Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 17:39:16 GMT 5.5
ہجرت کا پانچواں سال
جنگ ِ اُحد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا چرچا ہو جانے اور کفار قریش اور یہودیوں کی مشترکہ سازشوں سے تمام قبائل کفار کا حوصلہ اتنا بلند ہو گیا کہ سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کا جنون ہو گیا۔ چنانچہ ۵ ھ بھی کفر و اسلام کے بہت سے معرکوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ہم یہاں چند مشہور غزوات و سرایا کا ذکر کرتے ہیں۔
سب سے پہلے قبائل ” انمار و ثعلبہ ” نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اِس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چار سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لشکر اپنے ساتھ لیا اور ۱۰ محرم ۵ ھ کو مدینہ سے روانہ ہو کر مقامِ ” ذات الرقاع ” تک تشریف لے گئے لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا حال سن کر یہ کفار پہاڑوں میں بھاگ کر چھپ گئے اس لئے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ مشرکین کی چند عورتیں ملیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت مسلمان بہت ہی مفلس اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سواریوں کی اتنی کمی تھی کہ چھ چھ آدمیوں کی سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا جس پر ہم لوگ باری باری سوار ہو کر سفر کرتے تھے پہاڑی زمین میں پیدل چلنے سے ہمارے قدم زخمی اور پاؤں کے ناخن جھڑ گئے تھے اس لئے ہم لوگوں نے اپنے پاؤں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کا نام ” غزوہ ذات الرقاع ” (پیوندوں والا غزوہ) ہو گیا۔ (بخاری غزوه ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)بعض مؤرخین نے کہا کہ چونکہ وہاں کی زمین کے پتھر سفید و سیاہ رنگ کے تھے اور زمین ایسی نظر آتی تھی گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس غزوہ کو ” غزوہ ذات الرقاع ‘‘ کہا جانے لگا اور بعض کا قول ہے کہ یہاں پر ایک درخت کا نام ” ذات الرقاع ” تھا اس لئے لوگ اس کو غزوہ ذات الرقاع کہنے لگے، ہو سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں ہوں۔ (زرقانی جلد۲ ص۸۸)
مشہور امام سیرت ابن سعد کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس غزوہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” صلوٰۃ الخوف ” پڑھی۔ (زُرقانی ج۲ ص۹۰ و بخاری باب غزوه ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
غزوہ دُومۃ الجندل :۔
ربیع الاول ۵ ھ میں پتا چلا کہ مقام ” دومۃ الجندل ” میں جو مدینہ اور شہر دمشق کے درمیان ایک قلعہ کا نام ہے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑی فوج جمع ہو رہی ہے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لشکر لے کر مقابلہ کے لئے مدینہ سے نکلے، جب مشرکین کو یہ معلوم ہوا تو وہ لوگ اپنے مویشیوں اور چرواہوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان تمام جانوروں کو مال غنیمت بنا لیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تین دن وہاں قیام فرما کر مختلف مقامات پر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکروں کو روانہ فرمایا۔ اس غزوہ میں بھی کوئی جنگ نہیں ہوئی اس سفر میں ایک مہینہ سے زائد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے باہر رہے۔(زرقانی ج۲ ص۹۴ تا ۹۵)
غزوۂ مُریسیع :۔
اس کا دوسرا نام ” غزوہ بنی المصطلق ” بھی ہے ” مریسیع ” ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے آٹھ منزل دور ہے۔ قبیلۂ خزاعہ کا ایک خاندان ” بنو المصطلق ” یہاں آباد تھا اور اس قبیلہ کا سردار حارث بن ضرار تھا اس نے بھی مدینہ پر فوج کشی کے لئے لشکر جمع کیا تھا، جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو ۲ شعبان ۵ ھ کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ پر حضرت زید بن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اس غزوۂ میں حضرت بی بی عائشہ اور حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، جب حارث بن ضرار کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر ہوگئی تو اس پر ایسی دہشت سوار ہو گئی کہ وہ اور اس کی فوج بھاگ کر منتشر ہو گئی مگر خود مریسیع کے باشندوں نے لشکر اسلام کا سامنا کیا اور جم کر مسلمانوں پر تیر برسانے لگے لیکن جب مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر حملہ کر دیا تو دس کفار مارے گئے اور ایک مسلمان بھی شہادت سے سرفراز ہوئے، باقی سب کفار گرفتار ہو گئے جن کی تعداد سات سو سے زائد تھی، دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں مال غنیمت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاتھ آئیں۔(زُرقانی ج ۲ص ۹۷ تا ۹۸)
غزوہ مریسیع جنگ کے اعتبار سے تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا مگر اس جنگ میں بعض ایسے اہم واقعات درپیش ہو گئے کہ یہ غزوہ تاریخ نبوی کا ایک بہت ہی اہم اور شاندار عنوان بن گیا ہے، ان مشہور واقعات میں سے چند یہ ہیں:
منافقین کی شرارت :۔
اس جنگ میں مال غنیمت کے لالچ میں بہت سے منافقین بھی شریک ہوگئے تھے ایک دن پانی لینے پر ایک مہاجر اور ایک انصاری میں کچھ تکرار ہو گئی مہاجر نے بلند آواز سے یاللمھاجرین (اے مہاجرو ! فریاد ہے) اور انصاری نے یاللانصار (اے انصاریو ! فریاد ہے) کا نعرہ مارا، یہ نعرہ سنتے ہی انصار و مہاجرین دوڑ پڑے اور اسقدر بات بڑھ گئی کہ آپس میں جنگ کی نوبت آ گئی رئیس المنافقین عبداﷲ بن اُبی کو شرارت کا ایک موقعہ مل گیا اس نے اشتعال دلانے کے لئے انصاریوں سے کہا کہ ” لو ! یہ تو وہی مثل ہوئی کہ سَمِّنْ کَلْبَكَ لِيَأْكُلَكَ (تم اپنے کتے کو فربہ کرو تا کہ وہ تمہیں کو کھا ڈالے) تم انصاریوں ہی نے ان مہاجرین کا حوصلہ بڑھا دیا ہے لہٰذا اب ان مہاجرین کی مالی امداد و مدد بالکل بند کر دو یہ لوگ ذلیل و خوار ہیں اور ہم انصار عزت دار ہیں اگر ہم مدینہ پہنچے تو یقینا ہم ان ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کر دیں گے۔ (قرآن سوره منافقون)
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اس ہنگامہ کا شور و غوغا سنا تو انصار و مہاجرین سے فرمایا کہ کیا تم لوگ زمانہ جاہلیت کی نعرہ بازی کر رہے ہو ؟ جمالِ نبوت دیکھتے ہی انصار و مہاجرین برف کی طرح ٹھنڈے پڑ گئے اور رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند فقروں نے محبت کا ایسا دریا بہا دیا کہ پھر انصار و مہاجرین شیر و شکر کی طرح گھل مل گئے۔
جب عبداﷲ بن اُبی کی بیہودہ بات حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے کان میں پڑی تو وہ اس قدر طیش میں آ گئے کہ ننگی تلوار لے کر آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نہایت نرمی کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ خبردار ایسا نہ کرو، ورنہ کفار میں یہ خبر پھیل جائے گی کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بالکل ہی خاموش ہو گئے مگر اس خبر کا پورے لشکر میں چرچا ہو گیا، یہ عجیب بات ہے کہ عبداﷲ ابن اُبی جتنا بڑا اسلام اور بانی اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دشمن تھا اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر اس کے بیٹے اسلام کے سچے شیدائی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جان نثار صحابی تھے ان کا نام بھی عبداﷲ تھا جب اپنے باپ کی بکواس کا پتا چلا تو وہ غیظ و غضب میں بھرے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ میرے باپ کے قتل کو پسند فرماتے ہوں تو میری تمنا ہے کہ کسی دوسرے کے بجائے میں خود اپنی تلوار سے اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں ہرگز نہیں میں تمہارے باپ کے ساتھ کبھی بھی کوئی برا سلوک نہیں کروں گا۔(ابن سعد و طبری وغيره)
اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ مدینہ کے قریب وادی عقیق میں وہ اپنے باپ عبداﷲ بن ابی کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ تم نے مہاجرین اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ذلیل کہا ہے خدا کی قسم ! میں اس وقت تک تم کو مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اجازت عطا نہ فرمائیں اور جب تک تم اپنی زبان سے یہ نہ کہو کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ عزت والے ہیں اور تم سارے جہان والوں میں سب سے زیادہ ذلیل ہو، تمام لوگ انتہائی حیرت اور تعجب کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے تھے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور یہ دیکھا کہ بیٹا باپ کا راستہ روکے ہوئے کھڑا ہے اور عبداﷲ بن ابی زور زور سے کہہ رہا ہے کہ ” میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزت دار ہیں۔ ” آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھتے ہی حکم دیا کہ اس کا راستہ چھوڑ دو تاکہ یہ مدینہ میں داخل ہو جائے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۱۵۷)
حضرت جویریه رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح :۔
غزوہ مریسیع کی جنگ میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوئے ان میں سردار قوم حارث بن ضرار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں جب تمام قیدی لونڈی غلام بنا کر مجاہدین اسلام میں تقسیم کر دیئے گئے تو حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں انہوں نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے یہ کہہ دیا کہ تم مجھے اتنی اتنی رقم دے دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا، حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس کوئی رقم نہیں تھی وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں اپنے قبیلے کے سردار حارث بن ضرار کی بیٹی ہوں اور میں مسلمان ہو چکی ہوں حضرت ثابت بن قیس نے اتنی اتنی رقم لے کر مجھے آزاد کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میری مدد فرمائیں تا کہ میں یہ رقم ادا کرکے آزاد ہو جاؤں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کروں تو کیا تم منظور کر لو گی ؟ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں خود تنہا تمہاری طرف سے ساری رقم ادا کردوں اور تم کو آزاد کر کے میں تم سے نکاح کر لوں تاکہ تمہارا خاندانی اعزاز و وقار برقرار رہ جائے، حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے خوشی خوشی اس کو منظور کر لیا، چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ساری رقم اپنے پاس سے ادا فرما کر حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیا جب یہ خبر لشکر میں پھیل گئی کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیا تو مجاہدین اسلام کے لشکر میں اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام تھے مجاہدین نے سب کو فوراً ہی آزاد کر کے رہا کر دیا اور لشکر اسلام کا ہر سپاہی یہ کہنے لگا کہ جس خاندان میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شادی کر لی اس خاندان کا کوئی آدمی لونڈی غلام نہیں رہ سکتا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہنے لگیں کہ ہم نے کسی عورت کا نکاح حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح سے بڑھ کر خیر و برکت والا نہیں دیکھا کہ اس کی وجہ سے تمام خاندان بنی المصطلق کو غلامی سے آزادی نصیب ہو گئی۔(ابو داود کتاب العتق ج۲ ص۵۴۸)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اصلی نام ” برہ ” تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس نام کو بدل کر ” جویریہ ” نام رکھا۔(مدارج جلد۲ ص۱۵۵)
واقعہ افک :۔
اسی غزوہ سے جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس آنے لگے تو ایک منزل پر رات میں پڑاؤ کیا، حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا ایک بند ہودج میں سوار ہو کر سفر کرتی تھیں اور چند مخصوص آدمی اس ہودج کو اونٹ پر لادنے اور اتارنے کے لئے مقرر تھے، حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا لشکر کی روانگی سے کچھ پہلے لشکر سے باہر رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئیں جب واپس ہوئیں تو دیکھا کہ ان کے گلے کا ہار کہیں ٹوٹ کر گر پڑا ہے وہ دوبارہ اس ہار کی تلاش میں لشکر سے باہر چلی گئیں اس مرتبہ واپسی میں کچھ دیر لگ گئی اور لشکر روانہ ہو گیا آپ کا ہودج لادنے والوں نے یہ خیال کرکے کہ اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہودج کے اندر تشریف فرما ہیں ہودج کو اونٹ پر لاد دیا اور پورا قافلہ منزل سے روانہ ہو گیا جب حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا منزل پر واپس آئیں تو یہاں کوئی آدمی موجود نہیں تھا تنہائی سے سخت گھبرائیں اندھیری رات میں اکیلے چلنا بھی خطرناک تھا اس لئے وہ یہ سوچ کر وہیں لیٹ گئیں کہ جب اگلی منزل پر لوگ مجھے نہ پائیں گے تو ضرور ہی میری تلاش میں یہاں آئیں گے، وہ لیٹی لیٹی سوگئیں ایک صحابی جن کا نام حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا وہ ہمیشہ لشکر کے پیچھے پیچھے اس خیال سے چلا کرتے تھے تا کہ لشکر کا گرا پڑا سامان اٹھاتے چلیں وہ جب اس منزل پر پہنچے تو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو دیکھا اور چونکہ پردہ کی آیت نازل ہونے سے پہلے وہ بار ہا ام المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھ چکے تھے اس لئے دیکھتے ہی پہچان لیا اور انہیں مردہ سمجھ کر ” اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن ” پڑھا اس آواز سے وہ جاگ اٹھیں حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فوراً ہی ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر لیا اور خود اونٹ کی مہار تھام کر پیدل چلتے ہوئے اگلی منزل پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔
منافقوں کے سردار عبداﷲ بن اُبی نے اس واقعہ کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے کا ذریعہ بنا لیا اور خوب خوب اس تہمت کا چرچا کیا یہاں تک کہ مدینہ میں اس منافق نے اس شرمناک تہمت کو اس قدر اچھالا اور اتنا شور و غل مچایا کہ مدینہ میں ہر طرف اس افتراء اور تہمت کا چرچا ہونے لگا اور بعض مسلمان مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے بھی اس تہمت کو پھیلانے میں کچھ حصہ لیا، حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس شرانگیز تہمت سے بے حد رنج و صدمہ پہنچا اور مخلص مسلمانوں کو بھی انتہائی رنج و غم ہوا حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا مدینہ پہنچتے ہی سخت بیمار ہو گئیں، پردہ نشین تو تھیں ہی صاحب فراش ہو گئیں اور انہیں اس تہمت تراشی کی بالکل خبر ہی نہیں ہوئی گو کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی کا پورا پورا علم و یقین تھا مگر چونکہ اپنی بیوی کا معاملہ تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اپنی بیوی کی براءت اور پاکدامنی کا اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھااور وحی الٰہی کا انتظار فرمانے لگے اس درمیان میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے مخلص اصحاب سے اس معاملہ میں مشورہ فرماتے رہے تا کہ ان لوگوں کے خیالات کا پتا چل سکے۔ (بخاری ج۲ ص۵۹۴)
چنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس تہمت کے بارے میں گفتگو فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ منافق یقینا جھوٹے ہیں اس لئے کہ جب اﷲ تعالیٰ کو یہ گوارا نہیں ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر ایک مکھی بھی بیٹھ جائے کیونکہ مکھی نجاستوں پر بیٹھتی ہے تو بھلا جو عورت ایسی برائی کی مرتکب ہو خداوند قدوس کب اور کیسے برداشت فرمائے گا کہ وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہ سکے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کے سایہ کو زمین پر نہیں پڑنے دیا تاکہ اس پر کسی کا پاؤں نہ پڑ سکے تو بھلا اس معبود برحق کی غیرت کب یہ گوارا کرے گی کہ کوئی انسان آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کے ساتھ ایسی قباحت کا مرتکب ہو سکے ؟۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ایک مرتبہ آپ کی نعلین اقدس میں نجاست لگ گئی تھی تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھیج کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر دی کہ آپ اپنی نعلین اقدس کو اتاردیں اس لئے حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا معاذاﷲ اگر ایسی ہوتیں تو ضرور اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر وحی نازل فرما دیتا کہ ” آپ ان کو اپنی زوجیت سے نکال دیں۔ “
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب اس تہمت کی خبر سنی تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بیوی ! تو سچ بتا ! اگر حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ میں ہوتا تو کیا تو یہ گمان کر سکتی ہے کہ میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی حرم پاک کے ساتھ ایسا کر سکتا تھا ؟ تو ان کی بیوی نے جواب دیا کہ اگر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جگہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیوی ہوتی تو خدا کی قسم ! میں کبھی ایسی خیانت نہیں کر سکتی تھی تو پھر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا جو مجھ سے لاکھوں درجے بہتر ہے اور حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بدر جہا تم سے بہتر ہیں بھلا کیونکر ممکن ہے کہ یہ دونوں ایسی خیانت کر سکتے ہیں ؟(مدارک التنزيل مصری ج۲ ص۱۳۴ تا ۱۳۵)
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں حضرت علی اور اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے جب مشورہ طلب فرمایا تو حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے برجستہ کہا کہ اَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ اِلَّاخَيْرًا کہ یا رسول اﷲ ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ آپ کی بیوی ہیں اور ہم انہیں اچھی ہی جانتے ہیں، اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ جواب دیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں ڈالی ہے عورتیں ان کے سوا بہت ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے بارے میں ان کی لونڈی (حضرت بریرہ) سے پوچھ لیں وہ آپ سے سچ مچ کہہ دے گی۔
حضرت بریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے جب آپ نے سوال فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ !( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو رسول برحق بنا کر بھیجا ہے کہ میں نے حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا میں کوئی عیب نہیں دیکھا، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ابھی کمسن لڑکی ہیں وہ گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر کھا ڈالتی ہے۔
پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت فرمایا جو حسن و جمال میں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے مثل تھیں تو انہوں نے قسم کھا کر یہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اَحْمِيْ سَمْعِيْ وَ بَصَرِيْ وَاللّٰهِ مَا عَلِمْتُ اِلَّاخَيْرًا میں اپنے کان اور آنکھ کی حفاظت کرتی ہوں خدا کی قسم! میں تو حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اچھی ہی جانتی ہوں۔(بخاری باب حديث الافک ج۲ ص۵۹۶)
اس کے بعد حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک دن منبر پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے مجھے کون معذور سمجھے گا، یا میری مدد کرے گا جس نے میری بیوی پر بہتان تراشی کر کے میری دل آزاری کی ہے، وَاللّٰهِ مَا عَلِمْتُ عَلٰي اَهْلِيْ اِلَّاخَيْرًا خدا کی قسم! میں اپنی بیوی کو ہر طرح کی اچھی ہی جانتا ہوں۔ وَلَقَدْ ذَکَرُوْا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ اِلَّا خَيْرًا اور ان لوگوں (منافقوں) نے (اس بہتان میں) ایک ایسے مرد (صفوان بن معطل) کا ذکر کیا ہے جس کو میں بالکل اچھا ہی جانتا ہوں۔(بخاری ج۲ ص۵۹۵ باب حدیث الافک)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی برسر منبر اس تقریر سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ اور حضرت صفوان بن معطل رضی اﷲ تعالیٰ عنہما دونوں کی براءت و طہارت اور عفت و پاک دامنی کا پورا پورا علم اور یقین تھا اور وحی نازل ہونے سے پہلے ہی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ منافق جھوٹے اور اُم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا پاک دامن ہیں ورنہ آپ برسر منبر قسم کھا کر ان دونوں کی اچھائی کا مجمع عام میں ہرگز اعلان نہ فرماتے مگر پہلے ہی اعلان عام نہ فرمانے کی وجہ یہی تھی کہ اپنی بیوی کی پاکدامنی کا اپنی زبان سے اعلان کرنا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مناسب نہیں سمجھتے تھے، جب حد سے زیادہ منافقین نے شور و غوغا شروع کر دیا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے منبر پر اپنے خیال اقدس کا اظہار فرما دیا مگر اب بھی اعلان عام کے لئے آپ کو وحی الٰہی کا انتظار ہی رہا۔
یہ پہلے تحریر کیا جا چکا ہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سفر سے آتے ہی بیمار ہو کر صاحب فراش ہو گئی تھیں اس لئے وہ اس بہتان کے طوفان سے بالکل ہی بے خبر تھیں جب انہیں مرض سے کچھ صحت حاصل ہوئی اور وہ ایک رات حضرت اُم مسطح صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے ساتھ رفع حاجت کے لئے صحرا میں تشریف لے گئیں تو انکی زبانی انہوں نے اس دلخراش اور روح فرسا خبر کو سنا۔ جس سے انہیں بڑا دھچکا لگا اور وہ شدت رنج و غم سے نڈھال ہو گئیں چنانچہ ان کی بیماری میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ دن رات بلک بلک کر روتی رہیں آخر جب ان سے یہ صدمہ جاں کاہ برداشت نہ ہوسکا تو وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں اور اس منحوس خبر کا تذکرہ اپنی والدہ سے کیا، ماں نے کافی تسلی و تشفی دی مگر یہ برابر لگاتار روتی ہی رہیں۔
اسی حالت میں ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ اے عائشہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تمہارے بارے میں ایسی ایسی خبر اڑائی گئی ہے اگر تم پاک دامن ہو اور یہ خبر جھوٹی ہے تو عنقریب خداوند تعالیٰ تمہاری براءت کا بذریعہ وحی اعلان فرما دے گا۔ ورنہ تم توبہ و استغفار کر لو کیونکہ جب کوئی بندہ خدا سے توبہ کرتا ہے اور بخشش مانگتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ گفتگو سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے آنسو بالکل تھم گئے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جواب دیجیے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں ؟ پھر انہوں نے ماں سے جواب دینے کی درخواست کی تو ان کی ماں نے بھی یہی کہا پھر خود حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ جواب دیا کہ لوگوں نے جو ایک بے بنیاد بات اڑائی ہے اور یہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے اور کچھ لوگ اس کو سچ سمجھ چکے ہیں اس صورت میں اگر میں یہ کہوں کہ میں پاک دامن ہوں تو لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور اگر میں اس برائی کا اقرار کر لوں تو سب مان لیں گے حالانکہ اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس الزام سے بری اور پاک دامن ہوں اس وقت میری مثال حضرت یوسف علیہ السلام کے باپ (حضرت یعقوب علیہ السلام) جیسی ہے لہٰذا میں بھی وہی کہتی ہوں جو انہوں نے کہا تھا یعنی فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ط وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ
یہ کہتی ہوئی انہوں نے کروٹ بدل کر منہ پھیر لیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس تہمت سے بری اور پاک دامن ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ ضرور میری براءت کو ظاہر فرما دے گا۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا جواب سن کر ابھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بیٹھا ہی ہوا تھا کہ ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ پر نزول وحی کے وقت کی بے چینی شروع ہو گئی اور باوجود یکہ شدید سردی کا وقت تھا مگر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدن سے ٹپکنے لگے جب وحی اتر چکی تو ہنستے ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی حمد کرو کہ اس نے تمہاری براءت اور پاکدامنی کا اعلان فرما دیا اور پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن کی سورۂ نور میں سے دس آیتوں کی تلاوت فرمائی جو اِنَّ الَّذِيْنَ جَآءُوْ ِبالْاِفْکِ سے شروع ہو کر وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ پر ختم ہوتی ہیں۔
ان آیات کے نازل ہو جانے کے بعد منافقوں کا منہ کالا ہو گیا اور حضرت ام المؤمنین بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی کا آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اس طرح چمک اٹھا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے دلوں کی دنیا میں نور ایمان سے اجالا ہو گیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حضرت مسطح بن اثاثہ پر بڑا غصہ آیا یہ آپ کے خالہ زاد بھائی تھے اور بچپن ہی میں ان کے والد وفات پا گئے تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کی پرورش بھی کی تھی اور ان کی مفلسی کی وجہ سے ہمیشہ آپ ان کی مالی امداد فرماتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی اس تہمت تراشی اور اس کا چرچا کرنے میں کچھ حصہ لیا تھا اس وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے غصہ میں بھر کر یہ قسم کھا لی کہ اب میں مسطح بن اثاثہ کی کبھی بھی کوئی مالی مدد نہیں کروں گا، اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ :
وَ لَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْآ اُولِي الْقُرْبٰي وَالْمَسٰکِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ص وَ لْيَعْفُوْا وَ لْيَصْفَحُوْا ط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ ط وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (نور)
اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اﷲ تمہاری بخشش کرے اور اﷲ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔
اس آیت کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی قسم توڑ ڈالی اور پھر حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا خرچ بدستور سابق عطافرمانے لگے۔(بخاری حديث الافک ج۲ ص۵۹۵ تا ۵۹۶ املخصاً)
پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ایک خطبہ پڑھا اور سورۂ نور کی آیتیں تلاوت فرما کر مجمع عام میں سنادیں اور تہمت لگانے والوں میں سے حضرت حسان بن ثابت و حضرت مسطح بن اثاثہ و حضرت حمنہ بنت جحش رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اور رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی ان چاروں کو حدقذف کی سزا میں اسّی اسّی درے مارے گئے۔ (مدارج جلد۲ ص ۱۶۳ وغیره)
شارح بخاری علامہ کرمانی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی براءت اورپاک دامنی قطعی ویقینی ہے جو قرآن سے ثابت ہے اگر کوئی اس میں ذرا بھی شک کرے تو وہ کافر ہے۔ (بخاری جلد۲ ص۵۹۵)
دوسرے تمام فقہاء امت کا بھی یہی مسلک ہے۔
آیت تیمم کا نزول :۔
ابن عبدالبر و ابن سعد و ابن حبان وغیرہ محدثین و علماء سیرت کا قول ہے کہ تیمم کی آیت اسی غزوہ مریسیع میں نازل ہوئی مگر روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ آیت تیمم کسی دوسرے غزوہ میں اتری ہے۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔(مدارج النبوة ج ۲ ص۱۵۷)
بخاری شریف میں آیت تیمم کی شان نزول جو مذکور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم لوگ مقام “بیداء” یا مقام” ذات الجیش” میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور کچھ لوگ اس ہار کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے اور وہاں پانی نہیں تھا تو کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر شکایت کی کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عائشہرضی اللہ تعالیٰ عنہانے کیا کیا؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہمکو یہاں ٹھہرا لیا ہے حالانکہ یہاں پانی موجود نہیں ہے، یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور جو کچھ خدا نے چاہا انہوں نے مجھ کو (سخت وسست) کہا اور پھر (غصہ میں) اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کونچا مارنے لگے اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے اس وجہ سے (مار کھانے کے باوجود) میں ہل نہیں سکتی تھی صبح کو جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو وہاں کہیں پانی موجود ہی نہیں تھا ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیمم کی آیت نازل ہو گئی چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام اصحاب نے تیمم کیا اور نماز فجر ادا کی اس موقع پر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے (خوش ہو کر) کہا کہ اے ابوبکر کی آل! یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ پھر ہم لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا تو اس کے نیچے ہم نے ہار کو پا لیا۔ (بخاری ج۱ ص۴۸ کتاب التيمم)
اس حدیث میں کسی غزوہ کا نام نہیں ہے مگر شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المصطلق کا ہے جس کا دوسرا نام غزوہ مریسیع بھی ہے جس میں قصہ افک واقع ہوا۔ (فتح الباری ج۱ص۳۶۵کتاب التیمم)
اس غزوہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اٹھائیس دن مدینہ سے باہر رہے۔ (زُرقانی ج۲ ص۱۰۲)
جنگِ خندق
ھ ۵ کی تمام لڑائیوں میں یہ جنگ سب سے زیادہ مشہور اور فیصلہ کن جنگ ہے چونکہ دشمنوں سے حفاظت کے لئے شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی اس لئے یہ لڑائی ” جنگ خندق ” کہلاتی ہے اور چونکہ تمام کفار عرب نے متحد ہو کر اسلام کے خلاف یہ جنگ کی تھی اس لئے اس لڑائی کا دوسرا نام ” جنگ احزاب ” (تمام جماعتوں کی متحدہ جنگ) ہے، قرآن مجید میں اس لڑائی کا تذکرہ اسی نام کے ساتھ آیا ہے۔
جنگ خندق کا سبب :۔
گزشتہ اوراق میں ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ ” قبیلہ بنو نضیر ” کے یہودی جب مدینہ سے نکال دیئے گئے تو ان میں سے یہودیوں کے چند رؤسا ” خیبر ” میں جا کر آباد ہو گئے اور خیبر کے یہودیوں نے ان لوگوں کا اتنا اعزاز و اکرام کیا کہ سلام بن مشکم و ابن ابی الحقیق و حیی بن اخطب و کنانہ بن الربیع کو اپنا سردار مان لیا یہ لوگ چونکہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب میں بھرے ہوئے تھے اور انتقام کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی اس لئے ان لوگوں نے مدینہ پر ایک زبردست حملہ کی اسکیم بنائی، چنانچہ یہ تینوں اس مقصد کے پیش نظر مکہ گئے اور کفار قریش سے مل کر یہ کہا کہ اگر تم لوگ ہمارا ساتھ دو تو ہم لوگ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کر سکتے ہیں کفار قریش تو اس کے بھوکے ہی تھے فوراً ہی ان لوگوں نے یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی کفار قریش سے ساز باز کر لینے کے بعد ان تینوں یہودیوں نے ” قبیلہ بنو غطفان ” کا رُخ کیااور خیبر کی آدھی آمدنی دینے کا لالچ دے کر ان لوگوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا پھر بنو غطفان نے اپنے حلیف ” بنو اسد ” کو بھی جنگ کے لئے تیار کر لیا ادھر یہودیوں نے اپنے حلیف ” قبیلہ بنو اسعد ” کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا اور کفار قریش نے اپنی رشتہ داریوں کی بنا پر ” قبیلہ بنو سلیم ” کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا غرض اس طرح تمام قبائل عرب کے کفار نے مل جل کر ایک لشکر جرار تیار کر لیا جس کی تعداد دس ہزار تھی اور ابو سفیان اس پورے لشکر کا سپہ سالار بن گیا۔(زُرقانی ج۲ ص۱۰۴ تا ۱۰۵)
مسلمانوں کی تیاری :۔
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ؟ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے، مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے، چنانچہ ۸ ذوقعدہ ۵ ھ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی اور تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۱۶۸ تا ۱۷۰)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خندق کے پاس تشریف لائے اور جب یہ دیکھا کہ انصار و مہاجرین کڑ کڑاتے ہوئے جاڑے کے موسم میں صبح کے وقت کئی کئی فاقوں کے باوجود جوش و خروش کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہیں تو انتہائی متأثر ہو کر آپ نے یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎
َاللّٰهُمَّ اِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْاٰخِرَة
َفَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة
اے اﷲ ! عزوجل بلاشبہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے لہٰذا تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔
َنَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا
َعَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا اَبَدًا
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیعت کر لی ہے جب تک ہم زندہ رہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ (بخاری غزوه خندق ج۲ ص۵۸۸)
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود بھی خندق کھودتے اور مٹی اُٹھا اُٹھا کر پھنکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر غبار کی تہ جم گئی تھی اور مٹی اٹھاتے ہوئے صحابہ کو جوش دلانے کے لئے رجز کے یہ اشعار پڑھتے تھے کہ
َوَ اللّٰهِ لَوْ لَا اللّٰهُ مَا اهْتَدَيْنَا
َوَ لَا تَصَدَّقْنَا وَ لَا صَلَّيْنَا
خدا کی قسم ! اگر اﷲ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔
فَاَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
وَ ثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَيْنَا
لہٰذا اے اﷲ ! عزوجل تو ہم پر قلبی اطمنان اتار دے اور جنگ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ۔
اِنَّ الْاُلٰي قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا
اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَةً اَبَيْنَا
یقینا ان (کافروں) نے ہم پر ظلم کیا ہے اور جب بھی ان لوگوں نے فتنہ کا ارادہ کیا تو ہم لوگوں نے انکار کر دیا۔لفظ ” اَبَيْنَا ” حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بار بار بہ تکرار بلند آواز سے دہراتے تھے۔
ایک عجیب چٹان :۔
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ خندق کھودتے وقت ناگہاں ایک ایسی چٹان نمودار ہو گئی جو کسی سے بھی نہیں ٹوٹی جب ہم نے بارگاہ رسالت میں یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اٹھے تین دن کا فاقہ تھا اور شکم مبارک پر پتھر بندھا ہوا تھا آپ نے اپنے دست مبارک سے پھاوڑا مارا تو وہ چٹان ریت کے بھر بھرے ٹیلے کی طرح بکھر گئی۔ (بخاری جلد۲ ص۵۸۸ خندق)
اور ایک روایت یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس چٹان پر تین مرتبہ پھاوڑا مارا ہر ضرب پر اس میں سے ایک روشنی نکلتی تھی اور اس روشنی میں آپ نے شام و ایران اور یمن کے شہروں کو دیکھ لیا اور ان تینوں ملکوں کے فتح ہونے کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بشارت دی۔ (زُرقانی جلد۲ ص۱۰۹ و مدارج ج۲ ص۱۶۹)
اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدائن کسریٰ و مدائن قیصر و مدائن حبشہ کی فتوحات کا اعلان فرمایا۔ (نسائی ج۲ ص۶۳)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت :۔
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھر آیا چنانچہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ کو صبر کی تاب نہیں رہی کیا گھر میں کچھ کھانا ہے ؟ بیوی نے کہا کہ گھر میں ایک صاع جو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، میں نے کہا کہ تم جلدی سے اس جو کو پیس کر گوندھ لو اور اپنے گھر کا پلا ہوا ایک بکری کا بچہ میں نے ذبح کر کے اس کی بوٹیاں بنا دیں اور بیوی سے کہا کہ جلدی سے تم گوشت روٹی تیار کر لو میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلا کر لاتا ہوں، چلتے وقت بیوی نے کہا کہ دیکھنا صرف حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور چند ہی اصحاب کو ساتھ میں لانا کھانا کم ہی ہے کہیں مجھے رسوا مت کر دینا۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خندق پر آ کر چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کرایا ہے لہٰذا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم صرف چند اشخاص کے ساتھ چل کر تناول فرما لیں، یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے خندق والو ! جابر نے دعوت طعام دی ہے لہٰذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھا لیں پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آ جاؤں روٹی مت پکوانا، چنانچہ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے نہ اتاری جائے پھر روٹی پکنی شروع ہوئی اور ہانڈی میں سے حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے گوشت نکال نکال کر دینا شروع کیا ایک ہزار آدمیوں نے آسودہ ہو کر کھانا کھا لیا مگر گوندھا ہوا آٹا جتنا پہلے تھا اتنا ہی رہ گیا اور ہانڈی چولھے پر بدستور جوش مارتی رہی۔ (بخاری ج۲ ص۵۸۹ غزوه خندق)
بابرکت کھجوریں :۔
اسی طرح ایک لڑکی اپنے ہاتھ میں کچھ کھجوریں لے کر آئی، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ہے ؟ لڑکی نے جواب دیا کہ کچھ کھجوریں ہیں جو میری ماں نے میرے باپ کے ناشتہ کے لئے بھیجی ہیں، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو اپنے دست مبارک میں لے کر ایک کپڑے پر بکھیر دیا اور تمام اہل خندق کو بلا کر فرمایا کہ خوب سیر ہو کر کھاؤ چنانچہ تمام خندق والوں نے شکم سیر ہو کر ان کھجوروں کو کھایا۔ (مدارج جلد۲ ص۱۶۹)
یہ دونوں واقعات حضور سرور کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہیں۔
اسلامی افواج کی مورچہ بندی :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خندق تیار ہو جانے کے بعد عورتوں اور بچوں کو مدینہ کے محفوظ قلعہ میں جمع فرما دیا اور مدینہ پر حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر تین ہزار انصار و مہاجرین کی فوج کے ساتھ مدینہ سے نکل کر سَلَع پہاڑ کے دامن میں ٹھہرے سلع آپ کی پشت پر تھا اور آپ کے سامنے خندق تھی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا اور انصار کا علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنایا۔ (زرقانی جلد۲ ص۱۱۱)
کفار کا حملہ :۔
کفار قریش اور ان کے اتحادیوں نے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر ہلا بول دیا اور تین طرف سے کافروں کا لشکر اس زور شور کے ساتھ مدینہ پر امنڈ پڑا کہ شہر کی فضاؤں میں گردو غبار کا طوفان اٹھ گیااس خوفناک چڑھائی اور لشکر کفار کے دل بادل کی معرکہ آرائی کا نقشہ قرآن کی زبان سے سنیے : اِذْ جَآءُوْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا ﴿۱۰﴾ هُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا ﴿۱۱﴾ (احزاب)
جب کافر تم پر آ گئے تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے اور جب کہ ٹھٹھک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس (خوف سے) آ گئے اور تم اﷲ پر (امید و یاس سے) طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس جگہ مسلمان آزمائش اور امتحان میں ڈال دیئے گئے اور وہ بڑے زور کے زلزلے میں جھنجھوڑ کر رکھ دیئے گئے۔
منافقین جو مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑے تھے وہ کفار کے اس لشکر کو دیکھتے ہی بزدل ہو کر پھسل گئے اور اس وقت ان کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگنی شروع کر دی۔ جیسا کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
وَ يَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُيُوْتَنَا عَوْرَةٌ ط وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ج اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا (احزاب)
اور ایک گروہ (منافقین) ان میں سے نبی کی اجازت طلب کرتا تھا منافق کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے ہوئے نہیں تھے ان کا مقصد بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
لیکن اسلام کے سچے جاں نثار مہاجرین و انصار نے جب لشکر کفار کی طوفانی یلغار کو دیکھا تو اس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے کہ ” سلع ” اور ” احد ” کی پہاڑیاں سر اٹھا اٹھا کر ان مجاہدین کی اولوالعزمی کو حیرت سے دیکھنے لگیں ان جاں نثاروں کی ایمانی شجاعت کی تصویر صفحات قرآن پر بصورت تحریر دیکھیے ارشاد ربانی ہے کہ وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّا ٓاِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا (احزاب)
اور جب مسلمانوں نے قبائل کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کا اﷲ اور اسکے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور خدا اور اسکا رسول دونوں سچے ہیں اور اس نے ان کے ایمان و اطاعت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔
بنو قریظہ کی غداری :۔
قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی اب تک غیر جانبدار تھے لیکن بنو نضیر کے یہودیوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر لشکر کفار میں شامل کر لینے کی کوشش شروع کر دی چنانچہ حیی بن اخطب ابو سفیان کے مشورہ سے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا پہلے تو اسنے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ ہم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے حلیف ہیں اور ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے عہد کا پابند پایا ہے اس لئے ہم ان سے عہد شکنی کرنا خلاف مروت سمجھتے ہیں مگر بنو نضیر کے یہودیوں نے اس قدر شدید اصرار کیا اور طرح طرح سے ورغلایا کہ بالآخر کعب بن اسد معاہدہ توڑنے کے لئے راضی ہو گیا، بنو قریظہ نے جب معاہدہ توڑ دیا اور کفار سے مل گئے تو کفار مکہ اور ابو سفیان خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو تحقیق حال کے لئے بنو قریظہ کے پاس بھیجا وہاں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے جب ان دونوں معزز صحابیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بنو قریظہ کو ان کا معاہدہ یاد دلایا تو ان بد ذات یہودیوں نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کون ہیں ؟ اور معاہدہ کس کو کہتے ہیں ؟ ہمارا کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا یہ سن کر دونوں حضرات واپس آگئے اور صورتحال سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مطلع کیا تو آپ نے بلند آواز سے ” اﷲ اکبر ” کہا اور فرمایا کہ مسلمانوں ! تم اس سے نہ گھبراؤ نہ اس کا غم کرو اس میں تمہارے لئے بشارت ہے۔ (زرقانی جلد ۲ ص۱۱۳)
کفار کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر ٹھہر گیا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً ایک مہینے تک کفار شہر مدینہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے پڑے رہے اور یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر کئی کئی فاقے گزر گئے۔
کفار نے ایک طرف تو خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس لئے حملہ کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی عورتیں اور بچے قلعوں میں پناہ گزیں تھے مگر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہاں خندق کے مختلف حصوں پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقرر فرما دیا تھا کہ وہ کفار کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہیں اسی طرح عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے بھی کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو متعین کر دیا تھا۔
انصار کی ایمانی شجاعت :۔
محاصرہ کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی دیکھ کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خیال کیا کہ کہیں مہاجرین و انصار ہمت نہ ہار جائیں اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن سے اس شرط پر معاہدہ کر لیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کرے اور کفار مکہ کا ساتھ چھوڑ دے مگر جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی اتر چکی ہے جب تو ہمیں اس سے انکار کی مجال ہی نہیں ہو سکتی اور اگر یہ ایک رائے ہے تو یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت تو قبیلہ غطفان کے سرکش کبھی ہماری ایک کھجور نہ لے سکے اور اب جب کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اسلام اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی غلامی کی عزت سے سرفراز فرما دیا ہے تو بھلا کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنا مال ان کافروں کو دے دیں گے ؟ ہم ان کفار کو کھجوروں کا انبار نہیں بلکہ نیزوں اور تلواروں کی مار کا تحفہ دیتے رہیں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور آپ کو پورا پورا اطمینان ہو گیا۔(زرقانی ج۲ ص۱۱۳)
خندق کی وجہ سے دست بدست لڑائی نہیں ہو سکتی تھی اور کفار حیران تھے کہ اس خندق کو کیونکر پار کریں مگر دونوں طرف سے روزانہ برابر تیر اور پتھر چلا کرتے تھے آخر ایک روز عمرو بن عبدود و عکرمہ بن ابوجہل و ہبیرہ بن ابی وہب و ضرار بن الخطاب وغیرہ کفار کے چند بہادروں نے بنو کنانہ سے کہا کہ اٹھو آج مسلمانوں سے جنگ کرکے بتا دو کہ شہسوار کون ہے ؟ چنانچہ یہ سب خندق کے پاس آ گئے اور ایک ایسی جگہ سے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی گھوڑا کودا کر خندق کو پار کر لیا۔
عمرو بن عبدود مارا گیا :۔
سب سے آگے عمرو بن عبدود تھا یہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھا جنگ ِ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا، یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا تین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے ؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ” میں ” حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے روکا کہ اے علی ! کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم یہ عمرو بن عبدود ہے۔ حضرت علی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے لیکن میں اس سے لڑوں گا، یہ سن کر تاجدار نبوت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرار کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھا اور یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ ! عزوجل تو علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی مدد فرما۔ حضرت اسد اﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا :
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اے عمرو بن عبدود ! تو مسلمان ہو جا !
عمرو بن عبدود یہ مجھ سے کبھی ہرگز ہر گز نہیں ہو سکتا!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑائی سے واپس چلا جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھے منظور نہیں!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو پھر مجھ سے جنگ کر!
عمرو بن عبدود ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔
عمرو بن عبدود آخر تمہارا نام کیا ہے؟
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ علی بن ابی طالب
عمرو بن عبدود ے بھتیجے!تم ابھی بہت ہی کم عمر ہومیں تمہارا خون ہانا پسند نہیں کرتا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تمہاراخون بہانے کوبے حدپسندکرتا ہوں۔
عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا حضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھا اس پر جو غیرت سوار ہوئی تو گھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اور حضرت شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر تلوار کا بھر پور وار کیا حضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا، یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگا مگر پھر بھی زندگی بھر یہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیا حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو ! سنبھل جا اب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد اﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچاتلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرا اور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیا اور میدان کارزار زبان حال سے پکار اٹھا کہ
شاہِ مرداں، شیرِ یزداں قوتِ پروردگار
لَا فَتٰي اِلَّا عَلِي لَا سَيْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا اور منہ پھیر کر چل دیئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے علی ! کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟ سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔(زُرقانی ج۲ ص۱۱۴ و ۱۱۵)
نوفل کی لاش :۔
اس کے بعد نوفل غصہ میں بپھرا ہوا میدان میں نکلا اور پکارنے لگا کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے ؟ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس پر بجلی کی طرح جھپٹے اور ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار زین کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی کمر تک پہنچ گئی لوگوں نے کہا کہ اے زبیر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہاری تلوار کی تو مثال نہیں مل سکتی آپ نے فرمایا کہ تلوار کیا چیز ہے ؟ کلائی میں دم خم اور ضرب میں کمال چاہیے۔ ہبیرہ اور ضرار بھی بڑے طنطنہ سے آگے بڑھے مگر جب ذوالفقار کا وار دیکھا تو لرزہ براندام ہو کر فرار ہو گئے کفار کے باقی شہسوار بھی جو خندق کو پار کرکے آ گئے تھے وہ سب بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہ تو اس قدر بدحواس ہو گیا کہ اپنا نیزہ پھینک کر بھاگا اور خندق کے پار جا کر اس کو قرار آیا۔ (زرقانی جلد ۲ )
بعض مؤرخین کا قول ہے کہ نوفل کو حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قتل کیا اور بعض نے یہ کہا کہ نوفل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے گھوڑے کو کودا کر خندق کو پار کرنا چاہتا تھا کہ خود ہی خندق میں گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا بہر حال کفار مکہ نے دس ہزار درہم میں اس کی لاش کو لینا چاہا تا کہ وہ اس کو اعزاز کے ساتھ دفن کریں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے رقم لینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم کو اس لاش سے کوئی غرض نہیں مشرکین اس کو لے جائیں اور دفن کریں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ (زرقانی جلد۲ ص۱۱۴)
اس دن کا حملہ بہت ہی سخت تھا دن بھر لڑائی جاری رہی اور دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کا سلسلہ برابر جاری رہا اور کسی مجاہد کا اپنی جگہ سے ہٹنا ناممکن تھا، خالد بن ولید نے اپنی فوج کے ساتھ ایک جگہ سے خندق کو پار کر لیا اور بالکل ہی ناگہاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خیمہ اقدس پر حملہ آور ہو گیا مگر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو دیکھ لیا اور دو سو مجاہدین کو ساتھ لے کر دوڑ پڑے اور خالد بن الولید کے دستہ کے ساتھ دست بدست کی لڑائی میں ٹکرا گئے اور خوب جم کر لڑے اس لئے کفار خیمہ اطہر تک نہ پہنچ سکے ۔ (زرقانی جلد۲ ص۱۱۷)
اس گھمسان کی لڑائی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نماز عصر قضا ہو گئی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے پھر آپ نے وادی بطحان میں سورج غروب ہو جانے کے بعد نماز عصر قضا پڑھی پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔ اور کفار کے حق میں یہ دعا مانگی کہ
مَلَاَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ وَ قُبُوْرَهُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰي حَتّٰي غَابَتِ الشَّمْسُ(بخاری ج۲ ص۵۹۰)
اﷲ ان مشرکوں کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے ان لوگوں نے ہم کو نماز وسطیٰ سے روک دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔
جنگ خندق کے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی فرمائی کہ :
اَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِيْعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَ زَلْزِلْهُمْ(بخاری ج۲ ص۵۹۰)
اے اﷲ ! عزوجل اے کتاب نازل فرمانے والے ! جلد حساب لینے والے ! تو ان کفار کے لشکروں کو شکست دے دے، اے اﷲ ! عزوجل ان کو شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ دے۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خطاب ملا :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے موقع پر جب کہ کفار مدینہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور کسی کے لئے شہر سے باہر نکلنا دشوار تھا تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو قوم کفار کی خبر لائے ؟ تینوں مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے فرزند ہیں یہ کہا کہ ” میں یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) خبر لاؤں گا۔ ” حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس جان نثاری سے خوش ہوکر تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيٌّ وَّ اِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ(بخاری ج۲ ص۵۹۰)
ہر نبی کے لئے حواری (مددگار خاص) ہوتے ہیں اور میرا ” حواری ” زبیر ہے۔ اسی طرح حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بارگاہ رسالت سے ” حواری ” کا خطاب ملا جو کسی دوسرے صحابی کو نہیں ملا۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید :۔
اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان بہت ہی کم ہوا یعنی کل چھ مسلمان شہادت سے سرفراز ہوئے مگر انصار کا سب سے بڑا بازو ٹوٹ گیا یعنی حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار اعظم تھے، اس جنگ میں ایک تیر سے زخمی ہو گئے اور پھر شفایاب نہ ہو سکے۔
آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے جوش میں بھرے ہوئے نیزہ لے کر لڑنے کے لئے جا رہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام اکحل ہے وہ کٹ گئی جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں ایک خیمہ گاڑا اور ان کا علاج کرنا شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے ان کے زخم کو دو مرتبہ داغا، اسی حالت میں آپ ایک مرتبہ بنی قریظہ تشریف لے گئے اور وہاں یہودیوں کے بارے میں اپنا وہ فیصلہ سنایا جس کا ذکر ” غزوہ قریظہ ” کے عنوان کے تحت آئے گا اس کے بعد وہ اپنے خیمہ میں واپس تشریف لائے اور اب ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا لیکن انہوں نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ
یااﷲ ! عزوجل تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے جنگ کرنے کی مجھے اتنی زیادہ تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنہوں نے تیرے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا، اے اﷲ ! عزوجل میرا تو یہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہو جب تو مجھے تو زندہ رکھ تا کہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جہاد کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو تو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے موت عطا فرما دے۔
آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیا اور خون بہ کر مسجد نبوی کے اندر بنی غفار کے خیمہ میں پہنچ گیا ان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو ! یہ کیسا خون ہے جو تمہارے خیمہ سے بہ کر ہماری طرف آ رہا ہے ؟ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون بہ رہا تھا اسی زخم میں ان کی وفات ہو گئی۔ (بخاری ج۲ ص۵۹۱ باب مرجع النبي من الاحزاب)
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت سے عرش الٰہی ہل گیا اور ان کے جنازہ میں ستر ہزار ملائکہ حاضر ہوئے اور جب ان کی قبر کھودی گئی تو اس میں مشک کی خوشبو آنے لگی۔ (زرقانی ج۲ ص۱۴۳)
عین وفات کے وقت حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے سرہانے تشریف فرما تھے، انہوں نے آنکھ کھول کر آخری بار جمال نبوت کا نظارہ کیا اور کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِپھر بہ آواز بلند یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں اور آپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کر دیا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۱۸۱)
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہادری :۔
جنگ خندق میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق کی طرف مصروفِ جنگ ہے تو جس قلعہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے پناہ گزین تھے یہودیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیا اور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس کو دیکھ لیا اور حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اس یہودی کو قتل کر دو، ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو یہاں کا حال و ماحول بتا دے گا حضرت حسان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس وقت ہمت نہیں پڑی کہ اس یہودی پر حملہ کریں یہ دیکھ کر خود حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے خیمہ کی ایک چوب اکھاڑ کر اس یہودی کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا پھر خود ہی اس کا سر کاٹ کر قلعہ کے باہر پھینک دیا یہ دیکھ کر حملہ آور یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے اس ڈر سے انہوں نے پھر اس طرف حملہ کرنے کی جراءت ہی نہیں کی۔(زرقانی ج۲ ص۱۱۱)
کفار کیسے بھاگے ؟ :۔
حضرت نعیم بن مسعود اشجعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قبیلہ غطفان کے بہت ہی معزز سردار تھے اور قریش و یہود دونوں کو ان کی ذات پر پورا پورا اعتماد تھا یہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن کفار کو ان کے اسلام کا علم نہ تھا انہوں نے بارگاہ رسالت میں یہ درخواست کی کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہود اور قریش دونوں سے ایسی گفتگو کروں کہ دونوں میں پھوٹ پڑ جائے، آپ نے اس کی اجازت دے دی چنانچہ انہوں نے یہود اور قریش سے الگ الگ کچھ اس قسم کی باتیں کیں جس سے واقعی دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔
ابو سفیان شدید سردی کے موسم، طویل محاصرہ، فوج کا راشن ختم ہو جانے سے حیران و پریشان تھا جب اس کو یہ پتا چلا کہ یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ بالکل ہی بددل ہو گیا پھر ناگہاں کفار کے لشکر پر قہر قہار و غضب جبار کی ایسی مار پڑی کہ اچانک مشرق کی جانب سے ایسی طوفان خیز آندھی آئی کہ دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ ہو گئیں، خیمے اکھڑ اکھڑ کر اڑ گئے اور کافروں پر ایسی وحشت اور دہشت سوار ہو گئی کہ انہیں راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں رہا، یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
اَيُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ط وَ کَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا(احزاب)
اے ایمان والو ! خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر فوجیں آ پڑیں تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی۔ اور ایسی فوجیں بھیجیں جو تمہیں نظر نہیں آتی تھیں اور اﷲ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
ابو سفیان نے اپنی فوج میں اعلان کرا دیا کہ راشن ختم ہو چکا، موسم انتہائی خراب ہے، یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا لہٰذا اب محاصرہ بے کار ہے، یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دینے کا حکم دے دیا اور بھاگ نکلا قبیلہ غطفان کا لشکر بھی چل دیا بنو قریظہ بھی محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعوں میں چلے آئے اور ان لوگوں کے بھاگ جانے سے مدینہ کا مطلع کفار کے گردو غبار سے صاف ہو گیا۔ (مدارج ج۲ ص۱۷۲ و زرقانی ج۲ ص۱۱۶ تا ۱۱۸)
غزوہ بنی قریظہ :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر اپنے مکان میں تشریف لائے اور ہتھیار اتار کر غسل فرمایا، ابھی اطمینان کے ساتھ بیٹھے بھی نہ تھے کہ ناگہاں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے ہتھیار اتار دیا لیکن ہم فرشتوں کی جماعت نے ابھی تک ہتھیار نہیں اتارا ہے اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف چلیں کیونکہ ان لوگوں نے معاہدہ توڑ کر علانیہ جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا ہے۔(مسلم باب جواز قتال من نقض العهد ج ۲ ص۹۵)
چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ لوگ ابھی ہتھیار نہ اتاریں اور بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود بھی ہتھیار زیب تن فرمایا، اپنے گھوڑے پر جس کا نام ” لحیف ” تھا سوار ہو کر لشکر کے ساتھ چل پڑے اور بنی قریظہ کے ایک کنویں کے پاس پہنچ کر نزول فرمایا۔ (زرقانی ج۲ ص۱۲۸)
بنی قریظہ بھی جنگ کے لئے بالکل تیار تھے چنانچہ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان کے قلعوں کے پاس پہنچے تو ان ظالم اور عہد شکن یہودیوں نے حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو (معاذ اﷲ) گالیاں دیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرما لیا اور تقریباً ایک مہینہ تک یہ محاصرہ جاری رہا یہودیوں نے تنگ آکر یہ درخواست پیش کی کہ ” حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کر دیں وہ ہمیں منظور ہے۔ “
حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق میں ایک تیر کھا کر شدید طور پر زخمی تھے مگر اسی حالت میں وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر بنی قریظہ گئے اور انہوں نے یہودیوں کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ
“لڑنے والی فوجوں کو قتل کر دیا جائے، عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور یہودیوں کا مال و اسباب مال غنیمت بنا کر مجاہدوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ “
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ یقینا بلا شبہ تم نے ان یہودیوں کے بارے میں وہی فیصلہ سنایا ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے۔ (مسلم جلد۲ ص۹۵)
اس فیصلہ کے مطابق بنی قریظہ کی لڑاکا فوجیں قتل کی گئیں اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کے مال و سامان کو مجاہدین اسلام نے مال غنیمت بنا لیا اور اس شریر و بدعہد قبیلہ کے شر و فساد سے ہمیشہ کے لئے مسلمان پرامن و محفوظ ہو گئے۔
یہودیوں کا سردار حیی بن اخطب جب قتل کیلئے مقتل میں لایا گیا تو اس نے قتل ہونے سے پہلے یہ الفاظ کہے کہ
اے محمد ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) خدا کی قسم ! مجھے اس کا ذرا بھی افسوس نہیں ہے کہ میں نے کیوں تم سے عداوت کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑ دیتا ہے، خدا بھی اس کو چھوڑ دیتا ہے، لوگو! خدا کے حکم کی تعمیل میں کوئی مضائقہ نہیں بنی قریظہ کا قتل ہونا یہ ایک حکم الٰہی تھا یہ (توراۃ) میں لکھا ہوا تھایہ ایک سزا تھی جو خدا نے بنی اسرائیل پر لکھی تھی۔ (سيرت ابن هشام غزوه بنو قريظه ج۳ ص۲۴۱)
یہ حیی بن اخطب وہی بدنصیب ہے کہ جب وہ مدینہ سے جلا وطن ہو کر خیبر جا رہا تھا تو اس نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت پر میں کسی کو مدد نہ دوں گا اور اس عہد پر اس نے خدا کو ضامن بنایا تھا لیکن جنگ خندق کے موقع پر اس نے اس معاہدہ کو کس طرح توڑ ڈالا یہ آپ گزشتہ اوراق میں پڑھ چکے کہ اس ظالم نے تمام کفار عرب کے پاس دورہ کرکے سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا پھر بنو قریظہ کو بھی معاہدہ توڑنے پر اکسایا پھر خود جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوا۔
ھ ۵ کے متفرق واقعات :۔
{۱} اس سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔
{۲} اسی سال مسلمان عورتوں پر پردہ فرض کردیا گیا۔
{۳} اسی سال حد قذف (کسی پر زنا کی تہمت لگانے کی سزا) اور لعان و ظہار کے احکام نازل ہوئے۔
{۴} اسی سال تیمم کی آیت نازل ہوئی۔
{۵} اسی سال نماز خوف کا حکم نازل ہوا۔
ہجرت کا چھٹا سال
اس سال کے تمام واقعات میں سب سے زیادہ اہم اور شاندار واقعہ “بیعۃ الرضوان” اور “صلح حدیبیہ” ہے۔ تاریخ اسلام میں اس واقعہ کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ اسلام کی تمام آئندہ ترقیوں کا راز اسی کے دامن سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو بظاہر یہ ایک مغلوبانہ صلح تھی مگر قرآن مجید میں خداوند عالم نے اس کو ” فتح مبین ” کا لقب عطا فرمایا ہے۔
ذوالقعدہ ۶ھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چودہ سو صحابۂ کرام کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ شاید کفار مکہ ہمیں عمرہ ادا کرنے سے روکیں گے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلے ہی قبیلۂ خزاعہ کے ایک شخص کو مکہ بھیج دیا تھا تا کہ وہ کفار مکہ کے ارادوں کی خبر لائے۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا قافلہ مقام ” عسفان ” کے قریب پہنچا تو وہ شخص یہ خبر لے کر آیا کہ کفار مکہ نے تمام قبائل عرب کے کافروں کو جمع کر کے یہ کہہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو ہرگز ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ کفار قریش نے اپنے تمام ہمنوا قبائل کو جمع کر کے ایک فوج تیار کرلی اور مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لئے مکہ سے باہر نکل کر مقامِ ” بلدح ” میں پڑاؤ ڈال دیا۔ اور خالد بن الولید اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہ یہ دونوں دو سوچنے ہوئے سواروں کا دستہ لے کر مقام ” غمیم ” تک پہنچ گئے۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو راستہ میں خالد بن الولید کے سواروں کی گرد نظر آئی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شاہراہ سے ہٹ کر سفر شروع کر دیا اور عام راستہ سے کٹ کر آگے بڑھے اور مقام ” حدیبیہ ” میں پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پانی کی بے حد کمی تھی۔ ایک ہی کنواں تھا۔ وہ چند گھنٹوں ہی میں خشک ہوگیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پیاس سے بے تاب ہونے لگے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک بڑے پیالہ میں اپنا دست مبارک ڈال دیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خشک کنویں میں اپنے وضو کا غسالہ اور اپنا ایک تیر ڈال دیا تو کنویں میں اس قدر پانی ابل پڑا کہ پورا لشکر اور تمام جانور اس کنویں سے کئی دنوں تک سیراب ہوتے رہے۔ (بخاری غزوه حديبيه ج۲ ص ۵۹۸ و بخاری ج۱ ص۳۷۸ )بیعۃ الرضوان :۔
مقام حدیبیہ میں پہنچ کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دیکھا کہ کفار قریش کا ایک عظیم لشکر جنگ کے لئے آمادہ ہے اور ادھر یہ حال ہے کہ سب لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں اس حالت میں جوئیں بھی نہیں مار سکتے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ کفار مکہ سے مصالحت کی گفتگو کرنے کے لئے کسی کو مکہ بھیج دیا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لئے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتخب فرمایا۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کفار قریش میرے بہت ہی سخت دشمن ہیں اور مکہ میں میرے قبیلہ کا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو مجھ کو ان کافروں سے بچا سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ انہوں نے مکہ پہنچ کر کفار قریش کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف سے صلح کا پیغام پہنچایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مالداری اور اپنے قبیلہ والوں کی حمایت و پاسداری کی وجہ سے کفار قریش کی نگاہوں میں بہت زیادہ معزز تھے۔ اس لئے کفار قریش ان پر کوئی درازدستی نہیں کرسکے۔ بلکہ ان سے یہ کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر کے اپنا عمرہ ادا کرلیں مگر ہم محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو کبھی ہرگز ہرگز کعبہ کے قریب نہ آنے دیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں بغیر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ساتھ لئے کبھی ہرگز ہرگز اکیلے اپنا عمرہ نہیں ادا کر سکتا۔ اس پر بات بڑھ گئی اور کفار نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ میں روک لیا۔ مگر حدیبیہ کے میدان میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ کفار قریش نے ان کو شہید کردیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کرو کہ آخری دم تک تم لوگ میرے وفادار اور جاں نثار رہو گے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہایت ہی ولولہ انگیز جوش و خروش کے ساتھ جاں نثاری کا عہد کرتے ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کرلی۔ یہی وہ بیعت ہے جس کا نام تاریخ اسلام میں ” بیعۃ الرضوان ” ہے۔ حضرت حق جل مجدہ نے اس بیعت اور اس درخت کا تذکرہ قرآن مجید کی سورۂ فتح میں اس طرح فرمایا ہے کہ
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ط يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ج
یقینا جو لوگ (اے رسول) تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
اسی سورۂ فتح میں دوسری جگہ ان بیعت کرنے والوں کی فضیلت اور ان کے اجر و ثواب کا قرآن مجید میں اس طرح خطبہ پڑھا کہ
لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا
بے شک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے پھر ان پر اطمینان اتار دیا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔
لیکن ” بیعۃ الرضوان ” ہو جانے کے بعد پتا چلا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر غلط تھی۔ وہ باعزت طور پر مکہ میں زندہ و سلامت تھے اور پھر وہ بخیر و عافیت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر بھی ہوگئے۔
صلح حدیبیہ کیونکر ہوئی :۔
حدیبیہ میں سب سے پہلا شخص جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ بدیل بن ورقاء خزاعی تھا۔ ان کا قبیلہ اگرچہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ لوگ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حلیف اور انتہائی مخلص و خیر خواہ تھے۔ بدیل بن ورقاء نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر دی کہ کفار قریش نے کثیر تعداد میں فوج جمع کرلی ہے اور فوج کے ساتھ راشن کے لئے دودھ والی اونٹنیاں بھی ہیں۔ یہ لوگ آپ سے جنگ کریں گے اور آپ کو خانہ کعبہ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قریش کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم جنگ کے ارادہ سے نہیں آئے ہیں اور نہ ہم جنگ چاہتے ہیں۔ ہم یہاں صرف عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔ مسلسل لڑائیوں سے قریش کو بہت کافی جانی و مالی نقصان پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا ان کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہ جنگ نہ کریں بلکہ مجھ سے ایک مدت معینہ تک کے لئے صلح کا معاہدہ کر لیں اور مجھ کو اہل عرب کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔ اگر قریش میری بات مان لیں تو بہتر ہوگا اور اگر انہوں نے مجھ سے جنگ کی تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ میں ان سے اس وقت تک لڑوں گا کہ میری گردن میرے بدن سے الگ ہو جائے۔
بدیل بن ورقاء آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ پیغام لے کر کفار قریش کے پاس گیا اور کہا کہ میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا ایک پیغام لے کر آیا ہوں۔ اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو میں ان کا پیغام تم لوگوں کو سناؤں۔ کفار قریش کے شرارت پسند لونڈے جن کا جوش ان کے ہوش پر غالب تھا شور مچانے لگے کہ نہیں ! ہرگز نہیں ! ہمیں ان کا پیغام سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کفار قریش کے سنجیدہ اور سمجھدار لوگوں نے پیغام سنانے کی اجازت دے دی اور بدیل بن ورقاء نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت صلح کو ان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ سن کر قبیلہ قریش کا ایک بہت ہی معمر اور معزز سردار عروہ بن مسعود ثقفی کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ اے قریش ! کیا میں تمہارا باپ نہیں ؟ سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ کیا تم لوگ میرے بچے نہیں ؟ سب نے کہا کہ کیوں نہیں۔ پھر اس نے کہا کہ میرے بارے میں تم لوگوں کو کوئی بدگمانی تو نہیں ؟ سب نے کہا کہ نہیں ! ہرگز نہیں۔ اس کے بعد عروہ بن مسعود نے کہا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے بہت ہی سمجھداری اور بھلائی کی بات پیش کردی۔ لہٰذا تم لوگ مجھے اجازت دو کہ میں ان سے مل کر معاملات طے کروں۔
سب نے اجازت دے دی کہ بہت اچھا ! آپ جایئے۔ عروہ بن مسعود وہاں سے چل کر حدیبیہ کے میدان میں پہنچا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ بدیل بن ورقاء کی زبانی آپ کا پیغام ہمیں ملا۔ اے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر آپ نے لڑ کر قریش کو برباد کرکے دنیا سے نیست و نابود کر دیا تو مجھے بتایئے کہ کیا آپ سے پہلے کبھی کسی عرب نے اپنی ہی قوم کو برباد کیا ہے ؟ اور اگر لڑائی میں قریش کا پلہ بھاری پڑا تو آپ کے ساتھ جو یہ لشکر ہے میں ان میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ یہ سب آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ عروہ بن مسعود کا یہ جملہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبر و ضبط کی تاب نہ رہی۔ انہوں نے تڑپ کر کہا کہ اے عروہ ! چپ ہو، جا ! اپنی دیوی ” لات ” کی شرمگاہ چوس، کیا ہم بھلا اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
عروہ بن مسعود نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ” یہ ابوبکر ہیں۔ ” عروہ بن مسعود نے کہا کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اے ابوبکر ! اگر تیرا ایک احسان مجھ پر نہ ہوتا جس کا بدلہ میں اب تک تجھ کو نہیں دے سکا ہوں تو میں تیری اس تلخ گفتگو کا جواب دیتا۔ عروہ بن مسعود اپنے کو سب سے بڑا آدمی سمجھتا تھا۔ اس لئے جب بھی وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کوئی بات کہتا تو ہاتھ بڑھا کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ریش مبارک پکڑ لیتا تھا اور بار بار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس داڑھی پر ہاتھ ڈالتا تھا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ننگی تلوار لے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے تھے۔ وہ عروہ بن مسعود کی اس جرأت اور حرکت کو برداشت نہ کر سکے۔ عروہ بن مسعود جب ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کا قبضہ اس کے ہاتھ پر مار کر اس سے کہتے کہ ریش مبارک سے اپنا ہاتھ ہٹا لے۔ عروہ بن مسعود نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ تو عروہ بن مسعود نے ڈانٹ کر کہا کہ اے دغا باز ! کیا میں تیری عہد شکنی کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں ؟ (حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند آدمیوں کو قتل کردیا تھا جس کا خون بہا عروہ بن مسعود نے اپنے پاس سے ادا کیا تھا یہ اسی طرف اشارہ تھا)
اس کے بعد عروہ بن مسعود صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دیکھنے لگا اور پوری لشکر گاہ کو دیکھ بھال کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ عروہ بن مسعود نے حدیبیہ کے میدان میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حیرت انگیز اور تعجب خیز عقیدت و محبت کا جو منظر دیکھا تھا اس نے اس کے دل پر بڑا عجیب اثر ڈالا تھا۔ چنانچہ اس نے قریش کے لشکر میں پہنچ کر اپنا تاثر ان لفظوں میں بیان کیا :
“اے میری قوم ! خدا کی قسم ! جب محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اپنا کھنکھار تھوکتے ہیں تو وہ کسی نہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں پڑتا ہے اور وہ فرط عقیدت سے اس کو اپنے چہرے اور اپنی کھال پر مل لیتا ہے۔ اور اگر وہ کسی بات کا ان لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو سب کے سب اس کی تعمیل کے لئے جھپٹ پڑتے ہیں۔ اور وہ جب وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب ان کے وضو کے دھوون کو اس طرح لوٹتے ہیں کہ گویا ان میں تلوار چل پڑے گی اور وہ جب کوئی گفتگو کرتے ہیں تو تمام اصحاب خاموش ہوجاتے ہیں۔ اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں ان کی اتنی زبردست عظمت ہے کہ کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر دیکھ نہیں سکتا۔ اے میری قوم ! خدا کی قسم ! میں نے بہت سے بادشاہوں کا دربار دیکھا ہے۔ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی باریاب ہو چکا ہوں۔ مگر خدا کی قسم ! میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے جتنی تعظیم محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے ساتھی محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔”
عروہ بن مسعود کی یہ گفتگو سن کر قبیلہ بنی کنانہ کے ایک شخص نے جس کا نام ” حلیس ” تھا، کہا کہ تم لوگ مجھ کو اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں۔ قریش نے کہا کہ ” ضرور جایئے ” چنانچہ یہ شخص جب بارگاہ رسالت کے قریب پہنچا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے اور یہ اس قوم سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ قربانی کے جانوروں کو اس کے سامنے کھڑا کر دو اور سب لوگ ” لبیک ” پڑھنا شروع کر دو۔ اس شخص نے جب قربانی کے جانوروں کو دیکھا اور احرام کی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ” لبیک ” پڑھتے ہوئے سنا تو کہا کہ سبحان اللہ ! بھلا ان لوگوں کو کس طرح مناسب ہے کہ بیت اللہ سے روک دیا جائے؟ وہ فوراً ہی پلٹ کر کفار قریش کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آرہا ہوں کہ قربانی کے جانور ان لوگوں کے ساتھ ہیں اور سب احرام کی حالت میں ہیں۔ لہٰذا میں کبھی بھی یہ رائے نہیں دے سکتا کہ ان لوگوں کو خانہ کعبہ سے روک دیا جائے۔ اس کے بعد ایک شخص کفار قریش کے لشکر میں سے کھڑا ہو گیا جس کا نام مکرز بن حفص تھا اس نے کہا کہ مجھ کو تم لوگ وہاں جانے دو۔ قریش نے کہا: ” تم بھی جاؤ ” چنانچہ یہ چلا۔ جب یہ نزدیک پہنچا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مکرز ہے۔ یہ بہت ہی لچا آدمی ہے۔ اس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ناگہاں ” سہیل بن عمرو ” آگیا اس کو دیکھ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نیک فالی کے طور پر یہ فرمایا کہ سہیل آگیا، لو ! اب تمہارا معاملہ سہل ہو گیا۔ چنانچہ سہیل نے آتے ہی کہا کہ آیئے ہم اور آپ اپنے اور آپ کے درمیان معاہدہ کی ایک دستاویز لکھ لیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منظور فرما لیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دستاویز لکھنے کے لئے طلب فرمایا۔ سہیل بن عمرو اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان دیر تک صلح کے شرائط پر گفتگو ہوتی رہی۔ بالآخر چند شرطوں پر دونوں کا اتفاق ہو گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ لکھو بسم الله الرحمٰن الرحيم سہیل نے کہا کہ ہم ” رحمن ” کو نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے ؟ آپ ” باسمك اللهم “ لکھوایئے جو ہمارا اور آپ کا پرانا دستور رہا ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم بسم الله الرحمٰن الرحيم کے سوا کوئی دوسرا لفظ نہیں لکھیں گے۔ مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سہیل کی بات مان لی اور فرمایا کہ اچھا۔ اے علی ! باسمك اللهم ہی لکھ دو۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ عبارت لکھوائی۔ هذا ما قاضٰي عليه محمد رسول الله یعنی یہ وہ شرائط ہیں جن پر قریش کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صلح کا فیصلہ کیا۔ سہیل پھر بھڑک گیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو نہ ہم آپ کو بیت اللہ سے روکتے نہ آپ کے ساتھ جنگ کرتے لیکن آپ ” محمد بن عبداللہ ” لکھیئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! میں محمد رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ تم لوگ میری رسالت کو جھٹلاتے ہو۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ محمد رسول اللہ کو مٹا دو اور اس جگہ محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ کون مسلمان آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہو سکتا ہے ؟ لیکن محبت کے عالم میں کبھی کبھی ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ سچے محب کو بھی اپنے محبوب کی فرمانبرداری سے محبت ہی کے جذبہ میں انکار کرنا پڑتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں آپ کے نام کو تو کبھی ہرگز ہرگز نہیں مٹاؤں گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا مجھے دکھاؤ میرا نام کہاں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جگہ پر انگلی رکھ دی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں سے ” رسول اللہ ” کا لفظ مٹا دیا۔ بہر حال صلح کی تحریر مکمل ہوگئی۔ اس دستاویز میں یہ طے کر دیا گیا کہ فریقین کے درمیان دس سال تک لڑائی بالکل موقوف رہے گی۔ صلح نامہ کی باقی دفعات اور شرطیں یہ تھیں کہ
(۱) مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں۔
(۲) آئندہ سال عمرہ کیلئے آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہر کر واپس چلے جائیں۔
(۳) تلوار کے سوا کوئی دوسرا ہتھیار لے کر نہ آئیں۔ تلوار بھی نیام کے اندر رکھ کر تھیلے وغیرہ میں بند ہو۔
(۴) مکہ میں جو مسلمان پہلے سے مقیم ہیں ان میں سے کسی کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی مکہ میں رہنا چاہے تو اس کو نہ روکیں۔
(۵) کافروں یا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر مدینہ چلا جائے تو واپس کر دیا جائے لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ میں چلا جائے تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔
(۶) قبائل عرب کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں دوستی کا معاہدہ کر لیں۔
یہ شرطیں ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس پر بڑی زبردست ناگواری ہو رہی تھی مگر وہ فرمان رسالت کے خلاف دم مارنے سے مجبور تھے۔ (ابن هشام ج۳ ص ۳۱۷ وغيره )
حضرت ابو جندل کا معاملہ :۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ معاہدہ لکھا جا چکا تھا لیکن ابھی اس پر فریقین کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کے صاحبزادے حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے گرتے پڑتے حدیبیہ میں مسلمانوں کے درمیان آن پہنچے۔ سہیل بن عمرو اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اے محمد ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اس معاہدہ کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے میری پہلی شرط یہ ہے کہ آپ ابو جندل کو میری طرف واپس لوٹایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو اس معاہدہ پر فریقین کے دستخط ہی نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے اور تمہارے دستخط ہو جانے کے بعد یہ معاہدہ نافذ ہوگا۔ یہ سن کر سہیل بن عمرو کہنے لگا کہ پھر جایئے۔ میں آپ سے کوئی صلح نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اے سہیل ! تم اپنی طرف سے اجازت دے دو کہ میں ابو جندل کو اپنے پاس رکھ لوں۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز کبھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ میں پھر مکہ لوٹا دیا جاؤں گا تو انہوں نے مسلمانوں سے فریاد کی اور کہا کہ اے جماعت مسلمین ! دیکھو میں مشرکین کی طرف لوٹایا جارہا ہوں حالانکہ میں مسلمان ہوں اور تم مسلمانوں کے پاس آگیا ہوں کفار کی مار سے ان کے بدن پر چوٹوں کے جو نشانات تھے انہوں نے ان نشانات کو دکھا دکھا کر مسلمانوں کو جوش دلایا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سن کر ایمانی جذبہ سوار ہو گیا اور وہ دندناتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ کیا آپ سچ مچ اللہ کے رسول نہیں ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں ؟ پھر انہوں نے کہا کہ تو پھر ہمارے دین میں ہم کو یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر ! میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا ہوں۔ وہ میرا مددگار ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ہم سے یہ وعدہ نہ فرماتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آکر طواف کریں گے ؟ ارشاد فرمایا کہ کیا میں نے تم کو یہ خبر دی تھی کہ ہم اسی سال بیت اللہ میں داخل ہوں گے ؟ انہوں نے کہا کہ ” نہیں ” آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں پھر کہتا ہوں کہ تم یقینا کعبہ میں پہنچو گے اور اس کا طواف کرو گے۔
دربار رسالت سے اٹھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور وہی گفتگو کی جو بارگاہ رسالت میں عرض کر چکے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر ! وہ خدا کے رسول ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے کرتے ہیں وہ کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور خدا ان کا مددگار ہے اور خدا کی قسم ! یقینا وہ حق پر ہیں لہٰذا تم ان کی رکاب تھامے رہو۔ (ابن هشام ج ۳ص۳۱۷ )
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام عمر اِن باتوں کا صدمہ اور سخت رنج و افسوس رہا جو انہوں نے جذبہ بے اختیاری میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہہ دی تھیں۔ زندگی بھر وہ اس سے توبہ و استغفار کرتے رہے اور اس کے کفارہ کے لئے انہوں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، خیرات کی، غلام آزاد کئے۔ بخاری شریف میں اگرچہ ان اعمال کا مفصل تذکرہ نہیں ہے، اجمالاً ہی ذکر ہے لیکن دوسری کتابوں میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ تمام باتیں بیان کی گئی ہیں۔
بہر حال یہ بڑے سخت امتحان اور آزمائش کا وقت تھا۔ ایک طرف حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ گڑ گڑا کر مسلمانوں سے فریاد کر رہے ہیں اور ہر مسلمان اس قدر جوش میں بھرا ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو مسلمانوں کی تلواریں نیام سے باہر نکل پڑتیں۔ دوسری طرف معاہدہ پر دستخط ہوچکے ہیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی ذمہ داری سر پر آن پڑی ہے۔ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ نکالے گا۔ ہم صلح کا معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کر سکتے۔ غرض حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی طرح پابزنجیر پھر مکہ واپس جانا پڑا۔
جب صلح نامہ مکمل ہو گیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اٹھو اور قربانی کرو اور سرمنڈا کر احرام کھول دو۔ مسلمانوں کی ناگواری اور ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ فرمان نبوی سن کر ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ مگر ادب کے خیال سے کوئی ایک لفظ بول بھی نہ سکا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا تذکرہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ کسی سے کچھ بھی نہ کہیں اور خود آپ اپنی قربانی کرلیں اور بال ترشوا لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قربانی کرکے احرام اتارتے دیکھ لیا تو پھر وہ لوگ مایوس ہوگئے کہ اب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتے تو سب لوگ قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال تراشنے لگے مگر اس قدر رنج و غم میں بھرے ہوئے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کر ڈالے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔ (بخاری ج۲ ص۶۱۰ باب عمرة القضاء مسلم جلد ۲ ص۱۰۴ صلح حديبيه بخاری ج۱ ص۳۸۰ باب شروط في الجهاد الخ )
اس صلح کو تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک مغلوبانہ صلح اور ذلت آمیز معاہدہ سمجھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سے جو رنج و صدمہ گزرا وہ آپ پڑھ چکے۔ مگر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا
اے حبیب ! ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی۔
خداوند قدوس نے اس صلح کو ” فتح مبین ” بتایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا یہ ” فتح ” ہے ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” ہاں ! یہ فتح ہے۔ “
گو اس وقت اس صلح نامہ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خیالات اچھے نہیں تھے۔ مگر اس کے بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ در حقیقت یہی صلح تمام فتوحات کی کنجی ثابت ہوئی اور سب نے مان لیا کہ واقعی صلح حدیبیہ ایک ایسی فتح مبین تھی جو مکہ میں اشاعت اسلام بلکہ فتح مکہ کا ذریعہ بن گئی۔ اب تک مسلمان اور کفار ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا مگر اس صلح کی وجہ سے ایک دوسرے کے یہاں آمدورفت آزادی کے ساتھ گفت و شنید اور تبادلۂ خیالات کا راستہ کھل گیا۔ کفار مدینہ آتے اور مہینوں ٹھہر کر مسلمانوں کے کردار و اعمال کا گہرا مطالعہ کرتے۔ اسلامی مسائل اور اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ سنتے جو مسلمان مکہ جاتے وہ اپنے چال چلن، عفت شعاری اور عبادت گزاری سے کفار کے دلوں پر اسلام کی خوبیوں کا ایسا نقش بٹھا دیتے کہ خود بخود کفار اسلام کی طرف مائل ہوتے جاتے تھے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک اس قدر کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے کہ اتنے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت خالد بن الولید (فاتح شام) اور حضرت عمرو بن العاص (فاتح مصر) بھی اسی زمانے میں خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر مسلمان ہوئے۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)(سيرت ابن هشام ج۳ ص۲۷۷ و ص۲۷۸ )
مظلومین مکہ :۔
ہجرت کے بعد جو لوگ مکہ میں مسلمان ہوئے انہوں نے کفار کے ہاتھوں بڑی بڑی مصیبتیں برداشت کیں۔ ان کو زنجیروں میں باندھ باندھ کر کفار کوڑے مارتے تھے لیکن جب بھی ان میں سے کوئی شخص موقع پاتا تو چھپ کر مدینہ آجاتا تھا۔ صلح حدیبیہ نے اس کا دروازہ بند کر دیا کیونکہ اس صلح نامہ میں یہ شرط تحریر تھی کہ مکہ سے جو شخص بھی ہجرت کر کے مدینہ جائے گا وہ پھر مکہ واپس بھیج دیا جائے گا۔
حضرت ابو بصیر کا کارنامہ :۔
صلح حدیبیہ سے فارغ ہو کر جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے جو بزرگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے وہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ کفار مکہ نے فوراً ہی دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا کہ ہمارا آدمی واپس کر دیجئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ” تم مکے چلے جاؤ، تم جانتے ہو کہ ہم نے کفارقریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہد شکنی اور غداری جائز نہیں ہے ” حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ مجھ کو کافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ ! خداوند کریم تمہاری رہائی کا کوئی سبب بنا دے گا۔ آخر مجبور ہو کر حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کافروں کی حراست میں مکہ واپس ہو گئے۔ لیکن جب مقام ” ذوالحلیفہ ” میں پہنچے تو سب کھانے کے لئے بیٹھے اور باتیں کرنے لگے۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کافر سے کہا کہ اجی ! تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے خوش ہو کر نیام سے تلوار نکال کر دکھائی اور کہا کہ بہت ہی عمدہ تلوار ہے اور میں نے با رہا لڑائیوں میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ذرا میرے ہاتھ میں تو دو۔ میں بھی دیکھوں کہ کیسی تلوار ہے ؟ اس نے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی۔ انہوں نے تلوار ہاتھ میں لے کر اس زور سے تلوار ماری کہ کافر کی گردن کٹ گئی اور اس کا سر دور جا گرا۔ اس کے ساتھی نے جو یہ منظر دیکھا تو وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سر پٹ دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا اور مسجد نبوی میں گھس گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابو بصیر نے قتل کر دیا اور میں بھی ضرور مارا جاؤں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی کیونکہ صلح نامہ کی شرط کے بموجب آپ نے تو مجھ کو واپس کردیا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ کو ان کافروں سے نجات دے دی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خفا ہو کر فرمایا کہ
وَيْلُ اُمِّهٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَهٗ اَحَدٌ
اس کی ماں مرے ! یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔
حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جملہ سے سمجھ گئے کہ میں پھر کافروں کی طرف لوٹا دیا جاؤں گا، اس لئے وہ وہاں سے چپکے سے کھسک گئے اور ساحل سمندر کے قریب مقام ” عیص ” میں جا کر ٹھہرے۔ ادھر مکہ سے حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہ بھی وہیں پہنچ گئے۔ پھر مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں نے بھی موقع پاکر کفار کی قید سے نکل نکل کر یہاں پناہ لینی شروع کردی۔ یہاں تک کہ اس جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی۔ کفار قریش کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔ جو قافلہ بھی آمدورفت میں یہاں سے گزرتا، یہ لوگ اس کو لوٹ لیتے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کے ناک میں دم کردیا۔ بالآخر کفار قریش نے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خط لکھا کہ ہم صلح نامہ میں اپنی شرط سے باز آئے۔ آپ لوگوں کو ساحل سمندر سے مدینہ بلا لیجئے اور اب ہماری طرف سے اجازت ہے کہ جو مسلمان بھی مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے آپ اس کو مدینہ میں ٹھہرا لیجئے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ (بخاری باب الشروط في الجهاد ج۱ ص۳۸۰ )
یہ بھی روایت ہے کہ قریش نے خود ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہو گئے۔ لہٰذا آپ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ میں بلا لیں تاکہ ہمارے تجارتی قافلے ان لوگوں کے قتل و غارت سے محفوظ ہو جائیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس خط بھیجا کہ تم اپنے ساتھیوں سمیت مقامِ ” عیص ” سے مدینہ چلے آؤ۔ مگر افسوس ! کہ فرمانِ رسالت ان کے پاس ایسے وقت پہنچا جب وہ نزع کی حالت میں تھے۔ مقدس خط کو انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر سر اور آنکھوں پر رکھا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور دفن کے بعد ان کی قبر شریف کے پاس یادگار کے لئے ایک مسجد بنا دی۔ پھر فرمان رسول کے بموجب یہ سب لوگ وہاں سے آکر مدینہ میں آباد ہوگئے۔(مدارج النبوة ج ۲ ص۲۱۸ )
سلاطین کے نام دعوت اسلام :۔
۶ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد جب جنگ و جدال کے خطرات ٹل گئے اور ہر طرف امن و سکون کی فضا پیدا ہو گئی تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا دائرہ صرف خطۂ عرب ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام عالم کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اسلام کا پیغام تمام دنیا میں پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ ” قیصر ” فارس کے بادشاہ ” کسریٰ ” حبشہ کے بادشاہ ” نجاشی ” مصر کے بادشاہ ” عزیز ” اور دوسرے سلاطین عرب و عجم کے نام دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کون کون حضرات ان خطوط کو لے کر کن کن بادشاہوں کے دربار میں گئے ؟ ان کی فہرست کافی طویل ہے مگر ایک ہی دن چھ خطوط لکھوا کر اور اپنی مہر لگا کر جن چھ قاصدوں کو جہاں جہاں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا وہ یہ ہیں۔
(۱) حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر قل قیصر روم کے دربار میں
(۲)حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خسرو پرویز شاہ ایران
(۳)حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقوقس عزیز مصر
(۴)حضرت عمروبن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نجاشی بادشاہ حبشہ
(۵)حضرت سلیط بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوذہ بادشاہ یمامہ
(٦) حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حارث غسانی والی غسان
نامہ مبارک اور قیصر :۔
حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس خط لے کر ” بصریٰ ” تشریف لے گئے اور وہاں قیصر روم کے گورنر شام حارث غسانی کو دیا۔ اس نے اس نامہ مبارک کو ” بیت المقدس ” بھیج دیا۔ کیونکہ قیصر روم ” ہرقل ” ان دنوں بیت المقدس کے دورہ پر آیا ہوا تھا۔ قیصر کو جب یہ مبارک خط ملا تو اس نے حکم دیا کہ قریش کا کوئی آدمی ملے تو اس کو ہمارے دربار میں حاضر کرو۔ قیصر کے حکام نے تلاش کیا تو اتفاق سے ابوسفیان اور عرب کے کچھ دوسرے تاجر مل گئے۔ یہ سب لوگ قیصر کے دربار میں لائے گئے۔ قیصر نے بڑے طمطراق کے ساتھ دربار منعقد کیا اور تاج شاہی پہن کر تخت پر بیٹھا۔ اور تخت کے گرد اراکین سلطنت، بطارقہ اور احبار و رہبان وغیرہ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ اسی حالت میں عرب کے تاجروں کا گروہ دربار میں حاضر کیا گیا اور شاہی محل کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے۔ پھر قیصر نے ترجمان کو بلایا اور اس کے ذریعہ گفتگو شروع کی۔ سب سے پہلے قیصر نے یہ سوال کیا کہ عرب میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تم میں سے ان کا سب سے قریبی رشتہ دار کون ہے ؟ ابو سفیان نے کہا کہ ” میں ” قیصر نے ان کو سب سے آگے کیا اور دوسرے عربوں کو ان کے پیچھے کھڑا کیا اور کہا کہ دیکھو! اگر ابو سفیان کوئی غلط بات کہے تو تم لوگ اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ پھر قیصر اور ابو سفیان میں جو مکالمہ ہوا وہ یہ ہے:
مدعی نبوت کا خاندان کیسا ہے ؟ | |
ان کا خاندان شریف ہے۔ | |
کیا اس خاندان میں ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ؟ | |
نہیں۔ | |
کیا ان کے باپ داداؤں میں کوئی بادشاہ تھا ؟ | |
نہیں۔ | |
جن لوگوں نے ان کا دین قبول کیا ہے وہ کمزور لوگ ہیں یا صاحب اثر ؟ | |
کمزور لوگ ہیں۔ | |
ان کے متبعین بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جارہے ہیں ؟ | |
بڑھتے جا رہے ہیں۔ | |
کیا کوئی ان کے دین میں داخل ہو کر پھر اس کو ناپسند کر کے پلٹ بھی جاتا ہے ؟ | |
نہیں۔ | |
کیا نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم لوگ انہیں جھوٹا سمجھتے تھے ؟ | |
نہیں۔ | |
کیا وہ کبھی عہد شکنی اور وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں ؟ | |
ابھی تک تو نہیں کی ہے لیکن اب ہمارے اور ان کے درمیان (حدیبیہ) میں جو ایک نیا معاہدہ ہوا ہے معلوم نہیں اس میں وہ کیا کریں گے ؟ | |
کیا کبھی تم لوگوں نے ان سے جنگ بھی کی ؟ | |
ہاں۔ | |
نتیجہ جنگ کیا رہا ؟ | |
کبھی ہم جیتے، کبھی وہ۔ | |
وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں ؟ | |
وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو کسی اور کو خدا کا شریک نہ ٹھہراؤ، بتوں کو چھوڑو، نماز پڑھو، سچ بولو، پاک دامنی اختیار کرو، رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ |
اس سوال و جواب کے بعد قیصر نے کہا کہ تم نے ان کو خاندانی شریف بتایا اور تمام پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ہمیشہ پیغمبر اچھے خاندانوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں۔ تم نے کہا کہ ان کے خاندان میں کبھی کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ یہ شخص اوروں کی نقل اتار رہا ہے۔ تم نے اقرار کیا ہے کہ ان کے خاندان میں کبھی کوئی بادشاہ نہیں ہوا ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو میں سمجھ لیتا کہ یہ شخص اپنے آباء و اجداد کی بادشاہی کا طلبگار ہے۔ تم مانتے ہو کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے وہ کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولے تو جو شخص انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا بھلا وہ خدا پر کیوں کر جھوٹ باندھ سکتا ہے ؟ تم کہتے ہو کہ کمزور لوگوں نے ان کے دین کو قبول کیا ہے۔ تو سن لو ہمیشہ ابتداء میں پیغمبروں کے متبعین مفلس اور کمزور ہی لوگ ہوتے رہے ہیں۔ تم نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑھتے ہی جارہے ہیں تو ایمان کا معاملہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد ہمیشہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ تم کو یہ تسلیم ہے کہ کوئی ان کے دین سے پھر کر مرتد نہیں ہو رہا ہے۔ تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایمان کی شان ایسی ہی ہوا کرتی ہے کہ جب اس کی لذت کسی کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو پھر وہ کبھی نکل نہیں سکتی۔ تمہیں اس کا اعتراف ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی غداری اور بدعہدی نہیں کی ہے۔ تو رسولوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی دغا فریب کا کام کرتے ہی نہیں۔ تم نے ہمیں بتایا کہ وہ خدائے واحد کی عبادت، شرک سے پرہیز، بت پرستی سے ممانعت، پاک دامنی، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ تو سن لو کہ تم نے جو کچھ کہا ہے اگر یہ صحیح ہے تو وہ عنقریب اس جگہ کے مالک ہو جائیں گے جہاں اس وقت میرے قدم ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ایک رسول کا ظہور ہونے والا ہے مگر میرا یہ گمان نہیں تھا کہ وہ رسول تم عربوں میں سے ہوگا۔ اگر میں یہ جان لیتا کہ میں ان کی بارگاہ میں پہنچ سکوں گا تو میں تکلیف اٹھا کر وہاں تک پہنچتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کا پاؤں دھوتا۔ قیصر نے اپنی اس تقریر کے بعد حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط پڑھ کر سنایا جائے۔ نامہ مبارک کی عبارت یہ تھی:
بسم الله الرحمٰن الرحيم من محمد عبد الله و رسوله الي هرقل عظيم الروم سلام علٰي من اتبع الهدی اما بعد فاني ادعوك بدعاية الاسلام اسلم تسلم يوتك الله اجرك مرتين فان توليت فان عليک اثم الاريسين یااهل الكتاب تعالوا الٰي کلمة سواء بيننا و بينکم ان لا نعبد الا الله و لا نشرك به شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون
شروع کرتا ہوں میں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ کے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی طرف سے یہ خط ” ہرقل ” کے نام ہے جو روم کا بادشاہ ہے۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے۔ اس کے بعد میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں تو مسلمان ہو جا تو سلامت رہے گا۔ خدا تجھ کو دو گنا ثواب دے گا۔ اور اگر تو نے روگردانی کی تو تیری تمام رعایا کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ اے اہل کتاب !ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ہم میں سے بعض لوگ دوسرے بعض لوگوں کو خدا نہ بنائیں اور اگر تم نہیں مانتے تو گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں !
قیصر نے ابو سفیان سے جو گفتگو کی اس سے اس کے درباری پہلے ہی انتہائی برہم اور بیزار ہو چکے تھے۔ اب یہ خط سنا۔ پھر جب قیصر نے ان لوگوں سے یہ کہا کہ اے جماعت روم ! اگر تم اپنی فلاح اور اپنی بادشاہی کی بقا چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو۔ تو درباریوں میں اس قدر ناراضگی اور بیزاری پھیل گئی کہ وہ لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بدک بدک کر دربار سے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔ مگر چونکہ تمام دروازے بند تھے اس لئے وہ لوگ باہر نہ نکل سکے۔ جب قیصر نے اپنے درباریوں کی نفرت کا یہ منظر دیکھا تو وہ ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا اور اس نے کہا کہ ان درباریوں کو بلاؤ۔ جب سب آ گئے تو قیصر نے کہا کہ ابھی ابھی میں نے تمہارے سامنے جو کچھ کہا۔ اس سے میرا مقصد تمہارے دین کی پختگی کا امتحان لینا تھا تو میں نے دیکھ لیا کہ تم لوگ اپنے دین میں بہت پکے ہو۔ یہ سن کر تمام درباری قیصر کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور ابو سفیان وغیرہ دربار سے نکال دیئے گئے اور دربار برخواست ہو گیا۔ چلتے وقت ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب یقینا ابو کبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا معاملہ بہت بڑھ گیا۔ دیکھ لو ! رومیوں کا بادشاہ ان سے ڈر رہا ہے۔(بخاری باب کیف کان بدء الوحی ج۱ ص۴ تا ۵ و مسلم ج۲ ص ۹۷ تا ۹۹، مدارج ج۲ ص۲۲۱ وغيره)
قیصر چونکہ توراۃ و انجیل کا ماہر اور علم نجوم سے واقف تھا اس لئے وہ نبی آخرالزماں کے ظہور سے باخبر تھا اور ابو سفیان کی زبان سے حالات سن کر اس کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہو گیا تھا۔ مگر سلطنت کی حرص و ہوس کی آندھیوں نے اس چراغ ہدایت کو بجھا دیا اور وہ اسلام کی دولت سے محروم رہ گیا۔
خسرو پرویز کی بددماغی :۔
تقریباً اسی مضمون کے خطوط دوسرے بادشاہوں کے پاس بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روانہ فرمائے۔ شہنشاہ ایران خسرو پرویز کے دربار میں جب نامہ مبارک پہنچا تو صرف اتنی سی بات پر اس کے غرور اور گھمنڈ کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ اس نے کہا کہ اس خط میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے میرے نام سے پہلے اپنا نام کیوں لکھا ؟ یہ کہہ کر اس نے فرمان رسالت کو پھاڑ ڈالا اور پرزے پرزے کر کے خط کو زمین پر پھینک دیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا کہ
مَزَّقَ كِتَابِيْ مَزَّقَ اللّٰهُ مُلْكَهٗ
اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا خدا اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔
چنانچہ اس کے بعد ہی خسرو پرویز کو اس کے بیٹے “شیرویہ” نے رات میں سوتے ہوئے اس کا شکم پھاڑ کر اس کو قتل کر دیا۔ اور اس کی بادشاہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ یہاں تک کہ حضرت امیر المومنین عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں یہ حکومت صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۲۵ وغيره و بخاری ج۱ ص۴۱۱ )
نجاشی کا کردار :۔
نجاشی بادشاہ حبشہ کے پاس جب فرمان رسالت پہنچا تو اس نے کوئی بے ادبی نہیں کی۔ اس معاملہ میں مؤرخین کا اختلاف ہے کہ اس نجاشی نے اسلام قبول کیا یا نہیں ؟ مگر مواہب لدنیہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ نجاشی جس کے پاس اعلان نبوت کے پانچویں سال مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے گئے تھے اور ۶ ھ میں جس کے پاس حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خط بھیجا اور ۹ ھ میں جس کا انتقال ہوا اور مدینہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اس کا نام “اصمحہ” تھا اور یہ بلاشبہ مسلمان ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد جو نجاشی تخت پر بیٹھا اس کے پاس بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام کا دعوت نامہ بھیجا تھا۔ مگر اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نجاشی کا نام کیا تھا ؟ اور اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں ؟ مشہور ہے کہ یہ دونوں مقدس خطوط اب تک سلاطین حبشہ کے پاس موجود ہیں اور وہ لوگ اس کا بے حد ادب و احترام کرتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۲۰ )
شاہ مصر کا برتاؤ :۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” مقوقس ” مصر و اسکندریہ کے بادشاہ کے پاس قاصد بنا کر بھیجا۔ یہ نہایت ہی اخلاق کے ساتھ قاصد سے ملا اور فرمانِ نبوی کو بہت ہی تعظیم و تکریم کے ساتھ پڑھا۔ مگر مسلمان نہیں ہوا۔ ہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں چند چیزوں کا تحفہ بھیجا۔ دو لونڈیاں ایک حضرت ” ماریہ قبطیہ ” رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حرم میں داخل ہوئیں اور انہیں کے شکم مبارک سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ دوسری حضرت ” سیرین ” رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جن کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرما دیا۔ ان کے بطن سے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ان دونوں لونڈیوں کے علاوہ ایک سفید گدھا جس کا نام ” یعفور ” تھا اور ایک سفید خچر جو دُلدل کہلاتا تھا، ایک ہزار مثقال سونا، ایک غلام، کچھ شہد، کچھ کپڑے بھی تھے۔
بادشاہ یمامہ کا جواب :۔
حضرت سلیط رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب “ہوذہ” بادشاہ یمامہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اس نے بھی قاصد کا احترام کیا۔ لیکن اسلام قبول نہیں کیا اور جواب میں یہ لکھا کہ آپ جو باتیں کہتے ہیں وہ نہایت اچھی ہیں۔ اگر آپ اپنی حکومت میں سے کچھ مجھے بھی حصہ دیں تو میں آپ کی پیروی کروں گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا کہ اسلام ملک گیری کی ہوس کے لئے نہیں آیا ہے اگر زمین کا ایک ٹکڑا بھی ہو تو میں نہ دوں گا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۲۹ )
حارث غسانی کا گھمنڈ :۔
حضرت شجاع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حارث غسانی والی غسان کے سامنے نامۂ اقدس کو پیش کیا تو وہ مغرور خط کو پڑھ کر برہم ہوگیا اور اپنی فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ چنانچہ مدینہ کے مسلمان ہر وقت اس کے حملہ کے منتظر رہنے لگے۔ اور بالآخر ” غزوہ موتہ ” اور ” غزوہ تبوک ” کے واقعات در پیش ہوئے جن کا مفصل تذکرہ ہم آگے تحریر کریں گے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان بادشاہوں کے علاوہ اور بھی بہت سے سلاطین و امراء کو دعوت اسلام کے خطوط تحریر فرمائے جن میں سے کچھ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کچھ خوش نصیبوں نے اسلام قبول کر کے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں نیاز مندیوں سے بھرے ہوئے خطوط بھی بھیجے۔ مثلاً یمن کے شاہان حمیر میں سے جن جن بادشاہوں نے مسلمان ہو کر بارگاہ نبوت میں عرضیاں بھیجیں جو غزوۂ تبوک سے واپسی پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں ان بادشاہوں کے نام یہ ہیں:
(۱)حارث بن عبد کلال
(۲)نعیم بن عبد کلال
(۳)نعمان حاکم ذورعین و معافر و ہمدان
(۴)زرعہ
یہ سب یمن کے بادشاہ ہیں۔
ان کے علاوہ “فروہ بن عمرو” جو کہ سلطنت روم کی جانب سے گورنر تھا۔ اپنے اسلام لانے کی خبر قاصد کے ذریعہ بارگاہ رسالت میں بھیجی۔ اس طرح ” باذان ” جو بادشاہ ایران کسریٰ کی طرف سے صوبہ یمن کا صوبہ دار تھا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا اور ایک عرضی تحریر کر کے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی خبر دی۔ ان سب کا مفصل تذکرہ ” سیرت ابن ہشام و زرقانی و مدارج النبوۃ ” وغیرہ میں موجود ہے۔ ہم اپنی اس مختصر کتاب میں ان کا مفصل بیان تحریر کرنے سے معذرت خواہ ہیں۔ ان کے علاوہ ” فروہ بن عمرو ” جو کہ سلطنت روم کی جانب سے گورنر تھا۔ اپنے اسلام لانے کی خبر قاصد کے ذریعہ بارگاہ رسالت میں بھیجی۔ اس طرح ” باذان ” جو بادشاہ ایران کسریٰ کی طرف سے صوبہ یمن کا صوبہ دار تھا اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا اور ایک عرضی تحریر کر کے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی خبر دی۔ ان سب کا مفصل تذکرہ ” سیرت ابن ہشام و زرقانی و مدارج النبوۃ ” وغیرہ میں موجود ہے۔ ہم اپنی اس مختصر کتاب میں ان کا مفصل بیان تحریر کرنے سے معذرت خواہ ہیں۔
سریۂ نجد :۔
۶ھ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک لشکر نجد کی جانب روانہ فرمایا۔ ان لوگوں نے بنی حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اُثال کو گرفتار کر لیا اور مدینہ لائے۔ جب لوگوں نے ان کو بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا جائے۔ چنانچہ یہ ستون میں باندھ دیئے گئے۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ اے ثمامہ ! تمہارا کیا حال ہے ؟ اور تم اپنے بارے میں کیا گمان رکھتے ہو ؟ ثمامہ نے جواب دیا کہ اے محمد ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا حال اور خیال تو اچھا ہی ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر مجھے اپنے انعام سے نواز کر چھوڑ دیں گے تو ایک شکر گزار کو چھوڑیں گے اور اگر آپ مجھ سے کچھ مال کے طلبگار ہوں تو بتا دیجئے۔ آپ کو مال دیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ گفتگو کر کے چلے آئے۔ پھر دوسرے روز بھی یہی سوال و جواب ہوا۔ پھر تیسرے روز بھی یہی ہوا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ چنانچہ لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد سے نکل کر ایک کھجور کے باغ میں چلے گئے جو مسجد نبوی کے قریب ہی میں تھا۔ وہاں انہوں نے غسل کیا۔ پھر مسجد نبوی میں واپس آئے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ خدا کی قسم ! مجھے جس قدر آپ کے چہرہ سے نفرت تھی اتنی روئے زمین پر کسی کے چہرہ سے نہ تھی۔ مگر آج آپ کے چہرہ سے مجھے اس قدر محبت ہو گئی ہے کہ اتنی محبت کسی کے چہرہ سے نہیں ہے۔ کوئی دین میری نظر میں اتنا ناپسند نہ تھا جتنا آپ کا دین لیکن آج کوئی دین میری نظر میں اتنا محبوب نہیں ہے جتنا آپ کا دین۔ کوئی شہر میری نگاہ میں اتنا برا نہ تھا جتنا آپ کا شہر اور اب میرا یہ حال ہوگیا ہے کہ آپ کے شہر سے زیادہ مجھے کوئی شہر محبوب نہیں ہے۔ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عمرہ ادا کرنے کے ارادہ سے مکہ جا رہا تھا کہ آپ کے لشکر نے مجھے گرفتار کر لیا۔ اب آپ میرے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا مژدہ سنایا اور پھر حکم دیا کہ تم مکہ جا کر عمرہ ادا کرلو !
جب یہ مکہ پہنچے اور طواف کرنے لگے تو قریش کے کسی کافر نے ان کو دیکھ کر کہا کہ اے ثمامہ ! تم صابی (بے دین) ہو گئے ہو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت جرأت کے ساتھ جواب دیا کہ میں بے دین نہیں ہوا ہوں بلکہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور اے اہل مکہ ! سن لو ! اب جب تک رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اجازت نہ دیں گے تم لوگوں کو ہمارے وطن سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں مل سکے گا۔ مکہ والوں کے لئے ان کے وطن ” یمامہ ” ہی سے غلہ آیا کرتا تھا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۷ باب وفد بني حنيفه و حديث ثمامه و مسلم ج۲ ص۹۳ باب ربط الاسير و مدارج ج۲ ص۱۸۹ )
ابو رافع قتل کردیا گیا :۔
۶ھ کے واقعات میں سے ابو رافع یہودی کا قتل بھی ہے۔ ابو رافع یہودی کا نام عبداللہ بن ابی الحقیق یا سلام بن الحقیق تھا۔ یہ بہت ہی دولت مند تاجر تھا لیکن اسلام کا زبردست دشمن اور بارگاہ نبوت کی شان میں نہایت ہی بدترین گستاخ اور بے ادب تھا۔ یہ وہی شخص ہے جو حیی بن اخطب یہودی کے ساتھ مکہ گیا اور کفار قریش اور دوسرے قبائل کو جوش دلا کر غزوۂ خندق میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے دس ہزار کی فوج لے کر آیا تھا اور ابو سفیان کو اُبھار کر اسی نے اس فوج کا سپہ سالار بنایا تھا۔ حیی بن اخطب تو جنگ خندق کے بعد غزوہ بنی قریظہ میں مارا گیا تھا مگر یہ بچ نکلا تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایذارسانی اور اسلام کی بیخ کنی میں تن، من، دھن سے لگا ہوا تھا۔ انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج میں ہمیشہ مقابلہ رہتا تھا اور یہ دونوں اکثر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ چونکہ قبیلہ اوس کے لوگوں حضرت محمد بن مسلمہ وغیرہ نے ۳ ھ میں بڑے خطرہ میں پڑ کر ایک دشمن رسول ” کعب بن اشرف یہودی ” کو قتل کیا تھا۔ اس لئے قبیلۂ خزرج کے لوگوں نے مشورہ کیا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ” ابو رافع” رہ گیا ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو چاہئے کہ اس کو قتل کر ڈالیں تا کہ ہم لوگ بھی قبیلہ اوس کی طرح ایک دشمن رسول کو قتل کرنے کا اجر و ثواب حاصل کرلیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عتیک و عبداللہ بن انیس و ابو قتادہ و حارث بن ربعی و مسعود بن سنان و خزاعی بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے لئے مستعد اور تیار ہوئے۔ ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس جماعت کا امیر مقرر فرما دیا اور ان لوگوں کو منع کردیا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے۔ (زرقاني علي المواهب ج۲ ص۱۶۳ )
حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو رافع کے محل کے پاس پہنچے اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ تم لوگ یہاں بیٹھ کر میری آمد کا انتظار کرتے رہو اور خود بہت ہی خفیہ تدبیروں سے رات میں اس کے محل کے اندر داخل ہوگئے اور اس کے بستر پر پہنچ کر اندھیرے میں اس کو قتل کردیا۔ جب محل سے نکلنے لگے تو سیڑھی سے گر پڑے جس سے ان کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مگر انہوں نے فوراً ہی اپنی پگڑی سے اپنے ٹوٹے ہوئے پاؤں کو باندھ دیااور کسی طرح محل سے باہر آگئے۔ پھر اپنے ساتھیوں کی مدد سے مدینہ پہنچے۔ جب دربار رسالت میں حاضر ہو کر ابو رافع کے قتل کا سارا ماجرا بیان کیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” پاؤں پھیلاؤ ” انہوں نے پاؤں پھیلایا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک ان کے پاؤں پر پھرا دیا۔ فوراً ہی ٹوٹی ہوئی ہڈی جڑ گئی اور ان کا پاؤں بالکل صحیح و سالم ہوگیا۔(بخاری ج۱ ص۲۲۴ باب قتل النائم المشرک )
ھ ۶ کی بعض لڑائیاں :۔
۶ھ میں صلح حدیبیہ سے قبل چند چھوٹے چھوٹے لشکروں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مختلف اطراف میں روانہ فرمایا تا کہ وہ کفار کے حملوں کی مدافعت کرتے رہیں۔ ان لڑائیوں کا مفصل تذکرہ زرقانی علی المواہب اور مدارج النبوۃ وغیرہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ مگر ان لڑائیوں کی ترتیب اور ان کی تاریخوں میں مؤرخین کا بڑا اختلاف ہے۔ اس لئے ٹھیک طور پر ان کی تاریخوں کی تعیین بہت مشکل ہے۔ ان واقعات کا چیدہ چیدہ بیان حدیثوں میں موجود ہے مگر حدیثوں میں بھی ان کی تاریخیں مذکور نہیں ہیں۔ البتہ بعض قرائن و شواہد سے اتنا پتا چلتا ہے کہ یہ سب صلح حدیبیہ سے قبل کے واقعات ہیں۔ ان لڑائیوں میں سے چند کے نام یہ ہیں:
(۱)سریۂ قرطاء (۲) غزوۂ بنی لحیان (۳) سریۃ الغمر (۴) سریۂ زید بجانب جموم (۵) سریۂ زید بجانب عیص (۶) سریۂ زید بجانب وادی القریٰ (۷) سریۂ علی بجانب بنی سعد (۸) سریۂ زید بجانب ام قرفہ (۹) سریۂ ابن رواحہ (۱۰) سریۂ ابن مسلمہ (۱۱) سریۂ زید بجانب طرف (۱۲) سریۂ عکل وعرینہ (۱۳) بعث ضمری۔ ان لڑائیوں کے ناموں میں بھی اختلاف ہے۔ ہم نے یہاں ان لڑائیوں کے مذکورہ بالا نام زرقانی علی المواہب کی فہرست سے نقل کئے ہیں۔(فهرست زرقاني علي المواهب ج۲ ص۳۵۰)
ہجرت کا ساتواں سال
غزوۂ ذات القرد :۔
مدینہ کے قریب “ذاتُ القرد” ایک چرا گاہ کا نام ہے جہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنیاں چرتی تھیں۔ عبدالرحمن بن عیینہ فزاری نے جو قبیلہ غطفان سے تعلق رکھتا تھا اپنے چند آدمیوں کے ساتھ ناگہاں اس چراگاہ پر چھاپہ مارا اور یہ لوگ بیس اونٹنیوں کو پکڑ کر لے بھاگے۔ مشہور تیر انداز صحابی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے پہلے اس کی خبر معلوم ہوئی۔ انہوں نے اس خطرہ کا اعلان کرنے کے لئے بلند آواز سے یہ نعرہ مارا کہ ” یا صباحاہ ” پھر اکیلے ہی ان ڈاکوؤں کے تعاقب میں دوڑ پڑے اور ان ڈاکوؤں کو تیر مار مار کر تمام اونٹنیوں کو بھی چھین لیا اور ڈاکو بھاگتے ہوئے جو تیس چادریں پھینکتے گئے تھے ان چادروں پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچے۔ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے ان چھاپہ ماروں کو ابھی تک پانی نہیں پینے دیا ہے۔ یہ سب پیاسے ہیں۔ ان لوگوں کے تعاقب میں لشکر بھیج دیجئے تو یہ سب گرفتار ہوجائیں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی اونٹنیوں کے مالک ہوچکے ہو۔ اب ان لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور مدینہ واپس تشریف لائے۔حضرت امام بخاری کا بیان ہے کہ یہ غزوہ جنگ خیبر کے لئے روانہ ہونے سے تین دن قبل ہوا۔ (بخاری غزوه ذات القرد ج۲ ص۶۰۳ و مسلم ج۲ ص۱۱۳ )
جنگ خیبر :۔
“خیبر ” مدینہ سے آٹھ منزل کی دوری پر ایک شہر ہے۔ ایک انگریز سیاح نے لکھا ہے کہ خیبر مدینہ سے تین سو بیس کیلو میٹر دور ہے۔ یہ بڑا زرخیز علاقہ تھا اور یہاں عمدہ کھجوریں بکثرت پیدا ہوتی تھیں۔ عرب میں یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز یہی خیبر تھا۔ یہاں کے یہودی عرب میں سب سے زیادہ مالدار اور جنگجو تھے اور ان کو اپنی مالی اور جنگی طاقتوں پر بڑا ناز اور گھمنڈ بھی تھا۔ یہ لوگ اسلام اور بانی ٔ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بدترین دشمن تھے۔ یہاں یہودیوں نے بہت سے مضبوط قلعے بنا رکھے تھے جن میں سے بعض کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان میں سے آٹھ قلعے بہت مشہور ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں :
(۱)کتیبہ (۲) ناعم (۳) شق (۴) قموص
(۵)نطارہ (۶) صعب (۷) سطیخ (۸) سلالم۔
در حقیقت یہ آٹھوں قلعے آٹھ محلوں کے مثل تھے اور انہی آٹھوں قلعوں کا مجموعہ”خیبر”کہلاتا تھا۔(مدارج النبوۃ ج۲ص۲۳۴ )
غزوۂ خیبر کب ہوا ؟ :۔
تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنگ خیبر محرم کے مہینے میں ہوئی۔ لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ۶ ھ تھا یا ۷ ھ۔ غالباً اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ سن ہجری کی ابتدا محرم سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک محرم میں ۷ ھ شروع ہو گیا اور بعض لوگ سن ہجری کی ابتدا ربیع الاول سے کرتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجرت ربیع الاول میں ہوئی۔ لہٰذا ان لوگوں کے نزدیک یہ محرم و صفر ۶ ھ کے تھے۔ واللہ اعلم۔
جنگ خیبر کا سبب :۔
یہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ جنگ ِ خندق میں جن جن کفار عرب نے مدینہ پر حملہ کیا تھا ان میں خیبر کے یہودی بھی تھے۔ بلکہ در حقیقت وہی اس حملہ کے بانی اور سب سے بڑے محرک تھے۔ چنانچہ ” بنو نضیر ” کے یہودی جب مدینہ سے جلا وطن کئے گئے تو یہودیوں کے جو رؤسا خیبر چلے گئے تھے ان میں سے حیی بن اخطب اور ابو رافع سلام بن ابی الحقیق نے تو مکہ جا کر کفار قریش کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا اور تمام قبائل کا دورہ کر کے کفار عرب کو جوش دلا کر برانگیختہ کیا اور حملہ آوروں کی مالی امداد کے لئے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اور خیبر کے تمام یہودیوں کو ساتھ لے کر یہودیوں کے یہ دونوں سردار حملہ کرنے والوں میں شامل رہے۔ حیی بن اخطب تو جنگ قریظہ میں قتل ہوگیا اور ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کو ۶ ھ میں حضرت عبداللہ بن عتیک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے محل میں داخل ہو کر قتل کر دیا۔ لیکن ان سب واقعات کے بعد بھی خیبر کے یہودی بیٹھ نہیں رہے بلکہ اور زیادہ انتقام کی آگ ان کے سینوں میں بھڑکنے لگی۔ چنانچہ یہ لوگ مدینہ پر پھر ایک دوسرا حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگے اور اس مقصد کے لئے قبیلہ غطفان کو بھی آمادہ کرلیا۔ قبیلہ غطفان عرب کا ایک بہت ہی طاقتور اور جنگجو قبیلہ تھا اور اس کی آبادی خیبر سے بالکل ہی متصل تھی اور خیبر کے یہودی خود بھی عرب کے سب سے بڑے سرمایہ دار ہونے کے ساتھ بہت ہی جنگ باز اور تلوار کے دھنی تھے۔ ان دونوں کے گٹھ جوڑ سے ایک بڑی طاقتور فوج تیار ہوگئی اور ان لوگوں نے مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو تہس نہس کر دینے کا پلان بنا لیا۔
مسلمان خیبر چلے :۔
جب رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ خیبر کے یہودی قبیلۂ غطفان کو ساتھ لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں تو ان کی اس چڑھائی کو روکنے کے لئے سولہ سو صحابہ کرام کا لشکر ساتھ لے کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے۔ مدینہ پر حضرت سباع بن عرفطہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افسر مقرر فرمایا اور تین جھنڈے تیار کرائے۔ ایک جھنڈا حضرت حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا اور ایک جھنڈے کا علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اور خاص علم نبوی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک میں عنایت فرمایا اور ازواجِ مطہرات میں سے حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عہام کو ساتھ لیا۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رات کے وقت حدود خیبر میں اپنی فوج ظفر موج کے ساتھ پہنچ گئے اور نماز فجر کے بعد شہر میں داخل ہوئے تو خیبر کے یہودی اپنے اپنے ہنسیا اور ٹوکری لے کر کھیتوں اور باغوں میں کام کاج کے لئے قلعہ سے نکلے۔ جب انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا تو شور مچانے لگے اور چلا چلا کر کہنے لگے کہ ” خدا کی قسم ! لشکر کے ساتھ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہیں۔ ” اس وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیبر برباد ہوگیا۔ بلاشبہ ہم جب کسی قوم کے میدان میں اتر پڑتے ہیں تو کفار کی صبح بری ہوجاتی ہے۔ (بخاری ج۲ص۶۰۳ )
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیبر کی طرف متوجہ ہوئے تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بہت ہی بلند آوازوں سے نعرۂ تکبیر لگانے لگے۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے اوپر نرمی برتو۔ تم لوگ کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو بلکہ اس (اللہ) کو پکار رہے ہو جو سننے والا اور قریب ہے۔ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ کا وظیفہ پڑھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنا تو مجھ کو پکارا اور فرمایا کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ” کیوں نہیں یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ! ” تو فرمایا کہ وہ کلمہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ہے۔ (بخاری ج۲ ص۶۰۵ )
یہودیوں کی تیاری :۔
یہودیوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو ایک محفوظ قلعہ میں پہنچا دیا اور راشن کا ذخیرہ قلعہ ” ناعم ” میں جمع کر دیا اور فوجوں کو ” نطاۃ ” اور ” قموص ” کے قلعوں میں اکٹھا کیا۔ ان میں سب سے زیادہ مضبوط اور محفوظ قلعہ ” قموص ” تھا اور ” مرحب یہودی ” جو عرب کے پہلوانوں میں ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا اسی قلعہ کا رئیس تھا۔ سلام بن مشکم یہودی گو بیمار تھا مگر وہ بھی قلعہ ” نطاۃ ” میں فوجیں لے کر ڈٹا ہوا تھا۔ یہودیوں کے پاس تقریباً بیس ہزار فوج تھی جو مختلف قلعوں کی حفاظت کے لئے مورچہ بندی کئے ہوئے تھی۔
محمود بن مسلمہ شہید ہوگئے :۔
سب سے پہلے قلعہ ” ناعم ” پر معرکہ آرائی اور جم کر لڑائی ہوئی۔ حضرت محمود بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی بہادری اور جاں نثاری کے ساتھ جنگ کی مگر سخت گرمی اور لو کے تھپیڑوں کی وجہ سے ان پر پیاس کا غلبہ ہوگیا۔ وہ قلعہ ناعم کی دیوار کے نیچے سو گئے۔ کنانہ بن ابی الحقیق یہودی نے ان کو دیکھ لیا اور چھت سے ایک بہت بڑا پتھر ان کے اوپر گرا دیا جس سے ان کا سر کچل گیا اور یہ شہید ہو گئے۔ اس قلعہ کو فتح کرنے میں پچاس مسلمان زخمی ہو گئے، لیکن قلعہ فتح ہو گیا۔
اسود راعی کی شہادت :۔
حضرت اسود راعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی قلعہ کی جنگ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ان کا واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک حبشی تھے جو خیبر کے کسی یہودی کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ جب یہودی جنگ کی تیاریاں کرنے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ آخر تم لوگ کس سے جنگ کے لئے تیاریاں کررہے ہو ؟ یہودیوں نے کہا کہ آج ہم اس شخص سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ سن کر ان کے دل میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملاقات کا جذبہ پیدا ہوا۔ چنانچہ یہ بکریاں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو گئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام پیش فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے خداوند تعالیٰ کی طرف سے کیا اجر و ثواب ملے گا ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم کو جنت اور اس کی نعمتیں ملیں گی۔ انہوں نے فوراً ہی کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں۔ اب میں ان کو کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان بکریوں کو قلعہ کی طرف ہانک دو اور ان کو کنکریوں سے مارو۔ یہ سب خود بخود اپنے مالک کے گھر پہنچ جائیں گی۔ چنانچہ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ انہوں نے بکریوں کو کنکریاں مار کر ہانک دیا اور وہ سب اپنے مالک کے گھر پہنچ گئیں۔
اس کے بعد یہ خوش نصیب حبشی ہتھیار پہن کر مجاہدین اسلام کی صف میں کھڑا ہو گیا اور انتہائی جوش و خروش کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو فرمایا کہ عَمِلَ قَلِيْلاً وَ اُجِرَ كَثِيْرًا۔ یعنی اس شخص نے بہت ہی کم عمل کیا اور بہت زیادہ اجر دیا گیا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی لاش کو خیمہ میں لانے کا حکم دیا اور ان کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کالے چہرہ کو حسین بنا دیا، اس کے بدن کو خوشبودار بنا دیا اور دو حوریں اس کو جنت میں ملیں۔ اس شخص نے ایمان اور جہاد کے سوا کوئی دوسرا عمل خیر نہیں کیا، نہ ایک وقت کی نماز پڑھی، نہ ایک روزہ رکھا، نہ حج و زکوٰۃ کا موقعہ ملا مگر ایمان اور جہاد کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا بلند مرتبہ عطا فرمایا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۴۰ )
اسلامی لشکر کا ہیڈ کوارٹر :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پہلے ہی سے یہ علم تھا کہ قبیلہ غطفان والے ضرور ہی خیبر والوں کی مدد کو آئیں گے۔ اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیبر اور غطفان کے درمیان مقام ” رجیع ” میں اپنی فوجوں کا ہیڈ کوارٹر بنایا اور خیموں، باربرداری کے سامانوں اور عورتوں کو بھی یہیں رکھا تھا اور یہیں سے نکل نکل کر یہودیوں کے قلعوں پر حملہ کرتے تھے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۲۳۹ )
قلعہ ناعم کے بعد دوسرے قلعے بھی بہ آسانی اور بہت جلد فتح ہوگئے لیکن قلعہ ” قموص ” چونکہ بہت ہی مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا اور یہاں یہودیوں کی فوجیں بھی بہت زیادہ تھیں اور یہودیوں کا سب سے بڑا بہادر ” مرحب ” خود اس قلعہ کی حفاظت کرتا تھا اس لئے اس قلعہ کو فتح کرنے میں بڑی دشواری ہوئی۔ کئی روز تک یہ مہم سر نہ ہو سکی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس قلعہ پر پہلے دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمان میں اسلامی فوجوں کو چڑھائی کے لئے بھیجا اور انہوں نے بہت ہی شجاعت اور جاں بازی کے ساتھ حملہ فرمایا مگر یہودیوں نے قلعہ کی فصیل پر سے اس زور کی تیر اندازی اور سنگ باری کی کہ مسلمان قلعہ کے پھاٹک تک نہ پہنچ سکے اور رات ہو گئی۔ دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زبردست حملہ کیا اور مسلمان بڑی گرم جوشی کے ساتھ بڑھ بڑھ کر دن بھر قلعہ پر حملہ کرتے رہے مگر قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ اور کیونکر فتح ہوتا ؟ فاتح خیبر ہونا تو علی حیدر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدر میں لکھا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
لَاُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلاً يَفْتَحُ اللّٰهُ عَلٰي يَدَيْهِ يُحِبُّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ يُحِبُّهٗ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ قَالَ فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوْکُوْنَ لَيْلَتَهُمْ اَيُّهُمْ يُعْطَاهَا(بخاری ج۲ ص۶۰۵ غزوه خيبر )
کل میں اس آدمی کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا وہ اللہ و رسول کا محب بھی ہے اور محبوب بھی۔ راوی نے کہا کہ لوگوں نے یہ رات بڑے اضطراب میں گزاری کہ دیکھئے کل کس کو جھنڈا دیا جاتا ہے ؟
صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدمت اقدس میں بڑے اشتیاق کے ساتھ یہ تمنا لے کر حاضر ہوئے کہ یہ اعزاز و شرف ہمیں مل جائے۔ اس لئے کہ جس کو جھنڈا ملے گا اس کے لئے تین بشارتیں ہیں۔
(۱) وہ اللہ و رسول کا محب ہے۔
(۲) وہ اللہ ورسول کا محبوب ہے۔
(۳) خیبر اس کے ہاتھ سے فتح ہوگا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اس روز مجھے بڑی تمنا تھی کہ کاش ! آج مجھے جھنڈا عنایت ہوتا۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس موقع کے سوا مجھے کبھی بھی فوج کی سرداری اور افسری کی تمنا نہ تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس نعمت عظمیٰ کے لئے ترس رہے تھے۔(مسلم ج۲ ص۲۷۸ ، ۲۷۹ باب من فضائل علي)
لیکن صبح کو اچانک یہ صدا لوگوں کے کان میں آئی کہ علی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قاصد بھیج کر ان کو بلایا اور ان کی دکھتی ہوئی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگا دیا اور دعا فرمائی تو فورا ً ہی انہیں ایسی شفا حاصل ہو گئی کہ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اپنا علم نبوی جو حضرت اُمُ المؤمنین بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیاہ چادر سے تیار کیا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں عطا فرمایا۔ (زرقاني ج۲ ص۲۲۲ )
اور ارشاد فرمایا کہ تم بڑے سکون کے ساتھ جاؤ اور ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ مسلمان ہو جانے کے بعد تم پر فلاں فلاں اللہ کے حقوق واجب ہیں۔ خدا کی قسم ! اگر ایک آدمی نے بھی تمہاری بدولت اسلام قبول کر لیا تو یہ دولت تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ (بخاری ج۲ ص۶۰۵ غزوه خیبر )
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مرحب کی جنگ :۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ” قلعہ قموص ” کے پاس پہنچ کر یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے اس دعوت کا جواب اینٹ اور پتھر اور تیرو تلوار سے دیا۔ اور قلعہ کا رئیس اعظم ” مرحب ” خود بڑے طنطنہ کے ساتھ نکلا۔ سر پر یمنی زرد رنگ کا ڈھاٹا باندھے ہوئے اور اس کے اوپر پتھر کا خود پہنے ہوئے رجز کا یہ شعر پڑھتے ہوئے حملہ کے لئے آگے بڑھا کہ
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ اَنِّيْ مُرَحَّبٗ
شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُّجَرَّبٗ
خیبر خوب جانتا ہے کہ میں ” مرحب ” ہوں، اسلحہ پوش ہوں، بہت ہی بہادر اور تجربہ کار ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں رجز کا یہ شعر پڑھا
اَنَا الَّذِيْ سَمَّتْنِيْ اُمِّيْ حَيْدَرَهٗ
كَلَيْثِ غَابَاتٍ کَرِيْهِ الْمَنْظَرَهٗ
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر (شیر) رکھا ہے۔ میں کچھار کے شیر کی طرح ہیبت ناک ہوں۔ مرحب نے بڑے طمطراق کے ساتھ آگے بڑھ کر حضرت شیر خدا پر اپنی تلوار سے وار کیا مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا پینترا بدلا کہ مرحب کا وار خالی گیا۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر اس کے سر پر اس زور کی تلوار ماری کہ ایک ہی ضرب سے خود کٹا، مغفرکٹا اور ذوالفقار حیدری سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی اور تلوار کی مار کا تڑا کہ فوج تک پہنچا اور مرحب زمین پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔(مسلم ج۲ ص۱۱۵ و ص۲۷۸ )
مرحب کی لاش کو زمین پر تڑپتے ہوئے دیکھ کر اس کی تمام فوج حضرت شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ٹوٹ پڑی۔ لیکن ذوالفقار حیدری بجلی کی طرح چمک چمک کر گرتی تھی جس سے صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں۔ اور یہودیوں کے مایہ ناز بہادر مرحب، حارث، اسیر، عامر وغیرہ کٹ گئے۔ اسی گھمسان کی جنگ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈھال کٹ کر گر پڑی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر قلعہ قموص کا پھاٹک اکھاڑ دیا اور کواڑ کو ڈھال بنا کر اس پر دشمنوں کی تلواریں روکتے رہے۔ یہ کواڑ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ بعد کو چالیس آدمی اس کو نہ اٹھا سکے۔ (زرقاني ج۲ ص۲۳۰ )
بے شک حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ہیں۔ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے خیبر کی فتح عطا فرمائی اور قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فاتح خیبر کے معزز لقب سے سر فراز فرما دیا اور یہ وہ فتح عظیم ہے جس نے پورے ” جزیرۃ العرب ” میں یہودیوں کی جنگی طاقت کا جنازہ نکال دیا۔ فتح خیبر سے قبل اسلام یہودیوں اور مشرکین کے گٹھ جوڑ سے نزع کی حالت میں تھا لیکن خیبر فتح ہو جانے کے بعد اسلام اس خوفناک نزع سے نکل گیا اور آگے اسلامی فتوحات کے دروازے کھل گئے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی مکہ بھی فتح ہو گیا۔ اس لئے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فاتح خیبر کی ذات سے تمام اسلامی فتوحات کا سلسلہ وابستہ ہے۔ بہر حال خیبر کا قلعہ قموص بیس دن کے محاصرہ اور زبردست معرکہ آرائی کے بعد فتح ہو گیا۔ ان معرکوں میں ۹۳ یہودی قتل ہوئے اور ۱۵ مسلمان جام شہادت سے سیراب ہوئے۔(زرقاني ج۲ ص۲۲۸ )
خیبر کا انتظام :۔
فتح کے بعد خیبر کی زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بنو نضیر کی طرح اہل خیبر کو بھی جلاوطن کردیں۔ لیکن یہودیوں نے یہ درخواست کی کہ ہم کو خیبر سے نہ نکالا جائے اور زمین ہمارے ہی قبضہ میں رہنے دی جائے۔ ہم یہاں کی پیداوار کا آدھا حصہ آپ کو دیتے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی۔ چنانچہ جب کھجوریں پک جاتیں اور غلہ تیار ہو جاتا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر بھیج دیتے وہ کھجوروں اور اناجوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیتے اور یہودیوں سے فرماتے کہ اس میں سے جو حصہ تم کو پسند ہو وہ لے لو۔ یہودی اس عدل پر حیران ہو کر کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں۔ (فتوح البلدان بلاذری ص۲۷ فتح خيبر )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ خیبر فتح ہوجانے کے بعد یہودیوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس طور پر صلح فرمائی کہ یہودی اپنا سونا چاندی ہتھیار سب مسلمانوں کے سپرد کردیں اور جانوروں پر جو کچھ لدا ہوا ہے وہ یہودی اپنے پاس ہی رکھیں مگر شرط یہ ہے کہ یہودی کوئی چیز مسلمانوں سے نہ چھپائیں مگر اس شرط کو قبول کرلینے کے باوجود حیی بن اخطب کاوہ چرمی تھیلا یہودیوں نے غائب کردیا جس میں بنو نضیر سے جلاوطنی کے وقت وہ سونا چاندی بھر کر لایا تھا۔ جب یہودیوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ جھوٹ بولے اور کہا کہ وہ ساری رقم لڑائیوں میں خرچ ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ وہ تھیلا کہاں ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس تھیلے کو بر آمد کرلیا۔ اس کے بعد (چونکہ کنانہ بن ابی الحقیق نے حضرت محمود بن مسلمہ کو چھت سے پتھر گرا کر قتل کر دیا تھا اس لئے) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرا دیا اور اس کی عورتوں کو قیدی بنا لیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۴۵ و ابو داؤد ج۲ ص۴۲۴ باب ما جاء في ارض خيبر )
حضرت صفیہ کا نکاح :۔
قیدیوں میں حضرت بی بی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ یہ بنو نضیر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں اور ان کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق بھی بنو نضیر کا رئیس اعظم تھا۔ جب سب قیدی جمع کئے گئے تو حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان میں سے ایک لونڈی مجھ کو عنایت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا کہ خود جاکر کوئی لونڈی لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لے لیا۔ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس پر گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
اَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَ النَّضِيْرِ لَا تَصْلُحُ اِلَّا لَكَ(ابوداؤد ج۲ ص۴۲۰ باب ما جاء في سهم الصفي )
یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے صفیہ کو دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ کر دیا۔ وہ قریظہ اور بنو نضیر کی رئیسہ ہے وہ آپ کے سوا کسی اور کے لائق نہیں ہے۔
یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ کلبی اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بلایا اور حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم اس کے سوا کوئی دوسری لونڈی لے لو۔ اس کے بعد حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزاد کر کے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمالیا اور تین دن تک منزل صہبا میں ان کو اپنے خیمہ میں سر فراز فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دعوت ولیمہ میں کھجور، گھی، پنیر کا مالیدہ کھلایا۔(بخاری جلد۱ ص۲۹۸ باب هل يسافر بالجاریه و بخاری جلد۲ ص۷۶۱ باب اتخاذ السراري و مسلم جلد۱ ص۴۵۸ باب فضل اعتاق امته )
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا :۔
فتح کے بعد چند روز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیبر میں ٹھہرے۔ یہودیوں کو مکمل امن و امان عطا فرمایا اور قسم قسم کی نوازشوں سے نوازا مگر اس بدباطن قوم کی فطرت میں اس قدر خباثت بھری ہوئی تھی کہ سلام بن مشکم یہودی کی بیوی ” زینب ” نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت کی اور گوشت میں زہر ملا دیا۔ خدا کے حکم سے گوشت کی بوٹی نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زہر کی خبر دی اور آپ نے ایک ہی لقمہ کھا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن ایک صحابی حضرت بشر بن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شکم سیر کھا لیا اور زہر کے اثر سے ان کی شہادت ہو گئی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی اس زہریلے لقمہ سے عمر بھر تالو میں تکلیف رہی۔ آپ نے جب یہودیوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو ان ظالموں نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا اور کہا کہ ہم نے اس نیت سے آپ کو زہر کھلایا کہ اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو آپ پر اس زہر کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ورنہ ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے تو کبھی کسی سے انتقام لیا ہی نہیں اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زینب سے کچھ بھی نہیں فرمایا مگر جب حضرت بشر بن براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی زہر سے وفات ہوگئی تو ان کے قصاص میں زینب قتل کی گئی۔(بخاری ج۲ ص۲۴۲ و مدارج جلد۲ ص۲۵۱ )
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ سے آگئے :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فتح خیبر سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ مہاجرین حبشہ میں سے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی تھے اور مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ حبشہ سے آگئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرط محبت سے ان کی پیشانی چوم لی اور ارشاد فرمایا کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے خیبر کی فتح سے زیادہ خوشی ہوئی ہے یا جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے سے۔(زرقاني ج۲ ص۲۴۶ )
ان لوگوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے “صاحب الہجرتین” (دو ہجرتوں والے) کا لقب عطا فرمایا کیونکہ یہ لوگ مکہ سے حبشہ ہجرت کر کے گئے۔ پھر حبشہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے اور باوجودیکہ یہ لوگ جنگ خیبر میں شامل نہ ہو سکے مگر ان لوگوں کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے مجاہدین کے برابر حصہ دیا۔
خیبر میں اعلان مسائل :۔
جنگ خیبر کے موقع پر مندرجہ ذیل فقہی مسائل کی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبلیغ فرمائی۔
{۱}پنجہ دار پرندوں کو حرام فرمایا۔
{۲}تمام درندہ جانوروں کی حرمت کا اعلان فرما دیا۔
{۳}گدھا اور خچر حرام کر دیا گیا۔
{۴}چاندی سونے کی خرید و فروخت میں کمی بیشی کے ساتھ خریدنے اور بیچنے کو حرام فرمایا اور حکم دیا کہ چاندی کو چاندی کے بدلے اور سونے کو سونے کے بدلے برابر برابر بیچنا ضروری ہے۔ اگر کمی بیشی ہوگی تو وہ سود ہوگا جو حرام ہے۔
{۵} اب تک یہ حکم تھا کہ لونڈیوں سے ہاتھ آتے ہی صحبت کرنا جائز تھا لیکن اب ” استبراء ” ضروری قرار دے دیا گیا یعنی اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک ورنہ ایک مہینہ ان سے صحبت جائز نہیں۔ ” عورتوں سے متعہ کرنا بھی اسی غزوہ میں حرام کردیا گیا۔ “(زرقاني ج۲ ص۲۳۳ تا ص۲۳۸ )
وادی القری کی جنگ :۔
خیبر کی لڑائی سے فارغ ہو کر حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ” وادی القریٰ ” تشریف لے گئے جو مقام “تیماء” اور “فدک” کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ یہاں یہودیوں کی چند بستیاں آباد تھیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کے ارادہ سے یہاں نہیں آئے تھے مگر یہاں کے یہودی چونکہ جنگ کے لئے تیار تھے اس لئے انہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیر برسانا شروع کر دیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک غلام جن کا نام حضرت مدعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا یہ اونٹ سے کجاوہ اُتار رہے تھے کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی جس کا جواب ان بدبختوں نے تیر و تلوار سے دیا اور باقاعدہ صف بندی کر کے مسلمانوں سے جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ مجبوراً مسلمانوں نے بھی جنگ شروع کردی، چار دن تک نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان یہودیوں کا محاصرہ کئے ہوئے ان کو اسلام کی دعوت دیتے رہے مگر یہ لوگ برابر لڑتے ہی رہے۔ آخر دس یہودی قتل ہو گئے اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد اہل خیبر کی شرطوں پر ان لوگوں نے بھی صلح کرلی کہ مقامی پیداوار کا آدھا حصہ مدینہ بھیجتے رہیں گے۔
جب خیبر اور وادی القریٰ کے یہودیوں کا حال معلوم ہو گیا تو ” تیماء ” کے یہودیوں نے بھی جزیہ دے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کرلی۔ وادی القریٰ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم چار دن مقیم رہے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۶۲ وزرقاني ج۲ ص۲۴۸ )
فدک کی صلح :۔
جب ” فدک ” کے یہودیوں کو خیبر اور وادی القریٰ کے معاملہ کی اطلاع ملی تو ان لوگوں نے کوئی جنگ نہیں کی۔ بلکہ دربار نبوت میں قاصد بھیج کر یہ درخواست کی کہ خیبر اور وادی القریٰ والوں سے جن شرطوں پر آپ نے صلح کی ہے اسی طرح کے معاملہ پر ہم سے بھی صلح کرلی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور ان سے صلح ہوگئی۔ لیکن یہاں چونکہ کوئی فوج نہیں بھیجی گئی اس لئے اس بستی میں مجاہدین کو کوئی حصہ نہیں ملا بلکہ یہ خاص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملکیت قرار پائی اور خیبر و وادی القریٰ کی زمینیں تمام مجاہدین کی ملکیت ٹھہریں۔ (زرقانی ج ۲ ص ۲۴۸ )
عمرۃ القضاء :۔
چونکہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ آئندہ سال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ آکر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔ اس دفعہ کے مطابق ماہ ذوالقعدہ ۷ ھ میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کا عزم فرمایا اور اعلان کرا دیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پا چکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چونکہ کفار مکہ پر بھروسا نہیں تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ روانہ ہوئے۔ بوقت روانگی حضرت ابو رہم غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ پر حاکم بنا دیا اور دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ جن میں ایک سو گھوڑوں پر سوار تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ ساٹھ اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے۔ جب کفار مکہ کو خبر لگی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آرہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورت حال کی تحقیقات کے لئے ” مرالظہران ” تک بھیجا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسپ سواروں کے افسر تھے قریش کے قاصدوں نے ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اطمینان دلایا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صلح نامہ کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے یہ سن کر کفار قریش مطمئن ہو گئے۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب مقام ” یاجج ” میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور حضرت بشیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا۔ اور اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مجمع کے ساتھ ” لبیک ” پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے جب مکہ میں داخل ہونے لگے تو دربار نبوت کے شاعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ کی مہار تھامے ہوئے آگے آگے رجز کے یہ اشعار جوش و خروش کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتے جاتے تھے کہ
خَلُّوْا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهٖ
اَلْيَوْمَ نَضْرِبُكُمْ عَلٰي تَنْزِيْلِهٖ
اے کافروں کے بیٹو ! سامنے سے ہٹ جاؤ۔ آج جو تم نے اترنے سے روکا تو ہم تلوار چلائیں گے۔
ضَرْبًا يُّزِيْلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيْلِهٖ
وَ يُذْهِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهٖ
ہم تلوار کا ایسا وار کریں گے جو سر کو اس کی خوابگاہ سے الگ کر دے اور دوست کی یاد اس کے دوست کے دل سے بھلا دے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٹوکا اور کہا کہ اے عبداللہ بن رواحہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آگے آگے اور اللہ تعالیٰ کے حرم میں تم اشعار پڑھتے ہو ؟ تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو چھوڑ دو۔ یہ اشعار کفار کے حق میں تیروں سے بڑھ کر ہیں۔ (شمائل ترمذي ص۱۷ و زرقاني ج۲ ص۲۵۵ تا ص۲۵۷ )
جب رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاص حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو کچھ کفار قریش مارے جلن کے اس منظر کی تاب نہ لا سکے اور پہاڑوں پر چلے گئے۔ مگر کچھ کفار اپنے دار الندوہ (کمیٹی گھر) کے پاس کھڑے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بادۂ توحید و رسالت سے مست ہونے والے مسلمانوں کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے ؟ ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں پہنچ کر ” اضطباع ” کرلیا۔ یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گیا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلا کر اور خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔ اس کو عربی زبان میں ” رمل ” کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سنت آج تک باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی کہ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع طواف کے تین پھیروں میں ” رمل ” کرتا ہے۔(بخاری ج۱ ص۲۱۸ باب کيف کان بدء الرمل )
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی :۔
تین دن کے بعد کفار مکہ کے چند سردار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ شرط پوری ہوچکی۔ اب آپ لوگ مکہ سے نکل جائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ نبوت میں کفار کا پیغام سنایا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اسی وقت مکہ سے روانہ ہوگئے۔ چلتے وقت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک چھوٹی صاحبزادی جن کا نام ” امامہ ” تھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو چچا چچا کہتی ہوئی دوڑی آئیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ ِاُحد میں شہید ہو چکے تھے۔ ان کی یہ یتیم چھوٹی بچی مکہ میں رہ گئی تھیں۔ جس وقت یہ بچی آپ کو پکارتی ہوئی دوڑی آئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے شہید چچا جان کی اس یادگار کو دیکھ کر پیار آگیا۔ اس بچی نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھائی جان کہنے کی بجائے چچا جان اس رشتہ سے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رضاعی بھائی ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اور حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ثویبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دودھ پیا تھا۔ جب یہ صاحبزادی قریب آئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر ان کو اپنی گود میں اٹھا لیا لیکن اب ان کی پرورش کے لئے تین دعویدار کھڑے ہو گئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میری چچا زاد بہن ہے اور میں نے اس کو سب سے پہلے اپنی گود میں اٹھا لیا ہے اس لئے مجھ کو اس کی پرورش کا حق ملنا چاہئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میری چچا زاد بہن بھی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے اس لئے اس کی پرورش کا میں حقدار ہوں۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ میرے دینی بھائی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لڑکی ہے اس لئے میں اس کی پرورش کروں گا۔ تینوں صاحبوں کا بیان سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ” خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے ” لہٰذا یہ لڑکی حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پرورش میں رہے گی۔ پھر تینوں صاحبوں کی دلداری و دل جوئی کرتے ہوئے رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ ” اے علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ ” اور حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ” اے جعفر ! تم سیرت و صورت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو۔ ” اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ فرمایا کہ ” اے زید ! تم میرے بھائی اور میرے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہو۔ ” (بخاری ج۲ ص۶۱۰ عمرة القضاء )
حضرت میمونہ کا نکاح :۔
اسی عمرۃ القضاء کے سفر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے نکاح فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چچی ام فضل زوجہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بہن تھیں۔ عمرۃ القضاء سے واپسی میں جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” سرف ” میں پہنچے تو ان کو اپنے خیمہ میں رکھ کر اپنی صحبت سے سر فراز فرمایا اور عجیب اتفاق کہ اس واقعہ سے چوالیس برس کے بعد اسی مقام سرف میں حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا اور ان کی قبر شریف بھی اسی مقام میں ہے۔ صحیح قول یہ ہے کہ ان کی وفات کا سال ۵۱ ھ ہے۔ مفصل بیان ان شاء اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بیان میں آئے گا۔