Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 19:54:19 GMT 5.5
ہجرت کا آٹھواں سال
ہجرت کا آٹھواں سال بھی حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس حیات کے بڑے بڑے واقعات پر مشتمل ہے۔ ہم ان میں سے یہاں چند اہمیت و شہرت والے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
جنگ موتہ :۔
” موتہ ” ملک شام میں ایک مقام کا نام ہے۔ یہاں ۸ ھ میں کفر و اسلام کا وہ عظیم الشان معرکہ ہوا جس میں ایک لاکھ لشکر کفار سے صرف تین ہزار جاں نثار مسلمانوں نے اپنی جان پر کھیل کر ایسی معرکہ آرائی کی کہ یہ لڑائی تاریخ اسلام میں ایک تاریخی یادگار بن کر قیامت تک باقی رہے گی اور اس جنگ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بڑی بڑی اولو العزم ہستیاں شرف شہادت سے سرفراز ہوئیں۔
اس جنگ کا سبب :۔
اس جنگ کا سبب یہ ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” بصریٰ ” کے بادشاہ یا قیصر روم کے نام ایک خط لکھ کر حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ روانہ فرمایا۔ راستہ میں ” بلقاء ” کے بادشاہ شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو قیصر روم کا باج گزار تھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس قاصد کو نہایت بے دردی کے ساتھ رسی میں باندھ کر قتل کردیا۔ جب بارگاہ رسالت میں اس حادثہ کی اطلاع پہنچی تو قلب مبارک پر انتہائی رنج و صدمہ پہنچا۔ اس وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر تیار فرمایا اور اپنے دست ِ مبارک سے سفید رنگ کا جھنڈا باندھ کر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیا اور ان کو اس فوج کا سپہ سالار بنایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید بن حارثہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر سپہ سالار ہوں گے اور جب وہ بھی شہادت سے سرفراز ہو جائیں تو اس جھنڈے کے علمبردار حضرت عبداللہ بن رواحہ ہوں گے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) ان کے بعد لشکر اسلام جس کو منتخب کرے وہ سپہ سالار ہوگا۔
اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” ثنیۃ الوداع ” تک تشریف لے گئے اور لشکر کے سپہ سالار کو حکم فرمایا کہ تم ہمارے قاصد حضرت حارث بن عمیر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شہادت گاہ میں جاؤ جہاں اس جاں نثار نے ادائے فرض میں اپنی جان دی ہے۔ پہلے وہاں کے کفار کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ لوگ اسلام قبول کرلیں تو پھر وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ورنہ تم اللہ عزوجل کی مدد طلب کرتے ہوئے ان سے جہاد کرو۔ جب لشکر چل پڑا تو مسلمانوں نے بلند آواز سے یہ دعا دی کہ خدا سلامت اور کامیاب واپس لائے۔
جب یہ فوج مدینہ سے کچھ دور آگے نکل گئی تو خبر ملی کہ خود قیصر روم مشرکین کی ایک لاکھ فوج لے کر بلقاء کی سر زمین میں خیمہ زن ہو گیا ہے۔ یہ خبر پا کر امیر لشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لشکر کو پڑاؤ کا حکم دے دیا اور ارادہ کیا کہ بارگاہ رسالت میں اس کی اطلاع دی جائے اور حکم کا انتظار کیا جائے۔ مگر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارا مقصد فتح یا مال غنیمت نہیں ہے بلکہ ہمارا مطلوب تو شہادت ہے۔ کیونکہ ؎
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی شہادت ہے مقصود و مطلوبِ مومن
اور یہ مقصد بلند ہر وقت اور ہر حالت مںم حاصل ہو سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تقریر سن کر ہر مجاہد جوش جہاد مںم بے خود ہوگا۔ اور سب کی زبان پر یہی ترانہ تھا کہ
بڑھتے چلو مجاہدو بڑھتے چلو مجاہدو
غرض یہ مجاہدین اسلام موتہ کی سر زمین میں داخل ہوگئے اور وہاں پہنچ کر دیکھا کہ واقعی ایک بہت بڑا لشکر ریشمی زرق برق و ردیاں پہنے ہوئے بے پناہ تیاریوں کے ساتھ جنگ کے لئے کھڑا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد لشکر کا بھلا تین ہزار سے مقابلہ ہی کیا ؟ مگر مسلمان خدا عزوجل کے بھروسا پر مقابلہ کے لئے ڈٹ گئے۔
معرکہ آرائی کا منظر :۔
سب سے پہلے مسلمانوں کے امیر لشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر کفار کے لشکر کو اسلام کی دعوت دی۔ جس کا جواب کفار نے تیروں کی مار اور تلواروں کے وار سے دیا۔ یہ منظر دیکھ کر مسلمان بھی جنگ کے لئے تیار ہوگئے اور لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے سے اتر کر پا پیادہ میدان جنگ میں کود پڑے اور مسلمانوں نے بھی نہایت جوش و خروش کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا لیکن اس گھمسان کی لڑائی میں کافروں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیزوں اور برچھیوں سے چھید ڈالا اور وہ جوانمردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہد ہو گئے۔ فوراً ہی جھپٹ کر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پرچم اسلام کو اٹھا لیا مگر ان کو ایک رومی مشرک نے ایسی تلوار ماری کہ یہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگئے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ہم نے ان کی لاش دیکھی تھی۔ ان کے بدن پر نیزوں اور تلواروں کے نوے سے کچھ زائد زخم تھے۔ لیکن کوئی زخم ان کی پیٹھ کے پیچھے نہیں لگا تھا بلکہ سب کے سب زخم سامنے ہی کی جانب لگے تھے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اسلام ہاتھ میں لیا۔ فوراً ہی ان کے چچازاد بھائی نے گوشت سے بھری ہوئی ایک ہڈی پیش کی اور عرض کیا کہ بھائی جان! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو کھا لیجئے۔ آپ نے ایک ہی مرتبہ دانت سے نوچ کر کھایا تھا کہ کفار کا بے پناہ ہجوم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپ نے ہڈی پھینک دی اور تلوار نکال کر دشمنوں کے نرغہ میں گھس کر رجز کے اشعار پڑھتے ہوئے انتہائی دلیری اور جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے مگر زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر گر پڑے اور شربت شہادت سے سیراب ہو گئے۔( بخاری ج۲ ص۶۱۱ غزوه موته و زرقانی ج۲ ص۲۷۱ ص۲۷۴)
اب لوگوں کے مشورہ سے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈے کے علمبردار بنے اور اس قدر شجاعت اور بہادری کے ساتھ لڑے کہ نو تلواریں ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے ہاتھ سے گر پڑیں۔اور اپنی جنگی مہارت اور کمال ہنر مندی سے اسلامی فوج کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال لائے۔(بخاری ج۲ ص۶۱۱ غزوه موته)
اس جنگ میں جو بارہ معزز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہوئے ان کے مقدس نام یہ ہیں :۔
(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) (زُرقانی ج۲ص ۲۷۳)
اسلامی لشکر نے بہت سے کفار کو قتل کیا اور کچھ مال غنیمت بھی حاصل کیا اور سلامتی کے ساتھ مدینہ واپس آگئے۔
نگاہِ نبوت کا معجزہ :۔
جنگ ِ موتہ کی معرکہ آرائی میں جب گھمسان کا رن پڑا تو حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ سے میدانِ جنگ کو دیکھ لیا۔ اور آپ کی نگاہوں سے تمام حجابات اس طرح اٹھ گئے کہ میدانِ جنگ کی ایک ایک سر گزشت کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ نبوت نے دیکھا۔ چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت زید و حضرت جعفر و حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادتوں کی خبر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ سے خبر آنے کے قبل ہی اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو سنا دی۔
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انتہائی رنج و غم کی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بھرے مجمع میں یہ ارشاد فرمایا کہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھنڈا لیا وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھنڈا لیا وہ بھی شہید ہوگئے، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمبردار بنے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ یہاں تک کہ جھنڈے کو خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہ خبریں سناتے رہے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (بخاري ج۲ ص ۶۱۱ غزوه موته)
موسیٰ بن عقبہ نے اپنے مغازی میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ موتہ کی خبر لے کر دربار نبوت میں پہنچے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھے وہاں کی خبر سناؤ گے ؟ یا میں تمہیں وہاں کی خبر سناؤں۔ حضرت یعلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ ہی سنایئے جب آپ نے وہاں کا پورا پورا حال و ماحول سنایا تو حضرت یعلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک بات بھی نہیں چھوڑی کہ جس کو میں بیان کروں۔(زرقاني ج۲ ص ۲۷۶)
حضرت جعفر شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر تیل کا جل سے آراستہ کرکے آٹا گوندھ لیا تھا کہ بچوں کے لئے روٹیاں پکاؤں کہ اتنے میں رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں کو میرے سامنے لاؤ جب میں نے بچوں کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچوں کو سونگھنے اور چومنے لگے اور آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار رُخسارِ پر انوار پر بہنے لگی تو میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کوئی خبر آئی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ ہاں ! وہ لوگ آج ہی شہید ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر میری چیخ نکل گئی اور میرا گھر عورتوں سے بھر گیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے کاشانہ نبوت میں تشریف لے گئے اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے فرمایا کہ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کراؤ۔ (زرقاني ج۲ ص۲۷۷)
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر ان لوگوں کے استقبال کے لئے تشریف لے گئے اور مدینہ کے مسلمان اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوڑتے ہوئے مجاہدین اسلام کی ملاقات کے لئے گئے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ موتہ کے شہدائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ایسا پر درد مرثیہ سنایا کہ تمام سامعین رونے لگے۔(زرقاني ج۲ ص۲۷۷)
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دونوں ہاتھ شہادت کے وقت کٹ کر گر پڑے تھے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے دونوں ہاتھوں کے بدلے دو بازو عطا فرمائے ہیں جن سے اڑ اڑ کر وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں۔(زرقاني ج۲ ص۲۷۴)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کرتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ “السلام علیک یا ابن ذی الجناحین ” یعنی اے دو بازوؤں والے کے فرزند ! تم پر سلام ہو۔ (بخاری ج۲ ص۶۱۱ غزوه موته)
جنگ موتہ اور فتح مکہ کے درمیان چند چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کفار کی مدافعت کے لئے مختلف مقامات پر بھیجا۔ ان میں سے بعض لشکروں کے ساتھ کفار کا ٹکراؤ بھی ہوا جن کا مفصل تذکرہ زرقانی و مدارج النبوۃ وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔ ان سریوں کے نام یہ ہیں:
ذات السلاسل۔ سریۃ الخبط۔ سریہ ابوقتادہ(نجد)۔ سریہ ابوقتادہ(صنم) مگر ان سریوں میں ” سریۃ الخبط ” زیادہ مشہور ہے جس کا مختصر بیان یہ ہے :۔
سریۃ الخبط :۔
اس سریہ کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ” غزوہ سیف البحر ” کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب ۸ ھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکر پر امیر بنا کر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایا تا کہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھیں اس لشکر میں خوراک کی اس قدر کمی پڑ گئی کہ امیر لشکر مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور راشن میں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ یہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں اور لوگ بھوک سے بے چین ہو کر درختوں کے پتے کھانے لگے یہی وجہ ہے کہ عام طور پر مؤرخین نے اس سریہ کا نام ” سریۃ الخبط ” یا ” جیش الخبط ” رکھا ہے۔ ” خبط ” عربی زبان میں درخت کے پتوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ مجاہدین اسلام نے اس سریہ میں درختوں کے پتے کھا کر جان بچائی اس لئے یہ سریۃ الخبط کے نام سے مشہور ہو گیا۔
ایک عجیب الخلقت مچھلی :۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو اس سفر میں تقریباً ایک مہینہ رہنا پڑا اور جب بھوک کی شدت سے ہم لوگ درختوں کے پتے کھانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے ہمارے رزق کا یہ سامان پیدا فرما دیا کہ سمندر کی موجوں نے ایک اتنی بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی، جو ایک پہاڑی کے مانند تھی چنانچہ تین سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اٹھارہ دنوں تک اس مچھلی کا گوشت کھاتے رہے اور اس کی چربی اپنے بدن پر ملتے رہے اور جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو اس کا گوشت کاٹ کاٹ کر مدینہ تک لائے اور جب یہ لوگ بارگاہ نبوت میں پہنچے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے رزق کا سامان ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس مچھلی کا گوشت طلب فرمایا اور اس میں سے کچھ تناول بھی فرمایا، یہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ امیر لشکر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی دو پسلیاں زمین میں گاڑ کر کھڑی کردیں تو کجاوہ بندھا ہوا اونٹ اس محراب کے اندر سے گزر گیا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۵ غزوه سیف البحر و زرقاني ج۲ ص۲۸۰)
فتح مکہ (رمضان ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ ء) :۔
رمضان ۸ ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا کیونکہ تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارغار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرما کر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ” اے مکہ ! خدا کی قسم ! تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ ” لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر وہ کونسا ایسا سبب نمودار ہوگیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آگئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفار مکہ کی ” عہد شکنی ” اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہے۔
کفار قریش کی عہد شکنی :۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک یہ شرط بھی درج تھی کہ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرے اور جو حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہے وہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرے۔
چنانچہ اسی بنا پر قبیلہ بنی بکر نے قریش سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا اور قبیلہ بنی خزاعہ نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے امداد باہمی کا معاہدہ کرلیا۔ یہ دونوں قبیلے مکہ کے قریب ہی میں آباد تھے لیکن ان دونوں میں عرصہ دراز سے سخت عداوت اور مخالفت چلی آرہی تھی۔
ایک مدت سے تو کفار قریش اور دوسرے قبائل عرب کے کفار مسلمانوں سے جنگ کرنے میں اپنا سارا زور صرف کر رہے تھے لیکن صلح حدیبیہ کی بدولت جب مسلمانوں کی جنگ سے کفار قریش اور دوسرے قبائل کفار کو اطمینان ملا تو قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ بنی خزاعہ سے اپنی پرانی عداوت کا انتقام لینا چاہا اور اپنے حلیف کفارِ قریش سے مل کر بالکل اچانک طور پر قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس حملہ میں کفار قریش کے تمام رؤسا یعنی عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو وغیرہ بڑے بڑے سرداروں نے علانیہ بنی خزاعہ کو قتل کیا۔ بے چارے بنی خزاعہ اس خوفناک ظالمانہ حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنی جان بچانے کے لئے حرم کعبہ میں پناہ لینے کے لئے بھاگے۔ بنی بکر کے عوام نے تو حرم میں تلوار چلانے سے ہاتھ روک لیا اور حرم الٰہی کا احترام کیا۔ لیکن بنی بکر کا سردار ” نوفل ” اس قدر جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو چکا تھا کہ وہ حرم میں بھی بنی خزاعہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کرتا رہا اور چلا چلا کر اپنی قوم کو للکارتا رہا کہ پھر یہ موقع کبھی ہاتھ نہیں آسکتا۔ چنانچہ ان درندہ صفت خونخوار انسانوں نے حرم الٰہی کے احترام کو بھی خاک میں ملا دیااور حرم کعبہ کی حدود میں نہایت ہی ظالمانہ طور پر بنی خزاعہ کا خون بہایااور کفار قریش نے بھی اس قتل و غارت اور کشت و خون میں خوب خوب حصہ لیا۔ (زرقاني ج۲ ص۲۸۹)
ظاہر ہے کہ قریش نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو عملی طور پر توڑ ڈالا۔ کیونکہ بنی خزاعہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کر کے آپ کے حلیف بن چکے تھے، اس لئے بنی خزاعہ پر حملہ کرنا، یہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے برابر تھا۔ اس حملہ میں بنی خزاعہ کے تیئیس (۲۳) آدمی قتل ہوگئے۔
اس حادثہ کے بعد قبیلۂ بنی خزاعہ کے سردار عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا وفد لے کر فریاد کرنے اور امداد طلب کرنے کے لئے مدینہ بارگاہ رسالت میں پہنچے اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔
تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استعانت :۔
حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ایک رات حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاشانۂ نبوت میں وضو فرما رہے تھے کہ ایک دم بالکل ناگہاں آپ نے بلند آواز سے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ لبیک۔ لبیک۔ لبیک۔ (میں تمہارے لئے بار بار حاضر ہوں۔) پھر تین مرتبہ بلند آواز سے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ نصرت۔ نصرت۔ نصرت (تمہیں مدد مل گئی) جب آپ وضو خانہ سے نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تنہائی میں کس سے گفتگو فرما رہے تھے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اے میمونہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا غضب ہوگیا۔ میرے حلیف بنی خزاعہ پر بنی بکر اور کفار قریش نے حملہ کردیا ہے اور اس مصیبت و بے کسی کے وقت میں بنی خزاعہ نے وہاں سے چلا چلا کر مجھے مدد کے لئے پکارا ہے اور مجھ سے مدد طلب کی ہے اور میں نے ان کی پکار سن کر ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے ان کو جواب دیا ہے۔ حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز سے فارغ ہوئے تو دفعۃً بنی خزاعہ کے مظلومین نے رجز کے ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا اور حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان کی اس پر درد اور رقت انگیز فریاد کو بغور سنا۔ آپ بھی اس رجز کے چند اشعار کو ملاحظہ فرمایئے :۔
یَا رَبِّ اِنِّيْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
حِلْفَ اَبِيْنَا وَاَبِيْهِ الْاَتْلَدًا
اے خدا ! میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے اور ان کے باپ داداؤں کے درمیان قدیم زمانے سے ہوچکا ہے۔
فَانْصُرْ هَدَاكَ اللّٰهُ نَصْرًا اَبَّدَا
وَادْعُ عِبَادَ اللهِ یَاتُوْا مَدَّدَا
تو خدا آپ کو سیدھی راہ پر چلائے۔ آپ ہماری بھر پور مدد کیجئے اور خدا کے بندوں کو بلائیے۔ وہ سب امداد کے لئے آئیں گے۔
فِيْهِمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ قَـدْ تجَـَّردَا
اِنْ سِيْمَ خَسْفًا وَجْهُهٗ تَرَبَّدَا
ان مدد کرنے والوں میں رسول اللہ (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) بھی غضب کی حالت میں ہوں کہ اگر انہیں ذلت کا داغ لگے تو ان کا تیور بدل جائے۔
هُمْ بَيَّتُوْنَا بِالْوَتِيْرِ هُجَّدًا
وَ قَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَّ سُجَّدًا
ان لوگوں (بنی بکر و قریش) نے ” مقام و تیر ” میں ہم سوتے ہوؤں پر شب خون مارا اور رکوع و سجدہ کی حالت میں بھی ہم لوگوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کر ڈالا۔
اِنَّ قُرَيْشًا اَخْلَفُوْكَ الْمَوْعِدَا
وَ نَقَّضُوْا مِيْثَاقَكَ الْمُؤَكّدَا
یقینا قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور آپ سے مضبوط معاہدہ کر کے توڑ ڈالا ہے۔
ان اشعار کو سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علہا وسلم نے ان لوگوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ مت گھبراؤ میں تمہاری امداد کے لئے تیار ہوں۔ (زرقانی ج ۲ ص ۲۹۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی امن پسندی :۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش فرمائیں کہ ان میں سے کوئی ایک شرط قریش منظور کر لیں :۔
(۱) بنی خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔
(۲) قریش قبیلہ بنی بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔
(۳) اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قاصد نے ان شرطوں کو قریش کے سامنے رکھا تو قرطہ بن عبد عمر نے قریش کا نمائندہ بن کر جواب دیا کہ ” نہ ہم مقتولوں کے خون کا معاوضہ دیں گے نہ اپنے حلیف قبیلہ بنی بکر کی حمایت چھوڑیں گے۔ ہاں تیسری شرط ہمیں منظور ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ ” لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو اپنے اس جواب پر ندامت ہوئی۔ چنانچہ چند رؤسائے قریش ابو سفیان کے پاس گئے اور یہ کہا کہ اگر یہ معاملہ نہ سلجھا تو پھر سمجھ لو کہ یقینا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم پر حملہ کردیں گے۔ ابو سفیان نے کہا کہ میری بیوی ہند بنت عتبہ نے ایک خواب دیکھا ہے کہ مقام ” حجون ” سے مقام ” خندمہ ” تک ایک خون کی نہر بہتی ہوئی آئی ہے، پھر ناگہاں وہ خون غائب ہوگیا۔ قریش نے اس خواب کو بہت ہی منحوس سمجھا اور خوف و دہشت سے سہم گئے اور ابو سفیان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ فوراً مدینہ جا کر معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کرے۔ (زرقاني ج۲ ص۲۹۲)
ابو سفیان کی کوشش :۔
اس کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ابو سفیان مدینہ گیا اور پہلے اپنی لڑکی حضرت اُم المؤمنین بی بی ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر پہنچا اور بستر پر بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ حضرتِ بی بی اُمِ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جلدی سے بستر اٹھا لیا ابو سفیان نے حیران ہو کر پوچھا کہ بیٹی تم نے بستر کیوں اٹھا لیا ؟ کیا بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھ کو بستر کے قابل نہیں سمجھا ؟ اُم المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بستر ہے اور تم مشرک اور نجس ہو۔ اس لئے میں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھو۔ یہ سن کر ابو سفیان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ رنجیدہ ہو کر وہاں سے چلا آیا اور رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مقصد بیان کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابو سفیان حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس گیا۔ ان سب حضرات نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب ابو سفیان پہنچا تو وہاں حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی تھے۔ ابو سفیان نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اے علی ! تم قوم میں بہت ہی رحم دل ہو ہم ایک مقصد لے کر یہاں آئے ہیں کیا ہم یوں ہی ناکام چلے جائیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ تم محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے ہماری سفارش کردو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو سفیان ! ہم لوگوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارادہ اور ان کی مرضی میں کوئی مداخلت کر سکیں۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ابو سفیان نے حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اے فاطمہ ! یہ تمہارا پانچ برس کا بچہ (امام حسن) ایک مرتبہ اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے دونوں فریق میں صلح کرا دی تو آج سے یہ بچہ عرب کا سردار کہہ کر پکارا جائے گا۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل ؟ بالآخر ابو سفیان نے کہا کہ اے علی ! معاملہ بہت کٹھن نظر آتا ہے کوئی تدبیر بتاؤ ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں تم کو کوئی مفید رائے تو نہیں دے سکتا، لیکن تم بنی کنانہ کے سردار ہو تم خود ہی لوگوں کے سامنے اعلان کر دو کہ میں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کردی ابو سفیان نے کہا کہ کیا میرا یہ اعلان کچھ مفید ہو سکتا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یک طرفہ اعلان ظاہر ہے کہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا۔ مگر اب تمہارے پاس اس کے سوا اور چارۂ کار ہی کیا ہے ؟ ابو سفیان وہاں سے مسجد نبوی میں آیا اور بلند آواز سے مسجد میں اعلان کر دیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کر دی مگر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ابو سفیان یہ اعلان کر کے مکہ روانہ ہو گیا جب مکہ پہنچا تو قریش نے پوچھا کہ مدینہ میں کیا ہوا ؟ ابو سفیان نے ساری داستان بیان کردی۔ تو قریش نے سوال کیا کہ جب تم نے اپنی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کیا تو کیا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے اس کو قبول کر لیا ؟ ابو سفیان نے کہا کہ ” نہیں ” یہ سن کر قریش نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ نہ تو صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔ (زرقاني ج۲ ص۲۹۲ تا ص۲۹۳)
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی فرما دیا کہ جنگ کے ہتھیار درست کریں اور اپنے حلیف قبائل کو بھی جنگی تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیج دیا۔ مگر کسی کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کس سے جنگ کا ارادہ ہے ؟ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیاروں کو نکال رہی ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ؟ عرض کیا : ” جی ہاں ” پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ” واللہ ! مجھے یہ معلوم نہیں۔ ” (زرقاني ج۲ ص۲۹۱)
غرض انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری فرمائی اور مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور اچانک ان پر حملہ کردیا جائے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط :۔
حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک معزز صحابی تھے انہوں نے قریش کو ایک خط اس مضمون کا لکھدیا کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔ اس خط کو انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنے اس علم غیب کی بدولت یہ جان لیا کہ حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کارروائی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فوراً ہی روانہ فرمایا کہ تم لوگ ” روضۂ خاخ ” میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط چھین کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب کبار رضی اللہ تعالیٰ عنہم تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ” روضۂ خاخ ” میں پہنچے اور عورت کو پالیا۔ جب اس سے خط طلب کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے، نہ ہم لوگ جھوٹے ہیں لہٰذا تو خط نکال کر ہمیں دے دے ورنہ ہم تجھ کو ننگی کر کے تلاشی لیں گے۔ جب عورت مجبور ہوگئی تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر دے دیا۔ جب یہ لوگ خط لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچے تو آپ نے حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے حاطب ! یہ تم نے کیا کیا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں میرے اس خط کے لکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ میں میرے بیوی بچے ہیں۔ مگر مکہ میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو میرے بیوی بچوں کی خبر گیری و نگہداشت کرے میرے سوا دوسرے تمام مہاجرین کے عزیز و اقارب مکہ میں موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں نے یہ خط لکھ کر قریش پر ایک اپنا احسان رکھ دیا ہے تا کہ میں ان کی ہمدردی حاصل کر لوں اور وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں۔ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کافروں کو شکست دے گا اور میرے اس خط سے کفار کو ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس بیان کو سن کر ان کے عذر کو قبول فرما لیا مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خط کو دیکھ کر اس قدر طیش میں آگئے کہ آپے سے باہر ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی غیظ و غضب میں بھر گئے۔ لیکن رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر اک ذرا شکن بھی نہیں آئی اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ حاطب اہل بدر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمادیا ہے کہ ” تم جو چاہو کرو۔ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ” یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ یہ کہہ کر بالکل خاموش ہوگئے کہ ” اللہ اور اس کے رسول کو ہم سب سے زیادہ علم ہے ” اسی موقع پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِيَآءَ (ممتحنه)
اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمن کافروں کو دوست نہ بناؤ۔
بہر حال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاف فرما دیا۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۲ غزوه الفتح)
مکہ پر حملہ :۔
غرض ۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے دس ہزار کا لشکرِ پر انوار ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ فتح مکہ میں آپ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر تھا ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مدینہ سے روانگی کے وقت دس ہزار کا لشکر رہا ہو۔ پھر راستہ میں بعض قبائل اس لشکر میں شامل ہو گئے ہوں تو مکہ پہنچ کر اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہو گئی ہو۔ بہر حال مدینہ سے چلتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کبار رضی اللہ تعالیٰ عنہم روزہ دار تھے جب آپ ” مقام کدید ” میں پہنچے تو پانی مانگا اور اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے پورے لشکر کو دکھا کر آپ نے دن میں پانی نوش فرمایا اور سب کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب نے سفر اور جہاد میں ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا موقوف کردیا۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۳ و زرقاني ج۲ ص۳۰۰ و سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۰)
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے ملاقات :۔
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” جحفہ ” میں پہنچے تو وہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ مسلمان ہو کر آئے تھے بلکہ اس سے بہت پہلے مسلمان ہو چکے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مرضی سے مکہ میں مقیم تھے اور حجاج کو زمزم پلانے کے معزز عہدہ پر فائز تھے اور آپ کے ساتھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جن کا نام بھی ابوسفیان تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابی امیہ جو اُم المؤمنین حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی بھی تھے بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے ان دونوں صاحبوں کی حاضری کا حال جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان دونوں صاحبوں کی ملاقات سے انکار فرما دیا۔ کیونکہ ان دونوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زیادہ ایذائیں پہنچائی تھیں۔ خصوصاً ابو سفیان بن الحارث آپ کے چچازاد بھائی جو اعلان نبوت سے پہلے آپ کے انتہائی جاں نثاروں میں سے تھے مگر اعلان نبوت کے بعد انہوں نے اپنے قصیدوں میں اتنی شرمناک اور بیہودہ ہجو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کر ڈالی تھی کہ آپ کا دل زخمی ہو گیا تھا۔ اس لئے آپ ان دونوں سے انتہائی ناراض و بیزار تھے مگر حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان دونوں کا قصور معاف کرنے کے لئے بہت ہی پرزور سفارش کی اور ابو سفیان بن الحارث نے یہ کہہ دیا کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرا قصور نہ معاف فرمایا تو میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر عرب کے ریگستان میں چلا جاؤں گا تاکہ وہاں بغیر دانہ پانی کے بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر میں اور میرے سب بچے مر کر فنا ہوجائیں۔ حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہ رسالت میں آبدیدہ ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ کے چچا کا بیٹا اور آپ کی پھوپھی کا بیٹا تمام انسانوں سے زیادہ بدنصیب رہے گا ؟ کیا ان دونوں کو آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہیں ملے گا ؟ جان چھڑکنے والی بیوی کے ان درد انگیز کلمات سے رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رحمت بھرے دل میں رحم و کرم اور عفو و درگزر کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کو یہ مشورہ دیا کہ تم دونوں اچانک بارگاہ رسالت میں سامنے جا کر کھڑے ہوجاؤ اور جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا وہی تم دونوں بھی کہو کہ
َقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ کُنَّا لَخٰطِئِيْنَ
کہ یقینا آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم بلاشبہ خطاوار ہیں۔
چنانچہ ان دونوں صاحبوں نے دربار رسالت میں ناگہاں حاضر ہوکر یہی کہا۔ ایک دم رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر رحم و کرم کے ہزاروں ستارے چمکنے لگے اور آپ نے ان کے جواب میں بعینہٖ وہی جملہ اپنی زبانِ رحمت نشان سے ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے جواب میں فرمایا تھا کہ
لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَط يَغْفِرُ اللّٰهُ لَکُمْز وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ
آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے اللہ تمہیں بخش دے۔ وہ ارحم الراحمین ہ
جب قصور معاف ہوگیا تو ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں اشعار لکھے اور زمانہ جاہلیت کے دور میں جو کچھ آپ کی ہجو میں لکھا تھا اس کی معذرت کی اور اس کے بعد عمر بھر نہایت سچے اور ثابت قدم مسلمان رہے مگر حیاء کی وجہ سے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے کبھی سر نہیں اٹھاتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ ابو سفیان بن الحارث میرے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قائم مقام ثابت ہوں گے۔(زرقاني ج۲ ص۳۰۱ تا ص۳۰۲ و سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۰)
میلوں تک آگ ہی آگ :۔
مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ” مرالظہران ” میں پہنچ کر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوج کو حکم دیا کہ ہر مجاہد اپنا الگ الگ چولہا جلائے۔ دس ہزار مجاہدین نے جو الگ الگ چولہے جلائے تو ” مرالظہران ” کے پورے میدان میں میلوں تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی۔
قریش کے جاسوس :۔
گو قریش کو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ مدینہ سے فوجیں آرہی ہیں۔ مگر صورت حال کی تحقیق کے لئے قریش نے ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء کو اپنا جاسوس بناکر بھیجا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد فکر مند ہوکر قریش کے انجام پر افسوس کر رہے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آج قریش کا خاتمہ ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ رات کے وقت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہوکر اس ارادہ سے مکہ چلے کہ قریش کو اس خطرہ سے آگاہ کرکے انہیں آمادہ کریں کہ چل کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معافی مانگ کر صلح کرلو ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۴)
مگر بخاری کی روایت میں ہے کہ قریش کو یہ خبر تو مل گئی تھی کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہو گئے ہیں مگر انہیں یہ پتا نہ تھا کہ آپ کا لشکر ” مرالظہران ” تک آگیا ہے۔ اس لئے ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء اس تلاش و جستجو میں نکلے تھے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لشکر کہاں ہے ؟ جب یہ تینوں ” مرالظہران ” کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ میلوں تک آگ ہی آگ جل رہی ہے یہ منظر دیکھ کر یہ تینوں حیران رہ گئے اور ابو سفیان بن حرب نے کہا کہ میں نے تو زندگی میں کبھی اتنی دور تک پھیلی ہوئی آگ اس میدان میں جلتے ہوئے نہیں دیکھی۔ آخر یہ کون سا قبیلہ ہے ؟ بدیل بن ورقاء نے کہا کہ بنی عمرو معلوم ہوتے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا کہ نہیں بنی عمرو اتنی کثیر تعداد میں کہاں ہیں جو ان کی آگ سے ” مرالظہران ” کا پورا میدان بھر جائے گا۔ (بخاری ج۲ص ۶۱۳)
بہر حال حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان تینوں سے ملاقات ہوگئی اور ابو سفیان نے پوچھا کہ اے عباس ! تم کہاں سے آرہے ہو ؟ اور یہ آگ کیسی ہے ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر کی آگ ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان بن حرب سے کہا کہ تم میرے خچر پر پیچھے سوار ہو جاؤ ورنہ اگر مسلمانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ابھی تم کو قتل کر ڈالیں گے۔ جب یہ لوگ لشکر گاہ میں پہنچے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے چند مسلمانوں نے جو لشکر گاہ کا پہرہ دے رہے تھے۔ ابو سفیان کو دیکھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے جذبہ انتقام کو ضبط نہ کر سکے اور ابو سفیان کو دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا کہ ” ارے یہ تو خدا کا دشمن ابو سفیان ہے۔ ” دوڑتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ابوسفیان ہاتھ آگیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو ابھی اس کا سر اڑا دوں۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان تینوں مشرکوں کو ساتھ لئے ہوئے دربار رسول میں حاضر ہوگئے اور ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش پیش کردی اور یہ کہا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے ان سبھوں کو امان دے دی ہے۔
ابو سفیان کا اسلام :۔
ابو سفیان بن حرب کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سخت سے سخت ایذائیں دینی، مدینہ پر بار بار حملہ کرنا، قبائل عرب کو اشتعال دلا کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی بار ہا سازشیں، یہودیوں اور تمام کفار عرب سے ساز باز کر کے اسلام اور بانی اسلام کے خاتمہ کی کوششیں یہ وہ نا قابل معافی جرائم تھے جو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ابوسفیان کا قتل بالکل درست و جائز اور برمحل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن کو قرآن نے ” رءوف و رحیم ” کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان کی رحمت چمکار چمکار کر ابو سفیان کے کان میں کہہ رہی تھی کہ اے مجرم ! مت ڈر۔ یہ دنیا کے سلاطین کا دربار نہیں ہے بلکہ یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ رحمت ہے۔ بخاری شریف کی روایت تو یہی ہے کہ ابوسفیان بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے جان بچ گئی۔(بخاري ج۲ ص۶۱۳ باب این رکز النبی رایة)
مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے تو فوراً رات ہی میں اسلام قبول کرلیا مگر ابو سفیان نے صبح کو کلمہ پڑھا۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۴)
اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ابو سفیان اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان ایک مکالمہ ہوا اس کے بعد ابوسفیان نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ وہ مکالمہ یہ ہے :۔
مگر پھر اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن بعد میں بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔ چنانچہ غزوۂ طائف میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو کر انہوں نے کفار سے جنگ کی اور اسی میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہو گئی۔ پھر یہ جنگ یرموک میں بھی جہاد کے لئے گئے۔(سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۳ و زرقاني ج۲ ص۳۱۳)
لشکر اسلام کا جاہ و جلال :۔
مجاہدین اسلام کا لشکر جب مکہ کی طرف بڑھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ آپ ابو سفیان کو کسی ایسے مقام پر کھڑا کردیں کہ یہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ چنانچہ جہاں راستہ کچھ تنگ تھا ایک بلند جگہ پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان کو کھڑا کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسلامی لشکر سمندر کی موجوں کی طرح امنڈتا ہوا روانہ ہوا۔ اور قبائل عرب کی فوجیں ہتھیار سج سج کریکے بعد دیگرے ابو سفیان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔ سب سے پہلے قبیلۂ غفار کا باوقار پرچم نظر آیا۔ ابوسفیان نے سہم کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ قبیلہ غفار کے شہسوار ہیں۔
ابوسفیان نے کہا کہ مجھے قبیلہ غفار سے کیا مطلب ہے ؟ پھر جہینہ پھر سعد بن ھذیم، پھر سلیم کے قبائل کی فوجیں زرق برق ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے پرچم لہراتے اور تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے سامنے سے نکل گئے۔ ابوسفیان ہر فوج کا جلال دیکھ کر مرعوب ہو ہو جاتے تھے اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہر فوج کے بارے میں پوچھتے جاتے تھے کہ یہ کون ہیں ؟ یہ کن لوگوں کا لشکر ہے ؟ اس کے بعد انصار کا لشکر پرانوار اتنی عجیب شان اور ایسی نرالی آن بان سے چلا کہ دیکھنے والوں کے دل دہل گئے۔ ابو سفیان نے اس فوج کی شان و شوکت سے حیران ہوکر کہا کہ اے عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ ” انصار ” ہیں ناگہاں انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈا لئے ہوئے ابو سفیان کے قریب سے گزرے اور جب ابو سفیان کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ اے ابو سفیان !
اَلْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَةُ
آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے۔ آج کعبہ میں خونریزی حلال کر دی جائے گی۔
ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے عباس ! سن لو ! آج قریش کی ہلاکت تمہیں مبارک ہو۔ پھر ابو سفیان کو چین نہیں آیا تو پوچھا کہ بہت دیر ہوگئی۔ ابھی تک میں نے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو نہیں دیکھا کہ وہ کون سے لشکر میں ہیں ؟ اتنے میں حضور تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرچم نبوت کے سائے میں اپنے نورانی لشکر کے ہمراہ پیغمبرانہ جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے۔ ابوسفیان نے جب شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا تو چلا کر کہا کہ اے حضور ! کیا آپ نے سنا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا کہتے ہوئے گئے ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ ابو سفیان بولے کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلط کہا، آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے اتنی غلط بات کیوں کہہ دی۔ آپ نے ان کے ہاتھ سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب ابوسفیان نے بارگاہ رسول میں یہ شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابھی ابھی سعد بن عبادہ یہ کہتے ہوئے گئے ہیں کہ اَلْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَة آج گھمسان کی لڑائی کا دن ہے۔
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے غلط کہا، بلکہ اے ابو سفیان ! اَلْيَوْمَ يَوْمُ الْمَرْحَمَة آج کا دن تو رحمت کا دن ہے۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۶)
پھر فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ بانی کعبہ کے جانشین حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں نزول اجلال فرمایا اور حکم دیا کہ میرا جھنڈا مقام ” حجون ” کے پاس گاڑا جائے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام فرمان جاری فرمایا کہ وہ فوجوں کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ یعنی ” کداء ” کی طرف سے مکہ میں داخل ہوں۔(بخاري ج۲ ص۶۱۳ باب اين رکز النبي رایة و زرقاني ج۲ ص۳۰۴ تا ص۳۰۶)
فاتح مکہ کا پہلا فرمان :۔
تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سر زمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں :۔
جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔
اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابو سفیان ایک فخر پسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرما دیا کہ
“جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ “
اس کے بعد ابوسفیان مکہ میں بلند آواز سے پکار پکار کر اعلان کرنے لگا کہ اے قریش ! محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اتنا بڑا لشکر لے کر آگئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت نہیں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ ابوسفیان کی زبان سے یہ کم ہمتی کی بات سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ جل بھن کر کباب ہوگئی اور طیش میں آکر ابوسفیان کی مونچھ پکڑ لی اور چلا کر کہنے لگی کہ اے بنی کنانہ ! اس کم بخت کو قتل کردو یہ کیسی بزدلی اور کم ہمتی کی بات بک رہا
ہے۔ ہند کی اس چیخ و پکار کی آواز سن کر تمام بنو کنانہ کا خاندان ابو سفیان کے مکان میں جمع ہو گیا اور ابو سفیان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس وقت غصہ اور طیش کی باتوں سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ میں پورے اسلامی لشکر کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں اور میں تم لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ہم لوگوں سے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ خیریت ہے کہ انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ جو ابو سفیان کے مکان میں چلا جائے اس کے لئے امان ہے۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ لوگ میرے مکان میں آکر پناہ لے لیں۔ ابوسفیان کے خاندان والوں نے کہا کہ تیرے مکان میں بھلا کتنے انسان آسکیں گے ؟ ابو سفیان نے بتایا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے ان لوگوں کو بھی امان دے دی ہے جو اپنے دروازے بند کرلیں یا مسجد حرام میں داخل ہو جائیں یا ہتھیار ڈال دیں۔ ابو سفیان کا یہ بیان سن کر کوئی ابو سفیان کے مکان میں چلا گیا۔ کوئی مسجد حرام کی طرف بھاگا۔ کوئی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔(زرقاني ج۲ ص۳۱۳)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس اعلان رحمت نشان یعنی مکمل امن و امان کا فرمان جاری کر دینے کے بعد ایک قطرہ خون بہنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ لیکن عکرمہ بن ابوجہل و صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو اور جماش بن قیس نے مقام ” خندمہ ” میں مختلف قبائل کے اوباش کو جمع کیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج میں سے دو آدمیوں حضرت کر زبن جابر فہری اور حبیش بن اشعر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو شہید کردیا اور اسلامی لشکر پر تیر برسانا شروع کردیا۔ بخاری کی روایت میں انہی دو حضرات کی شہادت کا ذکر ہے مگر زرقانی وغیرہ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کفار قریش نے قتل کردیا۔ دو وہ جو اوپر ذکر کئے گئے اور ایک حضرت مسلمہ بن المیلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بارہ یا تیرہ کفار بھی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۳ و زرقاني ج۲ ص۳۱۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ تلواریں چمک رہی ہیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میں نے تو خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ کرنے سے منع کردیا تھا۔ پھر یہ تلواریں کیسی چل رہی ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ پہل کفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس لئے لڑنے کے سوا حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں رہ گیا تھا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ قضاء الٰہی یہی تھی اور خدا نے جو چاہا وہی بہتر ہے۔ (زرقاني ج۲ ص۳۱۰)
مکہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قیام گاہ :۔
بخاری کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے مکان پر تشریف لے گئے اور وہاں غسل فرمایا پھر آٹھ رکعت نماز چاشت پڑھی۔ یہ نماز بہت ہی مختصر طور پر ادا فرمائی لیکن رکوع و سجدہ مکمل طور پر ادا فرماتے رہے۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۵ باب منزل النبي یوم الفتح)
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ کیا گھر میں کچھ کھانا بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خشک روٹی کے چند ٹکڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرم دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کو آپ کے سامنے پیش کردوں۔ ارشاد فرمایا کہ ” لاؤ ” پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان خشک روٹیوں کو توڑا اور پانی میں بھگو کر نرم کیا اور حضرت اُمِ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان روٹیوں کے سالن کے لئے نمک پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی سالن گھر میں نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر میں ” سرکہ ” کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” سرکہ ” لاؤ۔ آپ نے سرکہ کو روٹی پر ڈالا اور تناول فرما کر خدا کا شکر بجا لائے۔ پھر فرمایا کہ ” سرکہ بہترین سالن ہے اور جس گھر میں سرکہ ہوگا اس گھر والے محتاج نہ ہوں گے۔ ” پھر حضرت اُمِ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے حارث بن ہشام (ابوجہل کے بھائی) اور زہیر بن اُمیہ کو امان دے دی ہے۔ لیکن میرے بھائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دونوں کو اس جرم میں قتل کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج سے جنگ کی ہے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اُمِ ہانی! رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس کو تم نے امان دے دی اس کے لئے ہماری طرف سے بھی امان ہے۔(زرقاني ج۲ ص۳۲۶)
بیت اللہ میں داخلہ :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جھنڈا ” حجون ” میں جس کو آج کل جنۃ المعلیٰ کہتے ہیں ” مسجد الفتح ” کے قریب میں گاڑا گیا پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا کر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے مسجد حرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور کعبہ کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔(بخاري ج۲ ص۶۱۴ وغیره)
یہ انقلاب زمانہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام جن کا لقب ” بت شکن ” ہے ان کی یادگار خانہ کعبہ کے اندرونِ حصار تین سو ساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ فاتح مکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حضرت خلیل علیہ السلام کا جانشینِ جلیل ہونے کی حیثیت سے فرض اولین تھا کہ یادگار خلیل کو بتوں کی نجس اور گندی آلائشوں سے پاک کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس ایک چھڑی لے کر کھڑے ہوئے اور ان بتوں کو چھڑی کی نوک سے ٹھونکے مار مار کر گراتے جاتے تھے اور جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًا کی آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے، یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۴ فتح مکه وغیره)
پھر ان بتوں کو جو عین کعبہ کے اندر تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سب نکالے جائیں۔ چنانچہ وہ سب بت نکال باہر کئے گئے۔ انہی بتوں میں حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے مجسمے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں فال کھولنے کے تیر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو مار ڈالے۔ ان کافروں کو خوب معلوم ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال نہیں کھولا۔ جب تک ایک ایک بت کعبہ کے اندر سے نہ نکل گیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر قدم نہیں رکھا جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا تو آپ اپنے ساتھ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور عثمان بن طلحہ حَجَبِی کو لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی ادا فرمائی اس کے بعد باہر تشریف لائے۔(بخاری ج۱ ص۲۱۸ باب من کبر في نواحي الکعبة و بخاري ج۲ ص۶۱۴ فتح مکه وغیره)
کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہر نکلے تو عثمان بن طلحہ کو بلا کر کعبہ کی کنجی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
خُذُوْهَا خَالِدَةً تَالِدَةً لَا يَنْزعُهَا مِنْكُمْ اِلَّا ظَالِمٌ
لو یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تم لوگوں میں رہے گی یہ کنجی تم سے وہی چھینے گا جو ظالم ہوگا۔ (زرقاني ج۲ ص۲۳۹)
شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربارِ عام :۔
اس کے بعد تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شہنشاہ اسلام کی حیثیت سے حرم الٰہی میں سب سے پہلا دربارِ عام منعقد فرمایا جس میں افواج اسلام کے علاوہ ہزاروں کفار و مشرکین کے خواص و عوام کا ایک زبردست ازدحام تھا۔ اس شہنشاہی خطبہ میں آپ نے صرف اہل مکہ ہی سے نہیں بلکہ تمام اقوام عالم سے خطابِ عام فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ
“ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کی اور کفار کے تمام لشکروں کو تنہا شکست دے دی، تمام فخر کی باتیں، تمام پرانے خونوں کا بدلہ، تمام پرانے خون بہا، اور جاہلیت کی رسمیں سب میرے پیروں کے نیچے ہیں۔ صرف کعبہ کی تولیت اور حجاج کو پانی پلانا، یہ دو اعزاز اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اے قوم قریش ! اب جاہلیت کا غرور اور خاندانوں کا افتخار خدا نے مٹا دیا۔ تمام لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ “
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :۔
اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے لئے قبیلے اور خاندان بنا دیئے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو لیکن خدا کے نزدیک سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
بے شک اللہ نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام فرما دیا ہے۔
(سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۲ مختصراً و بخاري وغیره)
کفارِ مکہ سے خطاب :۔
اس کے بعد شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سر جھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو با رہا آپ پر پتھروں کی بارش کر چکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے در و دیوار دہل چکے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے وہ ستم گار جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثار پروانوں حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ہوئی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دیئے تھے، سینکڑوں بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جور و جفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم و عدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کووں کو کھلا دی جائیں گی اور انصار و مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملا کر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج کر کے تہس نہس کر ڈالیں گی ان مجرموں کے سینوں میں خوف و ہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں آگئے تھے اور عالم یاس میں انہیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اور نا امیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ رحمت ان پاپیوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ
“بولو ! تم کو کچھ معلوم ہے ؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں۔ “
اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ اَخٌ كَرِيْمٌ وَابْنُ اَخٍ كَرِيْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔
سب کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں۔اور سب کے کان شہنشاہ نبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ
لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ فَاذْهَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ(زرقاني ج۲ ص۳۲۸)
آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیر متوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمان رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کے نعروں سے حرم کعبہ کے در و دیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ
جہاں تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
کفار نے مہاجرین کی جائدادوں، مکانوں، دکانوں پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں، مکانوں، دکانوں اور سامانوں کو مکہ کے غاصبوں کے قبضوں سے واگزار کر کے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں خوشی خوشی مکہ والوں کو ہبہ کردیں۔
اللہ اکبر ! اے اقوام عالم کی تاریخی داستانو ! بتاؤ کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق ہے ؟ اے دھرتی ! خدا کے لئے بتا ؟ اے آسمان ! للہ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے ؟ جس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا ہو ؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو ! کیا تم نے لاکھوں برس کی گردش لیل و نہار میں کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے ؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے ؟ کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کو چیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شانِ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَدیکھے
دوسرا خطبہ :۔
فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں حرم کعبہ کے احکام و آداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا، جانوروں کا مارنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا، اذخر کے سوا کوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اللہ عزوجل نے گھڑی بھر کے لئے اپنے رسول علیہ السلام کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی پھر قیامت تک کے لئے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ عزوجل نے اس کو حرم بنادیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس شہر میں خونریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لئے حلال کی جائے گی۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۷ فتح مکه)
انصار کو فراق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ڈر :۔
انصار نے قریش کے ساتھ جب رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس کریمانہ حسن سلوک کو دیکھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ دنوں تک مکہ میں ٹھہر گئے تو انصار کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ شاید رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر اپنی قوم اور وطن کی محبت غالب آگئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مکہ میں اقامت فرمالیں اور ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دور ہوجائیں جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علہن وسلم کو انصار کے اس خیال کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ معاذ اللہ ! اے انصار ! اَلْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَ الْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ ۔(سيرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۶)
اب تو ہماری زندگی اور وفات تمہارے ہی ساتھ ہے۔
یہ سن کر فرط مسرت سے انصار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور سب نے کہا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم لوگوں نے جو کچھ دل میں خیال کیا یا زبان سے کہا اس کا سبب آپ کی ذات مقدسہ کے ساتھ ہمارا جذبہ عشق ہے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جدائی کا تصور ہمارے لئے ناقابل برداشت ہورہا تھا۔ (زرقاني ج۲ ص۳۳۳ و سيرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۶)
کعبہ کی چھت پر اذان :۔
جب نماز کا وقت آیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ جس وقت اَللّٰهُ اَكْبَرُ اَللّٰهُ اَكْبَرُ کی ایمان افروز صدا بلند ہوئی تو حرم کے حصار اور کعبہ کے در و دیوار پر ایمانی زندگی کے آثار نمودار ہوگئے مگر مکہ کے وہ نو مسلم جو ابھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے اذان کی آواز سن کر ان کے دلوں میں غیرت کی آگ پھر بھڑک اٹھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عتاب بن اُسید نے کہا کہ خدا نے میرے باپ کی لاج رکھ لی کہ اس آواز کو سننے سے پہلے ہی اس کو دنیا سے اٹھا لیا اور ایک دوسرے سردار قریش کے منہ سے نکلا کہ ” اب جینا بے کار ہے۔ ” (اصابه تذکره عتاب بن اسید ج۲ ص۴۵۱ و زرقانی ج۲ ص۳۴۶)
مگر اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں نور ایمان کا سورج چمک اٹھا اور وہ صادق الایمان مسلمان بن گئے۔ چنانچہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی کو مکہ کا حاکم بنا دیا۔ (سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۳ و ص۴۴۰)
بیعت ِ اسلام :۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوہ صفا کی پہاڑی کے نیچے ایک بلند مقام پر بیٹھے اور لوگ جوق در جوق آکر آپ کے دست حق پرست پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ مردوں کی بیعت ختم ہوچکی تو عورتوں کی باری آئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر بیعت کرنے والی عورت سے جب وہ تمام شرائط کا اقرار کرلیتی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے فرما دیتے تھے کہ قَدْ بَايَعْتُكِ میں نے تجھ سے بیعت لے لی۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت کے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ صرف کلام ہی سے بیعت فرما لیتے تھے۔ (بخاري ج۱ ص۳۷۵ کتاب الشروط)
انہی عورتوں میں نقاب اوڑھ کر ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بھی بیعت کے لئے آئیں جو حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔ یہ وہی ہند ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شکم چاک کرکے ان کے جگر کو نکال کر چبا ڈالا تھا اور ان کے کان ناک کو کاٹ کر اور آنکھ کو نکال کر ایک دھاگہ میں پرو کر گلے کا ہار بنایا تھا۔ جب یہ بیعت کے لئے آئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نہایت دلیری کے ساتھ گفتگو کی۔ ان کا مکالمہ حسب ذیل ہے۔
(طبري ج۳ ص۶۴۳ مختصراً)
بہر حال حضرت ابو سفیان اور ان کی بیوی ہند بنت عتبہ دونوں مسلمان ہو گئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) لہٰذا ان دونوں کے بارے میں بدگمانی یا ان دونوں کی شان میں بدزبانی روافض کا مذہب ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان دونوں کا شمار صحابہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی فہرست میں ہے۔
ابتداء میں گو ان دونوں کے ایمان میں کچھ تذبذب رہا ہو مگر بعد میں یہ دونوں صادق الایمان مسلمان ہوگئے اور ایمان ہی پر ان دونوں کا خاتمہ ہوا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)
حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بارگاہ نبوت میں آئیں اور یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا ذلیل ہونا مجھے محبوب نہ تھا۔ مگر اب میرا یہ حال ہے کہ روئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا عزت دار ہونا مجھے پسند نہیں۔ (بخاري ج۱ ص۵۳۹ باب ذکر هند بنت عتبه)
اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں محدث ابن عساکر کی ایک روایت ہے کہ یہ مسجد حرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سامنے سے نکلے تو انہوں نے اپنے دل میں یہ کہا کہ کونسی طاقت ان کے پاس ایسی ہے کہ یہ ہم پر غالب رہتے ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا اور قریب آکر آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ہم خدا کی طاقت سے غالب آجاتے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ ” میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ” اور محدث حاکم اور ان کے شاگرد امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ ” کاش ! میں ایک فوج جمع کر کے دوبارہ ان سے جنگ کرتا ” ادھر ان کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ” اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے ذلیل و خوار کردے گا۔ ” یہ سن کر حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ توبہ و استغفار کرنے لگے اور عرض کیا کہ مجھے اس وقت آپ کی نبوت کا یقین حاصل ہو گیا کیونکہ آپ نے میرے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا۔ (زرقاني ج۲ ص۳۴۶)
یہ بھی روایت ہے کہ جب سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان پر اسلام پیش فرمایا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ پھر میں اپنے معبود عزیٰ کو کیا کروں گا ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برجستہ فرمایا تھا کہ ” تم عزیٰ پر پاخانہ پھر دینا ” چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب عزیٰ کو توڑنے کے لئے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ فرمایا تو ساتھ میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بھیجا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے معبود عزیٰ کو توڑ ڈالا۔ یہ محمد بن اسحاق کی روایت ہے اور ابن ہشام کی روایت یہ ہے کہ عزیٰ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توڑا تھا۔ واللہ اعلم۔ (زرقاني ج۲ ص۳۴۹)
بت پرستی کا خاتمہ :۔
گزشتہ اوراق میں ہم تحریر کرچکے کہ خانہ کعبہ کے تمام بتوں اور دیواروں کی تصاویر کو توڑ پھوڑ کر اور مٹاکر مکہ کو تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بت پرستی کی لعنت سے پاک کر ہی دیا تھا لیکن مکہ کے اطراف میں بھی بت پرستی کے چند مراکز تھے یعنی لات، مناۃ، سواع، عزیٰ یہ چند بڑے بڑے بت تھے جو مختلف قبائل کے معبود تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکروں کو بھیج کر ان سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر بت پرستی کے سارے طلسم کو تہس نہس کردیا اور مکہ نیز اس کے اطراف و جوانب کے تمام بتوں کو نیست و نابود کردیا۔ (زرقانی ج ۲ص ۳۴۷تا ص ۳۴۹)
اس طرح بانی کعبہ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مورث اعلیٰ کے مشن کو مکمل فرما دیا اور در حقیقت فتح مکہ کا سب سے بڑا یہی مقصد تھا کہ شرک و بت پرستی کا خاتمہ اور توحید خداوندی کا بول بالا ہوجائے۔ چنانچہ یہ عظیم مقصد بحمدہ تعالیٰ بدرجہ اتم حاصل ہوگیا کہ -
آنجا کہ بود نعرہ کفارو مشرکاں
اکنوں خروش نعرہ اللہ اکبر است
چند ناقابل معافی مجرمین :۔
جب مکہ فتح ہوگیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ مگر چند ایسے مجرمین تھے جن کے بارے میں تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری فرما دیا کہ یہ لوگ اگر اسلام نہ قبول کریں تو یہ لوگ جہاں بھی ملیں قتل کر دیئے جائیں خواہ وہ غلاف کعبہ ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں۔ ان مجرموں میں سے بعض نے تو اسلام قبول کرلیا اور بعض قتل ہوگئے ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ تحریر کیا جاتا ہے:
(۱)”عبدالعزیٰ بن خطل” یہ مسلمان ہوگیا تھا اس کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے جانور وصول کرنے کے لئے بھیجا اور ساتھ میں ایک دوسرے مسلمان کو بھی بھیج دیاکسی بات پر دونوں میں تکرار ہوگئی تو اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا اور قصاص کے ڈر سے تمام جانوروں کو لے کر مکہ بھاگ نکلا اور مرتد ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن یہ بھی ایک نیزہ لے کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ لیکن مسلم افواج کا جلال دیکھ کر کانپ اٹھا اور نیزہ پھینک کر بھاگا اور کعبہ کے پردوں میں چھپ گیا۔ حضرت سعید بن حریث مخزومی اور ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مل کر اس کو قتل کردیا۔ (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۲)
(۲) ” حویرث بن نقید ” یہ شاعر تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو لکھا کرتا تھا اور خونی مجرم بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
(۳) “مقیس بن صبابہ ” اس کو نمیلہ بن عبداللہ نے قتل کیا۔ یہ بھی خونی تھا۔
(۴) “حارث بن طلاطلہ ” یہ بھی بڑا ہی موذی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
(۵) ” قریبہ ” یہ ابن خطل کی لونڈی تھی۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو گایا کرتی تھی یہ بھی قتل کی گئی۔
مکہ سے فرار ہوجانے والے :۔
چار اشخاص مکہ سے بھاگ نکلے تھے ان لوگوں کا مختصر تذکرہ یہ ہے :۔
(۱) “عکرمہ بن ابی جہل ” یہ ابوجہل کے بیٹے ہیں۔ اس لئے ان کی اسلام دشمنی کا کیا کہنا ؟ یہ بھاگ کر یمن چلے گئے لیکن ان کی بیوی ” اُمِ حکیم ” جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے شوہر عکرمہ کے لئے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے معاف کردیا ! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ پھر حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی خوشی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (موطا امام مالک کتاب النکاح وغیره)
(۲) “صفوان بن امیہ ” یہ امیہ بن خلف کے فرزند ہیں۔ اپنے باپ امیہ ہی کی طرح یہ بھی اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ کر جدہ چلے گئے۔ حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں ان کی سفارش پیش کی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) قریش کا ایک رئیس صفوان مکہ سے جلاوطن ہوا چاہتا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو بھی معافی عطا فرما دی اور امان کے نشان کے طور پر حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا عمامہ عنایت فرمایا۔ چنانچہ وہ مقدس عمامہ لے کر ” جدہ ” گئے اور صفوان کو مکہ لے کر آئے صفوان جنگ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن اس کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ (طبري ج۳ ص۶۴۵)
(۳) “کعب بن زہیر ” یہ ۹ ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں اپنا مشہور قصیدہ ” بانت سعاد ” پڑھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہوکر ان کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ چادر مبارک حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور سلطنت میں ان کو دس ہزار درہم پیش کیا کہ یہ مقدس چادر ہمیں دے دو۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ چادر مبارک ہرگز ہرگز کسی کو نہیں دے سکتا۔ لیکن آخر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ان کے وارثوں کو بیس ہزار درہم دے کر وہ چادر لے لی اور عرصہ دراز تک وہ چادر سلاطین اسلام کے پاس ایک مقدس تبرک بن کر باقی رہی۔ (مدارج ج۲ ص۳۳۸)
(۴) “وحشی ” یہی وہ وحشی ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا تھا۔ یہ بھی فتح مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے مگر پھر طائف کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے اپنے چچا کے قتل کی خونی داستان سنی اور رنج و غم میں ڈوب گئے مگر ان کو بھی آپ نے معاف فرما دیا۔ لیکن یہ فرمایا کہ وحشی ! تم میرے سامنے نہ آیا کرو۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا بے حد ملال رہتا تھا۔ پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمۃ الکذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور لشکر اسلام نے اس ملعون سے جہاد کیا تو حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنا نیزہ لے کر جہاد میں شامل ہوئے اور مسیلمۃ الکذاب کو قتل کردیا۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ قَتَلْتُ خَيْرَ النَّاسِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَقَتَلْتُ شَرَّ النَّاسِ فِي الْاِسْلَامِ یعنی میں نے دور جاہلیت میں بہترین انسان (حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو قتل کیا اور اپنے دور اسلام میں بدترین آدمی (مسیلمۃ الکذاب) کو قتل کیا۔ انہوں نے درباراقدس میں اپنے جرائم کا اعتراف کر کے عرض کیا کہ کیا خدا مجھ جیسے مجرم کو بھی بخش دے گا ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ط اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ط اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (زمر)
یعنی اے حبیب آپ فرما دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر حد سے زیادہ گناہ کرلیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ یقینا بڑا بخشنے والااور بہت مہربان ہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۰۲)
مکہ کا انتظام :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے لئے حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ کا حاکم مقرر فرما دیا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا کہ وہ نو مسلموں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم دیتے رہیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۲۴)
اس میں اختلاف ہے کہ فتح کے بعد کتنے دنوں تک حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ میں قیام فرمایا۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ سترہ دن تک آپ مکہ میں مقیم رہے۔ اور ترمذی کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا۔ لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ انیس دن آپ مکہ میں ٹھہرے۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۵)
ان تینوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی جاسکتی ہے کہ ابوداؤد کی روایت میں مکہ میں داخل ہونے اور مکہ سے روانگی کے دونوں دنوں کو شمار نہیں کیا ہے اس لئے سترہ دن مدتِ اقامت بتائی ہے اور ترمذی کی روایت میں مکہ میں آنے کے دن کو تو شمار کرلیا۔ کیونکہ آپ صبح کو مکہ میں داخل ہوئے تھے اور مکہ سے روانگی کے دن کو شمار نہیں کیا۔ کیونکہ آپ صبح سویرے ہی مکہ سے حنین کے لئے روانہ ہوگئے تھے اور امام بخاری کی روایت میں آنے اور جانے کے دونوں دنوں کو بھی شمار کرلیا گیا ہے۔ اس لئے انیس دن آپ مکہ میں مقیم رہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
اسی طرح اس میں بڑا اختلاف ہے کہ مکہ کونسی تاریخ میں فتح ہوا ؟ اور آپ کس تاریخ کو مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے ؟ امام بیہقی نے ۱۳ رمضان، امام مسلم نے ۱۶ رمضان، امام احمد نے ۱۸ رمضان بتایا اور بعض روایات میں ۱۷ رمضان اور ۱۸ رمضان بھی مروی ہے۔ مگر محمد بن اسحاق نے اپنے مشائخ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ۲۰ رمضان ۸ ھ کو مکہ فتح ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی ج۲ ص ۲۹۹)
جنگ ِ حنین :۔
“حنین ” مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ” غزوہ ہوازن ” بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ” بنی ہوازن ” سے مقابلہ تھا۔
فتح مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثر وہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں توقف کررہے تھے اور فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔
لیکن مقام حنین میں ” ہوازن ” اور ” ثقیف ” نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فنون جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتح مکہ کا اُلٹا اثر پڑا۔ ان لوگوں پر غیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ ” درید بن الصمہ ” جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کر سکے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شوال ۸ ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نو مسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ” آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ “
لیکن خداو ند عالم عزوجل کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لیکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک
دم سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خدا عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ -
اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
اسی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دا ہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ يَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ فورًا آواز آئی کہ ” ہم حاضر ہیں، یا رسول اﷲ ! ” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پھر بائیں جانب رخ کر کے فرمایا کہ يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ فوراً آواز آئی کہ ” ہم حاضر ہیں، یا رسول اﷲ ! ” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو يَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اور يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زر ہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہو گئے جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلمانوں سے لڑتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداﷲ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتح مبین نے حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔(بخاري ج۲ ص۶۲۱ غزوه طائف)
یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن حکیم نے نہایت مؤثر انداز میں بیان فرمایا کہ
وَيَوْمَ حُنَيْنِ لا اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ کَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِيْنَ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ج وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا ط وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ (توبه)
اور حنین کا دن یاد کرو جب تم اپنی کثرت پر نازاں تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے پھر اﷲ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکروں کو اتار دیا جو تمہیں نظر نہیں آئے اور کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔
حنین میں شکست کھا کر کفار کی فوجیں بھاگ کر کچھ تو ” اوطاس ” میں جمع ہوگئیں اور کچھ ” طائف ” کے قلعہ میں جا کر پناہ گزین ہو گئیں۔ اس لئے کفار کی فوجوں کو مکمل طور پر شکست دینے کے لئے ” اوطاس ” اور ” طائف ” پر بھی حملہ کرنا ضروری ہو گیا۔
جنگ اوطاس :۔
چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں تھوڑی سی فوج ” اوطاس ” کی طرف بھیج دی۔ درید بن الصمہ کئی ہزار کی فوج لے کر نکلا۔ درید بن الصمہ کے بیٹے نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے زانو پر ایک تیر مارا حضرت ابو عامر اشعری حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چچا تھے۔ اپنے چچا کو زخمی دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دوڑ کر اپنے چچا کے پاس آئے اور پوچھا کہ چچا جان ! آپ کو کس نے تیر مارا ہے ؟ تو حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اشارہ سے بتایا کہ وہ شخص میرا قاتل ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اس کافر کو قتل کرنے کے لئے دوڑے تو وہ بھاگ نکلا۔ مگر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کا پیچھا کیا اور یہ کہہ کر کہ اے او بھاگنے والے! کیا تجھ کو شرم اور غیرت نہیں آتی ؟ جب اس کافر نے یہ گرم گرم طعنہ سنا تو ٹھہر گیا پھر دونوں میں تلوار کے دو دو ہاتھ ہوئے اور حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آخر اس کو قتل کر کے دم لیا۔ پھر اپنے چچا کے پاس آئے اور خوشخبری سنائی کہ چچا جان ! خدا نے آپ کے قاتل کا کام تمام کر دیا۔ پھر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچا کے زانو سے وہ تیر کھینچ کر نکالا تو چونکہ زہر میں بجھایا ہوا تھا اس لئے زخم سے بجائے خون کے پانی بہنے لگا۔ حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی جگہ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فوج کا سپہ سالار بنایا اور یہ وصیت کی کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اور میرے لئے دعا کی درخواست کرنا۔ یہ وصیت کی اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب اس جنگ سے فارغ ہو کر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اپنے چچا کا سلام اور پیغام پہنچایا تو اس وقت تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک بان کی چارپائی پر تشریف فرما تھے اور آپ کی پشت مبارک اور پہلوئے اقدس میں بان کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے پانی منگا کر وضو فرمایا ۔پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ لی اور اس طرح آپ نے دعا مانگی کہ ” یااﷲ ! عزوجل تو ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قیامت کے دن بہت سے انسانوں سے زیادہ بلند مرتبہ بنا دے۔ ” یہ کرم دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے لئے بھی دعا فرما دیجئے ؟ تو یہ دعا فرمائی کہ ” یااﷲ ! عزوجل تو عبداﷲ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے اور اس کو قیامت کے دن عزت والی جگہ میں داخل فرما۔ ” عبداﷲ بن قیس حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نام ہے۔(بخاری ج۲ ص۶۱۹ غزوه اوطاس)
بہر کیف حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درید بن الصمہ کے بیٹے کو قتل کر دیا اور اسلامی علم کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ درید بن الصمہ بڑھاپے کی وجہ سے ایک ہودج پر سوار تھا۔ اس کو حضرت ربیعہ بن رفیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خود اسی کی تلوار سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد کفار کی فوجوں نے ہتھیار ڈال دیا اور سب گرفتار ہو گئے۔ ان قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضاعی بہن حضرت ” شیماء ” رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ یہ حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی صاحبزادی تھیں۔ جب لوگوں نے ان کو گرفتار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں۔ مسلمان ان کو شناخت کے لئے بارگاہ نبوت میں لائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو پہچان لیا اور جوشِ محبت میں آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور کچھ اونٹ کچھ بکریاں ان کو دے کر فرمایا کہ تم آزاد ہو۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچا دوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ وہ ان کے قبیلے میں پہنچا دی گئیں۔ (طبری ج۳ ص۶۶۸)
طائف کا محاصرہ :۔
یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ حنین سے بھاگنے والی کفار کی فوجیں کچھ تو اوطاس میں جا کر ٹھہری تھیں اور کچھ طائف کے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اوطاس کی فوجیں تو آپ پڑھ چکے کہ وہ شکست کھا کر ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئیں اور سب گرفتار ہو گئیں۔ لیکن طائف میں پناہ لینے والوں سے بھی جنگ ضروری تھی۔ اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حنین اور اوطاس کے اموال غنیمت اور قیدیوں کو ” مقام جعرانہ ” میں جمع کرکے طائف کا رخ فرمایا۔
طائف خود ایک بہت ہی محفوظ شہر تھا جس کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار بنی ہوئی تھی اور یہاں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بھی تھا۔ یہاں کا رئیس اعظم عروہ بن مسعود ثقفی تھا جو ابو سفیان کا داماد تھا۔ یہاں ثقیف کا جو خاندان آباد تھا وہ عزت و
شرافت میں قریش کا ہم پلہ شمار کیا جاتا تھا۔ کفار کی تمام فوجیں سال بھر کا راشن لے کر طائف کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اسلامی افواج نے طائف پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور و شور کے ساتھ تیروں کی بارش شروع کر دی کہ لشکر اسلام اس کی تاب نہ لا سکا اور مجبوراً اس کو پسپا ہونا پڑا۔ اٹھارہ دن تک شہر کا محاصرہ جاری رہا مگر طائف فتح نہیں ہو سکا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جنگ کے ماہروں سے مشورہ فرمایا تو حضرت نوفل بن معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ” لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے کوئی اندیشہ نہیں۔ ” یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔ (زرقاني ج۳ ص۳۳)
طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اور کل بارہ اصحاب شہید ہوئے سات قریش، چار انصار اور ایک شخص بنی لیث کے۔ زخمیوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے عبداﷲ بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے یہ ایک تیر سے زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اچھے بھی ہو گئے، لیکن ایک مدت کے بعد پھر ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اِسی زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔ (زرقانی ج۳ ص۳۰)
طائف کی مسجد :۔
یہ مسجد جس کو حضرت عمرو بن امیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تعمیر کیا تھا ایک تاریخی مسجد ہے۔ اس جنگ طائف میں ازواجِ مطہرات میں سے دو ازواج ساتھ تھیں حضرت اُمِ سلمہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان دونوں کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو خیمے گاڑے تھے اور جب تک طائف کا محاصرہ رہا آپ ان دونوں خیموں کے درمیان میں نمازیں پڑھتے رہے۔ جب بعد میں قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان لوگوں نے اسی جگہ پر مسجد بنا لی۔ (زرقانی ج۳ ص۳۱)
جنگ طائف میں بت شکنی :۔
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طائف کا ارادہ فرمایا تو حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا کہ وہ ” ذوالکفین ” کے بت خانہ کو برباد کر دیں۔ یہاں عمر بن حممہ دوسی کا بت تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وہاں جا کر بت خانہ کو منہدم کر دیا اور بت کو جلا دیا۔ بت کو جلاتے وقت وہ ان اشعار کو پڑھتے جاتے تھے :۔
يَاذَا الْكَفَيْنِ لَسْتُ مِنْ عِبَادِكَا
اے ذالکفین ! میں تیرا بندہ نہیں ہوں
مِيْلَادُنَا اَقدم مِنْ مِيْلَادِكَا
میری پیدائش تیری پیدائش سے بڑی ہے
اِنِّيْ حَشَوْتُ النَّارَ فِيْ فُؤَادِكَا
میں نے تیرے دل میں آگ لگا دی ہے
حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چار دن میں اس مہم سے فارغ ہوکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس طائف میں پہنچ گئے۔ یہ ” ذوالکفین ” سے قلعہ توڑنے کے آلات منجنیق وغیرہ بھی لائے تھے۔ چنانچہ اسلام میں سب سے پہلی یہی منجنیق ہے جو طائف کا قلعہ توڑنے کے لئے لگائی گئی ۔مگر کفار کی فوجوں نے تیر اندازی کے ساتھ ساتھ گرم گرم لوہے کی سلاخیں پھینکنی شروع کر دیں اس وجہ سے قلعہ توڑنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ (زرقاني ج۳ ص۳۱)
اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیجا کہ طائف کے اطراف میں جو جا بجا ثقیف کے بت خانے ہیں ان سب کو منہدم کر دیں۔ چنانچہ آپ نے ان سب بتوں اور بت خانوں کو توڑ پھوڑ کر مسمار و برباد کردیا۔ اور جب لوٹ کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور بہت دیر تک ان سے تنہائی میں گفتگو فرماتے رہے، جس سے لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۱۸)
طائف سے روانگی کے وقت صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ قبیلہ ثقیف کے کفار کے لئے ہلاکت کی دعا فرما دیجئے۔ تو آپ نے دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ اهْدِ ثَقِيْفًا وَأْتِ بِهِمْ یااﷲ ! عزوجل ثقیف کو ہدایت دے اور انکو میرے پاس پہنچا دے۔ (مسلم ج۲ ص۳۰۷)
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی یہ دعا مقبول ہوئی کہ قبیلہ ثقیف کا وفد مدینہ پہنچا اور پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔
مالِ غنیمت کی تقسیم :۔
طائف سے محاصرہ اُٹھا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ” جعرانہ ” تشریف لائے۔ یہاں اموال غنیمت کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں، کئی من چاندی،اور چھ ہزار قیدی۔
اسیرانِ جنگ کے بارے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے رشتہ داروں کے آنے کا انتظار فرمایا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو آپ نے مال غنیمت کو تقسیم فرما دینے کا حکم دے دیا مکہ اور اس کے اطراف کے نو مسلم رئیسوں کو آپ نے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا۔ یہاں تک کہ کسی کو تین سو اونٹ، کسی کو دو سو اونٹ، کسی کو سو اونٹ انعام کے طور پر عطا فرما دیا۔ اسی طرح بکریوں کو بھی نہایت فیاضی کے ساتھ تقسیم فرمایا۔ (سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۸۹)
انصاریوں سے خطاب :۔
جن لوگوں کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بڑے بڑے انعامات سے نوازا وہ عموماً مکہ والے نو مسلم تھے۔ اس پر بعض نوجوان انصاریوں نے کہا کہ
“رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قریش کو اس قدر عطا فرما رہے ہیں اور ہم لوگوں کا کچھ بھی خیال نہیں فرما رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے۔”(بخاری ج۲ ص۶۲۰ غزوه طائف)
اور انصار کے کچھ نوجوانوں نے آپس میں یہ بھی کہا اور اپنی دل شکنی کا اظہار کیا کہ جب شدید جنگ کا موقع ہوتا ہے تو ہم انصاریوں کو پکارا جاتا ہے اور غنیمت دوسرے لوگوں کو دی جا رہی ہے۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۱ غزوه طائف)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب یہ چرچا سنا تو تمام انصاریوں کو ایک خیمہ میں جمع فرمایا اور ان سے ارشاد فرمایا کہ اے انصار ! کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے سرداروں میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں کہا ہے۔ ہاں چند نئی عمر کے لڑکوں نے ضرور کچھ کہہ دیا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم پہلے گمراہ تھے میرے ذریعہ سے خدا نے تم کو ہدایت دی، تم متفرق اور پراگندہ تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم میں اتفاق و اتحاد پیدا فرمایا، تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو غنی بنا دیا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۰ غزوئہ طائف)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار آپ کے ہر جملہ کو سن کر یہ کہتے جاتے تھے کہ ” اﷲ اور رسول کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ ”
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے انصار ! تم لوگ یوں مت کہو، بلکہ مجھ کو یہ جواب دو کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تو ہم لوگوں نے آپ کی تصدیق کی۔ جب لوگوں نے آپ کو چھوڑ دیا تو ہم لوگوں نے آپ کو ٹھکانا دیا۔ جب آپ بے سرو سامانی کی حالت میں آئے تو ہم نے ہر طرح سے آپ کی خدمت کی۔ لیکن اے انصاریو ! میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں تم مجھے اس کا جواب دو۔ سوال یہ ہے کہ
کیا تم لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ سب لوگ یہاں سے مال و دولت لے کر اپنے گھر جائیں اور تم لوگ اﷲ کے نبی کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔ خدا کی قسم ! تم لوگ جس چیز کو لے کر اپنے گھر جاؤ گے وہ اس مال و دولت سے بہت بڑھ کر ہے جس کو وہ لوگ لے کر اپنے گھر جائیں گے۔
یہ سن کر انصار بے اختیار چیخ پڑے کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم اس پر راضی ہیں۔ ہم کو صرف اﷲ عزوجل کا رسول چاہیے اور اکثر انصار کا تو یہ حال ہو گیا کہ وہ روتے روتے بے قرار ہو گئے اور آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کو سمجھایا کہ مکہ کے لوگ بالکل ہی نو مسلم ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو جو کچھ دیا ہے یہ ان کے استحقاق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف ان کے دلوں میں اسلام کی اُلفت پیدا کرنے کی غرض سے دیا ہے، پھر ارشاد فرمایا کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ہوتا اور اگر تمام لوگ کسی وادی اور گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی دوسری وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۰ و ص۶۲۱ غزوه طائف)
قیدیوں کی رہائی :۔
آپ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صرد چند معززین کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیران جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مؤثر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اے محمد ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حلیمہ کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم ! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔
زہیر کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت زیادہ متأثر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت زیادہ انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بہت زیادہ دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں۔ میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نماز ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیران جنگ کی رہائی ہو گئی۔(سيرتِ ابن هشام ج۴ ص۴۸۸ و ص۴۸۹)
بخاری شریف کی روایت یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دس دنوں تک ” ہوازن ” کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ” ہوازن ” کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کر کے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو ! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کر سکتا۔ ہاں ان دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو یا مال لے لو یا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ نے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ
اے مسلمانوں ! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں اور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو مں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علہ وسلم) ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی ؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے چودھریوں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے چودھریوں نے دربار رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔ (بخاری ج۱ ص۳۴۵ باب من ملک من العرب و بخاری ج۲ ص۳۰۹ باب الوکالة في قضاء الديون و بخاری ج۲ ص۶۱۸)
غیب داں رسول صلی اﷲ تعالیٰ علہ وسلم :۔
رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہوازن کے وفد سے دریافت فرمایا کہ مالک بن عوف کہاں ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ” ثقیف” کے ساتھ طائف میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مالک بن عوف کو خبر کردو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آ جائے تو میں اس کا سارا مال اس کو واپس دے دوں گا۔ اس کے علاوہ اس کو ایک سو اونٹ اور بھی دوں گا۔ مالک بن عوف کو جب یہ خبر ملی تو وہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمان ہو کر حاضر ہو گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا کل مال ان کے سپرد فرما دیا اور وعدہ کے مطابق ایک سو اونٹ اس کے علاوہ بھی عنایت فرمائے۔ مالک بن عوف آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس خلق عظیم سے بے حد متأثر ہوئے اور آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس کے دو شعر یہ ہیں :۔
یعنی تمام انسانوں میں حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مثل نہ میں نے دیکھا نہ سنا جو سب سے زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والے اور سب سے زیادہ مال کثیر عطا فرمانے والے ہیں۔ اور جب تم چاہو ان سے پوچھ لو وہ کل آئندہ کی خبر تم کو بتا دیں گے۔
روایت ہے کہ نعت کے یہ اشعار سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سے خوش ہو گئے اور ان کے لئے کلمات خیر فرماتے ہوئے انہیں بطور انعام ایک حلہ بھی عنایت فرمایا۔ (سیرت ابن هشام ج۴ ص۴۹۱ و مدارج ج۲ ص۳۲۴)
عمرۂ جِعرانہ :۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جِعرانہ ہی سے عمرہ کا ارادہ فرمایا اور احرام باندھ کر مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد پھر مدینہ واپس تشریف لے گئے اور ذوالقعدہ ۸ ھ کو مدینہ میں داخل ہوئے۔
ھ ۸ کے متفرق واقعات :۔
(۱) اسی سال رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔
اتفاق سے جس دن ان کی وفات ہوئی سورج گرہن ہوا چونکہ عربوں کا عقیدہ تھا کہ کسی عظیم الشان انسان کی موت پر سورج گرہن لگتا ہے۔ اس لئے لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا نتیجہ ہے۔ جاہلیت کے اس عقیدہ کو دور فرمانے کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ چاند اور سورج میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز کسوف جماعت کے ساتھ پڑھی۔ (بخاری ج۱ ص۱۴۲ ابواب الکسوف )
(۲) اسی سال حضور نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی۔ یہ صاحبزادی صاحبہ حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی منکوحہ تھیں۔ انہوں نے ایک فرزند جس کا نام ” علی ” تھا اور ایک لڑکی جن کا نام ” امامہ ” تھا، اپنے بعد چھوڑا۔ حضرت بی بی فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وصیت پر عمل کیا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۲۵)
(۳) اسی سال مدینہ میں غلہ کی گرانی بہت زیادہ بڑھ گئی تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے درخواست کی کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ غلہ کا بھاؤ مقرر فرما دیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غلہ کی قیمت پر کنٹرول فرمانے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ اللهَ هُوَ الْمُسَعّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ
اﷲ وہی بھاؤ مقرر فرمانے والا ہے وہی روزی کو تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا، روزی رساں ہے۔ ( مدارج النبوة ج۲ ص۳۲۵)
(۴)بعض مؤرخین کے بقول اسی سال مسجد نبوی میں منبر شریف رکھا گیا۔ اس سے قبل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے اور بعض مؤرخین کا قول ہے کہ منبر ۷ ھ میں رکھا گیا۔ یہ منبر لکڑی کا بنا ہوا تھا جو ایک انصاری عورت نے بنوا کر مسجد میں رکھوایا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ میں اس منبر کو تبرکاً ملک شام لے جاؤں مگر انہوں نے جب اس کو اس کی جگہ سے ہٹایا تو اچانک سارے شہر میں ایسا اندھیرا چھا گیا کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت شرمندہ ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے معذرت خواہ ہوئے اور انہوں نے اس منبر کے نیچے تین سیڑھیوں کا اضافہ کر دیا۔ جس سے منبر نبوی کی تینوں پرانی سیڑھیاں اوپر ہو گئیں تاکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم جن سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے اب دوسرا کوئی خطیب ان پر قدم نہ رکھے۔ جب یہ منبر بہت زیادہ پرانا ہو کر انتہائی کمزور ہو گیا تو خلفاء عباسیہ نے بھی اس کی مرمت کرائی۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۷)
(۵) اسی سال قبیلہ عبد القیس کا وفد حاضر خدمت ہوا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو خوش آمدید کہا اور ان لوگوں کے حق میں یوں دعا فرمائی کہ ” اے اﷲ ! عزوجل تو عبد القیس کو بخش دے ” جب یہ لوگ بارگاہ رسالت میں پہنچے تو اپنی سواریوں سے کود کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس قدم کو چومنے لگے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو منع نہیں فرمایا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۳۰)
توبہ کی فضیلت :۔
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهٗیعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں(سنن ابن ماجه حدیث۴۲۵۰ ص۲۷۳۵)
” تخییر ” اور “ایلاء” یہ شریعت کے دو اصطلاحی الفاظ ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو اپنی طرف سے یہ اختیار دے دے کہ وہ چاہے تو طلاق لے لے اور چاہے تو اپنے شوہر ہی کے نکاح میں رہ جائے اس کو ” تخییر ” کہتے ہیں۔ اور “ایلاء” یہ ہے کہ شوہر یہ قسم کھا لے کہ میں اپنی بیوی سے صحبت نہیں کروں گا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے ناراض ہو کر ایک مہینہ کا “ایلاء” فرمایا یعنی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک اپنی ازواج مقدسہ سے صحبت نہیں کروں گا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق حاصل کرنے کا اختیار بھی سونپ دیا مگر کسی نے بھی طلاق لینا پسند نہیں کیا۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناراضگی اور عتاب کا سبب کیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے “تخییر و ایلاء” کیوں فرمایا ؟ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس بیویاں تقریباً سب مالدار اور بڑے گھرانوں کی لڑکیاں تھیں۔ ” حضرت ام حبیبہ ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رئیس مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ” حضرت جویریہ ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ ” حضرت صفیہ ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں۔ “حضرت عائشہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیاری بیٹی تھیں۔ “حضرت حفصہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی چہیتی صاحبزادی تھیں۔ “حضرت زینب بنت جحش” اور “حضرت اُمِ سلمہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امیر زادیاں بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، خوردونوش، لباس و پوشاک سب کچھ امیرزادیوں کی رئیسانہ زندگی کا آئینہ دار تھا اور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی بالکل ہی زاہدانہ اور دنیوی تکلفات سے یکسر بے گانہ تھی۔ دو دو مہینے کاشانہ نبوت میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی مکان اور گھر کے سازو سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے سرمایہ کا اکثر و بیشتر حصہ اپنی امت کے غربا و فقراء پر صرف فرما دیتے تھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کو بقدرِ ضرورت ہی خرچ عطا فرماتے تھے جو ان رئیس زادیوں کے حسب خواہ زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھی ان امت کی ماؤں کا پیمانہ صبر و قناعت لبریز ہو کر چھلک جاتا تھا اور وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مزید رقموں کا مطالبہ اور تقاضا کرنے لگتی تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے متفقہ طور پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے اخراجات میں اضافہ فرمائیں۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی یہ ادائیں مہر نبوت کے قلب نازک پر بار گزریں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سکونِ خاطر میں اس قدر خلل انداز ہوئیں کہ آپ نے برہم ہو کر یہ قسم کھا لی کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے نہ ملیں گے۔ اس طرح ایک ماہ کا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے “ایلاء” فرما لیا۔
عجیب اتفاق کہ انہی ایام میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے جس سے آپ کی مبارک پنڈلی میں موچ آ گئی۔ اس تکلیف کی وجہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بالاخانہ پر گوشہ نشینی اختیار فرما لی اور سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے واقعات کے قرینوں سے یہ قیاس آرائی کر لی کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق دے دی اور یہ خبر جو بالکل ہی غلط تھی بجلی کی طرح پھیل گئی۔ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم رنج و غم سے پریشان حال اور اس صدمہ جانکاہ سے نڈھال ہونے لگے۔
اس کے بعد جو واقعات پیش آئے وہ بخاری شریف کی متعدد روایات میں مفصل طورپر مذکور ہیں۔ ان واقعات کا بیان حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زَبان سے سنیے۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں اور میرا ایک پڑوسی جو انصاری تھا ہم دونوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ ہم دونوں ایک ایک دن باری باری سے بارگاہ رسالت میں حاضری دیا کریں گے اور دن بھر کے واقعات سے ایک دوسرے کو مطلع کرتے رہیں گے۔ ایک دن کچھ رات گزرنے کے بعد میرا پڑوسی انصاری آیا اور زور زور سے میرا دروازہ پیٹنے اور چلا چلا کر مجھے پکارنے لگا۔ میں نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو اس نے کہا کہ آج غضب ہو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا غسانیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا ؟ (ان دنوں شام کے غسانی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے۔) انصاری نے جواب دیا کہ اجی اس سے بھی بڑھ کر حادثہ رونما ہو گیا۔ وہ یہ کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس خبر سے بے حد مُتوحّش ہو گیا اور علی الصباح میں نے مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں نماز فجر ادا کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے ہی بالاخانہ پر جا کر تنہا تشریف فرما ہو گئے اور کسی سے کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔ میں مسجد سے نکل کر اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیٹھی رو رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو سمجھا دیا تھا کہ تم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تنگ مت کیا کرو اور تمہارے اخراجات میں جو کمی ہوا کرے وہ مجھ سے مانگ لیا کرو مگر تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سبھوں کو طلاق دے دی ہے ؟ حفصہ نے کہا میں کچھ نہیں جانتی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ پر ہیں آپ ان سے دریافت کریں۔ میں وہاں سے اُٹھ کر مسجد میں آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی دیکھا کہ وہ منبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھا لیکن میری طبیعت میں سکون و قرار نہیں تھا۔ اس لئے میں اُٹھ کر بالاخانہ کے پاس آیا اور پہرہ دار غلام ” رباح ” سے کہا کہ تم میرے لئے اندر آنے کی اجازت طلب کرو۔ رباح نے لوٹ کر جواب دیا کہ میں نے عرض کر دیا لیکن آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری اُلجھن اور بے تابی اور زیادہ بڑھ گئی اور میں نے دربان سے دوبارہ اجازت طلب کرنے کی درخواست کی پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ تو میں نے بلند آواز سے کہا کہ اے رباح ! تم میرا نام لے کر اجازت طلب کرو۔ شاید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خیال ہو کہ میں اپنی بیٹی حفصہ کے لئے کوئی سفارش لے کر آیا ہوں۔ تم عرض کر دو کہ خدا کی قسم ! اگر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے حکم فرمائیں تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے اپنی بیٹی حفصہ کی گردن اڑا دوں۔ اس کے بعد مجھ کو اجازت مل گئی جب میں بارگاہِ رسالت میں باریاب ہوا تو میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک کھری بان کی چارپائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم نازک پر بان کے نشان پڑے ہوئے ہیں پھر میں نے نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک طرف تھوڑے سے ” جو ” رکھے ہوئے تھے اور ایک طرف ایک کھال کھونٹی پر لٹک رہی تھی۔ تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خزانہ کی یہ کائنات دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے بڑھ کر رونے کا اور کونسا موقع ہو گا ؟ کہ قیصر و کسریٰ خدا کے دشمن تو نعمتوں میں ڈوبے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے رسول معظم ہوتے ہوئے اس حالت میں ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ قیصر و کسریٰ دنیا لیں اور ہم آخرت !
اس کے بعد میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مانوس کرنے کے لئے کچھ اور بھی گفتگو کی یہاں تک کہ میری بات سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لب انور پر تبسم کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ نے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” نہیں ” مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے میں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ پھر میں نے یہ گزارش کی یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں غم کے مارے بیٹھے رو رہے ہیں اگر اجازت ہو تو میں جا کر ان لوگوں کو مطلع کر دوں کہ طلاق کی خبر سراسر غلط ہے۔ چنانچہ مجھے اس کی اجازت مل گئی اور میں نے جب آ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی خبر دی تو سب لوگ خوش ہو کر ہشاش بشاش ہو گئے اور سب کو سکون و اطمینان حاصل ہو گیا۔
جب ایک مہینہ گزر گیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قسم پوری ہو گئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ سے اتر آئے اس کے بعد ہی آیت تخییر نازل ہوئی جو یہہے :
ٰۤياَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوٰجِكَ اِنْ کُنْـتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ﴿۲۸﴾ وَ اِنْ کُنْـتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ﴿۲۹﴾ (احزاب)
اے نبی ! اپنی بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح چھوڑ دوں اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بے شک اﷲ نے تمہاری نیکی والیوں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
ان آیاتِ بینات کا ماحصل اور خلاصہ مطلب یہ ہے کہ رسولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند ِ قدوس نے یہ حکم دیا کہ آپ اپنی مقدس بیویوں کو مطلع فرما دیں کہ دو چیزیں تمہارے سامنے ہیں۔ ایک دنیا کی زینت و آرائش دوسری آخرت کی نعمت۔ اگر تم دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہو تو پیغمبر کی زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ زندگی ہے اس لئے پیغمبر کے گھر میں تمہیں یہ دنیوی زینت و آرائش تمہاری مرضی کے مطابق نہیں مل سکتی، لہٰذا تم سب مجھ سے جدائی حاصل کر لو۔ میں تمہیں رخصتی کا جوڑا پہنا کر اور کچھ مال دے کر رخصت کر دوں گا۔ اور اگر تم خدا و رسول اور آخرت کی نعمتوں کی طلب گار ہو تو پھر رسولِ خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹی رہو۔ خداعزوجل نے تم نیکوکاروں کے لئے بہت ہی بڑا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے جو تم کو آخرت میں ملے گا۔ (بخاری کتاب الطلاق کتاب العلم۔ کتاب اللباس باب موعظة الرجل ابنته لحال زوجها)
اس آیت کے نزول کے بعد سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک بات رکھتا ہوں مگر تم اس کے جواب میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کر کے مجھے جواب دینا۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا تخییر کی آیت تلاوت فرما کر ان کو سنائی تو انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم يفَفِيْ اَيِّ هٰذَا اَسْتَامِرُ اَبَوَيَّ فَاِنِّيْ اُرِيْدُ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ(بخاری ج۲ ص۷۹۲ باب من خير نساء )
اس معاملہ میں بھلا میں کیا اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اﷲ اور اسکے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو الگ الگ آیت تخییر سنا سنا کر سب کو اختیار دیا اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا تھا۔
اﷲ اکبر ! یہ واقعہ اس بات کی آفتاب سے زیادہ روشن دلیل ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات سے کس قدر عاشقانہ شیفتگی اور والہانہ محبت تھی کہ کئی کئی سوکنوں کی موجودگی اور خانہ نبوت کی سادہ اور زاہدانہ طرزِ معاشرت اور تنگی ترشی کی زندگی کے باوجود یہ رئیس زادیاں ایک لمحہ کے لئے بھی رسول کے دامن رحمت سے جدائی گوارا نہیں کر سکتی تھیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ :۔
احادیث کی روایتوں اور تفسیروں میں ” ایلاء ” آیت ” تخییر ” اور حضرت عائشہ و حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا ” مظاہرہ ” ان واقعات کو عام طور پر الگ الگ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ مختلف زمانوں کے مختلف واقعات ہیں۔ اس سے ایک کم علم و کم فہم اور ظاہربین انسان کو یہ دھوکہ ہو سکتا ہے کہ شاید رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے تعلقات خوشگوار نہ تھے اور کبھی ” ایلاء ” کبھی ” تخییر ” کبھی ” مظاہرہ ” ہمیشہ ایک نہ ایک جھگڑا ہی رہتا تھا لیکن اہل علم پر مخفی نہیں کہ یہ تینوں واقعات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ چنانچہ بخاری شریف کی چند روایات خصوصاً بخاری کتاب النکاح باب موعظة الرجل ابنته لحال زوجها میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی جو مفصل روایت ہے، اس میں صاف طور پر یہ تصریح ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایلاء کرنا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے الگ
ہو کر بالا خانہ پر تنہا نشینی کر لینا، حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا مظاہرہ کرنا، آیت تخییر کا نازل ہونا، یہ سب واقعات ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی وقت میں یہ سب واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے خوشگوار تعلقات جس قدر عاشقانہ اُلفت و محبت کے آئینہ دار رہے ہیں قیامت تک اس کی مثال نہیں مل سکتی اور نبوت کی مقدس زندگی کے بے شمار واقعات اس اُلفت و محبت کے تعلقات پر گواہ ہیں۔ جو احادیث و سیرت کی کتابوں میں آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے اور داستانِ عشق و محبت کے چمنستانوں میں موسم بہار کے پھولوں کی طرح مہکتے ہیں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِهٖ وَ اَصْحَابِهٖ وَ اَزْوَاجِهِ الْطَاهِرَاتِ اُمَّهَاتِ الْمُوْمِنِيْنَ اَبَدَ الْاَبَدِيْنَ بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ
عاملوں کا تقرر :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ۹ ھ محرم کے مہینے میں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی کے لئے عاملوں اور محصّلوں کو مختلف قبائل میں روانہ فرمایا۔ ان امراء و عاملین کی فہرست میں مندرج ذیل حضرات خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جن کو ابن سعد نے ذکر فرمایا ہے۔
یہ حضور شہنشاہ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے امراء اور عاملین ہیں جن کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے زکوٰۃ و صدقات و جزیہ وصول کرنے کے لئے مقرر فرمایا تھا۔(اصح السير ص۳۳۵)
بنی تمیم کا وفد :۔
محرم ۹ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بشر بن سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی خزاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے صدقات وصول کرکے جمع کئے کہ ناگہاں ان پر بنی تمیم نے حملہ کر دیا وہ اپنی جان بچا کر کسی طرح مدینہ آ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی سرکوبی کے لئے حضرت عیینہ بن حصن فزاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے بنی تمیم پر ان کے صحرا میں حملہ کرکے ان کے گیارہ مردوں، اکیس عورتوں اور تیس لڑکوں کو گرفتار کر لیا اور ان سب قیدیوں کو مدینہ لائے۔ (زرقانی ج۳ ص۴۳)
اس کے بعد بنی تمیم کا ایک وفد مدینہ آیا جس میں اس قبیلے کے بڑے بڑے سردار تھے اور ان کا رئیس اعظم اقرع بن حابس اور ان کا خطیب ” عطارد ” اور شاعر ” زبرقان بن بدر ” بھی اس وفد میں ساتھ آئے تھے۔ یہ لوگ دندناتے ہوئے کاشانہ نبوت کے پاس پہنچ گئے اور چلانے لگے کہ آپ نے ہماری عورتوں اور بچوں کو کس جرم میں گرفتار کرر کھا ہے۔
اس وقت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ہر چند حضرت بلال اور دوسرے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو منع کیا کہ تم لوگ کاشانۂ نبوی کے پاس شور نہ مچاؤ۔ نماز ظہر کے لئے خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لانے والے ہیں۔ مگر یہ لوگ ایک نہ مانے شور مچاتے ہی رہے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باہر تشریف لا کر مسجد نبوی میں رونق افروز ہوئے تو بنی تمیم کا رئیس اعظم اقرع بن حابس بولا کہ اے محمد ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گفتگو کریں کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جس کی مدح کردیں وہ مزین ہو جاتا ہے اور ہم لوگ جس کی مذمت کر دیں وہ عیب سے داغدار ہو جاتا ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔ یہ خداوند تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ اس کی مدح زینت اور اس کی مذمت داغ ہے تم لوگ یہ کہو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ؟ یہ سن کر بنی تمیم کہنے لگے کہ ہم اپنے خطیب اور اپنے شاعر کو لے کر یہاں آئے ہیں تا کہ ہم اپنے قابل فخر کارناموں کو بیان کریں اور آپ اپنے مفاخر کو پیش کریں۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں شعر و شاعری کے لئے بھیجا گیا ہوں نہ اس طرح کی مفاخرت کا مجھے خدا عزوجل کی طرف سے حکم ملا ہے۔ میں تو خدا کا رسول ہوں اس کے باوجود اگر تم یہی کرنا چاہتے ہو تو میں تیار ہوں۔
یہ سنتے ہی اقرع بن حابس نے اپنے خطیب عطارد کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے کھڑے ہو کر اپنے مفاخر اور اپنے آباء واجداد کے مناقب پر بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایک دھواں دھار خطبہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جواب دینے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے اٹھ کر برجستہ ایسا فصیح و بلیغ اور موثر خطبہ دیا کہ بنی تمیم ان کے زورِ کلام اور مفاخر کی عظمت سن کر دنگ رہ گئے۔ اور ان کا خطیب عطارد بھی ہکا بکا ہو کر شرمندہ ہو گیا پھر بنی تمیم کا شاعر ” زبرقان بن بدر ” اٹھا اور اس نے ایک قصیدہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اشارہ فرمایا تو انہوں نے فی البدیہہ ایک ایسا مرصع اور فصاحت و بلاغت سے معمور قصیدہ پڑھ دیا کہ بنی تمیم کا شاعر اُلو بن گیا۔ بالآخر اقرع بن حابس کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو غیب سے ایسی تائید و نصرت حاصل ہو گئی ہے کہ ہر فضل و کمال ان پر ختم ہے۔ بلاشبہ ان کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطیع و فرمانبردار ہو گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ پھر ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قیدیوں کو رہا فرما دیا اور یہ لوگ اپنے قبیلے میں واپس چلے گئے۔
انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰي تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(حجرات)
بے شک وہ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔ ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۳۲ و زرقانی ج۳ ص۴۴)
حاتم طائی کی بیٹی اور بیٹا مسلمان :۔
ربیع الآ خر ۹ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک سو پچاس سواروں کو اس لئے بھیجا کہ وہ قبیلہ “طی” کے بت خانہ کو گرا دیں۔ ان لوگوں نے شہر فلس میں پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کر ڈالا اور کچھ اونٹوں اور بکریوں کو پکڑ کر اور چند عورتوں کو گرفتار کرکے یہ لوگ مدینہ لائے۔ ان قیدیوں میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم بھاگ کر ملک ِ شام چلا گیا۔ حاتم طائی کی لڑکی جب بارگاہ رسالت میں پیش کی گئی تو اس نے کہا یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ” حاتم طائی ” کی لڑکی ہوں۔ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی ” عدی بن حاتم ” مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں ضعیفہ ہوں آپ مجھ پر احسان کیجئے خدا آپ پر احسان کرے گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دیا اور سفر کے لئے ایک اونٹ بھی عنایت فرمایا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی اور اس کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ نبوت سے آگاہ کیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بہت زیادہ تعریف کی۔ عدی بن حاتم اپنی بہن کی زبانی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلق عظیم اور عاداتِ کریمہ کے حالات سن کر بے حد متاثر ہوئے اور بغیر کوئی امان طلب کئے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے۔ لوگوں نے بارگاہ نبوت میں یہ خبر دی کہ عدی بن حاتم آ گیا ہے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انتہائی کریمانہ انداز سے عدی بن حاتم کے ہاتھ کو اپنے دست ِ رحمت میں لے لیا اور فرمایا کہ اے عدی ! تم کس چیز سے بھاگے ؟ کیا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہنے سے تم بھا گے ؟ کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے ؟ عدی بن حاتم نے کہا کہ ” نہیں ” پھر کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے ان کے اسلام قبول کرنے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس قدر خوشی ہوئی کہ فرطِ مسرت سے آپ کا چہرۂ انور چمکنے لگا اور آپ نے ان کو خصوصی عنایات سے نوازا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنے باپ حاتم کی طرح بہت ہی سخی تھے۔ حضرت امام احمد ناقل ہیں کہ کسی نے ان سے ایک سو درہم کا سوال کیا تو یہ خفا ہوگئے اور کہا کہ تم نے فقط ایک سو درہم ہی مجھ سے مانگا تم نہیں جانتے کہ میں حاتم کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ! میں تم کو اتنی حقیر رقم نہیں دوں گا۔
یہ بہت ہی شاندار صحابی ہیں، خلافت صدیق اکبر میں جب بہت سے قبائل نے اپنی زکوٰۃ روک دی اور بہت سے مرتد ہو گئے یہ اس دور میں بھی پہاڑ کی طرح اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی قوم کی زکوٰۃ لا کر بارگاہ خلافت میں پیش کی اور عراق کی فتوحات اور دوسرے اسلامی جہادوں میں مجاہد کی حیثیت سے شریک ہوئے اور ۶۸ ھ میں ایک سو بیس برس کی عمر پا کر وصال فرمایا اور صحاح ستہ کی ہر کتاب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیثیں مذکور ہیں۔ (زرقانی ج۳ ص۵۳ و مدارج ج۲ ص۳۳۷)
غزوۂ تبوک :۔
” تبوک” مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ “تبوک” ایک قلعہ کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ “تبوک” ایک چشمہ کا نام ہے ۔ ممکن ہے یہ سب باتیں موجود ہوں!
یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ طویل سفر، ہواگرم، سواری کم، کھانے پینے کی تکلیف، لشکر کی تعداد بہت زیادہ، اس لیے اس غزوہ میں مسلمانوں کو بڑی تنگی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کو “جیش العسرۃ” (تنگ دستی کا لشکر) بھی کہتے ہیں اور چونکہ منافقوں کو اس غزوہ میں بڑی شرمندگی اور شرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام “غزوہ فاضحہ” (رسوا کرنے والا غزوہ) بھی ہے۔ اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ماہ رجب ۹ ھ جمعرات کے دن روانہ ہوئے۔ (زرقانی ج ۳ص ۶۳)
غزوۂ تبوک کا سبب :۔
عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِ شام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔
لیکن جیسا کہ ہم تحریر کرچکے ہیں کہ اس وقت حجازِ مقدس میں شدید قحط تھا اور بے پناہ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی ان وجوہات سے لوگوں کو گھر سے نکلنا شاق گزر رہا تھا۔ مدینہ کے منافقین جن کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہو گیا۔ مگر ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامان جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھا کیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مفلوک الحال اور پریشان تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام قبائل عرب سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔ اس طرح اسلام میں کسی کا رخیر کے لیے چندہ کرنے کی سنت قائم ہوئی۔
فہرست چندہ دہندگان :۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال اور گھر کا تمام اثاثہ یہاں تک کہ بدن کے کپڑے بھی لا کر بارگاہ نبوت میں پیش کر دیئے۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا آدھا مال اس چندہ میں دے دیا۔ منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اپنا نصف مال لے کر بارگاہ اقدس میں چلے تو اپنے دل میں یہ خیال کرکے چلے تھے کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا کیونکہ اس دن کاشانۂ فاروق میں اتفاق سے بہت زیادہ مال تھا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر ! کتنا مال یہاں لائے اور کس قدر گھر پر چھوڑا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آدھا مال حاضر خدمت ہے اور آدھا مال اہل و عیال کے لئے گھر میں چھوڑ دیا ہے اور جب یہی سوال اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اِدَّ خَرْتُ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ میں نے اﷲ اور اس کے رسول کو اپنے گھر کا ذخیرہ بنا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مَا بَيْنَکُمَا مَا بَيْنَ کَلِمَتَيْكُمَا تم دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا تم دونوں کے کلاموں میں فرق ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مجاہدین کی سواری کے لئے اور ایک ہزار اشرفی فوج کے اخراجات کی مد میں اپنی آستین میں بھر کر لائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آغوش مبارک میں بکھیر دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو قبول فرما کر یہ دعا فرمائی کہ اَللّٰهُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّيْ عَنْهُ رَاضٍ اے اﷲ تو عثمان سے راضی ہو جا کیونکہ میں اس سے خوش ہو گیا ہوں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چالیس ہزار درہم دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے گھر میں اس وقت اسی ہزار درہم تھے۔ آدھا بارگاہ اقدس میں لایا ہوں اور آدھا گھر پر بال بچوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس میں بھی برکت دے جو تم لائے اور اس میں بھی برکت عطا فرمائے جو تم نے گھر پر رکھا۔ اس دعاء نبوی کا یہ اثر ہوا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ مالدار ہو گئے۔
اسی طرح تمام انصار و مہاجرین نے حسب توفیق اس چندہ میں حصہ لیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات اتار اتار کر بارگاہ نبوت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کئی من کھجوریں دیں۔ اور حضرت ابو عقیل انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بہت ہی مفلس تھے فقط ایک صاع کھجور لے کر حاضر خدمت ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے دن بھر پانی بھر بھر کر مزدوری کی تو دو صاع کھجوریں مجھے مزدوری میں ملی ہیں۔ ایک صاع اہل و عیال کو دے دی ہے اور یہ ایک صاع حاضر خدمت ہے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک اپنے ایک مفلس جاں نثار کے اس نذرانہ خلوص سے بیحد متاثر ہوا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کھجور کو تمام مالوں کے اوپر رکھ دیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۴۵ تا ص۳۴۶)
فوج کی تیاری :۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملہ میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عساکر اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے ؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصر روم کی فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جیسا کہ لکھا جا چکا دل کھول کر چندہ دیا مگر پھر بھی پوری فوج کے لئے سواریوں کا انتظام نہ ہو سکا۔ چنانچہ بہت سے جانباز مسلمان اسی بنا پر اس جہاد میں شریک نہ ہو سکے کہ ان کے پاس سفر کا سامان نہیں تھا یہ لوگ دربار رسالت میں سواری طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے مگر جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے تو یہ لوگ اپنی بے سروسامانی پر اس طرح بلبلا کر روئے کہ حضوررحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی آہ و زاری اور بے قراری پر رحم آ گیا۔ چنانچہ قرآن مجید گواہ ہے کہ
وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآاَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ص تَوَلَّوْا وَّ اَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلاَّيَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ(سورة التوبه)
اور نہ ان لوگوں پر کچھ حرج ہے کہ وہ جب (اے رسول) آپ کے پاس آئے کہ ہم کو سواری دیجئے اور آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ واپس گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہمارے پاس خرچ نہیں ہے۔
تبوک کو روانگی :۔
بہر حال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لئے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا۔ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر خود جہاد کے لئے تشریف لئے جا رہے ہیں تو ارشاد فرمایا کہ
اَلَا تَرْضٰي اَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰي اِلاَّ اَنَّهٗ لَيْسَ نَبِيَّ بَعْدِيْ(بخاری ج۲ ص۶۳۳ غزوه تبوک)
کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنی امت بنی اسرائیل کی دیکھ بھال کے لئے اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے اسی طرح میں تم کو اپنی امت سونپ کر جہاد کے لئے جا رہا ہوں۔
مدینہ سے چل کر مقام ” ثنیۃ الوداع ” میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ پھر فوج کا جائزہ لیا اور فوج کا مقدمہ، میمنہ، میسرہ وغیرہ مرتب فرمایا۔ پھر وہاں سے کوچ کیا۔ منافقین قسم قسم کے جھوٹے عذر اور بہانے بنا کر رہ گئے اور مخلص مسلمانوں میں سے بھی چند حضرات رہ گئے ان میں یہ حضرات تھے، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع، ابوخیثمہ، ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ ان میں سے ابو خیثمہ اور ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو بعد میں جا کر شریک جہاد ہو گئے لیکن تین اول الذکر نہیں گئے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا سبب یہ ہوا کہ ان کا اونٹ بہت ہی کمزور اور تھکا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کو چند دن چارہ کھلایا تا کہ وہ چنگا ہو جائے۔ جب روانہ ہوئے تو وہ پھر راستہ میں تھک گیا۔ مجبوراً وہ اپنا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر چل پڑے اور اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔(زرقانی ج۳ ص۷۱)
حضرت ابو خیثمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر وہ ایک دن شدید گرمی میں کہیں باہر سے آئے تو ان کی بیوی نے چھپر میں چھڑ کاؤ کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر اس سایہ دار اور ٹھنڈی جگہ میں بیٹھے پھر ناگہاں ان کے دل میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خیال آ گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں تو اپنی چھپر میں ٹھنڈک اور سایہ میں آرام و چین سے بیٹھا رہوں اور خداعزوجل کے مقدس رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس دھوپ کی تمازت اور شدید لو کے تھپیڑوں میں سفر کرتے ہوئے جہاد کے لئے تشریف لے جا رہے ہوں ایک دم ان پر ایسی ایمانی غیرت سوار ہو گئی کہ توشہ کے لئے کھجور لے کر ایک اونٹ پر سوار ہو گئے اور تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ لشکر والوں نے دور سے ایک شتر سوار کو دیکھا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو خیثمہ ہوں گے اس طرح یہ بھی لشکر اسلام میں پہنچ گئے۔ (زرقانی ج۳ ص۷۱)
راستے میں قوم عاد و ثمود کی وہ بستیاں ملیں جو قہر الٰہی کے عذابوں سے الٹ پلٹ کر دی گئی تھیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں خدا کا عذاب نازل ہو چکا ہے اس لئے کوئی شخص یہاں قیام نہ کرے بلکہ نہایت تیزی کے ساتھ سب لوگ یہاں سے سفر کر کے ان عذاب کی وادیوں سے جلد باہر نکل جائیں اور کوئی یہاں کا پانی نہ پیئے اور نہ کسی کام میں لائے۔
اس غزوہ میں پانی کی قلت، شدید گرمی، سواریوں کی کمی سے مجاہدین نے بے حد تکلیف اٹھائی مگر منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا ۔
راستے کے چند معجزات :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ سب سے الگ الگ چل رہے ہیں۔ تو ارشاد فرمایا کہ یہ سب سے الگ ہی چلیں گے اور الگ ہی زندگی گزاریں گے اور الگ ہی وفات پائیں گے۔ چنانچہ ٹھیک ایسا ہی ہوا کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو حکم دے دیا کہ آپ “ربذہ” میں رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ربذہ میں اپنی بیوی اور غلام کے ساتھ رہنے لگے۔ جب وفات کا وقت آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم دونوں مجھ کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر راستہ میں رکھ دینا۔ جب شتر سواروں کا پہلا گروہ میرے جنازہ کے پاس سے گزرے تو
تم لوگ اس سے کہنا کہ یہ ابو ذرغفاری کا جنازہ ہے ان پر نماز پڑھ کر ان کو دفن کرنے میں ہماری مدد کرو۔ خدا عزوجل کی شان کہ سب سے پہلا جو قافلہ گزرا اس میں حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا کہ یہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ہے۔ تو انہوں نےاِنَّ لِلّٰهِ وَ اِنَّآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھا اور قافلہ کو روک کر اتر پڑے اور کہا کہ بالکل سچ فرمایا تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ ” اے ابوذر ! تو تنہا چلے گا، تنہا مرے گا، تنہا قبر سے اُٹھے گا۔ ” پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور قافلہ والوں نے ان کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ (سيرت ابن هشام ج۴ ص۵۲۴ و زرقانی ج۳ ص۷۴)
بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ ان کی بیوی کے پاس کفن کے لئے کپڑا نہیں تھا تو آنے والے لوگوں میں سے ایک انصاری نے کفن کے لئے کپڑا دیا اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
ہوا اڑا لے گئی :۔
جب اسلامی لشکر مقام ” حجر ” میں پہنچا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص اکیلا لشکر سے باہر کہیں دور نہ چلا جائے پورے لشکر نے اس حکم نبوی کی اطاعت کی مگر قبیلہ بنو ساعدہ کے دو آدمیوں نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا۔ ایک شخص اکیلا ہی رفع حاجت کے لئے لشکر سے دور چلا گیا وہ بیٹھا ہی تھا کہ دفعۃً کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ اسی جگہ مر گیا اور دوسرا شخص اپنا اونٹ پکڑنے کے لئے اکیلا ہی لشکر سے کچھ دور چلا گیا تو ناگہاں ایک ہوا کا جھونکا آیا اور اس کو اڑا کر قبیلہ ” طی ” کے دونوں پہاڑوں کے درمیان پھینک دیا اور وہ ہلاک ہو گیا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کا انجام سن کر فرمایا کہ کیا میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کر دیا تھا ؟(زرقانی ج۳ ص۷۳)
گمشدہ اونٹنی کہاں ہے ؟ :۔
ایک منزل پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی کہیں چلی گئی اور لوگ اس کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگے تو ایک منافق جس کا نام “زید بن لصیت” تھا کہنے لگا کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ میں اﷲ کا نبی ہوں اور میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں مگر ان کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے حالانکہ خدا کی قسم ! اﷲ تعالیٰ کے بتا دینے سے میں خوب جانتا ہوں کہ میری اونٹنی کہاں ہے ؟ وہ فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک درخت میں اس کی مہار کی رسی اُلجھ گئی ہے۔ تم لوگ جاؤ اور اس اونٹنی کو میرے پاس لے کر آجاؤ۔ جب لوگ اس جگہ گئے تو ٹھیک ایسا ہی دیکھا کہ اسی گھاٹی میں وہ اونٹنی کھڑی ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں الجھی ہوئی ہے۔(زرقانی ج۳ ص۷۵)
تبوک کا چشمہ :۔
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں ایک پانی کی دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔(زرقانی ج۳ ص۷۶)
رومی لشکر ڈر گیا :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
اسی سفر میں “یلہ” کا سردار جس کا نام “یحنۃ” تھا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور ایک سفید خچر بھی دربار رسالت میں نذر کیا جس کے صلہ میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی اور اس کو ایک دستاویز تحریر فرما کر عطا فرمائی کہ وہ اپنے گرد و پیش کے سمندر سے ہر قسم کے فوائد حاصل کرتا رہے۔(بخاری ج۱ ص۴۴۸)
اسی طرح “جرباء” اور “اذرح” کے عیسائیوں نے بھی حاضر خدمت ہو کر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک سو بیس سواروں کے ساتھ “دومۃ الجندل “کے بادشاہ” اکیدر بن عبدالملک ” کی طرف روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ وہ رات میں نیل گائے کا شکار کر رہا ہو گا تم اس کے پاس پہنچو تو اس کو قتل مت کرنا بلکہ اس کو زندہ گرفتار کر کے میرے پاس لانا۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاندنی رات میں اکیدر اور اس کے بھائی حسان کو شکار کرتے ہوئے پالیا۔ حسان نے چونکہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ شروع کردی ۔ اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو تو قتل کر دیا مگر اکیدر کو گرفتار کر لیا اور اس شرط پر اس کو رہا کیا کہ وہ مدینہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر صلح کرے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو امان دی۔ (زرقانی ج۳ ص۷۷ و ص۷۸)
اس غزوہ میں جو لوگ غیر حاضر رہے ان میں اکثر منافقین تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ واپس آئے اور مسجد نبوی میں نزولِ اجلال فرمایا تو منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنا اپنا عذر بیان کرنے لگے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن تین مخلص صحابیوں حضرت کعب بن مالک و ہلال بن امیہ و مرارہ بن ربیعہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا پچاس دنوں تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بائیکاٹ فرما دیا۔ پھر ان تینوں کی توبہ قبول ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی۔ (اس کا مفصل ایک وعظ ہم نے اپنی کتاب ” عرفانی تقریریں ” میں لکھ دیا ہے۔)(بخاری ج۲ ص۶۳۴ تا ص۶۳۷ حديث کعب بن مالک)
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کے قریب پہنچے اور اُحد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا کہ هٰذَا اُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَ نُحِبُّهٗ یہ اُحد ہے۔ یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ کی سرزمین میں قدم رکھا تو عورتیں، بچے اور لونڈی غلام سب استقبال کے لئے نکل پڑے اور استقبالیہ نظمیں پڑھتے ہوئے آپ کے ساتھ مسجد نبوی تک آئے۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد نبوی میں دو رکعت نماز پڑھ کر تشریف فرما ہو گئے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا اور اہل مدینہ نے بخیر و عافیت اس دشوار گزار سفر سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر انتہائی مسرت و شادمانی کا اظہار کیا اور ان منافقین کے بارے میں جو جھوٹے بہانے بنا کر اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے اور بارگاہ نبوت میں قسمیں کھا کھا کر عذر پیش کر رہے تھے قہر و غضب میں بھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئیں اوران منافقوں کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔
ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر :۔
غزوۂ تبوک میں بجز ایک حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نہ کسی صحابی کی شہادت ہوئی نہ وفات۔ حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون تھے ؟ اور ان کی وفات اور دفن کا کیسا منظر تھا ؟ یہ ایک بہت ہی ذوق آفریں اور لذیذ حکایت ہے۔ یہ قبیلہ مزینہ کے ایک یتیم تھے اور اپنے چچا کی پرورش میں تھے۔ جب یہ سن شعور کو پہنچے اور اسلام کا چرچا سنا تو اِن کے دل میں بت پرستی سے نفرت اور اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مگر ان کا چچا بہت ہی کٹر کافر تھا۔ اس کے خوف سے یہ اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے اپنے چچا کو ترغیب دی کہ تم بھی دامن اسلام میں آجاؤ کیونکہ میں قبول اسلام کے لئے بہت ہی بے قرار ہوں۔ یہ سن کر ان کے چچا نے ان کو برہنہ کر کے گھر سے نکال دیا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے ایک کمبل مانگ کر اس کو دو ٹکڑے کرکے آدھے کو تہبند اور آدھے کو چادر بنا لیا اور اسی لباس میں ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے۔ رات بھر مسجد نبوی میں ٹھہرے رہے۔ نماز فجر کے وقت جب جمالِ محمدی کے انوار سے ان کی آنکھیں منور ہوئیں تو کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنا نام عبدالعزیٰ بتا دیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے تمہارا نام عبداﷲ اور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا) ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان پر بہت کرم فرماتے تھے اور یہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی جماعت کے ساتھ رہنے لگے اور نہایت بلند آواز سے ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو یہ بھی مجاہدین میں شامل ہو کر چل پڑے اور بڑے ہی ذوق و شوق اور انتہائی اشتیاق کے ساتھ درخواست کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) دعا فرمائیے کہ مجھے خدا کی راہ میں شہادت نصیب ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی درخت کی چھال لاؤ۔ وہ تھوڑی سی ببول کی چھال لائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بازو پر وہ چھال باندھ دی اور دعا کی کہ اے اﷲ ! میں نے اس کے خون کو کفار پر حرام کر دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا مقصد تو شہادت ہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تم جہاد کے لئے نکلے ہو تو اگر بخار میں بھی مرو گے جب بھی تم شہید ہی ہو گے۔ خدا عزوجل کی شان کہ جب حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تبوک میں پہنچے تو بخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔
حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے دفن کا عجیب منظر تھا کہ حضرت بلال مؤذن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہاتھ میں چراغ لئے ان کی قبر کے پاس کھڑے تھے اور خود بہ نفس نفیس حضور ِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنے اسلامی بھائی کی لاش کو اٹھاؤ۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنے دست ِ مبارک سے لحد میں سلایا اور خود ہی قبر کو کچی اینٹوں سے بند فرمایا اور پھر یہ دعا مانگی کہ یااﷲ ! میں ذوالبجادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن کا یہ منظر دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ کاش ! ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ یہ میری میت ہوتی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۵۰ و ص۳۵۱)
مسجد ضرار :۔
منافقوں نے اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے مسجد قباء کے مقابلہ میں ایک مسجد تعمیر کی تھی جو در حقیقت منافقین کی سازشوں اور ان کی دسیسہ کاریوں کا ایک زبردست اڈہ تھا۔ ابو عامر راہب جو انصار میں سے عیسائی ہو گیا تھا جس کا نام حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو عامر فاسق رکھا تھا اس نے منافقین سے کہا کہ تم لوگ خفیہ طریقے پر جنگ کی تیاریاں کرتے رہو۔ میں قیصر روم کے پاس جاکر وہاں سے فوجیں لاتا ہوں تاکہ اس ملک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دوں۔ چنانچہ اسی مسجد میں بیٹھ بیٹھ کر اسلام کے خلاف منافقین کمیٹیاں کرتے تھے اور اسلام و بانی ٔ اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاتمہ کر دینے کی تدبیریں سوچا کرتے تھے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہونے لگے تو مکار منافقوں کا ایک گروہ آیا اور محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے بارگاہ اقدس میں یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم نے بیماروں اور معذوروں کے لئے ایک مسجد بنائی ہے۔ آپ چل کر ایک مرتبہ اس مسجد میں نماز پڑھا دیں تا کہ ہماری یہ مسجد خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس وقت تو میں جہاد کے لئے گھر سے نکل چکا ہوں لہٰذا اس وقت تو مجھے اتنا موقع نہیں ہے۔ منافقین نے کافی اصرار کیا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی اس مسجد میں قدم نہیں رکھا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائے تو منافقین کی چالبازیوں اور ان کی مکاریوں، دغابازیوں کے بارے میں ” سورۂ توبہ ” کی بہت سی آیات نازل ہو گئیں اور منافقین کے نفاق اور ان کی اسلام دشمنی کے تمام رموز و اسرار بے نقاب ہو کر نظروں کے سامنے آ گئے۔ اور ان کی اس مسجد کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِيْقًا مبَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ط وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی ط
اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی اور اس مقصد سے کہ جو لوگ پہلے ہی سے خدا اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہیں ان کیلئے ایک کمین گاہ ہاتھ آ جائے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی کا ارادہ کیا ہے
لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰي مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ؕ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ؕ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ﴿۱۰۸﴾(توبہ )
اور خدا گواہی دیتا ہے کہ بیشک یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ کبھی بھی اس مسجد میں نہ کھڑے ہوں وہ مسجد (مسجد قباء) جسکی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اسمیں ایسے لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں اور خدا پاکی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن دخشم و حضرت معن بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے اس میں آگ لگا دیں۔(زرقانی ج۳ ص۸۰)
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر الحج :۔
غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذوالقعدہ ۹ ھ میں تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ سے حج کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو “امیر الحج” اور حضرت علی مرتضی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ” نقیب اسلام ” اور حضرت سعد بن ابی وقاص و حضرت جابر بن عبداﷲ و حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو معلم بنا دیا اور اپنی طرف سے قربانی کے لئے بیس اونٹ بھی بھیجے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حرمِ کعبہ اور عرفات و منیٰ میں خطبہ پڑھا اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور ” سورۂ براءت ” کی چالیس آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اعلان کر دیا کہ اب کوئی مشرک خانہ کعبہ میں داخل نہ ہو سکے گا نہ کوئی برہنہ بدن اور ننگا ہوکر طواف کر سکے گا اور چار مہینے کے بعد کفار و مشرکین کے لئے امان ختم کر دی جائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اس اعلان کی اس قدر زور زور سے منادی کی کہ ان لوگوں کا گلا بیٹھ گیا۔ اس اعلان کے بعد کفار و مشرکین فوج کی فوج آ کر مسلمان ہونے لگے۔(طبری ج۲ ص۱۷۲۱ و زرقانی ج۳ ص۹۰ تا ۹۳)
معرکہ آرائی کا منظر :۔
سب سے پہلے مسلمانوں کے امیر لشکر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر کفار کے لشکر کو اسلام کی دعوت دی۔ جس کا جواب کفار نے تیروں کی مار اور تلواروں کے وار سے دیا۔ یہ منظر دیکھ کر مسلمان بھی جنگ کے لئے تیار ہوگئے اور لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھوڑے سے اتر کر پا پیادہ میدان جنگ میں کود پڑے اور مسلمانوں نے بھی نہایت جوش و خروش کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا لیکن اس گھمسان کی لڑائی میں کافروں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیزوں اور برچھیوں سے چھید ڈالا اور وہ جوانمردی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہد ہو گئے۔ فوراً ہی جھپٹ کر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پرچم اسلام کو اٹھا لیا مگر ان کو ایک رومی مشرک نے ایسی تلوار ماری کہ یہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگئے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ہم نے ان کی لاش دیکھی تھی۔ ان کے بدن پر نیزوں اور تلواروں کے نوے سے کچھ زائد زخم تھے۔ لیکن کوئی زخم ان کی پیٹھ کے پیچھے نہیں لگا تھا بلکہ سب کے سب زخم سامنے ہی کی جانب لگے تھے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اسلام ہاتھ میں لیا۔ فوراً ہی ان کے چچازاد بھائی نے گوشت سے بھری ہوئی ایک ہڈی پیش کی اور عرض کیا کہ بھائی جان! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو کھا لیجئے۔ آپ نے ایک ہی مرتبہ دانت سے نوچ کر کھایا تھا کہ کفار کا بے پناہ ہجوم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپ نے ہڈی پھینک دی اور تلوار نکال کر دشمنوں کے نرغہ میں گھس کر رجز کے اشعار پڑھتے ہوئے انتہائی دلیری اور جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے مگر زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر گر پڑے اور شربت شہادت سے سیراب ہو گئے۔( بخاری ج۲ ص۶۱۱ غزوه موته و زرقانی ج۲ ص۲۷۱ ص۲۷۴)
اب لوگوں کے مشورہ سے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈے کے علمبردار بنے اور اس قدر شجاعت اور بہادری کے ساتھ لڑے کہ نو تلواریں ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے ہاتھ سے گر پڑیں۔اور اپنی جنگی مہارت اور کمال ہنر مندی سے اسلامی فوج کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال لائے۔(بخاری ج۲ ص۶۱۱ غزوه موته)
اس جنگ میں جو بارہ معزز صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہوئے ان کے مقدس نام یہ ہیں :۔
حضرت جعفر بن ابی طالب | 7 | حضرت زید بن حارثہ | 1 |
حضرت مسعود بن اوس | 8 | حضرت عبداللہ بن رواحہ | 2 |
حضرت عباد بن قیس | 9 | حضرت وہب بن سعد | 3 |
حضرت سراقہ بن عمر | 10 | حضرت حارث بن نعمان | 4 |
حضرت جابر بن عمر | 11 | حضرت ابوکلیب بن عمر | 5 |
حضرت ہو بجہ ضبی | 12 | حضرت عمر بن سعد | 6 |
(رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) (زُرقانی ج۲ص ۲۷۳)
اسلامی لشکر نے بہت سے کفار کو قتل کیا اور کچھ مال غنیمت بھی حاصل کیا اور سلامتی کے ساتھ مدینہ واپس آگئے۔
نگاہِ نبوت کا معجزہ :۔
جنگ ِ موتہ کی معرکہ آرائی میں جب گھمسان کا رن پڑا تو حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ سے میدانِ جنگ کو دیکھ لیا۔ اور آپ کی نگاہوں سے تمام حجابات اس طرح اٹھ گئے کہ میدانِ جنگ کی ایک ایک سر گزشت کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ نبوت نے دیکھا۔ چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت زید و حضرت جعفر و حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادتوں کی خبر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ سے خبر آنے کے قبل ہی اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو سنا دی۔
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انتہائی رنج و غم کی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بھرے مجمع میں یہ ارشاد فرمایا کہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھنڈا لیا وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھنڈا لیا وہ بھی شہید ہوگئے، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علمبردار بنے اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ یہاں تک کہ جھنڈے کو خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہ خبریں سناتے رہے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (بخاري ج۲ ص ۶۱۱ غزوه موته)
موسیٰ بن عقبہ نے اپنے مغازی میں لکھا ہے کہ جب حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ موتہ کی خبر لے کر دربار نبوت میں پہنچے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مجھے وہاں کی خبر سناؤ گے ؟ یا میں تمہیں وہاں کی خبر سناؤں۔ حضرت یعلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ ہی سنایئے جب آپ نے وہاں کا پورا پورا حال و ماحول سنایا تو حضرت یعلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک بات بھی نہیں چھوڑی کہ جس کو میں بیان کروں۔(زرقاني ج۲ ص ۲۷۶)
حضرت جعفر شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر تیل کا جل سے آراستہ کرکے آٹا گوندھ لیا تھا کہ بچوں کے لئے روٹیاں پکاؤں کہ اتنے میں رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف لائے اور فرمایا کہ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں کو میرے سامنے لاؤ جب میں نے بچوں کو پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بچوں کو سونگھنے اور چومنے لگے اور آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار رُخسارِ پر انوار پر بہنے لگی تو میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کوئی خبر آئی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ ہاں ! وہ لوگ آج ہی شہید ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر میری چیخ نکل گئی اور میرا گھر عورتوں سے بھر گیا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے کاشانہ نبوت میں تشریف لے گئے اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے فرمایا کہ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کراؤ۔ (زرقاني ج۲ ص۲۷۷)
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر ان لوگوں کے استقبال کے لئے تشریف لے گئے اور مدینہ کے مسلمان اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوڑتے ہوئے مجاہدین اسلام کی ملاقات کے لئے گئے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ موتہ کے شہدائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ایسا پر درد مرثیہ سنایا کہ تمام سامعین رونے لگے۔(زرقاني ج۲ ص۲۷۷)
حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دونوں ہاتھ شہادت کے وقت کٹ کر گر پڑے تھے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے دونوں ہاتھوں کے بدلے دو بازو عطا فرمائے ہیں جن سے اڑ اڑ کر وہ جنت میں جہاں چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں۔(زرقاني ج۲ ص۲۷۴)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کرتے تھے تو یہ کہتے تھے کہ “السلام علیک یا ابن ذی الجناحین ” یعنی اے دو بازوؤں والے کے فرزند ! تم پر سلام ہو۔ (بخاری ج۲ ص۶۱۱ غزوه موته)
جنگ موتہ اور فتح مکہ کے درمیان چند چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کفار کی مدافعت کے لئے مختلف مقامات پر بھیجا۔ ان میں سے بعض لشکروں کے ساتھ کفار کا ٹکراؤ بھی ہوا جن کا مفصل تذکرہ زرقانی و مدارج النبوۃ وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔ ان سریوں کے نام یہ ہیں:
ذات السلاسل۔ سریۃ الخبط۔ سریہ ابوقتادہ(نجد)۔ سریہ ابوقتادہ(صنم) مگر ان سریوں میں ” سریۃ الخبط ” زیادہ مشہور ہے جس کا مختصر بیان یہ ہے :۔
سریۃ الخبط :۔
اس سریہ کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ” غزوہ سیف البحر ” کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب ۸ ھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکر پر امیر بنا کر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایا تا کہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھیں اس لشکر میں خوراک کی اس قدر کمی پڑ گئی کہ امیر لشکر مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور راشن میں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ یہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں اور لوگ بھوک سے بے چین ہو کر درختوں کے پتے کھانے لگے یہی وجہ ہے کہ عام طور پر مؤرخین نے اس سریہ کا نام ” سریۃ الخبط ” یا ” جیش الخبط ” رکھا ہے۔ ” خبط ” عربی زبان میں درخت کے پتوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ مجاہدین اسلام نے اس سریہ میں درختوں کے پتے کھا کر جان بچائی اس لئے یہ سریۃ الخبط کے نام سے مشہور ہو گیا۔
ایک عجیب الخلقت مچھلی :۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو اس سفر میں تقریباً ایک مہینہ رہنا پڑا اور جب بھوک کی شدت سے ہم لوگ درختوں کے پتے کھانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے غیب سے ہمارے رزق کا یہ سامان پیدا فرما دیا کہ سمندر کی موجوں نے ایک اتنی بڑی مچھلی ساحل پر پھینک دی، جو ایک پہاڑی کے مانند تھی چنانچہ تین سو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اٹھارہ دنوں تک اس مچھلی کا گوشت کھاتے رہے اور اس کی چربی اپنے بدن پر ملتے رہے اور جب وہاں سے روانہ ہونے لگے تو اس کا گوشت کاٹ کاٹ کر مدینہ تک لائے اور جب یہ لوگ بارگاہ نبوت میں پہنچے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے رزق کا سامان ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس مچھلی کا گوشت طلب فرمایا اور اس میں سے کچھ تناول بھی فرمایا، یہ اتنی بڑی مچھلی تھی کہ امیر لشکر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی دو پسلیاں زمین میں گاڑ کر کھڑی کردیں تو کجاوہ بندھا ہوا اونٹ اس محراب کے اندر سے گزر گیا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۵ غزوه سیف البحر و زرقاني ج۲ ص۲۸۰)
فتح مکہ (رمضان ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ ء) :۔
رمضان ۸ ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا کیونکہ تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارغار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرما کر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ” اے مکہ ! خدا کی قسم ! تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ ” لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر وہ کونسا ایسا سبب نمودار ہوگیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آگئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفار مکہ کی ” عہد شکنی ” اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہے۔
کفار قریش کی عہد شکنی :۔
صلح حدیبیہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک یہ شرط بھی درج تھی کہ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرے اور جو حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہے وہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرے۔
چنانچہ اسی بنا پر قبیلہ بنی بکر نے قریش سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا اور قبیلہ بنی خزاعہ نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے امداد باہمی کا معاہدہ کرلیا۔ یہ دونوں قبیلے مکہ کے قریب ہی میں آباد تھے لیکن ان دونوں میں عرصہ دراز سے سخت عداوت اور مخالفت چلی آرہی تھی۔
ایک مدت سے تو کفار قریش اور دوسرے قبائل عرب کے کفار مسلمانوں سے جنگ کرنے میں اپنا سارا زور صرف کر رہے تھے لیکن صلح حدیبیہ کی بدولت جب مسلمانوں کی جنگ سے کفار قریش اور دوسرے قبائل کفار کو اطمینان ملا تو قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ بنی خزاعہ سے اپنی پرانی عداوت کا انتقام لینا چاہا اور اپنے حلیف کفارِ قریش سے مل کر بالکل اچانک طور پر قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس حملہ میں کفار قریش کے تمام رؤسا یعنی عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو وغیرہ بڑے بڑے سرداروں نے علانیہ بنی خزاعہ کو قتل کیا۔ بے چارے بنی خزاعہ اس خوفناک ظالمانہ حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنی جان بچانے کے لئے حرم کعبہ میں پناہ لینے کے لئے بھاگے۔ بنی بکر کے عوام نے تو حرم میں تلوار چلانے سے ہاتھ روک لیا اور حرم الٰہی کا احترام کیا۔ لیکن بنی بکر کا سردار ” نوفل ” اس قدر جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو چکا تھا کہ وہ حرم میں بھی بنی خزاعہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کرتا رہا اور چلا چلا کر اپنی قوم کو للکارتا رہا کہ پھر یہ موقع کبھی ہاتھ نہیں آسکتا۔ چنانچہ ان درندہ صفت خونخوار انسانوں نے حرم الٰہی کے احترام کو بھی خاک میں ملا دیااور حرم کعبہ کی حدود میں نہایت ہی ظالمانہ طور پر بنی خزاعہ کا خون بہایااور کفار قریش نے بھی اس قتل و غارت اور کشت و خون میں خوب خوب حصہ لیا۔ (زرقاني ج۲ ص۲۸۹)
ظاہر ہے کہ قریش نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو عملی طور پر توڑ ڈالا۔ کیونکہ بنی خزاعہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معاہدہ کر کے آپ کے حلیف بن چکے تھے، اس لئے بنی خزاعہ پر حملہ کرنا، یہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے برابر تھا۔ اس حملہ میں بنی خزاعہ کے تیئیس (۲۳) آدمی قتل ہوگئے۔
اس حادثہ کے بعد قبیلۂ بنی خزاعہ کے سردار عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا وفد لے کر فریاد کرنے اور امداد طلب کرنے کے لئے مدینہ بارگاہ رسالت میں پہنچے اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔
تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے استعانت :۔
حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ایک رات حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاشانۂ نبوت میں وضو فرما رہے تھے کہ ایک دم بالکل ناگہاں آپ نے بلند آواز سے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ لبیک۔ لبیک۔ لبیک۔ (میں تمہارے لئے بار بار حاضر ہوں۔) پھر تین مرتبہ بلند آواز سے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ نصرت۔ نصرت۔ نصرت (تمہیں مدد مل گئی) جب آپ وضو خانہ سے نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ تنہائی میں کس سے گفتگو فرما رہے تھے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اے میمونہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا غضب ہوگیا۔ میرے حلیف بنی خزاعہ پر بنی بکر اور کفار قریش نے حملہ کردیا ہے اور اس مصیبت و بے کسی کے وقت میں بنی خزاعہ نے وہاں سے چلا چلا کر مجھے مدد کے لئے پکارا ہے اور مجھ سے مدد طلب کی ہے اور میں نے ان کی پکار سن کر ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے ان کو جواب دیا ہے۔ حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن جب حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نماز فجر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز سے فارغ ہوئے تو دفعۃً بنی خزاعہ کے مظلومین نے رجز کے ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا اور حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان کی اس پر درد اور رقت انگیز فریاد کو بغور سنا۔ آپ بھی اس رجز کے چند اشعار کو ملاحظہ فرمایئے :۔
یَا رَبِّ اِنِّيْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
حِلْفَ اَبِيْنَا وَاَبِيْهِ الْاَتْلَدًا
اے خدا ! میں محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے اور ان کے باپ داداؤں کے درمیان قدیم زمانے سے ہوچکا ہے۔
فَانْصُرْ هَدَاكَ اللّٰهُ نَصْرًا اَبَّدَا
وَادْعُ عِبَادَ اللهِ یَاتُوْا مَدَّدَا
تو خدا آپ کو سیدھی راہ پر چلائے۔ آپ ہماری بھر پور مدد کیجئے اور خدا کے بندوں کو بلائیے۔ وہ سب امداد کے لئے آئیں گے۔
فِيْهِمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ قَـدْ تجَـَّردَا
اِنْ سِيْمَ خَسْفًا وَجْهُهٗ تَرَبَّدَا
ان مدد کرنے والوں میں رسول اللہ (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) بھی غضب کی حالت میں ہوں کہ اگر انہیں ذلت کا داغ لگے تو ان کا تیور بدل جائے۔
هُمْ بَيَّتُوْنَا بِالْوَتِيْرِ هُجَّدًا
وَ قَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَّ سُجَّدًا
ان لوگوں (بنی بکر و قریش) نے ” مقام و تیر ” میں ہم سوتے ہوؤں پر شب خون مارا اور رکوع و سجدہ کی حالت میں بھی ہم لوگوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کر ڈالا۔
اِنَّ قُرَيْشًا اَخْلَفُوْكَ الْمَوْعِدَا
وَ نَقَّضُوْا مِيْثَاقَكَ الْمُؤَكّدَا
یقینا قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور آپ سے مضبوط معاہدہ کر کے توڑ ڈالا ہے۔
ان اشعار کو سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علہا وسلم نے ان لوگوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ مت گھبراؤ میں تمہاری امداد کے لئے تیار ہوں۔ (زرقانی ج ۲ ص ۲۹۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی امن پسندی :۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش فرمائیں کہ ان میں سے کوئی ایک شرط قریش منظور کر لیں :۔
(۱) بنی خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔
(۲) قریش قبیلہ بنی بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔
(۳) اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قاصد نے ان شرطوں کو قریش کے سامنے رکھا تو قرطہ بن عبد عمر نے قریش کا نمائندہ بن کر جواب دیا کہ ” نہ ہم مقتولوں کے خون کا معاوضہ دیں گے نہ اپنے حلیف قبیلہ بنی بکر کی حمایت چھوڑیں گے۔ ہاں تیسری شرط ہمیں منظور ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ ” لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو اپنے اس جواب پر ندامت ہوئی۔ چنانچہ چند رؤسائے قریش ابو سفیان کے پاس گئے اور یہ کہا کہ اگر یہ معاملہ نہ سلجھا تو پھر سمجھ لو کہ یقینا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم پر حملہ کردیں گے۔ ابو سفیان نے کہا کہ میری بیوی ہند بنت عتبہ نے ایک خواب دیکھا ہے کہ مقام ” حجون ” سے مقام ” خندمہ ” تک ایک خون کی نہر بہتی ہوئی آئی ہے، پھر ناگہاں وہ خون غائب ہوگیا۔ قریش نے اس خواب کو بہت ہی منحوس سمجھا اور خوف و دہشت سے سہم گئے اور ابو سفیان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ فوراً مدینہ جا کر معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کرے۔ (زرقاني ج۲ ص۲۹۲)
ابو سفیان کی کوشش :۔
اس کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ابو سفیان مدینہ گیا اور پہلے اپنی لڑکی حضرت اُم المؤمنین بی بی ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان پر پہنچا اور بستر پر بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ حضرتِ بی بی اُمِ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جلدی سے بستر اٹھا لیا ابو سفیان نے حیران ہو کر پوچھا کہ بیٹی تم نے بستر کیوں اٹھا لیا ؟ کیا بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھ کو بستر کے قابل نہیں سمجھا ؟ اُم المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بستر ہے اور تم مشرک اور نجس ہو۔ اس لئے میں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھو۔ یہ سن کر ابو سفیان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ رنجیدہ ہو کر وہاں سے چلا آیا اور رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مقصد بیان کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابو سفیان حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس گیا۔ ان سب حضرات نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب ابو سفیان پہنچا تو وہاں حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی تھے۔ ابو سفیان نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اے علی ! تم قوم میں بہت ہی رحم دل ہو ہم ایک مقصد لے کر یہاں آئے ہیں کیا ہم یوں ہی ناکام چلے جائیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ تم محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے ہماری سفارش کردو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو سفیان ! ہم لوگوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ارادہ اور ان کی مرضی میں کوئی مداخلت کر سکیں۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ابو سفیان نے حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اے فاطمہ ! یہ تمہارا پانچ برس کا بچہ (امام حسن) ایک مرتبہ اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے دونوں فریق میں صلح کرا دی تو آج سے یہ بچہ عرب کا سردار کہہ کر پکارا جائے گا۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل ؟ بالآخر ابو سفیان نے کہا کہ اے علی ! معاملہ بہت کٹھن نظر آتا ہے کوئی تدبیر بتاؤ ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں تم کو کوئی مفید رائے تو نہیں دے سکتا، لیکن تم بنی کنانہ کے سردار ہو تم خود ہی لوگوں کے سامنے اعلان کر دو کہ میں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کردی ابو سفیان نے کہا کہ کیا میرا یہ اعلان کچھ مفید ہو سکتا ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یک طرفہ اعلان ظاہر ہے کہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا۔ مگر اب تمہارے پاس اس کے سوا اور چارۂ کار ہی کیا ہے ؟ ابو سفیان وہاں سے مسجد نبوی میں آیا اور بلند آواز سے مسجد میں اعلان کر دیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کر دی مگر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ابو سفیان یہ اعلان کر کے مکہ روانہ ہو گیا جب مکہ پہنچا تو قریش نے پوچھا کہ مدینہ میں کیا ہوا ؟ ابو سفیان نے ساری داستان بیان کردی۔ تو قریش نے سوال کیا کہ جب تم نے اپنی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کیا تو کیا محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے اس کو قبول کر لیا ؟ ابو سفیان نے کہا کہ ” نہیں ” یہ سن کر قریش نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ نہ تو صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔ (زرقاني ج۲ ص۲۹۲ تا ص۲۹۳)
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی فرما دیا کہ جنگ کے ہتھیار درست کریں اور اپنے حلیف قبائل کو بھی جنگی تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیج دیا۔ مگر کسی کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کس سے جنگ کا ارادہ ہے ؟ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیاروں کو نکال رہی ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ؟ عرض کیا : ” جی ہاں ” پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے ؟ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ” واللہ ! مجھے یہ معلوم نہیں۔ ” (زرقاني ج۲ ص۲۹۱)
غرض انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ کی تیاری فرمائی اور مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور اچانک ان پر حملہ کردیا جائے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط :۔
حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک معزز صحابی تھے انہوں نے قریش کو ایک خط اس مضمون کا لکھدیا کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔ اس خط کو انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنے اس علم غیب کی بدولت یہ جان لیا کہ حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کارروائی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فوراً ہی روانہ فرمایا کہ تم لوگ ” روضۂ خاخ ” میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط چھین کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب کبار رضی اللہ تعالیٰ عنہم تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ” روضۂ خاخ ” میں پہنچے اور عورت کو پالیا۔ جب اس سے خط طلب کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے، نہ ہم لوگ جھوٹے ہیں لہٰذا تو خط نکال کر ہمیں دے دے ورنہ ہم تجھ کو ننگی کر کے تلاشی لیں گے۔ جب عورت مجبور ہوگئی تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر دے دیا۔ جب یہ لوگ خط لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچے تو آپ نے حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے حاطب ! یہ تم نے کیا کیا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں میرے اس خط کے لکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ میں میرے بیوی بچے ہیں۔ مگر مکہ میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو میرے بیوی بچوں کی خبر گیری و نگہداشت کرے میرے سوا دوسرے تمام مہاجرین کے عزیز و اقارب مکہ میں موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں نے یہ خط لکھ کر قریش پر ایک اپنا احسان رکھ دیا ہے تا کہ میں ان کی ہمدردی حاصل کر لوں اور وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں۔ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کافروں کو شکست دے گا اور میرے اس خط سے کفار کو ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس بیان کو سن کر ان کے عذر کو قبول فرما لیا مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خط کو دیکھ کر اس قدر طیش میں آگئے کہ آپے سے باہر ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی غیظ و غضب میں بھر گئے۔ لیکن رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر اک ذرا شکن بھی نہیں آئی اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تمہیں خبر نہیں کہ حاطب اہل بدر میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمادیا ہے کہ ” تم جو چاہو کرو۔ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ” یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ یہ کہہ کر بالکل خاموش ہوگئے کہ ” اللہ اور اس کے رسول کو ہم سب سے زیادہ علم ہے ” اسی موقع پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِيَآءَ (ممتحنه)
اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمن کافروں کو دوست نہ بناؤ۔
بہر حال حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاف فرما دیا۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۲ غزوه الفتح)
مکہ پر حملہ :۔
غرض ۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے دس ہزار کا لشکرِ پر انوار ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ فتح مکہ میں آپ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر تھا ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مدینہ سے روانگی کے وقت دس ہزار کا لشکر رہا ہو۔ پھر راستہ میں بعض قبائل اس لشکر میں شامل ہو گئے ہوں تو مکہ پہنچ کر اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہو گئی ہو۔ بہر حال مدینہ سے چلتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کبار رضی اللہ تعالیٰ عنہم روزہ دار تھے جب آپ ” مقام کدید ” میں پہنچے تو پانی مانگا اور اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے پورے لشکر کو دکھا کر آپ نے دن میں پانی نوش فرمایا اور سب کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب نے سفر اور جہاد میں ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا موقوف کردیا۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۳ و زرقاني ج۲ ص۳۰۰ و سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۰)
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے ملاقات :۔
جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ” جحفہ ” میں پہنچے تو وہاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ مسلمان ہو کر آئے تھے بلکہ اس سے بہت پہلے مسلمان ہو چکے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مرضی سے مکہ میں مقیم تھے اور حجاج کو زمزم پلانے کے معزز عہدہ پر فائز تھے اور آپ کے ساتھ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جن کا نام بھی ابوسفیان تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابی امیہ جو اُم المؤمنین حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی بھی تھے بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے ان دونوں صاحبوں کی حاضری کا حال جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان دونوں صاحبوں کی ملاقات سے انکار فرما دیا۔ کیونکہ ان دونوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت زیادہ ایذائیں پہنچائی تھیں۔ خصوصاً ابو سفیان بن الحارث آپ کے چچازاد بھائی جو اعلان نبوت سے پہلے آپ کے انتہائی جاں نثاروں میں سے تھے مگر اعلان نبوت کے بعد انہوں نے اپنے قصیدوں میں اتنی شرمناک اور بیہودہ ہجو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کر ڈالی تھی کہ آپ کا دل زخمی ہو گیا تھا۔ اس لئے آپ ان دونوں سے انتہائی ناراض و بیزار تھے مگر حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان دونوں کا قصور معاف کرنے کے لئے بہت ہی پرزور سفارش کی اور ابو سفیان بن الحارث نے یہ کہہ دیا کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرا قصور نہ معاف فرمایا تو میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر عرب کے ریگستان میں چلا جاؤں گا تاکہ وہاں بغیر دانہ پانی کے بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر میں اور میرے سب بچے مر کر فنا ہوجائیں۔ حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہ رسالت میں آبدیدہ ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ کے چچا کا بیٹا اور آپ کی پھوپھی کا بیٹا تمام انسانوں سے زیادہ بدنصیب رہے گا ؟ کیا ان دونوں کو آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہیں ملے گا ؟ جان چھڑکنے والی بیوی کے ان درد انگیز کلمات سے رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رحمت بھرے دل میں رحم و کرم اور عفو و درگزر کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کو یہ مشورہ دیا کہ تم دونوں اچانک بارگاہ رسالت میں سامنے جا کر کھڑے ہوجاؤ اور جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا وہی تم دونوں بھی کہو کہ
َقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَاِنْ کُنَّا لَخٰطِئِيْنَ
کہ یقینا آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم بلاشبہ خطاوار ہیں۔
چنانچہ ان دونوں صاحبوں نے دربار رسالت میں ناگہاں حاضر ہوکر یہی کہا۔ ایک دم رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جبینِ رحمت پر رحم و کرم کے ہزاروں ستارے چمکنے لگے اور آپ نے ان کے جواب میں بعینہٖ وہی جملہ اپنی زبانِ رحمت نشان سے ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے جواب میں فرمایا تھا کہ
لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَط يَغْفِرُ اللّٰهُ لَکُمْز وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ
آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے اللہ تمہیں بخش دے۔ وہ ارحم الراحمین ہ
جب قصور معاف ہوگیا تو ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں اشعار لکھے اور زمانہ جاہلیت کے دور میں جو کچھ آپ کی ہجو میں لکھا تھا اس کی معذرت کی اور اس کے بعد عمر بھر نہایت سچے اور ثابت قدم مسلمان رہے مگر حیاء کی وجہ سے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے کبھی سر نہیں اٹھاتے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ ابو سفیان بن الحارث میرے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قائم مقام ثابت ہوں گے۔(زرقاني ج۲ ص۳۰۱ تا ص۳۰۲ و سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۰)
میلوں تک آگ ہی آگ :۔
مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ” مرالظہران ” میں پہنچ کر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوج کو حکم دیا کہ ہر مجاہد اپنا الگ الگ چولہا جلائے۔ دس ہزار مجاہدین نے جو الگ الگ چولہے جلائے تو ” مرالظہران ” کے پورے میدان میں میلوں تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی۔
قریش کے جاسوس :۔
گو قریش کو معلوم ہی ہو چکا تھا کہ مدینہ سے فوجیں آرہی ہیں۔ مگر صورت حال کی تحقیق کے لئے قریش نے ابو سفیان بن حرب، حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء کو اپنا جاسوس بناکر بھیجا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد فکر مند ہوکر قریش کے انجام پر افسوس کر رہے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ اگر رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اتنے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آج قریش کا خاتمہ ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ رات کے وقت رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہوکر اس ارادہ سے مکہ چلے کہ قریش کو اس خطرہ سے آگاہ کرکے انہیں آمادہ کریں کہ چل کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے معافی مانگ کر صلح کرلو ورنہ تمہاری خیر نہیں۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۴)
مگر بخاری کی روایت میں ہے کہ قریش کو یہ خبر تو مل گئی تھی کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہو گئے ہیں مگر انہیں یہ پتا نہ تھا کہ آپ کا لشکر ” مرالظہران ” تک آگیا ہے۔ اس لئے ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء اس تلاش و جستجو میں نکلے تھے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا لشکر کہاں ہے ؟ جب یہ تینوں ” مرالظہران ” کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ میلوں تک آگ ہی آگ جل رہی ہے یہ منظر دیکھ کر یہ تینوں حیران رہ گئے اور ابو سفیان بن حرب نے کہا کہ میں نے تو زندگی میں کبھی اتنی دور تک پھیلی ہوئی آگ اس میدان میں جلتے ہوئے نہیں دیکھی۔ آخر یہ کون سا قبیلہ ہے ؟ بدیل بن ورقاء نے کہا کہ بنی عمرو معلوم ہوتے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا کہ نہیں بنی عمرو اتنی کثیر تعداد میں کہاں ہیں جو ان کی آگ سے ” مرالظہران ” کا پورا میدان بھر جائے گا۔ (بخاری ج۲ص ۶۱۳)
بہر حال حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان تینوں سے ملاقات ہوگئی اور ابو سفیان نے پوچھا کہ اے عباس ! تم کہاں سے آرہے ہو ؟ اور یہ آگ کیسی ہے ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لشکر کی آگ ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان بن حرب سے کہا کہ تم میرے خچر پر پیچھے سوار ہو جاؤ ورنہ اگر مسلمانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ابھی تم کو قتل کر ڈالیں گے۔ جب یہ لوگ لشکر گاہ میں پہنچے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے چند مسلمانوں نے جو لشکر گاہ کا پہرہ دے رہے تھے۔ ابو سفیان کو دیکھ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے جذبہ انتقام کو ضبط نہ کر سکے اور ابو سفیان کو دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا کہ ” ارے یہ تو خدا کا دشمن ابو سفیان ہے۔ ” دوڑتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ابوسفیان ہاتھ آگیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو ابھی اس کا سر اڑا دوں۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان تینوں مشرکوں کو ساتھ لئے ہوئے دربار رسول میں حاضر ہوگئے اور ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش پیش کردی اور یہ کہا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے ان سبھوں کو امان دے دی ہے۔
ابو سفیان کا اسلام :۔
ابو سفیان بن حرب کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سخت سے سخت ایذائیں دینی، مدینہ پر بار بار حملہ کرنا، قبائل عرب کو اشتعال دلا کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی بار ہا سازشیں، یہودیوں اور تمام کفار عرب سے ساز باز کر کے اسلام اور بانی اسلام کے خاتمہ کی کوششیں یہ وہ نا قابل معافی جرائم تھے جو پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ابوسفیان کا قتل بالکل درست و جائز اور برمحل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن کو قرآن نے ” رءوف و رحیم ” کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان کی رحمت چمکار چمکار کر ابو سفیان کے کان میں کہہ رہی تھی کہ اے مجرم ! مت ڈر۔ یہ دنیا کے سلاطین کا دربار نہیں ہے بلکہ یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ رحمت ہے۔ بخاری شریف کی روایت تو یہی ہے کہ ابوسفیان بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے جان بچ گئی۔(بخاري ج۲ ص۶۱۳ باب این رکز النبی رایة)
مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے تو فوراً رات ہی میں اسلام قبول کرلیا مگر ابو سفیان نے صبح کو کلمہ پڑھا۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۴)
اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ابو سفیان اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان ایک مکالمہ ہوا اس کے بعد ابوسفیان نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ وہ مکالمہ یہ ہے :۔
کیوں اے ابوسفیان ! کیا اب بھی تمہیں یقین نہ آیا کہ خدا ایک ہے ؟ | رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
کیوں نہیں کوئی اور خدا ہوتا تو آج ہمارے کام آتا۔ | ابو سفیان : |
کیا اس میں تمہیں کوئی شک ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ | رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
ہاں ! اس میں تو ابھی مجھے کچھ شبہ ہے۔ | ابو سفیان : |
مگر پھر اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن بعد میں بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔ چنانچہ غزوۂ طائف میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو کر انہوں نے کفار سے جنگ کی اور اسی میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہو گئی۔ پھر یہ جنگ یرموک میں بھی جہاد کے لئے گئے۔(سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۳ و زرقاني ج۲ ص۳۱۳)
لشکر اسلام کا جاہ و جلال :۔
مجاہدین اسلام کا لشکر جب مکہ کی طرف بڑھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ آپ ابو سفیان کو کسی ایسے مقام پر کھڑا کردیں کہ یہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ چنانچہ جہاں راستہ کچھ تنگ تھا ایک بلند جگہ پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو سفیان کو کھڑا کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسلامی لشکر سمندر کی موجوں کی طرح امنڈتا ہوا روانہ ہوا۔ اور قبائل عرب کی فوجیں ہتھیار سج سج کریکے بعد دیگرے ابو سفیان کے سامنے سے گزرنے لگیں۔ سب سے پہلے قبیلۂ غفار کا باوقار پرچم نظر آیا۔ ابوسفیان نے سہم کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ قبیلہ غفار کے شہسوار ہیں۔
ابوسفیان نے کہا کہ مجھے قبیلہ غفار سے کیا مطلب ہے ؟ پھر جہینہ پھر سعد بن ھذیم، پھر سلیم کے قبائل کی فوجیں زرق برق ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے پرچم لہراتے اور تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے سامنے سے نکل گئے۔ ابوسفیان ہر فوج کا جلال دیکھ کر مرعوب ہو ہو جاتے تھے اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہر فوج کے بارے میں پوچھتے جاتے تھے کہ یہ کون ہیں ؟ یہ کن لوگوں کا لشکر ہے ؟ اس کے بعد انصار کا لشکر پرانوار اتنی عجیب شان اور ایسی نرالی آن بان سے چلا کہ دیکھنے والوں کے دل دہل گئے۔ ابو سفیان نے اس فوج کی شان و شوکت سے حیران ہوکر کہا کہ اے عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ ” انصار ” ہیں ناگہاں انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈا لئے ہوئے ابو سفیان کے قریب سے گزرے اور جب ابو سفیان کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ اے ابو سفیان !
اَلْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَةُ
آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے۔ آج کعبہ میں خونریزی حلال کر دی جائے گی۔
ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے عباس ! سن لو ! آج قریش کی ہلاکت تمہیں مبارک ہو۔ پھر ابو سفیان کو چین نہیں آیا تو پوچھا کہ بہت دیر ہوگئی۔ ابھی تک میں نے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو نہیں دیکھا کہ وہ کون سے لشکر میں ہیں ؟ اتنے میں حضور تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرچم نبوت کے سائے میں اپنے نورانی لشکر کے ہمراہ پیغمبرانہ جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے۔ ابوسفیان نے جب شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا تو چلا کر کہا کہ اے حضور ! کیا آپ نے سنا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا کہتے ہوئے گئے ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ ابو سفیان بولے کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلط کہا، آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے اتنی غلط بات کیوں کہہ دی۔ آپ نے ان کے ہاتھ سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب ابوسفیان نے بارگاہ رسول میں یہ شکایت کی کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابھی ابھی سعد بن عبادہ یہ کہتے ہوئے گئے ہیں کہ اَلْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَة آج گھمسان کی لڑائی کا دن ہے۔
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے غلط کہا، بلکہ اے ابو سفیان ! اَلْيَوْمَ يَوْمُ الْمَرْحَمَة آج کا دن تو رحمت کا دن ہے۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۶)
پھر فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ بانی کعبہ کے جانشین حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں نزول اجلال فرمایا اور حکم دیا کہ میرا جھنڈا مقام ” حجون ” کے پاس گاڑا جائے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام فرمان جاری فرمایا کہ وہ فوجوں کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ یعنی ” کداء ” کی طرف سے مکہ میں داخل ہوں۔(بخاري ج۲ ص۶۱۳ باب اين رکز النبي رایة و زرقاني ج۲ ص۳۰۴ تا ص۳۰۶)
فاتح مکہ کا پہلا فرمان :۔
تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سر زمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں :۔
جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔
اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابو سفیان ایک فخر پسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرما دیا کہ
“جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ “
اس کے بعد ابوسفیان مکہ میں بلند آواز سے پکار پکار کر اعلان کرنے لگا کہ اے قریش ! محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اتنا بڑا لشکر لے کر آگئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت نہیں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ ابوسفیان کی زبان سے یہ کم ہمتی کی بات سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ جل بھن کر کباب ہوگئی اور طیش میں آکر ابوسفیان کی مونچھ پکڑ لی اور چلا کر کہنے لگی کہ اے بنی کنانہ ! اس کم بخت کو قتل کردو یہ کیسی بزدلی اور کم ہمتی کی بات بک رہا
ہے۔ ہند کی اس چیخ و پکار کی آواز سن کر تمام بنو کنانہ کا خاندان ابو سفیان کے مکان میں جمع ہو گیا اور ابو سفیان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس وقت غصہ اور طیش کی باتوں سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ میں پورے اسلامی لشکر کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں اور میں تم لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ہم لوگوں سے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ خیریت ہے کہ انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ جو ابو سفیان کے مکان میں چلا جائے اس کے لئے امان ہے۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ لوگ میرے مکان میں آکر پناہ لے لیں۔ ابوسفیان کے خاندان والوں نے کہا کہ تیرے مکان میں بھلا کتنے انسان آسکیں گے ؟ ابو سفیان نے بتایا کہ محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے ان لوگوں کو بھی امان دے دی ہے جو اپنے دروازے بند کرلیں یا مسجد حرام میں داخل ہو جائیں یا ہتھیار ڈال دیں۔ ابو سفیان کا یہ بیان سن کر کوئی ابو سفیان کے مکان میں چلا گیا۔ کوئی مسجد حرام کی طرف بھاگا۔ کوئی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔(زرقاني ج۲ ص۳۱۳)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس اعلان رحمت نشان یعنی مکمل امن و امان کا فرمان جاری کر دینے کے بعد ایک قطرہ خون بہنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ لیکن عکرمہ بن ابوجہل و صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو اور جماش بن قیس نے مقام ” خندمہ ” میں مختلف قبائل کے اوباش کو جمع کیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج میں سے دو آدمیوں حضرت کر زبن جابر فہری اور حبیش بن اشعر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو شہید کردیا اور اسلامی لشکر پر تیر برسانا شروع کردیا۔ بخاری کی روایت میں انہی دو حضرات کی شہادت کا ذکر ہے مگر زرقانی وغیرہ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کفار قریش نے قتل کردیا۔ دو وہ جو اوپر ذکر کئے گئے اور ایک حضرت مسلمہ بن المیلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بارہ یا تیرہ کفار بھی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۳ و زرقاني ج۲ ص۳۱۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ تلواریں چمک رہی ہیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میں نے تو خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ کرنے سے منع کردیا تھا۔ پھر یہ تلواریں کیسی چل رہی ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ پہل کفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس لئے لڑنے کے سوا حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں رہ گیا تھا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ قضاء الٰہی یہی تھی اور خدا نے جو چاہا وہی بہتر ہے۔ (زرقاني ج۲ ص۳۱۰)
مکہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قیام گاہ :۔
بخاری کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے مکان پر تشریف لے گئے اور وہاں غسل فرمایا پھر آٹھ رکعت نماز چاشت پڑھی۔ یہ نماز بہت ہی مختصر طور پر ادا فرمائی لیکن رکوع و سجدہ مکمل طور پر ادا فرماتے رہے۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۵ باب منزل النبي یوم الفتح)
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ کیا گھر میں کچھ کھانا بھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خشک روٹی کے چند ٹکڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرم دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کو آپ کے سامنے پیش کردوں۔ ارشاد فرمایا کہ ” لاؤ ” پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان خشک روٹیوں کو توڑا اور پانی میں بھگو کر نرم کیا اور حضرت اُمِ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان روٹیوں کے سالن کے لئے نمک پیش کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی سالن گھر میں نہیں ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر میں ” سرکہ ” کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” سرکہ ” لاؤ۔ آپ نے سرکہ کو روٹی پر ڈالا اور تناول فرما کر خدا کا شکر بجا لائے۔ پھر فرمایا کہ ” سرکہ بہترین سالن ہے اور جس گھر میں سرکہ ہوگا اس گھر والے محتاج نہ ہوں گے۔ ” پھر حضرت اُمِ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں نے حارث بن ہشام (ابوجہل کے بھائی) اور زہیر بن اُمیہ کو امان دے دی ہے۔ لیکن میرے بھائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان دونوں کو اس جرم میں قتل کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج سے جنگ کی ہے تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اُمِ ہانی! رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس کو تم نے امان دے دی اس کے لئے ہماری طرف سے بھی امان ہے۔(زرقاني ج۲ ص۳۲۶)
بیت اللہ میں داخلہ :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا جھنڈا ” حجون ” میں جس کو آج کل جنۃ المعلیٰ کہتے ہیں ” مسجد الفتح ” کے قریب میں گاڑا گیا پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا کر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے مسجد حرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور کعبہ کا طواف کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا۔(بخاري ج۲ ص۶۱۴ وغیره)
یہ انقلاب زمانہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام جن کا لقب ” بت شکن ” ہے ان کی یادگار خانہ کعبہ کے اندرونِ حصار تین سو ساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ فاتح مکہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حضرت خلیل علیہ السلام کا جانشینِ جلیل ہونے کی حیثیت سے فرض اولین تھا کہ یادگار خلیل کو بتوں کی نجس اور گندی آلائشوں سے پاک کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خود بہ نفس نفیس ایک چھڑی لے کر کھڑے ہوئے اور ان بتوں کو چھڑی کی نوک سے ٹھونکے مار مار کر گراتے جاتے تھے اور جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًا کی آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے، یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۴ فتح مکه وغیره)
پھر ان بتوں کو جو عین کعبہ کے اندر تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سب نکالے جائیں۔ چنانچہ وہ سب بت نکال باہر کئے گئے۔ انہی بتوں میں حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے مجسمے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں فال کھولنے کے تیر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کو مار ڈالے۔ ان کافروں کو خوب معلوم ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال نہیں کھولا۔ جب تک ایک ایک بت کعبہ کے اندر سے نہ نکل گیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر قدم نہیں رکھا جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا تو آپ اپنے ساتھ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور عثمان بن طلحہ حَجَبِی کو لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی ادا فرمائی اس کے بعد باہر تشریف لائے۔(بخاری ج۱ ص۲۱۸ باب من کبر في نواحي الکعبة و بخاري ج۲ ص۶۱۴ فتح مکه وغیره)
کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہر نکلے تو عثمان بن طلحہ کو بلا کر کعبہ کی کنجی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
خُذُوْهَا خَالِدَةً تَالِدَةً لَا يَنْزعُهَا مِنْكُمْ اِلَّا ظَالِمٌ
لو یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تم لوگوں میں رہے گی یہ کنجی تم سے وہی چھینے گا جو ظالم ہوگا۔ (زرقاني ج۲ ص۲۳۹)
شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دربارِ عام :۔
اس کے بعد تاجدارِ دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شہنشاہ اسلام کی حیثیت سے حرم الٰہی میں سب سے پہلا دربارِ عام منعقد فرمایا جس میں افواج اسلام کے علاوہ ہزاروں کفار و مشرکین کے خواص و عوام کا ایک زبردست ازدحام تھا۔ اس شہنشاہی خطبہ میں آپ نے صرف اہل مکہ ہی سے نہیں بلکہ تمام اقوام عالم سے خطابِ عام فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ
“ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی مدد کی اور کفار کے تمام لشکروں کو تنہا شکست دے دی، تمام فخر کی باتیں، تمام پرانے خونوں کا بدلہ، تمام پرانے خون بہا، اور جاہلیت کی رسمیں سب میرے پیروں کے نیچے ہیں۔ صرف کعبہ کی تولیت اور حجاج کو پانی پلانا، یہ دو اعزاز اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اے قوم قریش ! اب جاہلیت کا غرور اور خاندانوں کا افتخار خدا نے مٹا دیا۔ تمام لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ “
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :۔
اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے لئے قبیلے اور خاندان بنا دیئے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو لیکن خدا کے نزدیک سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
بے شک اللہ نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام فرما دیا ہے۔
(سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۲ مختصراً و بخاري وغیره)
کفارِ مکہ سے خطاب :۔
اس کے بعد شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سر جھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو با رہا آپ پر پتھروں کی بارش کر چکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے در و دیوار دہل چکے تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے وہ ستم گار جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثار پروانوں حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ہوئی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دیئے تھے، سینکڑوں بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جور و جفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم و عدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کووں کو کھلا دی جائیں گی اور انصار و مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملا کر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج کر کے تہس نہس کر ڈالیں گی ان مجرموں کے سینوں میں خوف و ہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں آگئے تھے اور عالم یاس میں انہیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اور نا امیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نگاہ رحمت ان پاپیوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ
“بولو ! تم کو کچھ معلوم ہے ؟ کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں۔ “
اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ اَخٌ كَرِيْمٌ وَابْنُ اَخٍ كَرِيْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔
سب کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں۔اور سب کے کان شہنشاہ نبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ
لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ فَاذْهَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ(زرقاني ج۲ ص۳۲۸)
آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیر متوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمان رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کے نعروں سے حرم کعبہ کے در و دیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ
جہاں تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
کفار نے مہاجرین کی جائدادوں، مکانوں، دکانوں پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں، مکانوں، دکانوں اور سامانوں کو مکہ کے غاصبوں کے قبضوں سے واگزار کر کے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں خوشی خوشی مکہ والوں کو ہبہ کردیں۔
اللہ اکبر ! اے اقوام عالم کی تاریخی داستانو ! بتاؤ کیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق ہے ؟ اے دھرتی ! خدا کے لئے بتا ؟ اے آسمان ! للہ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے ؟ جس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا ہو ؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو ! کیا تم نے لاکھوں برس کی گردش لیل و نہار میں کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے ؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے ؟ کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کو چیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شانِ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَدیکھے
دوسرا خطبہ :۔
فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں حرم کعبہ کے احکام و آداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا، جانوروں کا مارنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا، اذخر کے سوا کوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اللہ عزوجل نے گھڑی بھر کے لئے اپنے رسول علیہ السلام کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی پھر قیامت تک کے لئے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ عزوجل نے اس کو حرم بنادیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس شہر میں خونریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لئے حلال کی جائے گی۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۷ فتح مکه)
انصار کو فراق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ڈر :۔
انصار نے قریش کے ساتھ جب رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس کریمانہ حسن سلوک کو دیکھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کچھ دنوں تک مکہ میں ٹھہر گئے تو انصار کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ شاید رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر اپنی قوم اور وطن کی محبت غالب آگئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مکہ میں اقامت فرمالیں اور ہم لوگ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے دور ہوجائیں جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علہن وسلم کو انصار کے اس خیال کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ معاذ اللہ ! اے انصار ! اَلْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَ الْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ ۔(سيرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۶)
اب تو ہماری زندگی اور وفات تمہارے ہی ساتھ ہے۔
یہ سن کر فرط مسرت سے انصار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور سب نے کہا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم لوگوں نے جو کچھ دل میں خیال کیا یا زبان سے کہا اس کا سبب آپ کی ذات مقدسہ کے ساتھ ہمارا جذبہ عشق ہے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جدائی کا تصور ہمارے لئے ناقابل برداشت ہورہا تھا۔ (زرقاني ج۲ ص۳۳۳ و سيرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۶)
کعبہ کی چھت پر اذان :۔
جب نماز کا وقت آیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ جس وقت اَللّٰهُ اَكْبَرُ اَللّٰهُ اَكْبَرُ کی ایمان افروز صدا بلند ہوئی تو حرم کے حصار اور کعبہ کے در و دیوار پر ایمانی زندگی کے آثار نمودار ہوگئے مگر مکہ کے وہ نو مسلم جو ابھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے اذان کی آواز سن کر ان کے دلوں میں غیرت کی آگ پھر بھڑک اٹھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عتاب بن اُسید نے کہا کہ خدا نے میرے باپ کی لاج رکھ لی کہ اس آواز کو سننے سے پہلے ہی اس کو دنیا سے اٹھا لیا اور ایک دوسرے سردار قریش کے منہ سے نکلا کہ ” اب جینا بے کار ہے۔ ” (اصابه تذکره عتاب بن اسید ج۲ ص۴۵۱ و زرقانی ج۲ ص۳۴۶)
مگر اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں نور ایمان کا سورج چمک اٹھا اور وہ صادق الایمان مسلمان بن گئے۔ چنانچہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی کو مکہ کا حاکم بنا دیا۔ (سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۱۳ و ص۴۴۰)
بیعت ِ اسلام :۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوہ صفا کی پہاڑی کے نیچے ایک بلند مقام پر بیٹھے اور لوگ جوق در جوق آکر آپ کے دست حق پرست پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ مردوں کی بیعت ختم ہوچکی تو عورتوں کی باری آئی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر بیعت کرنے والی عورت سے جب وہ تمام شرائط کا اقرار کرلیتی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے فرما دیتے تھے کہ قَدْ بَايَعْتُكِ میں نے تجھ سے بیعت لے لی۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ خدا کی قسم ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاتھ نے بیعت کے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ صرف کلام ہی سے بیعت فرما لیتے تھے۔ (بخاري ج۱ ص۳۷۵ کتاب الشروط)
انہی عورتوں میں نقاب اوڑھ کر ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بھی بیعت کے لئے آئیں جو حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں۔ یہ وہی ہند ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شکم چاک کرکے ان کے جگر کو نکال کر چبا ڈالا تھا اور ان کے کان ناک کو کاٹ کر اور آنکھ کو نکال کر ایک دھاگہ میں پرو کر گلے کا ہار بنایا تھا۔ جب یہ بیعت کے لئے آئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نہایت دلیری کے ساتھ گفتگو کی۔ ان کا مکالمہ حسب ذیل ہے۔
تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا۔ | رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا لیکن بہر حال ہم کو منظور ہے۔ | ہند بنت عتبہ : |
چوری مت کرنا۔ | رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
میں اپنے شوہر (ابوسفیان) کے مال میں سے کچھ لے لیا کرتی ہوں۔ معلوم نہیں یہ بھی جائز ہے یا نہیں ؟ | ہند بنت عتبہ : |
اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا۔ | رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
ہم نے تو بچوں کو پالا تھا اور جب وہ بڑے ہو گئے تو آپ نے جنگ بدر میں ان کو مار ڈالا۔ اب آپ جانیں اور وہ جانیں۔ | ہند بنت عتبہ : |
(طبري ج۳ ص۶۴۳ مختصراً)
بہر حال حضرت ابو سفیان اور ان کی بیوی ہند بنت عتبہ دونوں مسلمان ہو گئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) لہٰذا ان دونوں کے بارے میں بدگمانی یا ان دونوں کی شان میں بدزبانی روافض کا مذہب ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان دونوں کا شمار صحابہ اور صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی فہرست میں ہے۔
ابتداء میں گو ان دونوں کے ایمان میں کچھ تذبذب رہا ہو مگر بعد میں یہ دونوں صادق الایمان مسلمان ہوگئے اور ایمان ہی پر ان دونوں کا خاتمہ ہوا۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)
حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بارگاہ نبوت میں آئیں اور یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا ذلیل ہونا مجھے محبوب نہ تھا۔ مگر اب میرا یہ حال ہے کہ روئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا عزت دار ہونا مجھے پسند نہیں۔ (بخاري ج۱ ص۵۳۹ باب ذکر هند بنت عتبه)
اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں محدث ابن عساکر کی ایک روایت ہے کہ یہ مسجد حرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سامنے سے نکلے تو انہوں نے اپنے دل میں یہ کہا کہ کونسی طاقت ان کے پاس ایسی ہے کہ یہ ہم پر غالب رہتے ہیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا اور قریب آکر آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ہم خدا کی طاقت سے غالب آجاتے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ ” میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ ” اور محدث حاکم اور ان کے شاگرد امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ ” کاش ! میں ایک فوج جمع کر کے دوبارہ ان سے جنگ کرتا ” ادھر ان کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ” اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھے ذلیل و خوار کردے گا۔ ” یہ سن کر حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ توبہ و استغفار کرنے لگے اور عرض کیا کہ مجھے اس وقت آپ کی نبوت کا یقین حاصل ہو گیا کیونکہ آپ نے میرے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا۔ (زرقاني ج۲ ص۳۴۶)
یہ بھی روایت ہے کہ جب سب سے پہلے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان پر اسلام پیش فرمایا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ پھر میں اپنے معبود عزیٰ کو کیا کروں گا ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برجستہ فرمایا تھا کہ ” تم عزیٰ پر پاخانہ پھر دینا ” چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب عزیٰ کو توڑنے کے لئے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ فرمایا تو ساتھ میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی بھیجا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے معبود عزیٰ کو توڑ ڈالا۔ یہ محمد بن اسحاق کی روایت ہے اور ابن ہشام کی روایت یہ ہے کہ عزیٰ کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توڑا تھا۔ واللہ اعلم۔ (زرقاني ج۲ ص۳۴۹)
بت پرستی کا خاتمہ :۔
گزشتہ اوراق میں ہم تحریر کرچکے کہ خانہ کعبہ کے تمام بتوں اور دیواروں کی تصاویر کو توڑ پھوڑ کر اور مٹاکر مکہ کو تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بت پرستی کی لعنت سے پاک کر ہی دیا تھا لیکن مکہ کے اطراف میں بھی بت پرستی کے چند مراکز تھے یعنی لات، مناۃ، سواع، عزیٰ یہ چند بڑے بڑے بت تھے جو مختلف قبائل کے معبود تھے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لشکروں کو بھیج کر ان سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر بت پرستی کے سارے طلسم کو تہس نہس کردیا اور مکہ نیز اس کے اطراف و جوانب کے تمام بتوں کو نیست و نابود کردیا۔ (زرقانی ج ۲ص ۳۴۷تا ص ۳۴۹)
اس طرح بانی کعبہ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانشین حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مورث اعلیٰ کے مشن کو مکمل فرما دیا اور در حقیقت فتح مکہ کا سب سے بڑا یہی مقصد تھا کہ شرک و بت پرستی کا خاتمہ اور توحید خداوندی کا بول بالا ہوجائے۔ چنانچہ یہ عظیم مقصد بحمدہ تعالیٰ بدرجہ اتم حاصل ہوگیا کہ -
آنجا کہ بود نعرہ کفارو مشرکاں
اکنوں خروش نعرہ اللہ اکبر است
چند ناقابل معافی مجرمین :۔
جب مکہ فتح ہوگیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ مگر چند ایسے مجرمین تھے جن کے بارے میں تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری فرما دیا کہ یہ لوگ اگر اسلام نہ قبول کریں تو یہ لوگ جہاں بھی ملیں قتل کر دیئے جائیں خواہ وہ غلاف کعبہ ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں۔ ان مجرموں میں سے بعض نے تو اسلام قبول کرلیا اور بعض قتل ہوگئے ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ تحریر کیا جاتا ہے:
(۱)”عبدالعزیٰ بن خطل” یہ مسلمان ہوگیا تھا اس کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے جانور وصول کرنے کے لئے بھیجا اور ساتھ میں ایک دوسرے مسلمان کو بھی بھیج دیاکسی بات پر دونوں میں تکرار ہوگئی تو اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا اور قصاص کے ڈر سے تمام جانوروں کو لے کر مکہ بھاگ نکلا اور مرتد ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن یہ بھی ایک نیزہ لے کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ لیکن مسلم افواج کا جلال دیکھ کر کانپ اٹھا اور نیزہ پھینک کر بھاگا اور کعبہ کے پردوں میں چھپ گیا۔ حضرت سعید بن حریث مخزومی اور ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مل کر اس کو قتل کردیا۔ (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۲)
(۲) ” حویرث بن نقید ” یہ شاعر تھا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو لکھا کرتا تھا اور خونی مجرم بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
(۳) “مقیس بن صبابہ ” اس کو نمیلہ بن عبداللہ نے قتل کیا۔ یہ بھی خونی تھا۔
(۴) “حارث بن طلاطلہ ” یہ بھی بڑا ہی موذی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا۔
(۵) ” قریبہ ” یہ ابن خطل کی لونڈی تھی۔ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہجو گایا کرتی تھی یہ بھی قتل کی گئی۔
مکہ سے فرار ہوجانے والے :۔
چار اشخاص مکہ سے بھاگ نکلے تھے ان لوگوں کا مختصر تذکرہ یہ ہے :۔
(۱) “عکرمہ بن ابی جہل ” یہ ابوجہل کے بیٹے ہیں۔ اس لئے ان کی اسلام دشمنی کا کیا کہنا ؟ یہ بھاگ کر یمن چلے گئے لیکن ان کی بیوی ” اُمِ حکیم ” جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے شوہر عکرمہ کے لئے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے معاف کردیا ! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ پھر حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوشی خوشی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (موطا امام مالک کتاب النکاح وغیره)
(۲) “صفوان بن امیہ ” یہ امیہ بن خلف کے فرزند ہیں۔ اپنے باپ امیہ ہی کی طرح یہ بھی اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ کر جدہ چلے گئے۔ حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں ان کی سفارش پیش کی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) قریش کا ایک رئیس صفوان مکہ سے جلاوطن ہوا چاہتا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو بھی معافی عطا فرما دی اور امان کے نشان کے طور پر حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا عمامہ عنایت فرمایا۔ چنانچہ وہ مقدس عمامہ لے کر ” جدہ ” گئے اور صفوان کو مکہ لے کر آئے صفوان جنگ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن اس کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ (طبري ج۳ ص۶۴۵)
(۳) “کعب بن زہیر ” یہ ۹ ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں اپنا مشہور قصیدہ ” بانت سعاد ” پڑھا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہوکر ان کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ چادر مبارک حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور سلطنت میں ان کو دس ہزار درہم پیش کیا کہ یہ مقدس چادر ہمیں دے دو۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ چادر مبارک ہرگز ہرگز کسی کو نہیں دے سکتا۔ لیکن آخر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ان کے وارثوں کو بیس ہزار درہم دے کر وہ چادر لے لی اور عرصہ دراز تک وہ چادر سلاطین اسلام کے پاس ایک مقدس تبرک بن کر باقی رہی۔ (مدارج ج۲ ص۳۳۸)
(۴) “وحشی ” یہی وہ وحشی ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا تھا۔ یہ بھی فتح مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے مگر پھر طائف کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے اپنے چچا کے قتل کی خونی داستان سنی اور رنج و غم میں ڈوب گئے مگر ان کو بھی آپ نے معاف فرما دیا۔ لیکن یہ فرمایا کہ وحشی ! تم میرے سامنے نہ آیا کرو۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا بے حد ملال رہتا تھا۔ پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمۃ الکذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور لشکر اسلام نے اس ملعون سے جہاد کیا تو حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنا نیزہ لے کر جہاد میں شامل ہوئے اور مسیلمۃ الکذاب کو قتل کردیا۔ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ قَتَلْتُ خَيْرَ النَّاسِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَقَتَلْتُ شَرَّ النَّاسِ فِي الْاِسْلَامِ یعنی میں نے دور جاہلیت میں بہترین انسان (حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو قتل کیا اور اپنے دور اسلام میں بدترین آدمی (مسیلمۃ الکذاب) کو قتل کیا۔ انہوں نے درباراقدس میں اپنے جرائم کا اعتراف کر کے عرض کیا کہ کیا خدا مجھ جیسے مجرم کو بھی بخش دے گا ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ط اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ط اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (زمر)
یعنی اے حبیب آپ فرما دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر حد سے زیادہ گناہ کرلیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ یقینا بڑا بخشنے والااور بہت مہربان ہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۰۲)
مکہ کا انتظام :۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے لئے حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ کا حاکم مقرر فرما دیا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خدمت پر مامور فرمایا کہ وہ نو مسلموں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم دیتے رہیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۲۴)
اس میں اختلاف ہے کہ فتح کے بعد کتنے دنوں تک حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ میں قیام فرمایا۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ سترہ دن تک آپ مکہ میں مقیم رہے۔ اور ترمذی کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا۔ لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے کہ انیس دن آپ مکہ میں ٹھہرے۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۵)
ان تینوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی جاسکتی ہے کہ ابوداؤد کی روایت میں مکہ میں داخل ہونے اور مکہ سے روانگی کے دونوں دنوں کو شمار نہیں کیا ہے اس لئے سترہ دن مدتِ اقامت بتائی ہے اور ترمذی کی روایت میں مکہ میں آنے کے دن کو تو شمار کرلیا۔ کیونکہ آپ صبح کو مکہ میں داخل ہوئے تھے اور مکہ سے روانگی کے دن کو شمار نہیں کیا۔ کیونکہ آپ صبح سویرے ہی مکہ سے حنین کے لئے روانہ ہوگئے تھے اور امام بخاری کی روایت میں آنے اور جانے کے دونوں دنوں کو بھی شمار کرلیا گیا ہے۔ اس لئے انیس دن آپ مکہ میں مقیم رہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
اسی طرح اس میں بڑا اختلاف ہے کہ مکہ کونسی تاریخ میں فتح ہوا ؟ اور آپ کس تاریخ کو مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے ؟ امام بیہقی نے ۱۳ رمضان، امام مسلم نے ۱۶ رمضان، امام احمد نے ۱۸ رمضان بتایا اور بعض روایات میں ۱۷ رمضان اور ۱۸ رمضان بھی مروی ہے۔ مگر محمد بن اسحاق نے اپنے مشائخ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ۲۰ رمضان ۸ ھ کو مکہ فتح ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی ج۲ ص ۲۹۹)
جنگ ِ حنین :۔
“حنین ” مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ” غزوہ ہوازن ” بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ” بنی ہوازن ” سے مقابلہ تھا۔
فتح مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثر وہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں توقف کررہے تھے اور فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔
لیکن مقام حنین میں ” ہوازن ” اور ” ثقیف ” نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فنون جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتح مکہ کا اُلٹا اثر پڑا۔ ان لوگوں پر غیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ ” درید بن الصمہ ” جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کر سکے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شوال ۸ ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نو مسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ” آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ “
لیکن خداو ند عالم عزوجل کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لیکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک
دم سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خدا عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ -
اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
اسی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دا ہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ يَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ فورًا آواز آئی کہ ” ہم حاضر ہیں، یا رسول اﷲ ! ” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پھر بائیں جانب رخ کر کے فرمایا کہ يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ فوراً آواز آئی کہ ” ہم حاضر ہیں، یا رسول اﷲ ! ” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے۔ آپ نے ان کو حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو يَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اور يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے ازدحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زر ہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جاں بازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زدن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے کچھ قتل ہو گئے جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلمانوں سے لڑتی رہیں۔ یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے۔ لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداﷲ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتح مبین نے حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مال غنیمت ہاتھ آیا۔(بخاري ج۲ ص۶۲۱ غزوه طائف)
یہی وہ مضمون ہے جس کو قرآن حکیم نے نہایت مؤثر انداز میں بیان فرمایا کہ
وَيَوْمَ حُنَيْنِ لا اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ کَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِيْنَ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ج وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا ط وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ (توبه)
اور حنین کا دن یاد کرو جب تم اپنی کثرت پر نازاں تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے پھر اﷲ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول اور مسلمانوں پر اور ایسے لشکروں کو اتار دیا جو تمہیں نظر نہیں آئے اور کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔
حنین میں شکست کھا کر کفار کی فوجیں بھاگ کر کچھ تو ” اوطاس ” میں جمع ہوگئیں اور کچھ ” طائف ” کے قلعہ میں جا کر پناہ گزین ہو گئیں۔ اس لئے کفار کی فوجوں کو مکمل طور پر شکست دینے کے لئے ” اوطاس ” اور ” طائف ” پر بھی حملہ کرنا ضروری ہو گیا۔
جنگ اوطاس :۔
چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں تھوڑی سی فوج ” اوطاس ” کی طرف بھیج دی۔ درید بن الصمہ کئی ہزار کی فوج لے کر نکلا۔ درید بن الصمہ کے بیٹے نے حضرت ابو عامر اشعری رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے زانو پر ایک تیر مارا حضرت ابو عامر اشعری حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چچا تھے۔ اپنے چچا کو زخمی دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ دوڑ کر اپنے چچا کے پاس آئے اور پوچھا کہ چچا جان ! آپ کو کس نے تیر مارا ہے ؟ تو حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اشارہ سے بتایا کہ وہ شخص میرا قاتل ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوش میں بھرے ہوئے اس کافر کو قتل کرنے کے لئے دوڑے تو وہ بھاگ نکلا۔ مگر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کا پیچھا کیا اور یہ کہہ کر کہ اے او بھاگنے والے! کیا تجھ کو شرم اور غیرت نہیں آتی ؟ جب اس کافر نے یہ گرم گرم طعنہ سنا تو ٹھہر گیا پھر دونوں میں تلوار کے دو دو ہاتھ ہوئے اور حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آخر اس کو قتل کر کے دم لیا۔ پھر اپنے چچا کے پاس آئے اور خوشخبری سنائی کہ چچا جان ! خدا نے آپ کے قاتل کا کام تمام کر دیا۔ پھر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے چچا کے زانو سے وہ تیر کھینچ کر نکالا تو چونکہ زہر میں بجھایا ہوا تھا اس لئے زخم سے بجائے خون کے پانی بہنے لگا۔ حضرت ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی جگہ حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو فوج کا سپہ سالار بنایا اور یہ وصیت کی کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اور میرے لئے دعا کی درخواست کرنا۔ یہ وصیت کی اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب اس جنگ سے فارغ ہو کر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور اپنے چچا کا سلام اور پیغام پہنچایا تو اس وقت تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک بان کی چارپائی پر تشریف فرما تھے اور آپ کی پشت مبارک اور پہلوئے اقدس میں بان کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے پانی منگا کر وضو فرمایا ۔پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اونچا اٹھایا کہ میں نے آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ لی اور اس طرح آپ نے دعا مانگی کہ ” یااﷲ ! عزوجل تو ابو عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو قیامت کے دن بہت سے انسانوں سے زیادہ بلند مرتبہ بنا دے۔ ” یہ کرم دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے لئے بھی دعا فرما دیجئے ؟ تو یہ دعا فرمائی کہ ” یااﷲ ! عزوجل تو عبداﷲ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے اور اس کو قیامت کے دن عزت والی جگہ میں داخل فرما۔ ” عبداﷲ بن قیس حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا نام ہے۔(بخاری ج۲ ص۶۱۹ غزوه اوطاس)
بہر کیف حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے درید بن الصمہ کے بیٹے کو قتل کر دیا اور اسلامی علم کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ درید بن الصمہ بڑھاپے کی وجہ سے ایک ہودج پر سوار تھا۔ اس کو حضرت ربیعہ بن رفیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خود اسی کی تلوار سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد کفار کی فوجوں نے ہتھیار ڈال دیا اور سب گرفتار ہو گئے۔ ان قیدیوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضاعی بہن حضرت ” شیماء ” رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ یہ حضرت بی بی حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی صاحبزادی تھیں۔ جب لوگوں نے ان کو گرفتار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے نبی کی بہن ہوں۔ مسلمان ان کو شناخت کے لئے بارگاہ نبوت میں لائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو پہچان لیا اور جوشِ محبت میں آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آپ نے اپنی چادر مبارک زمین پر بچھا کر ان کو بٹھایا اور کچھ اونٹ کچھ بکریاں ان کو دے کر فرمایا کہ تم آزاد ہو۔ اگر تمہارا جی چاہے تو میرے گھر پر چل کر رہو اور اگر اپنے گھر جانا چاہو تو میں تم کو وہاں پہنچا دوں۔ انہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو نہایت ہی عزت و احترام کے ساتھ وہ ان کے قبیلے میں پہنچا دی گئیں۔ (طبری ج۳ ص۶۶۸)
طائف کا محاصرہ :۔
یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ حنین سے بھاگنے والی کفار کی فوجیں کچھ تو اوطاس میں جا کر ٹھہری تھیں اور کچھ طائف کے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اوطاس کی فوجیں تو آپ پڑھ چکے کہ وہ شکست کھا کر ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئیں اور سب گرفتار ہو گئیں۔ لیکن طائف میں پناہ لینے والوں سے بھی جنگ ضروری تھی۔ اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حنین اور اوطاس کے اموال غنیمت اور قیدیوں کو ” مقام جعرانہ ” میں جمع کرکے طائف کا رخ فرمایا۔
طائف خود ایک بہت ہی محفوظ شہر تھا جس کے چاروں طرف شہر پناہ کی دیوار بنی ہوئی تھی اور یہاں ایک بہت ہی مضبوط قلعہ بھی تھا۔ یہاں کا رئیس اعظم عروہ بن مسعود ثقفی تھا جو ابو سفیان کا داماد تھا۔ یہاں ثقیف کا جو خاندان آباد تھا وہ عزت و
شرافت میں قریش کا ہم پلہ شمار کیا جاتا تھا۔ کفار کی تمام فوجیں سال بھر کا راشن لے کر طائف کے قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئی تھیں۔ اسلامی افواج نے طائف پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا مگر قلعہ کے اندر سے کفار نے اس زور و شور کے ساتھ تیروں کی بارش شروع کر دی کہ لشکر اسلام اس کی تاب نہ لا سکا اور مجبوراً اس کو پسپا ہونا پڑا۔ اٹھارہ دن تک شہر کا محاصرہ جاری رہا مگر طائف فتح نہیں ہو سکا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب جنگ کے ماہروں سے مشورہ فرمایا تو حضرت نوفل بن معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ” لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر کوشش جاری رہی تو پکڑ لی جائے گی لیکن اگر چھوڑ دی جائے تو بھی اس سے کوئی اندیشہ نہیں۔ ” یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے محاصرہ اٹھا لینے کا حکم دے دیا۔ (زرقاني ج۳ ص۳۳)
طائف کے محاصرہ میں بہت سے مسلمان زخمی ہوئے اور کل بارہ اصحاب شہید ہوئے سات قریش، چار انصار اور ایک شخص بنی لیث کے۔ زخمیوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے عبداﷲ بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے یہ ایک تیر سے زخمی ہو گئے تھے۔ پھر اچھے بھی ہو گئے، لیکن ایک مدت کے بعد پھر ان کا زخم پھٹ گیا اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اِسی زخم سے ان کی وفات ہو گئی۔ (زرقانی ج۳ ص۳۰)
طائف کی مسجد :۔
یہ مسجد جس کو حضرت عمرو بن امیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تعمیر کیا تھا ایک تاریخی مسجد ہے۔ اس جنگ طائف میں ازواجِ مطہرات میں سے دو ازواج ساتھ تھیں حضرت اُمِ سلمہ اور حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان دونوں کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو خیمے گاڑے تھے اور جب تک طائف کا محاصرہ رہا آپ ان دونوں خیموں کے درمیان میں نمازیں پڑھتے رہے۔ جب بعد میں قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تو ان لوگوں نے اسی جگہ پر مسجد بنا لی۔ (زرقانی ج۳ ص۳۱)
جنگ طائف میں بت شکنی :۔
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے طائف کا ارادہ فرمایا تو حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کے ساتھ بھیجا کہ وہ ” ذوالکفین ” کے بت خانہ کو برباد کر دیں۔ یہاں عمر بن حممہ دوسی کا بت تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے وہاں جا کر بت خانہ کو منہدم کر دیا اور بت کو جلا دیا۔ بت کو جلاتے وقت وہ ان اشعار کو پڑھتے جاتے تھے :۔
يَاذَا الْكَفَيْنِ لَسْتُ مِنْ عِبَادِكَا
اے ذالکفین ! میں تیرا بندہ نہیں ہوں
مِيْلَادُنَا اَقدم مِنْ مِيْلَادِكَا
میری پیدائش تیری پیدائش سے بڑی ہے
اِنِّيْ حَشَوْتُ النَّارَ فِيْ فُؤَادِكَا
میں نے تیرے دل میں آگ لگا دی ہے
حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ چار دن میں اس مہم سے فارغ ہوکر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس طائف میں پہنچ گئے۔ یہ ” ذوالکفین ” سے قلعہ توڑنے کے آلات منجنیق وغیرہ بھی لائے تھے۔ چنانچہ اسلام میں سب سے پہلی یہی منجنیق ہے جو طائف کا قلعہ توڑنے کے لئے لگائی گئی ۔مگر کفار کی فوجوں نے تیر اندازی کے ساتھ ساتھ گرم گرم لوہے کی سلاخیں پھینکنی شروع کر دیں اس وجہ سے قلعہ توڑنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ (زرقاني ج۳ ص۳۱)
اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بھیجا کہ طائف کے اطراف میں جو جا بجا ثقیف کے بت خانے ہیں ان سب کو منہدم کر دیں۔ چنانچہ آپ نے ان سب بتوں اور بت خانوں کو توڑ پھوڑ کر مسمار و برباد کردیا۔ اور جب لوٹ کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور بہت دیر تک ان سے تنہائی میں گفتگو فرماتے رہے، جس سے لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۱۸)
طائف سے روانگی کے وقت صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ قبیلہ ثقیف کے کفار کے لئے ہلاکت کی دعا فرما دیجئے۔ تو آپ نے دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ اهْدِ ثَقِيْفًا وَأْتِ بِهِمْ یااﷲ ! عزوجل ثقیف کو ہدایت دے اور انکو میرے پاس پہنچا دے۔ (مسلم ج۲ ص۳۰۷)
چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی یہ دعا مقبول ہوئی کہ قبیلہ ثقیف کا وفد مدینہ پہنچا اور پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔
مالِ غنیمت کی تقسیم :۔
طائف سے محاصرہ اُٹھا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ” جعرانہ ” تشریف لائے۔ یہاں اموال غنیمت کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں، کئی من چاندی،اور چھ ہزار قیدی۔
اسیرانِ جنگ کے بارے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے رشتہ داروں کے آنے کا انتظار فرمایا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود جب کوئی نہ آیا تو آپ نے مال غنیمت کو تقسیم فرما دینے کا حکم دے دیا مکہ اور اس کے اطراف کے نو مسلم رئیسوں کو آپ نے بڑے بڑے انعاموں سے نوازا۔ یہاں تک کہ کسی کو تین سو اونٹ، کسی کو دو سو اونٹ، کسی کو سو اونٹ انعام کے طور پر عطا فرما دیا۔ اسی طرح بکریوں کو بھی نہایت فیاضی کے ساتھ تقسیم فرمایا۔ (سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۸۹)
انصاریوں سے خطاب :۔
جن لوگوں کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بڑے بڑے انعامات سے نوازا وہ عموماً مکہ والے نو مسلم تھے۔ اس پر بعض نوجوان انصاریوں نے کہا کہ
“رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قریش کو اس قدر عطا فرما رہے ہیں اور ہم لوگوں کا کچھ بھی خیال نہیں فرما رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے۔”(بخاری ج۲ ص۶۲۰ غزوه طائف)
اور انصار کے کچھ نوجوانوں نے آپس میں یہ بھی کہا اور اپنی دل شکنی کا اظہار کیا کہ جب شدید جنگ کا موقع ہوتا ہے تو ہم انصاریوں کو پکارا جاتا ہے اور غنیمت دوسرے لوگوں کو دی جا رہی ہے۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۱ غزوه طائف)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب یہ چرچا سنا تو تمام انصاریوں کو ایک خیمہ میں جمع فرمایا اور ان سے ارشاد فرمایا کہ اے انصار ! کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے سرداروں میں سے کسی نے بھی کچھ نہیں کہا ہے۔ ہاں چند نئی عمر کے لڑکوں نے ضرور کچھ کہہ دیا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم پہلے گمراہ تھے میرے ذریعہ سے خدا نے تم کو ہدایت دی، تم متفرق اور پراگندہ تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم میں اتفاق و اتحاد پیدا فرمایا، تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو غنی بنا دیا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۰ غزوئہ طائف)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار آپ کے ہر جملہ کو سن کر یہ کہتے جاتے تھے کہ ” اﷲ اور رسول کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ ”
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے انصار ! تم لوگ یوں مت کہو، بلکہ مجھ کو یہ جواب دو کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تو ہم لوگوں نے آپ کی تصدیق کی۔ جب لوگوں نے آپ کو چھوڑ دیا تو ہم لوگوں نے آپ کو ٹھکانا دیا۔ جب آپ بے سرو سامانی کی حالت میں آئے تو ہم نے ہر طرح سے آپ کی خدمت کی۔ لیکن اے انصاریو ! میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں تم مجھے اس کا جواب دو۔ سوال یہ ہے کہ
کیا تم لوگوں کو یہ پسند نہیں کہ سب لوگ یہاں سے مال و دولت لے کر اپنے گھر جائیں اور تم لوگ اﷲ کے نبی کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔ خدا کی قسم ! تم لوگ جس چیز کو لے کر اپنے گھر جاؤ گے وہ اس مال و دولت سے بہت بڑھ کر ہے جس کو وہ لوگ لے کر اپنے گھر جائیں گے۔
یہ سن کر انصار بے اختیار چیخ پڑے کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہم اس پر راضی ہیں۔ ہم کو صرف اﷲ عزوجل کا رسول چاہیے اور اکثر انصار کا تو یہ حال ہو گیا کہ وہ روتے روتے بے قرار ہو گئے اور آنسوؤں سے ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کو سمجھایا کہ مکہ کے لوگ بالکل ہی نو مسلم ہیں۔ میں نے ان لوگوں کو جو کچھ دیا ہے یہ ان کے استحقاق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ صرف ان کے دلوں میں اسلام کی اُلفت پیدا کرنے کی غرض سے دیا ہے، پھر ارشاد فرمایا کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ہوتا اور اگر تمام لوگ کسی وادی اور گھاٹی میں چلیں اور انصار کسی دوسری وادی اور گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا۔ (بخاری ج۲ ص۶۲۰ و ص۶۲۱ غزوه طائف)
قیدیوں کی رہائی :۔
آپ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صرد چند معززین کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیران جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مؤثر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اے محمد ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حلیمہ کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم ! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔
زہیر کی تقریر سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت زیادہ متأثر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت زیادہ انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بہت زیادہ دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں۔ میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی تدبیر یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نماز ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیران جنگ کی رہائی ہو گئی۔(سيرتِ ابن هشام ج۴ ص۴۸۸ و ص۴۸۹)
بخاری شریف کی روایت یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دس دنوں تک ” ہوازن ” کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ” ہوازن ” کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کر کے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو ! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کر سکتا۔ ہاں ان دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو یا مال لے لو یا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ نے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ
اے مسلمانوں ! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں اور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو مں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علہ وسلم) ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی ؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے چودھریوں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے چودھریوں نے دربار رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔ (بخاری ج۱ ص۳۴۵ باب من ملک من العرب و بخاری ج۲ ص۳۰۹ باب الوکالة في قضاء الديون و بخاری ج۲ ص۶۱۸)
غیب داں رسول صلی اﷲ تعالیٰ علہ وسلم :۔
رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہوازن کے وفد سے دریافت فرمایا کہ مالک بن عوف کہاں ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ” ثقیف” کے ساتھ طائف میں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ مالک بن عوف کو خبر کردو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آ جائے تو میں اس کا سارا مال اس کو واپس دے دوں گا۔ اس کے علاوہ اس کو ایک سو اونٹ اور بھی دوں گا۔ مالک بن عوف کو جب یہ خبر ملی تو وہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمان ہو کر حاضر ہو گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا کل مال ان کے سپرد فرما دیا اور وعدہ کے مطابق ایک سو اونٹ اس کے علاوہ بھی عنایت فرمائے۔ مالک بن عوف آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس خلق عظیم سے بے حد متأثر ہوئے اور آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا جس کے دو شعر یہ ہیں :۔
فِي النَّاسِ كُلِّهِمْ بِمِثْلِ مُحَمَّدٖ | مَا اِنْ رَاَيْتُ وَ لَا سَمِعْتُ بِمِثْلِهٖ |
وَ مَتٰيٰ تَشَأ يُخْبِرُكَ عَمَّا فِيْ غَدٖ | اَوْفيٰ وَ اَعْطٰي لِلْجَزِيْلِ اِذَا اجْتُدِي |
روایت ہے کہ نعت کے یہ اشعار سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سے خوش ہو گئے اور ان کے لئے کلمات خیر فرماتے ہوئے انہیں بطور انعام ایک حلہ بھی عنایت فرمایا۔ (سیرت ابن هشام ج۴ ص۴۹۱ و مدارج ج۲ ص۳۲۴)
عمرۂ جِعرانہ :۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جِعرانہ ہی سے عمرہ کا ارادہ فرمایا اور احرام باندھ کر مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ ادا کرنے کے بعد پھر مدینہ واپس تشریف لے گئے اور ذوالقعدہ ۸ ھ کو مدینہ میں داخل ہوئے۔
ھ ۸ کے متفرق واقعات :۔
(۱) اسی سال رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔
اتفاق سے جس دن ان کی وفات ہوئی سورج گرہن ہوا چونکہ عربوں کا عقیدہ تھا کہ کسی عظیم الشان انسان کی موت پر سورج گرہن لگتا ہے۔ اس لئے لوگوں نے یہ خیال کر لیا کہ یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا نتیجہ ہے۔ جاہلیت کے اس عقیدہ کو دور فرمانے کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ چاند اور سورج میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف دلاتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نماز کسوف جماعت کے ساتھ پڑھی۔ (بخاری ج۱ ص۱۴۲ ابواب الکسوف )
(۲) اسی سال حضور نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے وفات پائی۔ یہ صاحبزادی صاحبہ حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی منکوحہ تھیں۔ انہوں نے ایک فرزند جس کا نام ” علی ” تھا اور ایک لڑکی جن کا نام ” امامہ ” تھا، اپنے بعد چھوڑا۔ حضرت بی بی فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ حضرت امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی وصیت پر عمل کیا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۲۵)
(۳) اسی سال مدینہ میں غلہ کی گرانی بہت زیادہ بڑھ گئی تو صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے درخواست کی کہ یا رسول اﷲ ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ غلہ کا بھاؤ مقرر فرما دیں تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غلہ کی قیمت پر کنٹرول فرمانے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ اللهَ هُوَ الْمُسَعّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ
اﷲ وہی بھاؤ مقرر فرمانے والا ہے وہی روزی کو تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا، روزی رساں ہے۔ ( مدارج النبوة ج۲ ص۳۲۵)
(۴)بعض مؤرخین کے بقول اسی سال مسجد نبوی میں منبر شریف رکھا گیا۔ اس سے قبل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ پڑھا کرتے تھے اور بعض مؤرخین کا قول ہے کہ منبر ۷ ھ میں رکھا گیا۔ یہ منبر لکڑی کا بنا ہوا تھا جو ایک انصاری عورت نے بنوا کر مسجد میں رکھوایا تھا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ میں اس منبر کو تبرکاً ملک شام لے جاؤں مگر انہوں نے جب اس کو اس کی جگہ سے ہٹایا تو اچانک سارے شہر میں ایسا اندھیرا چھا گیا کہ دن میں تارے نظر آنے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت شرمندہ ہوئے اور صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے معذرت خواہ ہوئے اور انہوں نے اس منبر کے نیچے تین سیڑھیوں کا اضافہ کر دیا۔ جس سے منبر نبوی کی تینوں پرانی سیڑھیاں اوپر ہو گئیں تاکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم جن سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے اب دوسرا کوئی خطیب ان پر قدم نہ رکھے۔ جب یہ منبر بہت زیادہ پرانا ہو کر انتہائی کمزور ہو گیا تو خلفاء عباسیہ نے بھی اس کی مرمت کرائی۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۲۷)
(۵) اسی سال قبیلہ عبد القیس کا وفد حاضر خدمت ہوا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو خوش آمدید کہا اور ان لوگوں کے حق میں یوں دعا فرمائی کہ ” اے اﷲ ! عزوجل تو عبد القیس کو بخش دے ” جب یہ لوگ بارگاہ رسالت میں پہنچے تو اپنی سواریوں سے کود کر دوڑ پڑے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس قدم کو چومنے لگے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو منع نہیں فرمایا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۳۰)
توبہ کی فضیلت :۔
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان رحمت نشان ہے اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهٗیعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں(سنن ابن ماجه حدیث۴۲۵۰ ص۲۷۳۵)
ہجرت کا نواں سال
آیت تخییر و ایلاء :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناراضگی اور عتاب کا سبب کیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے “تخییر و ایلاء” کیوں فرمایا ؟ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس بیویاں تقریباً سب مالدار اور بڑے گھرانوں کی لڑکیاں تھیں۔ ” حضرت ام حبیبہ ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا رئیس مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ” حضرت جویریہ ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ ” حضرت صفیہ ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں۔ “حضرت عائشہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی پیاری بیٹی تھیں۔ “حضرت حفصہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی چہیتی صاحبزادی تھیں۔ “حضرت زینب بنت جحش” اور “حضرت اُمِ سلمہ” رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ امیر زادیاں بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، خوردونوش، لباس و پوشاک سب کچھ امیرزادیوں کی رئیسانہ زندگی کا آئینہ دار تھا اور تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی بالکل ہی زاہدانہ اور دنیوی تکلفات سے یکسر بے گانہ تھی۔ دو دو مہینے کاشانہ نبوت میں چولھا نہیں جلتا تھا۔ صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔ لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی مکان اور گھر کے سازو سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے سرمایہ کا اکثر و بیشتر حصہ اپنی امت کے غربا و فقراء پر صرف فرما دیتے تھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کو بقدرِ ضرورت ہی خرچ عطا فرماتے تھے جو ان رئیس زادیوں کے حسب خواہ زیب و زینت اور آرائش و زیبائش کے لئے کافی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کبھی کبھی ان امت کی ماؤں کا پیمانہ صبر و قناعت لبریز ہو کر چھلک جاتا تھا اور وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مزید رقموں کا مطالبہ اور تقاضا کرنے لگتی تھیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے متفقہ طور پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے اخراجات میں اضافہ فرمائیں۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی یہ ادائیں مہر نبوت کے قلب نازک پر بار گزریں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سکونِ خاطر میں اس قدر خلل انداز ہوئیں کہ آپ نے برہم ہو کر یہ قسم کھا لی کہ ایک مہینہ تک ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے نہ ملیں گے۔ اس طرح ایک ماہ کا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے “ایلاء” فرما لیا۔
عجیب اتفاق کہ انہی ایام میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے جس سے آپ کی مبارک پنڈلی میں موچ آ گئی۔ اس تکلیف کی وجہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بالاخانہ پر گوشہ نشینی اختیار فرما لی اور سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے واقعات کے قرینوں سے یہ قیاس آرائی کر لی کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام مقدس بیویوں کو طلاق دے دی اور یہ خبر جو بالکل ہی غلط تھی بجلی کی طرح پھیل گئی۔ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم رنج و غم سے پریشان حال اور اس صدمہ جانکاہ سے نڈھال ہونے لگے۔
اس کے بعد جو واقعات پیش آئے وہ بخاری شریف کی متعدد روایات میں مفصل طورپر مذکور ہیں۔ ان واقعات کا بیان حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زَبان سے سنیے۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں اور میرا ایک پڑوسی جو انصاری تھا ہم دونوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ ہم دونوں ایک ایک دن باری باری سے بارگاہ رسالت میں حاضری دیا کریں گے اور دن بھر کے واقعات سے ایک دوسرے کو مطلع کرتے رہیں گے۔ ایک دن کچھ رات گزرنے کے بعد میرا پڑوسی انصاری آیا اور زور زور سے میرا دروازہ پیٹنے اور چلا چلا کر مجھے پکارنے لگا۔ میں نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو اس نے کہا کہ آج غضب ہو گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا غسانیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا ؟ (ان دنوں شام کے غسانی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے۔) انصاری نے جواب دیا کہ اجی اس سے بھی بڑھ کر حادثہ رونما ہو گیا۔ وہ یہ کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس خبر سے بے حد مُتوحّش ہو گیا اور علی الصباح میں نے مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی میں نماز فجر ادا کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے ہی بالاخانہ پر جا کر تنہا تشریف فرما ہو گئے اور کسی سے کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔ میں مسجد سے نکل کر اپنی بیٹی حفصہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ بیٹھی رو رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پہلے ہی تم کو سمجھا دیا تھا کہ تم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو تنگ مت کیا کرو اور تمہارے اخراجات میں جو کمی ہوا کرے وہ مجھ سے مانگ لیا کرو مگر تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سبھوں کو طلاق دے دی ہے ؟ حفصہ نے کہا میں کچھ نہیں جانتی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ پر ہیں آپ ان سے دریافت کریں۔ میں وہاں سے اُٹھ کر مسجد میں آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی دیکھا کہ وہ منبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھا لیکن میری طبیعت میں سکون و قرار نہیں تھا۔ اس لئے میں اُٹھ کر بالاخانہ کے پاس آیا اور پہرہ دار غلام ” رباح ” سے کہا کہ تم میرے لئے اندر آنے کی اجازت طلب کرو۔ رباح نے لوٹ کر جواب دیا کہ میں نے عرض کر دیا لیکن آ پ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری اُلجھن اور بے تابی اور زیادہ بڑھ گئی اور میں نے دربان سے دوبارہ اجازت طلب کرنے کی درخواست کی پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ تو میں نے بلند آواز سے کہا کہ اے رباح ! تم میرا نام لے کر اجازت طلب کرو۔ شاید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خیال ہو کہ میں اپنی بیٹی حفصہ کے لئے کوئی سفارش لے کر آیا ہوں۔ تم عرض کر دو کہ خدا کی قسم ! اگر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے حکم فرمائیں تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے اپنی بیٹی حفصہ کی گردن اڑا دوں۔ اس کے بعد مجھ کو اجازت مل گئی جب میں بارگاہِ رسالت میں باریاب ہوا تو میری آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک کھری بان کی چارپائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم نازک پر بان کے نشان پڑے ہوئے ہیں پھر میں نے نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک طرف تھوڑے سے ” جو ” رکھے ہوئے تھے اور ایک طرف ایک کھال کھونٹی پر لٹک رہی تھی۔ تاجدارِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خزانہ کی یہ کائنات دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس سے بڑھ کر رونے کا اور کونسا موقع ہو گا ؟ کہ قیصر و کسریٰ خدا کے دشمن تو نعمتوں میں ڈوبے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے رسول معظم ہوتے ہوئے اس حالت میں ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ قیصر و کسریٰ دنیا لیں اور ہم آخرت !
اس کے بعد میں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مانوس کرنے کے لئے کچھ اور بھی گفتگو کی یہاں تک کہ میری بات سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لب انور پر تبسم کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس وقت میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ نے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” نہیں ” مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ فرط مسرت سے میں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ پھر میں نے یہ گزارش کی یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں غم کے مارے بیٹھے رو رہے ہیں اگر اجازت ہو تو میں جا کر ان لوگوں کو مطلع کر دوں کہ طلاق کی خبر سراسر غلط ہے۔ چنانچہ مجھے اس کی اجازت مل گئی اور میں نے جب آ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اس کی خبر دی تو سب لوگ خوش ہو کر ہشاش بشاش ہو گئے اور سب کو سکون و اطمینان حاصل ہو گیا۔
جب ایک مہینہ گزر گیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قسم پوری ہو گئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالاخانہ سے اتر آئے اس کے بعد ہی آیت تخییر نازل ہوئی جو یہہے :
ٰۤياَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوٰجِكَ اِنْ کُنْـتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ﴿۲۸﴾ وَ اِنْ کُنْـتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ﴿۲۹﴾ (احزاب)
اے نبی ! اپنی بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اسکی آرائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح چھوڑ دوں اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو بے شک اﷲ نے تمہاری نیکی والیوں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
ان آیاتِ بینات کا ماحصل اور خلاصہ مطلب یہ ہے کہ رسولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خداوند ِ قدوس نے یہ حکم دیا کہ آپ اپنی مقدس بیویوں کو مطلع فرما دیں کہ دو چیزیں تمہارے سامنے ہیں۔ ایک دنیا کی زینت و آرائش دوسری آخرت کی نعمت۔ اگر تم دنیا کی زیب و زینت چاہتی ہو تو پیغمبر کی زندگی چونکہ بالکل ہی زاہدانہ زندگی ہے اس لئے پیغمبر کے گھر میں تمہیں یہ دنیوی زینت و آرائش تمہاری مرضی کے مطابق نہیں مل سکتی، لہٰذا تم سب مجھ سے جدائی حاصل کر لو۔ میں تمہیں رخصتی کا جوڑا پہنا کر اور کچھ مال دے کر رخصت کر دوں گا۔ اور اگر تم خدا و رسول اور آخرت کی نعمتوں کی طلب گار ہو تو پھر رسولِ خدا کے دامنِ رحمت سے چمٹی رہو۔ خداعزوجل نے تم نیکوکاروں کے لئے بہت ہی بڑا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے جو تم کو آخرت میں ملے گا۔ (بخاری کتاب الطلاق کتاب العلم۔ کتاب اللباس باب موعظة الرجل ابنته لحال زوجها)
اس آیت کے نزول کے بعد سب سے پہلے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے عائشہ ! میں تمہارے سامنے ایک بات رکھتا ہوں مگر تم اس کے جواب میں جلدی مت کرنا اور اپنے والدین سے مشورہ کر کے مجھے جواب دینا۔ اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا تخییر کی آیت تلاوت فرما کر ان کو سنائی تو انہوں نے برجستہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم يفَفِيْ اَيِّ هٰذَا اَسْتَامِرُ اَبَوَيَّ فَاِنِّيْ اُرِيْدُ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ(بخاری ج۲ ص۷۹۲ باب من خير نساء )
اس معاملہ میں بھلا میں کیا اپنے والدین سے مشورہ کروں میں اﷲ اور اسکے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو الگ الگ آیت تخییر سنا سنا کر سب کو اختیار دیا اور سب نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا تھا۔
اﷲ اکبر ! یہ واقعہ اس بات کی آفتاب سے زیادہ روشن دلیل ہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات سے کس قدر عاشقانہ شیفتگی اور والہانہ محبت تھی کہ کئی کئی سوکنوں کی موجودگی اور خانہ نبوت کی سادہ اور زاہدانہ طرزِ معاشرت اور تنگی ترشی کی زندگی کے باوجود یہ رئیس زادیاں ایک لمحہ کے لئے بھی رسول کے دامن رحمت سے جدائی گوارا نہیں کر سکتی تھیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ :۔
احادیث کی روایتوں اور تفسیروں میں ” ایلاء ” آیت ” تخییر ” اور حضرت عائشہ و حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا ” مظاہرہ ” ان واقعات کو عام طور پر الگ الگ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ مختلف زمانوں کے مختلف واقعات ہیں۔ اس سے ایک کم علم و کم فہم اور ظاہربین انسان کو یہ دھوکہ ہو سکتا ہے کہ شاید رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات کے تعلقات خوشگوار نہ تھے اور کبھی ” ایلاء ” کبھی ” تخییر ” کبھی ” مظاہرہ ” ہمیشہ ایک نہ ایک جھگڑا ہی رہتا تھا لیکن اہل علم پر مخفی نہیں کہ یہ تینوں واقعات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ چنانچہ بخاری شریف کی چند روایات خصوصاً بخاری کتاب النکاح باب موعظة الرجل ابنته لحال زوجها میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی جو مفصل روایت ہے، اس میں صاف طور پر یہ تصریح ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایلاء کرنا اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے الگ
ہو کر بالا خانہ پر تنہا نشینی کر لینا، حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا مظاہرہ کرنا، آیت تخییر کا نازل ہونا، یہ سب واقعات ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی وقت میں یہ سب واقع ہوئے ہیں۔ ورنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے خوشگوار تعلقات جس قدر عاشقانہ اُلفت و محبت کے آئینہ دار رہے ہیں قیامت تک اس کی مثال نہیں مل سکتی اور نبوت کی مقدس زندگی کے بے شمار واقعات اس اُلفت و محبت کے تعلقات پر گواہ ہیں۔ جو احادیث و سیرت کی کتابوں میں آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے اور داستانِ عشق و محبت کے چمنستانوں میں موسم بہار کے پھولوں کی طرح مہکتے ہیں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِهٖ وَ اَصْحَابِهٖ وَ اَزْوَاجِهِ الْطَاهِرَاتِ اُمَّهَاتِ الْمُوْمِنِيْنَ اَبَدَ الْاَبَدِيْنَ بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ
عاملوں کا تقرر :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ۹ ھ محرم کے مہینے میں زکوٰۃ و صدقات کی وصولی کے لئے عاملوں اور محصّلوں کو مختلف قبائل میں روانہ فرمایا۔ ان امراء و عاملین کی فہرست میں مندرج ذیل حضرات خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جن کو ابن سعد نے ذکر فرمایا ہے۔
(۱) حضرت عیینہ بن حصنرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی تمیم کی طرف
(۲) حضرت یزید بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلم و غفار
(۳) حضرت عباد بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلیم و مزینہذ
(۴) حضرت رافع بن مکیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہینہ کی طرف
(۵) حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی فزارہ
(۶) حضرت ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی کلاب
(۷) حضرت بشر بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی کعب
(۸) حضرت ابن اللبتیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی ذبیان
(۹) حضرت مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صنعاء
(۱۰) حضرت زیاد بن لبید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضر موت
(۱۱) حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبیلہ طی وبنی اسعد
(۱۲) حضرت مالک بن نویرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی حنظلہ
(۱۳) حضرت زبرقان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنی سعد کے نصف حصہ
(۱۴) حضرت قیس بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
(۱۵) حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین
(۱۶) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نجران
یہ حضور شہنشاہ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے امراء اور عاملین ہیں جن کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے زکوٰۃ و صدقات و جزیہ وصول کرنے کے لئے مقرر فرمایا تھا۔(اصح السير ص۳۳۵)
بنی تمیم کا وفد :۔
محرم ۹ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بشر بن سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنی خزاعہ کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے صدقات وصول کرکے جمع کئے کہ ناگہاں ان پر بنی تمیم نے حملہ کر دیا وہ اپنی جان بچا کر کسی طرح مدینہ آ گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی سرکوبی کے لئے حضرت عیینہ بن حصن فزاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے بنی تمیم پر ان کے صحرا میں حملہ کرکے ان کے گیارہ مردوں، اکیس عورتوں اور تیس لڑکوں کو گرفتار کر لیا اور ان سب قیدیوں کو مدینہ لائے۔ (زرقانی ج۳ ص۴۳)
اس کے بعد بنی تمیم کا ایک وفد مدینہ آیا جس میں اس قبیلے کے بڑے بڑے سردار تھے اور ان کا رئیس اعظم اقرع بن حابس اور ان کا خطیب ” عطارد ” اور شاعر ” زبرقان بن بدر ” بھی اس وفد میں ساتھ آئے تھے۔ یہ لوگ دندناتے ہوئے کاشانہ نبوت کے پاس پہنچ گئے اور چلانے لگے کہ آپ نے ہماری عورتوں اور بچوں کو کس جرم میں گرفتار کرر کھا ہے۔
اس وقت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں قیلولہ فرما رہے تھے۔ ہر چند حضرت بلال اور دوسرے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو منع کیا کہ تم لوگ کاشانۂ نبوی کے پاس شور نہ مچاؤ۔ نماز ظہر کے لئے خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لانے والے ہیں۔ مگر یہ لوگ ایک نہ مانے شور مچاتے ہی رہے جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم باہر تشریف لا کر مسجد نبوی میں رونق افروز ہوئے تو بنی تمیم کا رئیس اعظم اقرع بن حابس بولا کہ اے محمد ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم گفتگو کریں کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں کہ جس کی مدح کردیں وہ مزین ہو جاتا ہے اور ہم لوگ جس کی مذمت کر دیں وہ عیب سے داغدار ہو جاتا ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔ یہ خداوند تعالیٰ ہی کی شان ہے کہ اس کی مدح زینت اور اس کی مذمت داغ ہے تم لوگ یہ کہو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ؟ یہ سن کر بنی تمیم کہنے لگے کہ ہم اپنے خطیب اور اپنے شاعر کو لے کر یہاں آئے ہیں تا کہ ہم اپنے قابل فخر کارناموں کو بیان کریں اور آپ اپنے مفاخر کو پیش کریں۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں شعر و شاعری کے لئے بھیجا گیا ہوں نہ اس طرح کی مفاخرت کا مجھے خدا عزوجل کی طرف سے حکم ملا ہے۔ میں تو خدا کا رسول ہوں اس کے باوجود اگر تم یہی کرنا چاہتے ہو تو میں تیار ہوں۔
یہ سنتے ہی اقرع بن حابس نے اپنے خطیب عطارد کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے کھڑے ہو کر اپنے مفاخر اور اپنے آباء واجداد کے مناقب پر بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایک دھواں دھار خطبہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار کے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جواب دینے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے اٹھ کر برجستہ ایسا فصیح و بلیغ اور موثر خطبہ دیا کہ بنی تمیم ان کے زورِ کلام اور مفاخر کی عظمت سن کر دنگ رہ گئے۔ اور ان کا خطیب عطارد بھی ہکا بکا ہو کر شرمندہ ہو گیا پھر بنی تمیم کا شاعر ” زبرقان بن بدر ” اٹھا اور اس نے ایک قصیدہ پڑھا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اشارہ فرمایا تو انہوں نے فی البدیہہ ایک ایسا مرصع اور فصاحت و بلاغت سے معمور قصیدہ پڑھ دیا کہ بنی تمیم کا شاعر اُلو بن گیا۔ بالآخر اقرع بن حابس کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو غیب سے ایسی تائید و نصرت حاصل ہو گئی ہے کہ ہر فضل و کمال ان پر ختم ہے۔ بلاشبہ ان کا خطیب ہمارے خطیب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہے اور ان کا شاعر ہمارے شاعر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطیع و فرمانبردار ہو گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ پھر ان لوگوں کی درخواست پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قیدیوں کو رہا فرما دیا اور یہ لوگ اپنے قبیلے میں واپس چلے گئے۔
انہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰي تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(حجرات)
بے شک وہ جو آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں۔ ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۳۲ و زرقانی ج۳ ص۴۴)
حاتم طائی کی بیٹی اور بیٹا مسلمان :۔
ربیع الآ خر ۹ ھ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں ایک سو پچاس سواروں کو اس لئے بھیجا کہ وہ قبیلہ “طی” کے بت خانہ کو گرا دیں۔ ان لوگوں نے شہر فلس میں پہنچ کر بت خانہ کو منہدم کر ڈالا اور کچھ اونٹوں اور بکریوں کو پکڑ کر اور چند عورتوں کو گرفتار کرکے یہ لوگ مدینہ لائے۔ ان قیدیوں میں مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی۔ حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم بھاگ کر ملک ِ شام چلا گیا۔ حاتم طائی کی لڑکی جب بارگاہ رسالت میں پیش کی گئی تو اس نے کہا یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ” حاتم طائی ” کی لڑکی ہوں۔ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی ” عدی بن حاتم ” مجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں ضعیفہ ہوں آپ مجھ پر احسان کیجئے خدا آپ پر احسان کرے گا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑ دیا اور سفر کے لئے ایک اونٹ بھی عنایت فرمایا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے بھائی عدی بن حاتم کے پاس پہنچی اور اس کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاقِ نبوت سے آگاہ کیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بہت زیادہ تعریف کی۔ عدی بن حاتم اپنی بہن کی زبانی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلق عظیم اور عاداتِ کریمہ کے حالات سن کر بے حد متاثر ہوئے اور بغیر کوئی امان طلب کئے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے۔ لوگوں نے بارگاہ نبوت میں یہ خبر دی کہ عدی بن حاتم آ گیا ہے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انتہائی کریمانہ انداز سے عدی بن حاتم کے ہاتھ کو اپنے دست ِ رحمت میں لے لیا اور فرمایا کہ اے عدی ! تم کس چیز سے بھاگے ؟ کیا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہنے سے تم بھا گے ؟ کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے ؟ عدی بن حاتم نے کہا کہ ” نہیں ” پھر کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے ان کے اسلام قبول کرنے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس قدر خوشی ہوئی کہ فرطِ مسرت سے آپ کا چہرۂ انور چمکنے لگا اور آپ نے ان کو خصوصی عنایات سے نوازا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی اپنے باپ حاتم کی طرح بہت ہی سخی تھے۔ حضرت امام احمد ناقل ہیں کہ کسی نے ان سے ایک سو درہم کا سوال کیا تو یہ خفا ہوگئے اور کہا کہ تم نے فقط ایک سو درہم ہی مجھ سے مانگا تم نہیں جانتے کہ میں حاتم کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ! میں تم کو اتنی حقیر رقم نہیں دوں گا۔
یہ بہت ہی شاندار صحابی ہیں، خلافت صدیق اکبر میں جب بہت سے قبائل نے اپنی زکوٰۃ روک دی اور بہت سے مرتد ہو گئے یہ اس دور میں بھی پہاڑ کی طرح اسلام پر ثابت قدم رہے اور اپنی قوم کی زکوٰۃ لا کر بارگاہ خلافت میں پیش کی اور عراق کی فتوحات اور دوسرے اسلامی جہادوں میں مجاہد کی حیثیت سے شریک ہوئے اور ۶۸ ھ میں ایک سو بیس برس کی عمر پا کر وصال فرمایا اور صحاح ستہ کی ہر کتاب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیثیں مذکور ہیں۔ (زرقانی ج۳ ص۵۳ و مدارج ج۲ ص۳۳۷)
غزوۂ تبوک :۔
” تبوک” مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ “تبوک” ایک قلعہ کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ “تبوک” ایک چشمہ کا نام ہے ۔ ممکن ہے یہ سب باتیں موجود ہوں!
یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ طویل سفر، ہواگرم، سواری کم، کھانے پینے کی تکلیف، لشکر کی تعداد بہت زیادہ، اس لیے اس غزوہ میں مسلمانوں کو بڑی تنگی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کو “جیش العسرۃ” (تنگ دستی کا لشکر) بھی کہتے ہیں اور چونکہ منافقوں کو اس غزوہ میں بڑی شرمندگی اور شرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام “غزوہ فاضحہ” (رسوا کرنے والا غزوہ) بھی ہے۔ اس پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ اس غزوہ کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ماہ رجب ۹ ھ جمعرات کے دن روانہ ہوئے۔ (زرقانی ج ۳ص ۶۳)
غزوۂ تبوک کا سبب :۔
عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ عیسائی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کرلیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِ شام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ان خبروں کا تمام عرب میں ہر طرف چرچا تھا اور رومیوں کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی اس لیے ان خبروں کو غلط سمجھ کر نظر انداز کردینے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس لیے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی فوج کی تیاری کا حکم دے دیا۔
لیکن جیسا کہ ہم تحریر کرچکے ہیں کہ اس وقت حجازِ مقدس میں شدید قحط تھا اور بے پناہ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی ان وجوہات سے لوگوں کو گھر سے نکلنا شاق گزر رہا تھا۔ مدینہ کے منافقین جن کے نفاق کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہو گیا۔ مگر ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامان جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھا کیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مفلوک الحال اور پریشان تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تمام قبائل عرب سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔ اس طرح اسلام میں کسی کا رخیر کے لیے چندہ کرنے کی سنت قائم ہوئی۔
فہرست چندہ دہندگان :۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال اور گھر کا تمام اثاثہ یہاں تک کہ بدن کے کپڑے بھی لا کر بارگاہ نبوت میں پیش کر دیئے۔ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنا آدھا مال اس چندہ میں دے دیا۔ منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اپنا نصف مال لے کر بارگاہ اقدس میں چلے تو اپنے دل میں یہ خیال کرکے چلے تھے کہ آج میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا کیونکہ اس دن کاشانۂ فاروق میں اتفاق سے بہت زیادہ مال تھا۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے عمر ! کتنا مال یہاں لائے اور کس قدر گھر پر چھوڑا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) آدھا مال حاضر خدمت ہے اور آدھا مال اہل و عیال کے لئے گھر میں چھوڑ دیا ہے اور جب یہی سوال اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اِدَّ خَرْتُ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ میں نے اﷲ اور اس کے رسول کو اپنے گھر کا ذخیرہ بنا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مَا بَيْنَکُمَا مَا بَيْنَ کَلِمَتَيْكُمَا تم دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا تم دونوں کے کلاموں میں فرق ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مجاہدین کی سواری کے لئے اور ایک ہزار اشرفی فوج کے اخراجات کی مد میں اپنی آستین میں بھر کر لائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آغوش مبارک میں بکھیر دیا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو قبول فرما کر یہ دعا فرمائی کہ اَللّٰهُمَّ ارْضِ عَنْ عُثْمَانَ فَاِنِّيْ عَنْهُ رَاضٍ اے اﷲ تو عثمان سے راضی ہو جا کیونکہ میں اس سے خوش ہو گیا ہوں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چالیس ہزار درہم دیا اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے گھر میں اس وقت اسی ہزار درہم تھے۔ آدھا بارگاہ اقدس میں لایا ہوں اور آدھا گھر پر بال بچوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اس میں بھی برکت دے جو تم لائے اور اس میں بھی برکت عطا فرمائے جو تم نے گھر پر رکھا۔ اس دعاء نبوی کا یہ اثر ہوا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ مالدار ہو گئے۔
اسی طرح تمام انصار و مہاجرین نے حسب توفیق اس چندہ میں حصہ لیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات اتار اتار کر بارگاہ نبوت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کئی من کھجوریں دیں۔ اور حضرت ابو عقیل انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بہت ہی مفلس تھے فقط ایک صاع کھجور لے کر حاضر خدمت ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں نے دن بھر پانی بھر بھر کر مزدوری کی تو دو صاع کھجوریں مجھے مزدوری میں ملی ہیں۔ ایک صاع اہل و عیال کو دے دی ہے اور یہ ایک صاع حاضر خدمت ہے۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا قلب نازک اپنے ایک مفلس جاں نثار کے اس نذرانہ خلوص سے بیحد متاثر ہوا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کھجور کو تمام مالوں کے اوپر رکھ دیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۴۵ تا ص۳۴۶)
فوج کی تیاری :۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملہ میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عساکر اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے ؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصر روم کی فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جیسا کہ لکھا جا چکا دل کھول کر چندہ دیا مگر پھر بھی پوری فوج کے لئے سواریوں کا انتظام نہ ہو سکا۔ چنانچہ بہت سے جانباز مسلمان اسی بنا پر اس جہاد میں شریک نہ ہو سکے کہ ان کے پاس سفر کا سامان نہیں تھا یہ لوگ دربار رسالت میں سواری طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے مگر جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے تو یہ لوگ اپنی بے سروسامانی پر اس طرح بلبلا کر روئے کہ حضوررحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی آہ و زاری اور بے قراری پر رحم آ گیا۔ چنانچہ قرآن مجید گواہ ہے کہ
وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ اِذَا مَآ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآاَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ ص تَوَلَّوْا وَّ اَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلاَّيَجِدُوْا مَا يُنْفِقُوْنَ(سورة التوبه)
اور نہ ان لوگوں پر کچھ حرج ہے کہ وہ جب (اے رسول) آپ کے پاس آئے کہ ہم کو سواری دیجئے اور آپ نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ واپس گئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ افسوس ہمارے پاس خرچ نہیں ہے۔
تبوک کو روانگی :۔
بہر حال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نظم و نسق چلانے کے لئے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا۔ جب حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر خود جہاد کے لئے تشریف لئے جا رہے ہیں تو ارشاد فرمایا کہ
اَلَا تَرْضٰي اَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰي اِلاَّ اَنَّهٗ لَيْسَ نَبِيَّ بَعْدِيْ(بخاری ج۲ ص۶۳۳ غزوه تبوک)
کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے وقت حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنی امت بنی اسرائیل کی دیکھ بھال کے لئے اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے اسی طرح میں تم کو اپنی امت سونپ کر جہاد کے لئے جا رہا ہوں۔
مدینہ سے چل کر مقام ” ثنیۃ الوداع ” میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔ پھر فوج کا جائزہ لیا اور فوج کا مقدمہ، میمنہ، میسرہ وغیرہ مرتب فرمایا۔ پھر وہاں سے کوچ کیا۔ منافقین قسم قسم کے جھوٹے عذر اور بہانے بنا کر رہ گئے اور مخلص مسلمانوں میں سے بھی چند حضرات رہ گئے ان میں یہ حضرات تھے، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع، ابوخیثمہ، ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ ان میں سے ابو خیثمہ اور ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو بعد میں جا کر شریک جہاد ہو گئے لیکن تین اول الذکر نہیں گئے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پیچھے رہ جانے کا سبب یہ ہوا کہ ان کا اونٹ بہت ہی کمزور اور تھکا ہوا تھا۔ انہوں نے اس کو چند دن چارہ کھلایا تا کہ وہ چنگا ہو جائے۔ جب روانہ ہوئے تو وہ پھر راستہ میں تھک گیا۔ مجبوراً وہ اپنا سامان اپنی پیٹھ پر لاد کر چل پڑے اور اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے۔(زرقانی ج۳ ص۷۱)
حضرت ابو خیثمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر وہ ایک دن شدید گرمی میں کہیں باہر سے آئے تو ان کی بیوی نے چھپر میں چھڑ کاؤ کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر اس سایہ دار اور ٹھنڈی جگہ میں بیٹھے پھر ناگہاں ان کے دل میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خیال آ گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں تو اپنی چھپر میں ٹھنڈک اور سایہ میں آرام و چین سے بیٹھا رہوں اور خداعزوجل کے مقدس رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس دھوپ کی تمازت اور شدید لو کے تھپیڑوں میں سفر کرتے ہوئے جہاد کے لئے تشریف لے جا رہے ہوں ایک دم ان پر ایسی ایمانی غیرت سوار ہو گئی کہ توشہ کے لئے کھجور لے کر ایک اونٹ پر سوار ہو گئے اور تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ لشکر والوں نے دور سے ایک شتر سوار کو دیکھا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو خیثمہ ہوں گے اس طرح یہ بھی لشکر اسلام میں پہنچ گئے۔ (زرقانی ج۳ ص۷۱)
راستے میں قوم عاد و ثمود کی وہ بستیاں ملیں جو قہر الٰہی کے عذابوں سے الٹ پلٹ کر دی گئی تھیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں خدا کا عذاب نازل ہو چکا ہے اس لئے کوئی شخص یہاں قیام نہ کرے بلکہ نہایت تیزی کے ساتھ سب لوگ یہاں سے سفر کر کے ان عذاب کی وادیوں سے جلد باہر نکل جائیں اور کوئی یہاں کا پانی نہ پیئے اور نہ کسی کام میں لائے۔
اس غزوہ میں پانی کی قلت، شدید گرمی، سواریوں کی کمی سے مجاہدین نے بے حد تکلیف اٹھائی مگر منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا ۔
راستے کے چند معجزات :۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ سب سے الگ الگ چل رہے ہیں۔ تو ارشاد فرمایا کہ یہ سب سے الگ ہی چلیں گے اور الگ ہی زندگی گزاریں گے اور الگ ہی وفات پائیں گے۔ چنانچہ ٹھیک ایسا ہی ہوا کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو حکم دے دیا کہ آپ “ربذہ” میں رہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ربذہ میں اپنی بیوی اور غلام کے ساتھ رہنے لگے۔ جب وفات کا وقت آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم دونوں مجھ کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر راستہ میں رکھ دینا۔ جب شتر سواروں کا پہلا گروہ میرے جنازہ کے پاس سے گزرے تو
تم لوگ اس سے کہنا کہ یہ ابو ذرغفاری کا جنازہ ہے ان پر نماز پڑھ کر ان کو دفن کرنے میں ہماری مدد کرو۔ خدا عزوجل کی شان کہ سب سے پہلا جو قافلہ گزرا اس میں حضرت عبداﷲ بن مسعود صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ سنا کہ یہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ہے۔ تو انہوں نےاِنَّ لِلّٰهِ وَ اِنَّآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھا اور قافلہ کو روک کر اتر پڑے اور کہا کہ بالکل سچ فرمایا تھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ ” اے ابوذر ! تو تنہا چلے گا، تنہا مرے گا، تنہا قبر سے اُٹھے گا۔ ” پھر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور قافلہ والوں نے ان کو پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ (سيرت ابن هشام ج۴ ص۵۲۴ و زرقانی ج۳ ص۷۴)
بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ ان کی بیوی کے پاس کفن کے لئے کپڑا نہیں تھا تو آنے والے لوگوں میں سے ایک انصاری نے کفن کے لئے کپڑا دیا اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
ہوا اڑا لے گئی :۔
جب اسلامی لشکر مقام ” حجر ” میں پہنچا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص اکیلا لشکر سے باہر کہیں دور نہ چلا جائے پورے لشکر نے اس حکم نبوی کی اطاعت کی مگر قبیلہ بنو ساعدہ کے دو آدمیوں نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا۔ ایک شخص اکیلا ہی رفع حاجت کے لئے لشکر سے دور چلا گیا وہ بیٹھا ہی تھا کہ دفعۃً کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ اسی جگہ مر گیا اور دوسرا شخص اپنا اونٹ پکڑنے کے لئے اکیلا ہی لشکر سے کچھ دور چلا گیا تو ناگہاں ایک ہوا کا جھونکا آیا اور اس کو اڑا کر قبیلہ ” طی ” کے دونوں پہاڑوں کے درمیان پھینک دیا اور وہ ہلاک ہو گیا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کا انجام سن کر فرمایا کہ کیا میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کر دیا تھا ؟(زرقانی ج۳ ص۷۳)
گمشدہ اونٹنی کہاں ہے ؟ :۔
ایک منزل پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اونٹنی کہیں چلی گئی اور لوگ اس کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگے تو ایک منافق جس کا نام “زید بن لصیت” تھا کہنے لگا کہ محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ میں اﷲ کا نبی ہوں اور میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں مگر ان کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے حالانکہ خدا کی قسم ! اﷲ تعالیٰ کے بتا دینے سے میں خوب جانتا ہوں کہ میری اونٹنی کہاں ہے ؟ وہ فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک درخت میں اس کی مہار کی رسی اُلجھ گئی ہے۔ تم لوگ جاؤ اور اس اونٹنی کو میرے پاس لے کر آجاؤ۔ جب لوگ اس جگہ گئے تو ٹھیک ایسا ہی دیکھا کہ اسی گھاٹی میں وہ اونٹنی کھڑی ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں الجھی ہوئی ہے۔(زرقانی ج۳ ص۷۵)
تبوک کا چشمہ :۔
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں ایک پانی کی دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔(زرقانی ج۳ ص۷۶)
رومی لشکر ڈر گیا :۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبوک میں پہنچ کر لشکر کو پڑاؤ کا حکم دیا۔ مگر دور دور تک رومی لشکروں کا کوئی پتا نہیں چلا۔ واقعہ یہ ہوا کہ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
اسی سفر میں “یلہ” کا سردار جس کا نام “یحنۃ” تھا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور ایک سفید خچر بھی دربار رسالت میں نذر کیا جس کے صلہ میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی اور اس کو ایک دستاویز تحریر فرما کر عطا فرمائی کہ وہ اپنے گرد و پیش کے سمندر سے ہر قسم کے فوائد حاصل کرتا رہے۔(بخاری ج۱ ص۴۴۸)
اسی طرح “جرباء” اور “اذرح” کے عیسائیوں نے بھی حاضر خدمت ہو کر جزیہ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔
اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک سو بیس سواروں کے ساتھ “دومۃ الجندل “کے بادشاہ” اکیدر بن عبدالملک ” کی طرف روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ وہ رات میں نیل گائے کا شکار کر رہا ہو گا تم اس کے پاس پہنچو تو اس کو قتل مت کرنا بلکہ اس کو زندہ گرفتار کر کے میرے پاس لانا۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے چاندنی رات میں اکیدر اور اس کے بھائی حسان کو شکار کرتے ہوئے پالیا۔ حسان نے چونکہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے جنگ شروع کردی ۔ اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو تو قتل کر دیا مگر اکیدر کو گرفتار کر لیا اور اس شرط پر اس کو رہا کیا کہ وہ مدینہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر صلح کرے۔ چنانچہ وہ مدینہ آیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو امان دی۔ (زرقانی ج۳ ص۷۷ و ص۷۸)
اس غزوہ میں جو لوگ غیر حاضر رہے ان میں اکثر منافقین تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ واپس آئے اور مسجد نبوی میں نزولِ اجلال فرمایا تو منافقین قسمیں کھا کھا کر اپنا اپنا عذر بیان کرنے لگے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا لیکن تین مخلص صحابیوں حضرت کعب بن مالک و ہلال بن امیہ و مرارہ بن ربیعہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا پچاس دنوں تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بائیکاٹ فرما دیا۔ پھر ان تینوں کی توبہ قبول ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی۔ (اس کا مفصل ایک وعظ ہم نے اپنی کتاب ” عرفانی تقریریں ” میں لکھ دیا ہے۔)(بخاری ج۲ ص۶۳۴ تا ص۶۳۷ حديث کعب بن مالک)
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کے قریب پہنچے اور اُحد پہاڑ کو دیکھا تو فرمایا کہ هٰذَا اُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَ نُحِبُّهٗ یہ اُحد ہے۔ یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ کی سرزمین میں قدم رکھا تو عورتیں، بچے اور لونڈی غلام سب استقبال کے لئے نکل پڑے اور استقبالیہ نظمیں پڑھتے ہوئے آپ کے ساتھ مسجد نبوی تک آئے۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد نبوی میں دو رکعت نماز پڑھ کر تشریف فرما ہو گئے۔ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا اور اہل مدینہ نے بخیر و عافیت اس دشوار گزار سفر سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر انتہائی مسرت و شادمانی کا اظہار کیا اور ان منافقین کے بارے میں جو جھوٹے بہانے بنا کر اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے اور بارگاہ نبوت میں قسمیں کھا کھا کر عذر پیش کر رہے تھے قہر و غضب میں بھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئیں اوران منافقوں کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔
ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر :۔
غزوۂ تبوک میں بجز ایک حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نہ کسی صحابی کی شہادت ہوئی نہ وفات۔ حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون تھے ؟ اور ان کی وفات اور دفن کا کیسا منظر تھا ؟ یہ ایک بہت ہی ذوق آفریں اور لذیذ حکایت ہے۔ یہ قبیلہ مزینہ کے ایک یتیم تھے اور اپنے چچا کی پرورش میں تھے۔ جب یہ سن شعور کو پہنچے اور اسلام کا چرچا سنا تو اِن کے دل میں بت پرستی سے نفرت اور اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مگر ان کا چچا بہت ہی کٹر کافر تھا۔ اس کے خوف سے یہ اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے اپنے چچا کو ترغیب دی کہ تم بھی دامن اسلام میں آجاؤ کیونکہ میں قبول اسلام کے لئے بہت ہی بے قرار ہوں۔ یہ سن کر ان کے چچا نے ان کو برہنہ کر کے گھر سے نکال دیا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے ایک کمبل مانگ کر اس کو دو ٹکڑے کرکے آدھے کو تہبند اور آدھے کو چادر بنا لیا اور اسی لباس میں ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے۔ رات بھر مسجد نبوی میں ٹھہرے رہے۔ نماز فجر کے وقت جب جمالِ محمدی کے انوار سے ان کی آنکھیں منور ہوئیں تو کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنا نام عبدالعزیٰ بتا دیا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے تمہارا نام عبداﷲ اور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا) ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان پر بہت کرم فرماتے تھے اور یہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی جماعت کے ساتھ رہنے لگے اور نہایت بلند آواز سے ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو یہ بھی مجاہدین میں شامل ہو کر چل پڑے اور بڑے ہی ذوق و شوق اور انتہائی اشتیاق کے ساتھ درخواست کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) دعا فرمائیے کہ مجھے خدا کی راہ میں شہادت نصیب ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کسی درخت کی چھال لاؤ۔ وہ تھوڑی سی ببول کی چھال لائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے بازو پر وہ چھال باندھ دی اور دعا کی کہ اے اﷲ ! میں نے اس کے خون کو کفار پر حرام کر دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرا مقصد تو شہادت ہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تم جہاد کے لئے نکلے ہو تو اگر بخار میں بھی مرو گے جب بھی تم شہید ہی ہو گے۔ خدا عزوجل کی شان کہ جب حضرت ذوالبجادین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تبوک میں پہنچے تو بخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔
حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے دفن کا عجیب منظر تھا کہ حضرت بلال مؤذن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہاتھ میں چراغ لئے ان کی قبر کے پاس کھڑے تھے اور خود بہ نفس نفیس حضور ِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابو بکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ تم دونوں اپنے اسلامی بھائی کی لاش کو اٹھاؤ۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اپنے دست ِ مبارک سے لحد میں سلایا اور خود ہی قبر کو کچی اینٹوں سے بند فرمایا اور پھر یہ دعا مانگی کہ یااﷲ ! میں ذوالبجادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن کا یہ منظر دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ کاش ! ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ یہ میری میت ہوتی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۵۰ و ص۳۵۱)
مسجد ضرار :۔
منافقوں نے اسلام کی بیخ کنی اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے مسجد قباء کے مقابلہ میں ایک مسجد تعمیر کی تھی جو در حقیقت منافقین کی سازشوں اور ان کی دسیسہ کاریوں کا ایک زبردست اڈہ تھا۔ ابو عامر راہب جو انصار میں سے عیسائی ہو گیا تھا جس کا نام حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ابو عامر فاسق رکھا تھا اس نے منافقین سے کہا کہ تم لوگ خفیہ طریقے پر جنگ کی تیاریاں کرتے رہو۔ میں قیصر روم کے پاس جاکر وہاں سے فوجیں لاتا ہوں تاکہ اس ملک سے اسلام کا نام و نشان مٹا دوں۔ چنانچہ اسی مسجد میں بیٹھ بیٹھ کر اسلام کے خلاف منافقین کمیٹیاں کرتے تھے اور اسلام و بانی ٔ اسلام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خاتمہ کر دینے کی تدبیریں سوچا کرتے تھے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہونے لگے تو مکار منافقوں کا ایک گروہ آیا اور محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے بارگاہ اقدس میں یہ درخواست پیش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم نے بیماروں اور معذوروں کے لئے ایک مسجد بنائی ہے۔ آپ چل کر ایک مرتبہ اس مسجد میں نماز پڑھا دیں تا کہ ہماری یہ مسجد خدا کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس وقت تو میں جہاد کے لئے گھر سے نکل چکا ہوں لہٰذا اس وقت تو مجھے اتنا موقع نہیں ہے۔ منافقین نے کافی اصرار کیا مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی اس مسجد میں قدم نہیں رکھا۔ جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائے تو منافقین کی چالبازیوں اور ان کی مکاریوں، دغابازیوں کے بارے میں ” سورۂ توبہ ” کی بہت سی آیات نازل ہو گئیں اور منافقین کے نفاق اور ان کی اسلام دشمنی کے تمام رموز و اسرار بے نقاب ہو کر نظروں کے سامنے آ گئے۔ اور ان کی اس مسجد کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِيْقًا مبَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ ط وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی ط
اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے بنائی اور اس مقصد سے کہ جو لوگ پہلے ہی سے خدا اور اس کے رسول سے جنگ کر رہے ہیں ان کیلئے ایک کمین گاہ ہاتھ آ جائے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی کا ارادہ کیا ہے
لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰي مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ؕ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ؕ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ﴿۱۰۸﴾(توبہ )
اور خدا گواہی دیتا ہے کہ بیشک یہ لوگ جھوٹے ہیں آپ کبھی بھی اس مسجد میں نہ کھڑے ہوں وہ مسجد (مسجد قباء) جسکی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیز گاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اسمیں ایسے لوگ ہیں جو پاکی کو پسند کرتے ہیں اور خدا پاکی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
اس آیت کے نازل ہو جانے کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مالک بن دخشم و حضرت معن بن عدی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حکم دیا کہ اس مسجد کو منہدم کرکے اس میں آگ لگا دیں۔(زرقانی ج۳ ص۸۰)
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر الحج :۔
غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذوالقعدہ ۹ ھ میں تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ سے حج کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو “امیر الحج” اور حضرت علی مرتضی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ” نقیب اسلام ” اور حضرت سعد بن ابی وقاص و حضرت جابر بن عبداﷲ و حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو معلم بنا دیا اور اپنی طرف سے قربانی کے لئے بیس اونٹ بھی بھیجے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حرمِ کعبہ اور عرفات و منیٰ میں خطبہ پڑھا اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور ” سورۂ براءت ” کی چالیس آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اعلان کر دیا کہ اب کوئی مشرک خانہ کعبہ میں داخل نہ ہو سکے گا نہ کوئی برہنہ بدن اور ننگا ہوکر طواف کر سکے گا اور چار مہینے کے بعد کفار و مشرکین کے لئے امان ختم کر دی جائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اس اعلان کی اس قدر زور زور سے منادی کی کہ ان لوگوں کا گلا بیٹھ گیا۔ اس اعلان کے بعد کفار و مشرکین فوج کی فوج آ کر مسلمان ہونے لگے۔(طبری ج۲ ص۱۷۲۱ و زرقانی ج۳ ص۹۰ تا ۹۳)