سن کر تلملا گیا۔ کہنے لگا کہ ہائے افسوس ! میرے بعد میری قوم بالکل ہی بدل گئی۔ پھر کفارِ قریش کی ایک ٹولی جو اس کے ساتھ تھی مسلمانوں پر تیر برسانے لگی۔ اس کے جواب میں انصار نے بھی اس زور کی سنگ باری کی کہ ابو عامر اور اس کے ساتھی میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔(مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
لشکر کفار کا علمبردار طلحہ بن ابو طلحہ صف سے نکل کر میدان میں آیا اور کہنے لگا کہ کیوں مسلمانو ! تم میں کوئی ایسا ہے کہ یا وہ مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے یا خود میرے ہاتھ سے وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کا یہ گھمنڈ سے بھرا ہوا کلام سن کر حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ” میں ہوں ” یہ کہہ کر فاتح خیبر نے ذُوالفقار کے ایک ہی وار سے اُس کا سر پھاڑ دیا اور وہ زمین پر تڑپنے لگا اور شیر خدا منہ پھیر کر وہاں سے ہٹ گئے۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کا سر کیوں نہیں کاٹ لیا ؟ شیرخدا نے فرمایاکہ جب وہ زمین پر گرا تو اس کی شرمگاہ کھل گئی اور وہ مجھے قسم دینے لگا کہ مجھے معاف کر دیجیے اس بے حیا کو بے ستر دیکھ کر مجھے شرم دامنگیر ہو گئی اس لئے میں نے منہ پھیر لیا۔(مدارج ج۲ ص۱۱۶)
طلحہ کے بعد اس کا بھائی عثمان بن ابو طلحہ رجز کا یہ شعر پڑھتا ہوا حملہ آور ہوا کہ
اِنَّ عَلٰي اَهْلِ اللِّوَاءِ حَقًّا!
اَنْ يَّخْضِبَ اللِّوَاءَ اَوْ تَنْدَقَّاْ
علمبردار کا فرض ہے کہ نیزہ کو خون میں رنگ دے یا وہ ٹکرا کر ٹوٹ جائے۔
حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کے مقابلہ کے لئے تلوار لے کر نکلے اور اس کے شانے پر ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ تلوار ریڑھ کی ہڈی کو کاٹتی ہوئی کمر تک پہنچ گئی اور آپ کے منہ سے یہ نعرہ نکلا کہ
اَنَا ابْنُ سَاقِي الْحَجِيْجِ
میں حاجیوں کے سیراب کرنے والے عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔(مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
اس کے بعد عام جنگ شروع ہو گئی اور میدان جنگ میں کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔
ابو دجانہ کی خوش نصیبی :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی جس پر یہ شعر کندہ تھا کہ
فِي الْجُبْنِ عَارٌ وَفِي الْاِقْبَال مَکْرُمَةٌ
وَالْمَرْءُ بِالْجُبْنِ لاَ يَنْجُوْ مِنَ الْقَدْرٖ
بزدلی میں شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کر کے تقدیر سے نہیں بچ سکتا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے ” یہ سن کر بہت سے لوگ اس سعادت کے لئے لپکے مگر یہ فخر و شرف حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نصیب میں تھا کہ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی یہ تلوار اپنے ہاتھ سے حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ یہ اعزاز پا کر جوش مسرت میں مست و بے خود ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس تلوار کا حق کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ ” تو اس سے کافروں کو قتل کرے یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔ “
حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنے سر پر ایک سرخ رنگ کا رومال باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اور تلوار چلاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک دم ان کے سامنے ابو سفیان کی بیوی ” ہند ” آ گئی۔ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ارادہ کیا کہ اس پر تلوار چلا دیں مگر پھر اس خیال سے تلوار ہٹالی کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی عورت کا سر کاٹے۔ (زُرقانی ج۲ ص۲۹ و مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور کفار کا قتل عام شروع کر دیا۔
حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انتہائی جوش جہاد میں دو دستی تلوار مارتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اسی حالت میں ” سباع غبشانی ” سامنے آ گیا آپ نے تڑپ کر فرمایا کہ اے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بچے ! ٹھہر، کہاں جاتا ہے ؟ تو اﷲ و رسول سے جنگ کرنے چلا آیا ہے۔ یہ کہہ کر اس پر تلوار چلا دی، اور وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
حضرت حمزہ کی شہادت :۔
“وحشی ” جو ایک حبشی غلام تھا اور اس کا آقا جبیر بن مطعم اس سے وعدہ کر چکا تھا کہ تو اگر حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قتل کر دے تو میں تجھ کو آزاد کر دوں گا۔ وحشی ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تاک میں تھا جوں ہی آپ اس کے قریب پہنچے اس نے دور سے اپنا نیزہ پھینک کر مارا جو آپ کی ناف میں لگا۔ اور پشت کے پار ہو گیا۔ اس حال میں بھی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر اس کی طرف بڑھے مگر زخم کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور شہادت سے سرفراز ہوگئے۔(بخاری باب قتل حمزه ج۲ ص۵۸۲)
کفار کے علمبردار خود کٹ کٹ کر گرتے چلے جا رہے تھے مگر اُن کا جھنڈا گرنے نہیں پاتا تھاایک کے قتل ہونے کے بعد دوسرا اس جھنڈے کو اٹھا لیتا تھا۔ ان کافروں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ جب ایک کافر نے جس کا نام ” صواب ” تھا مشرکین کا جھنڈا اٹھایا تو ایک مسلمان نے اس کو اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے دونوں ہاتھ کٹ کر زمین پر گر پڑے مگر اس نے اپنے قومی جھنڈے کو زمین پر گرنے نہیں دیا بلکہ جھنڈے کو اپنے سینے سے دبائے ہوئے زمین پر گر پڑا۔ اسی حالت میں مسلمانوں نے اس کو قتل کر دیا۔ مگر وہ قتل ہوتے ہوتے یہی کہتا رہا کہ ” میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ ” اس کے مرتے ہی ایک بہادر عورت جس کا نام ” عمرہ ” تھا اس نے جھپٹ کر قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کر دیا، یہ منظر دیکھ کر قریش کو غیرت آئی اور ان کی بکھری ہوئی فوج سمٹ آئی اور ان کے اکھڑے ہوئے قدم پھر جم گئے۔ (مدارج جلد۲ ص۱۱۶ وغيرہ)
حضرت حنظلہ کی شہادت :۔
ابو عامر راہب کفار کی طرف سے لڑ رہا تھا مگر اس کے بیٹے حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پرچم اسلام کے نیچے جہاد کر رہے تھے۔ حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجیے میں اپنی تلوار سے اپنے باپ ابو عامر راہب کا سر کاٹ کر لاؤں مگر حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رحمت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کا سر کاٹے۔ حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس قدر جوش میں بھرے ہوئے تھے کہ سر ہتھیلی پر رکھ کر انتہائی جان بازی کے ساتھ لڑتے ہوئے قلب لشکر تک پہنچ گئے اور کفار کے سپہ سالار ابو سفیان پر حملہ کر دیا اور قریب تھا کہ حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار ابو سفیان کا فیصلہ کر دے کہ اچانک پیچھے سے شداد بن الاسود نے جھپٹ کر وار کو روکا اور حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا۔
حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” فرشتے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔ ” جب ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ جنگ ِ اُحد کی رات میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوئے تھے، غسل کی حاجت تھی مگر دعوت جنگ کی آواز ان کے کان میں پڑی تو وہ اسی حالت میں شریک جنگ ہو گئے۔ یہ سن کر حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے جو فرشتوں نے اس کو غسل دیا۔ اسی واقعہ کی بنا پر حضرت حنظلہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ” غسیل الملائکہ ” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ (مدارج ج۲ ص۱۲۳)
اس جنگ میں مجاہدین انصار و مہاجرین بڑی دلیری اور جان بازی سے لڑتے رہے یہاں تک کہ مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے۔ حضرت علی و حضرت ابو دجانہ و حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ کے مجاہدانہ حملوں نے مشرکین کی کمر توڑ دی۔ کفار کے تمام علمبردار عثمان، ابو سعد، مسافع، طلحہ بن ابی طلحہ وغیرہ ایک ایک کر کے کٹ کٹ کر زمین پر ڈھیر ہو گئے۔ کفار کو شکست ہو گئی اور وہ بھاگنے لگے اور ان کی عورتیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر لشکر کفار کو جوش دلا رہی تھیں وہ بھی بدحواسی کے عالم میں اپنے ازار اٹھائے ہوئے برہنہ ساق بھاگتی ہوئی پہاڑوں پر دوڑتی ہوئی چلی جا رہی تھیں اور مسلمان قتل و غارت میں مشغول تھے۔
ناگہاں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا :۔
کفار کی بھگدڑ اور مسلمانوں کے فاتحانہ قتل و غارت کا یہ منظر دیکھ کر وہ پچاس تیر انداز مسلمان جو درہ کی حفاظت پر مقرر کئے گئے تھے وہ بھی آپس میں ایک دوسرے سے یہ کہنے لگے کہ غنیمت لوٹو، غنیمت لوٹو، تمہاری فتح ہو گئی۔ ان لوگوں کے افسر حضرت عبداﷲ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر چند روکا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا اور فرمانِ مصطفوی کی مخالفت سے ڈرایا مگر ان تیر انداز مسلمانوں نے ایک نہیں سنی اور اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ لشکر کفار کا ایک افسر خالد بن ولید پہاڑ کی بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ درہ پہرہ داروں سے خالی ہو گیا ہے فورا ً ہی اس نے درہ کے راستہ سے فوج لا کر مسلمانوں کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ حضرت عبداﷲ بن جبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چند جان بازوں کے ساتھ انتہائی دلیرانہ مقابلہ کیا مگر یہ سب کے سب شہید ہو گئے۔ اب کیا تھا کافروں کی فوج کے لئے راستہ صاف ہو گیا خالد بن ولید نے زبردست حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر بھاگتی ہوئی کفارِ قریش کی فوج بھی پلٹ پڑی۔ مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے پیچھے پھر کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں اور کفار آگے پیچھے دونوں طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر رہے تھے اور مسلمانوں کا لشکر چکی کے دو پاٹوں میں دانہ کی طرح پسنے لگا اور مسلمانوں میں ایسی بدحواسی اور ابتری پھیل گئی کہ اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں رہی۔ خود مسلمان مسلمانوں کی تلواروں سے قتل ہوئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود مسلمانوں کی تلوار سے شہید ہوئے۔ حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چلاتے ہی رہے کہ ” اے مسلمانو ! یہ میرے باپ ہیں، یہ میرے باپ ہیں۔ ” مگر کچھ عجیب بدحواسی پھیلی ہوئی تھی کہ کسی کو کسی کا دھیان ہی نہیں تھا اور مسلمانوں نے حضرت یمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔
حضرت مصعب بن عمیر بھی شہید :۔
پھر بڑا غضب یہ ہوا کہ لشکر اسلام کے علمبردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ابن قمیئہ کافر جھپٹا اور ان کے دائیں ہاتھ پر اس زور سے تلوار چلا دی کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ کر گر پڑا۔ اس جاں باز مہاجر نے جھپٹ کر اسلامی جھنڈے کو بائیں ہاتھ سے سنبھال لیا مگر ابن قمیئہ نے تلوار مار کر ان کے بائیں ہاتھ کو بھی شہید کر دیا دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے مگر حضرت عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے کھڑے رہے اور بلند آواز سے یہ آیت پڑھتے رہے کہ
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ط
پھر ابن قمیئہ نے ان کو تیر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو صورت میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ مشابہ تھے ان کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھ کر کفار نے غل مچا دیا کہ (معاذ اﷲ) حضور تاجدارِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قتل ہو گئے۔
اﷲ اکبر ! اس آواز نے غضب ہی ڈھا دیا مسلمان یہ سن کر بالکل ہی سراسیمہ اور پرا گندہ دماغ ہو گئے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں میں تین گروہ ہو گئے۔ کچھ لوگ تو بھاگ کر مدینہ کے قریب پہنچ گئے، کچھ لوگ سہم کر مردہ دل ہوگئے جہاں تھے وہیں رہ گئے اپنی جان بچاتے رہے یا جنگ کرتے رہے، کچھ لوگ جن کی تعداد تقریباً بارہ تھی وہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ اس ہلچل اور بھگدڑ میں بہت سے لوگوں نے تو بالکل ہی ہمت ہار دی اور جو جاں بازی کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے وہ بھی دشمنوں کے دو طرفہ حملوں کے نرغے میں پھنس کر مجبور و لاچار ہو چکے تھے۔ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ اور کس حال میں ہیں ؟ کسی کو اس کی خبر نہیں تھی۔
حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار چلاتے اور دشمنوں کی صفوں کو درہم برہم کرتے چلے جاتے تھے مگر وہ ہر طرف مڑ مڑ کر رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھتے تھے مگر جمالِ نبوت نظر نہ آنے سے وہ انتہائی اضطراب و بے قراری کے عالم میں تھے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چچا حضرت انس بن نضر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑتے لڑتے میدان جنگ سے بھی کچھ آگے نکل پڑے وہاں جا کر دیکھا کہ کچھ مسلمانوں نے مایوس ہوکر ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ حضرت انس بن نضر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اب ہم لڑ کر کیا کریں گے ؟ جن کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہو گئے۔ حضرت انس بن نضر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر واقعی رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم شہید ہو چکے تو پھر ہم ان کے بعد زندہ رہ کر کیا کریں گے ؟ چلو ہم بھی اسی میدان میں شہید ہو کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ دشمنوں کے لشکر میں لڑتے ہوئے گھس گئے اور آخری دم تک انتہائی جوشِ جہاد اور جان بازی کے ساتھ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد جب ان کی لاش دیکھی گئی تو اسّی سے زیادہ تیر و تلوار اور نیزوں کے زخم ان کے بدن پر تھے کافروں نے ان کے بدن کو چھلنی بنا دیا تھا اور ناک، کان وغیرہ کاٹ کران کی صورت بگاڑ دی تھی، کوئی شخص ان کی لاش کو پہچان نہ سکا صرف ان کی بہن نے ان کی انگلیوں کو دیکھ کر ان کو پہچانا۔(بخاری غزوه اُحد ج۲ ص۵۷۹ و مسلم جلد ۲ ص۳۸)
اسی طرح حضرت ثابت بن دحداح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مایوس ہو جانیوالے انصاریوں سے کہا کہ اے جماعت انصار ! اگر بالفرض رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہید بھی ہو گئے تو تم ہمت کیوں ہار گئے ؟ تمہارا اﷲ تو زندہ ہے لہٰذا تم لوگ اٹھو اور اﷲ کے دین کے لئے جہاد کرو، یہ کہہ کر آپ نے چند انصاریوں کو اپنے ساتھ لیا اور لشکر کفار پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ آور ہو گئے اور آخر خالد بن ولید کے نیزہ سے جام شہادت نوش کر لیا۔
(اصابه، ترجمه ثابت بن دحداح)
جنگ جاری تھی اور جاں نثاران اسلام جو جہاں تھے وہیں لڑائی میں مصروف تھے مگر سب کی نگاہیں انتہائی بے قراری کے ساتھ جمال نبوت کو تلاش کرتی تھیں، عین مایوسی کے عالم میں سب سے پہلے جس نے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جمال دیکھا وہ حضرت کعب بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خوش نصیب آنکھیں ہیں، انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پہچان کر مسلمانوں کو پکارا کہ اے مسلمانو ! ادھر آؤ، رسول خدا عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ ہیں، اس آواز کو سن کر تمام جاں نثاروں میں جان پڑ گئی اور ہر طرف سے دوڑ دوڑ کر مسلمان آنے لگے،کفار نے بھی ہر طرف سے حملہ روک کر رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کرنے کے لئے سارا زور لگا دیا۔ لشکر کفار کا دل بادل ہجوم کے ساتھ امنڈ پڑا اور بار بار مدنی تاجدار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر یلغار کرنے لگا مگر ذوالفقار کی بجلی سے یہ بادل پھٹ پھٹ کر رہ جاتا تھا۔
زیاد بن سکن کی شجاعت اور شہادت :۔
ایک مرتبہ کفار کا ہجوم حملہ آور ہوا تو سرور ِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “کون ہے جو میرے اوپر اپنی جان قربان کرتا ہے ؟” یہ سنتے ہی حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پانچ انصاریوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھے اور ہر ایک نے لڑتے ہوئے اپنی جانیں فدا کر دیں۔ حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زخموں سے لاچار ہو کر زمین پر گر پڑے تھے مگر کچھ کچھ جان باقی تھی، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کی لاش کو میرے پاس اٹھا لاؤ، جب لوگوں نے ان کی لاش کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کھسک کر محبوبِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں پر اپنا منہ رکھ دیا اور اسی حالت میں ان کی روح پرواز کر گئی۔ اﷲ اکبر ! حضرت زیاد بن سکن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس موت پر لاکھوں زندگیاں قربان ! سبحان اللہ
بچہ ناز رفتہ باشد ز جہاں نیاز مندے
کہ بوقت جاں سپردن بسرش رسیدہ باشی
کھجور کھاتے کھاتے جنت میں :۔
اس گھمسان کی لڑائی اور مار دھاڑ کے ہنگاموں میں ایک بہادر مسلمان کھڑا ہوا، نہایت بے پروائی کے ساتھ کھجوریں کھا رہا تھا۔ ایک دم آگے بڑھا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اگر میں اس وقت شہید ہو جاؤں تو میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو جنت میں جائے گا۔ وہ بہادر اس فرمان بشارت کو سن کر مست و بیخود ہو گیا۔ ایک دم کفار کے ہجوم میں کود پڑا اور ایسی شجاعت کے ساتھ لڑنے لگا کہ کافروں کے دل دہل گئے۔ اسی طرح جنگ کرتے کرتے شہید ہو گیا۔ (بخاری غزوه اُحد ج۲ ص۵۷۹)
لنگڑاتے ہوئے بہشت میں :۔
حضرت عمرو بن جموح انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لنگڑے تھے، یہ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااﷲ ! عزوجل مجھ کو میدان جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب مت کر، ان کے چار فرزند بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کو لنگڑا ہونے کی بنا پر جنگ کرنے سے روک دیا تو یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عرض کرنے لگے کہ یارسول اﷲ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مجھ کو جنگ میں لڑنے کی اجازت عطا فرمائیے، میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا باغِ بہشت میں خراماں خراماں چلا جاؤں۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری سے رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب مبارک متأثر ہو گیا اور آپ نے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ میدان جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ ” خدا کی قسم ! میں جنت کا مشتاق ہوں۔ ” ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا لڑکا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھا یہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز
ہوکر باغ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد ان کی بیوی ہند زوجہ عمرو بن جموح میدان جنگ میں پہنچی اور اس نے ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش کو لاد کر دفن کے لئے مدینہ لانا چاہا تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدان جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بتا کیا عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا ؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں ! وہ یہ دعا کر کے گھر سے نکلے تھے کہ ’’ یا اﷲ ! عزوجل مجھ کو میدان جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب مت کر۔ “آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔(مدارج جلد۲ ص۱۲۴)
تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زخمی :۔
اسی سراسیمگی اور پریشانی کے عالم میں جب کہ بکھرے ہوئے مسلمان ابھی رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس جمع بھی نہیں ہوئے تھے کہ عبداﷲ بن قمیئہ جو قریش کے بہادروں میں بہت ہی نامور تھا۔ اس نے ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ ایک دم بجلی کی طرح صفوں کو چیرتا ہوا آیا اور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ ظالم نے پوری طاقت سے آپ کے چہرۂ انور پر تلوار ماری جس سے خود کی دو کڑیاں رخ انور میں چبھ گئیں۔ ایک دوسرے کافر نے آپ کے چہرۂ اقدس پر ایسا پتھر مارا کہ آپ کے دو دندان مبارک شہید، اور نیچے کا مقدس ہونٹ زخمی ہو گیا۔ اسی حالت میں ابی بن خلف ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کی نیت سے آگے بڑھا۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارث بن صمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لے کر ابی بن خلف کی گردن پر مارا جس سے وہ تلملا گیا۔ گردن پر بہت معمولی زخم آیا اور وہ بھاگ نکلا مگر اپنے لشکر میں جا کر اپنی گردن کے زخم کے بارے میں لوگوں سے اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر کرنے لگا اور بے پناہ ناقابل برداشت درد کی شکایت کرنے لگا۔ اس پر اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ” یہ تو معمولی خراش ہے، تم اس قدر پریشان کیوں ہو ؟ ” اس نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ مجھ سے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ میں تم کو قتل کروں گا اس لئے۔ یہ تو بہر حال زخم ہے میرا تو اعتقاد ہے کہ اگر وہ میرے اوپر تھوک دیتے تو بھی میں سمجھ لیتا کہ میری موت یقینی ہے۔
اس کا واقعہ یہ ہے کہ ابی بن خلف نے مکہ میں ایک گھوڑا پالا تھا جس کا نام اس نے “عود” رکھا تھا۔ وہ روزانہ اس کو چراتا تھا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ میں اسی گھوڑے پر سوار ہو کر محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو قتل کروں گا۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ میں اُبی بن خلف کو قتل کروں گا۔ چنانچہ ابی بن خلف اپنے اسی گھوڑے پر چڑھ کر جنگ ِ اُحد میں آیا تھا جو یہ واقعہ پیش آیا۔ ابی بن خلف نیزہ کے زخم سے بے قرار ہو کر راستہ بھر تڑپتا اور بلبلاتا رہا۔ یہاں تک کہ جنگ ِ اُحد سے واپس آتے ہوئے مقام ” سرف ” میں مر گیا۔(زُرقانی علی المواهب ج۲ ص۴۵)
اس طرح ابن قَمِیئَہ ملعون جس نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور پر تلوار چلا دی تھی ایک پہاڑی بکرے کو خداوند قہار و جبار نے اس پر مسلط فرما دیا اور اس نے اس کو سینگ مار مار کر چھلنی بنا ڈالا اور پہاڑ کی بلندی سے نیچے گرا دیا جس سے اس کی لاش ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گئی(زُرقانی ج۲ ص۳۹)
صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا جوش جاں نثاری :۔
جب حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم زخمی ہو گئے تو چاروں طرف سے کفار نے آپ پر تیرو تلوار کا وار شروع کر دیا اور کفار کا بے پناہ ہجوم آپ کے ہر چہار طرف سے حملہ کرنے لگا جس سے آپ کفار کے نرغہ میں محصور ہونے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر جان نثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا جوش جاں نثاری سے خون کھولنے لگا اور وہ اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر آپ کو بچانے کے لئے اس جنگ کی آگ میں کود پڑے اور آپ کے گرد ایک حلقہ بنا لیا۔ حضرت ابو دجانہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جھک کر آپ کے لئے ڈھال بن گئے اور چاروں طرف سے جو تلواریں برس رہی تھیں ان کو وہ اپنی پشت پر لیتے رہے اور آپ تک کسی تلوار یا نیزے کی مار کو پہنچنے ہی نہیں دیتے تھے۔
حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ وہ کفار کی تلواروں کے وار کو اپنے ہاتھ پر روکتے تھے یہاں تک کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ کر شل ہو گیا اور ان کے بدن پر پینتیس یا اُنتالیس زخم لگے۔ غرض جاں نثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانوں کی پروا نہیں کی اور ایسی بہادری اور جاں بازی سے جنگ کرتے رہے کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نشانہ بازی میں مشہور تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اس قدر تیر برسائے کہ کئی کمانیں ٹوٹ گئیں۔ انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے بٹھا لیا تھا تا کہ دشمنوں کے تیر یا تلوار کا کوئی وار آپ پر نہ آ سکے۔ کبھی کبھی آپ دشمنوں کی فوج کو دیکھنے کے لئے گردن اٹھاتے تو حضرت طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عرض کرتے کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ گردن نہ اٹھائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمنوں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلمآپ میری پیٹھ کے پیچھے ہی رہیں میرا سینہ آپ کے لئے ڈھال بنا ہوا ہے۔ (بخاری غزوه احد ص۵۸۱)
حضرت قتادہ بن نعمان انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو بچانے کے لئے اپنا چہرہ دشمنوں کے سامنے کئے ہوئے تھے۔ ناگہاں کافروں کا ایک تیر ان کی آنکھ میں لگا اور آنکھ بہہ کر ان کے رخسار پر آ گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کی آنکھ کو اٹھا کر آنکھ کے حلقہ میں رکھ دیااور یوں دعا فرمائی کہ یااﷲ ! عزوجل قتادہ کی آنکھ بچا لے جس نے تیرے رسول کے چہرہ کو بچایا ہے۔ مشہور ہے کہ ان کی وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ روشن اور خوبصورت ہوگئی۔ (زُرقانی ج۲ ص۴۲)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تیر اندازی میں انتہائی با کمال تھے۔ یہ بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدافعت میں جلدی جلدی تیر چلا رہے تھے اور حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود اپنے دست مبارک سے تیر اُٹھا اُٹھا کر ان کو دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے سعد ! تیر برساتے جاؤ تم پر میرے ماں باپ قربان۔(بخاری غزوه احد ص۵۸۰)
ظالم کفار انتہائی بے دردی کے ساتھ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیر برسا رہے تھے مگر اس وقت بھی زبان مبارک پر یہ دعا تھی
رَبِّ اغْفِرْ قَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنِ
یعنی اے اﷲ ! میری قوم کو بخش دے وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔(مسلم غزوه احد ج۲ ص۹۰)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دندان مبارک کے صدمہ اور چہرۂ انور کے زخموں سے نڈھال ہو رہے تھے۔ اس حالت میں آپ ان گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گر پڑے جو ابو عامر فاسق نے جابجا کھود کر ان کو چھپا دیا تھا تا کہ مسلمان لاعلمی میں ان گڑھوں کے اندر گر پڑیں۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپکا دست مبارک پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبیداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اٹھایا۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خَود (لوہے کی ٹوپی) کی کڑی کا ایک حلقہ جو چہرۂ انور میں چبھ گیا تھا اپنے دانتوں سے پکڑ کر اس زور کے ساتھ کھینچ کر نکالا کہ ان کا ایک دانت ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ پھر دوسرا حلقہ جو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ چہرۂ انور سے جو خون بہا اس کو حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت مالک بن سنان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش عقیدت سے چوس چوس کر پی لیااور ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مالک بن سنان ! کیا تو نے میرا خون پی ڈالا۔ عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اﷲ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ارشاد فرمایا کہ جس نے میرا خون پی لیا جہنم کی کیا مجال جو اس کو چھو سکے۔ (زُرقانی ج۲ ص۳۹)
اس حالت میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گئے جہاں کفار کے لئے پہنچنا دشوار تھا۔ ابو سفیان نے دیکھ لیا اور فوج لے کر وہ بھی پہاڑ پر چڑھنے لگا لیکن حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے جان نثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کافروں پر اس زور سے پتھر برسائے کہ ابو سفیان اس کی تاب نہ لا سکا اور پہاڑ سے اتر گیا۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں تشریف فرما تھے اور چہرۂ انور سے خون بہہ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے اور حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے ہاتھوں سے خون دھو رہی تھیں مگر خون بند نہیں ہوتا تھا بالآخر کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی تو خون فوراً ہی تھم گیا۔(بخاری غزوه احد ج۲ ص۵۸۴)
ابو سفیان کا نعرہ اور اس کا جواب :۔
ابو سفیان جنگ کے میدان سے واپس جانے لگا تو ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور زور زور سے پکارا کہ کیا یہاں محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہیں ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جواب نہ دو، پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں ابوبکر ہیں ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی کچھ جواب نہ دے، پھر اس نے پکارا کہ کیا تم میں عمر ہیں ؟ جب اس کا بھی کوئی جواب نہیں ملا تو ابو سفیان گھمنڈ سے کہنے لگا کہ یہ سب مارے گئے کیونکہ اگر زندہ ہوتے تو ضرور میرا جواب دیتے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چلا کر کہا کہ اے دشمن خدا ! تو جھوٹا ہے۔ ہم سب زندہ ہیں۔
ابو سفیان نے اپنی فتح کے گھمنڈ میں یہ نعرہ مارا کہ” اُعْلُ هُبَلْ ” ” اُعْلُ هُبَلْ “ یعنی اے ہبل ! تو سر بلند ہو جا۔ اے ہبل ! تو سر بلند ہو جا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم لوگ بھی اس کے جواب میں نعرہ لگاؤ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ہم کیا کہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ یہ نعرہ مارو کہاَللّٰهُ اَعْلٰي وَ اَجَلّیعنی اﷲ سب سے بڑھ کر بلند مرتبہ اور بڑا ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہلَنَا الْعُزّيٰ وَ لَا عُزّيٰ لَکُمْ یعنی ہمارے لئے عزیٰ (بت) ہے اور تمہارے لئے کوئی ” عزیٰ ” نہیں ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے جواب میں یہ کہو کہاَللّٰهُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلٰي لَکُمْ یعنی اﷲ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔
ابو سفیان نے بہ آواز بلند بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ اور جواب ہے لڑائی میں کبھی فتح کبھی شکست ہوتی ہے۔ اے مسلمانوں ! ہماری فوج نے تمہارے مقتولوں کے کان ناک کاٹ کر ان کی صورتیں بگاڑ دی ہیں مگر میں نے نہ تو اس کا حکم دیا تھا، نہ مجھے اس پر کوئی رنج و افسوس ہوا ہے یہ کہہ کر ابو سفیان میدان سے ہٹ گیا اور چل دیا۔(زرقانی ج۲ ص۴۸ و بخاری غزوه احد ج۲ ص۵۷۹)
ہند جگر خوار :۔
کفارِ قریش کی عورتوں نے جنگ ِ بدر کا بدلہ لینے کے لئے جوش میں شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی لاشوں پر جا کر ان کے کان، ناک وغیرہ کاٹ کر صورتیں بگاڑ دیں اور ابو سفیان کی بیوی ہند نے تو اس بے دردی کا مظاہرہ کیا کہ ان اعضاء کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا۔ ہند حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو تلاش کرتی پھر رہی تھی کیونکہ حضرت حمزہ ہی نے جنگ ِ بدر کے دن ہند کے باپ عتبہ کو قتل کیا تھا۔ جب اس بے درد نے حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش کو پا لیا تو خنجر سے ان کا پیٹ پھاڑ کر کلیجہ نکالا اور اس کو چبا گئی لیکن حلق سے نہ اتر سکااس لئے اگل دیا تاریخوں میں ہند کا لقب جو ” جگر خوار ” ہے وہ اسی واقعہ کی بنا پر ہے۔ ہند اور اس کے شوہر ابو سفیان نے رمضان ۸ ھ میں فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم (زُرقانی ج۲ ص۴۷ وغیره)
سعد بن الربیع کی وصیت :۔
حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت سعد بن الربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش کی تلاش میں نکلا تو میں نے ان کو سکرات کے عالم میں پایا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے میرا سلام عرض کر دینا اور اپنی قوم کو بعد سلام میرا یہ پیغام سنا دینا کہ جب تک تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ ہے اگر رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تک کفار پہنچ گئے تو خدا کے دربار میں تمہارا کوئی عذر بھی قابل قبول نہ ہوگا۔ یہ کہا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ (زُرقانی ج۲ ص۴۸)
خواتین اسلام کے کارنامے :۔
جنگ ِ اُحد میں مردوں کی طرح عورتوں نے بھی بہت ہی مجاہدانہ جذبات کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا۔ حضرت بی بی عائشہ اور حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے بارے میں حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ دونوں پائینچے چڑھائے ہوئے مشک میں پانی بھر بھر کر لاتی تھیں اور مجاہدین خصوصاً زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت بی بی اُمِ سلیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی برابر پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں اور مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں۔(بخاری ج۲ باب ذکراُمِ سلیط ص۵۸۲)
حضرت اُمِ عمارہ کی جاں نثاری :۔
حضرت بی بی ام عمارہ جن کا نام ” نسیبہ” ہے جنگ ِ اُحد میں اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم اور دو فرزند حضرت عمارہ اور حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر آئی تھیں۔ پہلے تو یہ مجاہدین کو پانی پلاتی رہیں لیکن جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر کفار کی یلغار کا ہوش ربا منظر دیکھا تو مشک کو پھینک دیا اور ایک خنجر لے کر کفار کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر کھڑی ہو گئیں اور کفار کے تیر و تلوار کے ہر ایک وار کو روکتی رہیں۔ چنانچہ ان کے سر اور گردن پر تیرہ زخم لگے۔ ابن قمیئہ ملعون نے جب حضور رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تلوار چلا دی تو بی بی اُمِ عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آگے بڑھ کر اپنے بدن پر روکا۔ چنانچہ ان کے کندھے پر اتنا گہرا زخم آیا کہ غار پڑ گیا پھر خود بڑھ کر ابن قمیئہ کے شانے پر زور دار تلوار ماری لیکن وہ ملعون دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے بچ گیا۔
حضرت بی بی ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرزند حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک کافر نے زخمی کر دیا اور میرے زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا۔ میری والدہ حضرت اُمِ عمارہ نے فوراً اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم کو باندھ دیا اور کہا کہ بیٹا اُٹھو، کھڑے ہو جاؤ اور پھر جہادمیں مشغول ہو جاؤ۔ اتفاق سے وہی کافر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آگیا تو آپ نے فرمایا کہ اے ام عمارہ!رضی اﷲ تعالیٰ عنہا دیکھ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت بی بی اُمِ عمارہ نے جھپٹ کر اس کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ کافر گر پڑا اور پھر چل نہ سکا بلکہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا بھاگا۔یہ منظر دیکھ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا کہ اے اُمِ عمارہ!رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تو خدا کا شکر ادا کر کہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تو نے خداکی راہ میں جہاد کیا، حضرت بی بی اُمِ عمارہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دعا فرمائیے کہ ہم لوگوں کو جنت میں آپ کی خدمت گزاری کا شرف حاصل ہو جائے۔ اس وقت آپ نے ان کے لئے اور ان کے شوہر اور ان کے بیٹوں کے لئے اس طرح دعا فرمائی کہاَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُمْ رُفَقَائِيْ فِي الْجَنَّةِ یااﷲ! عزوجل ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنا دے۔
حضرت بی بی اُم عمارہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا زندگی بھر علانیہ یہ کہتی رہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اس دعا کے بعد دنیا میں بڑی سے بڑی مصیبت بھی مجھ پر آجائے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔(مدارج ج۲ ص۱۲۶)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت بی بی صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اپنے بھائی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش پر آئیں تو آپ نے انکے بیٹے حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ میری پھوپھی اپنے بھائی کی لاش نہ دیکھنے پائیں۔ حضرت بی بی صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ مجھے اپنے بھائی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو چکا ہے لیکن میں اس کو خدا کی راہ میں کوئی بڑی قربانی نہیں مجھتی، پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اجازت سے لاش کے پاس گئیں اور یہ منظر دیکھا کہ پیارے بھائی کے کان، ناک، آنکھ سب کٹے پٹے شکم چاک، جگر چبایا ہوا پڑا ہے، یہ دیکھ کر اس شیر دل خاتون نےاِنَّا ِللهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کے سوا کچھ بھی نہ کہا پھر ان کی مغفرت کی دعا مانگتی ہوئی چلی آئیں۔ (طبری ص۱۴۲۱)
ایک انصاری عورت کا صبر :۔
ایک انصاری عورت جس کا شوہر، باپ، بھائی سبھی اس جنگ میں شہید ہو چکے تھے تینوں کی شہادت کی خبر باری باری سے لوگوں نے اُسے دی مگر وہ ہر بار یہی پوچھتی رہی یہ بتاؤ کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کیسے ہیں ؟ جب لوگوں نے اس کو بتایا کہ الحمد ﷲ وہ زندہ اور سلامت ہیں تو بے اختیار اس کی زبان سے اس شعر کا مضمون نکل پڑا کہ
تسلی ہے پناہ بے کساں زندہ سلامت ہے
کوئی پروا نہیں سارا جہاں زندہ سلامت ہے
اللہ اکبر ! اس شیردل عورت کے صبرو ایثار کا کیا کہنا ؟ شوہر، باپ، بھائی، تینوں کے قتل سے دل پر صدمات کے تین تین پہاڑ گر پڑے ہیں مگر پھر بھی زبان حال سے اس کا یہی نعرہ ہے کہ ؎
میں بھی اور باپ بھی، شوہر بھی، برادر بھی فدا
اے شہ دیں ! ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
(طبری ص۱۴۲۵)
شہدائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم :۔
اس جنگ میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں چار مہاجر اور چھیاسٹھ انصار تھے۔ تیس کی تعداد میں کفار بھی نہایت ذلت کے ساتھ قتل ہوئے۔ (مدارج النبوة جلد۲ ص۱۳۳)
مگر مسلمانوں کی مفلسی کا یہ عالم تھا کہ ان شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کفن کے لئے کپڑا بھی نہیں تھا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ بوقت شہادت ان کے بدن پر صرف ایک اتنی بڑی کملی تھی کہ ان کی لاش کو قبر میں لٹانے کے بعد اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر پاؤں کو چھپایا جاتا تھا تو سر کھل جاتا تھا بالآخر سر چھپا دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی۔ شہداء کرام خون میں لتھڑے ہوئے دو دو شہید ایک ایک قبر میں دفن کئے گئے۔ جس کو قرآن زیادہ یاد ہوتا اس کو آگے رکھتے۔(بخاری باب اذالم یوجد الا ثواب واحد ج۱ ص۱۷۰ و بخاری ج۲ ص۵۸۴ باب الذين استجابوا)
قبورِ شہداء کی زیارت :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہداء اُحد کی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا بھی یہی عمل رہا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہداء احد کی قبروں پر تشریف لے گئے تو ارشاد فرمایا کہ یا اﷲ ! تیرا رسول گواہ ہے کہ اس جماعت نے تیری رضا کی طلب میں جان دی ہے، پھر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت تک جو مسلمان بھی ان شہیدوں کی قبروں پر زیارت کے لئے آئے گا اور ان کو سلام کرے گا تو یہ شہداء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے سلام کا جواب دیں گے۔
چنانچہ حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن اُحد کے میدان سے گزر رہی تھی حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ اَلسَّلاَمُ عَلَيْکَ يَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰه (اے رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا ! آپ پر سلام ہو) تو میرے کان میں یہ آواز آئی کہ وَعَلَيْکِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهٗ (مدارج النبوة ج۲ ص۱۳۵)
hayat-e-shohda :۔
چھیالیس برس کے بعد شہداء اُحد کی بعض قبریں کھل گئیں تو ان کے کفن سلامت اور بدن تر و تازہ تھے اور تمام اہل مدینہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ شہداء کرام اپنے زخموں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور جب زخم سے ہاتھ اٹھایا تو تازہ خون نکل کر بہنے لگا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۱۳۵)
کعب بن اشرف کا قتل :۔
یہودیوں میں کعب بن اشرف بہت ہی دولت مند تھا۔ یہودی علماء اور یہود کے مذہبی پیشواؤں کو اپنے خزانہ سے تنخواہ دیتا تھا۔ دولت کے ساتھ شاعری میں بھی بہت با کمال تھا جس کی وجہ سے نہ صرف یہودیوں بلکہ تمام قبائل عرب پر اس کا ایک خاص اثر تھا۔ اس کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے سخت عداوت تھی۔ جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سرداران قریش کے قتل ہو جانے سے اس کو انتہائی رنج و صدمہ ہوا۔ چنانچہ یہ قریش کی تعزیت کے لئے مکہ گیا اور کفارِ قریش کا جو بدر میں مقتول ہوئے تھے ایسا پر درد مرثیہ لکھا کہ جس کو سن کر سامعین کے مجمع میں ماتم برپا ہو جاتا تھا۔ اس مرثیہ کو یہ شخص قریش کو سنا سنا کر خود بھی زار زار روتا تھا اور سامعین کو بھی رلاتا تھا۔ مکہ میں ابو سفیان سے ملا اور اس کو مسلمانوں سے جنگ ِ بدر کا بدلہ لینے پر ابھارا بلکہ ابو سفیان کو لے کر حرم میں آیا اور کفار مکہ کے ساتھ خود بھی کعبہ کا غلاف پکڑ کر عہد کیا کہ مسلمانوں سے بدر کا ضرور انتقام لیں گے پھر مکہ سے مدینہ لوٹ کر آیا تو حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو لکھ کر شان اقدس میں طرح طرح کی گستاخیاں اور بے ادبیاں کرنے لگا، اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کو چپکے سے قتل کرا دینے کا قصد کیا۔
کعب بن اشرف یہودی کی یہ حرکتیں سراسر اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو یہود اور انصار کے درمیان ہو چکا تھا کہ مسلمانوں اور کفارِ قریش کی لڑائی میں یہودی غیر جانبدار رہیں گے۔ بہت دنوں تک مسلمان برداشت کرتے رہے مگر جب بانیٔ اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس جان کو خطرہ لاحق ہو گیا تو حضرت محمد بن مسلمہ نے حضرت ابو نائلہ و حضرت عباد بن بشر و حضرت حارث بن اوس و حضرت ابو عبس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لیا اور رات میں کعب بن اشرف کے مکان پر گئے اور ربیع الاول ۳ ھ کو اس کے قلعہ کے پھاٹک پر اس کو قتل کر دیا اور صبح کو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اس کا سر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ اس قتل کے سلسلہ میں حضرت حارث بن اوس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار کی نوک سے زخمی ہو گئے تھے۔ محمد بن مسلمہ وغیرہ ان کو کندھوں پر اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے اور آپ نے اپنا لعاب دہن ان کے زخم پر لگا دیا تو اُسی وقت شفاء کامل حاصل ہو گئی۔(زرقانی جلد۲ ص۱۰ و بخاری ج۲ ص۵۷۶ و مسلم ص۱۱۰)
غزوہ غطفان :۔
ربیع الاول ۳ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ نجد کے ایک مشہور بہادر ” دعثور بن الحارث محاربی ” نے ایک لشکر تیار کر لیا ہے تا کہ مدینہ پر حملہ کرے۔ اس خبر کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم چار سو صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فوج لے کر مقابلہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ جب دعثور کو خبر ملی کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہمارے دیار میں آ گئے تو وہ بھاگ نکلا اور اپنے لشکر کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ گیا مگر اس کی فوج کا ایک آدمی جس کا نام ” حبان ” تھا گرفتار ہو گیا اور فوراً ہی کلمہ پڑھ کر اس نے اسلام قبول کر لیا۔
اتفاق سے اس روز زور دار بارش ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے لیٹ کر اپنے کپڑے سکھانے لگے۔ پہاڑ کی بلندی سے کافروں نے دیکھ لیا کہ آپ بالکل اکیلے اور اپنے اصحاب سے دور بھی ہیں، ایک دم دعثور بجلی کی طرح پہاڑ سے اتر کر ننگی شمشیر ہاتھ میں لئے ہوئے آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تلوار بلند کر کے بولا کہ بتائیے اب کون ہے جو آپ کو مجھ سے بچا لے ؟ آپ نے جواب دیا کہ ” میرا اﷲ مجھ کو بچا لے گا۔ ” چنانچہ جبریل علیہ السلام دم زدن میں زمین پر اتر پڑے اور دعثور کے سینے میں ایک ایسا گھونسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور دعثور عین غین ہو کر رہ گیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فوراً تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ بول اب تجھ کو میری تلوار سے کون بچائے گا ؟ دعثور نے کانپتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ ” کوئی نہیں۔ ” رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی بے کسی پر رحم آگیا اور آپ نے اس کا قصور معاف فرما دیا۔ دعثور اس اخلاقِ نبوت سے بے حد متاثر ہوا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اپنی قوم میں آ کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگا۔
اس غزوہ میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گیارہ یا پندرہ دن مدینہ سے باہر رہ کر پھر مدینہ آگئے۔(زرقانی ج۲ ص۱۵ و بخاری ج۲ ص۵۱۳)
بعض مورخین نے اس تلوار کھینچنے والے واقعہ کو ” غزوۂ ذات الرقاع ” کے موقع پر بتایا ہے مگر حق یہ ہے کہ تاریخ نبوی میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ ” غزوئہ غطفان ” کے موقع پر سر انور کے اوپر تلوار اٹھانے والا ” دعثور بن حارث محاربی ” تھاجو مسلمان ہو کر اپنی قوم کے اسلام کا باعث بنا اور غزوۂ ذات الرقاع میں جس شخص نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تلوار اٹھائی تھی اس کا نام ” غورث ” تھا۔ اس نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مرتے وقت تک اپنے کفر پر اڑا رہا۔ ہاں البتہ اس نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کبھی جنگ نہیں کرے گا۔(زُرقانی ج۲ ص۱۶)
۳ ھ کے واقعات متفرقہ :۔
ہجرت کے تیسرے سال میں مندرجہ ذیل واقعات بھی ظہور پذیر ہوئے۔
{۱}۱۵ رمضان ۳ ھ کو حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔
{۲} اسی سال حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں جو غزوۂ بدر کے زمانہ میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ ان کے مفصل حالات ازواجِ مطہرات کے ذکر میں آگے تحریر کئے جائیں گے۔
{۳} اسی سال حضرت عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا۔
{۴} میراث کے احکام و قوانین بھی اسی سال نازل ہوئے۔ اب تک میراث میں ذوی الارحام کا کوئی حصہ نہ تھا۔ ان کے حقوق کا مفصل بیان نازل ہو گیا۔
{۵} اب تک مشرک عورتوں کا نکاح مسلمانوں سے جائز تھا مگر ۳ ھ میں اس کی حرمت نازل ہوگئی اور ہمیشہ کے لئے مشرک عورتوں کا نکاح مسلمانوں سے حرام کر دیا گیا۔(و اﷲ تعالیٰ اعلم)
ہجرت کا چوتھا سال
ہجرت کا چوتھا سال بھی کفار کے ساتھ چھوٹی بڑی لڑائیوں ہی میں گزرا۔ جنگ ِ بدر کی فتح مبین سے مسلمانوں کا رعب تمام قبائل عرب پر بیٹھ گیا تھا اس لئے تمام قبیلے کچھ دنوں کے لئے خاموش بیٹھ گئے تھے لیکن جنگ ِ اُحد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا چرچا ہو جانے سے دوبارہ تمام قبائل دفعۃً اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے کھڑے ہو گئے اور مجبوراً مسلمانوں کو بھی اپنے دفاع کے لئے لڑائیوں میں حصہ لینا پڑا۔ ۴ ھ کی مشہور لڑائیوں میں سے چند یہ ہیں:
سریہ ابو سلمہ :۔
یکم محرم ۴ ھ کو ناگہاں ایک شخص نے مدینہ میں یہ خبر پہنچائی کہ طلیحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد دونوں بھائی کفار کا لشکر جمع کر کے مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے نکل پڑے ہیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کے مقابلہ میں حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ڈیڑھ سو مجاہدین کے ساتھ روانہ فرمایا جس میں حضرت ابو سبرہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جیسے معزز مہاجرین و انصار بھی تھے، لیکن کفار کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے تو وہ لوگ بہت سے اونٹ اور بکریاں چھوڑ کر بھاگ گئے جن کو مسلمان مجاہدین نے مال غنیمت بنا لیا اور لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ (زرقانی ج۲ ص۶۲)
سریہ عبداﷲ بن انیس :۔
محرم ۴ ھ کو اطلاع ملی کہ ” خالد بن سفیان ہزلی ” مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے فوج جمع کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیا۔ آپ نے موقع پا کر خالد بن سفیان ہزلی کو قتل کر دیا اور اس کا سر کاٹ کر مدینہ لائے اور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہادری اور جان بازی سے خوش ہو کر ان کو اپنا عصا (چھڑی) عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم اسی عصا کو ہاتھ میں لیکر جنت میں چہل قدمی کرو گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قیامت کے دن یہ مبارک عصا میرے پاس نشانی کے طور پر رہے گا۔ چنانچہ انتقال کے وقت انہوں نے یہ وصیت فرمائی کہ اس عصا کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے۔ (زرقانی ج۲ ص۶۴)
حادثۂ رجیع :۔
عسفان و مکہ کے درمیان ایک مقام کا نام ” رجیع ” ہے۔ یہاں کی زمین سات مقدس صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خون سے رنگین ہوئی اس لئے یہ واقعہ ” سریۂ رجیع ” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ درد ناک سانحہ بھی ۴ ھ میں پیش آیا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ عضل و قارہ کے چند آدمی بارگاہ رسالت میں آئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اب آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو وہاں بھیج دیں تا کہ وہ ہماری قوم کو عقائد و اعمال اسلام سکھا دیں۔ ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دس منتخب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حضرت عاصم بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں بھیج دیا۔ جب یہ مقدس قافلہ مقام رجیع پر پہنچا تو غدار کفار نے بدعہدی کی اور قبیلۂ بنو لحیان کے کافروں نے دو سو کی تعداد میں جمع ہو کر ان دس مسلمانوں پر حملہ کر دیا مسلمان اپنے بچاؤ کے لئے ایک اونچے ٹیلہ پر چڑھ گئے۔
کافروں نے ترک چلانا شروع کیا اور مسلمانوں نے ٹیلے کی بلندی سے سنگ باری کی۔ کفار نے سمجھ لیا کہ ہم ہتھیاروں سے ان مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتے تو ان لوگوں نے دھوکہ دیا اور کہا کہ اے مسلمانو ! ہم تم لوگوں کو امان دیتے ہیں اور اپنی پناہ میں لیتے ہیں اس لئے تم لوگ ٹیلے سے اتر آؤ حضرت عاصم بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کسی کافر کی پناہ میں آنا گوارا نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر خدا سے دعا مانگی کہ ” یا اﷲ ! تو اپنے رسول کو ہمارے حال سے مطلع فرما دے۔ ” پھر وہ جوش جہاد میں بھرے ہوئے ٹیلے سے اترے اور کفار سے دست بدست لڑتے ہوئے اپنے چھ ساتھوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ چونکہ حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جنگ ِ بدر کے دن بڑے بڑے کفار قریش کو قتل کیا تھا اس لئے جب کفار مکہ کو حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا پتہ چلا تو کفار مکہ نے چند آدمیوں کو مقام رجیع میں بھیجا تا کہ ان کے بدن کا کوئی ایسا حصہ کاٹ کر لائیں جس سے شناخت ہو جائے کہ واقعی حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل ہو گئے ہیں لیکن جب کفار آپ کی لاش کی تلاش میں اس مقام پر پہنچے تو اس شہید کی یہ کرامت دیکھی کہ لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں نے ان کی لاش کے پاس اس طرح گھیرا ڈال رکھا ہے جس سے وہاں تک پہنچنا ہی نا ممکن ہوگیا ہے اس لئے کفارِ مکہ نا کام واپس چلے گئے۔ (زرقانی ج۲ ص۷۳ و بخاری ج۲ ص۵۶۹)
باقی تین اشخاص حضرت خبیب و حضرت زید بن دثنہ و حضرت عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کفار کی پناہ پر اعتماد کر کے نیچے اترے تو کفار نے بد عہدی کی اور اپنی کمان کی تانتوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کر دیا، یہ منظر دیکھ کر حضرت عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تم لوگوں کی پہلی بد عہدی ہے اور میرے لئے اپنے ساتھیوں کی طرح شہید ہو جانا بہتر ہے۔ چنانچہ وہ ان کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔(بخاری ج۲ ص۵۶۸ و زُرقانی ج۲ ص۶۷)
لیکن حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو کافروں نے باندھ دیا تھا اس لئے یہ دونوں مجبور ہو گئے تھے۔ ان دونوں کو کفار نے مکہ میں لے جا کر بیچ ڈالا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جنگ ِ اُحد میں حارث بن عامر کو قتل کام تھا اس لئے اس کے لڑکوں نے ان کو خرید لیا تا کہ ان کو قتل کر کے باپ کے خون کا بدلہ لیا جائے اور حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُمیہ کے بیٹے صفوان نے قتل کرنے کے ارادہ سے خریدا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو کافروں نے چند دن قید میں رکھا پھر حدود ِ حرم کے باہر لے جا کر سولی پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاتلوں سے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی، قاتلوں نے اجازت دے دی۔ آپ نے بہت مختصر طور پر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور فرمایا کہ اے گروہ کفار ! میرا دل تو یہی چاہتا تھا کہ دیر تک نماز پڑھتا رہوں کیونکہ یہ میری زندگی کی آخری نماز تھی مگر مجھ کو یہ خیال آ گیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھ لو کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں۔ کفار نے آپ کو سولی پر چڑھا دیا اس وقت آپ نے یہ اشعار پڑھے ؎
وَذَالِكَ فِيْ ذَاتِ الْاِ لٰهِ وَاِنْ يَّشَأْ
يُبَارِكْ عَلٰي اَوْصَالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعٖ
یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اگر وہ چاہے گا تو میرے کٹے پٹے جسم کے ٹکڑوں پر برکت نازل فرمائے گا۔
حارث بن عامر کے لڑکے ” ابو سروعہ ” نے آپ کو قتل کیا مگر خدا کی شان کہ یہی ابو سروعہ اور ان کے دونوں بھائی ” عقبہ ” اور ” حجیر ” پھر بعد میں مشرف بہ اسلام ہو کر صحابیت کے شرف و اعزاز سے سرفراز ہو گئے۔(بخاری ج۲ ص۵۶۹ و زُرقانی ج۲ ص۶۴ تا ۷۸)
حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے مطلع فرمایا۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ جو شخص خبیب کی لاش کو سولی سے اتار لائے اس کے لئے جنت ہے۔ یہ بشارت سن کر حضرت زبیر بن العوام و حضرت مقداد بن الاسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہما راتوں کو سفر کرتے اور دن کو چھپتے ہوئے مقام ” تنعیم ” میں حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سولی کے پاس پہنچے۔ چالیس کفار سولی کے پہرہ دار بن کر سو رہے تھے ان دونوں حضرات نے سولی سے لاش کو اُتارا اور گھوڑے پر رکھ کر چل دیئے۔ چالیس دن گزر جانے کے باوجود لاش ترو تازہ تھی اور زخموں سے تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ صبح کو قریش کے ستر سوار تیز رفتار گھوڑوں پر تعاقب میں چل پڑے اور ان دونوں حضرات کے پاس پہنچ گئے، ان حضرات نے جب دیکھا کہ قریش کے سوار ہم کو گرفتار کر لیں گے تو انہوں نے حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک کو گھوڑے سے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ ایک دم زمین پھٹ گئی اور لاش مبارک کو نگل گئی اور پھر زمین اس طرح برابر ہو گئی کہ پھٹنے کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لقب ” بلیع الارض ” (جن کو زمین نگل گئی) ہے۔
اس کے بعد ان حضرات رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کفار سے کہا کہ ہم دو شیر ہیں جو اپنے جنگل میں جا رہے ہیں اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو ہمارا راستہ روک کر دیکھو ورنہ اپنا راستہ لو۔ کفار نے ان حضرات کے پاس لاش نہیں دیکھی اس لئے مکہ واپس چلے گئے۔ جب دونوں صحابہ کرام نے بارگاہ رسالت میں سارا ماجرا عرض کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام بھی حاضر دربار تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ کے ان دونوں یاروں کے اس کارنامہ پر ہم فرشتوں کی جماعت کو بھی فخر ہے۔(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۴۱)
حضرت زید کی شہادت :۔
حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل کا تماشہ دیکھنے کے لئے کفار قریش کثیر تعداد میں جمع ہو گئے جن میں ابو سفیان بھی تھے۔ جب ان کو سولی پر چڑھا کر قاتل نے تلوار ہاتھ میں لی تو ابو سفیان نے کہا کہ کیوں ؟ اے زید ! سچ کہنا، اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس طرح قتل کئے جاتے تو کیا تم اس کو پسند کرتے ؟ حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابو سفیان کی اس طعنہ زنی کو سن کر تڑپ گئے اور جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ اے ابو سفیان ! خدا کی قسم ! میں اپنی جان کو قربان کر دینا عزیز سمجھتا ہوں مگر میرے پیارے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ مجھے کبھی بھی یہ گوارا نہیں ہو سکتا۔ ؎
مجھے ہو ناز قسمت پر اگر نام محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر
یہ سر کٹ جائے اور تیرا کف پا اس کو ٹھکرائے
یہ سب کچھ ہے گوارا پر یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا
کہ انکے پاؤں کے تلوے میں اک کانٹا بھی چبھ جائے
یہ سن کر ابو سفیان نے کہا کہ میں نے بڑے بڑے محبت کرنے والوں کو دیکھا ہے۔ مگر محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے عاشقوں کی مثال نہیں مل سکتی۔ صفوان کے غلام ” نسطاس ” نے تلوار سے ان کی گردن ماری۔ (زرقانی ج۲ ص۷۳)
واقعہ ٔ بیر معونہ :۔
ماہ صفر ۴ ھ میں ” بیر معونہ ” کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ابو براء عامر بن مالک جو اپنی بہادری کی وجہ سے ” ملاعب الاسنہ ” (برچھیوں سے کھیلنے والا) کہلاتا تھا، بارگاہ رسالت میں آیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے نہ تو اسلام قبول کیا نہ اس سے کوئی نفرت ظاہر کی بلکہ یہ درخواست کی کہ آپ اپنے چند منتخب صحابہ کو ہمارے دیار میں بھیج دیجئے مجھے امید ہے کہ وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ مجھے نجد کے کفار کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ میں آپ کے اصحاب کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں۔
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے ستر منتخب صالحین کو جو ” قراء ” کہلاتے تھے بھیج دیا۔ یہ حضرات جب مقام ” بیر معونہ ” پر پہنچے تو ٹھہر گئے اور صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے قافلہ سالار حضرت حرام بن ملحان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس اکیلے تشریف لے گئے جو قبیلہ کا رئیس اور ابو براء کا بھتیجا تھا۔ اس نے خط کو پڑھا بھی نہیں اور ایک شخص کو اشارہ کر دیا جس نے پیچھے سے حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور آس پاس کے قبائل یعنی رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان وغیرہ کو جمع کر کے ایک لشکر تیار کر لیا اور صحابہ کرام پر حملہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بیر معونہ کے پاس بہت دیر تک حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر جب بہت زیادہ دیر ہو گئی تو یہ لوگ آگے بڑھے راستہ میں عامر بن طفیل کی فوج کا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی کفار نے حضرت عمر و بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو شہید کر دیا، انہی شہداء کرام میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جن کے بارے میں عامر بن طفیل کا بیان ہے کہ قتل ہونے کے بعد ان کی لاش بلند ہو کر آسمان تک پہنچی پھر زمین پر آ گئی، اس کے بعد ان کی لاش تلاش کرنے پر بھی نہیں ملی کیونکہ فرشتوں نے انہیں دفن کر دیا۔(بخاری ج۲ ص۵۸۷ باب غزوة الرجيع)
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی اس لئے میں تم کو آزاد کرتا ہوں یہ کہا اور ان کی چوٹی کا بال کاٹ کر ان کو چھوڑ دیا۔ حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہاں سے چل کر جب مقامِ ” قرقرہ ” میں آئے تو ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے وہیں قبیلۂ بنو کلاب کے دو آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب وہ دونوں سو گئے تو حضرت عامر بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کافروں کو قتل کر دیا اور یہ سوچ کر دل میں خوش ہو رہے تھے کہ میں نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لے لیا ہے مگر ان دونوں شخصوں کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم امان دے چکے تھے جس کا حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علم نہ تھا۔ جب مدینہ پہنچ کر انہوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیا تو اصحاب بیر معونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی بھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔ (بخاری ج۱ ص۱۳۶ و زُرقانی ج۲ ص۷۴ تا ۷۸)
غزوۂ بنو نضیر :۔
حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبیلۂ بنو کلاب کے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کا خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرما دیا تھا اسی معاملہ کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبیلۂ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ ان یہودیوں سے آپ کا معاہدہ تھا مگر یہودی در حقیقت بہت ہی بد باطن ذہنیت والی قوم ہیں معاہدہ کر لینے کے باوجود ان خبیثوں کے دلوں میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دشمنی اور عناد کی آگ بھری ہوئی تھی۔ ہر چند حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان بد باطنوں سے اہل کتاب ہونے کی بنا پر اچھا سلوک فرماتے تھے مگر یہ لوگ ہمیشہ اسلام کی بیخ کنی اور بانیٔ اسلام کی دشمنی میں مصروف رہے۔ مسلمانوں سے بغض و عناد اور کفار و منافقین سے ساز باز اور اتحاد یہی ہمیشہ ان غداروں کا طرزِ عمل رہا۔ چنانچہ اس موقع پر جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے بظاہر تو بڑے اخلاق کا مظاہرہ کیا مگر اندرونی طور پر بڑی ہی خوفناک سازش اور انتہائی خطرناک اسکیم کا منصوبہ بنا لیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی تھے یہودیوں نے ان سب حضرات کو ایک دیوار کے نیچے بڑے احترام کے ساتھ بٹھایااور آپس میں یہ مشورہ کیا کہ چھت پر سے ایک بہت ہی بڑا اور وزنی پتھر ان حضرات پر گرا دیں تا کہ یہ سب لوگ دب کر ہلاک ہوجائیں۔ چنانچہ عمرو بن جحاش اس مقصد کے لئے چھت کے اوپر چڑھ گیا، محافظ ِ حقیقی پروردگار عالم عزوجل نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس ناپاک سازش سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیااس لئے فوراً ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چلے آئے اور مدینہ تشریف لا کر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو یہودیوں کی اس سازش سے آگاہ فرمایااور انصار و مہاجرین سے مشورہ کے بعد ان یہودیوں کے پاس قاصد بھیج دیا کہ چونکہ تم لوگوں نے اپنی اس دسیسہ کاری اور قاتلانہ سازش سے معاہدہ توڑ دیا اس لئے اب تم لوگوں کو دس دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ تم اس مدت میں مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد جو شخص بھی تم میں کا یہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر بنو نضیر کے یہودی جلا وطن ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر منافقوں کا سردار عبداﷲ ابن ابی ان یہودیوں کا حامی بن گیا اور اس نے کہلا بھیجا کہ تم لوگ ہرگز ہرگز مدینہ سے نہ نکلو ہم دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کرنے کو تیار ہیں اس کے علاوہ بنو قریظہ اور بنو غطفان یہودیوں کے دو طاقتور قبیلے بھی تمہاری مدد کریں گے۔ بنو نضیر کے یہودیوں کو جب اتنا بڑا سہارا مل گیا تو وہ شیر ہوگئے اور انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ چھوڑ کر نہیں جا سکتے آپ کے جو دل میں آئے کر لیجیے۔(مدارج جلد۲ ص۱۴۷)
یہودیوں کے اس جواب کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی امامت حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرما کر خود بنو نضیر کا قصد فرمایا اور ان یہودیوں کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ پندرہ دن تک قائم رہا قلعہ میں باہر سے ہر قسم کے سامانوں کا آنا جانا بند ہو گیا اور یہودی بالکل ہی محصور و مجبور ہو کر رہ گئے مگر اس موقع پر نہ تو منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی یہودیوں کی مدد کے لئے آیا نہ بنو قریظہ اور بنو غطفان نے کوئی مدد کی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان دغابازوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِـلْاِنْسَانِ اكْفُرْج فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّيْ بَرِيْٓيٌ مِّنْكَ اِنِّيْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ (سوره حشر)
ان لوگوں کی مثال شیطان جیسی ہے جب اس نے آدمی سے کہا کہ تو کفر کر پھر جب اس نے کفر کیا تو بولا کہ میں تجھ سے الگ ہوں میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
یعنی جس طرح شیطان آدمی کو کفر پر ابھارتا ہے لیکن جب آدمی شیطان کے ور غلانے سے کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو شیطان چپکے سے کھسک کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اسی طرح منافقوں نے بنو نضیر کے یہودیوں کو شہ دے کر دلیر بنا دیا اور اﷲ کے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے لڑا دیا لیکن جب بنو نضیر کے یہودیوں کو جنگ کا سامنا ہوا تو منافق چھپ کر اپنے گھروں میں بیٹھ رہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قلعہ کے محاصرہ کے ساتھ قلعہ کے آس پاس کھجوروں کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیا کیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں یہودی چھپ کر اسلامی لشکر پر چھاپا مارتے اور جنگ میں مسلمانوں کو دشواری ہو جاتی۔
ان درختوں کو کاٹنے کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ درخت نہ کاٹے جائیں کیونکہ فتح کے بعد یہ سب درخت مالِ غنیمت بن جائیں گے اور مسلمان ان سے نفع اٹھائیں گے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ درختوں کے جھنڈ کو کاٹ کر صاف کر دینے سے یہودیوں کی کمین گاہوں کو برباد کرنا اور ان کو نقصان پہنچا کر غیظ و غضب میں ڈالنا مقصود ہے، لہٰذا ان درختوں کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے اس موقع پر سورۂ حشر کی یہ آیت اتری:
مَاقَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ
جو درخت تم نے کاٹے یا جن کو انکی جڑوں پر قائم چھوڑ دیے یہ سب اﷲ کے حکم سے تھا تا کہ خدا فاسقوں کو رسوا کرے
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو درخت کاٹنے والے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے اور جو کاٹنا نہیں چاہتے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ کچھ درختوں کو کاٹنا اور کچھ کو چھوڑ دینا یہ دونوں اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہیں۔
بہر حال آخر کار محاصرہ سے تنگ آ کر بنو نضیر کے یہودی اس بات پر تیار ہو گئے کہ وہ اپنا اپنا مکان اور قلعہ چھوڑ کر اس شرط پر مدینہ سے باہر چلے جائیں گے کہ جس قدر مال و اسباب وہ اونٹوں پر لے جا سکیں لے جائیں، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس شرط کو منظور فرما لیااور بنو نضیر کے سب یہودی چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے ہوئے مدینہ سے نکلے کچھ تو ” خیبر ” چلے گئے اور زیادہ تعداد میں ملک شام جا کر ” اذرعات ” اور ” اریحاء ” میں آباد ہو گئے۔
ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کی مسلمانوں نے جب تلاشی لی تو پچاس لوہے کی ٹوپیاں، پچاس زرہیں، تین سو چالیس تلواریں نکلیں جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئیں۔(زرقانی ج۲ ص۷۹ تا ۸۵)
هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ط مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْآ اَنَّهُمْ مَّا نِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰـهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَق فَاعْتَبِرُوْا يٰٓـاُولِي الْاَبْصَارِ (حشر)
اﷲ وہی ہے جس نے کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کیلئے (اے مسلمانوں !) تمہیں یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ انکے قلعے انہیں اﷲ سے بچا لیں گے تو اﷲ کا حکم ان کے پاس آ گیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں خوف ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ویران کرتے ہیں تو عبرت پکڑو اے نگاہ والو !
بدر صغریٰ :۔
جنگ ِ اُحد سے لوٹتے وقت ابو سفیان نے کہا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا۔ چنانچہ شعبان یا ذوالقعدہ ۴ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ کے نظم و نسق کا انتظام حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرما کر لشکر کے ساتھ بدر میں تشریف لے گئے۔ آٹھ روز تک کفار کا انتظار کیا ادھر ابو سفیان بھی فوج کے ساتھ چلا، ایک منزل چلا تھا کہ اس نے اپنے لشکر سے یہ کہا کہ یہ سال جنگ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اتنا زبردست قحط پڑا ہوا ہے کہ نہ آدمیوں کے لئے دانہ پانی ہے نہ جانوروں کے لئے گھاس چارا، یہ کہہ کر ابو سفیان مکہ واپس چلا گیا، مسلمانوں کے پاس کچھ مال تجارت بھی ساتھ تھا جب جنگ نہیں ہوئی تو مسلمانوں نے تجارت کرکے خوب نفع کمایا اور مدینہ واپس چلے آئے۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۱ وغيرہ)
ھ ۴ کے متفرق واقعات :۔
{۱} اسی سال غزوۂ بنو نضیر کے بعد جب انصار نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنو نضیر کے جو اموال غنیمت میں ملے ہیں وہ سب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے ہم اس میں سے کسی چیز کے طلب گار نہیں ہیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر یہ دعا فرمائی کہ
اَللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَاَبْنَآيَ الْاَنْصَارِ وَاَبْنَآيَ اَبْنَآئِ الْاَنْصَارِ
اے اﷲ! عزوجل انصار پر، اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر رحم فرما۔(مدارج جلد۲ ص۱۴۸)
{۲} اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے حضرت عبداﷲ بن عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی آنکھ میں ایک مرغ نے چونچ مار دی جس کے صدمے سے وہ دو رات تڑپ کر وفات پا گئے۔(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
{۳} اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت بی بی زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی۔(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
{۴} اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
{۵} اسی سال حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی، حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا مقدس پیراہن ان کے کفن کیلئے عطا فرمایا اور ان کی قبر میں اتر کر ان کی میت کو اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت اسد کے سوا کوئی شخص بھی قبر کے دبوچنے سے نہیں بچا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صرف پانچ ہی میت ایسی خوش نصیب ہوئی ہیں جن کی قبر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود اترے: اوّل: حضرت بی بی خدیجہ، دوم:حضرت بی بی خدیجہ کا ایک لڑکا،سوم: عبداﷲ مزنی جن کا لقب ذوالبجادین ہے، چہارم:حضرت بی بی عائشہ کی ماں حضرت اُمِ رومان،پنجم: حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی کی والدہ۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)(مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
{۶} اسی سال ۴ شعبان ۴ ھ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیدائش ہوئی۔ (مدارج جلد ۲ ص۱۵۱)
{۷} اسی سال ایک یہودی نے ایک یہودی کی عورت کے ساتھ زنا کیااور یہودیوں نے یہ مقدمہ بارگاہ نبوت میں پیش کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تورات و قرآن دونوں کتابوں کے فرمان سے اس کو سنگسار کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۲)
{۸} اسی سال طعمہ بن ابیرق نے جو مسلمان تھا چوری کی تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا، اس پر وہ بھاگ نکلا اور مکہ چلا گیا۔ وہاں بھی اس نے چوری کی اہل مکہ نے اس کو قتل کر ڈالا یا اس پر دیوار گر پڑی اور مر گیا یا دریا میں پھینک دیا گیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ مرتد ہو گیا تھا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۳)
{۹} بعض مؤرخین کے نزدیک شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا اور بعض کے نزدیک ۶ ھ میں اور بعض نے کہا کہ ۸ ھ میں شراب حرام کی گئی۔(مدارج جلد ۲ ص۱۵۳)
سریہ ابو سلمہ :۔
یکم محرم ۴ ھ کو ناگہاں ایک شخص نے مدینہ میں یہ خبر پہنچائی کہ طلیحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد دونوں بھائی کفار کا لشکر جمع کر کے مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے نکل پڑے ہیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کے مقابلہ میں حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ڈیڑھ سو مجاہدین کے ساتھ روانہ فرمایا جس میں حضرت ابو سبرہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جیسے معزز مہاجرین و انصار بھی تھے، لیکن کفار کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے تو وہ لوگ بہت سے اونٹ اور بکریاں چھوڑ کر بھاگ گئے جن کو مسلمان مجاہدین نے مال غنیمت بنا لیا اور لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ (زرقانی ج۲ ص۶۲)
سریہ عبداﷲ بن انیس :۔
محرم ۴ ھ کو اطلاع ملی کہ ” خالد بن سفیان ہزلی ” مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے فوج جمع کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیا۔ آپ نے موقع پا کر خالد بن سفیان ہزلی کو قتل کر دیا اور اس کا سر کاٹ کر مدینہ لائے اور تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بہادری اور جان بازی سے خوش ہو کر ان کو اپنا عصا (چھڑی) عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم اسی عصا کو ہاتھ میں لیکر جنت میں چہل قدمی کرو گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قیامت کے دن یہ مبارک عصا میرے پاس نشانی کے طور پر رہے گا۔ چنانچہ انتقال کے وقت انہوں نے یہ وصیت فرمائی کہ اس عصا کو میرے کفن میں رکھ دیا جائے۔ (زرقانی ج۲ ص۶۴)
حادثۂ رجیع :۔
عسفان و مکہ کے درمیان ایک مقام کا نام ” رجیع ” ہے۔ یہاں کی زمین سات مقدس صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خون سے رنگین ہوئی اس لئے یہ واقعہ ” سریۂ رجیع ” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ درد ناک سانحہ بھی ۴ ھ میں پیش آیا۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ قبیلہ عضل و قارہ کے چند آدمی بارگاہ رسالت میں آئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اب آپ چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو وہاں بھیج دیں تا کہ وہ ہماری قوم کو عقائد و اعمال اسلام سکھا دیں۔ ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دس منتخب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حضرت عاصم بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں بھیج دیا۔ جب یہ مقدس قافلہ مقام رجیع پر پہنچا تو غدار کفار نے بدعہدی کی اور قبیلۂ بنو لحیان کے کافروں نے دو سو کی تعداد میں جمع ہو کر ان دس مسلمانوں پر حملہ کر دیا مسلمان اپنے بچاؤ کے لئے ایک اونچے ٹیلہ پر چڑھ گئے۔
کافروں نے ترک چلانا شروع کیا اور مسلمانوں نے ٹیلے کی بلندی سے سنگ باری کی۔ کفار نے سمجھ لیا کہ ہم ہتھیاروں سے ان مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتے تو ان لوگوں نے دھوکہ دیا اور کہا کہ اے مسلمانو ! ہم تم لوگوں کو امان دیتے ہیں اور اپنی پناہ میں لیتے ہیں اس لئے تم لوگ ٹیلے سے اتر آؤ حضرت عاصم بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں کسی کافر کی پناہ میں آنا گوارا نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر خدا سے دعا مانگی کہ ” یا اﷲ ! تو اپنے رسول کو ہمارے حال سے مطلع فرما دے۔ ” پھر وہ جوش جہاد میں بھرے ہوئے ٹیلے سے اترے اور کفار سے دست بدست لڑتے ہوئے اپنے چھ ساتھوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ چونکہ حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جنگ ِ بدر کے دن بڑے بڑے کفار قریش کو قتل کیا تھا اس لئے جب کفار مکہ کو حضرت عاصم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا پتہ چلا تو کفار مکہ نے چند آدمیوں کو مقام رجیع میں بھیجا تا کہ ان کے بدن کا کوئی ایسا حصہ کاٹ کر لائیں جس سے شناخت ہو جائے کہ واقعی حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل ہو گئے ہیں لیکن جب کفار آپ کی لاش کی تلاش میں اس مقام پر پہنچے تو اس شہید کی یہ کرامت دیکھی کہ لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں نے ان کی لاش کے پاس اس طرح گھیرا ڈال رکھا ہے جس سے وہاں تک پہنچنا ہی نا ممکن ہوگیا ہے اس لئے کفارِ مکہ نا کام واپس چلے گئے۔ (زرقانی ج۲ ص۷۳ و بخاری ج۲ ص۵۶۹)
باقی تین اشخاص حضرت خبیب و حضرت زید بن دثنہ و حضرت عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کفار کی پناہ پر اعتماد کر کے نیچے اترے تو کفار نے بد عہدی کی اور اپنی کمان کی تانتوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کر دیا، یہ منظر دیکھ کر حضرت عبداﷲ بن طارق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تم لوگوں کی پہلی بد عہدی ہے اور میرے لئے اپنے ساتھیوں کی طرح شہید ہو جانا بہتر ہے۔ چنانچہ وہ ان کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔(بخاری ج۲ ص۵۶۸ و زُرقانی ج۲ ص۶۷)
لیکن حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو کافروں نے باندھ دیا تھا اس لئے یہ دونوں مجبور ہو گئے تھے۔ ان دونوں کو کفار نے مکہ میں لے جا کر بیچ ڈالا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جنگ ِ اُحد میں حارث بن عامر کو قتل کام تھا اس لئے اس کے لڑکوں نے ان کو خرید لیا تا کہ ان کو قتل کر کے باپ کے خون کا بدلہ لیا جائے اور حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُمیہ کے بیٹے صفوان نے قتل کرنے کے ارادہ سے خریدا۔ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو کافروں نے چند دن قید میں رکھا پھر حدود ِ حرم کے باہر لے جا کر سولی پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاتلوں سے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی، قاتلوں نے اجازت دے دی۔ آپ نے بہت مختصر طور پر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور فرمایا کہ اے گروہ کفار ! میرا دل تو یہی چاہتا تھا کہ دیر تک نماز پڑھتا رہوں کیونکہ یہ میری زندگی کی آخری نماز تھی مگر مجھ کو یہ خیال آ گیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھ لو کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں۔ کفار نے آپ کو سولی پر چڑھا دیا اس وقت آپ نے یہ اشعار پڑھے ؎
وَذَالِكَ فِيْ ذَاتِ الْاِ لٰهِ وَاِنْ يَّشَأْ
يُبَارِكْ عَلٰي اَوْصَالِ شِلْوٍ مُّمَزَّعٖ
یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اگر وہ چاہے گا تو میرے کٹے پٹے جسم کے ٹکڑوں پر برکت نازل فرمائے گا۔
حارث بن عامر کے لڑکے ” ابو سروعہ ” نے آپ کو قتل کیا مگر خدا کی شان کہ یہی ابو سروعہ اور ان کے دونوں بھائی ” عقبہ ” اور ” حجیر ” پھر بعد میں مشرف بہ اسلام ہو کر صحابیت کے شرف و اعزاز سے سرفراز ہو گئے۔(بخاری ج۲ ص۵۶۹ و زُرقانی ج۲ ص۶۴ تا ۷۸)
حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے مطلع فرمایا۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ جو شخص خبیب کی لاش کو سولی سے اتار لائے اس کے لئے جنت ہے۔ یہ بشارت سن کر حضرت زبیر بن العوام و حضرت مقداد بن الاسود رضی اﷲ تعالیٰ عنہما راتوں کو سفر کرتے اور دن کو چھپتے ہوئے مقام ” تنعیم ” میں حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی سولی کے پاس پہنچے۔ چالیس کفار سولی کے پہرہ دار بن کر سو رہے تھے ان دونوں حضرات نے سولی سے لاش کو اُتارا اور گھوڑے پر رکھ کر چل دیئے۔ چالیس دن گزر جانے کے باوجود لاش ترو تازہ تھی اور زخموں سے تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ صبح کو قریش کے ستر سوار تیز رفتار گھوڑوں پر تعاقب میں چل پڑے اور ان دونوں حضرات کے پاس پہنچ گئے، ان حضرات نے جب دیکھا کہ قریش کے سوار ہم کو گرفتار کر لیں گے تو انہوں نے حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک کو گھوڑے سے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ ایک دم زمین پھٹ گئی اور لاش مبارک کو نگل گئی اور پھر زمین اس طرح برابر ہو گئی کہ پھٹنے کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لقب ” بلیع الارض ” (جن کو زمین نگل گئی) ہے۔
اس کے بعد ان حضرات رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کفار سے کہا کہ ہم دو شیر ہیں جو اپنے جنگل میں جا رہے ہیں اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو ہمارا راستہ روک کر دیکھو ورنہ اپنا راستہ لو۔ کفار نے ان حضرات کے پاس لاش نہیں دیکھی اس لئے مکہ واپس چلے گئے۔ جب دونوں صحابہ کرام نے بارگاہ رسالت میں سارا ماجرا عرض کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام بھی حاضر دربار تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ کے ان دونوں یاروں کے اس کارنامہ پر ہم فرشتوں کی جماعت کو بھی فخر ہے۔(مدارج النبوۃ جلد۲ ص۱۴۱)
حضرت زید کی شہادت :۔
حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل کا تماشہ دیکھنے کے لئے کفار قریش کثیر تعداد میں جمع ہو گئے جن میں ابو سفیان بھی تھے۔ جب ان کو سولی پر چڑھا کر قاتل نے تلوار ہاتھ میں لی تو ابو سفیان نے کہا کہ کیوں ؟ اے زید ! سچ کہنا، اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس طرح قتل کئے جاتے تو کیا تم اس کو پسند کرتے ؟ حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ابو سفیان کی اس طعنہ زنی کو سن کر تڑپ گئے اور جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا کہ اے ابو سفیان ! خدا کی قسم ! میں اپنی جان کو قربان کر دینا عزیز سمجھتا ہوں مگر میرے پیارے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ مجھے کبھی بھی یہ گوارا نہیں ہو سکتا۔ ؎
مجھے ہو ناز قسمت پر اگر نام محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر
یہ سر کٹ جائے اور تیرا کف پا اس کو ٹھکرائے
یہ سب کچھ ہے گوارا پر یہ مجھ سے ہو نہیں سکتا
کہ انکے پاؤں کے تلوے میں اک کانٹا بھی چبھ جائے
یہ سن کر ابو سفیان نے کہا کہ میں نے بڑے بڑے محبت کرنے والوں کو دیکھا ہے۔ مگر محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے عاشقوں کی مثال نہیں مل سکتی۔ صفوان کے غلام ” نسطاس ” نے تلوار سے ان کی گردن ماری۔ (زرقانی ج۲ ص۷۳)
واقعہ ٔ بیر معونہ :۔
ماہ صفر ۴ ھ میں ” بیر معونہ ” کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ابو براء عامر بن مالک جو اپنی بہادری کی وجہ سے ” ملاعب الاسنہ ” (برچھیوں سے کھیلنے والا) کہلاتا تھا، بارگاہ رسالت میں آیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے نہ تو اسلام قبول کیا نہ اس سے کوئی نفرت ظاہر کی بلکہ یہ درخواست کی کہ آپ اپنے چند منتخب صحابہ کو ہمارے دیار میں بھیج دیجئے مجھے امید ہے کہ وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ مجھے نجد کے کفار کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ میں آپ کے اصحاب کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں۔
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ میں سے ستر منتخب صالحین کو جو ” قراء ” کہلاتے تھے بھیج دیا۔ یہ حضرات جب مقام ” بیر معونہ ” پر پہنچے تو ٹھہر گئے اور صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے قافلہ سالار حضرت حرام بن ملحان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس اکیلے تشریف لے گئے جو قبیلہ کا رئیس اور ابو براء کا بھتیجا تھا۔ اس نے خط کو پڑھا بھی نہیں اور ایک شخص کو اشارہ کر دیا جس نے پیچھے سے حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور آس پاس کے قبائل یعنی رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان وغیرہ کو جمع کر کے ایک لشکر تیار کر لیا اور صحابہ کرام پر حملہ کے لئے روانہ ہو گیا۔ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بیر معونہ کے پاس بہت دیر تک حضرت حرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر جب بہت زیادہ دیر ہو گئی تو یہ لوگ آگے بڑھے راستہ میں عامر بن طفیل کی فوج کا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی کفار نے حضرت عمر و بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو شہید کر دیا، انہی شہداء کرام میں حضرت عامر بن فہیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ جن کے بارے میں عامر بن طفیل کا بیان ہے کہ قتل ہونے کے بعد ان کی لاش بلند ہو کر آسمان تک پہنچی پھر زمین پر آ گئی، اس کے بعد ان کی لاش تلاش کرنے پر بھی نہیں ملی کیونکہ فرشتوں نے انہیں دفن کر دیا۔(بخاری ج۲ ص۵۸۷ باب غزوة الرجيع)
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی اس لئے میں تم کو آزاد کرتا ہوں یہ کہا اور ان کی چوٹی کا بال کاٹ کر ان کو چھوڑ دیا۔ حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہاں سے چل کر جب مقامِ ” قرقرہ ” میں آئے تو ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے وہیں قبیلۂ بنو کلاب کے دو آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب وہ دونوں سو گئے تو حضرت عامر بن اُمیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کافروں کو قتل کر دیا اور یہ سوچ کر دل میں خوش ہو رہے تھے کہ میں نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لے لیا ہے مگر ان دونوں شخصوں کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم امان دے چکے تھے جس کا حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علم نہ تھا۔ جب مدینہ پہنچ کر انہوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیا تو اصحاب بیر معونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی بھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔ (بخاری ج۱ ص۱۳۶ و زُرقانی ج۲ ص۷۴ تا ۷۸)
غزوۂ بنو نضیر :۔
حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبیلۂ بنو کلاب کے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کا خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرما دیا تھا اسی معاملہ کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبیلۂ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ ان یہودیوں سے آپ کا معاہدہ تھا مگر یہودی در حقیقت بہت ہی بد باطن ذہنیت والی قوم ہیں معاہدہ کر لینے کے باوجود ان خبیثوں کے دلوں میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دشمنی اور عناد کی آگ بھری ہوئی تھی۔ ہر چند حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان بد باطنوں سے اہل کتاب ہونے کی بنا پر اچھا سلوک فرماتے تھے مگر یہ لوگ ہمیشہ اسلام کی بیخ کنی اور بانیٔ اسلام کی دشمنی میں مصروف رہے۔ مسلمانوں سے بغض و عناد اور کفار و منافقین سے ساز باز اور اتحاد یہی ہمیشہ ان غداروں کا طرزِ عمل رہا۔ چنانچہ اس موقع پر جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے بظاہر تو بڑے اخلاق کا مظاہرہ کیا مگر اندرونی طور پر بڑی ہی خوفناک سازش اور انتہائی خطرناک اسکیم کا منصوبہ بنا لیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و حضرت عمر و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی تھے یہودیوں نے ان سب حضرات کو ایک دیوار کے نیچے بڑے احترام کے ساتھ بٹھایااور آپس میں یہ مشورہ کیا کہ چھت پر سے ایک بہت ہی بڑا اور وزنی پتھر ان حضرات پر گرا دیں تا کہ یہ سب لوگ دب کر ہلاک ہوجائیں۔ چنانچہ عمرو بن جحاش اس مقصد کے لئے چھت کے اوپر چڑھ گیا، محافظ ِ حقیقی پروردگار عالم عزوجل نے اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس ناپاک سازش سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیااس لئے فوراً ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چلے آئے اور مدینہ تشریف لا کر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو یہودیوں کی اس سازش سے آگاہ فرمایااور انصار و مہاجرین سے مشورہ کے بعد ان یہودیوں کے پاس قاصد بھیج دیا کہ چونکہ تم لوگوں نے اپنی اس دسیسہ کاری اور قاتلانہ سازش سے معاہدہ توڑ دیا اس لئے اب تم لوگوں کو دس دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ تم اس مدت میں مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد جو شخص بھی تم میں کا یہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ شہنشاہ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر بنو نضیر کے یہودی جلا وطن ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر منافقوں کا سردار عبداﷲ ابن ابی ان یہودیوں کا حامی بن گیا اور اس نے کہلا بھیجا کہ تم لوگ ہرگز ہرگز مدینہ سے نہ نکلو ہم دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کرنے کو تیار ہیں اس کے علاوہ بنو قریظہ اور بنو غطفان یہودیوں کے دو طاقتور قبیلے بھی تمہاری مدد کریں گے۔ بنو نضیر کے یہودیوں کو جب اتنا بڑا سہارا مل گیا تو وہ شیر ہوگئے اور انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ چھوڑ کر نہیں جا سکتے آپ کے جو دل میں آئے کر لیجیے۔(مدارج جلد۲ ص۱۴۷)
یہودیوں کے اس جواب کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی امامت حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرما کر خود بنو نضیر کا قصد فرمایا اور ان یہودیوں کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ پندرہ دن تک قائم رہا قلعہ میں باہر سے ہر قسم کے سامانوں کا آنا جانا بند ہو گیا اور یہودی بالکل ہی محصور و مجبور ہو کر رہ گئے مگر اس موقع پر نہ تو منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی یہودیوں کی مدد کے لئے آیا نہ بنو قریظہ اور بنو غطفان نے کوئی مدد کی۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان دغابازوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِـلْاِنْسَانِ اكْفُرْج فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّيْ بَرِيْٓيٌ مِّنْكَ اِنِّيْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ (سوره حشر)
ان لوگوں کی مثال شیطان جیسی ہے جب اس نے آدمی سے کہا کہ تو کفر کر پھر جب اس نے کفر کیا تو بولا کہ میں تجھ سے الگ ہوں میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔
یعنی جس طرح شیطان آدمی کو کفر پر ابھارتا ہے لیکن جب آدمی شیطان کے ور غلانے سے کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو شیطان چپکے سے کھسک کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اسی طرح منافقوں نے بنو نضیر کے یہودیوں کو شہ دے کر دلیر بنا دیا اور اﷲ کے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے لڑا دیا لیکن جب بنو نضیر کے یہودیوں کو جنگ کا سامنا ہوا تو منافق چھپ کر اپنے گھروں میں بیٹھ رہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قلعہ کے محاصرہ کے ساتھ قلعہ کے آس پاس کھجوروں کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیا کیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں یہودی چھپ کر اسلامی لشکر پر چھاپا مارتے اور جنگ میں مسلمانوں کو دشواری ہو جاتی۔
ان درختوں کو کاٹنے کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ درخت نہ کاٹے جائیں کیونکہ فتح کے بعد یہ سب درخت مالِ غنیمت بن جائیں گے اور مسلمان ان سے نفع اٹھائیں گے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ درختوں کے جھنڈ کو کاٹ کر صاف کر دینے سے یہودیوں کی کمین گاہوں کو برباد کرنا اور ان کو نقصان پہنچا کر غیظ و غضب میں ڈالنا مقصود ہے، لہٰذا ان درختوں کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے اس موقع پر سورۂ حشر کی یہ آیت اتری:
مَاقَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفٰسِقِيْنَ
جو درخت تم نے کاٹے یا جن کو انکی جڑوں پر قائم چھوڑ دیے یہ سب اﷲ کے حکم سے تھا تا کہ خدا فاسقوں کو رسوا کرے
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو درخت کاٹنے والے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے اور جو کاٹنا نہیں چاہتے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ کچھ درختوں کو کاٹنا اور کچھ کو چھوڑ دینا یہ دونوں اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہیں۔
بہر حال آخر کار محاصرہ سے تنگ آ کر بنو نضیر کے یہودی اس بات پر تیار ہو گئے کہ وہ اپنا اپنا مکان اور قلعہ چھوڑ کر اس شرط پر مدینہ سے باہر چلے جائیں گے کہ جس قدر مال و اسباب وہ اونٹوں پر لے جا سکیں لے جائیں، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس شرط کو منظور فرما لیااور بنو نضیر کے سب یہودی چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے ہوئے مدینہ سے نکلے کچھ تو ” خیبر ” چلے گئے اور زیادہ تعداد میں ملک شام جا کر ” اذرعات ” اور ” اریحاء ” میں آباد ہو گئے۔
ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کی مسلمانوں نے جب تلاشی لی تو پچاس لوہے کی ٹوپیاں، پچاس زرہیں، تین سو چالیس تلواریں نکلیں جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قبضہ میں آئیں۔(زرقانی ج۲ ص۷۹ تا ۸۵)
هُوَ الَّذِيْٓ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ط مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَظَنُّوْآ اَنَّهُمْ مَّا نِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰـهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا وَقَذَفَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُوْنَ بُيُوْتَهُمْ بِاَيْدِيْهِمْ وَاَيْدِي الْمُؤْمِنِيْنَق فَاعْتَبِرُوْا يٰٓـاُولِي الْاَبْصَارِ (حشر)
اﷲ وہی ہے جس نے کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کیلئے (اے مسلمانوں !) تمہیں یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ انکے قلعے انہیں اﷲ سے بچا لیں گے تو اﷲ کا حکم ان کے پاس آ گیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں خوف ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ویران کرتے ہیں تو عبرت پکڑو اے نگاہ والو !
بدر صغریٰ :۔
جنگ ِ اُحد سے لوٹتے وقت ابو سفیان نے کہا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہو گا۔ چنانچہ شعبان یا ذوالقعدہ ۴ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ کے نظم و نسق کا انتظام حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرما کر لشکر کے ساتھ بدر میں تشریف لے گئے۔ آٹھ روز تک کفار کا انتظار کیا ادھر ابو سفیان بھی فوج کے ساتھ چلا، ایک منزل چلا تھا کہ اس نے اپنے لشکر سے یہ کہا کہ یہ سال جنگ کے لئے مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اتنا زبردست قحط پڑا ہوا ہے کہ نہ آدمیوں کے لئے دانہ پانی ہے نہ جانوروں کے لئے گھاس چارا، یہ کہہ کر ابو سفیان مکہ واپس چلا گیا، مسلمانوں کے پاس کچھ مال تجارت بھی ساتھ تھا جب جنگ نہیں ہوئی تو مسلمانوں نے تجارت کرکے خوب نفع کمایا اور مدینہ واپس چلے آئے۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۱ وغيرہ)
ھ ۴ کے متفرق واقعات :۔
{۱} اسی سال غزوۂ بنو نضیر کے بعد جب انصار نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنو نضیر کے جو اموال غنیمت میں ملے ہیں وہ سب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مہاجر بھائیوں کو دے دیجیے ہم اس میں سے کسی چیز کے طلب گار نہیں ہیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر یہ دعا فرمائی کہ
اَللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْاَنْصَارَ وَاَبْنَآيَ الْاَنْصَارِ وَاَبْنَآيَ اَبْنَآئِ الْاَنْصَارِ
اے اﷲ! عزوجل انصار پر، اور انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے بیٹوں کے بیٹوں پر رحم فرما۔(مدارج جلد۲ ص۱۴۸)
{۲} اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نواسے حضرت عبداﷲ بن عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی آنکھ میں ایک مرغ نے چونچ مار دی جس کے صدمے سے وہ دو رات تڑپ کر وفات پا گئے۔(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
{۳} اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ حضرت بی بی زینب بنت خزیمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وفات ہوئی۔(مدارج جلد ۲ ص۱۵۰)
{۴} اسی سال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
{۵} اسی سال حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی، حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا مقدس پیراہن ان کے کفن کیلئے عطا فرمایا اور ان کی قبر میں اتر کر ان کی میت کو اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت اسد کے سوا کوئی شخص بھی قبر کے دبوچنے سے نہیں بچا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صرف پانچ ہی میت ایسی خوش نصیب ہوئی ہیں جن کی قبر میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود اترے: اوّل: حضرت بی بی خدیجہ، دوم:حضرت بی بی خدیجہ کا ایک لڑکا،سوم: عبداﷲ مزنی جن کا لقب ذوالبجادین ہے، چہارم:حضرت بی بی عائشہ کی ماں حضرت اُمِ رومان،پنجم: حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی کی والدہ۔ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)(مدارج جلد۲ ص۱۵۰)
{۶} اسی سال ۴ شعبان ۴ ھ کو حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیدائش ہوئی۔ (مدارج جلد ۲ ص۱۵۱)
{۷} اسی سال ایک یہودی نے ایک یہودی کی عورت کے ساتھ زنا کیااور یہودیوں نے یہ مقدمہ بارگاہ نبوت میں پیش کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تورات و قرآن دونوں کتابوں کے فرمان سے اس کو سنگسار کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۲)
{۸} اسی سال طعمہ بن ابیرق نے جو مسلمان تھا چوری کی تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا، اس پر وہ بھاگ نکلا اور مکہ چلا گیا۔ وہاں بھی اس نے چوری کی اہل مکہ نے اس کو قتل کر ڈالا یا اس پر دیوار گر پڑی اور مر گیا یا دریا میں پھینک دیا گیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ مرتد ہو گیا تھا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۵۳)
{۹} بعض مؤرخین کے نزدیک شراب کی حرمت کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا اور بعض کے نزدیک ۶ ھ میں اور بعض نے کہا کہ ۸ ھ میں شراب حرام کی گئی۔(مدارج جلد ۲ ص۱۵۳)