Post by Mohammed IbRaHim on Feb 25, 2014 16:52:54 GMT 5.5
نمازمیں ہاتھ کیسے اورکہاں باندہنا سنت ہے؟
یاد رہے کہ نمازمیں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پرباندہنا مسنون ہے، اس بارے میں کئی روایات ہیں مثلا بخاری ومسلم کی روایت میں یہی تصریح موجود ہے
فقد روى البخاری فی صحیحہ : عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ قال: كان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الید الیمنى على ذراعہ الیسرى وفی روایة لمسلم : ثم وضع یدہ الیمنى على ظہر یدہ الیسرى . اھ ۔
نماز میں ہاتھ کہاں باندہے جائیں ؟؟
امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ سینے کے نیچے اورناف کے اوپرہاتھ باندہنا چائیے ، اورامام شافعی رحمہ اللہ سے ایک روایت ناف کے نیچے ہاتھ باندہنے کی بہی ہے ، اورحنفیہ اورحنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ ناف کے نیچے باندہنا چائیے ،اور مالکیہ کا معتمد ومشہورمذہب ارسال ہے یعنی دونوں ہاتہوں کو کہلا چہوڑنا ہے۔
احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں
احناف کے نزدیک مردوں کے لیئے ناف کے نیچے ہاتھ باندہنا مسنون ہےاوراس باب میں چند دلائل درج ذیل ہیں۔
1. حضرت علقمة بن وائل اپنے والد وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو دیکہا آپ نمازمیں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکہتے تہے۔
حَدَّثَنَا: وَكِیعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَیرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِیہ، قَالَ: رَأَیتُ النَّبِی صَلَّى اللہ عَلَیہ وَسَلَّمَ وَضَعَ یمِینَہ عَلَى شِمَالِہ فِی الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ.
المصنف ابن أبی شیبة كتاب الصلاة
باب : وضع الیمین على الشمال
قلت : أما .(.(.وكیع.).). فہو معروف، و.(.(.موسى بن عمیر.).). ہو ثقة من السابعة، و.(.(.علقمة بن وائل.).). ہو صدوق من رجال مسلم، و.(.(.أبیہ.).). ہو من الصحابة وہو أیضًا من رجال مسلم.
2. حضرت إبراہیم .( .تابعی .). فرماتے ہیں کہ نمازی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکہے ۔
حدثنا وكیع عن ربیع عن أبی معشر عن إبراہیم قال : یضع یمینہ على شمالہ فی الصلاة تحت السرة .
المصنف ابن أبی شیبة ، آثارالسنن وقال إسنادہ صحیح
3. حدثنا أبو معاویة عن عبد الرحمن بن إسحاق عن زیاد بن زید السوائی عن أبی جحیفة عن علی قال : من سنة الصلاة وضع الأیدی على الأیدی تحت السرر ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ نماز کی سنت میں سے ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکہے ۔
المصنف ابن أبی شیبة ، ومسند أحمد
4. حدثنا یزید بن ہارون قال : أخبرنا حجاج بن حسان قال : سمعت أبا مجلز أو سألتہ قال : قلت كیف یصنع ؟ قال : یضع باطن كف یمینہ على ظاہر كف شمالہ ویجعلہا أسفل من السرة
حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں کہ میں نے أبو مجلز ( تابعی ) سے سنا یا میں نے اس سے پوچہا کہ نماز میں ہاتھ کس طرح رکہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتھ کی ہتہیلی کے اندر والے حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتہیلی کے اوپروالے حصے پر رکہے اور دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندہے ۔المصنف ابن أبی شیبة
5. حدثنا محمد بن محبوب ثنا حفص بن غیاث عن عبد الرحمن بن إسحاق عن زیاد بن زید عن أبی جحیفة أن علیا رضی اللہ عنہ قال السنة وضع الكف على الكف فی الصلاة تحت السرة
حضرت أبی جحیفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ہتہیلی پر ہتہیلی ناف کے نیچے رکہنا مسنون ہے
سنن أبی داود ، ومسند أحمد ، والبیہقـی والدارقطنی وغیرہم
حاصل كلام
اس باب میں مزید آثار بہی مفصل کتب میں موجود ہیں لیکن میں اسی قدرپراکتفاء کرتا ہوں ، یاد رہے کہ اس مسئلہ میں بہی اختلاف راجح ومَرجُوح کا ہے۔ سیدنا الإمام الأعظم أبی حنیفة رحمہ اللہ تعالى اوران کے اصحاب ناف کے نیچے ہاتھ باندہنے کو تعظیم کے زیادہ لائق وقریب سمجہتے ہیں اوراس باب میں وارد شدہ روایات وآثار میں سے ناف کے نیچے ہاتھ باندہنے والی روایات وآثار کوترجیح دیتے ہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ مسألہ بہی اختلافی ہے إجماعی مسألہ نہیں ہے لہذا دیگرکئی امورکی طرح یہاں بہی شریعت نے وسعت رکہی ہے۔ وللہ الحمد۔لہذا اگرکوئی جاہل اس مسألہ میں کسی ایک طرف کو ہی لازم و واجب کوکہے اورباقی کو غلط کہے توایسے جاہل آدمی کی بات پرکان نہیں دہرنا چائیے۔
وقال الترمذی فی .(. سننہ .). : والعمل على ہذا عند أہل العلم من أصحاب النبی صلى اللہ علیہ وسلم والتابعین ومن بعدہم : یرون أن یضع الرجل یمینہ على شمالہ فی الصلاة ورأى بعضہم أن یضعہما فوق السرة ورأى بعضہم أن یضعہما تحت السرة وكل ذلك واسع عندہم . ونحو ہذا قال الإمام أحمد وغیرہ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
بعض اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں ہاتھ ناف کے اوپر رکہے اوربعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکہے اوران کے نزدیک یہ سب جائزہے . یعنی صحابہ وتابعین وغیرہم أہل العلم کے نزدیک یہ سب جائزہے ۔
ابن المنذر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ الأوسط ‘‘ میں اس مسئلہ کے بارے علماء اسلام کے اقوال وآراء ذکرکرنے بعد کسی کا قول نقل کیا کہ نمازمیں ہاتھ رکہنے کی جگہ کے بارے میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ( صحیح ) ثابت نہیں ہے لہذا نمازی کواختیارہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ رکہے یا اوپر رکہے الخ ۔
وقال ابن المنذر فی ’’الأوسط‘‘ : واختلفوا فی المكان الذی توضع علیہ الید من السرة؛ فقالت طائفة: تكونان فوق السرَّة، وروی عن علی أنہ وضعہما على صدرہ، وروی عن سعید بن جبیر أنہ قال: فوق السرَّة، وقال أحمد بن حنبل: فوق السرَّة قلیلاً، وإن كانت تحت السرَّة فلا بأس. وقال آخرون وضع الأیدی على الأیدی تحت السرَّة، روی ہذا القول عن علی بن أبی طالب، وأبی ہریرة، وإبراہیم النخعی، وأبی مجلز...، وبہ قال سفیان الثوری وإسحاق. وقال إسحاق: تحت السرَّة أقوى فی الحدیث، وأقرب إلى التواضع. وقال قائل: لیس فی المكان الذی یضع علیہ الید خبر یثبت عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فإن شاء وضعہما تحت السرَّة، وإن شاء فوقہا.
الأوسط 3/94
واللہ تعالى أعلم