Post by Mohammed IbRaHim on Feb 9, 2014 21:25:51 GMT 5.5
ھ ۹ کے واقعات متفرقہ :۔
(۱) اس سال پورے ملک میں ہر طرف امن و امان کی فضا پیدا ہو گئی اور زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا اور زکوٰۃ کی وصولی کے لئے عاملین اور محصّلوں کا تقرر ہوا۔ (زرقانی ج۳ ص۱۰۰)
(۲) جو غیر مسلم قومیں اسلامی سلطنت کے زیر سایہ رہیں ان کے لئے جزیہ کا حکم نازل ہوا اور قرآن کی یہ آیت اتری کہحَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صَاغِرُوْنَ (توبہ)
وہ چھوٹے بن کر ” جزیہ ” ادا کریں
(۳) سود کی حرمت نازل ہوئی اور اس کے ایک سال بعد ۱۰ ھ میں ” حجۃ الوداع ” کے موقع پر اپنے خطبوں میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا خوب خوب اعلان فرمایا۔(بخاری و مسلم باب تحريم الخمر)
(۴) حبشہ کا بادشاہ جن کا نام حضرت اصحمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ جن کے زیر سایہ مسلمان مہاجرین نے چند سال حبشہ میں پناہ لی تھی ان کی وفات ہو گئی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگی۔
(۵) اسی سال منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی مر گیا۔ اس کے بیٹے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی درخواست پر ان کی دلجوئی کے واسطے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس منافق کے کفن کے لئے اپنا پیرہن عطا فرمایا اور اس کی لاش کو اپنے زانوئے اقدس پر رکھ کر اس کے کفن میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بار بار منع کرنے کے باوجود چونکہ ابھی تک ممانعت نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھائی لیکن اس کے بعد ہی یہ آیت نازل ہو گئی کہ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ط اِنَّهُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ(توبہ)
(اے رسول) ان (منافقوں) میں سے جو مریں کبھی آپ ان پر نماز جنازہ نہ پڑھئے اور انکی قبر کے پاس آپ کھڑے بھی نہ ہوں یقینا ان لوگوں نے اﷲ اور اسکے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور کفر کی حالت میں یہ لوگ مرے ہیں
اس آیت کے نزول کے بعد پھر کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی نہ اس کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے۔(بخاری ج۱ ص۱۶۹ و ص۱۸۰ و زرقانی ج۳ ص۹۵ و ص۹۶)
وفود العرب :۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے تمام اطراف و اکناف میں مبلغین اسلام اور عاملین و مجاہدین کو بھیجا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض قبائل تو مبلغین کے سامنے ہی دعوتِ اسلام قبول کرکے مسلمان ہو جاتے تھے مگر بعض قبائل اس بات کے خواہش مند ہوتے تھے کہ براہِ راست خود بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کریں۔ چنانچہ کچھ لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے نمائندہ بن کر مدینہ منورہ آتے تھے اور خود بانی اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ فیض ترجمان سے دعوتِ اسلام کا پیغام سن کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اور پھر اپنے اپنے قبیلوں میں واپس جا کر پورے قبیلہ والوں کو مشرف بہ اسلام کرتے تھے۔ انہی قبائل کے نمائندوں کو ہم “وفود العرب” کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔
اس قسم کے وفود اور نمائندگان قبائل مختلف زمانوں میں مدینہ منورہ آتے رہے مگر فتح مکہ کے بعد ناگہاں سارے عرب کے خیالات میں ایک عظیم تغیر واقع ہوگیا اور سب لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے کیونکہ اسلام کی حقانیت واضح اور ظاہر ہوجانے کے باوجود بہت سے قبائل محض قریش کے دباؤ اور اہل مکہ کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ فتح مکہ نے اس رکاوٹ کو بھی دور کردیا اور اب دعوتِ اسلام اور قرآن کے مقدس پیغام نے گھر گھر پہنچ کر اپنی حقانیت اور اعجازی تصرفات سے سب کے قلوب پر سکہ بٹھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ایک لمحہ کے لئے اسلام کا نام سننا اور مسلمانوں کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے آج پروانوں کی طرح شمع نبوت پر نثار ہونے لگے اور جوق در جوق بلکہ فوج در فوج حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں دور و دراز کے سفر طے کرتے ہوئے وفود کی شکل میں آنے لگے اور برضا و رغبت اسلام کے حلقہ بگوش بننے لگے چونکہ اس قسم کے وفود اکثر و بیشتر فتح مکہ کے بعد ۹ ھ میں مدینہ منورہ آئے اس لئے ۹ ھ کو لوگ “سنۃ الوفود” (نمائندہ کا سال) کہنے لگے۔
اس قسم کے وفود کی تعداد میں مصنفین سیرت کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ان وفود کی تعداد ساٹھ سے زیادہ بتائی ہے۔(مدارج ج ۲ ص ۳۵۸)
اور علامہ قسطلانی و حافظ ابن قیم نے اس قسم کے چودہ وفدوں کا تذکرہ کیا ہے ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں چند وفود کا تذکرہ کرتے ہیں۔
استقبالِ وفود :۔
حضور سید ِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبائل سے آنے والے وفدوں کے استقبال، اوران کی ملاقات کا خاص طور پر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ ہر وفد کے آنے پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب تن فرما کر کا شانہ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں پھر ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے اور ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات کا خاص طور پرخیال فرماتے تھے اور ان مہمانوں سے ملاقات کے لئے مسجد نبوی میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے پھر ہر ایک وفد سے نہایت ہی خوش روئی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور ان کی حاجتوں اور حالتوں کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کو ضروری عقائد و احکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے اور ہر وفد کو ان کے درجات و مراتب کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ نقد یا سامان بھی تحائف اور انعامات کے طور پر عطا فرماتے۔
وفد ثقیف :۔
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ حنین کے بعد طائف سے واپس تشریف لائے اور “جعرانہ” سے عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے ہی میں قبیلہ ثقیف کے سردار اعظم “عروہ بن مسعود ثقفی” رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر برضا و رغبت دامن اسلام میں آ گئے۔ یہ بہت ہی شاندار اور با وفا آدمی تھے اور ان کا کچھ تذکرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم تحریر کر چکے ہیں۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اب اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور یہ وہیں سے لوٹ کر اپنے قبیلہ میں گئے اور اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس علانیہ دعوت اسلام کو سن کر قبیلہ ثقیف کے لوگ غیظ و غضب میں بھر کر اس قدر طیش میں آ گئے کہ چاروں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کرنے لگے یہاں تک کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ان کو قتل تو کر دیا لیکن پھر یہ سوچا کہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اب ہم بھلا
اسلام کے خلاف کب تک اور کتنے لوگوں سے لڑتے رہیں گے ؟ پھر مسلمانوں کے انتقام اور ایک لمبی جنگ کے انجام کو سوچ کر دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنے ایک معزز رئیس عبدیالیل بن عمرو کو چند ممتاز سرداروں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔ اس وفد نے مدینہ پہنچ کر بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ ہم اس شرط پر اسلام قبول کرتے ہیں کہ تین سال تک ہمارے بت “لات” کو توڑا نہ جائے۔ آپ نے اس شرط کو قبول فرمانے سے صاف انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسلام کسی حال میں بھی بت پرستی کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بت تو ضرور توڑا جائے گا یہ اور بات ہے کہ تم لوگ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ توڑو بلکہ میں حضرت ابو سفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہما) کو بھیج دوں گا وہ اس بت کو توڑ ڈالیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور حضرت عثمان بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جو اس قوم کے ایک معزز اور ممتاز فرد تھے اس قبیلے کا امیر مقرر فرما دیا۔ اور ان لوگوں کے ساتھ حضرت ابو سفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو طائف بھیجا اور ان دونوں حضرات نے ان کے بت “لات” کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالا۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۶)
وفد کندہ :۔
یہ لوگ یمن کے اطراف میں رہتے تھے۔ اس قبیلے کے ستّر یا اسی سوار بڑے ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ مدینہ آئے۔ خوب بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اور ریشمی گونٹ کے جبے پہنے ہوئے، ہتھیاروں سے سجے ہوئے مدینہ کی آبادی میں داخل ہوئے۔ جب یہ لوگ دربار رسالت میں باریاب ہوئے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ سب نے عرض کیا کہ “جی ہاں” آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم لوگوں نے یہ ریشمی لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ یہ سنتے ہی ان لوگوں نے اپنے جبوں کو بدن سے اتار دیا اور ریشمی گونٹوں کو پھاڑ پھاڑ کر جبوں سے الگ کر دیا۔(مدارج ج۲ ص۳۶۶)
وفد بنی اشعر :۔
یہ لوگ یمن کے باشندے اور “قبیلہ اشعر” کے معزز اور نامور حضرات تھے۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے تو جوشِ محبت اور فرط عقیدت سے رجز کا یہ شعر آواز ملا کر پڑھتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے کہ
غَدًا نَلْقِي الْاَحِبَّة
مُحَمَّدًا وَّ حِزْبَ
کل ہم لوگ اپنے محبوبوں سے یعنی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ملاقات کریں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ یمن والے آ گئے۔ یہ لوگ بہت ہی نرم دل ہیں ایمان تو یمنیوں کا ایمان ہے اور حکمت بھی یمنیوں میں ہے۔ بکری پالنے والوں میں سکون و وقار ہے اور اونٹ پالنے والوں میں فخر اور گھمنڈ ہے۔ چنانچہ اس ارشاد نبوی کی برکت سے اہل یمن علم و صفائی قلب اور حکمت و معرفت الٰہی کی دولتوں سے ہمیشہ مالا مال رہے۔ خاص کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہ یہ نہایت ہی خوش آواز تھے اور قرآن شریف ایسی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ان کا کوئی ہم مثل نہ تھا۔ علم عقائد میں اہل سنت کے امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ انہی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۷)
وفد بنی اسد :۔
اس قبیلے کے چند اشخاص بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور نہایت ہی خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ لیکن پھر احسان جتانے کے طور پر کہنے لگے کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اتنے سخت قحط کے زمانے میں ہم لوگ بہت ہی دور دراز سے مسافت طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ راستے میں ہم لوگوں کو کہیں شکم سیر ہو کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوا اور بغیر اس کے کہ آپ کا لشکر ہم پر حملہ آور ہوا ہو ہم لوگوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان لوگوں کے اس احسان جتانے پر خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ج بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ(حجرات)
اے محبوب ! یہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے۔ آپ فرما دیجئے کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اﷲ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔
وفد فزارہ :۔
یہ لوگ عیینہ بن حصن فزاری کی قوم کے لوگ تھے۔ بیس آدمی دربار اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے اسلام کا اعلان کیا اور بتایا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے دیار میں اتنا سخت قحط اور کال پڑ گیا ہے کہ اب فقر و فاقہ کی مصیبت ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بارش کے لئے دعا فرمائیے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن منبر پر دعا فرما دی اور فوراً ہی بارش ہونے لگی اور لگاتار ایک ہفتہ تک موسلادھار بارش کا سلسلہ جاری رہا پھر دوسرے جمعہ کو جب کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے ایک اعرابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) چوپائے ہلاک ہونے لگے اور بال بچے بھوک سے بلکنے لگے اور تمام راستے منقطع ہو گئے۔ لہٰذا دعا فرما دیجئے کہ یہ بارش پہاڑوں پر برسے اور کھیتوں بستیوں پر نہ بر سے۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی تو بادل شہر مدینہ اور اس کے اطراف سے کٹ گیا اور آٹھ دن کے بعد مدینہ میں سورج نظر آیا۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۵۹)
وفد بنی مرہ :۔
اس وفد میں بنی مرہ کے تیرہ آدمی مدینہ آئے تھے۔ انکا سردار حارث بن عوف بھی اس وفد میں شامل تھا۔ ان سب لوگوں نے بارگاہ اقدس میں اسلام قبول کیا اور قحط کی شکایت اور باران رحمت کی دعا کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لفظوں کے ساتھ دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ اسْقِهِمُ الْغَيْثَ ( اے اﷲ ! ان لوگوں کو بارش سے سیراب فرما دے) پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر شخص کو دس دس اوقیہ چاندی اور چار چار سو درہم انعام اور تحفہ کے طور پر عطا کریں۔ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سردار حضرت حارث بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہ اوقیہ چاندی کا شاہانہ عطیہ مرحمت فرمایا۔
جب یہ لوگ مدینہ سے اپنے وطن پہنچے تو پتا چلا کہ ٹھیک اسی وقت ان کے شہروں میں بارش ہوئی تھی جس وقت سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی درخواست پر مدینہ میں بارش کے لئے دعا مانگی تھی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۰)
وفد بنی البکاء :۔
اس وفد کے ساتھ حضرت معاویہ بن ثور بن عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آئے تھے جو ایک سو برس کی عمر کے بوڑھے تھے۔ ان سب حضرات نے بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کیا پھر حضرت معاویہ بن ثور بن عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند حضرت بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پیش کیا اور یہ گزارش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے اس بچے کے سر پر اپنا دست مبارک پھرا دیں۔ ان کی درخواست پر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے فرزند کے سر پر اپنا مقدس ہاتھ پھرا دیا۔ اور ان کو چند بکریاں بھی عطا فرمائیں۔ اور وفد والوں کے لئے خیر و برکت کی دعا فرما دی اس دعا ئے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ ان لوگوں کے دیار میں جب بھی قحط اور فقر و فاقہ کی بلا آئی تو اس قوم کے گھر ہمیشہ قحط اور بھکمری کی مصیبتوں سے محفوظ رہے۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۰)
وفد بنی کنانہ :۔
اس وفد کے امیر کارواں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ یہ سب لوگ دربار رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام میں نہایت ہی عقیدت مندی کے ساتھ حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے اور حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیعت اسلام کر کے جب اپنے وطن میں پہنچے تو ان کے باپ نے ان سے ناراض و بیزار ہو کر کہہ دیا کہ میں خدا کی قسم ! تجھ سے کبھی کوئی بات نہ کروں گا۔ لیکن ان کی بہن نے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا۔ یہ اپنے باپ کی حرکت سے رنجیدہ اور دل شکستہ ہو کر پھر مدینہ منورہ چلے آئے اور جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور پھر اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جماعت میں شامل ہو کر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کرنے لگے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد یہ بصرہ چلے گئے۔ پھر آخر عمر میں شام گئے اور ۸۵ ھ میں شہر دمشق کے اندر وفات پائی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۰)
وفد بنی ہلال :۔
اس وفد کے لوگوں نے بھی دربار نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اس وفد میں حضرت زیاد بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے یہ مسلمان ہو کر دندناتے ہوئے حضرت ام المؤمنین بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے کیونکہ وہ ان کی خالہ تھیں۔
یہ اطمینان کے ساتھ اپنی خالہ کے پاس بیٹھے ہوئے گفتگو میں مصروف تھے جب رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکان میں تشریف لائے اور یہ پتا چلا کہ حضرت زیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ام المؤمنین کے بھانجے ہیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت ان کے سر اور چہرہ پر اپنا نورانی ہاتھ پھیر دیا۔ اس دست مبارک کی نورانیت سے حضرت زیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا چہرہ اس قدر پر نور ہو گیا کہ قبیلہ بنی ہلال کے لوگوں کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم لوگ حضرت زیاد بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہرہ پر ہمیشہ ایک نور اور برکت کا اثر دیکھتے رہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۰)
وفد ضمام بن ثعلبہ :۔
یہ قبیلہ سعد بن بکر کے نمائندہ بن کر بارگاہ رسالت میں آئے۔ یہ بہت ہی خوبصورت سرخ و سفید رنگ کے گیسو دراز آدمی تھے۔ مسجد نبوی میں پہنچ کر اپنے اونٹ کو بٹھا کر باندھ دیا پھر لوگوں سے پوچھا کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کون ہیں ؟
لوگوں نے دور سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گورے رنگ کے خوبصورت آدمی جو تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں وہی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سامنے آئے اور کہا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند ! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا اور میں اپنے سوال میں بہت زیادہ مبالغہ اور سختی برتوں گا۔ آپ اس سے مجھ پر خفا نہ ہوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جو چاہو پوچھ لو۔ پھر حسب ذیل مکالمہ ہوا۔
حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو کر اپنے وطن میں پہنچے اور ساری قوم کو جمع کر کے سب سے پہلے اپنی قوم کے تمام بتوں یعنی “لات و عزیٰ” اور “منات و ہبل ” کو برا بھلا کہنے لگے اور خوب خوب ان بتوں کی توہین کرنے لگے۔ ان کی قوم نے جو اپنے بتوں کی توہین سنی تو ایک دم سب چونک پڑے اور کہنے لگے کہ اے ثعلبہ کے بیٹے ! تو کیا کہہ رہا ہے ؟ خاموش ہو جا ورنہ ہم کو یہ ڈر ہے کہ ہمارے یہ دیوتا تجھ کو برص اور کوڑھ اور جنون میں مبتلا کر دیں گے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے اور تڑپ کر فرمایا کہ اے بے عقل انسانوں ! یہ پتھر کے بت بھلا ہم کو کیا نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ سنو ! اﷲ تعالیٰ جو ہر نفع و نقصان کا مالک ہے اس نے اپنا ایک رسول بھیجا ہے اور ایک کتاب نازل فرمائی ہے تا کہ تم انسانوں کو اس گمراہی اور جہالت سے نجات عطا فرمائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔ میں اﷲ کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام کا پیغام تم لوگوں کے پاس لایا ہوں، پھر انہوں نے اعمال اسلام یعنی نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کو ان لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اسلام کی حقانیت پر ایسی پرجوش اور موثر تقریر فرمائی کہ رات بھر میں قبیلے کے تمام مرد و عورت مسلمان ہو گئے اور ان لوگوں نے اپنے بتوں کو توڑ پھوڑ کر پاش پاش کر ڈالا اور اپنے قبیلہ میں ایک مسجد بنا لی اور نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کے پابند ہو کر صادق الایمان مسلمان بن گئے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۴)
وفدَ بلی :۔
یہ لوگ جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت ابو رویفع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو پہلے ہی سے مسلمان ہو کر خدمت اقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے اس وفد کا تعارف کراتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ میری قوم کے افراد ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو اور تمہاری قوم کو ” خوش آمدید ” کہتا ہوں۔ پھر حضرت ابو رویفع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ سب لوگ اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی پوری قوم کے مسلمان ہونے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو اسلام کی ہدایت دیتا ہے۔
اس وفد میں ایک بہت ہی بوڑھا آدمی بھی تھا۔ جس کا نام “ابو الضیف” تھا اس نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ مجھے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بہت زیادہ شوق ہے تو کیا اس مہمان نوازی کا مجھے کچھ ثواب بھی ملے گا ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان ہونے کے بعد جس مہمان کی بھی مہمان نوازی کرو گے خواہ وہ امیر ہو یا فقیر تم ثواب کے حق دار ٹھہرو گے۔ پھر ابو الضیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ پوچھا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مہمان کتنے دنوں تک مہمان نوازی کا حق دار ہے ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن تک اس کے بعد وہ جو کھائے گا وہ صدقہ ہوگا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۴)
وفد تُجیب :۔
یہ تیرہ آدمیوں کا ایک وفد تھا جو اپنے مالوں اور مویشیوں کی زکوٰۃ لے کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر ان لوگوں کا استقبال فرمایا۔ اور یہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنے اس مال زکوٰۃ کو اپنے وطن میں لے جاؤ اور وہاں کے فقرا و مساکین کو یہ سارا مال دے دو۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم اپنے وطن کے فقراء و مساکین کو اس قدر مال دے چکے ہیں کہ یہ مال ان کی حاجتوں سے زیادہ ہمارے پاس بچ رہا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی اس زکوٰۃ کو قبول فرما لیا اور ان لوگوں پر بہت زیادہ کرم فرماتے ہوئے ان خوش نصیبوں کی خوب خوب مہمان نوازی فرمائی اور بوقت رخصت ان لوگوں کو اکرام و انعام سے بھی نوازا۔ پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہاری قوم میں کوئی ایسا شخص باقی رہ گیا ہے ؟ جس نے میرا دیدار نہیں کیا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ ایک نوجوان کو ہم اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہیں جو ہمارے گھروں کی حفاظت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس نوجوان کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے وطن پہنچ کر اس نوجوان کو مدینہ طیبہ روانہ کر دیا۔ جب وہ نوجوان بارگاہ عالی میں باریاب ہوا تو اس نے یہ گزارش کی کہ یاسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے میری قوم کی حاجتوں کو تو پوری فرما کر انہیں وطن میں بھیج دیا اب میں بھی ایک حاجت لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آپ میری حاجت بھی پوری فرما دیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے ؟ اس نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اپنے گھر سے یہ مقصد لے کر نہیں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کچھ مال عطا فرمائیں بلکہ میری فقط اتنی حاجت اور دلی تمنا ہے جس کو دل میں لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بخش دے اور مجھ پر اپنا رحم فرمائے اور میرے دل میں بے نیازی اور استغناء کی دولت پیدا فرما دے۔ نوجوان کی اس دلی مراد اور تمنا کو سن کر محبوبِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اس کے حق میں ان لفظوں کے ساتھ دعا فرمائی کہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَهٗ وَ ارْحَمْهُ وَ اجْعَلْ غِنَاهُ فِيْ قَلْبِهٖ اے اﷲ ! عزوجل اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اس کے دل میں بے نیازی ڈال دے۔
پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس نوجوان کو اس کی قوم کا امیر مقرر فرما دیا اور یہی نوجوان اپنے قبیلے کی مسجد کا امام ہو گیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۴)
وفد مزینہ :۔
اس وفد کے سربراہ حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کے چار سو آدمی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر ! تم ان لوگوں کو کچھ تحفہ عنایت کرو۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے گھر میں بہت ہی تھوڑی سی کھجوریں ہیں۔ یہ لوگ اتنے قلیل تحفہ سے شاید خوش نہ ہوں
گے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر یہی ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! جاؤ ان لوگوں کو ضرور کچھ تحفہ عطا کرو۔ ارشادِ نبوی سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار سو آدمیوں کو ہمراہ لے کر مکان پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مکان میں کھجوروں کا ایک بہت ہی بڑا تودہ پڑا ہوا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفد کے لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ جتنی اور جس قدر چاہو ان کھجوروں میں سے لے لو۔ ان لوگوں نے اپنی حاجت اور مرضی کے مطابق کھجوریں لے لیں۔ حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سب سے آخر میں جب میں کھجوریں لینے کے لئے مکان میں داخل ہوا تو مجھے ایسا نظر آیا کہ گویا اس ڈھیر میں سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی ہے۔
یہ وہی حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں، جو فتح مکہ کے دن قبیلہ مزینہ کے علم بردار تھے یہ اپنے سات بھائیوں کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کچھ گھر تو ایمان کے ہیں اور کچھ گھر نفاق کے ہیں اور آل مقرن کا گھر ایمان کا گھر ہے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۷)
وفد دوس :۔
اس وفد کے قائد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے یہ ہجرت سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا ہی عجیب ہے یہ ایک بڑے ہوش مند اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ یہ کسی ضرورت سے مکہ آئے تو کفار قریش نے ان سے کہہ دیا کہ خبردار تم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے نہ ملنا اور ہر گز ہر گز ان کی بات نہ سننا۔ ان کے کلام میں ایسا جادو ہے کہ جو سن لیتا ہے وہ اپنا دین و مذہب چھوڑ بیٹھتا ہے اور عزیز و اقارب سے اس کا رشتہ کٹ جاتا ہے۔ یہ کفار مکہ کے فریب میں آ گئے اور اپنے کانوں میں انہوں نے روئی بھر لی کہ کہیں قرآن کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن ایک دن صبح کو یہ حرم کعبہ میں گئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فجر کی نماز میں قراءت فرما رہے تھے ایک دم قرآن کی آواز جو ان کے کان میں پڑی تو یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر حیران رہ گئے اور کتابِ الٰہی کی عظمت اور اس کی تاثیر ربانی نے ان کے دل کو موہ لیا۔ جب حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا شانہ نبوت کو چلے تو یہ بے تابانہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور مکان میں آ کر آپ کے سامنے مودبانہ بیٹھ گئے اور اپنا اور قریش کی بدگوئیوں کا سارا حال سنا کر عرض کیا کہ خدا کی قسم ! میں نے قرآن سے بڑھ کر فصیح و بلیغ آج تک کوئی کلام نہیں سنا۔ ﷲ ! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام کے چند احکام ان کے سامنے بیان فرما کر ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
پھر انہوں نے درخواست کی یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی علامت و کرامت عطا فرمائیے کہ جس کو دیکھ کر لوگ میری باتوں کی تصدیق کریں تا کہ میں اپنی قوم میں یہاں سے جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی کہ الٰہی ! تو ان کو ایک خاص قسم کا نور عطا فرما دے۔ چنانچہ اس دعاء نبوی کی بدولت ان کو یہ کرامت عطا ہوئی کہ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کے مانند ایک نور چمکنے لگا۔ مگر انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ نور میرے سر میں منتقل ہو جائے۔ چنانچہ ان کا سر قندیل کی طرح چمکنے لگا۔ جب یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کی دعوت دینے لگے تو ان کے ماں باپ اور بیوی نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کی قوم مسلمان نہیں ہوئی بلکہ اسلام کی مخالفت پر تل گئی۔ یہ اپنی قوم کے اسلام سے مایوس ہو کر پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے اور اپنی قوم کی سرکشی اور سرتابی کا سارا حال بیان کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پھر اپنی قوم میں چلے جاؤ اور نرمی کے ساتھ ان کو خدا کی طرف بلاتے رہو۔ چنانچہ یہ پھر اپنی قوم میں آ گئے اور لگاتار اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی گھرانوں میں اسلام کی روشنی پھیل گئی اور یہ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر خیبر میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر خیبر کے مال غنیمت میں سے ان سب لوگوں کو حصہ عطا فرمایا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۷۰)
وفد بنی عبس :۔
قبیلہ بنی عبس کے وفد نے دربار اقدس میں جب حاضری دی تو یہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے مبلغین نے ہم کو خبر دی ہے کہ جو ہجرت نہ کرے اس کا اسلام مقبول ہی نہیں ہے تو یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر آپ حکم دیں تو ہم اپنے سارے مال و متاع اور مویشیوں کو بیچ کر ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کے لئے ہجرت ضروری نہیں۔ ہاں ! یہ ضروری ہے کہ تم جہاں بھی رہو خدا سے ڈرتے رہو اور زہد و تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہو۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۷۰)
وفد دارم :۔
یہ وفد دس آدمیوں کا ایک گروہ تھا جن کا تعلق قبیلہ ” لخم ” سے تھا اور ان کے سربراہ اور پیشوا کا نام ” ہانی بن حبیب ” تھا۔ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے تحفے میں چند گھوڑے اور ایک ریشمی جبہ اور ایک مشک شراب اپنے وطن سے لے کر آئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور جبہ کے تحائف کو تو قبول فرما لیا لیکن شراب کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے شراب کو حرام فرما دیا ہے۔ ہانی بن حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اجازت ہو تو میں اس شراب کو بیچ ڈالوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس خدا نے شراب کے پینے کو حرام فرمایا ہے اسی نے اس کی خرید و فروخت کو بھی حرام ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا تم شراب کی اس مشک کو لے جا کر کہیں زمین پر اس شراب کو بہا دو۔
ریشمی جبہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اس کو لے کر کیا کروں گا ؟ جب کہ مردوں کے لئے اس کا پہننا ہی حرام ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں جس قدر سونا ہے آپ اس کو اس میں سے جدا کر لیجئے اور اپنی بیویوں کے لئے زیورات بنوا لیجئے اور ریشمی کپڑے کو فروخت کر کے اس کی قیمت کو اپنے استعمال میں لائیے۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس جبہ کو آٹھ ہزار درہم میں بیچا۔ یہ وفد بھی بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر نہایت خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۵)
وفد غامد :۔
یہ دس آدمیوں کی جماعت تھی جو ۱۰ ھ میں مدینہ آئے اور اپنی منزل میں سامانوں کی حفاظت کے لئے ایک جوان لڑکے کو چھوڑ دیا۔ وہ سو گیا اتنے میں ایک چور آیا اور ایک بیگ چرا کر لے بھاگا۔ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ ناگہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کا ایک بیگ چور لے گیا مگر پھر تمہارے جوان نے اس بیگ کو پا لیا۔ جب یہ لوگ بارگاہ اقدس سے اٹھ کر اپنی منزل پر پہنچے تو ان کے جوان نے بتایا کہ میں سو رہا تھا کہ ایک چور بیگ لے کر بھاگا مگر میں بیدار ہونے کے بعد جب اس کی تلاش میں نکلا تو ایک شخص کو دیکھا وہ مجھ کو دیکھتے ہی فرار ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں کی زمین کھودی ہوئی ہے جب میں نے مٹی ہٹا کر دیکھا تو بیگ وہاں دفن تھا میں اس کو نکال کر لے آیا۔ یہ سن کر سب بول پڑے کہ بلا شبہ یہ رسول برحق ہیں اور ہم کو انہوں نے اسی لئے اس واقعہ کی خبر دیدی تاکہ ہم لوگ ان کی تصدیق کر لیں۔ ان سب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس جوان نے بھی دربار رسول میں حاضر ہو کر کلمہ پڑھا اور اسلام کے دامن میں آ گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت اُبی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ جتنے دنوں ان لوگوں کا مدینہ میں قیام رہے تم ان لوگوں کو قرآن پڑھنا سکھا دو۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۷۴)
وفد نجرانّ :۔
یہ نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا۔ اس میں ساٹھ سوار تھے۔ چوبیس ان کے شرفا اور معززین تھے اور تین اشخاص اس درجہ کے تھے کہ انہیں کے ہاتھوں میں نجران کے نصاریٰ کا مذہبی اور قومی سارا نظام تھا۔ ایک عاقب جس کا نام ” عبدالمسیح ” تھا دوسرا شخص سید جس کا نام ” ایہم ” تھا تیسرا شخص ” ابو حارثہ بن علقمہ ” تھا۔ ان لوگوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بہت سے سوالات کئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جوابات دیئے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ پر گفتگو چھڑ گئی۔ ان لوگوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس کو ” آیت مباہلہ ” کہتے ہیں کہ
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي عِنْدَ اللهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَکُوْنُ ﴿۵۹﴾ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ ﴿۶۰﴾ فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ ۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ۟ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَي الْکٰذِبِيْنَ ﴿۶۱﴾(آل عمران)
بیشک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے انکو مٹی سے بنایا پھر فرمایا “و جا ” وہ فوراً ہو جاتا ہے (اے سننے والے) یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تم شک والوں میں سے نہ ہونا پھر (اے محبوب) جو تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اسکے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو پھر ہم گڑ گڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان لوگوں کو اس مباہلہ کی دعوت دی تو ان نصرانیوں نے رات بھر کی مہلت مانگی۔ صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت علی، حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے کاشانہ نبوت سے نکل پڑے مگر نجران کے نصرانیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے کا اقرار کر کے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔ (تفسير جلالين وغيره)
اس سال کے تمام واقعات میں سب سے زیادہ شاندار اور اہم ترین واقعہ ” حجۃ الوداع ” ہے۔ یہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا آخری حج تھا اور ہجرت کے بعد یہی آپ کا پہلا حج تھا۔ ذوقعدہ ۱۰ ھ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حج کے لئے روانگی کا اعلان فرمایا۔ یہ خبر بجلی کی طرح سارے عرب میں ہر طرف پھیل گئی اور تمام عرب شرفِ ہمرکابی کے لئے اُمنڈ پڑا۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آخر ذوقعدہ میں جمعرات کے دن مدینہ میں غسل فرما کر تہبند اور چادر زیب تن فرمایا اور نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا فرما کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ مدینہ منورہ سے چھ میل دور اہل مدینہ کی میقات ” ذوالحلیفہ ” پر پہنچ کر رات بھر قیام فرمایا پھر احرام کے لئے غسل فرمایا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے ہاتھ سے جسم اطہر پر خوشبو لگائی پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اپنی اونٹنی “قصواء” پر سوار ہو کر احرام باندھا اور بلند آواز سے ” لبیک ” پڑھا اور روانہ ہوگئے۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو آگے پیچھے دائیں بائیں حدِ نگاہ تک آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ بیہقی کی روایت ہے کہ ایک لاکھ چودہ ہزار اور دوسری روایتوں میں ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمان حجۃ الوداع میں آپ کے ساتھ تھے۔(زرقانی ج۳ ص۱۰۶ و مدارج ج۲ ص۳۸۷)
چوتھی ذوالحجہ کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے خاندان بنی ہاشم کے لڑکوں نے تشریف آوری کی خبر سنی تو خوشی سے دوڑ پڑے اور آپ نے نہایت ہی محبت و پیار کے ساتھ کسی کو آگے کسی کو پیچھے اپنی اونٹنی پر بٹھا لیا۔(نسائی باب استقبال الحاج ج۲ ص۲۶ مطبوعه رحیمیه)
فجر کی نماز آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام ” ذی طویٰ ” میں ادا فرمائی اور غسل فرمایا پھر آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور چاشت کے وقت یعنی جب آفتاب بلند ہو چکا تھا تو آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ جب کعبہ معظمہ پر نگاہ مہر نبوت پڑی تو آپ نے یہ دعا پڑھی کہ
اَللّٰهُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَ مِنْكَ السَّلَامُ حَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ اَللّٰهُمَّ زِدْ هٰذَا الْبَيْتَ تَشْرِيْفًا وَّ تَعْظِيْمًا وَّ تَکْرِيْمًا وَّ مَهَابَةً وَّ زِدْ مَنْ حَجَّهٗ وَ اعْتَمَرَهٗ تَکْرِيْمًا وَّ تَشْرِيْفًا وَّ تَعْظِيْمًا
اے اﷲ ! عزوجل تو سلامتی دینے والا ہے اور تیری طرف سے سلامتی ہے۔ اے رب ! عزوجل ہمیں سلامتی کے سا تھ زندہ رکھ۔ اے اﷲ ! عزوجل اس گھر کی عظمت و شرف اور عزت و ہیبت کو زیادہ کر اور جو اس گھر کا حج اور عمرہ کرے تو اس کی بزرگی اور شرف و عظمت کو زیادہ کر۔
جب حجر اسود کے سامنے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر اس کو بوسہ دیا پھر خانہ کعبہ کا طواف فرمایا۔ شروع کے تین پھیروں میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” رمل ” کیا اور باقی چار چکروں میں معمولی چال سے چلے ہر چکر میں جب حجر اسود کے سامنے پہنچتے تو اپنی چھڑی سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرکے چھڑی کو چوم لیتے تھے۔ حجر اسود کا استلام کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چھڑی کے ذریعہ سے کیا کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو چوم لیا کبھی لب مبارک کو حجر اسود پر رکھ کر بوسہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ کبھی رُکن یمانی کا بھی آپ نے استلام کیا۔(نسائی ج۲ ص۳۰ و ص۳۱)
جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی نماز سے فارغ ہو کر پھر حجر اسود کا استلام فرمایا اور سامنے کے دروازہ سے صفا کی جانب روانہ ہوئے قریب پہنچے تو اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ
بے شک صفا اور مروہ اﷲ کے دین کے نشانوں میں سے ہیں۔
پھر صفا اور مروہ کی سعی فرمائی اور چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے جانور تھے اس لئے عمرہ ادا کرنے کے بعد آپ نے احرام نہیں اتارا۔
آٹھویں ذوالحجہ جمعرات کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منیٰ تشریف لے گئے اور پانچ نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء، فجر، منیٰ میں ادا فرما کر نویں ذوالحجہ جمعہ کے دن آپ عرفات میں تشریف لے گئے۔
زمانہ جاہلیت میں چونکہ قریش اپنے کو سارے عرب میں افضل و اعلیٰ شمار کرتے تھے اس لئے وہ عرفات کی بجائے ” مزدلفہ ” میں قیام کرتے تھے اور دوسرے تمام عرب ” عرفات ” میں ٹھہرتے تھے لیکن اسلامی مساوات نے قریش کے لئے اس تخصیص کو گوارا نہیں کیا اور اﷲ عزوجل نے یہ حکم دیا کہ
ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ
(اے قریش) تم بھی وہیں (عرفات) سے پلٹ کر آؤ جہاں سے سب لوگ پلٹ کر آتے ہیں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرفات پہنچ کر ایک کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی ” قصواء ” پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ میں آپ نے بہت سے ضروری احکامِ اسلام کا اعلان فرمایا اور زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں اور بیہودہ رسموں کو آپ نے مٹاتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اَلَا کُلُّ شَيْئٍ مِّنْ اَمْرِالْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوْعٌ سن لو ! جاہلیت کے تمام دستور میرے دونوں قدموں کے نیچے پامال ہیں۔(ابو داؤد ج۱ ص۲۶۳ و مسلم ج۱ ص۳۹۷ باب حجة النبی)
اسی طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخر اور رنگ و نسل کی برتری اور قومیت میں نیچ اونچ وغیرہ تصورات جاہلیت کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اور مساوات اسلام کا عَلَم بلند فرماتے ہوئے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اس تاریخی خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ
یَااَيُّهَا النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاكُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰي أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلٰي عَرَبِيٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰي اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰي اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰي (مسند امام احمد)
اے لوگو ! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ سن لو ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔
اسی طرح تمام دنیا میں امن و امان قائم فرمانے کے لئے امن و سلامتی کے شہنشاہ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خدائی فرمان جاری فرمایا کہ
فَاِنَّ دِمَائَكُمْ وَ اَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا فِيْ شَهْرِكُمْ هٰذَا فِيْ بَلَدِكُمْ هٰذَا اِلٰي يَوْمٍ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ
تمہارا خون اور تمہارا مال تم پر تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ، تمہارا یہ شہر محترم ہے۔(بخاری و مسلم و ابو داؤد)
اپنا خطبہ ختم فرماتے ہوئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سامعین سے فرمایا کہ وَ اَنْتُمْ مَسْئُوْلُوْنَ عَنِّيْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ تم سے خدا عزوجل کے یہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم لوگ کیا جواب دو گے ؟
تمام سامعین نے کہا کہ ہم لوگ خدا سے کہہ دیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور رسالت کا حق ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا کہ اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ اے اﷲ ! تو گواہ رہنا۔( ابو داؤد ج۱ ص۲۶۳ باب صفة حج النبی)
عین اسی حالت میں جب کہ خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا فرض رسالت ادا فرما رہے تھے یہ آیت نازل ہوئی کہ
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنـًا ط
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔
شہنشاہِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا تخت شاہی :۔
یہ حیرت انگیز و عبرت خیز واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت شہنشاہ کونین، خدا عزوجل کے نائب اکرم اور خلیفہ اعظم ہونے کی حیثیت سے فرمان ربانی کا اعلان فرما رہے تھے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تخت ِ شہنشاہی یعنی اونٹنی کا کجاوہ اور عرق گیر شاید دس روپے سے زیادہ قیمت کا نہ تھا نہ اس اونٹنی پر کوئی شاندار کجاوہ تھا نہ کوئی ہودج نہ کوئی محمل نہ کوئی چتر نہ کوئی تاج ۔
کیا تاریخ عالم میں کسی اور بادشاہ نے بھی ایسی سادگی کا نمونہ پیش کیا ہے ؟ اس کا جواب یہی اور فقط یہی ہے کہ ” نہیں۔ “
یہ وہ زاہدانہ شہنشاہی ہے جو صرف شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شہنشاہیت کا طرئہ امتیاز ہے !
خطبہ کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظہر و عصر ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی پھر ” موقف ” میں تشریف لے گئے اور جبل رحمت کے نیچے غروبِ آفتاب تک دعاؤں میں مصروف رہے۔ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے ایک لاکھ سے زائد حجاج کے ازدحام میں ” مزدلفہ ” پہنچے۔ یہاں پہلے مغرب پھر عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی۔ مشعرِ حرام کے پاس رات بھر امت کے لئے دعائیں مانگتے رہے اور سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہو گئے اور وادی محسر کے راستہ سے منیٰ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ” جمرہ ” کے پاس تشریف لائے اور کنکریاں ماریں پھر آپ نے بآواز بلند فرمایا کہ
لِتَاخُذُوْا مَنَاسِكَكُمْ فَاِنِّيْ لَا اَدْرِيْ لَعَلِّيْ لَا اَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِيْ هٰذِهٖ
حج کے مسائل سیکھ لو ! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد میں دوسرا حج نہ کروں گا۔ (مسلم ج۱ ص۴۱۹ باب رمی جمرة العقبه)
منیٰ میں بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا جس میں عرفات کے خطبہ کی طرح بہت سے مسائل و احکام کا اعلان فرمایا۔ پھر قربان گاہ میں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ایک سو اونٹ تھے کچھ کو تو آپ نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور باقی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا اور گوشت، پوست، جھول، نکیل سب کو خیرات کر دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ قصاب کی مزدوری بھی اس میں سے نہ ادا کی جائے بلکہ الگ سے دی جائے۔
موئے مبارک:۔
قربانی کے بعد حضرت معمر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سر کے بال اتروائے اور کچھ حصہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا اور باقی موئے مبارک کو مسلمانوں میں تقسیم کر دینے کا حکم صادر فرمایا۔ (مسلم ج۱ ص۴۲۱ باب بیان ان السنۃ یوم النحر الخ)
اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور طوافِ زیارت فرمایا۔
ساقی کوثر چاہ زمزم پر:۔
پھر چاہ زمزم کے پاس تشریف لائے خاندان عبدالمطلب کے لوگ حاجیوں کو زمزم پلا رہے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھ کو ایسا کرتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تمہارے ہاتھ سے ڈول چھین کر خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پینے لگیں گے تو میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پیتا۔ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے زمزم شریف پیش کیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کھڑے کھڑے زمزم شریف نوش فرمایا۔ پھر منیٰ واپس تشریف لے گئے اور بارہ ذوالحجہ تک منیٰ میں مقیم رہے اور ہر روز سورج ڈھلنے کے بعد جمروں کو کنکری مارتے رہے۔ تیرہ ذوالحجہ منگل کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد منیٰ سے روانہ ہو کر ” محصب ” میں رات بھر قیام فرمایا اور صبح کو نماز فجر کعبہ کی مسجد میں ادا فرمائی اور طواف وداع کر کے انصار و مہاجرین کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہو گئے۔
غدیر خم کاخطبہ:۔
راستہ میں مقام ” غدیر خم ” پر جو ایک تالاب ہے یہاں تمام ہمراہیوں کو جمع فرما کر ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :
حمد و ثنا کے بعد : اے لوگو ! میں بھی ایک آدمی ہوں ممکن ہے کہ خداعزوجل کا فرشتہ(ملک الموت) جلد آ جائے اور مجھے اس کا پیغام قبول کرنا پڑے میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں۔ ایک خدا عزوجل کی کتاب جس میں ہدایت اور روشنی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا عزوجل کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم ج۱ ص۲۷۹ باب من فضائل علي)
اس خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَايُ اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ (مشکوٰۃ ص۵۶۵ مناقب علي)
جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکے مولیٰ، خداوندا ! عزوجل جو علی سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے تو بھی عداوت رکھ۔
غدیر خم کے خطبہ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کی کوئی تصریح کہیں حدیثوں میں نہیں ملتی۔ ہاں البتہ بخاری کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے اختیار سے کوئی ایسا کام کر ڈالا تھا جس کو ان کے یمن سے آنے والے ہمراہیوں نے پسند نہیں کیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے بارگاہ رسالت میں اس کی شکایت بھی کر دی جس کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ علی کو اس سے زیادہ کا حق ہے۔ ممکن ہے اسی قسم کے شبہات و شکوک کو مسلمان یمنیوں کے دِلوں سے دور کرنے کے لئے اس موقع پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی اور اہل بیت رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے فضائل بھی بیان کر دیئے ہوں۔(بخاری باب بعث علي الي اليمن ج۲ ص۲۲۳ و ترمذی مناقب علي)
روافض کا ایک شبہ :۔
بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پر لکھا ہے کہ ” غدیر خم ” کاخطبہ یہ ” حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل کا اعلان تھا ” مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک ” تک بندی ” کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خلافت بلا فصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منیٰ کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا نہ کہ غدیر خم پر جہاں یمن اور مدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا۔
مدینہ کے قریب پہنچ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام ذوالحلیفہ میں رات بسر فرمائی اور صبح کو مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا۔
اس لشکر کا دوسرا نام ” سریہ اُسامہ ” بھی ہے۔ یہ سب سے آخری فوج ہے جس کے روانہ کرنے کا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ ۲۶ صفر ۱۱ ھ دو شنبہ کے دن حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور دوسرے دن حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو بلا کر فرمایا کہ میں نے تم کو اس فوج کا امیر لشکر مقرر کیا تم اپنے باپ کی شہادت گاہ مقام ” اُبنٰی ” میں جاؤ اور نہایت تیزی کے ساتھ سفر کر کے ان کفار پر اچانک حملہ کر دو تا کہ وہ لوگ جنگ کی تیاری نہ کر سکیں۔ باوجودیکہ مزاج اقدس ناساز تھا مگر اسی حالت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے جھنڈا باندھا اور یہ نشانِ اسلام حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے کر ارشاد فرمایا :
اُغْزُ بِسْمِ اللهِ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَقَاتِلْ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ
اﷲ کے نام سے اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو اور کافروں کیساتھ جنگ کرو۔
حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت بریدہ بن الحضیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علمبردار بنایا اور مدینہ سے نکل کر ایک کوس دور مقام ” جرف ” میں پڑاؤ کیا تا کہ وہاں پورا لشکر جمع ہو جائے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے تمام معززین کو بھی اس لشکر میں شامل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ بعض لوگوں پر یہ شاق گزرا کہ ایسا لشکر جس میں انصار و مہاجرین کے اکابر و عمائد موجود ہیں ایک نو عمر لڑکا جس کی عمر بیس برس سے زائد نہیں کس طرح امیر لشکر بنا دیا گیا ؟ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس اعتراض کی خبر ملی تو آپ کے قلب نازک پر صدمہ گزرا اور آپ نے علالت کے باوجود سر میں پٹی باندھے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر منبر پر ایک خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں نے اُسامہ کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کی ہے تو تم لوگوں نے اس سے قبل اس کے باپ کے سپہ سالار ہونے پر بھی طعنہ زنی کی تھی حالانکہ خدا کی قسم ! اس کا باپ (زید بن حارثہ) سپہ سالار ہونے کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا (اُسامہ بن زید) بھی سپہ سالار ہونے کے قابل ہے اور یہ میرے نزدیک میرے محبوب ترین صحابہ میں سے ہے جیسا کہ اس کا باپ میرے محبوب ترین اصحاب میں سے تھا لہٰذا اُسامہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کے بارے میں تم لوگ میری نیک وصیت کو قبول کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ خطبہ دے کر مکان میں تشریف لے گئے اور آپ کی علالت میں کچھ اور بھی اضافہ ہو گیا۔
حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حکم نبوی کی تکمیل کرتے ہوئے مقام جرف میں پہنچ گئے تھے اور وہاں لشکر اسلام کا اجتماع ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک عظیم لشکر تیار ہوگیا۔ ۱۰ ربیع الاول ۱۱ ھ کو جہاد میں جانے والے خواص حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے رخصت ہونے کے لئے آئے اور رخصت ہو کر مقام جرف میں پہنچ گئے۔ اس کے دوسرے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی علالت نے اور زیادہ شدت اختیار کر لی۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مزاج پرسی اور رخصت ہونے کے لئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا مگر ضعف کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے، بار بار دست مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور ان کے بدن پر اپنا مقدس ہاتھ پھیرتے تھے۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اس سے میں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رخصت ہو کر اپنی فوج میں تشریف لے گئے اور ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو کوچ کرنے کا اعلان بھی فرما دیا۔ اب سوار ہونے کے لئے تیاری کر رہے تھے کہ ان کی والدہ حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا فرستادہ آدمی پہنچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نزع کی حالت میں ہیں۔ یہ ہوش ربا خبر سن کر حضرت اُسامہ و حضرت عمر و حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ فوراً ہی مدینہ آئے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سکرات کے عالم میں ہیں اور اسی دن دوپہر کو یا سہ پہر کے وقت آپ کا وصال ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ یہ خبر سن کر حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لشکر مدینہ واپس چلا آیا مگر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہو گئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود ربیع الآخر کی آخری تاریخوں میں اس لشکر کو روانہ فرمایا اور حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مقام ” اُبنٰی ” میں تشریف لے گئے اور وہاں بہت ہی خونریز جنگ کے بعد لشکر اسلام فتح یاب ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے قاتل اور دوسرے کفار کو قتل کیا اور بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۰۹ تا ص۴۱۱ و زرقانی ج۳ ص۱۰۷ تا ۱۱۲)
وفاتِ اقدس:۔
حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف لانا صرف اس لئے تھا کہ آپ خدا کے آخری اور قطعی پیغام یعنی دین اسلام کے احکام اُس کے بندوں تک پہنچا دیں اور خدا کی حجت تمام فرما دیں۔ اس کام کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیونکر انجام دیا ؟ اور اس میں آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ؟ اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ جب سے یہ دنیا عالَمِ وجود میں آئی ہزاروں انبیاء و رُسل علیہم السلام اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اس عالم میں تشریف لائے مگر تمام انبیاء و مرسلین کے تبلیغی کارناموں کو اگر جمع کر لیا جائے تو وہ حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تبلیغی شاہکاروں کے مقابلہ میں ایسے ہی نظر آئیں گے جیسے آفتاب عالم تاب کے مقابلہ میں ایک چراغ یا ایک صحرا کے مقابلہ میں ایک ذرہ یا ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تبلیغ نے عالم میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ کائنات ہستی کی ہر پستی کو معراج کمال کی سربلندی عطا فرما کر ذلت کی زمین کو عزت کا آسمان بنا دیا اور دین حنیف کے اس مقدس اور نورانی محل کو جس کی تعمیر کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل معمار بنا کر بھیجے جاتے رہے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی شان سے اس قصر ہدایت کو اس طرح مکمل فرما دیا کہ حضرت حق جل جلالہ نے اس پر اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ کی مہر لگا دی۔
جب دین اسلام مکمل ہو چکا اور دنیا میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا مقصد پورا ہو چکا تو اﷲ تعالیٰ کے وعدہ محکم اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ کے پورا ہونے کا وقت آ گیا۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پہلے سے اپنی وفات کا علم حاصل ہو گیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر لوگوں کو اس کی خبر بھی دے دی تھی۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے لوگوں کو یہ فرما کر رخصت فرمایا تھا : ” شاید اس کے بعد میں تمہارے ساتھ حج نہ کر سکوں گا۔ “
اسی طرح ” غدیر خم ” کے خطبہ میں اسی انداز سے کچھ اسی قسم کے الفاظ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ادا ہوئے تھے اگرچہ ان دونوں خطبات میں لفظ لعل (شاید) فرما کر ذرا پردہ ڈالتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دی مگر حجۃ الوداع سے واپس آ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں لَعَلَّ(شاید) کا لفظ آپ نے نہیں فرمایا بلکہ صاف صاف اور یقین کے ساتھ اپنی وفات کی خبر سے لوگوں کو آگاہ فرما دیا۔
چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور شہداء احد کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو (تم سے پہلے وفات پانے والا) ہوں اور تمہارا گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ (بخاری کتاب الحوض ج۲ ص۹۷۵)
اس حدیث میں اِنِّيْ فَرَطٌ لَّكُمْ فرمایا یعنی میں اب تم لوگوں سے پہلے ہی وفات پا کر جا رہا ہوں تا کہ وہاں جا کر تم لوگوں کے لئے حوض کوثر وغیرہ کا انتظام کروں۔
یہ قصہ مرض وفات شروع ہونے سے پہلے کا ہے لیکن اس قصہ کو بیان فرمانے کے وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسکا یقینی علم حاصل ہو چکا تھا کہ میں کب اور کس وقت دنیا سے جانے والا ہوں اور مرض وفات شروع ہونے کے بعد تو اپنی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو صاف صاف لفظوں میں بغیر ” شاید ” کا لفظ فرماتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دے دی۔
چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ
اپنے مرض وفات میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور چپکے چپکے ان سے کچھ فرمایا تو وہ رو پڑیں۔ پھر بلایا اور چپکے چپکے کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے اس کے بارے میں حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آہستہ آہستہ مجھ سے یہ فرمایا کہ میں اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا تو میں رو پڑی۔ پھر چپکے چپکے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم وفات پا کر میرے پیچھے آؤ گی تو میں ہنس پڑی۔(بخاری باب مرض النبی ج۲ ص۶۳۸)
بہر حال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات کے وقت کا علم حاصل ہو چکا تھا کیوں نہ ہو کہ جب دوسرے لوگوں کی وفات کے اوقات سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ عزوجل نے آگاہ فرما دیا تھا تو اگر خداوند علام الغیوب کے بتا دینے سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات کے وقت کا قبل از وقت علم ہو گیا تو اس میں کونسا استبعاد ہے ؟ اﷲ تعالیٰ نے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم ما کان و ما یکون عطا فرمایا۔ یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کا علم عطا فرما کر آپ کو دنیا سے اٹھایا۔
علالت کی ابتداء:۔
مرض کی ابتداء کب ہوئی ؟ اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کتنے دنوں تک علیل رہے ؟ اس میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ بہر حال ۲۰ یا ۲۲ صفر ۱۱ ھ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنۃ البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان ہے آدھی رات میں تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج اقدس ناساز ہو گیا یہ حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن تھا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۴۱۷ و زرقانی ج۳ ص۱۱۰)
دو شنبہ کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی علالت بہت شدید ہو گئی۔ آپ کی خواہش پر تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے اجازت دے دی کہ آپ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے سہارا دے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں پہنچا دیا۔ جب تک طاقت رہی آپ خود مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے رہے۔ جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میرے مصلی پر امامت کریں۔ چنانچہ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پڑھائیں۔
ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں۔ جب آپ غسل فرما چکے تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما آپ کا مقدس بازو تھام کر آپ کو مسجد میں لائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پاکر پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ بھی دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسلام بیان فرما کر انصار کے فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورۂ و العصر اور ایک آیت بھی تلاوت فرمائی۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۲۵ و بخاری ج۲ ص۶۳۹)
گھر میں سات دینار رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تم ان دیناروں کو لاؤ تا کہ میں ان دیناروں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دوں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ذریعے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دیناروں کو تقسیم کر دیا اور اپنے گھر میں ایک ذرہ بھر بھی سونا یا چاندی نہیں چھوڑا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۲۴)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرض میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ خاص وفات کے دن یعنی دو شنبہ کے روز طبیعت اچھی تھی۔ حجرہ مسجد سے متصل ہی تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی سے آپ ہنس پڑے لوگوں نے سمجھا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں مارے خوشی کے تمام لوگ بے قابو ہو گئے مگر آپ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا یہ سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جمال نبوت کی زیارت کی۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا رُخِ انور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا قرآن کا کوئی ورق ہے۔ یعنی سفید ہو گیا تھا۔(بخاری ج۲ ص۶۴۰ باب مرض النبي صلي الله تعالیٰ عليه وسلم وغیره)
اس کے بعد بار بار غشی طاری ہونے لگی۔ حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زبان سے شدت غم میں یہ لفظ نکل گیا : وَاكَرْبَ اَبَاه ہائے رے میرے باپ کی بے چینی ! حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی ! تمہارا باپ آج کے بعد کبھی بے چین نہ ہو گا۔(بخاری ج۲ ص۶۴۱ باب مرض النبي صلي الله تعالیٰ عليه وسلم)
اس کے بعد بار بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرماتے رہے کہ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر خدا کا انعام ہے اور کبھی یہ فرماتے کہ اَللّٰهُمَّ فِي الرَّفِيْقِ الْاَعْلٰي خداوندا ! بڑے رفیق میں اور لَا اِلٰهَ اِلَا اللّٰهُ بھی پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بے شک موت کے لئے سختیاں ہیں۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ تندرستی کی حالت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ وفات کو قبول کریں یا حیاتِ دنیا کو۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ نے آخرت کو قبول فرما لیا۔(بخاری ج۲ ص۶۴۰ و ص۶۴۱ باب آخر ماتكلم النبي صلي الله تعالیٰ عليه وسلم)
وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تازہ مسواک ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سمجھا کہ مسواک کی خواہش ہے۔ انہوں نے فوراً ہی مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور دست اقدس میں دے دی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسواک فرمائی سہ پہر کا وقت تھا کہ سینۂ اقدس میں سانس کی گھرگھراہٹ محسوس ہونے لگی اتنے میں لب مبارک ہلے تو لوگوں نے یہ الفاظ سنے کہ اَلصَّلٰوةَ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُم نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال رکھو۔
پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ اقدس پر ملتے اور کلمہ پڑھتے۔ چادر مبارک کو کبھی منہ پر ڈالتے کبھی ہٹا دیتے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہ بَلِ الرَّفِيْقُ الْاَعْلٰي (اب کوئی نہیں) بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔ یہی الفاظ زبانِ اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس ہاتھ لٹک گئے اور آنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی قدسی روح عالَمِ قدس میں پہنچ گئی۔
(اِنَّا ِﷲِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلٰي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَاَصْحَابِهٖ اَجْمَعِيْنَ (بخاری ج۲ ص۶۴۰ و ص۶۴۱ باب مرض النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم)
تاریخ وفات میں مؤرخین کا بڑا اختلاف ہے لیکن اس پر تمام علماء سیرت کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا بہر حال عام طور پر یہی مشہور ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ دو شنبہ کے دن تیسرے پہر آپ نے وصال فرمایا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
وفات کا اثر:۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات سے حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کتنا بڑا صدمہ پہنچا ؟ اور اہل مدینہ کا کیا حال ہو گیا ؟ اس کی تصویر کشی کے لئے ہزاروں صفحات بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ وہ شمع نبوت کے پروانے جو چند دنوں تک جمال نبوت کادیدار نہ کرتے تو ان کے دل بے قرار اور ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان عاشقانِ رسول پر جان عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دائمی فراق کا کتنا روح فرسا اور کس قدر جانکاہ صدمہ عظیم ہوا ہو گا ؟ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بلا مبالغہ ہوش و حواس کھو بیٹھے، ان کی عقلیں گم ہو گئیں، آوازیں بند ہو گئیں اور وہ اس قدر مخبوط الحواس ہو گئے کہ ان کے لئے یہ سوچنا بھی مشکل ہو گیا کہ کیا کہیں ؟ اور کیا کریں ؟ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ایسا سکتہ طاری ہو گیا کہ وہ اِدھر اُدھر بھاگے بھاگے پھرتے تھے مگر کسی سے نہ کچھ کہتے تھے نہ کسی کی کچھ سنتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رنج و ملال میں نڈھال ہو کر اس طرح بیٹھ رہے کہ ان میں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قلب پر ایسا دھچکا لگا کہ وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کا ہارٹ فیل ہو گیا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس قدر ہوش و حواس کھو بیٹھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ لی اور ننگی تلوار لے کر مدینہ کی گلیوں میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں اِس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ وفات کے بعد حضرت عمر و حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر مکان میں داخل ہوئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا کہ بہت ہی سخت غشی طاری ہوگئی ہے۔ جب وہ وہاں سے چلنے لگے تو حضرت مغیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر ! تمہیں کچھ خبر بھی ہے ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور تڑپ کر بولے کہ اے مغیرہ ! تم جھوٹے ہو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس وقت تک انتقال نہیں ہو سکتا جب تک دنیا سے ایک ایک منافق کا خاتمہ نہ ہو جائے۔
مواہب لدنیہ میں طبری سے منقول ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ” سُنح ” میں تھے جو مسجد نبوی سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے۔ ان کی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا وہیں رہتی تھیں۔ چونکہ دو شنبہ کی صبح کو مرض میں کمی نظر آئی اور کچھ سکون معلوم ہوا اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اجازت دے دی تھی کہ تم ” سُنح ” چلے جاؤ اور بیوی بچوں کو دیکھتے آؤ۔
بخاری شریف وغیرہ میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ” سُنح ” سے آئے اور کسی سے کوئی بات نہ کہی نہ سنی۔ سیدھے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں چلے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جھکے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان نہایت گرم جوشی کے ساتھ ایک بوسہ دیا اور کہا کہ آپ اپنی حیات اور وفات دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہرگز خداوند تعالیٰ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں فرمائے گا۔ آپ کی جو موت لکھی ہوئی تھی آپ اس موت کے ساتھ وفات پا چکے۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور خود لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے خطبہ دینا شروع کر دیا کہ
اما بعد ! جو شخص تم میں سے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا عزوجل کی پرستش کرتا تھا تو خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ط اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ ط وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْئًا ط وَ سَیَجْزِي اللّٰهُ الشّٰکِرِيْنَ (آل عمران)
اور محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اﷲ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اﷲ شکر ادا کرنے والوں کو ثواب دے گا۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی اس آیت کو جانتا ہی نہ تھا۔ ان سے سن کر ہر شخص اسی آیت کو پڑھنے لگا۔(بخاری ج۱ ص۱۶۶ باب الدخول علي المیت الخ و مدارج النبوة ج۲ ص۴۳۳)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زبان سے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت سنی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ واقعی نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اضطراب کی حالت میں ننگی شمشیر لے کر جو اعلان کرتے پھرتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال نہیں ہوا اس سے رجوع کیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ گویا ہم پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا کہ اس آیت کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خطبہ نے اس پردہ کو اٹھا دیا۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۴)
تجہیز و تکفین:۔
چونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وصیت فرما دی تھی کہ میری تجہیز و تکفین میرے اہل بیت اور اہل خاندان کریں۔ اس لئے یہ خدمت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان ہی کے لوگوں نے انجام دی۔ چنانچہ حضرت فضل بن عباس و حضرت قثم بن عباس و حضرت علی و حضرت عباس و حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے مل جل کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو غسل دیا اور ناف مبارک اور پلکوں پر جو پانی کے قطرات اور تری جمع تھی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش محبت اور فرط عقیدت سے اس کو زبان سے چاٹ کر پی لیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۳۸ و ص۴۳۹)
غسل کے بعد تین سوتی کپڑوں کا جو ” سحول ” گاؤں کے بنے ہوئے تھے کفن بنایا گیا ان میں قمیص و عمامہ نہ تھا۔ (بخاری ج۱ ص۱۶۹ باب الثیاب البیض للکفن)
نماز جنازہ:۔
جنازہ تیار ہوا تو لوگ نماز جنازہ کے لئے ٹوٹ پڑے۔ پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ جنازہ مبارکہ حجرہ مقدسہ کے اندر ہی تھا۔ باری باری سے تھوڑے تھوڑے لوگ اندر جاتے تھے اور نماز پڑھ کر چلے آتے تھے لیکن کوئی امام نہ تھا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۴۰ و ابن ماجه ص۱۱۸ باب ذکر و فاتہ)
قبر انور:۔
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبر شریف تیار کی جو بغلی تھی۔ جسم اطہر کو حضرت علی و حضرت فضل بن عباس و حضرت عباس و حضرت قثم بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے قبر منور میں اتارا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۴۲)
لیکن ابو داؤد کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُسامہ اور عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی قبر میں اترے تھے۔(ابو داؤد ج۲ ص۴۵۸ باب کم یدخل القبر)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ اختلاف رونما ہوا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے کچھ لوگوں نے کہا کہ مسجد نبوی میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مدفن ہونا چاہیے اور کچھ نے یہ رائے دی کہ آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ ہر نبی اپنی وفات کے بعد اسی جگہ دفن کیا جاتا ہے جس جگہ اس کی وفات ہوئی ہو۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو سن کر لوگوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بچھونے کو اٹھایا اور اسی جگہ (حجرۂ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میں آپ کی قبر تیار کی اور آپ اسی میں مدفون ہوئے۔(ابن ماجه ص۱۱۸ باب ذکر و فاته)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غسل شریف اور تجہیز و تکفین کی سعادت میں حصہ لینے کے لئے ظاہر ہے کہ شمع نبوت کے پروانے کس قدر بے قرار رہے ہوں گے ؟ مگر جیسا کہ ہم تحریر کر چکے کہ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ہی یہ وصیت فرما دی تھی کہ میرے غسل اور تجہیز و تکفین میرے اہل بیت ہی کریں۔ پھر امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی بحیثیت امیر المؤمنین ہونے کے یہی حکم دیا کہ ” یہ اہل بیت ہی کا حق ہے ” اس لئے حضرت عباس اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کواڑ بند کر کے غسل دیا اور کفن پہنایا مگر شروع سے آخر تک خود حضرت امیر المؤمنین اور دوسرے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حجرہ مقدسہ کے باہر حاضر رہے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۳۷)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ترکہ:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی اس قدر زاہدانہ تھی کہ کچھ اپنے پاس رکھتے ہی نہیں تھے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات کے بعد کیا چھوڑا ہو گا ؟ چنانچہ حضرت عمرو بن الحارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ
مَا تَرَكَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهٖ دِرْهَمًا وَّ لَا دِيْنَارًا وَّ لَا عَبْدًا وَّ لَا اَمَةً وَّ لَا شَيْئًا اِلَّا بَغَلَتَهٗ الْبَيْضَاءَ وَ سِلَاحَهٗ وَ اَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ درہم و دینار چھوڑا نہ لونڈی و غلام نہ اور کچھ صرف اپنا سفید خچر اور ہتھیار اور کچھ زمین جو عام مسلمانوں پر صدقہ کر گئے چھوڑا تھا۔(بخاری ج۱ ص۳۸۲ کتاب الوصایا)
بہر حال پھر بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے متروکات میں تین چیزیں تھیں۔ (۱) بنو نضیر، فدک، خیبر کی زمینیں (۲) سواری کا جانور (۳) ہتھیار۔ یہ تینوں چیزیں قابل ذکر ہیں۔
زمین :۔
بنو نضرح، فدک، خیبر کی زمینوں کے باغات وغیرہ کی آمدنیاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے سال بھر کے اخراجات اور فقراء و مساکین اور عام مسلمانوں کی حاجات میں صرف فرماتے تھے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۴۴۵ و ابو داؤد ج۲ ص۴۱۲ باب فی صفایا رسول الله)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عباس اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بعض ازواج مطہرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہن چاہتی تھیں کہ ان جائیدادوں کو میراث کے طور پر وارثوں کے درمیان تقسیم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان لوگوں نے اس کی درخواست پیش کی مگر آپ اور حضرت عمر وغیرہ اکابر صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو یہ حدیث سنا دی کہ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ (ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ (باب فرض الخمس)
ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ مسلمانوں پر صدقہ ہے۔
اور اس حدیث کی روشنی میں صاف صاف کہہ دیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت کے بموجب یہ جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں۔ لہٰذا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی مقدس زندگی میں جن مدآت و مصارف میں ان کی آمدنیاں خرچ فرمایا کرتے تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے اصرار سے بنو نضیر کی جائیداد کا ان دونوں کو اس شرط پر متولی بنا دیا تھا کہ اس جائیداد کی آمدنیاں انہیں مصارف میں خرچ کرتے رہیں گے جن میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے۔ پھر ان دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی اور ان دونوں حضرات نے یہ خواہش ظاہر کی کہ بنو نضیر کی جائیداد تقسیم کر کے آدھی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تولیت میں دے دی جائے اور آدھی کے متولی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رہیں مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس درخواست کو نا منظور فرما دیا۔(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ باب فی وصایا رسول الله و بخاری ج۱ ص۴۳۶ باب فرض الخمس)
لیکن خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک خلفاء ہی کے ہاتھوں میں رہیں حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے اس کو اپنی جاگیر بنا لی تھی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پھر وہی عملدر آمد جاری کر دیا جو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دور خلافت میں تھا۔(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۷ باب فی وصایا رسول اﷲ مطبوعه نامی پریس)
سواری کے جانور:۔
زرقانی علی المواہب وغیرہ میں لکھا ہوا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملکیت میں سات گھوڑے، پانچ خچر، تین گدھے، دو اونٹنیاں تھیں۔ (زرقانی ج۳ ص۳۸۶ تا ص۳۹۱)
لیکن اس میں یہ تشریح نہیں ہے کہ بوقت وفات ان میں سے کتنے جانور موجود تھے کیونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے جانور دوسروں کو عطا فرماتے رہتے تھے۔ کچھ نئے خریدتے کچھ ہدایا اور نذرانوں میں ملتے بھی رہے۔
بہر حال روایات صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات اقدس کے وقت جو سواری کے جانور موجود تھے ان میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام ” لحیف ” تھا ایک سفید خچر تھا جس کا نام ” دلدل ” تھا یہ بہت ہی عمر دراز ہوا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہا اتنا بوڑھا ہو گیا تھا کہ اس کے تمام دانت گر گئے تھے اور آخر میں اندھا بھی ہو گیا تھا۔ ابن عساکر کی تاریخ میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی جنگ خوارج میں اس پر سوار ہوئے تھے۔(زرقانی ج۳ ص۳۸۹)
ایک عربی گدھا تھا جس کا نام ” عفیر ” تھا ایک اونٹنی تھی جس کا نام ” عضباء و قصواء ” تھا یہ وہی اونٹنی تھی جس کو بوقت ہجرت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے خریدا تھا اس اونٹنی پر آپ نے ہجرت فرمائی اور اس کی پشت پر حجۃ الوداع میں آپ نے عرفات و منیٰ کا خطبہ پڑھا تھا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
ہتھیار:۔
چونکہ جہاد کی ضرورت ہر وقت درپیش رہتی تھی اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسلحہ خانہ میں نو یا دس تلواریں، سات لوہے کی زر ہیں، چھ کمانیں، ایک تیر دان، ایک ڈھال، پانچ برچھیاں، دو مغفر، تین جبے، ایک سیاہ رنگ کا بڑا جھنڈا باقی سفید و زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے اور ایک خیمہ بھی تھا۔
ہتھیاروں میں تلواروں کے بارے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریر فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ یہ سب تلواریں بیک وقت جمع تھیں یا مختلف اوقات میں آپ کے پاس رہیں۔(مدارج النبوة ج۳ ص۵۹۵)
ظروف و مختلف سامان:.
ظروف اور برتنوں میں کئی پیالے تھے ایک شیشہ کا پیالہ بھی تھا۔ ایک پیالہ لکڑی کا تھا جو پھٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے شگاف کو بند کرنے کیلئے ایک چاندی کی زنجیر سے اس کو جکڑ دیا تھا۔(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی)
چمڑے کا ایک ڈول، ایک پرانی مشک، ایک پتھر کا تغار، ایک بڑا سا پیالہ جس کا نام ” السعہ ” تھا، ایک چمڑے کا تھیلا جس میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آئینہ، قینچی اور مسواک رکھتے تھے، ایک کنگھی، ایک سرمہ دانی، ایک بہت بڑا پیالہ جس کا نام ” الغراء ” تھا، صاع اور مد دو ناپنے کے پیمانے۔
ان کے علاوہ ایک چارپائی جس کے پائے سیاہ لکڑی کے تھے۔ یہ چارپائی حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدیۃً خدمت اقدس میں پیش کی تھی۔ بچھونا اور تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، مقدس جوتیاں، یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسباب و سامانوں کی ایک فہرست ہے جن کا تذکرہ احادیث میں متفرق طور پر آتا ہے۔
تبرکاتِ نبوت:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان متروکہ سامانوں کے علاوہ بعض یادگاری تبرکات بھی تھے جن کو عاشقانِ رسول فرطِ عقیدت سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ کئے ہوئے تھے اور ان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ موئے مبارک، نعلین شریفین اور ایک لکڑی کا پیالہ جو چاندی کے تاروں سے جوڑا ہوا تھا حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں آثار متبرکہ کو اپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا۔ (بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم الخ)
اسی طرح ایک موٹا کمبل حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا جن کو وہ بطور تبرک اپنے پاس رکھے ہوئے تھیں اور لوگوں کو اس کی زیارت کراتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت مبارکہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے ایک موٹا کمبل نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کمبل ہے جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک تلوار جس کا نام ” ذوالفقار ” تھا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی ان کے بعد ان کے خاندان میں رہی یہاں تک کہ یہ تلوار کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ اس کے بعد ان کے فرزند و جانشین حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یزیدبن معاویہ کے پاس سے رخصت ہو کر مدینہ تشریف لائے تو مشہور صحابی حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ کو کوئی حاجت ہو یا میرے لائق کوئی کار خدمت ہو تو آپ مجھے حکم دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے کوئی حاجت نہیں پھر حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ آپ کے پاس رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جو تلوار (ذوالفقار) ہے کیا آپ وہ مجھے عنایت فرما سکتے ہیں ؟ کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یزید کی قوم آپ پر غالب آ جائے اور یہ تبرک آپ کے ہاتھ سے جاتا رہے اور اگر آپ نے اس مقدس تلوار کو مجھے عطا فرما دیا تو خدا کی قسم ! جب تک میری ایک سانس باقی رہے گی ان لوگوں کی اس تلوار تک رسائی بھی نہیں ہو سکتی مگر حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس مقدس تلوار کو اپنے سے جدا کرنا گوارا نہیں فرمایا۔(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگوٹھی اور عصائے مبارک پر جانشین ہونے کی بنا پر خلفائے کرام حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے اپنے دور خلافت میں قابض رہے مگر انگوٹھی حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے کنوئیں میں گر کر ضائع ہو گئی۔ اس کنوئیں کا نام ” بیر اریس ” ہے جس کو لوگ ” بیر خاتم ” بھی کہتے ہیں۔(بخاری ج۲ ص۸۷۲ باب خاتم الفضه)
اسی قسم کے دوسرے اور بھی تبرکات نبویہ ہیں جو مختلف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس محفوظ تھے جن کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں جا بجا متفرق طور پر مذکور ہے اور ان مقدس تبرکات سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو اس قدر والہانہ محبت تھی کہ وہ ان کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔
اس قسم کے وفود اور نمائندگان قبائل مختلف زمانوں میں مدینہ منورہ آتے رہے مگر فتح مکہ کے بعد ناگہاں سارے عرب کے خیالات میں ایک عظیم تغیر واقع ہوگیا اور سب لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے کیونکہ اسلام کی حقانیت واضح اور ظاہر ہوجانے کے باوجود بہت سے قبائل محض قریش کے دباؤ اور اہل مکہ کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ فتح مکہ نے اس رکاوٹ کو بھی دور کردیا اور اب دعوتِ اسلام اور قرآن کے مقدس پیغام نے گھر گھر پہنچ کر اپنی حقانیت اور اعجازی تصرفات سے سب کے قلوب پر سکہ بٹھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ایک لمحہ کے لئے اسلام کا نام سننا اور مسلمانوں کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے آج پروانوں کی طرح شمع نبوت پر نثار ہونے لگے اور جوق در جوق بلکہ فوج در فوج حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں دور و دراز کے سفر طے کرتے ہوئے وفود کی شکل میں آنے لگے اور برضا و رغبت اسلام کے حلقہ بگوش بننے لگے چونکہ اس قسم کے وفود اکثر و بیشتر فتح مکہ کے بعد ۹ ھ میں مدینہ منورہ آئے اس لئے ۹ ھ کو لوگ “سنۃ الوفود” (نمائندہ کا سال) کہنے لگے۔
اس قسم کے وفود کی تعداد میں مصنفین سیرت کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ان وفود کی تعداد ساٹھ سے زیادہ بتائی ہے۔(مدارج ج ۲ ص ۳۵۸)
اور علامہ قسطلانی و حافظ ابن قیم نے اس قسم کے چودہ وفدوں کا تذکرہ کیا ہے ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں چند وفود کا تذکرہ کرتے ہیں۔
استقبالِ وفود :۔
حضور سید ِعالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم قبائل سے آنے والے وفدوں کے استقبال، اوران کی ملاقات کا خاص طور پر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ ہر وفد کے آنے پر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب تن فرما کر کا شانہ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں پھر ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے اور ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات کا خاص طور پرخیال فرماتے تھے اور ان مہمانوں سے ملاقات کے لئے مسجد نبوی میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے پھر ہر ایک وفد سے نہایت ہی خوش روئی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور ان کی حاجتوں اور حالتوں کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کو ضروری عقائد و احکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے اور ہر وفد کو ان کے درجات و مراتب کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ نقد یا سامان بھی تحائف اور انعامات کے طور پر عطا فرماتے۔
وفد ثقیف :۔
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِ حنین کے بعد طائف سے واپس تشریف لائے اور “جعرانہ” سے عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے ہی میں قبیلہ ثقیف کے سردار اعظم “عروہ بن مسعود ثقفی” رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر برضا و رغبت دامن اسلام میں آ گئے۔ یہ بہت ہی شاندار اور با وفا آدمی تھے اور ان کا کچھ تذکرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم تحریر کر چکے ہیں۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اب اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور یہ وہیں سے لوٹ کر اپنے قبیلہ میں گئے اور اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس علانیہ دعوت اسلام کو سن کر قبیلہ ثقیف کے لوگ غیظ و غضب میں بھر کر اس قدر طیش میں آ گئے کہ چاروں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کرنے لگے یہاں تک کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ان کو قتل تو کر دیا لیکن پھر یہ سوچا کہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اب ہم بھلا
اسلام کے خلاف کب تک اور کتنے لوگوں سے لڑتے رہیں گے ؟ پھر مسلمانوں کے انتقام اور ایک لمبی جنگ کے انجام کو سوچ کر دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنے ایک معزز رئیس عبدیالیل بن عمرو کو چند ممتاز سرداروں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔ اس وفد نے مدینہ پہنچ کر بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ ہم اس شرط پر اسلام قبول کرتے ہیں کہ تین سال تک ہمارے بت “لات” کو توڑا نہ جائے۔ آپ نے اس شرط کو قبول فرمانے سے صاف انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسلام کسی حال میں بھی بت پرستی کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بت تو ضرور توڑا جائے گا یہ اور بات ہے کہ تم لوگ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ توڑو بلکہ میں حضرت ابو سفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہما) کو بھیج دوں گا وہ اس بت کو توڑ ڈالیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور حضرت عثمان بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جو اس قوم کے ایک معزز اور ممتاز فرد تھے اس قبیلے کا امیر مقرر فرما دیا۔ اور ان لوگوں کے ساتھ حضرت ابو سفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو طائف بھیجا اور ان دونوں حضرات نے ان کے بت “لات” کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالا۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۶)
وفد کندہ :۔
یہ لوگ یمن کے اطراف میں رہتے تھے۔ اس قبیلے کے ستّر یا اسی سوار بڑے ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ مدینہ آئے۔ خوب بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اور ریشمی گونٹ کے جبے پہنے ہوئے، ہتھیاروں سے سجے ہوئے مدینہ کی آبادی میں داخل ہوئے۔ جب یہ لوگ دربار رسالت میں باریاب ہوئے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تم لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ سب نے عرض کیا کہ “جی ہاں” آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم لوگوں نے یہ ریشمی لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ یہ سنتے ہی ان لوگوں نے اپنے جبوں کو بدن سے اتار دیا اور ریشمی گونٹوں کو پھاڑ پھاڑ کر جبوں سے الگ کر دیا۔(مدارج ج۲ ص۳۶۶)
وفد بنی اشعر :۔
یہ لوگ یمن کے باشندے اور “قبیلہ اشعر” کے معزز اور نامور حضرات تھے۔ جب یہ لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے تو جوشِ محبت اور فرط عقیدت سے رجز کا یہ شعر آواز ملا کر پڑھتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے کہ
غَدًا نَلْقِي الْاَحِبَّة
مُحَمَّدًا وَّ حِزْبَ
کل ہم لوگ اپنے محبوبوں سے یعنی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ملاقات کریں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ یمن والے آ گئے۔ یہ لوگ بہت ہی نرم دل ہیں ایمان تو یمنیوں کا ایمان ہے اور حکمت بھی یمنیوں میں ہے۔ بکری پالنے والوں میں سکون و وقار ہے اور اونٹ پالنے والوں میں فخر اور گھمنڈ ہے۔ چنانچہ اس ارشاد نبوی کی برکت سے اہل یمن علم و صفائی قلب اور حکمت و معرفت الٰہی کی دولتوں سے ہمیشہ مالا مال رہے۔ خاص کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہ یہ نہایت ہی خوش آواز تھے اور قرآن شریف ایسی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ان کا کوئی ہم مثل نہ تھا۔ علم عقائد میں اہل سنت کے امام شیخ ابو الحسن اشعری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ انہی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۷)
وفد بنی اسد :۔
اس قبیلے کے چند اشخاص بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور نہایت ہی خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ لیکن پھر احسان جتانے کے طور پر کہنے لگے کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اتنے سخت قحط کے زمانے میں ہم لوگ بہت ہی دور دراز سے مسافت طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ راستے میں ہم لوگوں کو کہیں شکم سیر ہو کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوا اور بغیر اس کے کہ آپ کا لشکر ہم پر حملہ آور ہوا ہو ہم لوگوں نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان لوگوں کے اس احسان جتانے پر خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ط قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ج بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ(حجرات)
اے محبوب ! یہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوگئے۔ آپ فرما دیجئے کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اﷲ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔
وفد فزارہ :۔
یہ لوگ عیینہ بن حصن فزاری کی قوم کے لوگ تھے۔ بیس آدمی دربار اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے اسلام کا اعلان کیا اور بتایا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے دیار میں اتنا سخت قحط اور کال پڑ گیا ہے کہ اب فقر و فاقہ کی مصیبت ہمارے لئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بارش کے لئے دعا فرمائیے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن منبر پر دعا فرما دی اور فوراً ہی بارش ہونے لگی اور لگاتار ایک ہفتہ تک موسلادھار بارش کا سلسلہ جاری رہا پھر دوسرے جمعہ کو جب کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے ایک اعرابی نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) چوپائے ہلاک ہونے لگے اور بال بچے بھوک سے بلکنے لگے اور تمام راستے منقطع ہو گئے۔ لہٰذا دعا فرما دیجئے کہ یہ بارش پہاڑوں پر برسے اور کھیتوں بستیوں پر نہ بر سے۔ چنانچہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی تو بادل شہر مدینہ اور اس کے اطراف سے کٹ گیا اور آٹھ دن کے بعد مدینہ میں سورج نظر آیا۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۵۹)
وفد بنی مرہ :۔
اس وفد میں بنی مرہ کے تیرہ آدمی مدینہ آئے تھے۔ انکا سردار حارث بن عوف بھی اس وفد میں شامل تھا۔ ان سب لوگوں نے بارگاہ اقدس میں اسلام قبول کیا اور قحط کی شکایت اور باران رحمت کی دعا کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لفظوں کے ساتھ دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ اسْقِهِمُ الْغَيْثَ ( اے اﷲ ! ان لوگوں کو بارش سے سیراب فرما دے) پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ ان میں سے ہر شخص کو دس دس اوقیہ چاندی اور چار چار سو درہم انعام اور تحفہ کے طور پر عطا کریں۔ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے سردار حضرت حارث بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہ اوقیہ چاندی کا شاہانہ عطیہ مرحمت فرمایا۔
جب یہ لوگ مدینہ سے اپنے وطن پہنچے تو پتا چلا کہ ٹھیک اسی وقت ان کے شہروں میں بارش ہوئی تھی جس وقت سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی درخواست پر مدینہ میں بارش کے لئے دعا مانگی تھی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۰)
وفد بنی البکاء :۔
اس وفد کے ساتھ حضرت معاویہ بن ثور بن عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آئے تھے جو ایک سو برس کی عمر کے بوڑھے تھے۔ ان سب حضرات نے بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کیا پھر حضرت معاویہ بن ثور بن عباد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے فرزند حضرت بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پیش کیا اور یہ گزارش کی کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے اس بچے کے سر پر اپنا دست مبارک پھرا دیں۔ ان کی درخواست پر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے فرزند کے سر پر اپنا مقدس ہاتھ پھرا دیا۔ اور ان کو چند بکریاں بھی عطا فرمائیں۔ اور وفد والوں کے لئے خیر و برکت کی دعا فرما دی اس دعا ئے نبوی کا یہ اثر ہوا کہ ان لوگوں کے دیار میں جب بھی قحط اور فقر و فاقہ کی بلا آئی تو اس قوم کے گھر ہمیشہ قحط اور بھکمری کی مصیبتوں سے محفوظ رہے۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۰)
وفد بنی کنانہ :۔
اس وفد کے امیر کارواں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے۔ یہ سب لوگ دربار رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام میں نہایت ہی عقیدت مندی کے ساتھ حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے اور حضرت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیعت اسلام کر کے جب اپنے وطن میں پہنچے تو ان کے باپ نے ان سے ناراض و بیزار ہو کر کہہ دیا کہ میں خدا کی قسم ! تجھ سے کبھی کوئی بات نہ کروں گا۔ لیکن ان کی بہن نے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا۔ یہ اپنے باپ کی حرکت سے رنجیدہ اور دل شکستہ ہو کر پھر مدینہ منورہ چلے آئے اور جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور پھر اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جماعت میں شامل ہو کر حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کرنے لگے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد یہ بصرہ چلے گئے۔ پھر آخر عمر میں شام گئے اور ۸۵ ھ میں شہر دمشق کے اندر وفات پائی۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۰)
وفد بنی ہلال :۔
اس وفد کے لوگوں نے بھی دربار نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اس وفد میں حضرت زیاد بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے یہ مسلمان ہو کر دندناتے ہوئے حضرت ام المؤمنین بی بی میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے کیونکہ وہ ان کی خالہ تھیں۔
یہ اطمینان کے ساتھ اپنی خالہ کے پاس بیٹھے ہوئے گفتگو میں مصروف تھے جب رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکان میں تشریف لائے اور یہ پتا چلا کہ حضرت زیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ام المؤمنین کے بھانجے ہیں تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت ان کے سر اور چہرہ پر اپنا نورانی ہاتھ پھیر دیا۔ اس دست مبارک کی نورانیت سے حضرت زیاد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا چہرہ اس قدر پر نور ہو گیا کہ قبیلہ بنی ہلال کے لوگوں کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم لوگ حضرت زیاد بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چہرہ پر ہمیشہ ایک نور اور برکت کا اثر دیکھتے رہے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۰)
وفد ضمام بن ثعلبہ :۔
یہ قبیلہ سعد بن بکر کے نمائندہ بن کر بارگاہ رسالت میں آئے۔ یہ بہت ہی خوبصورت سرخ و سفید رنگ کے گیسو دراز آدمی تھے۔ مسجد نبوی میں پہنچ کر اپنے اونٹ کو بٹھا کر باندھ دیا پھر لوگوں سے پوچھا کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کون ہیں ؟
لوگوں نے دور سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گورے رنگ کے خوبصورت آدمی جو تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں وہی حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سامنے آئے اور کہا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند ! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا اور میں اپنے سوال میں بہت زیادہ مبالغہ اور سختی برتوں گا۔ آپ اس سے مجھ پر خفا نہ ہوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جو چاہو پوچھ لو۔ پھر حسب ذیل مکالمہ ہوا۔
میں آپکو اس خدا کی قسم دے کر جو آپکا اور تمام انسانوں کا پروردگار ہے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اﷲ نے آپ کو ہماری طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ | ضمام بن ثعلبہ : |
ہاں | نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
میں آپ کو خدا کی قسم دے کر یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کو اﷲ نے ہم لوگوں پر فرض کیا ہے ؟ | ضمام بن ثعلبہ : |
ہاں | نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : |
آپ نے جو کچھ فرمایا میں اس پر ایمان لایا اور میں ضمام بن ثعلبہ ہوں۔ میری قوم نے مجھے اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ کے دین کو اچھی طرح سمجھ کر اپنی قوم بنی سعد بن بکر تک اسلام کا پیغام پہنچا دوں۔ | ضمام بن ثعلبہ : |
حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو کر اپنے وطن میں پہنچے اور ساری قوم کو جمع کر کے سب سے پہلے اپنی قوم کے تمام بتوں یعنی “لات و عزیٰ” اور “منات و ہبل ” کو برا بھلا کہنے لگے اور خوب خوب ان بتوں کی توہین کرنے لگے۔ ان کی قوم نے جو اپنے بتوں کی توہین سنی تو ایک دم سب چونک پڑے اور کہنے لگے کہ اے ثعلبہ کے بیٹے ! تو کیا کہہ رہا ہے ؟ خاموش ہو جا ورنہ ہم کو یہ ڈر ہے کہ ہمارے یہ دیوتا تجھ کو برص اور کوڑھ اور جنون میں مبتلا کر دیں گے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے اور تڑپ کر فرمایا کہ اے بے عقل انسانوں ! یہ پتھر کے بت بھلا ہم کو کیا نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ سنو ! اﷲ تعالیٰ جو ہر نفع و نقصان کا مالک ہے اس نے اپنا ایک رسول بھیجا ہے اور ایک کتاب نازل فرمائی ہے تا کہ تم انسانوں کو اس گمراہی اور جہالت سے نجات عطا فرمائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں۔ میں اﷲ کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام کا پیغام تم لوگوں کے پاس لایا ہوں، پھر انہوں نے اعمال اسلام یعنی نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کو ان لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اسلام کی حقانیت پر ایسی پرجوش اور موثر تقریر فرمائی کہ رات بھر میں قبیلے کے تمام مرد و عورت مسلمان ہو گئے اور ان لوگوں نے اپنے بتوں کو توڑ پھوڑ کر پاش پاش کر ڈالا اور اپنے قبیلہ میں ایک مسجد بنا لی اور نماز و روزہ اور حج و زکوٰۃ کے پابند ہو کر صادق الایمان مسلمان بن گئے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۴)
وفدَ بلی :۔
یہ لوگ جب مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت ابو رویفع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو پہلے ہی سے مسلمان ہو کر خدمت اقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے اس وفد کا تعارف کراتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ لوگ میری قوم کے افراد ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو اور تمہاری قوم کو ” خوش آمدید ” کہتا ہوں۔ پھر حضرت ابو رویفع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) یہ سب لوگ اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی پوری قوم کے مسلمان ہونے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو اسلام کی ہدایت دیتا ہے۔
اس وفد میں ایک بہت ہی بوڑھا آدمی بھی تھا۔ جس کا نام “ابو الضیف” تھا اس نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ مجھے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بہت زیادہ شوق ہے تو کیا اس مہمان نوازی کا مجھے کچھ ثواب بھی ملے گا ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان ہونے کے بعد جس مہمان کی بھی مہمان نوازی کرو گے خواہ وہ امیر ہو یا فقیر تم ثواب کے حق دار ٹھہرو گے۔ پھر ابو الضیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ پوچھا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مہمان کتنے دنوں تک مہمان نوازی کا حق دار ہے ؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن تک اس کے بعد وہ جو کھائے گا وہ صدقہ ہوگا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۴)
وفد تُجیب :۔
یہ تیرہ آدمیوں کا ایک وفد تھا جو اپنے مالوں اور مویشیوں کی زکوٰۃ لے کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید کہہ کر ان لوگوں کا استقبال فرمایا۔ اور یہ ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنے اس مال زکوٰۃ کو اپنے وطن میں لے جاؤ اور وہاں کے فقرا و مساکین کو یہ سارا مال دے دو۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہم اپنے وطن کے فقراء و مساکین کو اس قدر مال دے چکے ہیں کہ یہ مال ان کی حاجتوں سے زیادہ ہمارے پاس بچ رہا ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی اس زکوٰۃ کو قبول فرما لیا اور ان لوگوں پر بہت زیادہ کرم فرماتے ہوئے ان خوش نصیبوں کی خوب خوب مہمان نوازی فرمائی اور بوقت رخصت ان لوگوں کو اکرام و انعام سے بھی نوازا۔ پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہاری قوم میں کوئی ایسا شخص باقی رہ گیا ہے ؟ جس نے میرا دیدار نہیں کیا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ جی ہاں۔ ایک نوجوان کو ہم اپنے وطن میں چھوڑ آئے ہیں جو ہمارے گھروں کی حفاظت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس نوجوان کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے وطن پہنچ کر اس نوجوان کو مدینہ طیبہ روانہ کر دیا۔ جب وہ نوجوان بارگاہ عالی میں باریاب ہوا تو اس نے یہ گزارش کی کہ یاسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے میری قوم کی حاجتوں کو تو پوری فرما کر انہیں وطن میں بھیج دیا اب میں بھی ایک حاجت لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آپ میری حاجت بھی پوری فرما دیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہاری کیا حاجت ہے ؟ اس نے کہا کہ یا رسول اﷲ ! ( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اپنے گھر سے یہ مقصد لے کر نہیں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کچھ مال عطا فرمائیں بلکہ میری فقط اتنی حاجت اور دلی تمنا ہے جس کو دل میں لے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے بخش دے اور مجھ پر اپنا رحم فرمائے اور میرے دل میں بے نیازی اور استغناء کی دولت پیدا فرما دے۔ نوجوان کی اس دلی مراد اور تمنا کو سن کر محبوبِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور اس کے حق میں ان لفظوں کے ساتھ دعا فرمائی کہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَهٗ وَ ارْحَمْهُ وَ اجْعَلْ غِنَاهُ فِيْ قَلْبِهٖ اے اﷲ ! عزوجل اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اس کے دل میں بے نیازی ڈال دے۔
پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس نوجوان کو اس کی قوم کا امیر مقرر فرما دیا اور یہی نوجوان اپنے قبیلے کی مسجد کا امام ہو گیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۴)
وفد مزینہ :۔
اس وفد کے سربراہ حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کے چار سو آدمی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے لگے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر ! تم ان لوگوں کو کچھ تحفہ عنایت کرو۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میرے گھر میں بہت ہی تھوڑی سی کھجوریں ہیں۔ یہ لوگ اتنے قلیل تحفہ سے شاید خوش نہ ہوں
گے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پھر یہی ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! جاؤ ان لوگوں کو ضرور کچھ تحفہ عطا کرو۔ ارشادِ نبوی سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار سو آدمیوں کو ہمراہ لے کر مکان پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مکان میں کھجوروں کا ایک بہت ہی بڑا تودہ پڑا ہوا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفد کے لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ جتنی اور جس قدر چاہو ان کھجوروں میں سے لے لو۔ ان لوگوں نے اپنی حاجت اور مرضی کے مطابق کھجوریں لے لیں۔ حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سب سے آخر میں جب میں کھجوریں لینے کے لئے مکان میں داخل ہوا تو مجھے ایسا نظر آیا کہ گویا اس ڈھیر میں سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی ہے۔
یہ وہی حضرت نعمان بن مقرن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں، جو فتح مکہ کے دن قبیلہ مزینہ کے علم بردار تھے یہ اپنے سات بھائیوں کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کچھ گھر تو ایمان کے ہیں اور کچھ گھر نفاق کے ہیں اور آل مقرن کا گھر ایمان کا گھر ہے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۷)
وفد دوس :۔
اس وفد کے قائد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھے یہ ہجرت سے قبل ہی اسلام قبول کر چکے تھے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا ہی عجیب ہے یہ ایک بڑے ہوش مند اور شعلہ بیان شاعر تھے۔ یہ کسی ضرورت سے مکہ آئے تو کفار قریش نے ان سے کہہ دیا کہ خبردار تم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) سے نہ ملنا اور ہر گز ہر گز ان کی بات نہ سننا۔ ان کے کلام میں ایسا جادو ہے کہ جو سن لیتا ہے وہ اپنا دین و مذہب چھوڑ بیٹھتا ہے اور عزیز و اقارب سے اس کا رشتہ کٹ جاتا ہے۔ یہ کفار مکہ کے فریب میں آ گئے اور اپنے کانوں میں انہوں نے روئی بھر لی کہ کہیں قرآن کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے۔ لیکن ایک دن صبح کو یہ حرم کعبہ میں گئے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فجر کی نماز میں قراءت فرما رہے تھے ایک دم قرآن کی آواز جو ان کے کان میں پڑی تو یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر حیران رہ گئے اور کتابِ الٰہی کی عظمت اور اس کی تاثیر ربانی نے ان کے دل کو موہ لیا۔ جب حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا شانہ نبوت کو چلے تو یہ بے تابانہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور مکان میں آ کر آپ کے سامنے مودبانہ بیٹھ گئے اور اپنا اور قریش کی بدگوئیوں کا سارا حال سنا کر عرض کیا کہ خدا کی قسم ! میں نے قرآن سے بڑھ کر فصیح و بلیغ آج تک کوئی کلام نہیں سنا۔ ﷲ ! مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام کے چند احکام ان کے سامنے بیان فرما کر ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
پھر انہوں نے درخواست کی یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی علامت و کرامت عطا فرمائیے کہ جس کو دیکھ کر لوگ میری باتوں کی تصدیق کریں تا کہ میں اپنی قوم میں یہاں سے جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرما دی کہ الٰہی ! تو ان کو ایک خاص قسم کا نور عطا فرما دے۔ چنانچہ اس دعاء نبوی کی بدولت ان کو یہ کرامت عطا ہوئی کہ ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کے مانند ایک نور چمکنے لگا۔ مگر انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ یہ نور میرے سر میں منتقل ہو جائے۔ چنانچہ ان کا سر قندیل کی طرح چمکنے لگا۔ جب یہ اپنے قبیلہ میں پہنچے اور اسلام کی دعوت دینے لگے تو ان کے ماں باپ اور بیوی نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کی قوم مسلمان نہیں ہوئی بلکہ اسلام کی مخالفت پر تل گئی۔ یہ اپنی قوم کے اسلام سے مایوس ہو کر پھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں چلے گئے اور اپنی قوم کی سرکشی اور سرتابی کا سارا حال بیان کیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پھر اپنی قوم میں چلے جاؤ اور نرمی کے ساتھ ان کو خدا کی طرف بلاتے رہو۔ چنانچہ یہ پھر اپنی قوم میں آ گئے اور لگاتار اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی گھرانوں میں اسلام کی روشنی پھیل گئی اور یہ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر خیبر میں تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خوش ہو کر خیبر کے مال غنیمت میں سے ان سب لوگوں کو حصہ عطا فرمایا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۷۰)
وفد بنی عبس :۔
قبیلہ بنی عبس کے وفد نے دربار اقدس میں جب حاضری دی تو یہ عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ہمارے مبلغین نے ہم کو خبر دی ہے کہ جو ہجرت نہ کرے اس کا اسلام مقبول ہی نہیں ہے تو یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر آپ حکم دیں تو ہم اپنے سارے مال و متاع اور مویشیوں کو بیچ کر ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں۔ یہ سن کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کے لئے ہجرت ضروری نہیں۔ ہاں ! یہ ضروری ہے کہ تم جہاں بھی رہو خدا سے ڈرتے رہو اور زہد و تقویٰ کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہو۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۷۰)
وفد دارم :۔
یہ وفد دس آدمیوں کا ایک گروہ تھا جن کا تعلق قبیلہ ” لخم ” سے تھا اور ان کے سربراہ اور پیشوا کا نام ” ہانی بن حبیب ” تھا۔ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے تحفے میں چند گھوڑے اور ایک ریشمی جبہ اور ایک مشک شراب اپنے وطن سے لے کر آئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے گھوڑوں اور جبہ کے تحائف کو تو قبول فرما لیا لیکن شراب کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اﷲ تعالیٰ نے شراب کو حرام فرما دیا ہے۔ ہانی بن حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اگر اجازت ہو تو میں اس شراب کو بیچ ڈالوں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس خدا نے شراب کے پینے کو حرام فرمایا ہے اسی نے اس کی خرید و فروخت کو بھی حرام ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا تم شراب کی اس مشک کو لے جا کر کہیں زمین پر اس شراب کو بہا دو۔
ریشمی جبہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اس کو لے کر کیا کروں گا ؟ جب کہ مردوں کے لئے اس کا پہننا ہی حرام ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں جس قدر سونا ہے آپ اس کو اس میں سے جدا کر لیجئے اور اپنی بیویوں کے لئے زیورات بنوا لیجئے اور ریشمی کپڑے کو فروخت کر کے اس کی قیمت کو اپنے استعمال میں لائیے۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس جبہ کو آٹھ ہزار درہم میں بیچا۔ یہ وفد بھی بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر نہایت خوش دلی کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۶۵)
وفد غامد :۔
یہ دس آدمیوں کی جماعت تھی جو ۱۰ ھ میں مدینہ آئے اور اپنی منزل میں سامانوں کی حفاظت کے لئے ایک جوان لڑکے کو چھوڑ دیا۔ وہ سو گیا اتنے میں ایک چور آیا اور ایک بیگ چرا کر لے بھاگا۔ یہ لوگ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ ناگہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کا ایک بیگ چور لے گیا مگر پھر تمہارے جوان نے اس بیگ کو پا لیا۔ جب یہ لوگ بارگاہ اقدس سے اٹھ کر اپنی منزل پر پہنچے تو ان کے جوان نے بتایا کہ میں سو رہا تھا کہ ایک چور بیگ لے کر بھاگا مگر میں بیدار ہونے کے بعد جب اس کی تلاش میں نکلا تو ایک شخص کو دیکھا وہ مجھ کو دیکھتے ہی فرار ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں کی زمین کھودی ہوئی ہے جب میں نے مٹی ہٹا کر دیکھا تو بیگ وہاں دفن تھا میں اس کو نکال کر لے آیا۔ یہ سن کر سب بول پڑے کہ بلا شبہ یہ رسول برحق ہیں اور ہم کو انہوں نے اسی لئے اس واقعہ کی خبر دیدی تاکہ ہم لوگ ان کی تصدیق کر لیں۔ ان سب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس جوان نے بھی دربار رسول میں حاضر ہو کر کلمہ پڑھا اور اسلام کے دامن میں آ گیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت اُبی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ جتنے دنوں ان لوگوں کا مدینہ میں قیام رہے تم ان لوگوں کو قرآن پڑھنا سکھا دو۔(مدارج النبوة ج۲ ص۳۷۴)
وفد نجرانّ :۔
یہ نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا۔ اس میں ساٹھ سوار تھے۔ چوبیس ان کے شرفا اور معززین تھے اور تین اشخاص اس درجہ کے تھے کہ انہیں کے ہاتھوں میں نجران کے نصاریٰ کا مذہبی اور قومی سارا نظام تھا۔ ایک عاقب جس کا نام ” عبدالمسیح ” تھا دوسرا شخص سید جس کا نام ” ایہم ” تھا تیسرا شخص ” ابو حارثہ بن علقمہ ” تھا۔ ان لوگوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بہت سے سوالات کئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے جوابات دیئے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ پر گفتگو چھڑ گئی۔ ان لوگوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنواری مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس کو ” آیت مباہلہ ” کہتے ہیں کہ
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰي عِنْدَ اللهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَکُوْنُ ﴿۵۹﴾ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ ﴿۶۰﴾ فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْ ۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ۟ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَي الْکٰذِبِيْنَ ﴿۶۱﴾(آل عمران)
بیشک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) کی مثال اﷲ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے انکو مٹی سے بنایا پھر فرمایا “و جا ” وہ فوراً ہو جاتا ہے (اے سننے والے) یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تم شک والوں میں سے نہ ہونا پھر (اے محبوب) جو تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اسکے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کو پھر ہم گڑ گڑا کر دعا مانگیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب ان لوگوں کو اس مباہلہ کی دعوت دی تو ان نصرانیوں نے رات بھر کی مہلت مانگی۔ صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت علی، حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے کاشانہ نبوت سے نکل پڑے مگر نجران کے نصرانیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور جزیہ دینے کا اقرار کر کے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کر لی۔ (تفسير جلالين وغيره)
ہجرت کا دسواں سال
حجۃ الوداع :۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آخر ذوقعدہ میں جمعرات کے دن مدینہ میں غسل فرما کر تہبند اور چادر زیب تن فرمایا اور نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا فرما کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو بھی ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ مدینہ منورہ سے چھ میل دور اہل مدینہ کی میقات ” ذوالحلیفہ ” پر پہنچ کر رات بھر قیام فرمایا پھر احرام کے لئے غسل فرمایا اور حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اپنے ہاتھ سے جسم اطہر پر خوشبو لگائی پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اپنی اونٹنی “قصواء” پر سوار ہو کر احرام باندھا اور بلند آواز سے ” لبیک ” پڑھا اور روانہ ہوگئے۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو آگے پیچھے دائیں بائیں حدِ نگاہ تک آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ بیہقی کی روایت ہے کہ ایک لاکھ چودہ ہزار اور دوسری روایتوں میں ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمان حجۃ الوداع میں آپ کے ساتھ تھے۔(زرقانی ج۳ ص۱۰۶ و مدارج ج۲ ص۳۸۷)
چوتھی ذوالحجہ کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپ کے خاندان بنی ہاشم کے لڑکوں نے تشریف آوری کی خبر سنی تو خوشی سے دوڑ پڑے اور آپ نے نہایت ہی محبت و پیار کے ساتھ کسی کو آگے کسی کو پیچھے اپنی اونٹنی پر بٹھا لیا۔(نسائی باب استقبال الحاج ج۲ ص۲۶ مطبوعه رحیمیه)
فجر کی نماز آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام ” ذی طویٰ ” میں ادا فرمائی اور غسل فرمایا پھر آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور چاشت کے وقت یعنی جب آفتاب بلند ہو چکا تھا تو آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ جب کعبہ معظمہ پر نگاہ مہر نبوت پڑی تو آپ نے یہ دعا پڑھی کہ
اَللّٰهُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَ مِنْكَ السَّلَامُ حَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ اَللّٰهُمَّ زِدْ هٰذَا الْبَيْتَ تَشْرِيْفًا وَّ تَعْظِيْمًا وَّ تَکْرِيْمًا وَّ مَهَابَةً وَّ زِدْ مَنْ حَجَّهٗ وَ اعْتَمَرَهٗ تَکْرِيْمًا وَّ تَشْرِيْفًا وَّ تَعْظِيْمًا
اے اﷲ ! عزوجل تو سلامتی دینے والا ہے اور تیری طرف سے سلامتی ہے۔ اے رب ! عزوجل ہمیں سلامتی کے سا تھ زندہ رکھ۔ اے اﷲ ! عزوجل اس گھر کی عظمت و شرف اور عزت و ہیبت کو زیادہ کر اور جو اس گھر کا حج اور عمرہ کرے تو اس کی بزرگی اور شرف و عظمت کو زیادہ کر۔
جب حجر اسود کے سامنے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر اس کو بوسہ دیا پھر خانہ کعبہ کا طواف فرمایا۔ شروع کے تین پھیروں میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ” رمل ” کیا اور باقی چار چکروں میں معمولی چال سے چلے ہر چکر میں جب حجر اسود کے سامنے پہنچتے تو اپنی چھڑی سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرکے چھڑی کو چوم لیتے تھے۔ حجر اسود کا استلام کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چھڑی کے ذریعہ سے کیا کبھی ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو چوم لیا کبھی لب مبارک کو حجر اسود پر رکھ کر بوسہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ کبھی رُکن یمانی کا بھی آپ نے استلام کیا۔(نسائی ج۲ ص۳۰ و ص۳۱)
جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی نماز سے فارغ ہو کر پھر حجر اسود کا استلام فرمایا اور سامنے کے دروازہ سے صفا کی جانب روانہ ہوئے قریب پہنچے تو اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ
بے شک صفا اور مروہ اﷲ کے دین کے نشانوں میں سے ہیں۔
پھر صفا اور مروہ کی سعی فرمائی اور چونکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے جانور تھے اس لئے عمرہ ادا کرنے کے بعد آپ نے احرام نہیں اتارا۔
آٹھویں ذوالحجہ جمعرات کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منیٰ تشریف لے گئے اور پانچ نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء، فجر، منیٰ میں ادا فرما کر نویں ذوالحجہ جمعہ کے دن آپ عرفات میں تشریف لے گئے۔
زمانہ جاہلیت میں چونکہ قریش اپنے کو سارے عرب میں افضل و اعلیٰ شمار کرتے تھے اس لئے وہ عرفات کی بجائے ” مزدلفہ ” میں قیام کرتے تھے اور دوسرے تمام عرب ” عرفات ” میں ٹھہرتے تھے لیکن اسلامی مساوات نے قریش کے لئے اس تخصیص کو گوارا نہیں کیا اور اﷲ عزوجل نے یہ حکم دیا کہ
ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ
(اے قریش) تم بھی وہیں (عرفات) سے پلٹ کر آؤ جہاں سے سب لوگ پلٹ کر آتے ہیں۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرفات پہنچ کر ایک کمبل کے خیمہ میں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی ” قصواء ” پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ میں آپ نے بہت سے ضروری احکامِ اسلام کا اعلان فرمایا اور زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں اور بیہودہ رسموں کو آپ نے مٹاتے ہوئے اعلان فرمایا کہ اَلَا کُلُّ شَيْئٍ مِّنْ اَمْرِالْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوْعٌ سن لو ! جاہلیت کے تمام دستور میرے دونوں قدموں کے نیچے پامال ہیں۔(ابو داؤد ج۱ ص۲۶۳ و مسلم ج۱ ص۳۹۷ باب حجة النبی)
اسی طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخر اور رنگ و نسل کی برتری اور قومیت میں نیچ اونچ وغیرہ تصورات جاہلیت کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اور مساوات اسلام کا عَلَم بلند فرماتے ہوئے تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اس تاریخی خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ
یَااَيُّهَا النَّاسُ اَلَا اِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاكُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰي أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلٰي عَرَبِيٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰي اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰي اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰي (مسند امام احمد)
اے لوگو ! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ سن لو ! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔
اسی طرح تمام دنیا میں امن و امان قائم فرمانے کے لئے امن و سلامتی کے شہنشاہ تاجدار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ خدائی فرمان جاری فرمایا کہ
فَاِنَّ دِمَائَكُمْ وَ اَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا فِيْ شَهْرِكُمْ هٰذَا فِيْ بَلَدِكُمْ هٰذَا اِلٰي يَوْمٍ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ
تمہارا خون اور تمہارا مال تم پر تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارا یہ مہینہ، تمہارا یہ شہر محترم ہے۔(بخاری و مسلم و ابو داؤد)
اپنا خطبہ ختم فرماتے ہوئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سامعین سے فرمایا کہ وَ اَنْتُمْ مَسْئُوْلُوْنَ عَنِّيْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ تم سے خدا عزوجل کے یہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم لوگ کیا جواب دو گے ؟
تمام سامعین نے کہا کہ ہم لوگ خدا سے کہہ دیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور رسالت کا حق ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا کہ اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ اے اﷲ ! تو گواہ رہنا۔( ابو داؤد ج۱ ص۲۶۳ باب صفة حج النبی)
عین اسی حالت میں جب کہ خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا فرض رسالت ادا فرما رہے تھے یہ آیت نازل ہوئی کہ
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنـًا ط
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔
شہنشاہِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا تخت شاہی :۔
یہ حیرت انگیز و عبرت خیز واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت شہنشاہ کونین، خدا عزوجل کے نائب اکرم اور خلیفہ اعظم ہونے کی حیثیت سے فرمان ربانی کا اعلان فرما رہے تھے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تخت ِ شہنشاہی یعنی اونٹنی کا کجاوہ اور عرق گیر شاید دس روپے سے زیادہ قیمت کا نہ تھا نہ اس اونٹنی پر کوئی شاندار کجاوہ تھا نہ کوئی ہودج نہ کوئی محمل نہ کوئی چتر نہ کوئی تاج ۔
کیا تاریخ عالم میں کسی اور بادشاہ نے بھی ایسی سادگی کا نمونہ پیش کیا ہے ؟ اس کا جواب یہی اور فقط یہی ہے کہ ” نہیں۔ “
یہ وہ زاہدانہ شہنشاہی ہے جو صرف شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شہنشاہیت کا طرئہ امتیاز ہے !
خطبہ کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظہر و عصر ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی پھر ” موقف ” میں تشریف لے گئے اور جبل رحمت کے نیچے غروبِ آفتاب تک دعاؤں میں مصروف رہے۔ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے ایک لاکھ سے زائد حجاج کے ازدحام میں ” مزدلفہ ” پہنچے۔ یہاں پہلے مغرب پھر عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی۔ مشعرِ حرام کے پاس رات بھر امت کے لئے دعائیں مانگتے رہے اور سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہو گئے اور وادی محسر کے راستہ سے منیٰ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ” جمرہ ” کے پاس تشریف لائے اور کنکریاں ماریں پھر آپ نے بآواز بلند فرمایا کہ
لِتَاخُذُوْا مَنَاسِكَكُمْ فَاِنِّيْ لَا اَدْرِيْ لَعَلِّيْ لَا اَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِيْ هٰذِهٖ
حج کے مسائل سیکھ لو ! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد میں دوسرا حج نہ کروں گا۔ (مسلم ج۱ ص۴۱۹ باب رمی جمرة العقبه)
منیٰ میں بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا جس میں عرفات کے خطبہ کی طرح بہت سے مسائل و احکام کا اعلان فرمایا۔ پھر قربان گاہ میں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ایک سو اونٹ تھے کچھ کو تو آپ نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور باقی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا اور گوشت، پوست، جھول، نکیل سب کو خیرات کر دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ قصاب کی مزدوری بھی اس میں سے نہ ادا کی جائے بلکہ الگ سے دی جائے۔
موئے مبارک:۔
قربانی کے بعد حضرت معمر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سر کے بال اتروائے اور کچھ حصہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا اور باقی موئے مبارک کو مسلمانوں میں تقسیم کر دینے کا حکم صادر فرمایا۔ (مسلم ج۱ ص۴۲۱ باب بیان ان السنۃ یوم النحر الخ)
اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور طوافِ زیارت فرمایا۔
ساقی کوثر چاہ زمزم پر:۔
پھر چاہ زمزم کے پاس تشریف لائے خاندان عبدالمطلب کے لوگ حاجیوں کو زمزم پلا رہے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ مجھ کو ایسا کرتے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تمہارے ہاتھ سے ڈول چھین کر خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پینے لگیں گے تو میں خود اپنے ہاتھ سے پانی بھر کر پیتا۔ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے زمزم شریف پیش کیا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کھڑے کھڑے زمزم شریف نوش فرمایا۔ پھر منیٰ واپس تشریف لے گئے اور بارہ ذوالحجہ تک منیٰ میں مقیم رہے اور ہر روز سورج ڈھلنے کے بعد جمروں کو کنکری مارتے رہے۔ تیرہ ذوالحجہ منگل کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورج ڈھلنے کے بعد منیٰ سے روانہ ہو کر ” محصب ” میں رات بھر قیام فرمایا اور صبح کو نماز فجر کعبہ کی مسجد میں ادا فرمائی اور طواف وداع کر کے انصار و مہاجرین کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہو گئے۔
غدیر خم کاخطبہ:۔
راستہ میں مقام ” غدیر خم ” پر جو ایک تالاب ہے یہاں تمام ہمراہیوں کو جمع فرما کر ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :
حمد و ثنا کے بعد : اے لوگو ! میں بھی ایک آدمی ہوں ممکن ہے کہ خداعزوجل کا فرشتہ(ملک الموت) جلد آ جائے اور مجھے اس کا پیغام قبول کرنا پڑے میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں۔ ایک خدا عزوجل کی کتاب جس میں ہدایت اور روشنی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا عزوجل کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم ج۱ ص۲۷۹ باب من فضائل علي)
اس خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَايُ اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ (مشکوٰۃ ص۵۶۵ مناقب علي)
جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکے مولیٰ، خداوندا ! عزوجل جو علی سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے تو بھی عداوت رکھ۔
غدیر خم کے خطبہ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کی کوئی تصریح کہیں حدیثوں میں نہیں ملتی۔ ہاں البتہ بخاری کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے اختیار سے کوئی ایسا کام کر ڈالا تھا جس کو ان کے یمن سے آنے والے ہمراہیوں نے پسند نہیں کیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے بارگاہ رسالت میں اس کی شکایت بھی کر دی جس کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ علی کو اس سے زیادہ کا حق ہے۔ ممکن ہے اسی قسم کے شبہات و شکوک کو مسلمان یمنیوں کے دِلوں سے دور کرنے کے لئے اس موقع پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت علی اور اہل بیت رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے فضائل بھی بیان کر دیئے ہوں۔(بخاری باب بعث علي الي اليمن ج۲ ص۲۲۳ و ترمذی مناقب علي)
روافض کا ایک شبہ :۔
بعض شیعہ صاحبان نے اس موقع پر لکھا ہے کہ ” غدیر خم ” کاخطبہ یہ ” حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل کا اعلان تھا ” مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ یہ محض ایک ” تک بندی ” کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ اگر واقعی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے خلافت بلا فصل کا اعلان کرنا تھا تو عرفات یا منیٰ کے خطبوں میں یہ اعلان زیادہ مناسب تھا جہاں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا اجتماع تھا نہ کہ غدیر خم پر جہاں یمن اور مدینہ والوں کے سوا کوئی بھی نہ تھا۔
مدینہ کے قریب پہنچ کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقام ذوالحلیفہ میں رات بسر فرمائی اور صبح کو مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا۔
ہجرت کا گیارہواں سال
جیش اُسامہ:۔
اُغْزُ بِسْمِ اللهِ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَقَاتِلْ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ
اﷲ کے نام سے اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرو اور کافروں کیساتھ جنگ کرو۔
حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت بریدہ بن الحضیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو علمبردار بنایا اور مدینہ سے نکل کر ایک کوس دور مقام ” جرف ” میں پڑاؤ کیا تا کہ وہاں پورا لشکر جمع ہو جائے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے تمام معززین کو بھی اس لشکر میں شامل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ بعض لوگوں پر یہ شاق گزرا کہ ایسا لشکر جس میں انصار و مہاجرین کے اکابر و عمائد موجود ہیں ایک نو عمر لڑکا جس کی عمر بیس برس سے زائد نہیں کس طرح امیر لشکر بنا دیا گیا ؟ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس اعتراض کی خبر ملی تو آپ کے قلب نازک پر صدمہ گزرا اور آپ نے علالت کے باوجود سر میں پٹی باندھے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر منبر پر ایک خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں نے اُسامہ کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کی ہے تو تم لوگوں نے اس سے قبل اس کے باپ کے سپہ سالار ہونے پر بھی طعنہ زنی کی تھی حالانکہ خدا کی قسم ! اس کا باپ (زید بن حارثہ) سپہ سالار ہونے کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا (اُسامہ بن زید) بھی سپہ سالار ہونے کے قابل ہے اور یہ میرے نزدیک میرے محبوب ترین صحابہ میں سے ہے جیسا کہ اس کا باپ میرے محبوب ترین اصحاب میں سے تھا لہٰذا اُسامہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کے بارے میں تم لوگ میری نیک وصیت کو قبول کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ خطبہ دے کر مکان میں تشریف لے گئے اور آپ کی علالت میں کچھ اور بھی اضافہ ہو گیا۔
حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حکم نبوی کی تکمیل کرتے ہوئے مقام جرف میں پہنچ گئے تھے اور وہاں لشکر اسلام کا اجتماع ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک عظیم لشکر تیار ہوگیا۔ ۱۰ ربیع الاول ۱۱ ھ کو جہاد میں جانے والے خواص حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے رخصت ہونے کے لئے آئے اور رخصت ہو کر مقام جرف میں پہنچ گئے۔ اس کے دوسرے دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی علالت نے اور زیادہ شدت اختیار کر لی۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مزاج پرسی اور رخصت ہونے کے لئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا مگر ضعف کی وجہ سے کچھ بول نہ سکے، بار بار دست مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور ان کے بدن پر اپنا مقدس ہاتھ پھیرتے تھے۔ حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ اس سے میں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرما رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رخصت ہو کر اپنی فوج میں تشریف لے گئے اور ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ کو کوچ کرنے کا اعلان بھی فرما دیا۔ اب سوار ہونے کے لئے تیاری کر رہے تھے کہ ان کی والدہ حضرت اُمِ ایمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا فرستادہ آدمی پہنچا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نزع کی حالت میں ہیں۔ یہ ہوش ربا خبر سن کر حضرت اُسامہ و حضرت عمر و حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ فوراً ہی مدینہ آئے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سکرات کے عالم میں ہیں اور اسی دن دوپہر کو یا سہ پہر کے وقت آپ کا وصال ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ یہ خبر سن کر حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا لشکر مدینہ واپس چلا آیا مگر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہو گئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود ربیع الآخر کی آخری تاریخوں میں اس لشکر کو روانہ فرمایا اور حضرت اُسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مقام ” اُبنٰی ” میں تشریف لے گئے اور وہاں بہت ہی خونریز جنگ کے بعد لشکر اسلام فتح یاب ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے قاتل اور دوسرے کفار کو قتل کیا اور بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۰۹ تا ص۴۱۱ و زرقانی ج۳ ص۱۰۷ تا ۱۱۲)
وفاتِ اقدس:۔
حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف لانا صرف اس لئے تھا کہ آپ خدا کے آخری اور قطعی پیغام یعنی دین اسلام کے احکام اُس کے بندوں تک پہنچا دیں اور خدا کی حجت تمام فرما دیں۔ اس کام کو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیونکر انجام دیا ؟ اور اس میں آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ؟ اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ جب سے یہ دنیا عالَمِ وجود میں آئی ہزاروں انبیاء و رُسل علیہم السلام اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کے لئے اس عالم میں تشریف لائے مگر تمام انبیاء و مرسلین کے تبلیغی کارناموں کو اگر جمع کر لیا جائے تو وہ حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تبلیغی شاہکاروں کے مقابلہ میں ایسے ہی نظر آئیں گے جیسے آفتاب عالم تاب کے مقابلہ میں ایک چراغ یا ایک صحرا کے مقابلہ میں ایک ذرہ یا ایک سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تبلیغ نے عالم میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا کہ کائنات ہستی کی ہر پستی کو معراج کمال کی سربلندی عطا فرما کر ذلت کی زمین کو عزت کا آسمان بنا دیا اور دین حنیف کے اس مقدس اور نورانی محل کو جس کی تعمیر کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل معمار بنا کر بھیجے جاتے رہے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی شان سے اس قصر ہدایت کو اس طرح مکمل فرما دیا کہ حضرت حق جل جلالہ نے اس پر اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ کی مہر لگا دی۔
جب دین اسلام مکمل ہو چکا اور دنیا میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا مقصد پورا ہو چکا تو اﷲ تعالیٰ کے وعدہ محکم اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ کے پورا ہونے کا وقت آ گیا۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات کا علم:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بہت پہلے سے اپنی وفات کا علم حاصل ہو گیا تھا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر لوگوں کو اس کی خبر بھی دے دی تھی۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے لوگوں کو یہ فرما کر رخصت فرمایا تھا : ” شاید اس کے بعد میں تمہارے ساتھ حج نہ کر سکوں گا۔ “
اسی طرح ” غدیر خم ” کے خطبہ میں اسی انداز سے کچھ اسی قسم کے الفاظ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے ادا ہوئے تھے اگرچہ ان دونوں خطبات میں لفظ لعل (شاید) فرما کر ذرا پردہ ڈالتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دی مگر حجۃ الوداع سے واپس آ کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں لَعَلَّ(شاید) کا لفظ آپ نے نہیں فرمایا بلکہ صاف صاف اور یقین کے ساتھ اپنی وفات کی خبر سے لوگوں کو آگاہ فرما دیا۔
چنانچہ بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لے گئے اور شہداء احد کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو (تم سے پہلے وفات پانے والا) ہوں اور تمہارا گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ (بخاری کتاب الحوض ج۲ ص۹۷۵)
اس حدیث میں اِنِّيْ فَرَطٌ لَّكُمْ فرمایا یعنی میں اب تم لوگوں سے پہلے ہی وفات پا کر جا رہا ہوں تا کہ وہاں جا کر تم لوگوں کے لئے حوض کوثر وغیرہ کا انتظام کروں۔
یہ قصہ مرض وفات شروع ہونے سے پہلے کا ہے لیکن اس قصہ کو بیان فرمانے کے وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسکا یقینی علم حاصل ہو چکا تھا کہ میں کب اور کس وقت دنیا سے جانے والا ہوں اور مرض وفات شروع ہونے کے بعد تو اپنی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو صاف صاف لفظوں میں بغیر ” شاید ” کا لفظ فرماتے ہوئے اپنی وفات کی خبر دے دی۔
چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ
اپنے مرض وفات میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بلایا اور چپکے چپکے ان سے کچھ فرمایا تو وہ رو پڑیں۔ پھر بلایا اور چپکے چپکے کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے اس کے بارے میں حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آہستہ آہستہ مجھ سے یہ فرمایا کہ میں اسی بیماری میں وفات پا جاؤں گا تو میں رو پڑی۔ پھر چپکے چپکے مجھ سے فرمایا کہ میرے بعد میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم وفات پا کر میرے پیچھے آؤ گی تو میں ہنس پڑی۔(بخاری باب مرض النبی ج۲ ص۶۳۸)
بہر حال حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات کے وقت کا علم حاصل ہو چکا تھا کیوں نہ ہو کہ جب دوسرے لوگوں کی وفات کے اوقات سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اﷲ عزوجل نے آگاہ فرما دیا تھا تو اگر خداوند علام الغیوب کے بتا دینے سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی وفات کے وقت کا قبل از وقت علم ہو گیا تو اس میں کونسا استبعاد ہے ؟ اﷲ تعالیٰ نے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو علم ما کان و ما یکون عطا فرمایا۔ یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کا علم عطا فرما کر آپ کو دنیا سے اٹھایا۔
علالت کی ابتداء:۔
مرض کی ابتداء کب ہوئی ؟ اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کتنے دنوں تک علیل رہے ؟ اس میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ بہر حال ۲۰ یا ۲۲ صفر ۱۱ ھ کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنۃ البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان ہے آدھی رات میں تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج اقدس ناساز ہو گیا یہ حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن تھا۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۴۱۷ و زرقانی ج۳ ص۱۱۰)
دو شنبہ کے دن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی علالت بہت شدید ہو گئی۔ آپ کی خواہش پر تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے اجازت دے دی کہ آپ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے سہارا دے کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں پہنچا دیا۔ جب تک طاقت رہی آپ خود مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے رہے۔ جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میرے مصلی پر امامت کریں۔ چنانچہ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پڑھائیں۔
ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں۔ جب آپ غسل فرما چکے تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما آپ کا مقدس بازو تھام کر آپ کو مسجد میں لائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پاکر پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک خطبہ بھی دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسلام بیان فرما کر انصار کے فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورۂ و العصر اور ایک آیت بھی تلاوت فرمائی۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۲۵ و بخاری ج۲ ص۶۳۹)
گھر میں سات دینار رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تم ان دیناروں کو لاؤ تا کہ میں ان دیناروں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دوں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ذریعے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دیناروں کو تقسیم کر دیا اور اپنے گھر میں ایک ذرہ بھر بھی سونا یا چاندی نہیں چھوڑا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۲۴)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مرض میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ خاص وفات کے دن یعنی دو شنبہ کے روز طبیعت اچھی تھی۔ حجرہ مسجد سے متصل ہی تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی سے آپ ہنس پڑے لوگوں نے سمجھا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں مارے خوشی کے تمام لوگ بے قابو ہو گئے مگر آپ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا یہ سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جمال نبوت کی زیارت کی۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا رُخِ انور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا قرآن کا کوئی ورق ہے۔ یعنی سفید ہو گیا تھا۔(بخاری ج۲ ص۶۴۰ باب مرض النبي صلي الله تعالیٰ عليه وسلم وغیره)
اس کے بعد بار بار غشی طاری ہونے لگی۔ حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی زبان سے شدت غم میں یہ لفظ نکل گیا : وَاكَرْبَ اَبَاه ہائے رے میرے باپ کی بے چینی ! حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی ! تمہارا باپ آج کے بعد کبھی بے چین نہ ہو گا۔(بخاری ج۲ ص۶۴۱ باب مرض النبي صلي الله تعالیٰ عليه وسلم)
اس کے بعد بار بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ فرماتے رہے کہ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر خدا کا انعام ہے اور کبھی یہ فرماتے کہ اَللّٰهُمَّ فِي الرَّفِيْقِ الْاَعْلٰي خداوندا ! بڑے رفیق میں اور لَا اِلٰهَ اِلَا اللّٰهُ بھی پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ بے شک موت کے لئے سختیاں ہیں۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ تندرستی کی حالت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ پیغمبروں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خواہ وفات کو قبول کریں یا حیاتِ دنیا کو۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زَبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ نے آخرت کو قبول فرما لیا۔(بخاری ج۲ ص۶۴۰ و ص۶۴۱ باب آخر ماتكلم النبي صلي الله تعالیٰ عليه وسلم)
وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تازہ مسواک ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سمجھا کہ مسواک کی خواہش ہے۔ انہوں نے فوراً ہی مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور دست اقدس میں دے دی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسواک فرمائی سہ پہر کا وقت تھا کہ سینۂ اقدس میں سانس کی گھرگھراہٹ محسوس ہونے لگی اتنے میں لب مبارک ہلے تو لوگوں نے یہ الفاظ سنے کہ اَلصَّلٰوةَ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُم نماز اور لونڈی غلاموں کا خیال رکھو۔
پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ اقدس پر ملتے اور کلمہ پڑھتے۔ چادر مبارک کو کبھی منہ پر ڈالتے کبھی ہٹا دیتے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہ بَلِ الرَّفِيْقُ الْاَعْلٰي (اب کوئی نہیں) بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔ یہی الفاظ زبانِ اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس ہاتھ لٹک گئے اور آنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی قدسی روح عالَمِ قدس میں پہنچ گئی۔
(اِنَّا ِﷲِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلٰي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَاَصْحَابِهٖ اَجْمَعِيْنَ (بخاری ج۲ ص۶۴۰ و ص۶۴۱ باب مرض النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم)
تاریخ وفات میں مؤرخین کا بڑا اختلاف ہے لیکن اس پر تمام علماء سیرت کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا بہر حال عام طور پر یہی مشہور ہے کہ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ھ دو شنبہ کے دن تیسرے پہر آپ نے وصال فرمایا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
وفات کا اثر:۔
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات سے حضرات صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کتنا بڑا صدمہ پہنچا ؟ اور اہل مدینہ کا کیا حال ہو گیا ؟ اس کی تصویر کشی کے لئے ہزاروں صفحات بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ وہ شمع نبوت کے پروانے جو چند دنوں تک جمال نبوت کادیدار نہ کرتے تو ان کے دل بے قرار اور ان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان عاشقانِ رسول پر جان عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دائمی فراق کا کتنا روح فرسا اور کس قدر جانکاہ صدمہ عظیم ہوا ہو گا ؟ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بلا مبالغہ ہوش و حواس کھو بیٹھے، ان کی عقلیں گم ہو گئیں، آوازیں بند ہو گئیں اور وہ اس قدر مخبوط الحواس ہو گئے کہ ان کے لئے یہ سوچنا بھی مشکل ہو گیا کہ کیا کہیں ؟ اور کیا کریں ؟ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پر ایسا سکتہ طاری ہو گیا کہ وہ اِدھر اُدھر بھاگے بھاگے پھرتے تھے مگر کسی سے نہ کچھ کہتے تھے نہ کسی کی کچھ سنتے تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رنج و ملال میں نڈھال ہو کر اس طرح بیٹھ رہے کہ ان میں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قلب پر ایسا دھچکا لگا کہ وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکے اور ان کا ہارٹ فیل ہو گیا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس قدر ہوش و حواس کھو بیٹھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ لی اور ننگی تلوار لے کر مدینہ کی گلیوں میں اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں اِس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ وفات کے بعد حضرت عمر و حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر مکان میں داخل ہوئے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا کہ بہت ہی سخت غشی طاری ہوگئی ہے۔ جب وہ وہاں سے چلنے لگے تو حضرت مغیرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے عمر ! تمہیں کچھ خبر بھی ہے ؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور تڑپ کر بولے کہ اے مغیرہ ! تم جھوٹے ہو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس وقت تک انتقال نہیں ہو سکتا جب تک دنیا سے ایک ایک منافق کا خاتمہ نہ ہو جائے۔
مواہب لدنیہ میں طبری سے منقول ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ” سُنح ” میں تھے جو مسجد نبوی سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے۔ ان کی بیوی حضرت حبیبہ بنت خارجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا وہیں رہتی تھیں۔ چونکہ دو شنبہ کی صبح کو مرض میں کمی نظر آئی اور کچھ سکون معلوم ہوا اس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اجازت دے دی تھی کہ تم ” سُنح ” چلے جاؤ اور بیوی بچوں کو دیکھتے آؤ۔
بخاری شریف وغیرہ میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ” سُنح ” سے آئے اور کسی سے کوئی بات نہ کہی نہ سنی۔ سیدھے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں چلے گئے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور سے چادر ہٹا کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر جھکے اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان نہایت گرم جوشی کے ساتھ ایک بوسہ دیا اور کہا کہ آپ اپنی حیات اور وفات دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہرگز خداوند تعالیٰ آپ پر دو موتوں کو جمع نہیں فرمائے گا۔ آپ کی جو موت لکھی ہوئی تھی آپ اس موت کے ساتھ وفات پا چکے۔ اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انہیں چھوڑ دیا اور خود لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے خطبہ دینا شروع کر دیا کہ
اما بعد ! جو شخص تم میں سے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو شخص تم میں سے خدا عزوجل کی پرستش کرتا تھا تو خدا زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سورۂ آل عمران کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ط اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ ط وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْئًا ط وَ سَیَجْزِي اللّٰهُ الشّٰکِرِيْنَ (آل عمران)
اور محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اﷲ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اﷲ شکر ادا کرنے والوں کو ثواب دے گا۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی تو معلوم ہوتا تھا کہ گویا کوئی اس آیت کو جانتا ہی نہ تھا۔ ان سے سن کر ہر شخص اسی آیت کو پڑھنے لگا۔(بخاری ج۱ ص۱۶۶ باب الدخول علي المیت الخ و مدارج النبوة ج۲ ص۴۳۳)
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زبان سے سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت سنی تو مجھے معلوم ہو گیا کہ واقعی نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اضطراب کی حالت میں ننگی شمشیر لے کر جو اعلان کرتے پھرتے تھے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال نہیں ہوا اس سے رجوع کیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ گویا ہم پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا کہ اس آیت کی طرف ہمارا دھیان ہی نہیں گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خطبہ نے اس پردہ کو اٹھا دیا۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۳۴)
تجہیز و تکفین:۔
چونکہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وصیت فرما دی تھی کہ میری تجہیز و تکفین میرے اہل بیت اور اہل خاندان کریں۔ اس لئے یہ خدمت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاندان ہی کے لوگوں نے انجام دی۔ چنانچہ حضرت فضل بن عباس و حضرت قثم بن عباس و حضرت علی و حضرت عباس و حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے مل جل کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو غسل دیا اور ناف مبارک اور پلکوں پر جو پانی کے قطرات اور تری جمع تھی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جوش محبت اور فرط عقیدت سے اس کو زبان سے چاٹ کر پی لیا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۳۸ و ص۴۳۹)
غسل کے بعد تین سوتی کپڑوں کا جو ” سحول ” گاؤں کے بنے ہوئے تھے کفن بنایا گیا ان میں قمیص و عمامہ نہ تھا۔ (بخاری ج۱ ص۱۶۹ باب الثیاب البیض للکفن)
نماز جنازہ:۔
جنازہ تیار ہوا تو لوگ نماز جنازہ کے لئے ٹوٹ پڑے۔ پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ جنازہ مبارکہ حجرہ مقدسہ کے اندر ہی تھا۔ باری باری سے تھوڑے تھوڑے لوگ اندر جاتے تھے اور نماز پڑھ کر چلے آتے تھے لیکن کوئی امام نہ تھا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۲۴۰ و ابن ماجه ص۱۱۸ باب ذکر و فاتہ)
قبر انور:۔
حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قبر شریف تیار کی جو بغلی تھی۔ جسم اطہر کو حضرت علی و حضرت فضل بن عباس و حضرت عباس و حضرت قثم بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے قبر منور میں اتارا۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۴۲)
لیکن ابو داؤد کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اُسامہ اور عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بھی قبر میں اترے تھے۔(ابو داؤد ج۲ ص۴۵۸ باب کم یدخل القبر)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ اختلاف رونما ہوا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے کچھ لوگوں نے کہا کہ مسجد نبوی میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مدفن ہونا چاہیے اور کچھ نے یہ رائے دی کہ آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ ہر نبی اپنی وفات کے بعد اسی جگہ دفن کیا جاتا ہے جس جگہ اس کی وفات ہوئی ہو۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو سن کر لوگوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بچھونے کو اٹھایا اور اسی جگہ (حجرۂ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میں آپ کی قبر تیار کی اور آپ اسی میں مدفون ہوئے۔(ابن ماجه ص۱۱۸ باب ذکر و فاته)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے غسل شریف اور تجہیز و تکفین کی سعادت میں حصہ لینے کے لئے ظاہر ہے کہ شمع نبوت کے پروانے کس قدر بے قرار رہے ہوں گے ؟ مگر جیسا کہ ہم تحریر کر چکے کہ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ہی یہ وصیت فرما دی تھی کہ میرے غسل اور تجہیز و تکفین میرے اہل بیت ہی کریں۔ پھر امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی بحیثیت امیر المؤمنین ہونے کے یہی حکم دیا کہ ” یہ اہل بیت ہی کا حق ہے ” اس لئے حضرت عباس اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کواڑ بند کر کے غسل دیا اور کفن پہنایا مگر شروع سے آخر تک خود حضرت امیر المؤمنین اور دوسرے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حجرہ مقدسہ کے باہر حاضر رہے۔(مدارج النبوة ج۲ ص۴۳۷)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ترکہ:۔
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی اس قدر زاہدانہ تھی کہ کچھ اپنے پاس رکھتے ہی نہیں تھے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات کے بعد کیا چھوڑا ہو گا ؟ چنانچہ حضرت عمرو بن الحارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ
مَا تَرَكَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهٖ دِرْهَمًا وَّ لَا دِيْنَارًا وَّ لَا عَبْدًا وَّ لَا اَمَةً وَّ لَا شَيْئًا اِلَّا بَغَلَتَهٗ الْبَيْضَاءَ وَ سِلَاحَهٗ وَ اَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ درہم و دینار چھوڑا نہ لونڈی و غلام نہ اور کچھ صرف اپنا سفید خچر اور ہتھیار اور کچھ زمین جو عام مسلمانوں پر صدقہ کر گئے چھوڑا تھا۔(بخاری ج۱ ص۳۸۲ کتاب الوصایا)
بہر حال پھر بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے متروکات میں تین چیزیں تھیں۔ (۱) بنو نضیر، فدک، خیبر کی زمینیں (۲) سواری کا جانور (۳) ہتھیار۔ یہ تینوں چیزیں قابل ذکر ہیں۔
زمین :۔
بنو نضرح، فدک، خیبر کی زمینوں کے باغات وغیرہ کی آمدنیاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے سال بھر کے اخراجات اور فقراء و مساکین اور عام مسلمانوں کی حاجات میں صرف فرماتے تھے۔ (مدارج النبوة ج۲ ص۴۴۵ و ابو داؤد ج۲ ص۴۱۲ باب فی صفایا رسول الله)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عباس اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بعض ازواج مطہرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہن چاہتی تھیں کہ ان جائیدادوں کو میراث کے طور پر وارثوں کے درمیان تقسیم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان لوگوں نے اس کی درخواست پیش کی مگر آپ اور حضرت عمر وغیرہ اکابر صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو یہ حدیث سنا دی کہ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ (ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ (باب فرض الخمس)
ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ مسلمانوں پر صدقہ ہے۔
اور اس حدیث کی روشنی میں صاف صاف کہہ دیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت کے بموجب یہ جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں۔ لہٰذا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی مقدس زندگی میں جن مدآت و مصارف میں ان کی آمدنیاں خرچ فرمایا کرتے تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے اصرار سے بنو نضیر کی جائیداد کا ان دونوں کو اس شرط پر متولی بنا دیا تھا کہ اس جائیداد کی آمدنیاں انہیں مصارف میں خرچ کرتے رہیں گے جن میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے۔ پھر ان دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی اور ان دونوں حضرات نے یہ خواہش ظاہر کی کہ بنو نضیر کی جائیداد تقسیم کر کے آدھی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تولیت میں دے دی جائے اور آدھی کے متولی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رہیں مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس درخواست کو نا منظور فرما دیا۔(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ باب فی وصایا رسول الله و بخاری ج۱ ص۴۳۶ باب فرض الخمس)
لیکن خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک خلفاء ہی کے ہاتھوں میں رہیں حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے اس کو اپنی جاگیر بنا لی تھی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پھر وہی عملدر آمد جاری کر دیا جو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے دور خلافت میں تھا۔(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۷ باب فی وصایا رسول اﷲ مطبوعه نامی پریس)
سواری کے جانور:۔
زرقانی علی المواہب وغیرہ میں لکھا ہوا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ملکیت میں سات گھوڑے، پانچ خچر، تین گدھے، دو اونٹنیاں تھیں۔ (زرقانی ج۳ ص۳۸۶ تا ص۳۹۱)
لیکن اس میں یہ تشریح نہیں ہے کہ بوقت وفات ان میں سے کتنے جانور موجود تھے کیونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے جانور دوسروں کو عطا فرماتے رہتے تھے۔ کچھ نئے خریدتے کچھ ہدایا اور نذرانوں میں ملتے بھی رہے۔
بہر حال روایات صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات اقدس کے وقت جو سواری کے جانور موجود تھے ان میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام ” لحیف ” تھا ایک سفید خچر تھا جس کا نام ” دلدل ” تھا یہ بہت ہی عمر دراز ہوا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہا اتنا بوڑھا ہو گیا تھا کہ اس کے تمام دانت گر گئے تھے اور آخر میں اندھا بھی ہو گیا تھا۔ ابن عساکر کی تاریخ میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی جنگ خوارج میں اس پر سوار ہوئے تھے۔(زرقانی ج۳ ص۳۸۹)
ایک عربی گدھا تھا جس کا نام ” عفیر ” تھا ایک اونٹنی تھی جس کا نام ” عضباء و قصواء ” تھا یہ وہی اونٹنی تھی جس کو بوقت ہجرت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے خریدا تھا اس اونٹنی پر آپ نے ہجرت فرمائی اور اس کی پشت پر حجۃ الوداع میں آپ نے عرفات و منیٰ کا خطبہ پڑھا تھا۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)
ہتھیار:۔
چونکہ جہاد کی ضرورت ہر وقت درپیش رہتی تھی اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسلحہ خانہ میں نو یا دس تلواریں، سات لوہے کی زر ہیں، چھ کمانیں، ایک تیر دان، ایک ڈھال، پانچ برچھیاں، دو مغفر، تین جبے، ایک سیاہ رنگ کا بڑا جھنڈا باقی سفید و زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے اور ایک خیمہ بھی تھا۔
ہتھیاروں میں تلواروں کے بارے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریر فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں کہ یہ سب تلواریں بیک وقت جمع تھیں یا مختلف اوقات میں آپ کے پاس رہیں۔(مدارج النبوة ج۳ ص۵۹۵)
ظروف و مختلف سامان:.
ظروف اور برتنوں میں کئی پیالے تھے ایک شیشہ کا پیالہ بھی تھا۔ ایک پیالہ لکڑی کا تھا جو پھٹ گیا تھا تو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کے شگاف کو بند کرنے کیلئے ایک چاندی کی زنجیر سے اس کو جکڑ دیا تھا۔(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی)
چمڑے کا ایک ڈول، ایک پرانی مشک، ایک پتھر کا تغار، ایک بڑا سا پیالہ جس کا نام ” السعہ ” تھا، ایک چمڑے کا تھیلا جس میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آئینہ، قینچی اور مسواک رکھتے تھے، ایک کنگھی، ایک سرمہ دانی، ایک بہت بڑا پیالہ جس کا نام ” الغراء ” تھا، صاع اور مد دو ناپنے کے پیمانے۔
ان کے علاوہ ایک چارپائی جس کے پائے سیاہ لکڑی کے تھے۔ یہ چارپائی حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدیۃً خدمت اقدس میں پیش کی تھی۔ بچھونا اور تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، مقدس جوتیاں، یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اسباب و سامانوں کی ایک فہرست ہے جن کا تذکرہ احادیث میں متفرق طور پر آتا ہے۔
تبرکاتِ نبوت:۔
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان متروکہ سامانوں کے علاوہ بعض یادگاری تبرکات بھی تھے جن کو عاشقانِ رسول فرطِ عقیدت سے اپنے اپنے گھروں میں محفوظ کئے ہوئے تھے اور ان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ موئے مبارک، نعلین شریفین اور ایک لکڑی کا پیالہ جو چاندی کے تاروں سے جوڑا ہوا تھا حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں آثار متبرکہ کو اپنے گھر میں محفوظ رکھا تھا۔ (بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم الخ)
اسی طرح ایک موٹا کمبل حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا جن کو وہ بطور تبرک اپنے پاس رکھے ہوئے تھیں اور لوگوں کو اس کی زیارت کراتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابوبردہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگوں کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خدمت مبارکہ میں حاضری کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے ایک موٹا کمبل نکالا اور فرمایا کہ یہ وہی کمبل ہے جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وفات پائی۔(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک تلوار جس کا نام ” ذوالفقار ” تھا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی ان کے بعد ان کے خاندان میں رہی یہاں تک کہ یہ تلوار کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ اس کے بعد ان کے فرزند و جانشین حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یزیدبن معاویہ کے پاس سے رخصت ہو کر مدینہ تشریف لائے تو مشہور صحابی حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ کو کوئی حاجت ہو یا میرے لائق کوئی کار خدمت ہو تو آپ مجھے حکم دیں میں آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے کوئی حاجت نہیں پھر حضرت مسور بن مخرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ گزارش کی کہ آپ کے پاس رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی جو تلوار (ذوالفقار) ہے کیا آپ وہ مجھے عنایت فرما سکتے ہیں ؟ کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یزید کی قوم آپ پر غالب آ جائے اور یہ تبرک آپ کے ہاتھ سے جاتا رہے اور اگر آپ نے اس مقدس تلوار کو مجھے عطا فرما دیا تو خدا کی قسم ! جب تک میری ایک سانس باقی رہے گی ان لوگوں کی اس تلوار تک رسائی بھی نہیں ہو سکتی مگر حضرت امام زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس مقدس تلوار کو اپنے سے جدا کرنا گوارا نہیں فرمایا۔(بخاری ج۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من ورع النبی صلی الله تعالیٰ علیه وسلم)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی انگوٹھی اور عصائے مبارک پر جانشین ہونے کی بنا پر خلفائے کرام حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق و حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے اپنے دور خلافت میں قابض رہے مگر انگوٹھی حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے کنوئیں میں گر کر ضائع ہو گئی۔ اس کنوئیں کا نام ” بیر اریس ” ہے جس کو لوگ ” بیر خاتم ” بھی کہتے ہیں۔(بخاری ج۲ ص۸۷۲ باب خاتم الفضه)
اسی قسم کے دوسرے اور بھی تبرکات نبویہ ہیں جو مختلف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس محفوظ تھے جن کا تذکرہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں جا بجا متفرق طور پر مذکور ہے اور ان مقدس تبرکات سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو اس قدر والہانہ محبت تھی کہ وہ ان کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔