Post by Mohammed IbRaHim on Feb 25, 2014 17:59:32 GMT 5.5
ضرورت فقہ حنفی اور مسئلہ تراویح
خطبہ مسنونہ : الحمد للہ وکفی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی امابعد
فاعوذ باللہ من الشطین الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وما کان المؤمنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منہم طائفة لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون وقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین صدق اللہ مولانا العظیم وبلغنا رسولہ النبی الکریم ونحن علی ذلك من الشہدین والشکرین والحمد للہ رب العلمین رب اشرح لی صدری ویسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی - رب ذدنی علما و فہما سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العلیم الحکیم اللہم صل علی محمد وعلی آل سیدنا و مولانا محمد واصحاب سیدنا و مولانا محمد وبارك وسلم علیہ
تمہید : دوستوں اور بزرگوں! میں نے آپ کے سامنے سورۃ توبہ کی ایک آیت کریمہ تلاوت کی ہے اور صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث شریف پڑھی ہے - قرآن پاک کی اس آیت میں بھی فقہ کا تذکرہ ہے اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی فقہ کا تذکرہ ہے
اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتے ہیں: وما کان المؤمنون لینفروا کافة - اور سارے مسلمانوں سے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ سب کے سب نکلیں - معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کسی کام کے لئے جارہے ہیں - اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مسلمان جہاد کے لئے جارہے ہیں تو اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں: فلولا نفر من کل فرقة منہم طائفة لیتفقہوا فی الدین - تو کیوں نہ ہو کہ ان کے گروہ میں ایک جماعت نکلے جو دین کی سمجھ حاصل کریں: ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون - اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں
یہ سورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور کے آخری سالوں میں نازل ہوئی جس وقت اسلام عرب کے بہت سے حصے پر پھیل چکا تھا - اب بات یہ تھی کہ جو لوگ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہیں وہ تو جب کوئی مسئلہ پیش آتا خود حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے لیکن جو لوگ دور رہتے تھے نہ تو خود نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسئلہ بتانے کے لئے وہاں تشریف لے جاسکتے تھے اور نہ وہ خود ہر ہر مسئلہ پوچھنے کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوسکتے ، تو دین آخر انہوں نے بھی سمجھنا ہے تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے درمیان وہ کونسا واسطہ ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول قابل اعتماد سمجھیں اور اس کے ذریعہ پہنچا ہوا دین خدا اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ ہو - تو اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ وہ جماعت فقہاء کی ہوگی فقہاء کے ذریعہ سے جو دین پہنچے گا وہ اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک قابل اعتماد ہوگا - اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی قابل اعتماد ہوگا
فقہ کی ضرورت اور بنیاد
آپ کے ذہن میں یہ بات آرہی ہوگی کہ اللہ تبارک وتعالی فقہاء کے بجائے قاری اور حافظ کا نام لے لیتے ، اللہ تبارک وتعالی یہاں محدث کا لفظ فرمادیتے ، قرآن و حدیث کا لفظ آجاتا ، آخر اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے یہاں فقہ کا لفظ فرمادیا - تو قرآن پاک خود ایک کامل کتاب ہے اور اسلام ایک مکمل دین ہے - اس لئے اللہ نے ایک ہی لفظ ایسا ارشاد فرمادیا جس میں یہ ساری چیزیں آگئیں
فقہ کی بنیاد اور ماخذ
چونکہ فقہ کی بنیاد چار چیزیں ہوتی ہیں - اول کتاب اللہ [قرآن پاک] دوم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سوم اجماع امت اور چہارم قیاس شرعی ، تو جب فقہ کا لفظ بول دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جانے والا فقیہ قرآن بھی ساتھ لے کر جائے گا - اللہ کے نبی کی سنت بھی ساتھ لے کر جائے گا - امت کے اجماعی مسائل بھی ساتھ لے کر جائے گا اور جو نئے مسائل سامنے آئیں گے ان کا حل بھی قیاس شرعی سے دریافت کرلے گا ، تو دین اسلام کے لئے فقہ نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوتے تو اس لئے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ دین کو پہنچانے کا جو قابل اعتماد ذریعہ ہے یہ فقہاء ہیں
مثلآ ایک آدمی ایک علاقے میں صرف قرآن پاک لے کر چلاگیا ، اس نے جاکر قرآن سنایا کہ "اقیموا الصلوۃ" نماز قائم کرو - اب وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟ تو قرآن پاک میں ان رکعتوں کا کوئی تذکرہ نہیں تو قرآن کے پہنچنے کے بعد بھی ان لوگوں کو نماز کا مکمل طریقہ معلوم نہیں
ایک دوسرا شخص حدیث کی کتاب لے کر چلاگیا اس میں یہ تو ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی چار رکعت ادا فرمائیں پھر دو رکعت ادا فرمائیں لیکن یہ تفصیل نہیں کہ کون کون سی رکعتیں سنت ہیں ، کون کون سی فرض ہیں ، کون کون سی نفل ہیں - یہ تفصیل احادیث میں موجود نہیں - تو اب اس [فقہ] کی تو ضرورت باقی رہی تو بغیر فقہ کے دین کے مسائل مکمل نہیں ہوتے
اس لئے آج ہم جو نمازیں پڑھ رہے ہیں وہ اسی فقہ کے مطابق پڑھ رہے ہیں - روزے کے مسائل معلوم کرتے ہیں تو اسی فقہ سے معلوم کرتے ہیں - حج کرتے ہیں تو مکمل مسائل ہمیں فقہ سے ہی ملتے ہیں - تو اللہ تعالی نے یہی کامل اور مکمل ذریعہ یہاں بیان فرمایا کہ کچھ لوگ فقیہ بنیں
مسائل بہشتی زیور کے دعوی بخاری شریف کا
رئیس المناظرین ، متکلم اسلام ، وکیل احناف ، ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ تقریر کے لئے ڈیرہ غازی خان تشریف لے گئے - تقریر ختم ہوگئی تو غیرمقلدین کتابیں لے کر آگئے اور کہنے لگے: جانا نہیں ہم بات کریں گے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: بات کرو ، بات کرنا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت ہے اور ہمارے [فقہی] امام نے بھی ساری عمر بات ہی کی ہے - غیرمقلدین کہنے لگے کہ بات تو کرنی ہے مگر تجھ سے نہیں کیونکہ تو ماسٹر ہے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ قرآن میں دکھلادیں کہ ماسٹر سے بات کرنا ناجائز ہے تو میں بات نہیں کروں گا یا صحاح ستہ سے دکھادیں تب بھی میں بات نہیں کروں گا ، لیکن تمہاری طرف سے بھی عالم ہونا چاہئے جو بات کرے - اس غیرمقلد نے کہا میں شیخ الحدیث ہوں - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ذرا نماز ظہر کی رکعات تو بتلادیں کہ کتنی ہیں اور کیا کیا ہیں؟ لوگ حیران کہ مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے یہ کیا گھٹیا سا سوال کردیا ہے؟ اس غیرمقلد شیخ الحدیث نے کہا: چار سنت ، چار فرض ، دو سنت ، دو نفل ، کل بارہ رکعات - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: یہ کہاں سے یاد کی تھیں؟ اس غیرمقلد شیخ الحدیث نے کہا: بخاری شریف سے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ بخاری شریف سے مجھے بھی دکھلادیں - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ بخاری شریف اس غیرمقلد شیخ الحدیث کے آگے کرتے اور غیر مقلد شیخ الحدیث صاحب پیچھے ہٹتے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ شاید ماسٹر سے بات کرنا تو گناہ ہو ، لیکن بخاری شریف کو ہاتھ لگانا تو گناہ نہیں - اس غیرمقلد شیخ الحدیث کے اور دوسرے غیرمقلد ساتھی بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیا راز ہے؟ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ سولہ [16] احادیث کے خلاف اس نے سنت کہا ہے حالانکہ ان احادیث میں "تطوع" کا لفظ ہے ، یہ تو مجتہدین نے ہمیں بتلایا ہے کہ فرض کے علاوہ جس عمل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی ہو وہ سنت ہوتا ہے اور جس پر مواظبت نہیں وہ نفل ہے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ کی یہ بات سن کر غیرمقلد شیخ الحدیث نے کہا: واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے ، رکعات یوں ہیں: چار نفل ، چار فرض ، دو نفل - غیرمقلد شیخ الحدیث کا یہ جواب سن کر ان کے دوسرے غیرمقلد ساتھی کھڑے ہوگئے اور کہا کہ مولانا آپ سنتوں کا انکار کررہے ہیں - اس کے بعد حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: یہ تمھارے گھر کی بات ہے اپنے گھر جاکر کرلینا کیونکہ ابھی تمہارے شیخ الحدیث صاحب کے علم کا اتنا زور ہے کہ پہلے ہی سوال سے بوکھلا کر اس نے سنتوں سے سنتوں سے انکار کردیا ہے ، اگر میں دوسرا سوال کردوں تو حضرت کو فرائض بھی نظر نہیں آئیں گے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے سوال کیا: شیخ الحدیث صاحب! مسجد میں آپ بیٹھے ہیں ، سچ بتلانا کہ یہ رکعتیں کہاں سے یاد کی ہیں؟ غیرمقلد شیخ الحدیث صاحب فرمانے لگے: بہشتی زیور سے یاد کی [جس کو رات دن گالیاں نکالتے ہیں]
ان غیرمقلدین کا ایک آدمی غصے میں کھڑا ہوگیا کہ ہمیں تو یہ شیخ الحدیث صاحب کہتے ہیں کہ "بہشتی زیور" بالکل غلط کتاب ہے اور خود رکعتیں بھی اسی سے یاد کرتے ہیں - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: بھائی! لڑائی اپنے گھر جاکے کرنا لیکن اتنی بات ہے کہ آئندہ سچ بتلادیا کریں کہ رکعتیں "بہشتی زیور" سے یاد کی ہیں بخاری شریف کا نام نہ لینا ، کیوں بھئی یہ کوئی گالی تو نہیں؟ [علمی معرکے اور مجلسی لطیفے ص 35 تا 36]
دعوی ہے بخاری اور مسلم کا
دیتے ہیں حوالے اوروں کے
ہے قول و عمل میں ٹکراؤ
یہ کام نام نہاد [اہلحدیثوں] کے
صرف قرآن و حدیث کا ترجمہ سمجھنا فقہ نہیں
اب یہاں ایک باب سوچنے کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو جہاد کے لئے تشریف لے جارہے ہیں - ان کی مادری زبان پنجابی تھی یا سرائیکی تھی؟ [عربی تھی] تو وہ قرآن پاک کی عربی آیات سن کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عربی احادیث سن کر ان کا مطلب سمجھ لیتے تھے یا نہیں؟ [سمجھ لیتے تھے] ہم سے بہتر سمجھتے تھے یا کم سمجھتے تھے؟ [بہتر سمجھتے تھے] ظاہر ہے کہ وہ ہم سے بہت زیادہ بہتر سمجھتے تھے - تو اگر قرآن پاک کا ترجمہ جان لینے کا نام فقہ ہوتا ، حدیث کا ترجمہ جان لینے کا نام فقہ ہوتا تو ان میں سے ہر کوئی آدمی ہم میں سے اچھا ترجمہ سمجھتا تھا - ان میں ہر شخص ہم میں سے بہتر حدیث کا مطلب جانتا تھا - تو اللہ تبارک وتعالی نے ان مطلب اور ترجمہ جاننے والوں کو فرمایا کہ ہر جماعت میں سے کچھ آدمی بیٹھ جائیں اور فقیہ بنیں - معلوم ہوا کہ صرف الفاظ کا یاد کرنا فقہ نہیں ، صرف ترجمے کا یاد کرلینا اس کا نام فقہ نہیں - کوئی بخاری شریف کا اردو ترجمہ پڑھ کر یہ سمجھے کہ میں فقیہ بن گیا ہوں تو اس نے قرآن پاک کی اس آیت کو سمجھا نہیں
فقہ گہرائی کا نام ہے
فقہ گہرائی کا نام ہے - تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ کرام کو اللہ تبارک وتعالی فرمارہے ہیں کہ فرقے میں سے ایک ایک آدمی بیٹھ جائے - اب آپ سوچیں گے کہ وہ فرقے کیسے تھے؟ اس زمانے میں فرقے یہ نہیں تھے جو آج کل بنے ہوئے ہیں - جیسے آپ رائیونڈ کے اجتماع کے موقع پر دیکھتے ہیں کہ ضلع رحیم یار خان کے لوگ ایک جگہ پر بیٹھے ہیں تاکہ سفر میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو - دوسرے ضلع کے لوگ ایک جماعت بناکر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ آپس میں سہولت رہے - اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو جہاد کے لئے جارہے ہیں ان میں مذہبی فرفے نہیں تھے "کل فرقة" کا جو لفظ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک قوم کے لوگ علیحدہ علیحدہ اپنے علاقے کی جماعت بناکر جارہے تھے تاکہ سفر میں کسی قسم کی کوئی پرییشانی نہ ہو تو ایک دوسرے کی واقفیت ہمارے لئے ان پریشانیوں کے دور ہونے کا سبب بنتی رہی
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جب جارہے ہیں - اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ ہر قوم اور ہر فرقے کا کم از کم ایک ایک آدمی فقیہ ضرور بنے - اب جب یہ فقیہ بن جائیں گے تو پھر کیا کریں گے؟ اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں: "ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون" یہ یہاں سے فقیہ بن کر اپنی قوم میں چلا جائے گا ، اب ساری قوم اس فقیہ کی فقہ پر عمل کرے گی اور اس کی تقلید کرے گی اس سے دین کے مسائل پوچھ کر اس پر عمل کرے گی - اور یہ اللہ تبارک وتعالی کے حکموں سے ان کو ڈرائیں گے تاکہ یہ لوگ خدا کی نافرمانی سے بچ سکیں
فقہ جامع المسائل ہے
تو اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کا دین آگے پہنچانے کے لئے سب سے قابل اعتماد ذریعہ ففہاء کا ہے - اور فقہاء کے پاس مکمل دین ہوتا ہے ، ان کے پاس دی کا ایک خاص پہلو نہیں ہوتا ، اس کو آپ ایک مثال سے سمجھیں
مثال : آپ کا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے ، اس کے پاس ایک اردو کی کتاب ہے ، ایک معاشرتی علوم کی کتاب ہے - ایک دینیات کی کتاب ہے - ایک انگریزی کی کتاب ہے - ان ساری کتابوں میں ایک ایک مضمون ہے - لیکن ایک اس کے پاس گائیڈ ہوتی ہے - جس میں تمام مضامیں یکجا ہوتے ہیں - تو فقہ کیا ہے؟ اسلامی علوم کی گائیڈ بک ہے - قرآن پاک کے تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - امت کے سارے اجماعی مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - اور قیاس شرعی کے بھی تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں
تو اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کا دین آگے پہنچانے کے لئے سب سے قابل اعتماد ذریعہ ففہاء کا ہے - اور فقہاء کے پاس مکمل دین ہوتا ہے ، ان کے پاس دی کا ایک خاص پہلو نہیں ہوتا ، اس کو آپ ایک مثال سے سمجھیں
مثال : آپ کا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے ، اس کے پاس ایک اردو کی کتاب ہے ، ایک معاشرتی علوم کی کتاب ہے - ایک دینیات کی کتاب ہے - ایک انگریزی کی کتاب ہے - ان ساری کتابوں میں ایک ایک مضمون ہے - لیکن ایک اس کے پاس گائیڈ ہوتی ہے - جس میں تمام مضامیں یکجا ہوتے ہیں - تو فقہ کیا ہے؟ اسلامی علوم کی گائیڈ بک ہے - قرآن پاک کے تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - امت کے سارے اجماعی مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - اور قیاس شرعی کے بھی تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں
فقہ کیا ہے؟
تو فقہ کو سمجھانے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا ہوں کیونکہ وقت بہت کم ہے - اب دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مکھی تمہارے پینے کی چیز میں گرجائے تو اسے غوطہ دے کر نکال کر پھینک دو ، اب یہ الفاظ مجھے یاد ہیں - اس کا ترجمہ بھی یاد ہے - لیکن ایک آدمی آگیا ، اس کے پاس دودھ کا گلاس ہے ، اس میں دو مچھر گرے ہوئے ہیں - وہ کہتا ہے کہ یہ مچھر پڑے ہوئے ہیں ان کو کس طرح نکالنا ہے ، اس کا مسئلہ کیا ہے؟ اب حدیث میں مچھر کا لفظ تو آتا نہیں کہ مچھر گرجائے تو کیسے نکالا جائے اور سینکڑوں جانور موجود ہیں چھوٹے چھوٹے وہ سارے گرجائیں تو کیسے نکالے جائیں؟ اس کے لئے اب الفاظ مجھے بھی آتے تھے - ترجمہ مجھے بھی یاد تھا - لیکن فقیہ نے مجھے یہ بتایا کہ ان الفاظ کے نیچے اللہ کے نبی نے ایک قاعدہ بیان فرمایا ہوا ہے - جو ہر شخص کو نظر نہیں آتا - اجتہاد کی خوردبین لگانے سے وہ نظر آیا کرتا ہے - تو انہوں نے بتایا کہ اس کے نیچے قاعدہ یہ ہے کہ مکھی ایک ایسا جانور ہے جس کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون نہیں اب ہر وہ ایسا جانور جس کی رگوں میں ایسا خون نہیں ہے اس کو مکھی پر قیاس کرکے اس کا یہی حکم معلوم کرلیا جائے گا جو مکھی کا ہے ، تو مچھر کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون نہیں ، اب مچھر کو مکھی پر قیاس کرکے نکال لیا گیا - اسی طریقہ سے بھڑ ہے ، جگنو ہے ، کیڑیاں ہیں ، چیونٹیاں ہیں ، ان کی رگوں میں بھی دوڑنے پھرنے والا خون نہیں اگرچہ حدیث میں ان کا لفظ نہیں آیا کہ یہ پینے کی چیز میں گرجائیں تو کیا کیا جائے؟ لیکن فقیہ نے حدیث سے یہ قاعدہ اخذ کرکے ان سب کا حکم معلوم کرلیا اس کو کہتے ہیں فقہ یعنی کتاب و سنت کے الفاظ میں بہت سے مسائل ہیں - اور بہت سے مسائل اس کی تہہ می اللہ تبارک وتعالی نے مستور رکھے ہیں ، ان کو نکالنا فقہ ہے
تقلید کیا ہے
جس طرح سطح سمندر کی سیر بھی انسانی صحت کے لئے مفید ہے - لیکن بہت سے موتی اس کی تہہ میں چھپا رکھے ہیں - ان کو حاصل کرنے کے لئے غوطہ خور کی ضرورت پڑتی ہے - ہر آدمی کا یہ کام نہیں اب غوطہ خور نیچے سے نکال لائے اور ہم شکریہ ادا کرکے ان سے حاصل کرلیں اس کو تقلید کہتے ہیں اور غیر مقلدیت یہ ہے کہ مجھے غوطہ لگانا تو آتا نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ میں اس غوطہ خور سے موتی لینے کے لئے تیار نہیں ، اب سب دانا مجھے یہی سمجھائیں گے کہ جب تو غوطہ خور نہیں تو تو غوطہ نہ لگانا - میں کہتا ہوں کہ جب یہ خود غوطہ لگاکر نیچے سے لایا ہے تو میں بھی خود نیچے جاؤں گا تو اس کے بعد میں نے سب کے روکنے کے باوجود غوطہ لگادیا - اب لوگ سارے دیکھ رہے ہیں کہ باقی غوطہ خور تو موتی لے کر اوپر آگئے لیکن یہ خود ہی اوپر نہیں آیا
تو تقلید کہتے ہیں کہ غوطہ خور سے موتی لے کر استمعال کرلیا جائے اور اسی کو مقلد کہتے ہیں - اور غیرمقلد کہتے ہیں کہ جو خود ڈوب کر مرجائے نہ موتی نصیب ہو اور نہ اس کی زندگی باقی رہے ، تو اس لئے فقہ جو ہے یہ کتاب و سنت کی تہہ سے مسائل کے دریافت کرلینے کا نام ہے - اور دین کے مکمل مسائل صرف فقہ میں ملتے ہیں اور کسی علم میں نہیں ملتے تو یہ جو فقہاء بنیں گے یہ کیا کام کریں گے - پوری قوم کا اعتماد اپنے اس فقیہ پر ہوگا - فتوی ان ہی کا چلے گا ، علماء حضرات جانتے ہیں کہ آیت میں جو لفظ "لینذروا قومہم اذا رجعوا اليہم" آیا ہے - یہ انداز نذیر اور بشیر صفتیں دراصل نبیوں کی اللہ تبارک وتعالی بیان فرماتے ہیں قرآن پاک میں: "انا ارسلناك شاھدا ومبشرا ونذیرا [القرآن]
فقہاء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں : اس آیت میں یہ صفت فقہاء کی بیان کرکے فرمادیا کہ نبیوں کے اگر کامل وارث ہیں تو صرف فقہاء ہیں - اس لئے علامہ سرخسی رحمة اللہ تعالی عليہ مبسوط کا خطبہ یہیں سے شروع فرماتے ہیں "اعوذ باللہ جعل ولایة الانذار للفقہاء بعد الانبیاء" اللہ تعالی کی تعریف ہے کہ تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں کہ جس نے نبیوں کے وارث فقہاء بنادیئے - تو اس آیت میں بھی فقہاء کو نبیوں کا وارث قرار دے دیا گیا ہے - یہاں انداز اور "یحذرون" بچنا اور ڈرانا ان الفاظ پر غور کریں - تو بالکل یہی مفہوم قانون کا ہوا کرتا ہے - تو مطلب یہ کہ قانون صرف فقہ کا نافذ ہوگا جب بھی ہوگا
فقہ کے بغیر چارہ کار نہیں : ایک دوست تقریر کررہا تھا اور بڑے غصے میں کہنے لگا میں نے پکا ارادہ کرلیا ہے اور قسم کھالی ہے کہ فقہ کو ملک سے نکال کر دم لوں گا - میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ اللہ کے بندے ابھی تک تو فقہ تو اپنے مفتیوں سے نہیں چھین سکا - تیرے مفتی ہماری فقہ پر فتوے دے رہے ہیں - "فتاوی نذیریہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی ثنائیہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی ستاریہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی علماء اہلحدیث" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی غزنویہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں - تو جو ابھی اپنے مفتیوں سے فقہ نہیں چھین سکا وہ فقہ کو ملک سے کیسے نکال دے گا؟ میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ آپ تو ابھی تک فقہ کو اپنے مدرسے سے نہیں نکال سکے - تمہارے مدارس میں ہماری کتاب "ہدایہ" پڑھائی جارہی ہے - "شرح وقایہ" پڑھائی جارہی ہے - تو تم بتاؤ کہ تمہارے ہاں یہ تنخواہ جائز بھی ہے یا ناجائز ہے؟ تو میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ اگر آپ نے ضرور تجربہ کرنا ہے تں ملک سے نکالنے سے پہلے اپنے گھر سے پہلے نکال کر دیکھیں - ایک گھر سے ، اس نے کہا کہ نکال دی
اب جناب ظہر کا وقت آگیا نماز پڑھنی ہے ، سب بیٹھے ہیں - کہتا ہے کہ نماز پڑھو اس نے کہا نماز کی تو شرطیں معلوم نہیں کہ کتنی ہیں - کیونکہ فقہ میں لکھی تھیں وہ تو ہم باہر جاکر رکھ آئے ہیں - نماز کی رکعتوں کی تقسیم کا علم نہیں ہے کہ سنتوں کی نیت کتنی رکعتوں میں کرنی ہے؟ فرض کتنے پڑھنے ہیں؟ نوافل کتنے ہیں؟ یہ تقسیم فقہ کی کتاب میں تھی - اب ہم پڑھیں کیا؟ نماز کے ارکان کا پتہ نہیں - سجدہ سہو کے مسائل کا ، ایک دو مسائل کے سوا پتہ نہیں چلتا - تو اب کیسے نماز پڑھیں؟ وہ کہتا ہے کہ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ صرف فقہ سے ہم نہیں گئے بلکہ ہم تو خدا سے بھی گئے - کیونکہ خدا کی عبادت کرنے کا طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے - تو اس نے کہا کہ اچھا چلو سوچتے ہیں ، صلح کریں گے ان سے ، کھانا تو لے آؤ ، اس نے کہا کہ کیا لاؤں؟ کہتا ہے کہ دودھ لے آؤ - اس نے جواب میں کہا کہ دودھ تو بھینس کا ہے - اور بھینس کا لفظ قرآن میں بھی نہیں اور حدیث میں بھی نہیں تو بھینس کا دودھ تو فقہاء نے قیاس سے جائز کیا تھا - تو جب فقہ نکالی تو بھینس بھی ہم ان کے گھر باندھ آئے ہیں - نہ دودھ قسمت میں رہا نہ چائے قسمت میں رہی ، نہ گھی قسمت میں رہا نہ مکھن قسمت میں رہا حتی کہ لسی تک قسمت میں نہیں رہی ، تو ایسی فقہ نکالی اب کیا کریں - اس نے کہا پھر اور کوئی چیز اس نے کہا کہ دال پکائی تھی پانی میں ، وہ ہے - اگر کہیں تو لے آؤں اس نے کہا کہ چلو وہی لے آؤ ، اب ایسی ہنڈیا تھی اس نے ڈھانکا نہیں - اس میں جناب مچھر گرکر مرا ہوا ہے - چیونٹیاں گرکر مری ہوئی ہیں - دو تین بھڑیں اس میں بھنبھنارہی ہیں - دو چار مکھیاں ہیں - اور آٹھ دس چیونٹیاں اس میں مری ہوئی ہیں - اس نے کہا کہ اللہ کی بندی اس کو صاف تو کر دیتی اس نے کہا کہ کیسے صاف کرتی؟ فقہ کے بغیر چیونٹی نکلتی نہیں - فقہ کے بغیر مچھر نکلتا نہیں - فقہ کے بغیر یہ بھڑ نکلتی نہیں - فقہ کے بغیر جگنو نکلتا نہیں - فقہ کے بغیر تو یہ صاف ہی نہیں ہوگا ، اس لئے جب فقہ کو گھر سے نکال دیا ہے تو اب کیا صورت ہوگی؟ اب تو یہی ہے کہ چیونٹیاں کھانی پڑیں گی - یہ بھڑ تو زبان کو کاٹ کاٹ کر کھائے گی - یہ نکل نہیں سکتی کیونکہ وہ زبان جو فقہ کے خلاف بولتی ہے اس کا علاج یہی ہے کہ بھڑیں اس کو کاٹ کاٹ کر کے کھائیں اور فقہ کو نہ مانا تو یہ نکل سکتی نہیں
فقہ سے دین غالب رہے گا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک ایک جماعت جہاد میں مصروف رہے اور دوسری فقہ میں ، اس وقت تک فرمایا کہ دین کو سربلندی حاصل رہے گی - مجاہدین کا کام کیا ہے؟ ملک گیری ، ملک حاصل کرنا ، کیا کام ہے؟ [ملک حاصل کرنا] اور فقہاء کا کام کیا ہے؟ اس ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا تو اسی چیز سے سربلندی رہے گی نا؟ [جی]
فقہ حنفی کی ضرورت : اب دیکھئے قانون جو ہے وہ نافذ ہوا تو فقہ کی صورت میں نافذ ہوا - اب ہم جب مطالبہ کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کو نافذ کیا جائے تو کئی طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فقہ کو ہم نہیں مانیں گے ، صرف اسلام کا قانون آئے اور کتاب و سنت کا قانون آئے - لیکن یہ ایک فریب ہے اس کو ذرا سمجھیں مثال سے
مثال:: آپ کے ملک میں اس وقت کوئی قانون چل رہا ہے یا نہیں؟ [چل رہا ہے] ایک تو آپ کے ملک میں ہوتا ہے متن قانون [آئین] اسی کا نام کتاب و سنت ہے - جو آئین ہے اس کا نام کیا ہے [کتاب و سنت] اور بعض اوقات آئین میں کوئی چیز قابل تشریح ہو تو قومی اسمبلی خود اس کی تشریح کردیتی ہے - تو اس قومی اسمبلی کہ جگہ اسلام میں خلافت راشدہ ہے - اور ہر خلیفہ راشد اس اسمبلی کا خلیفہ راشد ہے - تو اب دیکھئے کوئی شخص صرف آئین کا نام لے کر خلافت راشدہ کو چھوڑنا چاہے - قومی اسمبلی سے صرف نظر کرے تو وہ ملک میں ملک کے آئین کو چلاسکتا ہے؟ [نہیں] پھر اس کے بعد آپ کے ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ ہوتی ہے - اس کا چیف جسٹس جو ہے یہ قانون ساز نہیں ہوتا قانون دان ہوتا ہے - لیکن اپنے ملک کے قانون کا اتنا ماہر ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ بطور نظیر قانون کی کتاب L.P.D میں نقل کرلیا جاتا ہے - اور جتنی ماتحت عدالتیں ہیں - ڈی سی صاحب کے ہاں کیس آئے تو کمشنر صاحب کے ہاں کیس آئے سینئر سول جج کے ہاں کیس آئے تو وہ اس کا حوالہ P.L.D کا حوالہ دے کر فیصلہ کرتا ہے - اس کے حوالے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا
جس کو آپ اپنی اصطلاح میں ہائی کورت کا چیف جسٹس کہتے ہیں اس کو اسلامی اصطلاح میں مجتہد کہا جاتا ہے - مجتہد بھی قانون ساز نہیں ہوتا قانون کا ماہر ہوتا ہے - اور جس طرح دنیاوی مجتہدین کے فیصلے P.L.D میں محفوظ کر لئے گئے - اسی طرح اسلام کے مجتہدین کے فیصلے P.L.D میں محفوظ کر لئے گئے - یہ ہدایہ ، یہ عالمگیری ، یہ شرح وقایہ یہ کتابیں بالکل ایسی حیثیت رکھتی ہیں اسلام میں ، جس طرح آپ کے ملک میں P.L.D کی کتابیں ہیں اور بھی اس طرح ماتحت عدالتیں اس P.L.D کا حوالہ دیتی ہیں - اسی طرح جو مفتی ہیں وہ قال ابو حنیفة ، قال شافعی ، قال احمد کہہ کر اپنا فتوی نقل کرتا ہے
لیکن بعض اوقات چیف جسٹس ایک ہوتا ہے - اور بعض اوقات ایک فل بنچ بیٹھتا ہے - جسے آپ کی اصطلاح میں سپریم کورٹ کہتے ہیں - اور اسلام کی اصطلاح میں اسے اجماع امت کہا جاتا ہے - اب اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ صرف پاکستان کا آئین رہے اور یہ ہائی کورٹ ختم کردی جائیں - سپریم کورٹ کو ملک سے ختم کردیا جائے - ماتحت ساری عدالتیں ختم کردی جائیں - تو کیا ملک کا نظام چل سکتا ہے؟ [نہیں] آج کل تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تو آئے لیکن اسلام میں قیاس شرعی اور اجتہاد اور فقہ کا دخل نہ ہو ، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جس طرح کوئی یہ کہے کہ آئین پاکستان تو نافذ رہے لیکن میں پاکستان میں رہتا ہوا ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول نہیں کروں گا - اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ صوبے میں رہتے ہوئے قبول نہیں تو قانون نافذ کون کرے گا یہاں؟ اور قانون چلے گا کس کے ذریعہ سے؟
کوئی آدمی یہ کہے کہ قانون اسلام تو آئے لیکن اجماعی مسائل جو ہیں وہ بطور قانون نافذ نہ کئے جائیں - تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں ملک پاکستان میں رہتے ہوئے ملک پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں - تو کیا کوئی ملک کسی بے وقوف کے کہنے سے ملک کی سپریم کورٹ کو ختم کرسکتا ہے؟ کیا کوئی صوبہ بغیر ہائی کورٹ کی عدالت کے قانون کو آگے چلاسکتا ہے؟ کوئی آدمی یہ کہے کہ میں ضلع میں رہوں گا لیکن ڈی سی کے فیصلے کا پابند نہیں ہوگا ، میں ڈویژن میں آباد رہوں گا لیکن کمشنر کے فیصلے کا پابند نہیں ہوں گا کیونکہ یہ P.L.D. کے حوالے دیتے ہیں - سیدھے آئین کے حوالے نقل کررہے - تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں مسلمان تو کہلاؤں گا لیکن اسلامی مفتیوں کے فیصلے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں - کیونکہ یہ اپنے فتوے میں قال ابو حنیفة لکھتے ہیں - یہ قال شافعی لکھتے ہیں - یہ قال احمد لکھتے ہیں - یہ قال مالک لکھتے ہیں - تو جس طرح ملک میں قانون نافذ ہوتا ہے ، اسی طرح ہر قانون ہوتا ہے - جس طرح اس میں ہائی کورٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا - سپریم کورٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور ماتحت عدالتوں کی بھی ضرورت ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا - جب بھی کوئی عدالت کا فیصلہ سنتا ہے تو اسے ایک ہی پتہ ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ اس جج کی ذاتی رائے نہیں بلکہ پاکستان کے قانون کا فیصلہ ہے - جب بھی وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ سنتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ یہ اس جج کی ذاتی رائے نہیں بلکہ آئین پاکستان کا ہی فیصلہ ہے - بالکل اسی طرح حضرات ائمہ مجتہدین وہ جو فقہ مرتب فرماگئے ہیں یہ ان کے ذاتی فیصلے نہیں بلکہ کتاب و سنت سے وہ استنباط کرکے دیئے ہیں
اب میں آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے سامنے کوئی آدمی آئے ، وہ یہ کہے کہ مجھے ووٹ دو میں حکومت بناؤں گا - تو آپ پوچھتے ہیں کہ حکومت بنانے کے بعد تیرا منشور کیا ہوگا تو وہ یہ کہے کہ ساری ہائی کورٹ کو بند کردوں گا - تمام سپریم کورٹ کو ختم کردوں گا - تمام ماتحت عدالتوں کو ختم کردوں گا - تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیا ملک میں قانون چلانے کی اہلیت رکھتا ہے؟ [نہیں] ایسا آدمی جو ہے وہ توہین عدالت کا مرتکب ہے یا نہیں؟ [ہے] تو ایسے لوگ جو توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں وہ دراصل قانون کے ہی منکر ہوا کرتے ہیں
اللہ تبارک وتعالی نے تو یہ باتیں نہایت آسانی کے ساتھ سمجھائی ہیں - کیونکہ وجہ یہ ہے کہ فقہ کی ضرورت بہت زیادہ ہے اور عوام کو ہے - اس لئے ایسے انداز میں سمجھائی گئی ہے یہ ضرورت کہ ہر آدمی اس کو سمجھ جائے
فقہ بزبان قرآن
قرآن پاک سے جب یہ پوچھا گیا کہ فقہ کہتے کس کو ہیں تو قرآن نے ایک مثال بیان فرمائی "لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم" یعنی جس طرح جو پانی اللہ نے زمین کے اوپر پیدا کیا ہے جو بہہ رہا ہے - دریاؤں کی صورت میں بہت سارا پانی ذخیرہ زمین کی تہہ کے نیچے چھپا رکھا ہے تو اللہ نے پانی کی مثال دے کر سمجھایا کہ جتنا پانی تمہاری زندگی میں پانی ضروری ہے خواہ تم کسی علاقے میں رہتے ہو اتنی ہی تمہاری زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے - جس طرح تم پانی کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے اسی طرح تم فقہ کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے - لیکن آپ ہر جگہ پانی پیتے ہیں یا نہیں؟ [پیتے ہیں] استمعال کرتے ہیں یا نہیں؟ [کرتے ہیں] اب وہ پانی آپ کسی کنوئیں سے لے آئیں - کسی کے نلکے سے لے آئیں - کسی کے ٹیوب ویل سے لے آئیں - آپ کے دل میں کبھی یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ پانی نلکے والے آدمی کا پیدا کیا ہوا ہے اللہ کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - کبھی آپ کے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ یہ پانی کنواں کھودنے والے نے پیدا کیا ہے ، خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - کبھی آپ کے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ یہ پانی ٹیوب ویل لگانے والے نے پیدا کیا ہے ، خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - آپ روزانہ پانی پیتے ہیں - ایک نے راستے میں نلکا لگادیا آپ نے پانی پیا - پہلے شکر خدا کا ادا کیا کہ یااللہ یہ تیری نعمت ہے اور پھر اس کے لئے دعا کی کہ اللہ اس کو بھی خوش رکھ جس نے گرمی میں راستے میں نلکا لگادیا اور تیرے پیدا کردہ پانی کو ظاہر کردیا ہے تاکہ اس کا استعمال آسان ہوجائے - تو جس طرح ٹیوب ویل میں پانی ہے ، کنوئیں میں پانی ہے ، نلکے میں پانی ہے ، یہ خدا کا ہی پیدا کیا ہوا ہے - یہ نلکا لگانے والے نے آسانی بنادی ہے ہمارے لئے تاکہ اس پانی کا استعمال ہمارے لئے آسان ہوجائے - ورنہ ایک قطرہ بھی اس نے پانی خود پیدا نہیں کیا
تو اللہ تعالی نے لفظ استنباط یہاں استعمال فرماکر یہ بات سمجھادی کہ جس طرح ہر علاقے میں تمہیں پانی کی ضرورت ہے - اور پانی پیتے ہوئے کبھی تمہیں وسوسہ نہیں آیا کہ نلکے کا پانی خدا نے پیدا نہیں کیا
اسی طریقہ سے آج تک آپ کے دل میں ایسا وسوسہ آیا کبھی؟ [نہیں] اب اگر کوئی بیوقوف اور پاگل شور مچائے کہ دیکھو جو پانی براہ راست آسمان سے آتا ہے اس کے نیچے یہ منہ کرکے پینا یہ تو خدا کا پانی پینا ہے اور نلکے سے پانی پینا شرک ہے کیونکہ اس میں انسانی محنت کا دخل ہوگیا ہے - کنوئیں سے پانی پینا حرام ہے کیونکہ یہ پانی انسان نے محنت کرکے نکالا ہے - ٹیوب ویل سے پانی پینا شرک ہے ، کفر ہے ، بدعت ہے ، کیونکہ اس میں انسانی محنت کا دخل ہوگیا ہے
تو دیکھو اللہ تبارک وتعالی نے ایسی آسان اور عام فہم مثال سے ہمیں بات سمجھادی - اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایک فرقہ اور جماعت کھڑی ہوجائے کہ آپ ہمیں ووٹ دیں ہم ملک میں قانون بنانا چاہتے ہیں - آپ ان سے پوچھیں کہ آپ کا منشور کیا ہے؟ وہ کہیں کہ جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو کسی گھر میں نلکا نہیں رہنے دیں گے - جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو دنیا میں کوئی کنواں باقی نہیں رہنے دیں گے - جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو دکوئی ٹیوب ویل باقی نہیں رہنے دیں گے - صرف بارش کے پانی پر گزارہ ہوگا اور اس کے سوا کسی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم خدا کے ماننے والے ہیں - ہم ان بندوں کے پیچھے لگنے والے نہیں ہیں - تو میں آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا فرقہ ملک کو کامیاب کرے گا یا اجاڑے گا؟ [اجاڑے گا]
تو اب دیکھئے یہ کہنا کہ ہم اسلام چاہتے ہیں لیکن اسلامی فقہ کا قانون نہیں آئے گا ، یہ بالکل ایسی ہی جہالت اور بے وقوفی کی بات ہے کہ ہم ملک میں قانون چاہتے ہیں ، پانی کی ضرورت ہے لیکن نلکے کی ضرورت نہیں ہے - نلکا ہوگا تو اکھاڑ دیا جائے گا - ٹیوب ویل برباد کردیئے جائیں گے - تو کیا ایسا فرقہ کبھی ملک کو چلاسکتا ہے؟ [نہیں] جو فرقہ آج تک ہمارے سامنے اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ایک رکعت نماز کے مسائل نہیں بتاسکتا وہ بھی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ میں ملک کو چلاسکتا ہوں ، جو فرقہ ایک رکعت نماز کے مسائل نہیں بتاسکتا ، جو چائے کی پیالی میں پڑا ہوا مچھر نہیں نکال سکتا - جیسے جھوٹے خدا نمرود کو مچھر نے مار ڈالا تھا - یہ جھوٹا مذہب تو ایک مچھر سے مرجاتا ہے - وہ مچھر سامنے ٹوں ٹوں کررہا ہے - ہمت ہے تو نکالو مجھے ، ارے جو مچھر سے مار کھا جائے وہ ملک کا قانون چلاسکتا ہے؟ ان کو کیا حق ہے کہ ملک میں قانون چلانے کا نام لیں
فقہ بزبان سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح بخاری شریف میں ایک اور مثال ہے - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو دین مجھ پر نازل فرمایا اس کی مثال بارش کے پانی کی ہے - جب یہ بارش زمین پر نازل ہوتی ہے تو زمیں تین قسم کی ہوتی ہے - ایک وہ زمین جہاں پانی تالاب کی شکل بن کر کھڑا ہوجاتا ہے - ایک وہ کھیت ہیں کہ جس کو بخاری شریف میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے "ارض طیبہ" فرمایا کہ وہ پاکیزہ زمین اس نے اپنا سینہ کھول دیا اور پانی اندر جذب ہوگیا - اب ہماری زندگی کی تمام ضروریات اللہ تعالی نے اسی پانی کی برکت سے اس کھیت میں پیدا فرمادی ہیں - ہمیں گندم کی ضرورت ہے تو وہ تالاب میں ہوتی ہے یا کھیت میں؟ [کھیت میں] ہمیں گنے کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتا ہے؟ [کھیت میں] ہمیں جو اور باجرے کی ضرورت ہے وہ کہا ملتا ہے؟ [کھیت میں] ہمیں کپاس کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتی ہے؟ [کھیت میں] ہمیں آم ، انار ، کیلا ، سیب ان پھلوں کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں پھولوں کی ضرورت ہے خوشبو کے لئے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں جڑی بوٹیوں کی ضرورت ہے دوا کے لئے وہ کہاں ہوتی ہیں؟ تو اس کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہ سے تعبیر فرمایا - تالاب مثال ہے حدیث کی کتاب کی ، جس طرح تالاب میں ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ اپنی آنکھوں سے پانی دیکھ لیتا ہے - اس طرح حدیث کی کتاب میں "قال قال رسول اللہ" کے الفاظ نظر آجاتے ہیں لیکن کھیت میں ہر ایک کو پانی نظر نہیں آتا - عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ اس کھیت میں جتنی بھی فصل پیدا ہوتی ہے وہ ساری اسی پانی کی ہی برکت ہے - اب کھیت مکمل ہے اور تالاب اس میں مکمل چیزیں نہیں - اس لئے یہ تالاب والا خود بھی جاکر کھیت والے سے چیزین وصول کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی محدثین ہوئے ہیں وہ کسی نا کسی امام کے مقلد ہوئے ہیں - محدثین کے حالات پر جو کتابیں خود محدثین نے لکھی ہیں وہ چار ہی قسم کی ہیں - طبقات حنفیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات حنابلہ ، طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث نے محدث نے محدثین کے حالات میں نہیں لکھی تو اس لئے یہ کھیت کی تیسری زمین وہ ہے - جو ایک ٹیلہ تھا تو وہاں پانی نہ تالاب کی شکل میں کھڑا ہوا اور نہ وہاں کھیت کی طرح فصل اگی - لیکن جو لوگ یہاں آباد ہیں ان کو بھی ضروریات زندگی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ [ہے] اب یہ ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لئے کھیت والے کے پاس آئیں گے اور حاصل کرنے کے طریقے دو ہیں - ایک جائز دوسرا ناجائز ہے - تو جائز طریقے سے ان سے چیز لے لینا اس کو کہتے ہیں تقلید ، اور چوری کرلینا ، گنے یہاں سے اکھاڑے اور کھاگئے اور چھلیاں اگلے کھیت سے جاکر اتارلیں - آخر زندگی تو بے چارے نے گزارنی ہے نا؟ [جی] تو اس کو کہتے ہیں غیرمقلدیت ، تو اسی طرح:
کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
لطیفہ :: بے چاروں کا کوئی مذہب ہی نہیں ، اس پر ایک لطیفہ یاد آیا - شادی تھی کسی کی - تو شادی میں مہمان دو طرفہ ہوتے ہیں - ایک بارات کے ساتھ آتے ہیں - اور ایک لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے - ایک آدمی نے روٹی کھانی تھی - ان کا رشتہ دار نہیں تھا ، اس نے کہا کہ کسی طرح میں بھی بیٹھ جاؤں ، اب سوچنے لگا کہ بارات والوں میں بیٹھوں یا میل والوں میں بیٹھوں؟ تو سوچتا رہا آخر درمیان میں بیٹھ گیا - ایک جگہ اب بارات بیٹھی ہے - آپس میں تعارف ہورہا ہے کہ یہ کون ہے ، یہ کون ہے - یہ لڑکی کا سسر ہے - چلتے چلتے رشتے پوچھے جارہے ہیں - اب اس پر بھی آئے کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں لڑکی کا ٹٹورا ہوں - تو لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی نیا رشتہ ہے غیرمقلدوں والا ، پہلے تو کبھی سنا نہیں - ٹٹورا کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا کہ لڑکی کا باپ اور میں کسی زمانہ میں ٹٹو چلایا کرتے تھے - اب وہ سمجھ گیا کہ یہ صرف کھانے کا بہانہ ہے - یہ رشتہ ہم نہیں جانتے تو غیرمقلدوں میں کوئی ایسا رشتہ تو ہوگا تو عام لوگوں میں کوئی ایسا رشتہ نہیں ہوتا - انہوں نے کہا کہ آپ جائیں ہم ایسے رشتے تو پہچانتے نہیں ، اب یہ بے چارہ بڑا پریشان ہوا کہ کھانا کھانا تھا نیا رشتہ بھی گھڑا لیکن کھانا نہیں ملا - تو اس کے پاس ایک ڈنڈا تھا اس نے منہ کو لگالیا اور باجے والوں کے ساتھ ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا - اب جب باجے والے روٹی کھانے لگے تو کھلانے والے نے دیکھا کہ باقی کے پاس تو باجے ہیں لیکن ڈنڈا والا ہے یہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم سارے روٹی کھالو لیکن تم سارے اپنا اپنا باجا بجاکر دکھاؤ - اب سب نے اپنا باجا بجاکر سنادیا - جب اس کی باری آئی تو کہا کہ تم بھی بجاؤ - اس نے کہا میرا اکیلا نہیں بجتا ، سب میں ملا جلتا بجتا ہے
تو بالکل یہی بات غیرمقلد کہتا ہے کہ میرا اکیلا کوئی مذہب نہیں - سب میں ملا جلا میرا مذہب ہے - تو ان بے چاروں کا مسلک کیا ہے چوری ڈاکے کا مسلک ہے - دو چار مسئلے شافعیوں سے چرالئے - کہتے ہیں کہ جی ہم تمہارے جیسے ہیں - ہم آپ جیسے ہیں - ان کے ساتھ مل گئے اور پھر دو چار مسئلے حنبلیوں سے لے لئے ان کے پاس چلے گئے کہ جی ہم آپ جیسے ہیں - اب پاکستان میں ہمارے فرقہ کے چند آدمی رہتے ہیں اور بالکل یتیم و مسکین فرقہ ہے جو آپ کے پاس زکوۃ ہو ہم یتیموں مسکینوں کو دے دیا کرو کیونکہ اور دنیا میں ہمارا فرقہ موجود نہیں ہے
اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
فقہ کی مثال
تو اب اندازہ لگائیں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہ کی مثال دی ہے کھیت سے اور باقی جتنے لوگ ہیں ان کو بھی ضروریات زندگی کے لئے کھیت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ [ہے]
اب ہم لوگ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے محنت کرکے جو کھیت پکایا تھا اس کی فصل کھارہے ہیں اور عقیدہ یہی رکھتے ہیں کہ اس فصل کا پیدا کرنے والا خدا ہے - اور اوپر محنت کرنے والا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں - ہم خدا کا بھی شکریہ ادا کر رہے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بھی دعائیں دے رہے ہیں
اب آپ کے پاس کوئی جماعت آئے ووٹ لینے کے لئے ، بھائی ووٹ لے کر آپ کیا کریں گے؟ کہ ہم ملک میں قانون چلائیں گے - آپ کا منشور کیا ہوگا - اس نے کہا کہ سب سے پہلے ہم ملک کے سب کھیتوں کو آگ لگائیں گے اجاڑ دیں گے کیونکہ کھیت مثال ہے فقہ کی اور یہ مثال میں نے اپنی طرف سے بیان نہیں کی - بخاری شریف میں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے - تو دیکھئے جس طرح کھیت کے لئے پانی ضروری ہے اس طرح اسلامی زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے - کوئی کھیت بغیر پانی کے پنپ سکتا نہیں
اور جو کھیت کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے - اسی طرح جو فقہ کا دشمن ہے وہ اسلام کا دشمن ہے - تو جب بھی قانون آئے گا فقہ کی صورت میں آئے گا - یہ کہنا کہ اسلام تو نافذ ہو لیکن فقہ نافذ نہ ہو - یہ ایسی ہی بات ہے کہ ملک میں بارانی زمینیں رہیں لیکن کھیت وغیرہ سے فصل ہم اگنے نہیں دیں گے - بس بارش کا پانی پی پی کر ہم گزارہ کریں گے اور آپ کو بھی بارش کے پانی پر ہی رکھیں گے
فقہ حنفی کیا ہے؟اور فقہ جعفری کیا ہے؟
اب ہم جب واضح دلیلوں سے یہ بات سمجھا دیتے ہیں کہ فقہ کے بغیر کبھی بھی کسی ملک میں کوئی قانون نافذ نہیں ہوا - فقہ ہی کی شکل میں قانون آئے گا - تو اب دو باتوں سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے - ایک تو یہ بات کہی جاتی ہے کہ فقہ کتنی ہی ضروری سہی لیکن آپ نام نہ لیں - کیونکہ آپ فقہ حنفی کا نام لیں گے تو وہ فقہ جعفری کا نام لیں گے - اس لئے آپ کم از کم ان کا خیال کریں ، آپ فقہ حنفی کا نام لینا چھوڑ دیں
میں نے آپ سے پوچھا کہ فقہ کی بنیاد کتنی چیزیں ہیں؟ [چار] تو فقہ جعفری والوں کا قرآن غار میں ہے - تو ان کی فقہ کی پہلی بنیاد ہی نہیں - وہ فقہ کیسی جس کی بنیاد میں قرآن نہ ہو؟ اور دوسری بنیاد سنت ہے - تو شیعہ کے پاس حدیث کی کوئی کتاب ہی نہیں ، تو گویا دوسری بنیاد بھی موجود نہیں - اجماع امت تیسری بنیاد ہے - اس کو وہ مانتے نہیں ورنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق ماننا پڑے گا ورنہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ کو خلیفہ ماننا پڑے گا - اس لئے وہ اجماع کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں - تو فقہ کی تیسری بنیاد بھی ان کے پاس موجود نہیں - اور چوتھی بنیاد قیاس شرعی ہے - اور قیاس ہوتا ہے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر ، جب کتاب و سنت ہی نہیں تو قیاس ہوگا کہاں؟ تو اس لئے ان کے پاس نام ہے فقہ کا لیکن بنیاد ایک بھی نہیں تو وہ تو جھوٹا نام ہوا
تو اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ دنیا میں لوگوں نے سچے خدا کے مقابلے میں جھوٹا خدا بنائے یا نہیں؟ [بنائے] تو کیا خدا کا نام لینا چھوڑ دیں؟ [نہیں] اسی طرح اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیں تو کوئی ڈرائے کہ وہ بے شک سچے سہی ، لیکن اگر آب نام لیں گے تو قادیانی بھی مرزا کا نام لیں گے ، اس لئے جھوٹے نبی سے ڈر کر آپ سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا چھوڑ دیں تو اس کو آپ عقل مندی کہیں گے؟ [نہیں] ضعیف اور جھوٹی حدیثیں دنیا میں موجود ہیں یا نہیں؟ [ہیں] اب میں نے پڑھی حدیث اور دو آدمی کھڑے ہوجائیں مجھے مشورہ دینے کے لئے کہ آپ بالکل کوئی حدیث نہ پڑھیں خواہ کتنی ہی سچی کیوں نہ ہو؟ ورنہ لوگ جھوٹی حدیثیں پڑھیں گے پھر کیا اس مشورے سے ہم سچی حدیثیں پڑھنا چھوڑ دیں گے؟ [نہیں] آپ کے ملک میں جعلی کرنسی ہوتی ہے یا نہیں [ہوتی ہے] اب کوئی مشورہ دے کہ خبردار اپنے پاس کوئی کھرا پیسہ بھی نہ رکھنا کیونکہ ملک میں جعلی کرنسی بھی موجود ہے - آپ کے پیسے پاس رکھنے سے ان کو خواہ مخواہ شہ مل جائے گی اور جعلی سکہ بازار میں چلانا شروع کردیں گے - تو کیا واقعی آپ اس ڈر سے اپنے سارے پیسے پھینک دیں گے؟ [نہیں] جعلی دوائیں دنیا میں بنتی ہیں یا نہیں؟ [بنتی ہیں] تو اب آپ یہی کہیں گے نا کہ خبردار! کوئی اچھی دوا نہ پینا کیونکہ ملک میں جعلی دوا فروش موجود ہیں - ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی اس گناہ میں شرکت کرنی پڑے اور آپ کے اس صحیح دوا پینے کی وجہ سے ان لوگوں کا خواہ مخواہ حوصلہ بڑھ جائے اور جعلی اور جھوٹی دوائیں بیچنا شروع کردیں
تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ جو بات ہے کہ اس طریقہ سے آپ سچ چھوڑتے ہیں اور جھوٹ کو مانتے ہیں - تو فقہ میں بات کیوں نہیں مانی جاتی؟ ہم کہتے ہیں کہ سچی فقہ کو ہم کسی صورت بھی چھوڑیں گے نہیں اور جھوٹی فقہ کو کسی قیمت پر مانیں گے نہیں
اور ایک ڈراوہ اور دیا جاتا ہے کہ اگر ضرور ہی فقہ نافذ کرنی ہے تو آج کل کے وکلاء ہیں ، جسٹس ہیں ، پروفیسر ہیں ، عربی جانتے ہیں - یہ بھی تو عربی سے واقف ہیں تو ان لوگوں کو بٹھادیا جائے ، کہ یہ ایک [نئی] فقہ مرتب کرلیں - تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات مجھے ایک غیرمقلد وکیل نے کہی ایک تقریر میں ، تو میں نے کہا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کل جج آپ کے ملک میں ہیں کتنے؟ کہتا ہے تقریبآ دو ہزار ہیں - میں نے کہا کہ پہلے ہیں چار مذاہب ان میں سے صرف ایک یہاں ہے باقی تین یہاں نہیں ہیں - لیکن آپ شور مچاتے ہیں کہ چار مذہبوں میں اختلاف ہے تو جب دو ہزار فقہیں بنیں گی تو ان میں اختلاف ہوگا یا نہیں؟ کسی ملک میں دو ہزار فقہیں بیک وقت نافذ ہوسکیں گی؟ [نہیں] نافذ تو ایک ہی ہوگی ، تو جو فقہ خیرالقرون میں مرتب ہوئی ہے اس نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس کو چھوڑ کر ان لوگوں کو بٹھایا جائے جو کردار کے اعتبار سے زانی بھی ہیں ، جو شرابی بھی ہیں اور ان کو کہا جائے کہ تم قانون اسلامی مرتب کرو - جو اپنے جسموں کے لئے قانون اسلامی مرتب کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں - تو اصل بات یہی ہے کہ جب خدا کی کسی نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی عقل کو چھین لیتے ہیں - انہوں نے فقہ کی ناشکری کی - اب دیکھو یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کے خلاف رات دن بولیں گے - اگر کوئی زانی کہے کہ یہ فقہ ہے تو کہیں گے "امنا و صدقنا" ، کوئی شراپی کہے کہ میں فقہ بناتا ہوں تو سارے اس کے پیچھے لگ جائیں گے - تو میں تو کہا کرتا ہوں کہ یہ خدا کا عذاب اور قہر ہے کہ خیرالقرون کے مقابلے میں ایسی فقہ کی اجازت دینا اور ایسی فقہ کے پیچھے پڑنا
غیرمقلدین کی جہالت : تو یہ لکھا ہے کہ مسئلہ تراویح ضرور بیان کریں کہ تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟ بھائی آٹھ اور بیس کا دنیا میں کوئی جگھڑا ہی نہیں ہے - تراویح ہیں ہی بیس ، یہ جو لوگ آج کل جھگڑا ڈال بیٹھے ہیں - یہ اصل میں جگھڑا آٹھ اور بیس کا نہیں ہے - جھگڑا ہے کہ نماز تراویح کوئی نماز ہے بھی یا نہیں - شیعہ کھل کر کہتے ہیں کہ نماز تراویح ہے ہی نہیں اور وہ پڑھتے بھی نہیں - اہل سنت والجماعت کھل کر کہتے ہیں کہ نماز تراویح ایک مستقل نماز ہے جو صرف رمضان شریف میں پڑھی جاتی ہے - جیسے جمعہ صرف جمعہ کے دن پڑھا جاتا ہے - وہ بھی باقی گیارہ مہینے میں نہیں پڑھی جاتی
اب نہ تو غیرمقلدوں نے شیعوں کی طرح کھل کر انکار کیا اور نہ سنیوں کی طرح کھل کر اقرار کیا - انہوں نے کہا کہ وہ جو تہجد والی نماز ہے گیارہ مہینے اس کا نام تہجد ہوتا ہے اور بارہویں مہینے میں اس کا نام تراویح ہوتا ہے - نماز ایک ہی ہے گیارہ مہینے نام اور ہوتا ہے بارہویں مہینے نام اور ہوتا ہے
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں گیارہ مہینے اپنی بیوی کو بیوی کہا کرتا ہوں اور بارہویں مہینے ماں کہا کرتا ہوں - تو اب کوئی عقل مند پوچھے گا کہ اب وہ گیارہ مہینے بیوی رہی اور بارہویں مہینے ماں کیسے بن گئی؟
اب یہ کہتے ہیں کہ نماز ایک ہے لیکن فرق ہوگیا
نمبر [01] گیارہ مہینے نام تہجد ، بارہویں مہینے نام تراویح
نمبر [02] گیارہ مہینے اس کا وقت رات کا آخری حصہ اور بارہویں مہینے اس کا وقت اول حصہ
نمبر [03] گیارہ مہینے وہ اکیلے پڑھی جائے گی ، بارہویں مہینے جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی
نمبر [04] گیارہ مہینے گھر میں ، بارہویں مسجد میں
نمبر [05] گیارہ مہینے اس میں قرآن ختم کرنا کوئی ضروری نہیں ، بارہویں مہینے قرآن ختم کرنا ضروری ہے
نمبر [06] گیارہ مہینے ان کا نام نفل ہوگا ، بارہویں مہینے اس کو سنت مؤکدہ کہا جائے گا
اب یہ جو چھ فرق انہوں نے بیان کئے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اسی چھ فرق کی ایک حدیث ہمیں سنادیں - قیامت تک یہ ایسی حدیث نہیں سناسکتے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہو کہ گیارہ مہینے اس کا نام یہ اور بارہویں مہینے اس کا نام یہ ہوگا
تراویح کا معنی
ان بے چاروں کو تو تراویح کا معنی بھی نہیں آتا - تراویح جمع کا لفظ ہے اس کا واحد ترویحہ ہے ، آپ چار رکعتوں کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں - کوئی تسبیح پڑھ لی ، اس کو کہتے ہیں ترویحہ ، تو عربی میں جمع تین سے شروع ہوتی ہے کم از کم ، اس سے پہلے شروع نہیں ہوتی - تو جب آپ نے چار رکعت پڑھ کر ایک دفعہ آرام کیا تو ہم کہیں گے کہ یہ ترویحہ ہے - آٹھ رکعتیں پڑھ کر پھر آرام کیا تو ہم کہیں گے کہ ترویحتین دو ترویحے ہوگئے - تو بارہ رکعتیں پڑھ کر جب تیسری دفعہ آرام کریں گے تو کم از کم اس پر لفظ تراویح استمعال ہوسکتا ہے - اس سے پہلے تو لفظ تراویح استمعال ہوسکتا ہی نہیں - اگر ان بے چاروں کو تراویح کا معنی بھی آتا ہوتا تو یہ کبھی آٹھ کے ساتھ لفظ تراویح استمعال نہ کرتے
غیرمقلدین کا دھوکہ
اب یہ جو حدیثیں آپ لوگوں کو دکھاتے ہیں وہ ساری تہجد کے بارہ میں ہیں - یہ ایسے ہی مثال سمجھیں - آپ یہاں عصر کے کتنے فرض پڑھتے ہیں؟ [چار] آج میں اعلان کرتا ہوں کہ عصر کے تین فرض ہیں - آپ کہیں گے وہ کیسے؟ میں کہوں گا کہ حدیث شریف میں ہے - میں ایک حدیث بھی پڑھ دیتا ہوں جس میں تین کا لفظ آگیا تو مولوی صاحب اٹھے کہ آپ کو حدیث کیوں نہیں ملی ہم خواہ مخواہ ایک رکعت زیادہ پڑھاتے رہے - انہوں نے اس حدیث کی کتاب پر حدیث دیکھی ٹھیک لکھا تھا تین رکعت لیکن ساتھ لفظ مغرب کا تھا عصر کا نہیں تھا - تو یہ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے تو عصر کی رکعتیں بتانی تھیں - یہ تو مغرب کی رکعتیں ہیں ، تو میں کہتا ہوں کہ آپ کو نہیں پتہ کہ یہ عصر اور مغرب ایک ہی نماز کے دو نام ہیں
بالکل یہی کیفیت ان کی ہے - کہتے ہیں کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے ، تو ہم کہتے ہیں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ جو نماز سارا سال پڑھی جاتی ہے اس کا نام تہجد ہے - تو یہ تو تہجد کی حدیث ہے - تو کہتے ہیں کہ پھر آپ کو تو پتہ ہی نہیں - یہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو نام ہیں
اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب بیس رکعت باجماعت ہورہی تھی - اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حیات تھی یا نہیں؟ [تھیں] ان میں نبی کی سنت کا اتنا جذبہ تھا جتنا آج کے غیر مقلدوں میں ہے؟ [زیادہ تھا] وہ کیسے؟ پہلے آج کا جذبہ سن لیں
غیر مقلدین کا جذبۂ اتباع سنت
آج ایک آدمی رمضان میں اس نے بالکل روزہ نہیں رکھا - کوئی نماز نہیں پڑھی - اس کے خلاف غیرمقلد کبھی کوئی اشتہار شائع نہیں کریں گے - نہ اسے کچھ کہیں گے جاکر ، یہ ہماری بے چاری تبلیغی جماعت ہے نا ، لوگوں نے ان کا نام رکھا ہے لسوڑہ پارٹی ، یہ جس کو چمٹ جاتے ہیں اس کو ایک دفعہ مسجد دکھا دیتے ہیں ، آگے اس کی مرضی - تو اب دیکھئے ان کا کام ہے بے نمازیوں کے پاس جانا بے چارے منتیں کرتے ہیں - ان کو لے آتے ہیں ایک دفعہ مسجد میں ، غیرمقلد کبھی بے نماز کے پاس نہیں جاتے ، جب ہماری تبلیغی جماعت نے منتیں کرکے نماز پر لگالیا تو اب وہ ہوگیا نمازی ، اب یہ غیرمقلد آجاتا ہے - کوئی ادھر سے آئے گا کوئی ادھر سے آئے گا - تیری نہیں ہوتی ، دوسرا ادھر سے آئے گا تیری نہیں ہوتی - تو یہ فرقہ ہے نمازیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے والا ، جب تک کوئی نماز نہیں پڑھتا اس وقت تک یہ کچھ نہیں کہتے جاکر - تو یہی حال رمضان شریف میں ہے - جس نے پانچوں نمازیں نہیں پڑھیں - روزہ نہیں رکھا ، نہ اس کے خلاف کوئی تقریر ہے ، نہ کوئی اشتہار ہے ، نہ کوئی انعامی چیلنج ہے
اب جس بے چارے نے روزہ رکھا ، پانچوں جماعتوں میں تکبیر اولی میں شریک ہوا - اب رات کو بے چارہ تراویح بیس پڑھ بیٹھا ، جناب اس کے کپڑے پھاڑیں گے - بیس ہزار روپے کا چیلنج پچیس ہزار روپے کا چیلنج ، اس بے چارے نے یہ گناہ کرلیا کہ بیس تراویح پڑھ بیٹھا
اب دیکھئے کہ فرشتے گیارہ مہینے جنت کو آراستہ کرتے ہیں رمضان کی خوشی میں ، اور غیرمقلد گیارہ مہینے میٹنگیں کرتے ہیں کہ پچھلے سال خانپور کی کس مسجد میں تراویح پر لڑائی نہیں کرائی تھی - اس دفعہ وہاں جاکر ضرور لڑائی کرانی ہے
اب آپ ان بے چاروں کا مشن دیکھیں ، ہے کیا - ہماری تبلیغی جماعت نماز پر لگاتی ہے - اب یہ کہتے ہیں کہ تیری نہیں ہوتی تیری نہیں ہوتی - یہ پھر بڑے خوش ہیں
یہ تبلیغی جماعت والے جب واپس جاتے ہیں نا رائیونڈ تو وہاں اپنی کاروائی سناتے ہیں - ہم نے یہ کہا اور ہمیں یہ کہا ، ہم نے یوں کیا - یہ غیرمقلد بھی رات کو بیٹھ جاتے ہیں اور کاروائی سناتے ہیں - ایک کہتا ہے کہ آج میں نے تین حاجیوں کو کہا تھا کہ تو بے نماز ہے - دوسرا کہتا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ تو مشرک بھی ہے - وہ کہتے ہیں شاباش تو زیادہ اچھا ہے - تیسرا کہتا ہے کہ میں نے آج سارا دن چھٹی لی تھی - اور پھر پھر کر ایک ایک دوکان پر کہہ رہا تھا کہ تم بے نماز ہو تمہاری نماز نہیں ہوتی - کہتے ہیں کہ جنت کا سرٹیفکیٹ آج تو لے کر آیا ہے - سب کچھ تو کرکے آیا اتنا اچھا کام
تو اب دیکھئے بعض ہمارے حنفی دوست بھی ان کی دیکھا دیکھی نکل جاتے ہیں - آٹھ پڑھ کر ، میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھ کر بات ختم کرتا ہوں ظہر سے پہلے آب کتنی سنتیں پڑھتے ہیں؟ [چار] یہ مؤکدہ ہیں یا غیر مؤکدہ؟ [مؤکدہ] ایک مشورہ میں آپ کو دوں گا ، مہینے میں آپ ایک دن کے بجائے دو پڑھا کریں - ٹھیک ہے؟ [نہیں] کیوں؟ مہینے میں ایک مرتبہ تو دیکھو آپ کے تصور میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئے گی کہ ہم چار سنتوں کو دو پڑھیں - آئے گی؟ [نہیں] اسی طرح بیس رکعت تراویح سنت مؤکدہ ہے - جس طرح ظہر کی چار رکعتوں کو دو پڑھ کر چلے جاتے ہیں وہ دو سنتوں کو ضائع کرتے ہیں - اور کس مہینے میں جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے - دو سنتیں کون سی ضائع کرتے ہیں؟ ایک تو یہ آٹھ پڑھ کر چلے گئے بارہ نہیں پڑھیں تو سنت پوری نہیں ہوئی - دوسرا قرآن بھی پورا نہیں سنا - ایک قرآن پڑھنا یا سننا یہ سنت ہے
تو اب اندازہ لگائیں رمضان شریف میں تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ نوافل بھی زیادہ پڑھے جائیں - کوشش کرتے ہیں نا اللہ کے نیک بندے؟ [جی] اور غیرمقلد بے چاروں کی تو بات ہی نہیں ، دیکھو وہ نماز کے دشمن ہیں نا غیرمقلد؟ [جی] تو خدا نے ان پر ایک عذاب بھیجا ہوا ہے - شاید آپ نے دیکھا ہوا ہے - آگے پیچھے خارش ہو یا نہ ہو نماز میں ان کو ضرور خارش ہوتی ہے - کبھی یہاں انگلی ہے ، کبھی یہاں ہے ، کبھی یہاں ہے - اب جب نماز شروع ہوئی تو اللہ تعالی نے ان پر خارش مسلط کری ہوئی ہے - پس جب نماز سے فارغ ہوئے نہ کوئی خارش نہ کچھ ، سکون سے نماز پڑھ سکتا ہی نہیں - غیرمقلد یہ کہتا ہے کہ تمہاری نماز نہیں ہوتی لیکن ان کا نقشہ دیکھنے والا ہوتا ہے کہ ان غیرمقلدوں کی کیسے ہوتی ہے؟
تو اس لئے بیس رکعت تراویح جو ہیں یہ سنت مؤکدہ ہیں جو کہیں کہ آٹھ ہیں - آپ صرف ان سے ایک بات پوچھیں کہ آٹھ رکعت کے ساتھ تراویح کا لفظ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ، کسی خلیفہ راشد رضی اللہ عنہم سے ، کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے ، کسی ایک تابعی رحمہ اللہ سے ، کسی ایک تبع تابعی رحمہ اللہ سے دکھادیں؟ ہم پچیس ہزار انعام دیں گے
پورے خیرالقرون میں آٹھ رکعت کے ساتھ نماز تراویح کا لفظ ملتا ہی نہیں - بیس کے ساتھ ہم دکھائیں گے
حضرت علی رضی اللہ عنہ اکھٹا کرتے ہیں قاریوں کو ، فرماتے ہیں کہ تراویح پڑھاؤ "خمس ترویحات عشرین رکعة" - تراویح کا لفظ ساتھ موجود ہے - بیس رکعت کے ساتھ ہم دکھاسکتے ہیں ، لیکن آٹھ کے ساتھ تراویح کا لفظ یہ سارے غیرمقلد مل کر نہیں دکھاسکتے
تو اس لئے ہمارے جو حنفی دوست اتنی سستی کرتے ہیں - ان کے بارے میں کہہ رہا ہوں کہ آگے پیچھے لوگ تہجد کے لئے مشکل سے اٹھتے ہیں - رمضان میں اٹھ کر بھی تہجد سے محروم ہیں وہ تہجد نہیں پڑھتے ، لیکن آپ لوگ جو ہیں یہ تہجد بھی پڑھیں اور تراویح بھی بیس پوری پڑھیں
وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین
خطبات صفدر جلد اول صفحہ 197 تا 225
----4----
تو فقہ کو سمجھانے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا ہوں کیونکہ وقت بہت کم ہے - اب دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مکھی تمہارے پینے کی چیز میں گرجائے تو اسے غوطہ دے کر نکال کر پھینک دو ، اب یہ الفاظ مجھے یاد ہیں - اس کا ترجمہ بھی یاد ہے - لیکن ایک آدمی آگیا ، اس کے پاس دودھ کا گلاس ہے ، اس میں دو مچھر گرے ہوئے ہیں - وہ کہتا ہے کہ یہ مچھر پڑے ہوئے ہیں ان کو کس طرح نکالنا ہے ، اس کا مسئلہ کیا ہے؟ اب حدیث میں مچھر کا لفظ تو آتا نہیں کہ مچھر گرجائے تو کیسے نکالا جائے اور سینکڑوں جانور موجود ہیں چھوٹے چھوٹے وہ سارے گرجائیں تو کیسے نکالے جائیں؟ اس کے لئے اب الفاظ مجھے بھی آتے تھے - ترجمہ مجھے بھی یاد تھا - لیکن فقیہ نے مجھے یہ بتایا کہ ان الفاظ کے نیچے اللہ کے نبی نے ایک قاعدہ بیان فرمایا ہوا ہے - جو ہر شخص کو نظر نہیں آتا - اجتہاد کی خوردبین لگانے سے وہ نظر آیا کرتا ہے - تو انہوں نے بتایا کہ اس کے نیچے قاعدہ یہ ہے کہ مکھی ایک ایسا جانور ہے جس کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون نہیں اب ہر وہ ایسا جانور جس کی رگوں میں ایسا خون نہیں ہے اس کو مکھی پر قیاس کرکے اس کا یہی حکم معلوم کرلیا جائے گا جو مکھی کا ہے ، تو مچھر کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون نہیں ، اب مچھر کو مکھی پر قیاس کرکے نکال لیا گیا - اسی طریقہ سے بھڑ ہے ، جگنو ہے ، کیڑیاں ہیں ، چیونٹیاں ہیں ، ان کی رگوں میں بھی دوڑنے پھرنے والا خون نہیں اگرچہ حدیث میں ان کا لفظ نہیں آیا کہ یہ پینے کی چیز میں گرجائیں تو کیا کیا جائے؟ لیکن فقیہ نے حدیث سے یہ قاعدہ اخذ کرکے ان سب کا حکم معلوم کرلیا اس کو کہتے ہیں فقہ یعنی کتاب و سنت کے الفاظ میں بہت سے مسائل ہیں - اور بہت سے مسائل اس کی تہہ می اللہ تبارک وتعالی نے مستور رکھے ہیں ، ان کو نکالنا فقہ ہے
تقلید کیا ہے
جس طرح سطح سمندر کی سیر بھی انسانی صحت کے لئے مفید ہے - لیکن بہت سے موتی اس کی تہہ میں چھپا رکھے ہیں - ان کو حاصل کرنے کے لئے غوطہ خور کی ضرورت پڑتی ہے - ہر آدمی کا یہ کام نہیں اب غوطہ خور نیچے سے نکال لائے اور ہم شکریہ ادا کرکے ان سے حاصل کرلیں اس کو تقلید کہتے ہیں اور غیر مقلدیت یہ ہے کہ مجھے غوطہ لگانا تو آتا نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ میں اس غوطہ خور سے موتی لینے کے لئے تیار نہیں ، اب سب دانا مجھے یہی سمجھائیں گے کہ جب تو غوطہ خور نہیں تو تو غوطہ نہ لگانا - میں کہتا ہوں کہ جب یہ خود غوطہ لگاکر نیچے سے لایا ہے تو میں بھی خود نیچے جاؤں گا تو اس کے بعد میں نے سب کے روکنے کے باوجود غوطہ لگادیا - اب لوگ سارے دیکھ رہے ہیں کہ باقی غوطہ خور تو موتی لے کر اوپر آگئے لیکن یہ خود ہی اوپر نہیں آیا
تو تقلید کہتے ہیں کہ غوطہ خور سے موتی لے کر استمعال کرلیا جائے اور اسی کو مقلد کہتے ہیں - اور غیرمقلد کہتے ہیں کہ جو خود ڈوب کر مرجائے نہ موتی نصیب ہو اور نہ اس کی زندگی باقی رہے ، تو اس لئے فقہ جو ہے یہ کتاب و سنت کی تہہ سے مسائل کے دریافت کرلینے کا نام ہے - اور دین کے مکمل مسائل صرف فقہ میں ملتے ہیں اور کسی علم میں نہیں ملتے تو یہ جو فقہاء بنیں گے یہ کیا کام کریں گے - پوری قوم کا اعتماد اپنے اس فقیہ پر ہوگا - فتوی ان ہی کا چلے گا ، علماء حضرات جانتے ہیں کہ آیت میں جو لفظ "لینذروا قومہم اذا رجعوا اليہم" آیا ہے - یہ انداز نذیر اور بشیر صفتیں دراصل نبیوں کی اللہ تبارک وتعالی بیان فرماتے ہیں قرآن پاک میں: "انا ارسلناك شاھدا ومبشرا ونذیرا [القرآن]
فقہاء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں : اس آیت میں یہ صفت فقہاء کی بیان کرکے فرمادیا کہ نبیوں کے اگر کامل وارث ہیں تو صرف فقہاء ہیں - اس لئے علامہ سرخسی رحمة اللہ تعالی عليہ مبسوط کا خطبہ یہیں سے شروع فرماتے ہیں "اعوذ باللہ جعل ولایة الانذار للفقہاء بعد الانبیاء" اللہ تعالی کی تعریف ہے کہ تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں کہ جس نے نبیوں کے وارث فقہاء بنادیئے - تو اس آیت میں بھی فقہاء کو نبیوں کا وارث قرار دے دیا گیا ہے - یہاں انداز اور "یحذرون" بچنا اور ڈرانا ان الفاظ پر غور کریں - تو بالکل یہی مفہوم قانون کا ہوا کرتا ہے - تو مطلب یہ کہ قانون صرف فقہ کا نافذ ہوگا جب بھی ہوگا
فقہ کے بغیر چارہ کار نہیں : ایک دوست تقریر کررہا تھا اور بڑے غصے میں کہنے لگا میں نے پکا ارادہ کرلیا ہے اور قسم کھالی ہے کہ فقہ کو ملک سے نکال کر دم لوں گا - میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ اللہ کے بندے ابھی تک تو فقہ تو اپنے مفتیوں سے نہیں چھین سکا - تیرے مفتی ہماری فقہ پر فتوے دے رہے ہیں - "فتاوی نذیریہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی ثنائیہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی ستاریہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی علماء اہلحدیث" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی غزنویہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں - تو جو ابھی اپنے مفتیوں سے فقہ نہیں چھین سکا وہ فقہ کو ملک سے کیسے نکال دے گا؟ میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ آپ تو ابھی تک فقہ کو اپنے مدرسے سے نہیں نکال سکے - تمہارے مدارس میں ہماری کتاب "ہدایہ" پڑھائی جارہی ہے - "شرح وقایہ" پڑھائی جارہی ہے - تو تم بتاؤ کہ تمہارے ہاں یہ تنخواہ جائز بھی ہے یا ناجائز ہے؟ تو میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ اگر آپ نے ضرور تجربہ کرنا ہے تں ملک سے نکالنے سے پہلے اپنے گھر سے پہلے نکال کر دیکھیں - ایک گھر سے ، اس نے کہا کہ نکال دی
اب جناب ظہر کا وقت آگیا نماز پڑھنی ہے ، سب بیٹھے ہیں - کہتا ہے کہ نماز پڑھو اس نے کہا نماز کی تو شرطیں معلوم نہیں کہ کتنی ہیں - کیونکہ فقہ میں لکھی تھیں وہ تو ہم باہر جاکر رکھ آئے ہیں - نماز کی رکعتوں کی تقسیم کا علم نہیں ہے کہ سنتوں کی نیت کتنی رکعتوں میں کرنی ہے؟ فرض کتنے پڑھنے ہیں؟ نوافل کتنے ہیں؟ یہ تقسیم فقہ کی کتاب میں تھی - اب ہم پڑھیں کیا؟ نماز کے ارکان کا پتہ نہیں - سجدہ سہو کے مسائل کا ، ایک دو مسائل کے سوا پتہ نہیں چلتا - تو اب کیسے نماز پڑھیں؟ وہ کہتا ہے کہ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ صرف فقہ سے ہم نہیں گئے بلکہ ہم تو خدا سے بھی گئے - کیونکہ خدا کی عبادت کرنے کا طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے - تو اس نے کہا کہ اچھا چلو سوچتے ہیں ، صلح کریں گے ان سے ، کھانا تو لے آؤ ، اس نے کہا کہ کیا لاؤں؟ کہتا ہے کہ دودھ لے آؤ - اس نے جواب میں کہا کہ دودھ تو بھینس کا ہے - اور بھینس کا لفظ قرآن میں بھی نہیں اور حدیث میں بھی نہیں تو بھینس کا دودھ تو فقہاء نے قیاس سے جائز کیا تھا - تو جب فقہ نکالی تو بھینس بھی ہم ان کے گھر باندھ آئے ہیں - نہ دودھ قسمت میں رہا نہ چائے قسمت میں رہی ، نہ گھی قسمت میں رہا نہ مکھن قسمت میں رہا حتی کہ لسی تک قسمت میں نہیں رہی ، تو ایسی فقہ نکالی اب کیا کریں - اس نے کہا پھر اور کوئی چیز اس نے کہا کہ دال پکائی تھی پانی میں ، وہ ہے - اگر کہیں تو لے آؤں اس نے کہا کہ چلو وہی لے آؤ ، اب ایسی ہنڈیا تھی اس نے ڈھانکا نہیں - اس میں جناب مچھر گرکر مرا ہوا ہے - چیونٹیاں گرکر مری ہوئی ہیں - دو تین بھڑیں اس میں بھنبھنارہی ہیں - دو چار مکھیاں ہیں - اور آٹھ دس چیونٹیاں اس میں مری ہوئی ہیں - اس نے کہا کہ اللہ کی بندی اس کو صاف تو کر دیتی اس نے کہا کہ کیسے صاف کرتی؟ فقہ کے بغیر چیونٹی نکلتی نہیں - فقہ کے بغیر مچھر نکلتا نہیں - فقہ کے بغیر یہ بھڑ نکلتی نہیں - فقہ کے بغیر جگنو نکلتا نہیں - فقہ کے بغیر تو یہ صاف ہی نہیں ہوگا ، اس لئے جب فقہ کو گھر سے نکال دیا ہے تو اب کیا صورت ہوگی؟ اب تو یہی ہے کہ چیونٹیاں کھانی پڑیں گی - یہ بھڑ تو زبان کو کاٹ کاٹ کر کھائے گی - یہ نکل نہیں سکتی کیونکہ وہ زبان جو فقہ کے خلاف بولتی ہے اس کا علاج یہی ہے کہ بھڑیں اس کو کاٹ کاٹ کر کے کھائیں اور فقہ کو نہ مانا تو یہ نکل سکتی نہیں
فقہ سے دین غالب رہے گا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک ایک جماعت جہاد میں مصروف رہے اور دوسری فقہ میں ، اس وقت تک فرمایا کہ دین کو سربلندی حاصل رہے گی - مجاہدین کا کام کیا ہے؟ ملک گیری ، ملک حاصل کرنا ، کیا کام ہے؟ [ملک حاصل کرنا] اور فقہاء کا کام کیا ہے؟ اس ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا تو اسی چیز سے سربلندی رہے گی نا؟ [جی]
فقہ حنفی کی ضرورت : اب دیکھئے قانون جو ہے وہ نافذ ہوا تو فقہ کی صورت میں نافذ ہوا - اب ہم جب مطالبہ کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کو نافذ کیا جائے تو کئی طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فقہ کو ہم نہیں مانیں گے ، صرف اسلام کا قانون آئے اور کتاب و سنت کا قانون آئے - لیکن یہ ایک فریب ہے اس کو ذرا سمجھیں مثال سے
مثال:: آپ کے ملک میں اس وقت کوئی قانون چل رہا ہے یا نہیں؟ [چل رہا ہے] ایک تو آپ کے ملک میں ہوتا ہے متن قانون [آئین] اسی کا نام کتاب و سنت ہے - جو آئین ہے اس کا نام کیا ہے [کتاب و سنت] اور بعض اوقات آئین میں کوئی چیز قابل تشریح ہو تو قومی اسمبلی خود اس کی تشریح کردیتی ہے - تو اس قومی اسمبلی کہ جگہ اسلام میں خلافت راشدہ ہے - اور ہر خلیفہ راشد اس اسمبلی کا خلیفہ راشد ہے - تو اب دیکھئے کوئی شخص صرف آئین کا نام لے کر خلافت راشدہ کو چھوڑنا چاہے - قومی اسمبلی سے صرف نظر کرے تو وہ ملک میں ملک کے آئین کو چلاسکتا ہے؟ [نہیں] پھر اس کے بعد آپ کے ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ ہوتی ہے - اس کا چیف جسٹس جو ہے یہ قانون ساز نہیں ہوتا قانون دان ہوتا ہے - لیکن اپنے ملک کے قانون کا اتنا ماہر ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ بطور نظیر قانون کی کتاب L.P.D میں نقل کرلیا جاتا ہے - اور جتنی ماتحت عدالتیں ہیں - ڈی سی صاحب کے ہاں کیس آئے تو کمشنر صاحب کے ہاں کیس آئے سینئر سول جج کے ہاں کیس آئے تو وہ اس کا حوالہ P.L.D کا حوالہ دے کر فیصلہ کرتا ہے - اس کے حوالے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا
جس کو آپ اپنی اصطلاح میں ہائی کورت کا چیف جسٹس کہتے ہیں اس کو اسلامی اصطلاح میں مجتہد کہا جاتا ہے - مجتہد بھی قانون ساز نہیں ہوتا قانون کا ماہر ہوتا ہے - اور جس طرح دنیاوی مجتہدین کے فیصلے P.L.D میں محفوظ کر لئے گئے - اسی طرح اسلام کے مجتہدین کے فیصلے P.L.D میں محفوظ کر لئے گئے - یہ ہدایہ ، یہ عالمگیری ، یہ شرح وقایہ یہ کتابیں بالکل ایسی حیثیت رکھتی ہیں اسلام میں ، جس طرح آپ کے ملک میں P.L.D کی کتابیں ہیں اور بھی اس طرح ماتحت عدالتیں اس P.L.D کا حوالہ دیتی ہیں - اسی طرح جو مفتی ہیں وہ قال ابو حنیفة ، قال شافعی ، قال احمد کہہ کر اپنا فتوی نقل کرتا ہے
لیکن بعض اوقات چیف جسٹس ایک ہوتا ہے - اور بعض اوقات ایک فل بنچ بیٹھتا ہے - جسے آپ کی اصطلاح میں سپریم کورٹ کہتے ہیں - اور اسلام کی اصطلاح میں اسے اجماع امت کہا جاتا ہے - اب اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ صرف پاکستان کا آئین رہے اور یہ ہائی کورٹ ختم کردی جائیں - سپریم کورٹ کو ملک سے ختم کردیا جائے - ماتحت ساری عدالتیں ختم کردی جائیں - تو کیا ملک کا نظام چل سکتا ہے؟ [نہیں] آج کل تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تو آئے لیکن اسلام میں قیاس شرعی اور اجتہاد اور فقہ کا دخل نہ ہو ، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جس طرح کوئی یہ کہے کہ آئین پاکستان تو نافذ رہے لیکن میں پاکستان میں رہتا ہوا ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول نہیں کروں گا - اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ صوبے میں رہتے ہوئے قبول نہیں تو قانون نافذ کون کرے گا یہاں؟ اور قانون چلے گا کس کے ذریعہ سے؟
کوئی آدمی یہ کہے کہ قانون اسلام تو آئے لیکن اجماعی مسائل جو ہیں وہ بطور قانون نافذ نہ کئے جائیں - تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں ملک پاکستان میں رہتے ہوئے ملک پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں - تو کیا کوئی ملک کسی بے وقوف کے کہنے سے ملک کی سپریم کورٹ کو ختم کرسکتا ہے؟ کیا کوئی صوبہ بغیر ہائی کورٹ کی عدالت کے قانون کو آگے چلاسکتا ہے؟ کوئی آدمی یہ کہے کہ میں ضلع میں رہوں گا لیکن ڈی سی کے فیصلے کا پابند نہیں ہوگا ، میں ڈویژن میں آباد رہوں گا لیکن کمشنر کے فیصلے کا پابند نہیں ہوں گا کیونکہ یہ P.L.D. کے حوالے دیتے ہیں - سیدھے آئین کے حوالے نقل کررہے - تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں مسلمان تو کہلاؤں گا لیکن اسلامی مفتیوں کے فیصلے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں - کیونکہ یہ اپنے فتوے میں قال ابو حنیفة لکھتے ہیں - یہ قال شافعی لکھتے ہیں - یہ قال احمد لکھتے ہیں - یہ قال مالک لکھتے ہیں - تو جس طرح ملک میں قانون نافذ ہوتا ہے ، اسی طرح ہر قانون ہوتا ہے - جس طرح اس میں ہائی کورٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا - سپریم کورٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور ماتحت عدالتوں کی بھی ضرورت ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا - جب بھی کوئی عدالت کا فیصلہ سنتا ہے تو اسے ایک ہی پتہ ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ اس جج کی ذاتی رائے نہیں بلکہ پاکستان کے قانون کا فیصلہ ہے - جب بھی وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ سنتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ یہ اس جج کی ذاتی رائے نہیں بلکہ آئین پاکستان کا ہی فیصلہ ہے - بالکل اسی طرح حضرات ائمہ مجتہدین وہ جو فقہ مرتب فرماگئے ہیں یہ ان کے ذاتی فیصلے نہیں بلکہ کتاب و سنت سے وہ استنباط کرکے دیئے ہیں
اب میں آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے سامنے کوئی آدمی آئے ، وہ یہ کہے کہ مجھے ووٹ دو میں حکومت بناؤں گا - تو آپ پوچھتے ہیں کہ حکومت بنانے کے بعد تیرا منشور کیا ہوگا تو وہ یہ کہے کہ ساری ہائی کورٹ کو بند کردوں گا - تمام سپریم کورٹ کو ختم کردوں گا - تمام ماتحت عدالتوں کو ختم کردوں گا - تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیا ملک میں قانون چلانے کی اہلیت رکھتا ہے؟ [نہیں] ایسا آدمی جو ہے وہ توہین عدالت کا مرتکب ہے یا نہیں؟ [ہے] تو ایسے لوگ جو توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں وہ دراصل قانون کے ہی منکر ہوا کرتے ہیں
اللہ تبارک وتعالی نے تو یہ باتیں نہایت آسانی کے ساتھ سمجھائی ہیں - کیونکہ وجہ یہ ہے کہ فقہ کی ضرورت بہت زیادہ ہے اور عوام کو ہے - اس لئے ایسے انداز میں سمجھائی گئی ہے یہ ضرورت کہ ہر آدمی اس کو سمجھ جائے
فقہ بزبان قرآن
قرآن پاک سے جب یہ پوچھا گیا کہ فقہ کہتے کس کو ہیں تو قرآن نے ایک مثال بیان فرمائی "لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم" یعنی جس طرح جو پانی اللہ نے زمین کے اوپر پیدا کیا ہے جو بہہ رہا ہے - دریاؤں کی صورت میں بہت سارا پانی ذخیرہ زمین کی تہہ کے نیچے چھپا رکھا ہے تو اللہ نے پانی کی مثال دے کر سمجھایا کہ جتنا پانی تمہاری زندگی میں پانی ضروری ہے خواہ تم کسی علاقے میں رہتے ہو اتنی ہی تمہاری زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے - جس طرح تم پانی کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے اسی طرح تم فقہ کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے - لیکن آپ ہر جگہ پانی پیتے ہیں یا نہیں؟ [پیتے ہیں] استمعال کرتے ہیں یا نہیں؟ [کرتے ہیں] اب وہ پانی آپ کسی کنوئیں سے لے آئیں - کسی کے نلکے سے لے آئیں - کسی کے ٹیوب ویل سے لے آئیں - آپ کے دل میں کبھی یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ پانی نلکے والے آدمی کا پیدا کیا ہوا ہے اللہ کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - کبھی آپ کے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ یہ پانی کنواں کھودنے والے نے پیدا کیا ہے ، خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - کبھی آپ کے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ یہ پانی ٹیوب ویل لگانے والے نے پیدا کیا ہے ، خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - آپ روزانہ پانی پیتے ہیں - ایک نے راستے میں نلکا لگادیا آپ نے پانی پیا - پہلے شکر خدا کا ادا کیا کہ یااللہ یہ تیری نعمت ہے اور پھر اس کے لئے دعا کی کہ اللہ اس کو بھی خوش رکھ جس نے گرمی میں راستے میں نلکا لگادیا اور تیرے پیدا کردہ پانی کو ظاہر کردیا ہے تاکہ اس کا استعمال آسان ہوجائے - تو جس طرح ٹیوب ویل میں پانی ہے ، کنوئیں میں پانی ہے ، نلکے میں پانی ہے ، یہ خدا کا ہی پیدا کیا ہوا ہے - یہ نلکا لگانے والے نے آسانی بنادی ہے ہمارے لئے تاکہ اس پانی کا استعمال ہمارے لئے آسان ہوجائے - ورنہ ایک قطرہ بھی اس نے پانی خود پیدا نہیں کیا
تو اللہ تعالی نے لفظ استنباط یہاں استعمال فرماکر یہ بات سمجھادی کہ جس طرح ہر علاقے میں تمہیں پانی کی ضرورت ہے - اور پانی پیتے ہوئے کبھی تمہیں وسوسہ نہیں آیا کہ نلکے کا پانی خدا نے پیدا نہیں کیا
اسی طریقہ سے آج تک آپ کے دل میں ایسا وسوسہ آیا کبھی؟ [نہیں] اب اگر کوئی بیوقوف اور پاگل شور مچائے کہ دیکھو جو پانی براہ راست آسمان سے آتا ہے اس کے نیچے یہ منہ کرکے پینا یہ تو خدا کا پانی پینا ہے اور نلکے سے پانی پینا شرک ہے کیونکہ اس میں انسانی محنت کا دخل ہوگیا ہے - کنوئیں سے پانی پینا حرام ہے کیونکہ یہ پانی انسان نے محنت کرکے نکالا ہے - ٹیوب ویل سے پانی پینا شرک ہے ، کفر ہے ، بدعت ہے ، کیونکہ اس میں انسانی محنت کا دخل ہوگیا ہے
تو دیکھو اللہ تبارک وتعالی نے ایسی آسان اور عام فہم مثال سے ہمیں بات سمجھادی - اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایک فرقہ اور جماعت کھڑی ہوجائے کہ آپ ہمیں ووٹ دیں ہم ملک میں قانون بنانا چاہتے ہیں - آپ ان سے پوچھیں کہ آپ کا منشور کیا ہے؟ وہ کہیں کہ جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو کسی گھر میں نلکا نہیں رہنے دیں گے - جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو دنیا میں کوئی کنواں باقی نہیں رہنے دیں گے - جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو دکوئی ٹیوب ویل باقی نہیں رہنے دیں گے - صرف بارش کے پانی پر گزارہ ہوگا اور اس کے سوا کسی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم خدا کے ماننے والے ہیں - ہم ان بندوں کے پیچھے لگنے والے نہیں ہیں - تو میں آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا فرقہ ملک کو کامیاب کرے گا یا اجاڑے گا؟ [اجاڑے گا]
تو اب دیکھئے یہ کہنا کہ ہم اسلام چاہتے ہیں لیکن اسلامی فقہ کا قانون نہیں آئے گا ، یہ بالکل ایسی ہی جہالت اور بے وقوفی کی بات ہے کہ ہم ملک میں قانون چاہتے ہیں ، پانی کی ضرورت ہے لیکن نلکے کی ضرورت نہیں ہے - نلکا ہوگا تو اکھاڑ دیا جائے گا - ٹیوب ویل برباد کردیئے جائیں گے - تو کیا ایسا فرقہ کبھی ملک کو چلاسکتا ہے؟ [نہیں] جو فرقہ آج تک ہمارے سامنے اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ایک رکعت نماز کے مسائل نہیں بتاسکتا وہ بھی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ میں ملک کو چلاسکتا ہوں ، جو فرقہ ایک رکعت نماز کے مسائل نہیں بتاسکتا ، جو چائے کی پیالی میں پڑا ہوا مچھر نہیں نکال سکتا - جیسے جھوٹے خدا نمرود کو مچھر نے مار ڈالا تھا - یہ جھوٹا مذہب تو ایک مچھر سے مرجاتا ہے - وہ مچھر سامنے ٹوں ٹوں کررہا ہے - ہمت ہے تو نکالو مجھے ، ارے جو مچھر سے مار کھا جائے وہ ملک کا قانون چلاسکتا ہے؟ ان کو کیا حق ہے کہ ملک میں قانون چلانے کا نام لیں
فقہ بزبان سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح بخاری شریف میں ایک اور مثال ہے - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو دین مجھ پر نازل فرمایا اس کی مثال بارش کے پانی کی ہے - جب یہ بارش زمین پر نازل ہوتی ہے تو زمیں تین قسم کی ہوتی ہے - ایک وہ زمین جہاں پانی تالاب کی شکل بن کر کھڑا ہوجاتا ہے - ایک وہ کھیت ہیں کہ جس کو بخاری شریف میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے "ارض طیبہ" فرمایا کہ وہ پاکیزہ زمین اس نے اپنا سینہ کھول دیا اور پانی اندر جذب ہوگیا - اب ہماری زندگی کی تمام ضروریات اللہ تعالی نے اسی پانی کی برکت سے اس کھیت میں پیدا فرمادی ہیں - ہمیں گندم کی ضرورت ہے تو وہ تالاب میں ہوتی ہے یا کھیت میں؟ [کھیت میں] ہمیں گنے کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتا ہے؟ [کھیت میں] ہمیں جو اور باجرے کی ضرورت ہے وہ کہا ملتا ہے؟ [کھیت میں] ہمیں کپاس کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتی ہے؟ [کھیت میں] ہمیں آم ، انار ، کیلا ، سیب ان پھلوں کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں پھولوں کی ضرورت ہے خوشبو کے لئے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں جڑی بوٹیوں کی ضرورت ہے دوا کے لئے وہ کہاں ہوتی ہیں؟ تو اس کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہ سے تعبیر فرمایا - تالاب مثال ہے حدیث کی کتاب کی ، جس طرح تالاب میں ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ اپنی آنکھوں سے پانی دیکھ لیتا ہے - اس طرح حدیث کی کتاب میں "قال قال رسول اللہ" کے الفاظ نظر آجاتے ہیں لیکن کھیت میں ہر ایک کو پانی نظر نہیں آتا - عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ اس کھیت میں جتنی بھی فصل پیدا ہوتی ہے وہ ساری اسی پانی کی ہی برکت ہے - اب کھیت مکمل ہے اور تالاب اس میں مکمل چیزیں نہیں - اس لئے یہ تالاب والا خود بھی جاکر کھیت والے سے چیزین وصول کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی محدثین ہوئے ہیں وہ کسی نا کسی امام کے مقلد ہوئے ہیں - محدثین کے حالات پر جو کتابیں خود محدثین نے لکھی ہیں وہ چار ہی قسم کی ہیں - طبقات حنفیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات حنابلہ ، طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث نے محدث نے محدثین کے حالات میں نہیں لکھی تو اس لئے یہ کھیت کی تیسری زمین وہ ہے - جو ایک ٹیلہ تھا تو وہاں پانی نہ تالاب کی شکل میں کھڑا ہوا اور نہ وہاں کھیت کی طرح فصل اگی - لیکن جو لوگ یہاں آباد ہیں ان کو بھی ضروریات زندگی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ [ہے] اب یہ ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لئے کھیت والے کے پاس آئیں گے اور حاصل کرنے کے طریقے دو ہیں - ایک جائز دوسرا ناجائز ہے - تو جائز طریقے سے ان سے چیز لے لینا اس کو کہتے ہیں تقلید ، اور چوری کرلینا ، گنے یہاں سے اکھاڑے اور کھاگئے اور چھلیاں اگلے کھیت سے جاکر اتارلیں - آخر زندگی تو بے چارے نے گزارنی ہے نا؟ [جی] تو اس کو کہتے ہیں غیرمقلدیت ، تو اسی طرح:
کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
لطیفہ :: بے چاروں کا کوئی مذہب ہی نہیں ، اس پر ایک لطیفہ یاد آیا - شادی تھی کسی کی - تو شادی میں مہمان دو طرفہ ہوتے ہیں - ایک بارات کے ساتھ آتے ہیں - اور ایک لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے - ایک آدمی نے روٹی کھانی تھی - ان کا رشتہ دار نہیں تھا ، اس نے کہا کہ کسی طرح میں بھی بیٹھ جاؤں ، اب سوچنے لگا کہ بارات والوں میں بیٹھوں یا میل والوں میں بیٹھوں؟ تو سوچتا رہا آخر درمیان میں بیٹھ گیا - ایک جگہ اب بارات بیٹھی ہے - آپس میں تعارف ہورہا ہے کہ یہ کون ہے ، یہ کون ہے - یہ لڑکی کا سسر ہے - چلتے چلتے رشتے پوچھے جارہے ہیں - اب اس پر بھی آئے کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں لڑکی کا ٹٹورا ہوں - تو لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی نیا رشتہ ہے غیرمقلدوں والا ، پہلے تو کبھی سنا نہیں - ٹٹورا کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا کہ لڑکی کا باپ اور میں کسی زمانہ میں ٹٹو چلایا کرتے تھے - اب وہ سمجھ گیا کہ یہ صرف کھانے کا بہانہ ہے - یہ رشتہ ہم نہیں جانتے تو غیرمقلدوں میں کوئی ایسا رشتہ تو ہوگا تو عام لوگوں میں کوئی ایسا رشتہ نہیں ہوتا - انہوں نے کہا کہ آپ جائیں ہم ایسے رشتے تو پہچانتے نہیں ، اب یہ بے چارہ بڑا پریشان ہوا کہ کھانا کھانا تھا نیا رشتہ بھی گھڑا لیکن کھانا نہیں ملا - تو اس کے پاس ایک ڈنڈا تھا اس نے منہ کو لگالیا اور باجے والوں کے ساتھ ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا - اب جب باجے والے روٹی کھانے لگے تو کھلانے والے نے دیکھا کہ باقی کے پاس تو باجے ہیں لیکن ڈنڈا والا ہے یہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم سارے روٹی کھالو لیکن تم سارے اپنا اپنا باجا بجاکر دکھاؤ - اب سب نے اپنا باجا بجاکر سنادیا - جب اس کی باری آئی تو کہا کہ تم بھی بجاؤ - اس نے کہا میرا اکیلا نہیں بجتا ، سب میں ملا جلتا بجتا ہے
تو بالکل یہی بات غیرمقلد کہتا ہے کہ میرا اکیلا کوئی مذہب نہیں - سب میں ملا جلا میرا مذہب ہے - تو ان بے چاروں کا مسلک کیا ہے چوری ڈاکے کا مسلک ہے - دو چار مسئلے شافعیوں سے چرالئے - کہتے ہیں کہ جی ہم تمہارے جیسے ہیں - ہم آپ جیسے ہیں - ان کے ساتھ مل گئے اور پھر دو چار مسئلے حنبلیوں سے لے لئے ان کے پاس چلے گئے کہ جی ہم آپ جیسے ہیں - اب پاکستان میں ہمارے فرقہ کے چند آدمی رہتے ہیں اور بالکل یتیم و مسکین فرقہ ہے جو آپ کے پاس زکوۃ ہو ہم یتیموں مسکینوں کو دے دیا کرو کیونکہ اور دنیا میں ہمارا فرقہ موجود نہیں ہے
اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
فقہ کی مثال
تو اب اندازہ لگائیں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہ کی مثال دی ہے کھیت سے اور باقی جتنے لوگ ہیں ان کو بھی ضروریات زندگی کے لئے کھیت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ [ہے]
اب ہم لوگ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے محنت کرکے جو کھیت پکایا تھا اس کی فصل کھارہے ہیں اور عقیدہ یہی رکھتے ہیں کہ اس فصل کا پیدا کرنے والا خدا ہے - اور اوپر محنت کرنے والا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں - ہم خدا کا بھی شکریہ ادا کر رہے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بھی دعائیں دے رہے ہیں
اب آپ کے پاس کوئی جماعت آئے ووٹ لینے کے لئے ، بھائی ووٹ لے کر آپ کیا کریں گے؟ کہ ہم ملک میں قانون چلائیں گے - آپ کا منشور کیا ہوگا - اس نے کہا کہ سب سے پہلے ہم ملک کے سب کھیتوں کو آگ لگائیں گے اجاڑ دیں گے کیونکہ کھیت مثال ہے فقہ کی اور یہ مثال میں نے اپنی طرف سے بیان نہیں کی - بخاری شریف میں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے - تو دیکھئے جس طرح کھیت کے لئے پانی ضروری ہے اس طرح اسلامی زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے - کوئی کھیت بغیر پانی کے پنپ سکتا نہیں
اور جو کھیت کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے - اسی طرح جو فقہ کا دشمن ہے وہ اسلام کا دشمن ہے - تو جب بھی قانون آئے گا فقہ کی صورت میں آئے گا - یہ کہنا کہ اسلام تو نافذ ہو لیکن فقہ نافذ نہ ہو - یہ ایسی ہی بات ہے کہ ملک میں بارانی زمینیں رہیں لیکن کھیت وغیرہ سے فصل ہم اگنے نہیں دیں گے - بس بارش کا پانی پی پی کر ہم گزارہ کریں گے اور آپ کو بھی بارش کے پانی پر ہی رکھیں گے
فقہ حنفی کیا ہے؟اور فقہ جعفری کیا ہے؟
اب ہم جب واضح دلیلوں سے یہ بات سمجھا دیتے ہیں کہ فقہ کے بغیر کبھی بھی کسی ملک میں کوئی قانون نافذ نہیں ہوا - فقہ ہی کی شکل میں قانون آئے گا - تو اب دو باتوں سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے - ایک تو یہ بات کہی جاتی ہے کہ فقہ کتنی ہی ضروری سہی لیکن آپ نام نہ لیں - کیونکہ آپ فقہ حنفی کا نام لیں گے تو وہ فقہ جعفری کا نام لیں گے - اس لئے آپ کم از کم ان کا خیال کریں ، آپ فقہ حنفی کا نام لینا چھوڑ دیں
میں نے آپ سے پوچھا کہ فقہ کی بنیاد کتنی چیزیں ہیں؟ [چار] تو فقہ جعفری والوں کا قرآن غار میں ہے - تو ان کی فقہ کی پہلی بنیاد ہی نہیں - وہ فقہ کیسی جس کی بنیاد میں قرآن نہ ہو؟ اور دوسری بنیاد سنت ہے - تو شیعہ کے پاس حدیث کی کوئی کتاب ہی نہیں ، تو گویا دوسری بنیاد بھی موجود نہیں - اجماع امت تیسری بنیاد ہے - اس کو وہ مانتے نہیں ورنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق ماننا پڑے گا ورنہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ کو خلیفہ ماننا پڑے گا - اس لئے وہ اجماع کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں - تو فقہ کی تیسری بنیاد بھی ان کے پاس موجود نہیں - اور چوتھی بنیاد قیاس شرعی ہے - اور قیاس ہوتا ہے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر ، جب کتاب و سنت ہی نہیں تو قیاس ہوگا کہاں؟ تو اس لئے ان کے پاس نام ہے فقہ کا لیکن بنیاد ایک بھی نہیں تو وہ تو جھوٹا نام ہوا
تو اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ دنیا میں لوگوں نے سچے خدا کے مقابلے میں جھوٹا خدا بنائے یا نہیں؟ [بنائے] تو کیا خدا کا نام لینا چھوڑ دیں؟ [نہیں] اسی طرح اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیں تو کوئی ڈرائے کہ وہ بے شک سچے سہی ، لیکن اگر آب نام لیں گے تو قادیانی بھی مرزا کا نام لیں گے ، اس لئے جھوٹے نبی سے ڈر کر آپ سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا چھوڑ دیں تو اس کو آپ عقل مندی کہیں گے؟ [نہیں] ضعیف اور جھوٹی حدیثیں دنیا میں موجود ہیں یا نہیں؟ [ہیں] اب میں نے پڑھی حدیث اور دو آدمی کھڑے ہوجائیں مجھے مشورہ دینے کے لئے کہ آپ بالکل کوئی حدیث نہ پڑھیں خواہ کتنی ہی سچی کیوں نہ ہو؟ ورنہ لوگ جھوٹی حدیثیں پڑھیں گے پھر کیا اس مشورے سے ہم سچی حدیثیں پڑھنا چھوڑ دیں گے؟ [نہیں] آپ کے ملک میں جعلی کرنسی ہوتی ہے یا نہیں [ہوتی ہے] اب کوئی مشورہ دے کہ خبردار اپنے پاس کوئی کھرا پیسہ بھی نہ رکھنا کیونکہ ملک میں جعلی کرنسی بھی موجود ہے - آپ کے پیسے پاس رکھنے سے ان کو خواہ مخواہ شہ مل جائے گی اور جعلی سکہ بازار میں چلانا شروع کردیں گے - تو کیا واقعی آپ اس ڈر سے اپنے سارے پیسے پھینک دیں گے؟ [نہیں] جعلی دوائیں دنیا میں بنتی ہیں یا نہیں؟ [بنتی ہیں] تو اب آپ یہی کہیں گے نا کہ خبردار! کوئی اچھی دوا نہ پینا کیونکہ ملک میں جعلی دوا فروش موجود ہیں - ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی اس گناہ میں شرکت کرنی پڑے اور آپ کے اس صحیح دوا پینے کی وجہ سے ان لوگوں کا خواہ مخواہ حوصلہ بڑھ جائے اور جعلی اور جھوٹی دوائیں بیچنا شروع کردیں
تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ جو بات ہے کہ اس طریقہ سے آپ سچ چھوڑتے ہیں اور جھوٹ کو مانتے ہیں - تو فقہ میں بات کیوں نہیں مانی جاتی؟ ہم کہتے ہیں کہ سچی فقہ کو ہم کسی صورت بھی چھوڑیں گے نہیں اور جھوٹی فقہ کو کسی قیمت پر مانیں گے نہیں
اور ایک ڈراوہ اور دیا جاتا ہے کہ اگر ضرور ہی فقہ نافذ کرنی ہے تو آج کل کے وکلاء ہیں ، جسٹس ہیں ، پروفیسر ہیں ، عربی جانتے ہیں - یہ بھی تو عربی سے واقف ہیں تو ان لوگوں کو بٹھادیا جائے ، کہ یہ ایک [نئی] فقہ مرتب کرلیں - تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات مجھے ایک غیرمقلد وکیل نے کہی ایک تقریر میں ، تو میں نے کہا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کل جج آپ کے ملک میں ہیں کتنے؟ کہتا ہے تقریبآ دو ہزار ہیں - میں نے کہا کہ پہلے ہیں چار مذاہب ان میں سے صرف ایک یہاں ہے باقی تین یہاں نہیں ہیں - لیکن آپ شور مچاتے ہیں کہ چار مذہبوں میں اختلاف ہے تو جب دو ہزار فقہیں بنیں گی تو ان میں اختلاف ہوگا یا نہیں؟ کسی ملک میں دو ہزار فقہیں بیک وقت نافذ ہوسکیں گی؟ [نہیں] نافذ تو ایک ہی ہوگی ، تو جو فقہ خیرالقرون میں مرتب ہوئی ہے اس نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس کو چھوڑ کر ان لوگوں کو بٹھایا جائے جو کردار کے اعتبار سے زانی بھی ہیں ، جو شرابی بھی ہیں اور ان کو کہا جائے کہ تم قانون اسلامی مرتب کرو - جو اپنے جسموں کے لئے قانون اسلامی مرتب کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں - تو اصل بات یہی ہے کہ جب خدا کی کسی نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی عقل کو چھین لیتے ہیں - انہوں نے فقہ کی ناشکری کی - اب دیکھو یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کے خلاف رات دن بولیں گے - اگر کوئی زانی کہے کہ یہ فقہ ہے تو کہیں گے "امنا و صدقنا" ، کوئی شراپی کہے کہ میں فقہ بناتا ہوں تو سارے اس کے پیچھے لگ جائیں گے - تو میں تو کہا کرتا ہوں کہ یہ خدا کا عذاب اور قہر ہے کہ خیرالقرون کے مقابلے میں ایسی فقہ کی اجازت دینا اور ایسی فقہ کے پیچھے پڑنا
غیرمقلدین کی جہالت : تو یہ لکھا ہے کہ مسئلہ تراویح ضرور بیان کریں کہ تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟ بھائی آٹھ اور بیس کا دنیا میں کوئی جگھڑا ہی نہیں ہے - تراویح ہیں ہی بیس ، یہ جو لوگ آج کل جھگڑا ڈال بیٹھے ہیں - یہ اصل میں جگھڑا آٹھ اور بیس کا نہیں ہے - جھگڑا ہے کہ نماز تراویح کوئی نماز ہے بھی یا نہیں - شیعہ کھل کر کہتے ہیں کہ نماز تراویح ہے ہی نہیں اور وہ پڑھتے بھی نہیں - اہل سنت والجماعت کھل کر کہتے ہیں کہ نماز تراویح ایک مستقل نماز ہے جو صرف رمضان شریف میں پڑھی جاتی ہے - جیسے جمعہ صرف جمعہ کے دن پڑھا جاتا ہے - وہ بھی باقی گیارہ مہینے میں نہیں پڑھی جاتی
اب نہ تو غیرمقلدوں نے شیعوں کی طرح کھل کر انکار کیا اور نہ سنیوں کی طرح کھل کر اقرار کیا - انہوں نے کہا کہ وہ جو تہجد والی نماز ہے گیارہ مہینے اس کا نام تہجد ہوتا ہے اور بارہویں مہینے میں اس کا نام تراویح ہوتا ہے - نماز ایک ہی ہے گیارہ مہینے نام اور ہوتا ہے بارہویں مہینے نام اور ہوتا ہے
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں گیارہ مہینے اپنی بیوی کو بیوی کہا کرتا ہوں اور بارہویں مہینے ماں کہا کرتا ہوں - تو اب کوئی عقل مند پوچھے گا کہ اب وہ گیارہ مہینے بیوی رہی اور بارہویں مہینے ماں کیسے بن گئی؟
اب یہ کہتے ہیں کہ نماز ایک ہے لیکن فرق ہوگیا
نمبر [01] گیارہ مہینے نام تہجد ، بارہویں مہینے نام تراویح
نمبر [02] گیارہ مہینے اس کا وقت رات کا آخری حصہ اور بارہویں مہینے اس کا وقت اول حصہ
نمبر [03] گیارہ مہینے وہ اکیلے پڑھی جائے گی ، بارہویں مہینے جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی
نمبر [04] گیارہ مہینے گھر میں ، بارہویں مسجد میں
نمبر [05] گیارہ مہینے اس میں قرآن ختم کرنا کوئی ضروری نہیں ، بارہویں مہینے قرآن ختم کرنا ضروری ہے
نمبر [06] گیارہ مہینے ان کا نام نفل ہوگا ، بارہویں مہینے اس کو سنت مؤکدہ کہا جائے گا
اب یہ جو چھ فرق انہوں نے بیان کئے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اسی چھ فرق کی ایک حدیث ہمیں سنادیں - قیامت تک یہ ایسی حدیث نہیں سناسکتے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہو کہ گیارہ مہینے اس کا نام یہ اور بارہویں مہینے اس کا نام یہ ہوگا
تراویح کا معنی
ان بے چاروں کو تو تراویح کا معنی بھی نہیں آتا - تراویح جمع کا لفظ ہے اس کا واحد ترویحہ ہے ، آپ چار رکعتوں کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں - کوئی تسبیح پڑھ لی ، اس کو کہتے ہیں ترویحہ ، تو عربی میں جمع تین سے شروع ہوتی ہے کم از کم ، اس سے پہلے شروع نہیں ہوتی - تو جب آپ نے چار رکعت پڑھ کر ایک دفعہ آرام کیا تو ہم کہیں گے کہ یہ ترویحہ ہے - آٹھ رکعتیں پڑھ کر پھر آرام کیا تو ہم کہیں گے کہ ترویحتین دو ترویحے ہوگئے - تو بارہ رکعتیں پڑھ کر جب تیسری دفعہ آرام کریں گے تو کم از کم اس پر لفظ تراویح استمعال ہوسکتا ہے - اس سے پہلے تو لفظ تراویح استمعال ہوسکتا ہی نہیں - اگر ان بے چاروں کو تراویح کا معنی بھی آتا ہوتا تو یہ کبھی آٹھ کے ساتھ لفظ تراویح استمعال نہ کرتے
غیرمقلدین کا دھوکہ
اب یہ جو حدیثیں آپ لوگوں کو دکھاتے ہیں وہ ساری تہجد کے بارہ میں ہیں - یہ ایسے ہی مثال سمجھیں - آپ یہاں عصر کے کتنے فرض پڑھتے ہیں؟ [چار] آج میں اعلان کرتا ہوں کہ عصر کے تین فرض ہیں - آپ کہیں گے وہ کیسے؟ میں کہوں گا کہ حدیث شریف میں ہے - میں ایک حدیث بھی پڑھ دیتا ہوں جس میں تین کا لفظ آگیا تو مولوی صاحب اٹھے کہ آپ کو حدیث کیوں نہیں ملی ہم خواہ مخواہ ایک رکعت زیادہ پڑھاتے رہے - انہوں نے اس حدیث کی کتاب پر حدیث دیکھی ٹھیک لکھا تھا تین رکعت لیکن ساتھ لفظ مغرب کا تھا عصر کا نہیں تھا - تو یہ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے تو عصر کی رکعتیں بتانی تھیں - یہ تو مغرب کی رکعتیں ہیں ، تو میں کہتا ہوں کہ آپ کو نہیں پتہ کہ یہ عصر اور مغرب ایک ہی نماز کے دو نام ہیں
بالکل یہی کیفیت ان کی ہے - کہتے ہیں کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے ، تو ہم کہتے ہیں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ جو نماز سارا سال پڑھی جاتی ہے اس کا نام تہجد ہے - تو یہ تو تہجد کی حدیث ہے - تو کہتے ہیں کہ پھر آپ کو تو پتہ ہی نہیں - یہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو نام ہیں
اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب بیس رکعت باجماعت ہورہی تھی - اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حیات تھی یا نہیں؟ [تھیں] ان میں نبی کی سنت کا اتنا جذبہ تھا جتنا آج کے غیر مقلدوں میں ہے؟ [زیادہ تھا] وہ کیسے؟ پہلے آج کا جذبہ سن لیں
غیر مقلدین کا جذبۂ اتباع سنت
آج ایک آدمی رمضان میں اس نے بالکل روزہ نہیں رکھا - کوئی نماز نہیں پڑھی - اس کے خلاف غیرمقلد کبھی کوئی اشتہار شائع نہیں کریں گے - نہ اسے کچھ کہیں گے جاکر ، یہ ہماری بے چاری تبلیغی جماعت ہے نا ، لوگوں نے ان کا نام رکھا ہے لسوڑہ پارٹی ، یہ جس کو چمٹ جاتے ہیں اس کو ایک دفعہ مسجد دکھا دیتے ہیں ، آگے اس کی مرضی - تو اب دیکھئے ان کا کام ہے بے نمازیوں کے پاس جانا بے چارے منتیں کرتے ہیں - ان کو لے آتے ہیں ایک دفعہ مسجد میں ، غیرمقلد کبھی بے نماز کے پاس نہیں جاتے ، جب ہماری تبلیغی جماعت نے منتیں کرکے نماز پر لگالیا تو اب وہ ہوگیا نمازی ، اب یہ غیرمقلد آجاتا ہے - کوئی ادھر سے آئے گا کوئی ادھر سے آئے گا - تیری نہیں ہوتی ، دوسرا ادھر سے آئے گا تیری نہیں ہوتی - تو یہ فرقہ ہے نمازیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے والا ، جب تک کوئی نماز نہیں پڑھتا اس وقت تک یہ کچھ نہیں کہتے جاکر - تو یہی حال رمضان شریف میں ہے - جس نے پانچوں نمازیں نہیں پڑھیں - روزہ نہیں رکھا ، نہ اس کے خلاف کوئی تقریر ہے ، نہ کوئی اشتہار ہے ، نہ کوئی انعامی چیلنج ہے
اب جس بے چارے نے روزہ رکھا ، پانچوں جماعتوں میں تکبیر اولی میں شریک ہوا - اب رات کو بے چارہ تراویح بیس پڑھ بیٹھا ، جناب اس کے کپڑے پھاڑیں گے - بیس ہزار روپے کا چیلنج پچیس ہزار روپے کا چیلنج ، اس بے چارے نے یہ گناہ کرلیا کہ بیس تراویح پڑھ بیٹھا
اب دیکھئے کہ فرشتے گیارہ مہینے جنت کو آراستہ کرتے ہیں رمضان کی خوشی میں ، اور غیرمقلد گیارہ مہینے میٹنگیں کرتے ہیں کہ پچھلے سال خانپور کی کس مسجد میں تراویح پر لڑائی نہیں کرائی تھی - اس دفعہ وہاں جاکر ضرور لڑائی کرانی ہے
اب آپ ان بے چاروں کا مشن دیکھیں ، ہے کیا - ہماری تبلیغی جماعت نماز پر لگاتی ہے - اب یہ کہتے ہیں کہ تیری نہیں ہوتی تیری نہیں ہوتی - یہ پھر بڑے خوش ہیں
یہ تبلیغی جماعت والے جب واپس جاتے ہیں نا رائیونڈ تو وہاں اپنی کاروائی سناتے ہیں - ہم نے یہ کہا اور ہمیں یہ کہا ، ہم نے یوں کیا - یہ غیرمقلد بھی رات کو بیٹھ جاتے ہیں اور کاروائی سناتے ہیں - ایک کہتا ہے کہ آج میں نے تین حاجیوں کو کہا تھا کہ تو بے نماز ہے - دوسرا کہتا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ تو مشرک بھی ہے - وہ کہتے ہیں شاباش تو زیادہ اچھا ہے - تیسرا کہتا ہے کہ میں نے آج سارا دن چھٹی لی تھی - اور پھر پھر کر ایک ایک دوکان پر کہہ رہا تھا کہ تم بے نماز ہو تمہاری نماز نہیں ہوتی - کہتے ہیں کہ جنت کا سرٹیفکیٹ آج تو لے کر آیا ہے - سب کچھ تو کرکے آیا اتنا اچھا کام
تو اب دیکھئے بعض ہمارے حنفی دوست بھی ان کی دیکھا دیکھی نکل جاتے ہیں - آٹھ پڑھ کر ، میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھ کر بات ختم کرتا ہوں ظہر سے پہلے آب کتنی سنتیں پڑھتے ہیں؟ [چار] یہ مؤکدہ ہیں یا غیر مؤکدہ؟ [مؤکدہ] ایک مشورہ میں آپ کو دوں گا ، مہینے میں آپ ایک دن کے بجائے دو پڑھا کریں - ٹھیک ہے؟ [نہیں] کیوں؟ مہینے میں ایک مرتبہ تو دیکھو آپ کے تصور میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئے گی کہ ہم چار سنتوں کو دو پڑھیں - آئے گی؟ [نہیں] اسی طرح بیس رکعت تراویح سنت مؤکدہ ہے - جس طرح ظہر کی چار رکعتوں کو دو پڑھ کر چلے جاتے ہیں وہ دو سنتوں کو ضائع کرتے ہیں - اور کس مہینے میں جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے - دو سنتیں کون سی ضائع کرتے ہیں؟ ایک تو یہ آٹھ پڑھ کر چلے گئے بارہ نہیں پڑھیں تو سنت پوری نہیں ہوئی - دوسرا قرآن بھی پورا نہیں سنا - ایک قرآن پڑھنا یا سننا یہ سنت ہے
تو اب اندازہ لگائیں رمضان شریف میں تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ نوافل بھی زیادہ پڑھے جائیں - کوشش کرتے ہیں نا اللہ کے نیک بندے؟ [جی] اور غیرمقلد بے چاروں کی تو بات ہی نہیں ، دیکھو وہ نماز کے دشمن ہیں نا غیرمقلد؟ [جی] تو خدا نے ان پر ایک عذاب بھیجا ہوا ہے - شاید آپ نے دیکھا ہوا ہے - آگے پیچھے خارش ہو یا نہ ہو نماز میں ان کو ضرور خارش ہوتی ہے - کبھی یہاں انگلی ہے ، کبھی یہاں ہے ، کبھی یہاں ہے - اب جب نماز شروع ہوئی تو اللہ تعالی نے ان پر خارش مسلط کری ہوئی ہے - پس جب نماز سے فارغ ہوئے نہ کوئی خارش نہ کچھ ، سکون سے نماز پڑھ سکتا ہی نہیں - غیرمقلد یہ کہتا ہے کہ تمہاری نماز نہیں ہوتی لیکن ان کا نقشہ دیکھنے والا ہوتا ہے کہ ان غیرمقلدوں کی کیسے ہوتی ہے؟
تو اس لئے بیس رکعت تراویح جو ہیں یہ سنت مؤکدہ ہیں جو کہیں کہ آٹھ ہیں - آپ صرف ان سے ایک بات پوچھیں کہ آٹھ رکعت کے ساتھ تراویح کا لفظ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ، کسی خلیفہ راشد رضی اللہ عنہم سے ، کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے ، کسی ایک تابعی رحمہ اللہ سے ، کسی ایک تبع تابعی رحمہ اللہ سے دکھادیں؟ ہم پچیس ہزار انعام دیں گے
پورے خیرالقرون میں آٹھ رکعت کے ساتھ نماز تراویح کا لفظ ملتا ہی نہیں - بیس کے ساتھ ہم دکھائیں گے
حضرت علی رضی اللہ عنہ اکھٹا کرتے ہیں قاریوں کو ، فرماتے ہیں کہ تراویح پڑھاؤ "خمس ترویحات عشرین رکعة" - تراویح کا لفظ ساتھ موجود ہے - بیس رکعت کے ساتھ ہم دکھاسکتے ہیں ، لیکن آٹھ کے ساتھ تراویح کا لفظ یہ سارے غیرمقلد مل کر نہیں دکھاسکتے
تو اس لئے ہمارے جو حنفی دوست اتنی سستی کرتے ہیں - ان کے بارے میں کہہ رہا ہوں کہ آگے پیچھے لوگ تہجد کے لئے مشکل سے اٹھتے ہیں - رمضان میں اٹھ کر بھی تہجد سے محروم ہیں وہ تہجد نہیں پڑھتے ، لیکن آپ لوگ جو ہیں یہ تہجد بھی پڑھیں اور تراویح بھی بیس پوری پڑھیں
وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین
خطبات صفدر جلد اول صفحہ 197 تا 225
نمبر 01 بیس رکعت تراویح دور نبوی میں
نمبر 02 تدوین فقہ حنفی
نمبر 03 فقہ حنفی کی خصوصیات
نمبر 04 فقہ حنفی پر عمل کرنا بہتر ہے یا قرآن و حدیث پر؟
نمبر 05 کیا فقہ حنفی کا ہر مسئلہ سند کے ساتہہ امام ابو حنیفہ سے ثابت ہے؟
نمبر 06 ائمہ فقہ
نمبر 07 مجلس فقہ کے [40] ارکان کا ثبوت
نمبر 08 ایک لامذہب تبرائی غیرمقلد کے فقہ حنفی پر چند اعتراضات کی حقیقت
نمبر 09 فقہ کی اہمیت اور مقام - حصہ اول
نمبر 10 فقہ کی اہمیت اور مقام - حصہ دوم
نمبر 11 مذہب حنفی آٹھ تراویح
نمبر 12 بیس تراویح کے دلائل
نمبر 13 فقہ حنفی کی تاریخ
----1----
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تراوىح
تراوىح کا حکم اورفضلیت
قال رسول اﷲ ﷺ وان اﷲ افترض عليکم صیامہ وسننت لکم فیامة فمن صامہ ایماناً واحساباً ٰغفرلہ ما تقدم من ذنبہ
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہىں اور میں نے تمہارے لیے اس کے قیام کو (تراوىح)سنت قرار دیا ہے پس جو شخص رمضان کے روزے رکھے اور قیام کرے (ترواىح پڑھے) ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ بخشش دئىے جائىں گئے۔(امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص287 مکتبہ امداىہ ملتان پاکستان)
نقطہ اختلاف
تین مسلک
1۔ اہل سنت والجماعت
اہل سنت والجماعت کے نزدىک بیس رکعات تراوىح رمضان المبارک کی مخصوص نماز ہے جو کہ گیارہ ماہ نہیں پڑھی جاتی بلکہ صرف رمضان المبارک مىں عشاءکی نماز کے بعد باجماعت مسجد میں ادا کی جاتی ہیں اور اس میں اىک قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے
2۔ شیعہ
جب کہ شیعہ حضرات کے نزدیک تراوىح کوئی عبادت نہیں وہ ترواىح کے منکر ہیں۔
3۔ غیر مقلد
لیکن غیر مقلدین حضرات بھی ترواىح کو رمضان المبارک کا تحفہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ سارا سال پڑھے جانے والی نماز ہے۔ فرق صرف اتنا ہے۔ ىہ نماز غیر رمضان میں ادا کی جائے تو تہجد کہلاتی ہے اور رمضان میں ادا کی جائے تو ترواىح کہلاتی ہے۔ گویا کہ ىہ بھی تراوىح کے منکر ہیں۔
بیس رکعت تراوىح دور نبویﷺ میں
1۔عن ابن عباس ان رسول اﷲ ﷺ کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات( ترواىح) اور وتر پڑھتے تھے۔ (امام بخاری کے استادکی کتاب ، مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص286 مکتبہ امداىہ ملتان پاکستان)
2۔ عن جابر بن عبد اﷲ خرج النبی ﷺ ذات لیلة فی رمضان فصلی الناس اربعة وعشرین رکعة و اوتر بثلاثة۔ (تارىخ جرجان ص 21)
ترجمہ :حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ رمضان المبار ک کی اىک رات باہر تشریف لائے تو لوگوں کو چوبیس رکعتیں(چار فرض اور بیس رکعات تراوىح) اور تین وتر پڑھائے۔
3۔حدیث: انہ ﷺ صلی بالناس عشرین رکعة لیلتین فلما کان فی اللیلة الثالثہ اجتمع الناس فلم یخرج اليہم، ثم قال من الغد وخشیت ان تفرض عليکم فلا تطیقوھا متفق علی صحتہ۔ (تلخیص الحبیر ج1ص21 المکتبہ الاثرىہ)
ترجمہ: آپ ﷺ نے صحابہ کو بیس رکعات تراوىح دو راتیں پڑھائیں پس جب تیسری رات ہوئی تو صحابہ کرام جمع ہوگئے آپﷺ باہر تشریف نہیں لائىں پھر آپﷺ نے دوسرے دن فرمایا مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ تم پر یہ نماز (ترواىح)فرض نہ کر دی جائے پس تم اس کی طاقت نہ رکھو۔
بیس رکعات تراوىح خلفاءراشدین کے دور میں
فقال رسول اﷲ ﷺفانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافا کثیر افعليکم بسنتی وسنتة الخلفاءراشدین المھدین تمسکوبھا وعضوا عليھا بالنوجذ وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة۔ (رواہ احمد و ابوداؤد و ترمذی و ابن ما جہ نقلاً عن المشکوة ج 1 ص 56 مترجم مکتبہ رحمانىہ)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص زندہ رہا میرے بعد تم میں سے وہ اختلاف دىکھے گا لازمی پکڑو میرا طریقہ کو اور ہدایت کىے گئے خلفاءراشدین کے طریقہ کو اس کے ساتھ بھروسہ کرو اور دانتوں سے اس مضبوط پکڑ لو۔ نئی نئی باتوں سے بچو پس تحقیق ہر نئی بات بدعت ہے ۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اس حدیث کے سندصحىح ہے امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں ىہ حد یث حسن صحىح ہے اور محدثین کی اىک جماعت نے اس حدیث کو صحىح قرار دیا ہے۔ نیز ضیا المقدسی مشہور و معروف محدث نے بھی اس کو صحىح قرار دیا ہے۔(اتباع السنن و اجتناب البدع بحوالہ مشکوة بتحقیق البانی ج1ص58 الحدیث165)
نوٹ:غىرمقلدین کے محقق اعظم فضىلة الشىخ علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اس حد ىث کو صحیح کہا ہے۔ (ابن ماجہ الحدیث 42 ، ابوداؤد الحدیث4607 ، ترمذی الحدیث2676 ، مشکوة الحدیث 165، الارواء2455)
عن حذیفة بن الیمان قال قال رسول اﷲﷺ انی لا ادری ما قدر بقائی فیکم فاقتلدو باللدین من بعدی اشار الی ابی بکر وعمرا ؓ۔
(ابن ماجہ ص33 الحدیث 97، ترمذی ص858 الحدیث 3799 وص832الحدیث3663,3662‘ مشکوة بتحقیق البانی ج 3ص1709الحدیث6061)
ترجمہ: حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میں نہیں جانتا تم میں کتنا عرصہ رہوں گا پس میرے بعد دو آدمیوں کی اقتدا کرو اور آپﷺ نے اشارہ کیا حضرت ابوبکر اور عمرؓ کی طرف۔
عن طلحہ بن عبید اﷲ، قال : قال رسول اﷲﷺ لکل ای رفیق، ورفیقی یعنی فی الجنة عثمان (رواہ الترمذی بحوالہ مشکوة ج3ص1712)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺ نے ارشادفر مایا ہر نبی کا اىک ساتھی ہوتا ہے میرا ساتھی (یعنی جنت میں) عثمانؓ ہوگا۔
عن عبدالرحمن بن سمرةؓ قال: یقال (رسول اﷲ ﷺ فی شان عثمان بن عفان ؓ ) ماضر عثمان ما عمل بعد الیوم مرتین۔ ( رواہ الترمذی بحوالہ مشکوةج3ص1713)
ترجمہ:رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے کہ آج کے دن کے بعد (جس دن حضرت عثمان ؓ نے اىک ہزار درہم خدا کی راہ میں مجاہدین کو دیا)عثمان کو کوئی گناہ نقصان نہیں دے گا۔
عن زر بن حبیش قال: قال علی ؓ والذی فلق الحبة وبر النسمة انہ لعہد النبی الامیﷺ الی: ان لا یحبنی الا مومن ولا یبغضنی الا منافق۔ (رواہ مسلم بحوالہ مشکوة ج3ص1719)
ترجمہ:حضرت علی المرتضیٰ ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ قسم ہے جس نے بىج کو پھاڑا اور پیدا کیا ذی روح کو کہ نبی ﷺ نے حکم کیا میری طرف ىہ کہ مجھ سے محبت کرنے والا مومن ہو گااور بغض کرنے والا منافق ہوگا۔
تراویح خلیفہ دوئم حضرت عمربن خطابؓ کے دور میں
1۔عن السائب بن یزید قال: کانوا یقومون علی عھد عمر فی شھر رمضان یعشرین رکعة، وان کانو الیقرءون بالمئین من القرآن۔ (امام بخاری ؒ کے استاد کی کتاب مسند علی بن جعد ص413‘ الحدیث2825)
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ(صحابہؓ و تابعینؒ) حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔
2۔عن الحسن ان عمر بن الخطاب ؓ جمع الناس علی ابی بن کعب فکان يصلی لھم عشرین رکعة۔ (ابو داود ج1ص202، سیر اعلام النبلا ج1ص400،جامع المسانید والسنن للحافظ ابن کثیر ج1ص55)
ترجمہ:حضرت حسن سے راویت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے لوگوں کے حضرت ابی بن کعب ؓ پر اکٹھا کردیا،آپ انہیں بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔
3۔عن یحییٰ بن سعید ان عمر بن الخطاب امر رجلا يصلی بھم عشرین رکعة۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393)
ترجمہ: حضرت یحییٰ بن سعید ؒ سے روایت ہے کہ حضت عمر بن خطاب ؓ نے اىک شخص کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھائے۔
تبصرہ: از قلم غیر مقلد عالم علامہ وحید الزماں
کوئی یہ وہم نہ کریں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی طرف سے دین میں اىک نئی بات(یعنی بیس رکعات تراویح باجماعت) شریک کر دی جس کا اختیار ان کو نہ تھا اسی طرح بیس رکعت تراویح کا حکم اپنی رائے سے دے دیا حاشاوکلا کہ حضرت عمر ایسا کرتے بلکہ انہوں نے طریقہ نبوی کا اتباع کیا۔۔۔۔۔۔اسی طرح حضرت عمر ؓنے ضرور آنحضرت ﷺ کو بیس رکعتیں تراویح بھی پڑھتے دےکھا ہوگا۔
تراویح خلیفہ سوئم حضرت عثمان بن عفانؓ کے دور میں
عن السائب بن یزید قال: کان یقومون علی عھد عمر بن الخطاب فی شھر رمضان، بعشرین رکعة، قال: وکانوا یقرون بالما تین وکانوا يتين علی عصيہم فی عھد عثمان بن عفان من شدة القیام قال: الشیخ ؓ وبمعناہ رواہ یزید بن رومان عن عمر بن الخطاب مرسلاً۔(فضائل الاوقات ص72، سنن الکبری بیہقی ج2ص496،)
ترجمہ: حضر ت سائن بن یزید ؒ فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہ کرام ؓ و تابعین ؒ) حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں رمضان المبارک میں بیس رکعتیں (تراویح)پڑھتے تھے۔اور فرماتے ہیں کہ وہ لوگ تراویح میں مئین سورتیں(دوسو آیتیں ) پڑھتے تھے اورحضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں لوگ شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے۔
تراویح خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضیؓ کے دور میں
عن ابی الحسنا انعلیا امر رجلا ان یصلی بالناس خمس ترویحات عشرین رکعة ( مصنف ابن ابی شیبہ ج2ص393)
ترجمہ : حضرت ابو الحسناؒ سر مروی ہے ہے کہ حضرت علی ؓ نے اىک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو پانچ ترویحے یعنی بیس رکعات تراویح پڑھایا کرے۔
----2----
تدوین فقہ حنفی
بسم الله الرحمن الرحیم امابعد
تدوین فقه حنفی قال الطحاوی کتب الی ابن ابی ثور یحدثنی عن سلیمان بن عمران حدثنی اسد بن الفرات قال کان اصحاب ابی حنیفة الذین دونوا الکتب اربعین رجلا فکان فی عشرۃ المتقدمین ابو یوسف و زفر و داؤد الطائی و اسد بن عمرو و یوسف بن خالد السمتی و یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ و کان یکتب لهم ثلاثین سنة الجواهر المضیه ج 2 ص 212
ترجمہ : امام طحاوی رحمه الله نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اصحاب امام میں سے چالیس آدمی ہیں جنہوں نے کتابیں مدون کیں ، پہلے دس میں ابو یوسف ، زفر ، داؤد الطائی ، اسد بن عمرو ؟ یوسف بن خالد اور یحیی بن زکریا تھے اور دوسری روایت میں ہے "وکان اصحاب ابی حنیفة الذی دونوا معه الکتب اربعین رجلا کبراء اکبرأ حسن التقاضی ص 12 یعنی امام صاحب نے چالیس بڑے بڑے ساتھیوں کو ساتھ ملاکر کتابوں کو مدون کرایا¤
حضرت امام صاحب رحمه الله 120ھ میں امام حماد رحمه الله کی وفات پر تدریس کے لئے بیٹھے اور 143ھ میں آپ رحمه الله نے فقہ کی تدوین شروع فرمائی تاریخ الخلفاء للسیوطی ، ذہبی ، حقیقۃ الفقہ ج 1 ص 94 علامہ شبلی رحمه الله نے بھی الفاروق صفحہ 45 پر تدوین فقہ کا یہی سال 143ھ درج کیا ہے . سیرۃ النعمان میں ان سے مسامحت ہوئی کہ آغاز فتوی نویسی کے سال کو تدوین کا سال قرار دیا . پیر بدیع الدین کا مطالعہ نہایت ناقص ہے ، اصل میں یہ اعتراض پہلے عبدالرحیم آبادی نے احسن البیان میں کیا ، پھر محمد یوسف جے پوری نے حقیقۃ الفقہ ج 1 ص 123 پر دہرایا ، وہیں سے پیر بدیع الدین نے اعتراض چرالیا ¤
نمبر 01 قاضی ابو یوسف رحمه الله کی ولادت صحیح قول کے مطابق 93ھ ہے ، 143ھ میں آپ کی عمر 50 سال تھی حسن التقاضی
نمبر 02 امام محمد رحمه الله 132ھ میں پیدا ہوئے مناقب ذہبی ص 47 143ھ میں 11 سال کے تھے . آپ نے کچھ کتابیں براہ راست امام صاحب رحمه الله سے لکھیں جن کو کبیر کہتے ہیں ، مثلآ جامع کبیر وغیرہ اور کچھ امام ابو یوسف رحمه الله کی روایت سے جامع صغیر وغیرہ¤
نمبر 03 امام زفر ابن ہذیل رحمه الله 110ھ میں پیدا ہوئے ابن خلکان ج 1 ص 209 یہ 143ھ میں ان کی عمر 32 سال کی تھی¤
نمبر 04 حبان بن مندل رحمه الله 111ھ میں پیدا ہوئے تقریب 143ھ میں ان کی عمر 32 سال کی تھی¤
نمبر 05 مندل بن علی رحمه الله 103ھ میں پیدا ہوئے تقریب 143ھ میں ان کی عمر 40 سال کی تھی¤
نمبر 06 یحیی بن زکریا بن ابی زائدہ رحمه الله 119ھ میں پیدا ہوئے میزان الاعتدال 143ھ میں ان کی عمر 24 سال کی تھی¤
نمبر 07 امام بن غیاث رحمه الله 115ھ میں پیدا ہوئے تقریب 143ھ میں انکی عمر 28 سال تھی¤
محمد یوسف جے پوری نے تو امام طحاوی رحمه الله کو شامل کرکے اپنی مزید جہالت کا ثبوت دیا ہے . امام طحاوی رحمه الله ان میں شامل نہ تھے بلکہ ناقل ہیں . الغرض ان چالیس میں سے سات ]7] کی عمر پر [[پیر بدیع الدین راشدی]] کو اعتراض تھا ، باقی پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور اس اعتراض کا مبنی بھی پیر صاحب کا ناقص مطالعہ ہے ، جس فرقے میں ایسا ناقص العلم شیخ العرب والعجم ہو ، سلطان المحدثین ہو ، رئیس المحققین کہلائے یہ اس فرقہ کے علمی دیوالیہ کی دلیل ہے¤
انتخاب لاجواب کتاب تجلیات صفدر جلد نمر 6 صفحہ نمبر 362 سے لیکر 364 تک
ياالله ہمیں اور پوری امت مسلمہ کو غیرمقلدین کے دھوکہ فریب سے بچا آمین ثمہ آمین
تدوین فقہ حنفی
بسم الله الرحمن الرحیم امابعد
تدوین فقه حنفی قال الطحاوی کتب الی ابن ابی ثور یحدثنی عن سلیمان بن عمران حدثنی اسد بن الفرات قال کان اصحاب ابی حنیفة الذین دونوا الکتب اربعین رجلا فکان فی عشرۃ المتقدمین ابو یوسف و زفر و داؤد الطائی و اسد بن عمرو و یوسف بن خالد السمتی و یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ و کان یکتب لهم ثلاثین سنة الجواهر المضیه ج 2 ص 212
ترجمہ : امام طحاوی رحمه الله نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اصحاب امام میں سے چالیس آدمی ہیں جنہوں نے کتابیں مدون کیں ، پہلے دس میں ابو یوسف ، زفر ، داؤد الطائی ، اسد بن عمرو ؟ یوسف بن خالد اور یحیی بن زکریا تھے اور دوسری روایت میں ہے "وکان اصحاب ابی حنیفة الذی دونوا معه الکتب اربعین رجلا کبراء اکبرأ حسن التقاضی ص 12 یعنی امام صاحب نے چالیس بڑے بڑے ساتھیوں کو ساتھ ملاکر کتابوں کو مدون کرایا¤
حضرت امام صاحب رحمه الله 120ھ میں امام حماد رحمه الله کی وفات پر تدریس کے لئے بیٹھے اور 143ھ میں آپ رحمه الله نے فقہ کی تدوین شروع فرمائی تاریخ الخلفاء للسیوطی ، ذہبی ، حقیقۃ الفقہ ج 1 ص 94 علامہ شبلی رحمه الله نے بھی الفاروق صفحہ 45 پر تدوین فقہ کا یہی سال 143ھ درج کیا ہے . سیرۃ النعمان میں ان سے مسامحت ہوئی کہ آغاز فتوی نویسی کے سال کو تدوین کا سال قرار دیا . پیر بدیع الدین کا مطالعہ نہایت ناقص ہے ، اصل میں یہ اعتراض پہلے عبدالرحیم آبادی نے احسن البیان میں کیا ، پھر محمد یوسف جے پوری نے حقیقۃ الفقہ ج 1 ص 123 پر دہرایا ، وہیں سے پیر بدیع الدین نے اعتراض چرالیا ¤
نمبر 01 قاضی ابو یوسف رحمه الله کی ولادت صحیح قول کے مطابق 93ھ ہے ، 143ھ میں آپ کی عمر 50 سال تھی حسن التقاضی
نمبر 02 امام محمد رحمه الله 132ھ میں پیدا ہوئے مناقب ذہبی ص 47 143ھ میں 11 سال کے تھے . آپ نے کچھ کتابیں براہ راست امام صاحب رحمه الله سے لکھیں جن کو کبیر کہتے ہیں ، مثلآ جامع کبیر وغیرہ اور کچھ امام ابو یوسف رحمه الله کی روایت سے جامع صغیر وغیرہ¤
نمبر 03 امام زفر ابن ہذیل رحمه الله 110ھ میں پیدا ہوئے ابن خلکان ج 1 ص 209 یہ 143ھ میں ان کی عمر 32 سال کی تھی¤
نمبر 04 حبان بن مندل رحمه الله 111ھ میں پیدا ہوئے تقریب 143ھ میں ان کی عمر 32 سال کی تھی¤
نمبر 05 مندل بن علی رحمه الله 103ھ میں پیدا ہوئے تقریب 143ھ میں ان کی عمر 40 سال کی تھی¤
نمبر 06 یحیی بن زکریا بن ابی زائدہ رحمه الله 119ھ میں پیدا ہوئے میزان الاعتدال 143ھ میں ان کی عمر 24 سال کی تھی¤
نمبر 07 امام بن غیاث رحمه الله 115ھ میں پیدا ہوئے تقریب 143ھ میں انکی عمر 28 سال تھی¤
محمد یوسف جے پوری نے تو امام طحاوی رحمه الله کو شامل کرکے اپنی مزید جہالت کا ثبوت دیا ہے . امام طحاوی رحمه الله ان میں شامل نہ تھے بلکہ ناقل ہیں . الغرض ان چالیس میں سے سات ]7] کی عمر پر [[پیر بدیع الدین راشدی]] کو اعتراض تھا ، باقی پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور اس اعتراض کا مبنی بھی پیر صاحب کا ناقص مطالعہ ہے ، جس فرقے میں ایسا ناقص العلم شیخ العرب والعجم ہو ، سلطان المحدثین ہو ، رئیس المحققین کہلائے یہ اس فرقہ کے علمی دیوالیہ کی دلیل ہے¤
انتخاب لاجواب کتاب تجلیات صفدر جلد نمر 6 صفحہ نمبر 362 سے لیکر 364 تک
ياالله ہمیں اور پوری امت مسلمہ کو غیرمقلدین کے دھوکہ فریب سے بچا آمین ثمہ آمین
----3----
فقہ حنفی کی خصوصیات
یہ تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی تدوین شورائی طریقے پر ہوئی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی طریق اجتہاد اور آزادانہ بحث ونقد نے فقہ حنفی میں نصوص ورائے اور مقاصد شریعت وانسانی مصالح کے درمیان ایک خاص قسم کا توازن پیدا کردیا ہے، جو دوسرے مکاتب فقہیہ میں کم نظر آتا ہے، فقہ حنفی کے طریق اجتہاد اور اصول استنباط نیز اس کی مستنبط جزئیات وفروعات پر غور کرنے کے بعد اس فقہ کا عمومی مزاج ومذاق اورخصائص وامتیازات جو سمجھ میں آتے ہیں ان کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے، ذیل میں اسی نقطۂ نظر سے گفتگو کی گئی ہے:
نصوص سے غایت اعتناء
فقہ حنفی کی سب سے بڑی خصوصیت اس فقہ میں نصوص شرعیہ سے غایت اعتناء ہے، اس فقہ میں خبرواحد کو قیاس پر مقدم رکھا گیا ہے، حدیث مرسل یعنی وہ حدیث جس کو تابعی نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہو اور درمیانی واسطہ یعنی صحابی کا ذکر نہ کیا ہو(التقریب: ۱/۳، شاملہ) امام ابوحنیفہؒ نے بعض خاص شرطوں اور تفصیلات کے ساتھ قبول کیا ہے، عبادات کے باب میں احناف نے بعض مواقع پر ضعیف روایات کو بھی قبول کرلیا ہے، نماز میں قہقہہ کا ناقض وضو ہونا (سنن الدار قطنی: ۱/۱۶۳، دانش) اس کی واضح مثال ہے، آثارِ صحابہ کو بھی فقہ حنفی میں حجت مانا گیا ہے، اس سلسلہ میں فقہائے احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جن مسائل میں قیاس واجتہاد کی گنجائش نہیں ہے ان میں صحابہ کی رائے حدیث رسول کے درجہ میں ہوگی؛ کیونکہ ضروری ہے کہ ان حضرات نے یہ رائے آپﷺ سے سن کر یاآپﷺ کو کرتے ہوئے دیکھ کر ہی قائم کی ہوگی؛ چنانچہ امام ابوحنیفہؒ نے حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن، حضرت انس رضی اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۹۶۴۲) اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ہی کی آراء (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۹۶۴۳) پر مقرر کی ہے۔
مصادرِشرعیہ کے مدارج کی رعایت
مختلف دلائل کے درجات ومراتب کی رعایت اور ان میں غایت درجہ توازن واعتدال، فقہ حنفی کا نمایاں وصف ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کتاب اللہ کی اولیت اور اس کی بالاتری کا اس میں ہرجگہ لحاظ کیا گیا ہے، حدیث سورۂ فاتحہ کو نماز کے لیے ضروری قرار دیتی ہے۔
(بخاری: ۱/۱۰۴، اشرفیہ)
قرآن کہتا ہے کہ قرآن پڑھاجائے تو سکوت اور گوش برآواز رہنا ضروری ہے۔
(الاعراف: ۲۰۴)
حنفیہ نے ان دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھاہے؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کو واجب قرار دیا (ہدایہ مع البنایہ: ۲/۲۴۵، بیروت) لیکن اقتداء کررہا ہو تو کہا کہ امام کی قرأت اصل اپنی طرف سے ہوتی ہے اور نیابۃً اپنے مقتدیوں کی طرف سے ہے (بدائع الصنائع، قصص فی ارکان الصلاۃ: ۱/۴۵۷) حدیث سے نیت کی تاکید ثابت ہے (سنن الترمذی: ۱/۶) قرآن نے جہاں تفصیل کے ساتھ ارکان وضوء کا ذکر کیا ہے، نیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے (المائدہ:۶) احناف نے حدیث وقرآن دونوں پر عمل کیا، وضوء کے انہی افعال کو رکن قرار دیا جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور حدیث سے جو نیت کی تاکید ثابت ہے اسے مسنون کہا تاکہ دونوں پر عمل ہوجائے، احادیث سے آمین کا ثبوت ہے (صحیح البخاری: ۱/۱۰۸، اشرفیہ)روایات آمین بالجھر کی بھی ہیں (السنن الکبری للبیہقی: ۲/۸۳) اور سرکی بھی (المستدرک علی الصحیحین مع تعلیق الذہبی، حدیث نمبر: ۲۹۱۳) لیکن خود قرآن مجید نے دعا کا جوادب بتایا وہ یہ کہ کیفیت میں خشوع اور تضرع ہو اور آواز پست ہو (الانعام:۶۳) حنفیہ نے دونوں کی رعایت کی ہے، ہدایت قرآنی کے مطابق آمین (چونکہ دعا ہے) آہستہ کہی جائے (تبیین الحائق، فصل الشروع فی الصلاہ: ۲/۸۵) اور جہر کی حدیث کو ابتدائے اسلام یاتعلیم وتربیت کے نقطۂ نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقتی عمل سمجھا جائے تاکہ کسی کو انکار کرنے کی نوبت نہ آئے۔
(بدائع الصنائع، فصل فی سنن حکم التکبیر ایام التشریق: ۲/۳۰۲)
نقد حدیث میں اصول درایت سے استفادہ
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کو پرکھنے کے لیے درایت سے فائدہ اٹھانے کی طرح ڈالی اور اس کے لیے دوصورتیں اختیار کیں، اوّل تو خود حدیث کے متن اور اس کے مضمون پر نظر ڈالی کہ آیا یہ دین کے مجموعی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو ایسی اخبار آحاد کی کوئی مناسب تاویل کی اور اس پر رائے کی بنیاد نہیں رکھی، دوسرے راوی پر بھی غور کیا کہ خود راوی میں حدیث کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے اور منشأ نبوی تک پہونچنے کی صلاحیت ہے یانہیں کہ کبھی راوی معتبر ہوتا ہے؛ مگر غلط فہمی سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے، یاکبھی دوروایتیں متعارض نظر آتی ہیں اور تاویل وتوجیہ کے ذریعہ ان میں تطبیق کی گنجائش بھی نہیں رہی تو جس مضمون کی روایت زیادہ فقیہ راویوں سے مروی ہو اس کو ترجیح دی جائیگی؛ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہ واقعہ بہت ہی مشہور ہے جو امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ملاقات کے وقت پیش آیا تھا، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے دریافت کیا کہ آپ حضرات رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صحیح طور پر اس کا ثبوت نہیں ہے، اوزاعی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ مجھ سے زہری نے اورزہری نے سالم سے اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حضورﷺ کا رفع یدین کرنا نقل کیا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے، ان سے ابراہیم نے ابراہیم سے علقمہ واسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آغاز نماز ہی میں رفع یدین فرمایا کرتے تھے، امام اوزاعی رحمہ اللہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ان کے اور رسول اللہﷺکے درمیان تین ہی واسطے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ اپنے اعتبار وثقاہت کے لحاظ سے حدیث اور روایت کی دنیا کے آفتاب وماہتاب ہیں؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ نے اپنے نقطۂ نظر کی ترجمانی اس طرح کی کہ حماد زہری سے اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ کا شرف صحبت ملحوظ نہ ہوتا تو میں کہتا کہ علقمہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو عبداللہ بن مسعود ہی ہیں، یہ سن کر امام اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے۔
(قواعد فی علوم الفقہ: ۲۴۶، لعلامہ ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ)
احناف کی اس اصل سے دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی فائداُٹھایا ہے، غور کیجئے عبداللہ بن عباس سے بسند صحیح مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو چھ سال کے بعد حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں نکاح جدید کے بغیر سابقہ نکاح ہی کی بناء پر دے دیا تھا (سنن الترمذی: ۱/۱۳۶) حالانکہ درمیان میں چھ سال کا وقفہ ہوا، جس میں ابوالعاص مشرک تھے؛ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے باوجود رشتۂ نکاح کو باقی رکھا، اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ دونوں کا نکاح فرمایا (سنن الترمذی: ۱/۱۳۶) اس دوسری روایت کے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ سند کے اعتبار سے اس کی صحت مشکوک ہے (ترمذی، حدیث نمبر:۱۰۶۱) مگرساتھ ہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صراحت کی ہے کہ ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہاء کا اسی پر عمل ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ یزید بن ہارون کے واسطے سے لکھتے ہیں:
"حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ"۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۰۶۳)
یہاں دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مزاج کے مطابق روایت کے ردوقبول میں درایت ہی سے کام لیا ہے؛ تاہم اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ اصول کوئی خود ساختہ نہیں تھا، خود صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ہمیں اس کی مثال ملتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مطلقہ بائنہ کی عدت کے نفقہ کے متعلق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت کو یہی کہہ کر رد کردیا تھا کہ ایک ایسی عورت کی بات پر اعتماد کرکے ہم کس طرح کتاب وسنت کو نظرانداز کردیں جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ اس نے صحیح کہا یاغلط اور یاد رکھا یاپھربھول گئی ۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۱۰۰)
اسی طرح ہم عمر رضی اللہ عنہم کو دیکھتے ہیں کہ بعض فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم کی تنہا روایت قبول کرلیتے ہیں اور بعض صحابہ کی روایت کسی تائیدی راوی کے بغیر قبول نہیں کرتے (مسلم، حدیث نمبر: ۴۰۰۶) یہی طریقہ تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے طریقۂ استنباط میں اختیار کیا ہے۔
حقوق اللہ میں احتیاط
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت حقوق اللہ اور حلال وحرام میں احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہے، امام کرخی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
"اِنَّ الْإِحْتِیَاطَ فِیْ حُقُوْقِ الله جَائِزٌ وَفِیْ حُقُوْقِ الْعِبَادِ لَایَجُوْزُ… إِذَادَارَتِ الصَّلوٰۃ بَیْنَ الْجَوَازِ وَالْفَسَادِ فَالْاِحْتِیَاطُ اَنْ یُعِیْدَ الاَدَاءُ"۔
(اصول الکرخی:۱۴۳)
حقوق اللہ میں احتیاط جائز ہے، حقوق العباد میں جائز نہیں؛ چنانچہ جب نماز میں جواز وفساد کے دوپہلو پیدا ہوجائیں تو احتیاط نماز کے اعادہ میں ہے۔
چنانچہ غور کیا جائے تو عبادات میں امام صاحب رحمہ اللہ کے یہاں احتیاط کے پہلو کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے، نماز میں گفتگو کو مطلقاً مفسد قرار دیا گیا ہے، چاہے بھول کر یااصلاح نماز کی غرض سے کیوں نہ گفتگو کی گئی ہو (عالمگیری: ۱/۹۸، دارالکتاب) مصحف کو دیکھ کر نماز پڑھنے کو مفسد مانا گیا ہے (الھندیہ: ۱/۱۰۱، دارالکتاب) نماز کی حالت میں قہقہہ کو ناقض وضو قرار دیا گیا (ردالمحتار: ۱/۶۷۲، زکریا) روزہ خواہ کسی طور پر توڑا جائے، خوردونوش کے ذریعہ یاجماع کے ذریعہ، اس کو موجب کفارہ کہا گیا ہے(عالمگیری: ۱/۲۰۵، دارالکتاب) دسویں ذی الحجہ کو افعال حج میں ترتیب ضروری قرار دی گئی ہے (البحرالرائق، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج: ۷/۲۲۴) حرمت مصاہرت میں بھی سختی برتی گئی، زنا بلکہ دواعی زنا کو بھی حرمت کے ثبوت کے لیے کافی سمجھا گیا (الدرالمختار:۲/۷۹، زکریا) حرمت رضاعت کے معاملہ میں بھی دودھ کی کسی خاص مقدار کو پینے کی قید نہیں رکھی گئی؛ بلکہ ایک قطرہ دودھ کو بھی حرمت رضاعت کا باعث قرار دیا گیا۔ (شامی)
یسروسہولت کا لحاظ
فقہ حنفی میں انسانی ضروریات اور مجبوریوں کا خیال اور شریعت کے اصل مزاج یسراور رفع حرج کی رعایت قدم قدم پر نظر آتی ہے، مثلاً اکثر فقہاء نے نجاست کو مطلقا نماز کے منافی قرار دیا ہے اور ادنی درجہ کی نجاست کو بھی قابل عفو نہیں مانا (الفقہ الاسلامی وادلتہ، الباب الاول الطہارت: ۱/۲۸۳) لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اول تو نصوص کے لب ولہجہ، فقہاء کے اتفاق واختلاف اور ان کے حالات ومجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے نجاست کی تقسیم کی اور غلیظہ وخفیفہ دوقسمیں قرار دیں، دوسرے نجاست غلیظہ میں ایک درہم اور نجاست خفیفہ میں ایک چوتھائی تک معاف قرار دیا (عالمگیری:۱/۴۵،۴۶، دارالکتاب) پانی کثیر وقلیل مقدار کے لیے کوئی تحدید نہ کی اور اس کو لوگوں کی رائے پر رکھا، جو خود پاکی یاناپاکی کے مسائل سے دوچار ہوں (الدرالمختار: ۱/۳۴۰، زکریا)حقیقت یہ ہے کہ یہ امام ابوحنیفہؒ کے کمال ذہانت اور غایت درجہ فراست کی بات ہے جو انہو ں نے اس سلسلہ میں اختیار کی ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مقدار کسی علاقہ کے لیے کثیر اور کسی علاقہ کے لیے قلیل قرار پائے، مثلاً: ہندوستان کے نشیبی خطہ میں جہاں جگہ جگہ پانی کے بڑے بڑے تالاب ہیں اور پانی کی سطح ۵۰/۶۰/فٹ پر ہے اور راجستھان کے صحراء جہاں پانی کی شدید قلت اور پانی کی سطح نہایت نیچے ہے، کو قلیل وکثیر مقدار کے معاملہ میں ایک ہی پیمانہ کے تحت رکھنا لوگوں کے لیے نہایت تنگی اور دشواری کا باعث ہوگا، احناف کی اس رائے کی روشنی میں ایسے مختلف حالات میں تنگی ودشواری سے بچاجاسکے گا، گرما کے موسم میں تاخیر اور نسبتاً ٹھنڈا ہونے کے بعد نمازِ ظہر کا مستحب ہونا (الدر المختار: ۲/۲۴، زکریا) اور اچھی طرح صبح کھلنے کے بعد نماز فجر کی ادائیگی کو ترجیح دینا (الدرالمختار: ۲/۲۴) فقہ حنفی کے اسی مزاج کا عکاس ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی میں شوافع کے یہاں ضروری ہے کہ قرآن میں بیان کردہ آٹھوں مصارف اور ہرمصرف کے کم سے کم تین حقدار کو دیا جائے؛ گویا ہرکم وبیش زکوٰۃ کم سے کم ۲۴/حقداروں پر تقسیم کی جائے، تب زکوٰۃ ادا ہوگی، اس میں جس قدر دقت ہے وہ محتاج اظہار نہیں، احناف نے کہا کہ کسی ایک مصرف اور اس کے ایک فرد کو بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حق ہے (تبیین الحائق، باب المصرف: ۳/۴۶۷) اس میں جس قدر سہولت ہے وہ ظاہر ہے؛ تاہم ایسا نہ سمجھنا چاہئے کہ احناف یسروسہولت کے لیے اور حرج ومشقت کے ازالہ کی غرض سے نصوص اور حدیث کی صراحتوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں، علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ کا بیان ہے:
"اَلْمَشَقَّةُ وَالْحَرَجُ اِنَّمَا یُعْتَبَرَانِ فِیْ مَوْضَعٍ لَاَنَصَّ فِیْه"۔
(الاشباہ:۱۳۸)
مشقت وحرج کا اعتبار ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں نص موجود نہ ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ احناف نے اس باب میں جس درجہ توازن برتا ہے اور شریعت الہٰی اور ضرورت انسانی کو جس طرح دوش بدوش رکھا ہے وہ شریعت کے اوامر ونواہی اور شریعت کے مقاصد ومصالح دونوں میں گہری بصیرت اور عمیق فہم کا ثبوت ہے۔
عقل واصول سے مطابقت
فقہائے احناف نے دین کے اصول مسلمہ اور قواعد متفقہ نیز عقل سے ہم آہنگی کا خاص خیال رکھا ہے، مثلاً: شریعت کی ایک تسلیم شدہ اصل یہ ہے کہ انسانی جسم پاک ہے اور اس کو چھونا موجب نجاست نہیں، یہ عین مطابق عقل ودانش بھی ہے؛ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے شرمگاہ یاعورتوں کے چھونے کو ناقض وضو قرار نہیں دیا (الدرالمختار، سنن الوضواء: ۱/۴۰۵) آگ میں پکی ہوئی چیزوں کے استعمال کو بھی ناقض وضو نہیں سمجھا (المبسوط للسرخسی: ۱/۱۴۲) صلوۃ کسوف میں دو، تین، چار اور پانچ رکوع والی روایات کے مقابلہ ہررکعت میں ایک رکوع والی روایت کو ترجیح دیا کہ یہ نماز کے عام اصول ومعمول کے مطابق ہے (شامی، باب الکسوف: ۶/۱۸۶) جانور کا دودھ روک کر اسے فروخت کیا جائے، ایسی صورت میں بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جانور اور دودھ سے انتفاع کے بدلے ایک صاع کھجور ادا کی جائے، ظاہر ہے کہ یہ حکم شریعت کے عام قانون مکافات اور اصولِ مجازات سے مطابقت نہیں رکھتے؛ چنانچہ حنفیہ نے اس روایت کو اخلاقی ہدایت پر محمول کیا ہے اور اس نفع کو قانونی طور پر ناقابل عوض ٹھہرایا ہے؛ کیونکہ دین اور اصول انصاف کے مسلمہ اصولوں میں سے یہ ہے کہ جو شخص نقصان کا ذمہ دار ہو، وہی نفع کا بھی حقدار ہے؛ چنانچہ اس صورت میں اگر وہ جانور ہلاک ہوجاتا تو خریدار کو ہی یہ نقصان اٹھانا پڑتا، تو ضروری ہے کہ اس مدت میں جانور کے ذریعہ جو نفع حاصل ہوا ہو، وہی اس کا مالک اور حقدار قرار پائے (عالمگیری، الفصل الثانی فی معرفۃ عیوب الدواب وغیرھا: ۳/۷۲) فقہائے احناف کی آراء اور دوسرے فقہی مذاہب سے اس کا تقابل کیا جائے تو قدم قدم پر فقہ حنفی کا یہ مذاق نمایاں ہوکر سامنے آئیگا۔
مذہبی رواداری
مذہبی آزادی اور غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور مذہبی وانسانی حقوق کا لحاظ جس درجہ فقہ حنفی میں رکھا گیا ہے وہ غالبا اس کا امتیاز ہے، غیرمسلموں کو اپنے اعتقادات کے بارے میں اور ان اعتقادات پر مبنی معاملات کے بارے میں احناف کے یہاں خاص فراخدلی اور وسیع الظرفی پائی جاتی ہے، قاضی ابوزید دبوسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس ذوق ومزاج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
"اَلْاَصْلُ عِنْدَاَبِیْ حَنِیْفَة اَنَّ مَایَعْتَقِدُہٗ اَهلُ الذِّمَّة وَیُدِیْنُوْنَہٗ یَتْرُکُوْنَ عَلَیْهِ"۔
(تاسیس النظر:۱۳)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل یہ ہے کہ اہل ذمہ جو عقیدہ رکھتے ہوں اور جس دین پر چلتے ہوں ان کو اس پر چھوڑ دیا جائے۔
چنانچہ جن غیرمسلموں کے یہاں محرم رشتہ داروں سے نکاح جائز ہو، امام صاحب کے نزدیک ان کے لیے اپنے ایسے رشتہ داروں سے نکاح کرنے پر روک نہیں لگائی جائے گی (شامی، باب نکاح الکافر: ۱۰/۲۷۹) اسی طرح غیرمسلم زوجین میں سے ایک فریق مسلمان قاضی کی طرف رجوع ہو اور شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کا طالب ہو تو قاضی اس معاملہ میں دخل نہیں دے گا، جب تک کہ دونوں فریق اس کے خواہش مند نہ ہوں (شامی، باب نکاح الکافر: ۱۰/۲۸۳) اسی طرح غور کریں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جس طرح مسلم ملک کا غیرمسلم شہری کسی مسلمان کو قتل کرنے کے جرم میں قصاصاً قتل کیا جائے گا اسی طرح مسلمان سے بھی غیرمسلم شہری کے قتل پر قصاص لیا جائیگا (الأم، باب دیۃ اھل الذمۃ: ۷/۳۲۲) یہی حال دیت اور خون بہا کا بھی ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے انسانی خون میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا ہے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دیت کی مقدار برابر رکھی ہے؛ جب کہ عام فقہاء کی رائے اس سے مختلف ہے، یہ چند مثالیں ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جزئیات موجود ہیں جن سے فقہ حنفی کے اس مزاج کی نشاندہی ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی طرف گناہ کی نسبت سے احتراز
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ فعل مسلم کو حتی المقدور حرمت کی نسبت سے بچانے اور حلال جہت پر محمول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، امام کرخی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اِنَّ اُمُوْرَالْمُسْلِمِیْنَ مَحْمُوْلَةٌ عَلیٰ السِّدَادِ وَالصَّلَاحِ حَتّٰی یُظْهِرَ غَیْرُہٗ، مِثَالُ مَنْ بَاعَ دِرْهمًا وَدِیْنَارًا بِدِرْهمَیْنِ وَدِیْنَارَیْنِ جَازَ الْبَیْعُ وَصَرْفُ الْجِنْسِ اِلیٰ خِلَافِ جِنْسِهٖ"۔
(اصول الکرخی: ۱۴۰)
مسلمانوں کے معاملات صلاح ودرستگی پر محمول کئے جائیں گے، تاآنکہ اس کے خلاف ظاہر وواضح ہوجائے، مثلاً: کوئی شخص ایک درہم اور ایک دینار، دودرہم اور دودینار کے بدلہ فروخت کرے تو معاملہ جائز ہوگا اور ایک درہم کو دودینار اور ایک دینار کو دودرہم کے مقابل سمجھا جائے گا۔
اسی طرح ثبوت نسب کے معاملہ میں حنفیہ نے ممکن حد تک احتیاط اور زناکی طرف انتساب سے بچانے کی کوشش کی ہے، قاضی ابوزید دبوسی رحمہ اللہ نے صحیح لکھا ہے:
"اَلْاَصْلُ عِنْدَنَا اَنَّ الْعِبْرَۃ فِیْ ثُبُوْتِ النَّسَبِ صِحَّةُ الْفِرَاشِ وَکَوْنِ الزَّوْجِ مِنْ اَهلِه لَابِالتَّمَکُّنِ بِالْوَطْیِ"۔
(تاسیس النظر:۵۹)
ہمارے یہاں اصل یہ ہے کہ ثبوت نسب کے لیے (نکاح کے ذریعہ) فراش کا صحیح ہونا اور شوہر کا اس کا اہل ہونا کافی ہے، فی الواقع وطی پر قادر ہونا ضروری نہیں ہے۔
چنانچہ وقت نکاح سے ٹھیک چھ ماہ پر ولادت ہو تب بھی حنفیہ کے یہاں نسب ثابت ہوجائے گا (شامی، فصل فی ثبوت النسب: ۶/۱۶۲) اس طرح زوجین میں مشرق ومغرب کا فرق ہو اور بظاہر زوجین کی ملاقات ثابت نہ ہو اس کے باوجود نسب ثابت ہوجائے گا؛ تاکہ کسی مسلمان کی طرف فعل زنا کی نسبت سے بچاجاسکے، کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگائے جانے اور دائرہ اسلام سے خارج کئے جانے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کس درجہ محتاط تھے، اس کا اندازہ علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ابن نجیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام صاحبؒ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کہتا تھا کہ مجھے جنت کی امید نہیں، جہنم کا اندیشہ نہیں، خدا سے ڈرتا نہیں ہوں، قرأت اور رکوع وسجدہ کے بغیر نماز پڑھ لیتا ہوں اور ایسی چیز کی شہادت دیتا ہوں جسے دیکھا تک نہیں، حق کو ناپسند کرتا ہوں اور فتنہ کو پسند کرتا ہوں، امام صاحب رحمہ اللہ نے ان تمام باتوں کی توجیہ فرمائی، فرمایا کہ جنت کے امیدوار نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی رضا کا امیدوار ہوں اور جہنم سے نہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے ظلم کا خطرہ نہیں، بغیر رکوع وسجدہ اور قرأت کے نماز سے مراد نمازِ جنازہ ہے، بن دیکھی گواہی توحید کی گواہی ہے، حق سے بغض رکھنے سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے کہ موت بھی سب سے بڑی حقیقت ہے، فتنہ سے محبت کے معنی اولاد سے محبت ہے؛ کیونکہ کہ اولاد کو قرآن میں فتنہ قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ استفسار کرنے والا کھڑا ہوا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جبین فراست کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ آپ ظرفِ علم ہیں (الاشباہ مع حموی: ۳۰۶) غور کیا جائے کہ کس طرح ایک مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے سے بچایا گیا؛ البتہ اگر قائل خود ہی کفر کا اعتراف کرلے تو پھر کسی تاویل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
قانون تجارت میں دقیقہ سنجی
عبادات کے باب میں نصوص وافرمقدار میں منقول ہیں، نکاح کے متعلق بھی جزئیات اور تفصیلات کا ایک قابل لحاظ حصہ کتاب وسنت میں موجود ہے؛ لیکن تجارت کے باب میں کتاب وسنت میں صرف ضروری اصول اور بنیادی قواعد کی نشاندہی کردی گئی ہے، جن سے شریعت کے مقاصد کی وضاحت ہوجاتی ہے، جزوی تفصیلات بہت کم مذکور ہیں اور ایسا ہونا مصلحت کے عین مناسب ہے؛ کیونکہ اگر معاملات میں عبادات کی طرح حد بندی کردی جاتی تو تغیر پذیر حالات اور متعین قدروں میں ان پر عمل مشکل ہوجاتا، اس لیے تجارت کی جزوی تفصیلات قیاس ورائے اور اجتہاد واستنباط ہی کی رہین منت ہیں اور ان تفصیلات کی تنقیح میں شرح وبسط اور دقت نظر مجتہد کی بصیرت اور فہم کا اصل مظہر ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بڑے تاجروں میں تھے اور کوفہ میں سب سے بڑی دوکان آپ ہی کی تھی، اس لیے طبعی بات ہے کہ تجارت کے احکام جس تفصیل اور وسعت وعمق اور دقت نظری کے ساتھ آپ کے یہاں ملتے ہیں دوسرے فقہاء کے یہاں نہیں ملتے، مثلاً:
۱۔حدیث میں قبضہ سے پہلے کسی سامان کو فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے زمین کو منقولہ جائداد کے حکم سے مستثنی رکھا کہ شریعت کا اصل منشا دھوکہ اور غرر سے تحفظ ہے، منقولہ اشیاء میں اس کا امکان موجود ہے کہ شاید قبضہ میںآنے سے پہلے ہی یہ شیٔ ہلاک وضائع ہوجائے اور غیرمنقولہ جائداد میں بظاہر یہ امکان نہیں ہے۔
(البحرالرائق، فصل فی بیان التصرف فی البیع والثمن قبل قبضہ: ۱۶/۲۲۸)
۲۔حدیث میں بعض مواقع پر کسی تفصیل کے بغیر ذخیرہ اندوزی (احتکار) کو منع کیا گیا ہے (صحیح مسلم: ۸/۳۱۲، حدیث نمبر: ۳۰۱۲) بعض مواقع پر خصوصیت سے اشیاء خوردنی میں ذخیرہ اندوزی کی مذمت آئی ہے، امام ابوحنیفہؒ لوگوں کی ضروریات سے بخوبی واقف تھے اور اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ بعض اشیاء کہ سال بھر ان کی رسد برقرار رکھنے کے لیے ایک گونہ ذخیرہ اندوزی ضروری ہے اور اس میں شارع کا اصل منشا فروخت کے ذخیرہ کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ گاہکوں کے استحصال سے روکنا اور روز مرہ کی زندگی میں ان دشواریوں سے بچانا ہے، ان تمام پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے امام صاحب نے یہ رائے قائم کی کہ نہ ہرشیٔ میں احتکار ممنوع ہے اور نہ یہ ممانعت غذائی اشیاء تک محدود ہے؛ بلکہ عام انسانی ضرورت بھی اس ممانعت میں داخل ہے کہ ان میں احتکار اسی درجہ لوگوں کے لیے مشکلات اور دقتوں کا باعث ہے جتنا کہ اشیاء خوردنی میں۔
(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان: ۲۳)
۳۔بیع سلم میں معاملہ کے وقت مبیع موجود نہیں ہوتی، بعد کو ادا کی جاتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی اچھی طرح تعیین عمل میں آجائے؛ تاکہ آئندہ نزاع کا کوئی امکان باقی نہ رہ جائے، فقہ حنفی میں اس کی بڑی تفصیل ملتی ہے؛ چنانچہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ضروری قرار دیا کہ اس شیٔ کی جنس، نوعیت، مقدار، صفت، ادائیگی کی مدت، مبیع کی حوالگی کے مقام کے علاوہ کس شہر کی صنعت ہے؟ اور اس کی صراحت بھی کردی جائے کہ مختلف شہروں اور علاقوں کی صنعتوں اور ان کی قیمتوں میں قابل لحاظ فرق ہوتا ہے (الدرالمختار، باب السلم: ۲۰/۲۳۳) اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے گوشت میں بیع سلم کی اجازت نہیں دی اور وجہ یہ بیان کی کہ گوشت کبھی فربہ ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس (الدرالمختار، باب السلم: ۲۰/۲۴۲) بہرحال تجارتی قوانین میں اس کی بہت سی جزئیات موجود ہیں جو امام صاحب کی دقت نظر، مقاصد شریعت، فہم صحیح، انسانی ضروریات سے آگہی، تاجروں کے مزاج سے واقفیت اور احتیاطی پیش بندی کا مظہر ہیں۔
حیلۂ شرعی
حیلہ کے اصل معنی معاملات کی تدبیر میں مہارت کے ہیں "اَلْحَذَقُ فِیْ تَدْبِیْرِ الْاُمُوْرِ" (الاشباہ: ۴۰۶) شریعت کی اصطلاح میں حرمت ومعصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو(المبسوط: ۳۳/۴۸۶) حیلہ کے تعلق سے احناف کے نقطۂ نظر کا انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور صرف حیلہ کی تعبیر پر توجہ مرکوز نہ رکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فن احناف کے یہاں کمال ذکاوت، امت کو حرام سے بچانے کی سعی اور شریعت کی حدوداربعہ میں رہتے ہوئے انسانیت کو حرج سے بچانے کے محمود جذبات کا عکاس ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"فَالْحَاصِلُ اَنَّ مَایَخْتَلِصُ بِهٖ الرَّجُلُ مِنَ الْحَرَامِ اَوْیَتَوَصَّلُ بِهٖ اِلیٰ الْحَلَالِ مِنَ الْحِیَلِ فَهُوَ حَسَنٌ وَاِنَّمَا یَکْرَہ ذٰلِکَ اَنْ یَحْتَالَ فِیْ حَقِّ لِرَجُلٍ حَتّٰی یُبْطِلَه اَوْفِیْ بَاطِلٍ حَتّٰی یَمُوْہٗ… فَمَاکَانَ عَلیٰ هذَا السَّبِیْلِ فَهُوَ مَکْرُوْه وَمَاکَانَ عَلیٰ السَّبِیْلِ الَّذِیْ قُلْنَا اَوَّلًا فَلَا بَأَسَ بِهٖ"۔
(المبسوط: ۳۳/۴۸۶)
حاصل یہ ہے کہ وہ حیل جن کے ذریعہ انسان حرام سے خلاصی یاحلال تک رسائی کا خواہاں ہو بہتر ہے، ہاں کسی کے حق کا ابطال یاباطل کی ملمع سازی مقصود ہو تو ناپسندیدہ ہے؛ غرض یہ ہے کہ یہ صورت درست نہیں ہے اور پہلے ذکر کی گئی صورت درست ہے۔
اس وضاحت کے بعد کسی صاحب انصاف کے لیے احناف کے نقطۂ نظر سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہمارے فقہاء کرام نے عام طور پر عبادات میں حیلہ سے گریز کیا ہے، ابوبکر خصاف کی تالیف "کتاب المحیل والمخارج" میں عبادات میں صرف چند حیلہ ذکر کئے گئے ہیں؛ اگرکسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اور کوئی مستحق زکوٰۃ اس مقروض کو اپنی زکوٰۃ دے دے اور پھر اس سے وہی رقم بطورِ اداء قرض کے وصول کرلے۔
(ہندیہ، کتاب الیل فی مسائل الزکاۃ: ۱۵/۶۸)
اسی طرح اگر میت کی تدفین میں زکوٰۃ خرچ کرنے پر مجبور ہو تو یوں کرے کہ متوفی کے ولی جو صاحبِ نصاب کو زکوٰۃ دے دے اور وہ اسے کفن میں خرچ کردے (ھندیہ،کتاب الحیل مسائل الزکاۃ: ۵۱/۷۰) مسجد کی تعمیر کرنی ہو تو اس علاقہ کے فقراء کو زکوٰۃ دے دے کہ بطورِ خود مسجد تعمیر کرلیں، نیز یہ احتیاط بھی برتے کہ خاص تعمیر کے لیے نہ دے، بلکہ کہے کہ یہ تمہارے لیے صدقہ ہے۔
(ھندیہ، کتاب الحیل فی مسائل الزکاۃ: ۵۱/۷۰)
غور کیجئے کہ حیلہ کی ان صورتوں میں کہیں تحریم حلال اور فرائض وواجبات سے پہلو تہی کا کوئی جذبہ نظر آتا ہے؟ خود امام ابوحنیفہؒ سے طلاق وغیرہ کے مسائل میں جو حیلے منقول ہیں اور جوان کی حیرت انگیز اور تعجب خیز ذکاوت کا ثبوت ہیں وہ بالکل اسی نوع کے ہیں اور حیلہ کے ناقدین جیسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس کی داد دی ہے۔
(اعلام المؤقعین، فصل الحیلۃ المحرمہ: ۳/۲۵۱)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ جو حیلہ کے زبردست ناقد ہیں؛ انہو ں نے اعلام المؤقعین میں حیلہ کی تین قسمیں بیان کی ہیں، ایک وہ جس کا مقصد ظلم کو قبل از وقت روکنا ہو، دوسرے یہ کہ جو ظلم ہوچکا ہو اس کو دفع کیا جائے، تیسرے جس ظلم کو دفع کرنا ممکن نہ ہو اس کے مقابلہ میں اس طرح عمل کیا جائے، خود ابن قیم کا بیان ہے کہ پہلی دونوں صورتیں جائز ہیں اور تیسری صورت میں تفصیل ہے (اعلام الموقعین: ۳/۲۴۰) پس حیلہ کا اگر صحیح مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ عین رحمت ہے اور دین کے مزاج"یسر" اور "رفع حرج" کے عین مطابق ہے اور اس باب میں فقہائے احناف کی ذکاوت وفطانت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
فقہ تقدیری
فقہ حنفی کا ایک امتیاز فقہ تقدیری بھی ہے، فقہ تقدیری کا مطلب یہ ہے کہ مسائل کے پیش آنے سے پہلے ہی ممکن الوقوع مسائل کے حل کی طرف توجہ دی جائے، فقہاء حجاز جو عقلی امکانات کے تفحص اور قیل وقال سے دور اور سادہ طور پر مسائل کو سمجھنے اور رائے قائم کرنے کے خوگر تھے، وہ اس طرح کے مسائل کے احکام بتانے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن فقہاء عراق جن کے یہاں دقیقہ سنجی، دور بینی، طلب وتفحص اور شریعت کی روح اور مقاصد میں غواصی کا رنگ غالب تھا "فقہ تقدیری" ان کے مزاج میں داخل تھی اور وہ اس پر مجبور بھی تھے کہ مشرق کے علاقہ میں نئی نئی قوموں اور علاقوں کے مملکت اسلامی میں شمولیت کی وجہ سے وہ نوپید مسائل سے بمقابلہ فقہاء حجاز کے زیادہ دوچار تھے، اسی لیے فقہاء احناف کے یہاں فقہ تقدیری کا حصہ زیادہ ہے اور افسوس کہ نصوص کے ظاہر پر جمود اور اس کے دقیق مطالعہ اور روح ومقصد تک رسائی سے مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے بعض محدثین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس ہنر کو عیب سمجھ لیا؛ حالانکہ خود حدیث میں موجود ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنۂ دجال کے ظہور اور اس زمانہ میں دن اور رات کے اوقات کی غیرمعمولی وسعت کا ذکر فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ اس وقت نماز پنجگانہ کیوں کر ادا کی جاسکے گی (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۵۲۲۸) غور کیجئے کہ یہ مسئلہ قبل ازوقوع حل کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔
فقہ تقدیری کے بارے میں فقہاء عراق اور فقہاء حجاز کے نقطۂ نظر کا فرق اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے جسے خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ حضرت قتادہ جب کوفہ تشریف لائے تو غائب شحص کی بیوی اور اس کے مہر کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور قتادہ کے درمیان گفتگو ہوئی، قتادہ نے دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نفی میں جواب دیا، قتادہ نے کہا جب یہ واقعہ پیش نہیں آیا تو اس کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے، امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم مسائل کے پیش آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں تاکہ مسائل جب پیش آجائیں تو ہم بآسانی اس سے عہدہ برآہوسکیں ۔
"اِنَّانَسْتَعِدُّ لِلْبَلَاءِ فَاِذَا مَاوَقَعَ عَرَفْنَا الدُّخُوْلَ فِیْہ وَالْخُرُوْجَ مِنْه"۔
(تاریخ بغداد:۶/۱۰۶، ذکر من اسمہ نعمان)
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فقہ حنفی کی مقبولیت اور اس کے شیوع کی اصل وجہ اس کی یہی خصوصیات ہیں یعنی توازن واعتدال، ضرورت انسانی کی رعایت، نصوص ومصالح کی باہم تطبیق، شریعت کی روح او رمقصد کی رعایت اور ظاہر پر جمود بے جا سے گریز، اقلیت کے ساتھ منصفانہ رویہ، شخصی آزادی کا احترام اور تقاضائے تمدن سے زیادہ مطابقت اور ہم آہنگی ہے اور بالخصوص ایک ترقی یافتہ تمدن کا ساتھ دینے کی صلاحیت ایسی بات ہے جس نے بجا طور پر خطۂ مشرق کو جو بمقابلہ دوسرے علاقوں کے زیادہ متمدن اور تہذیب آشنا تھا، فقہ حنفی پر فریفتہ کردیا
فقہ حنفی کی خصوصیات
یہ تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی تدوین شورائی طریقے پر ہوئی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی طریق اجتہاد اور آزادانہ بحث ونقد نے فقہ حنفی میں نصوص ورائے اور مقاصد شریعت وانسانی مصالح کے درمیان ایک خاص قسم کا توازن پیدا کردیا ہے، جو دوسرے مکاتب فقہیہ میں کم نظر آتا ہے، فقہ حنفی کے طریق اجتہاد اور اصول استنباط نیز اس کی مستنبط جزئیات وفروعات پر غور کرنے کے بعد اس فقہ کا عمومی مزاج ومذاق اورخصائص وامتیازات جو سمجھ میں آتے ہیں ان کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے، ذیل میں اسی نقطۂ نظر سے گفتگو کی گئی ہے:
نصوص سے غایت اعتناء
فقہ حنفی کی سب سے بڑی خصوصیت اس فقہ میں نصوص شرعیہ سے غایت اعتناء ہے، اس فقہ میں خبرواحد کو قیاس پر مقدم رکھا گیا ہے، حدیث مرسل یعنی وہ حدیث جس کو تابعی نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہو اور درمیانی واسطہ یعنی صحابی کا ذکر نہ کیا ہو(التقریب: ۱/۳، شاملہ) امام ابوحنیفہؒ نے بعض خاص شرطوں اور تفصیلات کے ساتھ قبول کیا ہے، عبادات کے باب میں احناف نے بعض مواقع پر ضعیف روایات کو بھی قبول کرلیا ہے، نماز میں قہقہہ کا ناقض وضو ہونا (سنن الدار قطنی: ۱/۱۶۳، دانش) اس کی واضح مثال ہے، آثارِ صحابہ کو بھی فقہ حنفی میں حجت مانا گیا ہے، اس سلسلہ میں فقہائے احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جن مسائل میں قیاس واجتہاد کی گنجائش نہیں ہے ان میں صحابہ کی رائے حدیث رسول کے درجہ میں ہوگی؛ کیونکہ ضروری ہے کہ ان حضرات نے یہ رائے آپﷺ سے سن کر یاآپﷺ کو کرتے ہوئے دیکھ کر ہی قائم کی ہوگی؛ چنانچہ امام ابوحنیفہؒ نے حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن، حضرت انس رضی اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۹۶۴۲) اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ہی کی آراء (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۹۶۴۳) پر مقرر کی ہے۔
مصادرِشرعیہ کے مدارج کی رعایت
مختلف دلائل کے درجات ومراتب کی رعایت اور ان میں غایت درجہ توازن واعتدال، فقہ حنفی کا نمایاں وصف ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کتاب اللہ کی اولیت اور اس کی بالاتری کا اس میں ہرجگہ لحاظ کیا گیا ہے، حدیث سورۂ فاتحہ کو نماز کے لیے ضروری قرار دیتی ہے۔
(بخاری: ۱/۱۰۴، اشرفیہ)
قرآن کہتا ہے کہ قرآن پڑھاجائے تو سکوت اور گوش برآواز رہنا ضروری ہے۔
(الاعراف: ۲۰۴)
حنفیہ نے ان دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھاہے؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کو واجب قرار دیا (ہدایہ مع البنایہ: ۲/۲۴۵، بیروت) لیکن اقتداء کررہا ہو تو کہا کہ امام کی قرأت اصل اپنی طرف سے ہوتی ہے اور نیابۃً اپنے مقتدیوں کی طرف سے ہے (بدائع الصنائع، قصص فی ارکان الصلاۃ: ۱/۴۵۷) حدیث سے نیت کی تاکید ثابت ہے (سنن الترمذی: ۱/۶) قرآن نے جہاں تفصیل کے ساتھ ارکان وضوء کا ذکر کیا ہے، نیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے (المائدہ:۶) احناف نے حدیث وقرآن دونوں پر عمل کیا، وضوء کے انہی افعال کو رکن قرار دیا جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور حدیث سے جو نیت کی تاکید ثابت ہے اسے مسنون کہا تاکہ دونوں پر عمل ہوجائے، احادیث سے آمین کا ثبوت ہے (صحیح البخاری: ۱/۱۰۸، اشرفیہ)روایات آمین بالجھر کی بھی ہیں (السنن الکبری للبیہقی: ۲/۸۳) اور سرکی بھی (المستدرک علی الصحیحین مع تعلیق الذہبی، حدیث نمبر: ۲۹۱۳) لیکن خود قرآن مجید نے دعا کا جوادب بتایا وہ یہ کہ کیفیت میں خشوع اور تضرع ہو اور آواز پست ہو (الانعام:۶۳) حنفیہ نے دونوں کی رعایت کی ہے، ہدایت قرآنی کے مطابق آمین (چونکہ دعا ہے) آہستہ کہی جائے (تبیین الحائق، فصل الشروع فی الصلاہ: ۲/۸۵) اور جہر کی حدیث کو ابتدائے اسلام یاتعلیم وتربیت کے نقطۂ نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقتی عمل سمجھا جائے تاکہ کسی کو انکار کرنے کی نوبت نہ آئے۔
(بدائع الصنائع، فصل فی سنن حکم التکبیر ایام التشریق: ۲/۳۰۲)
نقد حدیث میں اصول درایت سے استفادہ
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کو پرکھنے کے لیے درایت سے فائدہ اٹھانے کی طرح ڈالی اور اس کے لیے دوصورتیں اختیار کیں، اوّل تو خود حدیث کے متن اور اس کے مضمون پر نظر ڈالی کہ آیا یہ دین کے مجموعی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو ایسی اخبار آحاد کی کوئی مناسب تاویل کی اور اس پر رائے کی بنیاد نہیں رکھی، دوسرے راوی پر بھی غور کیا کہ خود راوی میں حدیث کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے اور منشأ نبوی تک پہونچنے کی صلاحیت ہے یانہیں کہ کبھی راوی معتبر ہوتا ہے؛ مگر غلط فہمی سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے، یاکبھی دوروایتیں متعارض نظر آتی ہیں اور تاویل وتوجیہ کے ذریعہ ان میں تطبیق کی گنجائش بھی نہیں رہی تو جس مضمون کی روایت زیادہ فقیہ راویوں سے مروی ہو اس کو ترجیح دی جائیگی؛ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہ واقعہ بہت ہی مشہور ہے جو امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ملاقات کے وقت پیش آیا تھا، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے دریافت کیا کہ آپ حضرات رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صحیح طور پر اس کا ثبوت نہیں ہے، اوزاعی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ مجھ سے زہری نے اورزہری نے سالم سے اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حضورﷺ کا رفع یدین کرنا نقل کیا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے، ان سے ابراہیم نے ابراہیم سے علقمہ واسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آغاز نماز ہی میں رفع یدین فرمایا کرتے تھے، امام اوزاعی رحمہ اللہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ان کے اور رسول اللہﷺکے درمیان تین ہی واسطے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ اپنے اعتبار وثقاہت کے لحاظ سے حدیث اور روایت کی دنیا کے آفتاب وماہتاب ہیں؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ نے اپنے نقطۂ نظر کی ترجمانی اس طرح کی کہ حماد زہری سے اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ کا شرف صحبت ملحوظ نہ ہوتا تو میں کہتا کہ علقمہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو عبداللہ بن مسعود ہی ہیں، یہ سن کر امام اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے۔
(قواعد فی علوم الفقہ: ۲۴۶، لعلامہ ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ)
احناف کی اس اصل سے دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی فائداُٹھایا ہے، غور کیجئے عبداللہ بن عباس سے بسند صحیح مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو چھ سال کے بعد حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں نکاح جدید کے بغیر سابقہ نکاح ہی کی بناء پر دے دیا تھا (سنن الترمذی: ۱/۱۳۶) حالانکہ درمیان میں چھ سال کا وقفہ ہوا، جس میں ابوالعاص مشرک تھے؛ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے باوجود رشتۂ نکاح کو باقی رکھا، اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ دونوں کا نکاح فرمایا (سنن الترمذی: ۱/۱۳۶) اس دوسری روایت کے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ سند کے اعتبار سے اس کی صحت مشکوک ہے (ترمذی، حدیث نمبر:۱۰۶۱) مگرساتھ ہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صراحت کی ہے کہ ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہاء کا اسی پر عمل ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ یزید بن ہارون کے واسطے سے لکھتے ہیں:
"حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ"۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۰۶۳)
یہاں دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مزاج کے مطابق روایت کے ردوقبول میں درایت ہی سے کام لیا ہے؛ تاہم اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ اصول کوئی خود ساختہ نہیں تھا، خود صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ہمیں اس کی مثال ملتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مطلقہ بائنہ کی عدت کے نفقہ کے متعلق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت کو یہی کہہ کر رد کردیا تھا کہ ایک ایسی عورت کی بات پر اعتماد کرکے ہم کس طرح کتاب وسنت کو نظرانداز کردیں جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ اس نے صحیح کہا یاغلط اور یاد رکھا یاپھربھول گئی ۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۱۰۰)
اسی طرح ہم عمر رضی اللہ عنہم کو دیکھتے ہیں کہ بعض فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم کی تنہا روایت قبول کرلیتے ہیں اور بعض صحابہ کی روایت کسی تائیدی راوی کے بغیر قبول نہیں کرتے (مسلم، حدیث نمبر: ۴۰۰۶) یہی طریقہ تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے طریقۂ استنباط میں اختیار کیا ہے۔
حقوق اللہ میں احتیاط
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت حقوق اللہ اور حلال وحرام میں احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہے، امام کرخی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
"اِنَّ الْإِحْتِیَاطَ فِیْ حُقُوْقِ الله جَائِزٌ وَفِیْ حُقُوْقِ الْعِبَادِ لَایَجُوْزُ… إِذَادَارَتِ الصَّلوٰۃ بَیْنَ الْجَوَازِ وَالْفَسَادِ فَالْاِحْتِیَاطُ اَنْ یُعِیْدَ الاَدَاءُ"۔
(اصول الکرخی:۱۴۳)
حقوق اللہ میں احتیاط جائز ہے، حقوق العباد میں جائز نہیں؛ چنانچہ جب نماز میں جواز وفساد کے دوپہلو پیدا ہوجائیں تو احتیاط نماز کے اعادہ میں ہے۔
چنانچہ غور کیا جائے تو عبادات میں امام صاحب رحمہ اللہ کے یہاں احتیاط کے پہلو کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے، نماز میں گفتگو کو مطلقاً مفسد قرار دیا گیا ہے، چاہے بھول کر یااصلاح نماز کی غرض سے کیوں نہ گفتگو کی گئی ہو (عالمگیری: ۱/۹۸، دارالکتاب) مصحف کو دیکھ کر نماز پڑھنے کو مفسد مانا گیا ہے (الھندیہ: ۱/۱۰۱، دارالکتاب) نماز کی حالت میں قہقہہ کو ناقض وضو قرار دیا گیا (ردالمحتار: ۱/۶۷۲، زکریا) روزہ خواہ کسی طور پر توڑا جائے، خوردونوش کے ذریعہ یاجماع کے ذریعہ، اس کو موجب کفارہ کہا گیا ہے(عالمگیری: ۱/۲۰۵، دارالکتاب) دسویں ذی الحجہ کو افعال حج میں ترتیب ضروری قرار دی گئی ہے (البحرالرائق، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج: ۷/۲۲۴) حرمت مصاہرت میں بھی سختی برتی گئی، زنا بلکہ دواعی زنا کو بھی حرمت کے ثبوت کے لیے کافی سمجھا گیا (الدرالمختار:۲/۷۹، زکریا) حرمت رضاعت کے معاملہ میں بھی دودھ کی کسی خاص مقدار کو پینے کی قید نہیں رکھی گئی؛ بلکہ ایک قطرہ دودھ کو بھی حرمت رضاعت کا باعث قرار دیا گیا۔ (شامی)
یسروسہولت کا لحاظ
فقہ حنفی میں انسانی ضروریات اور مجبوریوں کا خیال اور شریعت کے اصل مزاج یسراور رفع حرج کی رعایت قدم قدم پر نظر آتی ہے، مثلاً اکثر فقہاء نے نجاست کو مطلقا نماز کے منافی قرار دیا ہے اور ادنی درجہ کی نجاست کو بھی قابل عفو نہیں مانا (الفقہ الاسلامی وادلتہ، الباب الاول الطہارت: ۱/۲۸۳) لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اول تو نصوص کے لب ولہجہ، فقہاء کے اتفاق واختلاف اور ان کے حالات ومجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے نجاست کی تقسیم کی اور غلیظہ وخفیفہ دوقسمیں قرار دیں، دوسرے نجاست غلیظہ میں ایک درہم اور نجاست خفیفہ میں ایک چوتھائی تک معاف قرار دیا (عالمگیری:۱/۴۵،۴۶، دارالکتاب) پانی کثیر وقلیل مقدار کے لیے کوئی تحدید نہ کی اور اس کو لوگوں کی رائے پر رکھا، جو خود پاکی یاناپاکی کے مسائل سے دوچار ہوں (الدرالمختار: ۱/۳۴۰، زکریا)حقیقت یہ ہے کہ یہ امام ابوحنیفہؒ کے کمال ذہانت اور غایت درجہ فراست کی بات ہے جو انہو ں نے اس سلسلہ میں اختیار کی ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مقدار کسی علاقہ کے لیے کثیر اور کسی علاقہ کے لیے قلیل قرار پائے، مثلاً: ہندوستان کے نشیبی خطہ میں جہاں جگہ جگہ پانی کے بڑے بڑے تالاب ہیں اور پانی کی سطح ۵۰/۶۰/فٹ پر ہے اور راجستھان کے صحراء جہاں پانی کی شدید قلت اور پانی کی سطح نہایت نیچے ہے، کو قلیل وکثیر مقدار کے معاملہ میں ایک ہی پیمانہ کے تحت رکھنا لوگوں کے لیے نہایت تنگی اور دشواری کا باعث ہوگا، احناف کی اس رائے کی روشنی میں ایسے مختلف حالات میں تنگی ودشواری سے بچاجاسکے گا، گرما کے موسم میں تاخیر اور نسبتاً ٹھنڈا ہونے کے بعد نمازِ ظہر کا مستحب ہونا (الدر المختار: ۲/۲۴، زکریا) اور اچھی طرح صبح کھلنے کے بعد نماز فجر کی ادائیگی کو ترجیح دینا (الدرالمختار: ۲/۲۴) فقہ حنفی کے اسی مزاج کا عکاس ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی میں شوافع کے یہاں ضروری ہے کہ قرآن میں بیان کردہ آٹھوں مصارف اور ہرمصرف کے کم سے کم تین حقدار کو دیا جائے؛ گویا ہرکم وبیش زکوٰۃ کم سے کم ۲۴/حقداروں پر تقسیم کی جائے، تب زکوٰۃ ادا ہوگی، اس میں جس قدر دقت ہے وہ محتاج اظہار نہیں، احناف نے کہا کہ کسی ایک مصرف اور اس کے ایک فرد کو بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حق ہے (تبیین الحائق، باب المصرف: ۳/۴۶۷) اس میں جس قدر سہولت ہے وہ ظاہر ہے؛ تاہم ایسا نہ سمجھنا چاہئے کہ احناف یسروسہولت کے لیے اور حرج ومشقت کے ازالہ کی غرض سے نصوص اور حدیث کی صراحتوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں، علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ کا بیان ہے:
"اَلْمَشَقَّةُ وَالْحَرَجُ اِنَّمَا یُعْتَبَرَانِ فِیْ مَوْضَعٍ لَاَنَصَّ فِیْه"۔
(الاشباہ:۱۳۸)
مشقت وحرج کا اعتبار ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں نص موجود نہ ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ احناف نے اس باب میں جس درجہ توازن برتا ہے اور شریعت الہٰی اور ضرورت انسانی کو جس طرح دوش بدوش رکھا ہے وہ شریعت کے اوامر ونواہی اور شریعت کے مقاصد ومصالح دونوں میں گہری بصیرت اور عمیق فہم کا ثبوت ہے۔
عقل واصول سے مطابقت
فقہائے احناف نے دین کے اصول مسلمہ اور قواعد متفقہ نیز عقل سے ہم آہنگی کا خاص خیال رکھا ہے، مثلاً: شریعت کی ایک تسلیم شدہ اصل یہ ہے کہ انسانی جسم پاک ہے اور اس کو چھونا موجب نجاست نہیں، یہ عین مطابق عقل ودانش بھی ہے؛ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے شرمگاہ یاعورتوں کے چھونے کو ناقض وضو قرار نہیں دیا (الدرالمختار، سنن الوضواء: ۱/۴۰۵) آگ میں پکی ہوئی چیزوں کے استعمال کو بھی ناقض وضو نہیں سمجھا (المبسوط للسرخسی: ۱/۱۴۲) صلوۃ کسوف میں دو، تین، چار اور پانچ رکوع والی روایات کے مقابلہ ہررکعت میں ایک رکوع والی روایت کو ترجیح دیا کہ یہ نماز کے عام اصول ومعمول کے مطابق ہے (شامی، باب الکسوف: ۶/۱۸۶) جانور کا دودھ روک کر اسے فروخت کیا جائے، ایسی صورت میں بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جانور اور دودھ سے انتفاع کے بدلے ایک صاع کھجور ادا کی جائے، ظاہر ہے کہ یہ حکم شریعت کے عام قانون مکافات اور اصولِ مجازات سے مطابقت نہیں رکھتے؛ چنانچہ حنفیہ نے اس روایت کو اخلاقی ہدایت پر محمول کیا ہے اور اس نفع کو قانونی طور پر ناقابل عوض ٹھہرایا ہے؛ کیونکہ دین اور اصول انصاف کے مسلمہ اصولوں میں سے یہ ہے کہ جو شخص نقصان کا ذمہ دار ہو، وہی نفع کا بھی حقدار ہے؛ چنانچہ اس صورت میں اگر وہ جانور ہلاک ہوجاتا تو خریدار کو ہی یہ نقصان اٹھانا پڑتا، تو ضروری ہے کہ اس مدت میں جانور کے ذریعہ جو نفع حاصل ہوا ہو، وہی اس کا مالک اور حقدار قرار پائے (عالمگیری، الفصل الثانی فی معرفۃ عیوب الدواب وغیرھا: ۳/۷۲) فقہائے احناف کی آراء اور دوسرے فقہی مذاہب سے اس کا تقابل کیا جائے تو قدم قدم پر فقہ حنفی کا یہ مذاق نمایاں ہوکر سامنے آئیگا۔
مذہبی رواداری
مذہبی آزادی اور غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور مذہبی وانسانی حقوق کا لحاظ جس درجہ فقہ حنفی میں رکھا گیا ہے وہ غالبا اس کا امتیاز ہے، غیرمسلموں کو اپنے اعتقادات کے بارے میں اور ان اعتقادات پر مبنی معاملات کے بارے میں احناف کے یہاں خاص فراخدلی اور وسیع الظرفی پائی جاتی ہے، قاضی ابوزید دبوسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس ذوق ومزاج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
"اَلْاَصْلُ عِنْدَاَبِیْ حَنِیْفَة اَنَّ مَایَعْتَقِدُہٗ اَهلُ الذِّمَّة وَیُدِیْنُوْنَہٗ یَتْرُکُوْنَ عَلَیْهِ"۔
(تاسیس النظر:۱۳)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل یہ ہے کہ اہل ذمہ جو عقیدہ رکھتے ہوں اور جس دین پر چلتے ہوں ان کو اس پر چھوڑ دیا جائے۔
چنانچہ جن غیرمسلموں کے یہاں محرم رشتہ داروں سے نکاح جائز ہو، امام صاحب کے نزدیک ان کے لیے اپنے ایسے رشتہ داروں سے نکاح کرنے پر روک نہیں لگائی جائے گی (شامی، باب نکاح الکافر: ۱۰/۲۷۹) اسی طرح غیرمسلم زوجین میں سے ایک فریق مسلمان قاضی کی طرف رجوع ہو اور شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کا طالب ہو تو قاضی اس معاملہ میں دخل نہیں دے گا، جب تک کہ دونوں فریق اس کے خواہش مند نہ ہوں (شامی، باب نکاح الکافر: ۱۰/۲۸۳) اسی طرح غور کریں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جس طرح مسلم ملک کا غیرمسلم شہری کسی مسلمان کو قتل کرنے کے جرم میں قصاصاً قتل کیا جائے گا اسی طرح مسلمان سے بھی غیرمسلم شہری کے قتل پر قصاص لیا جائیگا (الأم، باب دیۃ اھل الذمۃ: ۷/۳۲۲) یہی حال دیت اور خون بہا کا بھی ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے انسانی خون میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا ہے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دیت کی مقدار برابر رکھی ہے؛ جب کہ عام فقہاء کی رائے اس سے مختلف ہے، یہ چند مثالیں ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جزئیات موجود ہیں جن سے فقہ حنفی کے اس مزاج کی نشاندہی ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی طرف گناہ کی نسبت سے احتراز
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ فعل مسلم کو حتی المقدور حرمت کی نسبت سے بچانے اور حلال جہت پر محمول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، امام کرخی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اِنَّ اُمُوْرَالْمُسْلِمِیْنَ مَحْمُوْلَةٌ عَلیٰ السِّدَادِ وَالصَّلَاحِ حَتّٰی یُظْهِرَ غَیْرُہٗ، مِثَالُ مَنْ بَاعَ دِرْهمًا وَدِیْنَارًا بِدِرْهمَیْنِ وَدِیْنَارَیْنِ جَازَ الْبَیْعُ وَصَرْفُ الْجِنْسِ اِلیٰ خِلَافِ جِنْسِهٖ"۔
(اصول الکرخی: ۱۴۰)
مسلمانوں کے معاملات صلاح ودرستگی پر محمول کئے جائیں گے، تاآنکہ اس کے خلاف ظاہر وواضح ہوجائے، مثلاً: کوئی شخص ایک درہم اور ایک دینار، دودرہم اور دودینار کے بدلہ فروخت کرے تو معاملہ جائز ہوگا اور ایک درہم کو دودینار اور ایک دینار کو دودرہم کے مقابل سمجھا جائے گا۔
اسی طرح ثبوت نسب کے معاملہ میں حنفیہ نے ممکن حد تک احتیاط اور زناکی طرف انتساب سے بچانے کی کوشش کی ہے، قاضی ابوزید دبوسی رحمہ اللہ نے صحیح لکھا ہے:
"اَلْاَصْلُ عِنْدَنَا اَنَّ الْعِبْرَۃ فِیْ ثُبُوْتِ النَّسَبِ صِحَّةُ الْفِرَاشِ وَکَوْنِ الزَّوْجِ مِنْ اَهلِه لَابِالتَّمَکُّنِ بِالْوَطْیِ"۔
(تاسیس النظر:۵۹)
ہمارے یہاں اصل یہ ہے کہ ثبوت نسب کے لیے (نکاح کے ذریعہ) فراش کا صحیح ہونا اور شوہر کا اس کا اہل ہونا کافی ہے، فی الواقع وطی پر قادر ہونا ضروری نہیں ہے۔
چنانچہ وقت نکاح سے ٹھیک چھ ماہ پر ولادت ہو تب بھی حنفیہ کے یہاں نسب ثابت ہوجائے گا (شامی، فصل فی ثبوت النسب: ۶/۱۶۲) اس طرح زوجین میں مشرق ومغرب کا فرق ہو اور بظاہر زوجین کی ملاقات ثابت نہ ہو اس کے باوجود نسب ثابت ہوجائے گا؛ تاکہ کسی مسلمان کی طرف فعل زنا کی نسبت سے بچاجاسکے، کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگائے جانے اور دائرہ اسلام سے خارج کئے جانے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کس درجہ محتاط تھے، اس کا اندازہ علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ابن نجیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام صاحبؒ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کہتا تھا کہ مجھے جنت کی امید نہیں، جہنم کا اندیشہ نہیں، خدا سے ڈرتا نہیں ہوں، قرأت اور رکوع وسجدہ کے بغیر نماز پڑھ لیتا ہوں اور ایسی چیز کی شہادت دیتا ہوں جسے دیکھا تک نہیں، حق کو ناپسند کرتا ہوں اور فتنہ کو پسند کرتا ہوں، امام صاحب رحمہ اللہ نے ان تمام باتوں کی توجیہ فرمائی، فرمایا کہ جنت کے امیدوار نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی رضا کا امیدوار ہوں اور جہنم سے نہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے ظلم کا خطرہ نہیں، بغیر رکوع وسجدہ اور قرأت کے نماز سے مراد نمازِ جنازہ ہے، بن دیکھی گواہی توحید کی گواہی ہے، حق سے بغض رکھنے سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے کہ موت بھی سب سے بڑی حقیقت ہے، فتنہ سے محبت کے معنی اولاد سے محبت ہے؛ کیونکہ کہ اولاد کو قرآن میں فتنہ قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ استفسار کرنے والا کھڑا ہوا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جبین فراست کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ آپ ظرفِ علم ہیں (الاشباہ مع حموی: ۳۰۶) غور کیا جائے کہ کس طرح ایک مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے سے بچایا گیا؛ البتہ اگر قائل خود ہی کفر کا اعتراف کرلے تو پھر کسی تاویل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
قانون تجارت میں دقیقہ سنجی
عبادات کے باب میں نصوص وافرمقدار میں منقول ہیں، نکاح کے متعلق بھی جزئیات اور تفصیلات کا ایک قابل لحاظ حصہ کتاب وسنت میں موجود ہے؛ لیکن تجارت کے باب میں کتاب وسنت میں صرف ضروری اصول اور بنیادی قواعد کی نشاندہی کردی گئی ہے، جن سے شریعت کے مقاصد کی وضاحت ہوجاتی ہے، جزوی تفصیلات بہت کم مذکور ہیں اور ایسا ہونا مصلحت کے عین مناسب ہے؛ کیونکہ اگر معاملات میں عبادات کی طرح حد بندی کردی جاتی تو تغیر پذیر حالات اور متعین قدروں میں ان پر عمل مشکل ہوجاتا، اس لیے تجارت کی جزوی تفصیلات قیاس ورائے اور اجتہاد واستنباط ہی کی رہین منت ہیں اور ان تفصیلات کی تنقیح میں شرح وبسط اور دقت نظر مجتہد کی بصیرت اور فہم کا اصل مظہر ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بڑے تاجروں میں تھے اور کوفہ میں سب سے بڑی دوکان آپ ہی کی تھی، اس لیے طبعی بات ہے کہ تجارت کے احکام جس تفصیل اور وسعت وعمق اور دقت نظری کے ساتھ آپ کے یہاں ملتے ہیں دوسرے فقہاء کے یہاں نہیں ملتے، مثلاً:
۱۔حدیث میں قبضہ سے پہلے کسی سامان کو فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے زمین کو منقولہ جائداد کے حکم سے مستثنی رکھا کہ شریعت کا اصل منشا دھوکہ اور غرر سے تحفظ ہے، منقولہ اشیاء میں اس کا امکان موجود ہے کہ شاید قبضہ میںآنے سے پہلے ہی یہ شیٔ ہلاک وضائع ہوجائے اور غیرمنقولہ جائداد میں بظاہر یہ امکان نہیں ہے۔
(البحرالرائق، فصل فی بیان التصرف فی البیع والثمن قبل قبضہ: ۱۶/۲۲۸)
۲۔حدیث میں بعض مواقع پر کسی تفصیل کے بغیر ذخیرہ اندوزی (احتکار) کو منع کیا گیا ہے (صحیح مسلم: ۸/۳۱۲، حدیث نمبر: ۳۰۱۲) بعض مواقع پر خصوصیت سے اشیاء خوردنی میں ذخیرہ اندوزی کی مذمت آئی ہے، امام ابوحنیفہؒ لوگوں کی ضروریات سے بخوبی واقف تھے اور اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ بعض اشیاء کہ سال بھر ان کی رسد برقرار رکھنے کے لیے ایک گونہ ذخیرہ اندوزی ضروری ہے اور اس میں شارع کا اصل منشا فروخت کے ذخیرہ کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ گاہکوں کے استحصال سے روکنا اور روز مرہ کی زندگی میں ان دشواریوں سے بچانا ہے، ان تمام پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے امام صاحب نے یہ رائے قائم کی کہ نہ ہرشیٔ میں احتکار ممنوع ہے اور نہ یہ ممانعت غذائی اشیاء تک محدود ہے؛ بلکہ عام انسانی ضرورت بھی اس ممانعت میں داخل ہے کہ ان میں احتکار اسی درجہ لوگوں کے لیے مشکلات اور دقتوں کا باعث ہے جتنا کہ اشیاء خوردنی میں۔
(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان: ۲۳)
۳۔بیع سلم میں معاملہ کے وقت مبیع موجود نہیں ہوتی، بعد کو ادا کی جاتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی اچھی طرح تعیین عمل میں آجائے؛ تاکہ آئندہ نزاع کا کوئی امکان باقی نہ رہ جائے، فقہ حنفی میں اس کی بڑی تفصیل ملتی ہے؛ چنانچہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ضروری قرار دیا کہ اس شیٔ کی جنس، نوعیت، مقدار، صفت، ادائیگی کی مدت، مبیع کی حوالگی کے مقام کے علاوہ کس شہر کی صنعت ہے؟ اور اس کی صراحت بھی کردی جائے کہ مختلف شہروں اور علاقوں کی صنعتوں اور ان کی قیمتوں میں قابل لحاظ فرق ہوتا ہے (الدرالمختار، باب السلم: ۲۰/۲۳۳) اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے گوشت میں بیع سلم کی اجازت نہیں دی اور وجہ یہ بیان کی کہ گوشت کبھی فربہ ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس (الدرالمختار، باب السلم: ۲۰/۲۴۲) بہرحال تجارتی قوانین میں اس کی بہت سی جزئیات موجود ہیں جو امام صاحب کی دقت نظر، مقاصد شریعت، فہم صحیح، انسانی ضروریات سے آگہی، تاجروں کے مزاج سے واقفیت اور احتیاطی پیش بندی کا مظہر ہیں۔
حیلۂ شرعی
حیلہ کے اصل معنی معاملات کی تدبیر میں مہارت کے ہیں "اَلْحَذَقُ فِیْ تَدْبِیْرِ الْاُمُوْرِ" (الاشباہ: ۴۰۶) شریعت کی اصطلاح میں حرمت ومعصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو(المبسوط: ۳۳/۴۸۶) حیلہ کے تعلق سے احناف کے نقطۂ نظر کا انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور صرف حیلہ کی تعبیر پر توجہ مرکوز نہ رکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فن احناف کے یہاں کمال ذکاوت، امت کو حرام سے بچانے کی سعی اور شریعت کی حدوداربعہ میں رہتے ہوئے انسانیت کو حرج سے بچانے کے محمود جذبات کا عکاس ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"فَالْحَاصِلُ اَنَّ مَایَخْتَلِصُ بِهٖ الرَّجُلُ مِنَ الْحَرَامِ اَوْیَتَوَصَّلُ بِهٖ اِلیٰ الْحَلَالِ مِنَ الْحِیَلِ فَهُوَ حَسَنٌ وَاِنَّمَا یَکْرَہ ذٰلِکَ اَنْ یَحْتَالَ فِیْ حَقِّ لِرَجُلٍ حَتّٰی یُبْطِلَه اَوْفِیْ بَاطِلٍ حَتّٰی یَمُوْہٗ… فَمَاکَانَ عَلیٰ هذَا السَّبِیْلِ فَهُوَ مَکْرُوْه وَمَاکَانَ عَلیٰ السَّبِیْلِ الَّذِیْ قُلْنَا اَوَّلًا فَلَا بَأَسَ بِهٖ"۔
(المبسوط: ۳۳/۴۸۶)
حاصل یہ ہے کہ وہ حیل جن کے ذریعہ انسان حرام سے خلاصی یاحلال تک رسائی کا خواہاں ہو بہتر ہے، ہاں کسی کے حق کا ابطال یاباطل کی ملمع سازی مقصود ہو تو ناپسندیدہ ہے؛ غرض یہ ہے کہ یہ صورت درست نہیں ہے اور پہلے ذکر کی گئی صورت درست ہے۔
اس وضاحت کے بعد کسی صاحب انصاف کے لیے احناف کے نقطۂ نظر سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہمارے فقہاء کرام نے عام طور پر عبادات میں حیلہ سے گریز کیا ہے، ابوبکر خصاف کی تالیف "کتاب المحیل والمخارج" میں عبادات میں صرف چند حیلہ ذکر کئے گئے ہیں؛ اگرکسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اور کوئی مستحق زکوٰۃ اس مقروض کو اپنی زکوٰۃ دے دے اور پھر اس سے وہی رقم بطورِ اداء قرض کے وصول کرلے۔
(ہندیہ، کتاب الیل فی مسائل الزکاۃ: ۱۵/۶۸)
اسی طرح اگر میت کی تدفین میں زکوٰۃ خرچ کرنے پر مجبور ہو تو یوں کرے کہ متوفی کے ولی جو صاحبِ نصاب کو زکوٰۃ دے دے اور وہ اسے کفن میں خرچ کردے (ھندیہ،کتاب الحیل مسائل الزکاۃ: ۵۱/۷۰) مسجد کی تعمیر کرنی ہو تو اس علاقہ کے فقراء کو زکوٰۃ دے دے کہ بطورِ خود مسجد تعمیر کرلیں، نیز یہ احتیاط بھی برتے کہ خاص تعمیر کے لیے نہ دے، بلکہ کہے کہ یہ تمہارے لیے صدقہ ہے۔
(ھندیہ، کتاب الحیل فی مسائل الزکاۃ: ۵۱/۷۰)
غور کیجئے کہ حیلہ کی ان صورتوں میں کہیں تحریم حلال اور فرائض وواجبات سے پہلو تہی کا کوئی جذبہ نظر آتا ہے؟ خود امام ابوحنیفہؒ سے طلاق وغیرہ کے مسائل میں جو حیلے منقول ہیں اور جوان کی حیرت انگیز اور تعجب خیز ذکاوت کا ثبوت ہیں وہ بالکل اسی نوع کے ہیں اور حیلہ کے ناقدین جیسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس کی داد دی ہے۔
(اعلام المؤقعین، فصل الحیلۃ المحرمہ: ۳/۲۵۱)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ جو حیلہ کے زبردست ناقد ہیں؛ انہو ں نے اعلام المؤقعین میں حیلہ کی تین قسمیں بیان کی ہیں، ایک وہ جس کا مقصد ظلم کو قبل از وقت روکنا ہو، دوسرے یہ کہ جو ظلم ہوچکا ہو اس کو دفع کیا جائے، تیسرے جس ظلم کو دفع کرنا ممکن نہ ہو اس کے مقابلہ میں اس طرح عمل کیا جائے، خود ابن قیم کا بیان ہے کہ پہلی دونوں صورتیں جائز ہیں اور تیسری صورت میں تفصیل ہے (اعلام الموقعین: ۳/۲۴۰) پس حیلہ کا اگر صحیح مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ عین رحمت ہے اور دین کے مزاج"یسر" اور "رفع حرج" کے عین مطابق ہے اور اس باب میں فقہائے احناف کی ذکاوت وفطانت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
فقہ تقدیری
فقہ حنفی کا ایک امتیاز فقہ تقدیری بھی ہے، فقہ تقدیری کا مطلب یہ ہے کہ مسائل کے پیش آنے سے پہلے ہی ممکن الوقوع مسائل کے حل کی طرف توجہ دی جائے، فقہاء حجاز جو عقلی امکانات کے تفحص اور قیل وقال سے دور اور سادہ طور پر مسائل کو سمجھنے اور رائے قائم کرنے کے خوگر تھے، وہ اس طرح کے مسائل کے احکام بتانے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن فقہاء عراق جن کے یہاں دقیقہ سنجی، دور بینی، طلب وتفحص اور شریعت کی روح اور مقاصد میں غواصی کا رنگ غالب تھا "فقہ تقدیری" ان کے مزاج میں داخل تھی اور وہ اس پر مجبور بھی تھے کہ مشرق کے علاقہ میں نئی نئی قوموں اور علاقوں کے مملکت اسلامی میں شمولیت کی وجہ سے وہ نوپید مسائل سے بمقابلہ فقہاء حجاز کے زیادہ دوچار تھے، اسی لیے فقہاء احناف کے یہاں فقہ تقدیری کا حصہ زیادہ ہے اور افسوس کہ نصوص کے ظاہر پر جمود اور اس کے دقیق مطالعہ اور روح ومقصد تک رسائی سے مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے بعض محدثین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس ہنر کو عیب سمجھ لیا؛ حالانکہ خود حدیث میں موجود ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنۂ دجال کے ظہور اور اس زمانہ میں دن اور رات کے اوقات کی غیرمعمولی وسعت کا ذکر فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ اس وقت نماز پنجگانہ کیوں کر ادا کی جاسکے گی (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۵۲۲۸) غور کیجئے کہ یہ مسئلہ قبل ازوقوع حل کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔
فقہ تقدیری کے بارے میں فقہاء عراق اور فقہاء حجاز کے نقطۂ نظر کا فرق اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے جسے خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ حضرت قتادہ جب کوفہ تشریف لائے تو غائب شحص کی بیوی اور اس کے مہر کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور قتادہ کے درمیان گفتگو ہوئی، قتادہ نے دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نفی میں جواب دیا، قتادہ نے کہا جب یہ واقعہ پیش نہیں آیا تو اس کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے، امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم مسائل کے پیش آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں تاکہ مسائل جب پیش آجائیں تو ہم بآسانی اس سے عہدہ برآہوسکیں ۔
"اِنَّانَسْتَعِدُّ لِلْبَلَاءِ فَاِذَا مَاوَقَعَ عَرَفْنَا الدُّخُوْلَ فِیْہ وَالْخُرُوْجَ مِنْه"۔
(تاریخ بغداد:۶/۱۰۶، ذکر من اسمہ نعمان)
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فقہ حنفی کی مقبولیت اور اس کے شیوع کی اصل وجہ اس کی یہی خصوصیات ہیں یعنی توازن واعتدال، ضرورت انسانی کی رعایت، نصوص ومصالح کی باہم تطبیق، شریعت کی روح او رمقصد کی رعایت اور ظاہر پر جمود بے جا سے گریز، اقلیت کے ساتھ منصفانہ رویہ، شخصی آزادی کا احترام اور تقاضائے تمدن سے زیادہ مطابقت اور ہم آہنگی ہے اور بالخصوص ایک ترقی یافتہ تمدن کا ساتھ دینے کی صلاحیت ایسی بات ہے جس نے بجا طور پر خطۂ مشرق کو جو بمقابلہ دوسرے علاقوں کے زیادہ متمدن اور تہذیب آشنا تھا، فقہ حنفی پر فریفتہ کردیا
----4----
فقہ حنفی پر عمل کرنا بہتر هے یا قرآن و حدیث پر ؟؟
جواب
یہ وسوسہ بهی جہلاء کو بڑا خوبصورت معلوم هوتا هے ، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اس لیئے کہ جس طرح حدیث قرآن کی شرح هے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح هے ، اب اصل سوال یہ بنتا هے کہ قرآن وحدیث پر عمل علماء وفقہاء وماهرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور نام نہاد جاهل فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی تشریح کے مطابق ؟؟ اهل سنت والجماعت توقرآن وحدیث پرعمل کرتے هیں مستند علماء وفقہاء ومجتهدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق اور اسی کا نام علم فقہ هے ، جب کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل ناسمجهہ لوگ نام نہاد خودساختہ جاهل شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے هیں ،
اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ کس کا عمل زیاده صحیح هے ۔
جواب
یہ وسوسہ بهی جہلاء کو بڑا خوبصورت معلوم هوتا هے ، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ بهی باطل وفاسد هے ، اس لیئے کہ جس طرح حدیث قرآن کی شرح هے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح هے ، اب اصل سوال یہ بنتا هے کہ قرآن وحدیث پر عمل علماء وفقہاء وماهرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور نام نہاد جاهل فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی تشریح کے مطابق ؟؟ اهل سنت والجماعت توقرآن وحدیث پرعمل کرتے هیں مستند علماء وفقہاء ومجتهدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق اور اسی کا نام علم فقہ هے ، جب کہ نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل ناسمجهہ لوگ نام نہاد خودساختہ جاهل شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے هیں ،
اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ کس کا عمل زیاده صحیح هے ۔
----5----
کیا فقہ حنفی کا ہر مسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت هے؟؟
جواب
یہ وسوسہ بهی عوام میں پهیلایا جاتا هے ، صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے ساتهہ بغض کی وجہ سے ، آپ کبهی بهی نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی زبانی فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی ، کے خلاف کوئی بات نہیں سنیں گے کیونکہ ان کا مقصد ومشن امام ابوحنیفہ اور فقہ حنفی کی مخالفت هے ، کیونکہ یہ فرقہ شاذه اسی کام کے لیئے هندوستان میں پیدا کیا گیا ،
باقی مذکوره بالا وسوسہ کا جواب یہ هے کہ الحمد لله فقہ حنفی کا هرمفتی بہ اورمعمول بها مسئلہ سند ودلیل کے ساتهہ ثابت هے ، اور سند سے بهی زیاده مضبوط وقوی دلیل تواتر هے ، اوراهل سنت کے نزدیک یہ بات متواتر هے کہ فقہ حنفی کے مسائل واجتهادات امام ابوحنیفہ اورآپ کے تلامذه کے هیں ،
اورعلماء امت نے مذاهب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مستقل کتب لکهی هیں ، مثال کے طور پر کتاب (( بداية المجتهد ونهاية المقتصد )) علامہ القاضي أبي الوليد ابن رشد القرطبي المالکی کی هے ، اس میں مذاهب اربعہ کے تمام مسائل دلائل کے ساتهہ موجود هیں، اوراس باب میں یہ کتاب انتہائیبہترین اورمقبول کتاب هے ، اسی طرح ایک کتاب (( الفقه على المذاهب الأربعة )) علامہ عبد الرحمن الجزيري کی هے ، اسی طرح ایک کتاب (( رحمة الأمة في اختلاف الأئمة )) علامہ محمد بن عبدالرحمن بن الحسين القرشي الشافعي الدمشقی کی هے ،
اسی طرح امام شعرانی کی کتاب (( المیزان )) وغیرذالک اسی طرح بہت سارے کتب ورسائل علماء اهل سنت کے موجود هیں جس میں مذاهب اربعہ کے مسائل موجود هیں ، توامام اعظم ابوحنیفہ کے مسائل وفقہ بهی ثابت هے اسی لیئے توعلماء اهل سنت امام اعظم ابوحنیفہ کے اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ، تمام علماء متاخرین ومتقدمین ( اگلے پچهلے ) سلف وخلف سب دیگرائمہ کے ساتهہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مذهب اور اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں یہ وسوسہ کہ فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں هے بالکل باطل وفاسد هے ،
اور هم اس وسوسہ کے پهیلانے والے نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے جہلاء سے سوال کرتے هیں کہ تم قرآن مجید کی هر هر آیت حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند کے ساتهہ ثابت کرو الحمد سے والناس تک پڑهتے جاو اور ایک ایک آیت کی سند بهی پیش کرتے جاو ، نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے اگلے پچهلے سب جمع هوجائیں تب بهی پیش نہیں کرسکتے ، اگرنام نہاد فرقہ اهل حدیث کے یہاں تواتر کی کوئی حیثیت نہیں هے صرف سند ضروری هے توپهرسارے قرآن کا کیا کروگے ؟؟ لهذا هم کہتے هیں کہ قرآن مجید کی ایک ایک حرف ایک ایک آیت محفوظ هے اورثابت بالتواتر هے ، بعینہ اسی طرح فقہ حنفی کے مسائل تواترکے ساتهہ ثابت هیں ، اورالحمد لله دلائل کے اعتبارسے فقہ حنفی اقرب الی الکتاب والسنہ هے ، اور اس بات کا اقرار صرف علماء احناف هی نہیں بلکہ غیرعلماء احناف نے بهی کیا هے۔
کیا فقہ حنفی کا ہر مسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت هے؟؟
جواب
یہ وسوسہ بهی عوام میں پهیلایا جاتا هے ، صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے ساتهہ بغض کی وجہ سے ، آپ کبهی بهی نام نہاد فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء کی زبانی فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی ، کے خلاف کوئی بات نہیں سنیں گے کیونکہ ان کا مقصد ومشن امام ابوحنیفہ اور فقہ حنفی کی مخالفت هے ، کیونکہ یہ فرقہ شاذه اسی کام کے لیئے هندوستان میں پیدا کیا گیا ،
باقی مذکوره بالا وسوسہ کا جواب یہ هے کہ الحمد لله فقہ حنفی کا هرمفتی بہ اورمعمول بها مسئلہ سند ودلیل کے ساتهہ ثابت هے ، اور سند سے بهی زیاده مضبوط وقوی دلیل تواتر هے ، اوراهل سنت کے نزدیک یہ بات متواتر هے کہ فقہ حنفی کے مسائل واجتهادات امام ابوحنیفہ اورآپ کے تلامذه کے هیں ،
اورعلماء امت نے مذاهب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مستقل کتب لکهی هیں ، مثال کے طور پر کتاب (( بداية المجتهد ونهاية المقتصد )) علامہ القاضي أبي الوليد ابن رشد القرطبي المالکی کی هے ، اس میں مذاهب اربعہ کے تمام مسائل دلائل کے ساتهہ موجود هیں، اوراس باب میں یہ کتاب انتہائیبہترین اورمقبول کتاب هے ، اسی طرح ایک کتاب (( الفقه على المذاهب الأربعة )) علامہ عبد الرحمن الجزيري کی هے ، اسی طرح ایک کتاب (( رحمة الأمة في اختلاف الأئمة )) علامہ محمد بن عبدالرحمن بن الحسين القرشي الشافعي الدمشقی کی هے ،
اسی طرح امام شعرانی کی کتاب (( المیزان )) وغیرذالک اسی طرح بہت سارے کتب ورسائل علماء اهل سنت کے موجود هیں جس میں مذاهب اربعہ کے مسائل موجود هیں ، توامام اعظم ابوحنیفہ کے مسائل وفقہ بهی ثابت هے اسی لیئے توعلماء اهل سنت امام اعظم ابوحنیفہ کے اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ، تمام علماء متاخرین ومتقدمین ( اگلے پچهلے ) سلف وخلف سب دیگرائمہ کے ساتهہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مذهب اور اقوال ومسائل بهی نقل کرتے هیں ،
توامام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں یہ وسوسہ کہ فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں هے بالکل باطل وفاسد هے ،
اور هم اس وسوسہ کے پهیلانے والے نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے جہلاء سے سوال کرتے هیں کہ تم قرآن مجید کی هر هر آیت حضور صلی الله علیہ وسلم سے سند کے ساتهہ ثابت کرو الحمد سے والناس تک پڑهتے جاو اور ایک ایک آیت کی سند بهی پیش کرتے جاو ، نام نہاد فرقہ اهل حدیث کے اگلے پچهلے سب جمع هوجائیں تب بهی پیش نہیں کرسکتے ، اگرنام نہاد فرقہ اهل حدیث کے یہاں تواتر کی کوئی حیثیت نہیں هے صرف سند ضروری هے توپهرسارے قرآن کا کیا کروگے ؟؟ لهذا هم کہتے هیں کہ قرآن مجید کی ایک ایک حرف ایک ایک آیت محفوظ هے اورثابت بالتواتر هے ، بعینہ اسی طرح فقہ حنفی کے مسائل تواترکے ساتهہ ثابت هیں ، اورالحمد لله دلائل کے اعتبارسے فقہ حنفی اقرب الی الکتاب والسنہ هے ، اور اس بات کا اقرار صرف علماء احناف هی نہیں بلکہ غیرعلماء احناف نے بهی کیا هے۔
----6----
ائمہ فقہ
ائمہ فقہ
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں حضر ت عمر رضی اﷲ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے بعد بڑے بڑے فقہاء يہ حضرات تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲعنہ
حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ
حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ
حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ عنہ حضرت ابودردا رضی اﷲعنہ
حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲعنہ حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ عنہ
دور تابعین کے مشہور فقہاء
علقمہ بن قیس رحمہ اﷲ (کوفہ63ھ)
مسروق بن اجدع رحمہ اﷲ (کوفہ63ھ)
شریج بن حارث الکندی رحمہ اﷲ (کوفہ 78ھ)
عبدالرحمن بن غنم رحمہ اﷲ (شام78ھ)
ابو ادریس خولانی رحمہ اﷲ (شام 80ھ)
قبیصہ بن ذویب رحمہ اﷲ(شام86ھ)
ابو العالیہ رفیع رحمہ اﷲ(بصرہ90ھ)
جابر بن زید رحمہ اﷲ ( بصرہ93ھ)
امام زید العابدین رحمہ اﷲ( مدینہ94ھ)
سعید بن المسیب رحمہ اﷲ (مدینہ94ھ)
ابوسلمہ رحمہ اﷲ (94 ھ)
عروہ بن زیبر رحمہ اﷲ(مدینہ94ھ)
ابوبکر عبد الرحمن (مدینہ94 ھ)
ابوبکر بن عبد الرحمن حارث مخرومی رحمہ اﷲ ( مدینہ94ھ)
اسود بن یزید النخعی رحمہ اﷲ( کوفہ95ھ)
امام ابراہیم النخعی رحمہ اﷲ ( کوفہ 96ھ)
حسن المثنی رحمہ اﷲ (مدینہ97ھ)
سعید بن جبیر رحمہ اﷲ ( کوفہ98ھ)
خارجہ بن زید رحمہ اﷲ (مدینہ99ھ)
حضرت عمربن عبد العزیز رحمہ اﷲ ( شام101ھ)
امام مکحول رحمہ اﷲ ( شام 101ھ)
مجاہد بن جبیر رحمہ اﷲ (مکہ 103ھ)
عامر بن عبد شرجیل الشعبی رحمہ اﷲ(کوفہ106ھ)
حادس بن کیسان رحمہ اﷲ(یمن106ھ)
ضحاک بن مزاحم رحمہ اﷲ ( خراسان106ھ)
سالم بن عبد اﷲ رحمہ اﷲ (106ھ)
قاسم بن محمد رحمہ اﷲ(بصرہ110ھ)
سلیمان بن یسار رحمہ اﷲ(مدینہ107ھ)
حسن بن ابی الحسن الیسار رحمہ اﷲ(بصرہ110ھ)
عطاء بن ابی رباح رحمہ اﷲ( مکہ 115ھ)
رجاءبن حیوة الکندی رحمہ اﷲ( شام112ھ)
وہب بن منبہ رحمہ اﷲ( یمن 114ھ)
امام باقر رحمہ اﷲ( مدینہ114ھ)
میمون بن مہران رحمہ اﷲ(الجزیرہ 116ھ)
حماد بن سلیمان رحمہ اﷲ( کوفہ120ھ)
یزید بن ابی حبیب رحمہ اﷲ( مصر128ھ)
یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اﷲ( یمن129ھ)
ائمہ اربعہ
( 1)امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ
(2)امام مالک رحمہ اﷲ
(3)امام شافعی رحمہ اﷲ
(4)امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ
----7----
مجلس فقہ کے چالیس [40] ارکان کا ثبوت
امام طحاوی رحمه الله نے بسند متصل نقل کیا ہے کہ اسد بن فرات نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله کے ہمنشیں جنہوں نے فقہ کو مدون کیا چالیس [۴۰] آدمی تھے - ان میں سے صف اول کے دس [۱۰] میں سے ، امام زفر رحمه الله ، داؤد طائی رحمه الله ، اسد بن عمرو رحمه الله ، یوسف بن خالد ستمی رحمه الله اور یحیی بن زکریا بن ابی زائدہ ہیں اور یہ آخرالذکر تیس [۳۰] سال تک فرائض کتابت سر انجام دیتے رہے
حسن التقاضی ص ۱۲ مناقب کردی ص ۱۱۵۷
بقول خطیب ان میں سے یہ حضرات بھی ہیں - عافیہ ازدی رحمه الله ، قاسم بن معن رحمه الله ، علی بن مسہر رحمه الله ، حبان اور مندل رحمهم الله تعالی
ردلمختار میں بحوالہ طحطحاوی رحمه الله لکھا ہے کہ فقہ کے جمع کرتے وقت ایک ہزار [۱۰۰۰] عالم امام صاحب کے ساتھ تھے - جن میں چالیس شخص درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے - اتنے علماء میں ہر مسئلہ کی تحقیق ہوتی تھی - اور سب کے اتفاق سے جب مسئلہ طے ہوجاتا تو اس وقت کتاب میں لکھا جاتا
انوارالباری تذکرۃالمحدثین ص ۷۱
مسند خوارزمی میں ہے کہ امام صاحب جس وقت اپنے استاد امام حماد کی جگہ مسجد کوفہ میں مسند درس پر رونق افروز ہوئے تو ایک ہزار [۱۰۰۰] شاگرد آپ کے پاس جمع ہوگئے جن میں سے چالیس [۴۰] ایسے محدثین اور فقہاء تھے جن کو اجتہاد کا درجہ حاصل تھا
انوارالباری تذکرۃالمحدثین ص ۷۰
قال الطحاوی کتب الی ابن ابی ثور یحدثنی عن سلیمان بن عمران حدثنی اسد بن الفرات قال کان اصحاب ابی حنیفة الذین دونوا الکتب اربعین رجلا فکان فی عشرۃ المتقدمین ابو یوسف و زفر و داؤد الطائی و اسد بن عمرو و یوسف بن خالد السمتی و یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ و کان یکتب لهم ثلاثین سنة
الجواہر المضیۂ ج ۲ ص ۲۱۲
ترجمہ :: امام طحاوی رحمه الله نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اصحاب امام میں سے چالیس آدمی ہیں جنہوں نے کتابیں مدون کیں، پہلے دس میں ابو یوسف ، زفر ، داؤد الطائی ، اسد بن عمرو ؟ یوسف بن خالد اور یحیی بن زکریا تھے
اور دوسری روایت میں ہے
"وکان اصحاب ابی حنیفة الذی دونوا معه الکتب اربعین رجلا کبراء اکبرأ"
حسن التقاضی ص ۱۲
یعنی امام صاحب نے چالیس [۴۰] بڑے بڑے ساتھیوں کو ساتھ ملاکر [فقہ] کی کتابوں کو مدون کرایا
اراکین مجلس فقہ کی تفصیل
امام طحاوی رحمه الله نے بسند متصل نقل کیا ہے کہ اسد بن فرات نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله کے ہمنشیں جنہوں نے فقہ کو مدون کیا چالیس [۴۰] آدمی تھے - ان میں سے صف اول کے دس [۱۰] میں سے ، امام زفر رحمه الله ، داؤد طائی رحمه الله ، اسد بن عمرو رحمه الله ، یوسف بن خالد ستمی رحمه الله اور یحیی بن زکریا بن ابی زائدہ ہیں اور یہ آخرالذکر تیس [۳۰] سال تک فرائض کتابت سر انجام دیتے رہے
حسن التقاضی ص ۱۲ مناقب کردی ص ۱۱۵۷
بقول خطیب ان میں سے یہ حضرات بھی ہیں - عافیہ ازدی رحمه الله ، قاسم بن معن رحمه الله ، علی بن مسہر رحمه الله ، حبان اور مندل رحمهم الله تعالی
ردلمختار میں بحوالہ طحطحاوی رحمه الله لکھا ہے کہ فقہ کے جمع کرتے وقت ایک ہزار [۱۰۰۰] عالم امام صاحب کے ساتھ تھے - جن میں چالیس شخص درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے - اتنے علماء میں ہر مسئلہ کی تحقیق ہوتی تھی - اور سب کے اتفاق سے جب مسئلہ طے ہوجاتا تو اس وقت کتاب میں لکھا جاتا
انوارالباری تذکرۃالمحدثین ص ۷۱
مسند خوارزمی میں ہے کہ امام صاحب جس وقت اپنے استاد امام حماد کی جگہ مسجد کوفہ میں مسند درس پر رونق افروز ہوئے تو ایک ہزار [۱۰۰۰] شاگرد آپ کے پاس جمع ہوگئے جن میں سے چالیس [۴۰] ایسے محدثین اور فقہاء تھے جن کو اجتہاد کا درجہ حاصل تھا
انوارالباری تذکرۃالمحدثین ص ۷۰
قال الطحاوی کتب الی ابن ابی ثور یحدثنی عن سلیمان بن عمران حدثنی اسد بن الفرات قال کان اصحاب ابی حنیفة الذین دونوا الکتب اربعین رجلا فکان فی عشرۃ المتقدمین ابو یوسف و زفر و داؤد الطائی و اسد بن عمرو و یوسف بن خالد السمتی و یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ و کان یکتب لهم ثلاثین سنة
الجواہر المضیۂ ج ۲ ص ۲۱۲
ترجمہ :: امام طحاوی رحمه الله نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اصحاب امام میں سے چالیس آدمی ہیں جنہوں نے کتابیں مدون کیں، پہلے دس میں ابو یوسف ، زفر ، داؤد الطائی ، اسد بن عمرو ؟ یوسف بن خالد اور یحیی بن زکریا تھے
اور دوسری روایت میں ہے
"وکان اصحاب ابی حنیفة الذی دونوا معه الکتب اربعین رجلا کبراء اکبرأ"
حسن التقاضی ص ۱۲
یعنی امام صاحب نے چالیس [۴۰] بڑے بڑے ساتھیوں کو ساتھ ملاکر [فقہ] کی کتابوں کو مدون کرایا
اراکین مجلس فقہ کی تفصیل
نمبر ۰۱ -امام زفر بن ھذیل [م۱۵۸ھ]
نمبر ۰۲ -امام مالک بن مغول [م۱۵۹ھ]
نمبر ۰۳ -امام داؤد طائی [م۱۶۰ھ]
نمبر ۰۴ -امام مندل بن علی [م۱۶۸ھ]
نمبر ۰۵ -امام نصر بن عبدالکریم [م۱۶۹ھ]
نمبر ۰۶ -امام عمرو بن میمون [م۱۷۱ھ]
نمبر ۰۷ -امام حبان بن علی [م۱۷۲ھ]
نمبر ۰۸ -امام ابو عصمہ نوح بن مریم [م۱۷۳ھ]
نمبر ۰۹ -امام زہیر بن معاویہ [م۱۷۳ھ]
نمبر ۱۰ -امام قاسم بن معن [م۱۷۵ھ]
نمبر ۱۱ -امام حماد بن امام اعظم [م۱۷۶ھ]
نمبر ۱۲ -امام ہیاج بن یسطام [م۱۷۷ھ]
نمبر ۱۳ -امام شریک بن عبدالله [م۱۷۸ھ]
نمبر ۱۴ -امام عافیہ بن یزید [م۱۸۰ھ]
نمبر ۱۵ -امام عبدالله بن مبارک [م۱۸۱ھ]
نمبر ۱۶ -امام ابو یوسف [م۱۸۲ھ]
نمبر ۱۷ -امام محمد بن نوح [م۱۸۲ھ]
نمبر ۱۸ -امام ہشیم بن بشیر سلمی [م۱۸۳ھ]
نمبر ۱۹ -امام ابو سعید بن زکریا بن ابی زائدہ [م۱۸۴ھ]
نمبر ۲۰ -امام فضیل بن غیاض [م۱۸۷ھ]
نمبر ۲۱ -امام اسد بن عمرو [م۱۸۸ھ]
نمبر ۲۲ -امام محمد بن حسن شیبانی [م۱۸۹ھ]
نمبر ۲۳ -امام علی بن مسہر [م۱۸۹ھ]
نمبر ۲۴ -امام یوسف بن خالد سمتی [م۱۸۹ھ]
نمبر ۲۵ -امام عبدالله بن ادریس کوفی [م۱۹۲ھ]
نمبر ۲۶ -امام فضل بن موسی سینانی [م۱۹۲ھ] –
نمبر ۲۷ -امام علی بن ظبیان [م۱۹۲ھ]
نمبر ۲۸ -امام حفض بن غیاث [م۱۹۴ھ]
نمبر ۲۹ -امام ہشام بن یوسف [م۱۹۳ھ]
نمبر ۳۰ -امام یحیی بن سعید القطان [م۱۹۸ھ]
نمبر ۳۱ -امام شعیب بن اسحاق [۱۹۸ھ]
نمبر ۳۲ -امام ابو حفض بن عبدالرحمن [م۱۹۹ھ]
نمبر ۳۳ -امام ابو مطیع بلخی [م۱۹۹ھ]
نمبر ۳۴ -امام خالد بن سلیمان [م۱۹۹ھ]
نمبر ۳۵ -امام عبدالحمید بن عبدالرحمن کوفی [م۲۰۳ھ]
نمبر ۳۶ -امام حسن بن زیاد [م۲۰۴ھ]
نمبر ۳۷ -امام ابو عاصم نبیل [م۲۱۲ھ]
نمبر ۳۸ -امام مکی بن ابراہیم [م۲۱۵ھ]
نمبر ۳۹ -امام حماد بن دلیل [م۲۱۵ھ]
امانی الاحبار و الجواہر المضیہ
بزم احناف ص ۷۴ تا ۷۷
----7----
ایک لامذہب تبرائی غیرمقلد کے فقہ حنفی پر چند
اعتراضات کی حقیقت
وکیل احناف ، مناظر اسلام ، ترجمان اہلسنت
حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی نور الله مرقدہ
بسم الله الرحمن الرحیم
نمبر [01] خنزیر کی حرمت : ملکہ وکٹوریہ کے زیر سایہ جب یہ فرقہ غیرمقلدین پیدا ہوا اس نے دیکھا کہ انگریز خنزیر خور قوم ہے اور مسلمان خنزیر سے بہت نفرت کرتے ہیں تو مسلمانوں کے خلاف انگریز کو خوش کرنے کے لئے ان کے مسلمہ علماء نے خنزیر کے پاک ہونے کا فتوی دیا
علامہ وحید الزماں غیرمقلد نے "لکھا انسان کے بال ، مردار اور خنزیر پاک ہیں - خنزیر کی ہڈی ، پٹھے ، کھر ، سینگ اور تھوتھنی سب پاک ہیں [کنزالحقائق ص 13] علامہ نورالحسن نے لکھا خنزیر کے نجس العین ہونے کا دعوی ناتمام ہے [عرف الجادی ص 10]
علامہ صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں [بدور الاہلہ ص 16]
وحید الزماں نے خنزیر کو اپنے بال جیسا پاک کہا اور دوسرے نے تو یہ عزت دی کہ ماں جیسا پاک کہا
مطالبہ : احناف نے مطالبہ کیا کہ آپکا دعوی ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں . . . . . . اور ہمارا ہر ہر مسئلہ حدیث صحیح صریح غیر معارض سے ثابت ہے اس لئے ایک صحیح صریح غیر معارض حدیث ایسی ثابت کریں کہ خنزیر کی ہر چیز غیر مقلد کے بال کی طرح پاک ہے یا خنزیر غیر مقلد کی ماں کی طرح پاک ہے مگر وہ ایسی کوئی حدیث پیش نہ کرسکے ، ادھر عوام اہل اسلام نے ملامت کی کہ ملکہ وکٹوریہ کی چاپلوسی کی حد کردی کہ اس کی خوشی کے لئے خنزیر تک کو پاک کہہ دیا
اعتراض : اب لامذہب بار بار اپنے ملاؤں سے مطالبہ کرتے کہ خنزیر کے بال اور ماں جیسے پاک ہونے کی حدیث بیان کرو انہوں نے لاجواب ہو کر اپنے جاہلوں کو سکھادیا کہ حنفیوں کی کتاب "منیۃ المصلی" میں لکھا ہے خنزیر کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے اور اس میں نماز بھی جائز ہے
جواب : اصل مسئلہ : مذہب حنفی کی ظاہرالروایت یہی ہے کہ خنزیر اور اس کے تمام اجزاء نجس عین ہیں [منیۃ المصلی ص 66] اصحاب ثلاثہ [امام ابو حنیفہ رحمه الله ، امام ابو یوسف رحمه الله ، امام محمد رحمه الله] سے ظاہرالروایت یہی ہے کہ خنزیر نجس العین ہے اس کی کھال دباغت سے پاک نہیں ہوتی [منیۃ المصلی ص 64] یہی مذہب حنفی ہے اسی پر پوری دنیا میں احناف کا عمل ہے اس اصل مسئلہ کو چھپایا یہ کتمان حق یہود کی عادت تھی پھر روافض کا مذہب بنی ، اور اب لامذہب تبرائی غیرمقلدین کی بسر اوقات بھی اسی پر ہے
اصل عبارت : جس عبارت کا اس تبرائی غیر مقلد نے حوالہ دیا ہے ، پوری عبارت مع شرح منیہ یہ ہے - و ذکر فی نوادر ابی الوفاء قال یعقوب یعنی ابا یوسف لو صلی فی جلد خنزیر مد بوغ جاز و قد اساء بناء علی انه یطهر بالدباغ عندہ فی غیر ظاھر الوایة وقد تقدم و قال ابو حنیفة و محمد لاتجوز الصلاة فیه ولا یطهر بالدباغة و قد مر ان ھذا ھو ظاھر الروایة عن ابی یوسف ایضآ [کبیری ص 195 متن منیة المصلی ص 90] حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی میں بھی اس روایت کو شاذ کہا ہے [برمنیہ ص 64 حاشیہ نمبر 7]
فریب نمبر 01 : مذہب حنفی جو ظاہرالروایت ہے جس پر ہر جگہ عمل ہے اس کے خلاف شاذ روایت بیان کی ، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائی ، یہودی ، رافضی متواتر قرآن پاک کے متعلق وسوسے ڈالنے کے لئے شاذ قرأتوں سے تحریف قرآن ثابت کرکے عوام اہل اسلام کے دلوں میں وسوسے ڈالا کرتے ہیں
فریب نمبر 02 : "قد اساء" کا لفظ بیان ہی نہیں کیا
فریب نمبر 03 : یہ نہ بتایا کہ روایت نوادر کی ہے
فریب نمبر 04 : آپ کے مذہب میں تو خنزیر سارا بلادباغت پاک ہے ، مصلی بنایئے مشک بنایئے
نمبر [02] مسئلہ استحاضہ کا : انگریز کے دور میں جب اس نے اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اسلام کے احکام بہت سخت ہیں ، معاذ الله فطرت کے خلاف ہیں تو مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے فقہ کے اس مسئلے کو غیر مقلدین نے شہرت دی "غنیة المستملی شرح منیة المصلی" کی مکمل عبارت یہ ہے
وفی الذخیره امرأة رأس ولدھا و خافت فوت الوقت توصأت ان قدرت و الا تیممت و جعلت رأس ولدھا فی قدر او حفیرة و صلت قاعدۃ برکوع و سجود فان لم تستطعهما تؤمی ایماء ای تصلی بحسب طاقتها و لا تفوت الصلوۃ عن وقتها لانها لم تصر نفساء بخروج الولد ما لم تر الدم بعد خروج کله والدم الذی تراہ فی حالة الولادۃ قبل خروج الولد استحاصة لا تمنع الصلوۃ فکانت مکلفة بقدر وسعها فلا یجوز لها تفویت الصلوۃ عن وقتها الا ان عجزت بالکلیة کما فی سائر المرضی [ص 264 ، منیة المصلی ص 115 ، 116 حاشیه نمبر 1]
ناقل نہ نہ تو عبارت مکمل نقل کی اور "توضأت" صیغہ مونث کو "توضأ" صیغہ مذکر بنادیا اور "الا" کو "لا" بنادیا ، اس جہالت پر اتنا تکبر ہے حالانکہ یہ مسئلہ نہ کسی آیت قرآنی کے خلاف ہے اور نہ ہی کسی حدیث صحیح کے خلاف ہے ، خلاصہ یہ کہ
[الف] بچہ کی پیدائش کے بعد جو خون عورت کو آتا ہے وہ نفاس ہے اس میں نماز معاف ہے
[ب] بچے کا تھوڑا حصہ نکلتے وقت جو خون عورت کو آتا ہے وہ استحاضہ ہے اس میں نماز معاف نہیں
[ج] بعض عورتوں کو دو دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ نفاس نہیں آیا ، استحاضہ آتا رہا ، بچہ بھی پورا پیدا نہیں ہوا
[د] ان وقتوں کی نمازوں کا کیا حکم ہے ، ظاہر ہے کہ نفاس سے قبل نماز معاف نہیں ہوتی اس لئے جو باقی بیماروں کا حکم ہے وہی اس عورت کا ہے ، اگر وضو کرسکتی ہے تو بہتر ورنہ تیمم کرلے ، اگر بیٹھ کر رکوع سجدہ سے پڑھ سکتی ہے تو بہتر ورنہ اشارہ سے پڑھ لے ، اگر اتنا بھی نہیں کرسکتی تو باقی مریضوں کی طرح وہ معذور ہے
اگر لامذہب اس مسئلہ کے خلاف ایک صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردے تو ہم صراحۃ لکھ دیں گے یہ مسئلہ قرآن یا حدیث کے خلاف ہے اور لامذہب قیامت تک ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے گا
ہم تو صاف کہہ دیں گے کہ جب یہ مسئلہ نہ قرآن کے خلاف ہے نہ حدیث صحیح کے لیکن اس کے مقدمات اجماعآ مسلم ہیں تو اس کو ماننا ضروری ہوا
نمبر [03] مسئلہ رطوبت فرج : ملکہ وکٹور
[یہ کے اشارہ ابرو پر جب بعض لوگ مذہب حنفی کو چھوڑ کر لا مذہب بن گئے ، یہاں کے سب حنفی مسلمان منی کو بھی ناپاک کہتے تھے ، لامذہبیوں نے فتوی دیا کہ "منی ہر چند پاک است"عرف الجادی ص 10] منی خواہ گاڑی ہو یا پتلی خشک ہو یا تر ہر حال میں پاک ہے [نزل الابرار ج 1 ص 49] والمنی طاھر [کنزالحقائق ص 16] بلکہ ایک قول میں کھانے کی اجازت دی [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] اور یہ بھی فتوی دیا کہ "رطوبة الفرج طاھرة" [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49] عورت کے فرج کی رطوبت بھی پاک ہے [تیسرالباری ج 1 ص 207] اب عوام نے مطالبہ کیا کہ ایک صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کرو کہ منی پاک ہے اور ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے اور یہ حدیث بھی پیش کرو کہ عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے ، اب اس لامذہب کا فرض تھا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لیتا مگر افسوس کہ "منی آلودہ منہ" اور "رطوبت فرج آلودہ جسم" سے احناف کے سامنے اپنی پاکدامنی کے گیت گانے لگا اور یہ بھی نہ بتایا کہ لامذہبوں کے ہاں تو رطوبت فرج بالاتفاق اور بلاتفصیل پاک ہے البتہ احناف کے ہاں اس میں تفصیل ہے
نمبر [01] عورت کو پیشاب کی جگہ آگے کی کھال کے اندر پانی پہنچانا غسل میں فرض ہے اگر پانی نہ پہنچے تو غسل نہ ہوگا [بہشتی زیور ج 1 ص 71] یہ جگہ فرج خارج اور فرج داخل کی درمیانی جگہ ہے جہاں غسل کے وقت پانی پہچانا فرض ہے ، باقی بدن کی طرح اس جگہ بھی پسینہ وغیرہ آتا ہے اس کا حکم بدن کے بیرونی پسینے کا ہی ہے یہ پاک ہے ورنہ عورت کو ہر وضو کے وقت استنجاء کا حکم ہوتا [ردالمختار ج 1 ص 112 ، ج 1 ص 208] اس کے پاک ہونے میں اتفاق ہے
نمبر [02] وہ رطوبت جو ماوراء باطن الفرج سے آئے "فانه نجس قطعا" [ردالمختار ج 2 ص 208] یہ بالاتفاق نجس ہے ، لیکوریا وغیرہ
نمبر [03] فرج داخل باہر سے بند ہے اور اندر سے جوف دار ہے تو حرارت غریزی جو تمام جسم میں دائر سائر ہے رطوبت بدنیہ کو بخارات بناکر مسامات جلدیہ سے باہر نکالتی رہتی ہے ، اس جوف میں وہ پسینہ سا جمع ہو کر مبدل بہ رطوبت ہوجاتا ہے ، اگر اس رطوبت میں خون یا منی یا مذی مرد یا عورت کی شامل ہوجائے بالاتفاق نجس ہے [ردالمختار ج 1 ص 233]
نمبر [04] اگر اس رطوبت میں منی وغیرہ کی ملاوٹ نہ ہو تو اس کے پاک ناپاک ہونے میں اختلاف ہے ، امام صاحب رحمه الله کے نزدیک پاک ہے اور صاحبین کے نجس ہے ، علامہ شامی رحمه الله فرماتے ہیں "وھو الاحتیاط" یعنی احتیاط صاحبین کے قول میں ہے اور تاتارخانیہ میں اس اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ انڈا اگر پانی میں گرجائے تو اس پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس انڈے پر فرج کی رطوبت لگی ہوتی ہے اور اس کراہت کے قول کو مختار قرار دیا ہے [ردالمختار ج 1 ص 233] اب دیکھئے ان کا اپنا مذہب بالاتفاق پاک ہونے کا ہے مگر ہمارے ہاں احتیاط اس کے نجس کہنے میں ہے اور قول مختار کراہت کا ہے
الحاصل : رطوبت جلد بھی پسینہ کی طرح بالاتفاق پاک ہے ، رطوبت رحم بالاتفاق ناپاک ہے اور رطوبت فرج مختلف فیہ ہے احتیاط قول بالکراہت میں ہے
نمبر [04] کتے کی کھال کا مسئلہ : دور برطانیہ میں انگریز کو خوش کرنے کے لئے جب فرقہ غیر مقلدین کی بنیاد رکھی گئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کہ آقاء نعمت کتے سے بڑا پیار کرتے ہیں تو غیر مقلدین نے بھی کتے کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کردی . ابن حزم نے یہ لکھا تھا کہ کتا ہبہ میں دینا جائز ہے بلکہ بیوی کو حق مہر میں کتا دینا جائز قرار دیا [المحلی]
نواب صدیق الحسن خان نے تو پوری تفصیل سے لکھا کہ
کتے کے گوشت ، ہڈی ، خون ، بال ، پسینہ میں سے کسی کی نجاست ثابت نہیں [بدور الاہلہ ص 16]
اور علامہ وحید الزماں نے تو کتے کے پیشاب کو بھی پاک کہہ دیا [ہدیۃ المہدی ج 3 ص 78]
کتے اور خنزیر کے لعاب کو بھی پاک قرار دے دیا گیا [نزل الابرار ج 1 ص 49 ، 50]
کتے کے پاخانے کو بھی راجح قول میں پاک قرار دیا گیا [نزل الابرار ج 1 ص 49]
اس پر لوگوں نے یہ سوال کیا کہ اگر آپ سچے اہل حدیث ہیں تو ایک ایک صریح حدیث لائیں کہ کتے کا گوشت ، ہڈی ، خون ، پسینہ ، پاخانہ ؟ پیشاب سب کچھ پاک ہے ، جواب خود پیش نہ کرسکے تو لاجواب ہو کر وسوسہ اندازی پر اتر آئے کہ حنفی مذہب میں اگر کتے کو ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت اور کھال پاک ہوجاتے ہیں پہلا سوال تو ہہ ہے کہ آپ کے مذہب میں تو بلا ذبح ہی کھال اور گوشت بلکہ سب کچھ پاک ہے اس کی حدیث پیش کرو ؟ اور دوسری حدیث یہ پیش کرو کہ جب بلا ذبح پاک ہے تو بعد ذبح کیوں ناپاک ہے ؟. ہم کہتے ہیں کہ چیزیں دو قسم کی ہیں ایک نجس العین جیسے پاخانہ ، پیشاب ، خنزیر وغیرہ یہ نہ دھونے سے پاک ہوتے ہیں نہ دباغت سے ، نہ ذبح سے . دوسری وہ جو خود نجس العین نہیں لیکن کسی نجس العین کے لگنے سے ناپاک ہوں جیسے کپڑے پر پاخانہ لگ جائے تو یہ دھونے سے پاک ہوجائے گا اب حرام جانور کے گوشت کی مثال تو پہلے نجاست کی ہے اس لئے اگرچہ اس میں اختلاف ہے
مگر اصح قول ناپاکی کا ہے چناچہ علامہ حلبی رحمه الله فرماتے ہیں "وفی طهارۃ لحمه بها اختلافا و الصحیح النجاسة [غنیة المستملی ص 147] اور کھال کی مثال دوسری قسم کی نجاست کی ہے یہ خود حالت حیات میں پاک تھی ناپاک کپڑے کی طرح اس میں نجس رطوبات سرایت کرگئیں تو جب دباغت سے وہ نجس رطوبات زائل ہوگئیں تو کھال صاف ہوگئی "ایما اھاب دبغ فقد طھر" [الحدیث] اور جو چیز دباغت سے پاک ہوجاتی ہے وہ ذکوۃ سے بھی پاک ہوجاتی ہے "الا ما ذکیتم" اسی لئے شارح منیہ فرماتے ہیں "فالحاصل ان فی طهارۃ جلد ما لا یو کل بالذکوۃ اختلافا و الاصح الطهارۃ [غنیة المستملی ص 147]
اگر ان مسائل کے خلاف کوئی صحیح صریح غیر معارض پیش کریں تو ہم ضد نہیں کریں گے مگر یہ ان کے بس کی بات نہیں
نمبر [05] اجرت دیکر زنا کرنے پر حد نہیں : دور برطانیہ میں جب لامذہب غیر مقلدین کا فرقہ پیدا ہوا تو اس فرقہ نے شہوت پرست امراء کو اپنے فرقہ میں شامل کرنے کے لئے اپنی عورتوں کو متعہ کے نام سے زنا کی کھلی چھٹی دے دی چناچہ ان کے سب سے بڑے مصنف علامہ وحید الزماں جس نے قرآن اور صحاح ستہ کا ترجمہ کیا ہے نے صاف لکھ دیا کہ "متعہ کی اباحت قرآن پاک کی قطعی آیت سے ثابت ہے" [نزل الابرار ج 2 ص 3] جب قرآن پاک سے متعہ کا قطعی لائسنس مل گیا تو اب نہ گناہ رہا نہ کو سزا "حد یا تعزیر کا تو کیا ذکر" ، انہوں نے صاف لکھا کہ "متعہ پر عمل کرکے سو شہید کا ثواب نہ لیتی" اہل مکہ کے متبرک عمل میں شرکت نہ کرتی جب کہ حد یا تعزیر تو کجا کسی کے انکار کا بھی خطرہ نہ تھا اس سے ملک بھر کے شرفاء چیخ اٹھے کہ یہ کونسا فرقہ ہے جس نے گھر گھر یہ کام شروع کرلیا ہے تو اب یہ بہت پریشان ہوئے انہوں نے سوچا کہ اپنا کام جاری رکھو لیکن بدنام حنفیوں کو کرو تاکہ وہ ہمیں روک نہ سکیں چناچہ انہوں نے شور مچادیا کہ تمہارے مذہب میں بھی تو اجرت دے کر زنا کرنے پر حد نہیں اس ایک حوالے میں کئی بے ایمانیاں کیں
نمبر 01 : حد نہ ہونے کا مطلب یہ بتایا کہ جائز ہے کوئی گناہ یا سزا نہیں
نمبر 02 : ہم نے مطالبہ کیا کہ صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض ایک ہی حدیث پیش کرو جس میں یہ ہو کہ اجرت دے کر زنا پر حد ہے مگر وہ بالکل پیش نہ کرسکے
نمبر 03 : قرآن پاک میں الله تعالی فرماتے ہیں "فما استمتعتم به منهن فآتوھن اجورھن" ان عورتوں سے حتنا نفع تم نے اٹھایا ہے ان کی اجرت ان کو دے دو یہاں قرآن میں الله تعالی نے مہر کو اجرت قرار دیا مہر اور اجرت آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے اس آیت سے لفظ اجرت میں مہر کا شبہ ہوگیا اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہوگئی اس کو قرآن و حدیث پر عمل کہتے ہیں ، تم نے نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ، عالمگیری میں صراحت ہے کہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے [عالمگیری ج 2 149]
نمبر 04 : لیکن حد ساقط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو بدکاری کی چھٹی دی جائے گی اور اس پر کوئی سزا نہ دی جائے گی بلکہ "ویوجعان عقوبة و یحبسان حتی یتوبا" [عالمگیری ج 1 ص 149] ان کو ایسی دکھ کی مار دی جائے گی کہ دوسروں کو عبرت ہو اور اس مار کے بعد ان کو قید کردیا جائے گا جب تک ان کی توبہ کا یقین نہ ہو - "کیا کسی لامذہب میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنی کسی معتبر کتاب میں متعہ کی یہ سزا دکھائے ، آپ کے ہاں تو انکار بھی جائز نہیں بلکہ عمل بالقرآن ہے
اور پھر اس لامذہب نے یہ بھی نہ بتایا کہ یہ مسئلہ فقہ کا متفق علیہ نہیں بلکہ خود امام صاحب رحمه الله سے ایک قول حد کے واجب ہونے کا ہے "و الحق وجوب الحد کاالمستاجرۃ للخدمة فتح درمختار ج 3 ص 172 ای کما ھو قولهما [ردالمختار ج 3 ص 157 ، 172] امام صاحب رحمه الله بھی قول میں صاحبین کی طرح فرماتے ہیں حق یہی ہے کہ حد واجب ہے - الحاصل ہمارے مذہب میں یہ فعل زنا ہی ہے اور گناہ کبیرہ ہے اختلاف صرف اس میں ہے کہ زنا موجب حد ہے یا شبہ کی وجہ سے موجب تعزیر ، امام صاحب رحمه الله سے دونوں اقوال موجود ہیں جب کہ لامذہبوں کے ہاں یہ "زنابالاجرۃ نہ زنا ، نہ گناہ ، نہ حد ، نہ تعزیر ، نہ انکار بلکہ قرآن پر عمل ہے"
نمبر [06] وطی محارم بعد نکاح پر حد نہیں : دور برطانیہ میں جب یہ فرقہ پیدا ہوا تو شہوت پرستی میں انتہا کو پہنچ گیا چناچہ انہوں نے فتوی دیا کہ "بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو اور جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو [لغات الحدیث وحید الزماں غیر مقلد پ 6 ص 56]
اور اگرچہ قرآن کی نص موجود تھی ایک مرد ایک وقت میں چار سے زائد عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتا مگر نواب صدیق حسن اور نورالحسن نے فتوی دیا کہ چار کی کوئی حد نہیں جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے [ظفرالامانی ص 141 ، عرف الجادی ص 111]
اور شہوت میں یہاں تک بڑھے کہ اگر کسی عورت سے زید نے زنا کیا اور اسی زنا سے لڑکی پیدا ہوئی تو زید خود اپنی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے [عرف الجادی ص 109]
اور نکاح اور زنا میں یہی فرق تھا کہ زنا کے گواہ نہیں ہوتے نکاح میں گواہ شرط ہیں - میر نورالحسن صاحب نے اس حدیث کو بھی ضعیف کہا اور کہا کہ یہ ناقابل استدلال ہے [عرف الجادی ص 107]
اور شہوت میں ایسے اندھے ہوگئے کہ فطری مقام کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا غیر فطری مقام استعمال کرے تو بھی [حد یا تعزیر کجا] اس پر انکار تک جائز نہیں [ہدیۃ المہدی ج 1 ص 118]
بلکہ یہاں تک فتوی دیا کہ دبر آدمی میں صحبت کرنے والے پر غسل بھی واجب نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں [ہدیۃ المہدی ج 1 ص 28]
بلکہ ایک اور نسخہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی شخص اپنا آلہ تناسل اپنی دبر میں داخل کرے تو غسل واجب نہیں [نزل الابرار ج 1 ص 41]
بلکہ نظر بازی سے بچنے کا یہ وہابی نسخہ بھی بتادیا کہ مشت زنی کرلو اور نظر بازی کے اس گناہ سے بچنا ممکن نہ ہو تو مشت زنی واجب ہے اور بتایا کہ [معاذ الله] صحابه کرام رضی الله عنهم بھی مشت زنی کیا کرتے تھے [عرف الجادی ص 207]
اس قسم کے اور بھی کئی فتوے دیئے گئے تو اہل سنت و الجماعت نے مطالبہ کیا کہ اپنے اصول کے مطابق ان میں سے ہر مسئلے کی دلیل میں کوئی صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض حدیث بیان کریں اور لوگوں نے کہا کہ یہ کیسا فرقہ پیدا ہوا ہے جس سے بیٹی تک محفوظ نہیں اور یہ نہ اپنی بیوی کی دبر کو معاف کریں نہ اپنی دبر کو تو یہ فرقہ کبھی اپنے مسائل کو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کرسکتا اس لئے بجائے قرآن و حدیث پیش کرنے کے دوسروں پر کیچڑ اچھالتا ہے چناچہ علماء سے تو یہ منہ چھپانے لگے کہ وہ قرآن و حدیث کا مطالبہ کرتے تھے ، اپنے لونڈوں کے ذریعے عوام میں یہ بات پھیلادی کہ حنفی مذہب میں بھی بیٹی اور دیگر محرمات سے نکاح جائز ہے اس کا جواب میں احناف نے بتایا کہ
نمبر 01 - یہ محض جھوٹ ہے ہماری فقہ کی کتابوں میں صراحت ہے کہ ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ محرمات ابدیہ ہیں ، ان سے ہرگز نکاح جائز نہیں [ہدایہ وغیرہ]
نمبر 02 - ان سے نکاح کرنا تو کجا اگر کوئی شخص صرف یہ کہے کہ ماں بیٹی سے نکاح جائز ہے تو وہ کافر ہے مرتد ہے واجب القتل ہے [فتح القدیر ج 5 ص 42]
نمبر 03 - اور مطالبہ کیا گیا کہ تم بھی بتاؤ کہ جب نورالحسن نے بیٹی سے نکاح جائز لکھا تو کس کتاب میں اس کو کافر مرتد واجب القتل کہا گیا ؟
نمبر 04 –پھر اس مطالبہ میں لاجواب ہوکر کہنے کہ ماں بہن سے نکاح کرنا تو جائز نہیں ہاں فقہ میں لکھا ہے کہ نکاح کرے صحبت کرے تو اس پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے اس کے جواب میں احناف نے کہا کہ یہ بھی محض بہتان ہے فقہ میں تو صاف لکھا ہے یوجع عقوبة ۱ [حاشیہ نمبر 01 - ویعاقب عقوبة ھی اشد ما یکون من التعزیر سیاسة لا حد - فتح القدیر ج 5 ص 40] اسے عبرتناک سزا دی جائے [عالمگیری ج 2 ص 148] "یوجب عقوبة فیعزز" [ہدایہ ج 2 ص 516] سزا واجب ہے اور وہ تعزیر ہے اور یہ سزاء تعزیر بھی قتل تک ہے "ویکون التعزیر بالقتل کمن وجد رجلا مع امرأة لا تحل له" [درمختار ج 3 ص 179] یہ تعزیر قتل تک بھی ہوتی ہے جیسے کوئی مرد ایسی عورت کے ساتھ پایا گیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھی [تو اس کے لئے قتل ہے] اس لئے یہ جھوٹ ہے کہ فقہ میں اس کی سزا نہیں ہے
نمبر 05 - پھر کہنے لگے ہاں فقہ کے اعتبار سے نکاح تو جائز نہیں سزا بھی ہے مگر فقہ نے ان کو گناہ [حاشیہ۱] [حاشیہ نمبر ۱ بلکہ یہ زنا سے بڑا گناہ ہے - طحاوی ج 2 ص 96] نہیں کہا اب ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ گناہ نہیں تو سزاء قتل کس نیکی کی ہے؟ اور فقہ میں صاف صاف تصریح ہے "انه ارتکب جریمة" [ہدایہ ج 1 ص 516] یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے - اتنے جھوٹ بولنے کے بعد آخر کہا کہ فقہ میں لکھا ہے کہ "حد نہیں"
نمبر 06 - احناف نے کہا کہ حضور صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں کہ "البینة علی المدعی" دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے - آپ حد کے مدعی ہیں ہم حد کا انکار کرتے ہیں - آپ کا فرض ہے کہ ایک ہی حدیث صحیح صریح غیر معارض ایسی پیش فرمائیں جس میں آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ہو کہ جو شخص محرمات ابدیہ سے نکاح کرکے صحبت کرلے اگر وہ کنوارہ ہو تو سو 100 کوڑے مارے جائیں اگر شادی شدہ ہو تو سنگسار کیا جائے ہم بغیر کسی ضد کے مان لیں گے کہ فقہ کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن وہ کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے نہ کر سکیں گے
نمبر 07 - آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے زمانہ میں کسی نے ماں سے نکاح کیا آپ صلی الله علیه وسلم نے اس کو قتل کرکے اس کا مال لوٹ لینے کا حکم دیا [رواہ الخمسه] ہاں ترمذی ابن ماجہ میں اخذ مال کا ذکر نہیں [منتقی الاخبار] ظاہر ہے کہ یہ زنا کی حد نہیں نہ کوڑے نہ سنگسار اس فعل کی تعزیر ہے
نمبر 08 - ابن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں جو محرمات میں سے کسی سے صحبت کرے اس کو قتل کردو [ابن ماجہ] اب یہ بھی پمفلٹ شائع کرو کہ حضور صلی الله علیه وسلم نے حد کیوں نہ بتائی نہ لگائی تعزیر کیوں بتائی اور لگوائی - افسوس عامل بالحدیث ہونے کا دعوی اور احادیث کا انکار
نمبر 09 - لامذہب غیر مقلدین کے پاس سوائے قیاس کے اس مسئلہ میں کچھ نہیں وہ کہتے ہیں کہ جب نکاح باطل ہے تو کالعدم ہے اس پر وہ کوئی حدیث پیش نہیں کرسکتے لیکن امام صاحب رحمه الله فرماتے ہیں کہ نکاح باطل بھی شبہ بن جاتا ہے اگرچہ قیاس تو نہیں مانتا لیکن حدیث میں ہے آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جو عورت بغیر ولی کے نکاح کرے وہ نکاح باطل ہے - ترمذی ج 1 ص 176 اور ابن ماجہ ص 136 پر تو اسے زانیہ فرمایا لیکن پھر بھی حد تو کیا لگتی اس کو مہر دلایا جارہا ہے - اسی طرح حضرت عمر رضی الله عنه کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت میں نکاح کیا تھا حضرت عمر رضی الله عنه نے اس پر حد جاری نہ فرمائی بلکہ تعزیر لگوائی [ابن ابی شیبہ] ظاہر ہے کہ یہ نکاح شرعی نہ تھا اور حضرت عمر رضی الله عنه نے صحابه کرام رضی الله عنهم کی موجودگی میں حد ساقط کردی اور تعزیر لگائی تو نص حدیث اور اجماع صحابه رضی الله عنهم سے ثابت ہوا کہ نکاح حرام بھی شبہ بن جاتا ہے اور نص حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ شبہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے
حافظ صاحب !! اس کو حدیث پر عمل کرنا کہتے ہیں اور یہ ہے احادیث کا فہم ، آپ کا عمل بالحدیث کا دعوی ایسا باطل ہے جیسے منکرین حدیث کا عمل بالقرآن کا دعوی باطل ہے
نمبر 10 - حافظ صاحب !! اس اعتراض کے جواب میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی رحمه الله نے مستقل رسالہ ہے جسکا نام "القول الجازم فی سقوط الحد من نکاح المحارم" جس کے جواب سے آج تک تمہاری جماعت عاجز ہے اور تمہارے بڑے بڑے علماء نذیر حسین دہلوی ، صدیق حسن بھوپالی ، وحید الزماں ، شمس الحق عظیم آبادی ، عبدالرحمن مبارکپوری ، ثناء الله امرتسری ، عبدالله روپڑی اس قرض کو سر پر لے کر فوت ہوگئے ہیں
نمبر 11 - حافظ صاحب !! آپ کے مذہب کے موافق ایک لامذہب لڑکے نے اپنی بہن سے نکاح کیا اور صحبت کی آپ کوڑے لگاکر چھوڑ دیں گے وہ پھر دوسری بہنوں سے پھر ماں سے پھر پھوپھی سے پھر خالہ سے باری باری نکاح کرتا رہے گا اور کوڑے کھاتا رہے گا اس کے برعکس حنفی قاضی اسے پہلی مرتبہ قتل کروادے گا تعزیرآ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ، تو بتایئے سزا ہماری سخت ہوئی یا آپ کی ؟ معاشرہ ہماری سزا سے بچے گا یا آپ کی سزا سے ؟ دیکھا فقہ پر اعتراض کرنے کے لئے کتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ، کتنی خیانتیں کرنی پڑتی ہیں ، کتنی حدیثوں کا انکار کرنا پڑتا ہے
نمبر [07] نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا
نمبر [08] عورت کی شرمگاہ پر نظر پڑنا : دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو شہوت رانی میں اتنا آگے بڑھا کہ نماز میں ستر عورت کی شرط کا انکار کردیا چناچہ فتوی دیا کہ "ہر کہ در نماز عورتش نمایاں شد نمازش صحیح باشد [عرف الجادی ص 22] یعنی پوری نماز میں جس کی شرمگاہ سب کے سامنے نمایاں رہی اس کی نماز صحیح ہوتی ہے - "اما آنکہ نماز زن اگرچہ تنہا باشد یا بازناں یا باشوھر یا بادیگر محارم باشد بے ستر تمام عورت صحیح نیست پس غیر مسلم ست [بدور الاہلہ نواب صدیق الحسن ص 39] یعنی عورت تنہا بالکل ننگی نماز پرسکتی - عورت دوسری عورتوں کے ساتھ سب ننگی نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، میاں بیوی دونوں اکٹھے مادر زاد ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، عورت اپنے باپ بیٹے بھائی چچا ماموں سب کے ساتھ مادر زاد ننگی نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے
یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجبوری کے مسائل ہوں گے علامہ وحید الزماں وضاحت فرماتے ہیں "ولو صلی عریانآ و معہ ثوب صحت صلوتة" [نزل الابرار ج 1 ص 65] یعنی کپڑے پاس ہوتے ہوئے بھی ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے
آخر ابوجہل اور مشرکین مکہ بھی تو کپڑوں کے باوجود کپڑے اتار کر ننگے طواف کیا کرتے تھے ، نماز میں شرمگاہ کا ڈھانکنا تو امام ابو حنیفہ رحمه الله کے نزدیک شرط ہے جن کی تقلید حرام ہے ، ابوجہل کے نزدیک تو شرط نہیں اس کی تقلید کرلی گئی ، فقہ حنفی میں تو یہاں تک احتیاط تھی کہ نماز باجماعت میں عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوجائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے - لیکن لامذہب اتنا عرصہ بھی عورت سے دور نہیں رہ سکتے تھے اس کو فقہ کا مسئلہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا ، اور "نزل الابرار" میں صراحۃ لکھ دیا کہ مرد عورت جماعت میں ساتھ ساتھ نماز پڑھ لیں نماز فاسد نہیں ہوتی ، اب ظاہر ہے کہ عورت مرد کے ٹخنے سے ٹخنہ ، کندھے سے کندھا ، اور ٹانگوں کو خوب چوڑا کرکے کھڑی ہوگی ، حنفی مذہب میں عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم تھا تاکہ اس کے ستر کا احترام رہے ، لامذہبیوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ بالکل مردوں کی طرح خوب اونچی ہوکر سجدہ کریں بازو ، پیٹ اور پسلیوں سے اتنے دور ہوں کہ درمیان سے بکری کا بچہ گزرسکے ، ہندو گنگا کا غسل بھی کرتے تھے ، دیوی کا درشن بھی - لامذہب اس درشن میں کن کن امور پر توجہ دیتے تھے فرماتے ہیں "بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو [لغات الحدیث وحید الزماں لفظ الحارقہ] عورت کو خوبصورتی قائم رکھنے کا نسخہ بھی بتاگیا کہ "عورت کو زیر ناف بال استرے سے صاف کرنے چاہئیں ، اکھاڑے سے محل ڈھیلا ہوجاتا ہے [فتاوی نذیریہ] اب ایسی حالت کہ مرد عورت ننگے نمازیں پڑھ رہے ہوں عورت سجدہ بھی کھل کر کررہی ہو عورت کی شرمگا پر نظر پرنا لازمی تھا ، ہوسکتا تھا کہ کوئی ذرا جھجک محسوس کرتا اس لئے اسے بتادیا گیا کہ "ہمچنیں دلیلے بر کراہت نظر در باطن فرج نیا مدہ [بدور الاہلہ ص 175] عورت کی شرمگاہ کے اندر جھانکنا بالکل مکروہ بھی نہیں اور چوتڑوں پر نظر ہر وقت رہے گی اس لئے فتوی دیا کہ "در جواز استمتاع وغیرہ از فخذین وظاہر الیتین و نحو آں خود ہیج شک و شبہ نہ باشد و سنت صحیحہ بداں دار دگشتہ" [بدور الاہلہ ص 175] یعنی چوتڑوں اور رانوں سے فائدہ اٹھانا بے شک و شبہ جائز ہے بلکہ سنت صحیحہ سے ثابت ہے اب کون غیر مقلد مرد ہوگا جو اس صحیح سنت پر عمل نہ کرے خاص طور پر جبکہ یہ سنت مردہ بھی ہوچکی ہو اور اس کو زندہ کرنے میں سو شہید کا ثواب بھی ملے تو ہم خرماو ہم ثواب پر عمل کیسے چھوڑا جائے - اب اس ڈرامے میں اگر مرد کو انتشار ہوجائے تو وہ عضو مخصوص کو ہاتھوں سے زور سے دبائے ہوئے نماز پڑھتا رہے [نزل الابرار] ایسے وقت میں تو رفع یدین بھول جائے گا کیونکہ بڑے اہم کام میں مشغول ہیں ، ایسے وقت میں عورت کی شرمگاہ سے رطوبت خارج ہو تو بھی مضائقہ نہیں کیونکہ عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207] اور اگر منی بھی بہہ جائے تو کیا خوف وہ بھی تو پاک ہے [عرف الجادی ص 10 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، کنزالحقائق ص 16 ، بدور الاہلہ ص 15 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207]
اور یہ سب کچھ قرآن و حدیث کے نام پر ہورہا تھا اور رات دن تقریر و تحریر کے ذریعے یہی اعلانات کئے جاتے تھے کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن و حدیث کا مسئلہ ہے تو احناف نے پوچھ لیا کہ ذرا ان مسائل پر آیت قرآنیہ اور احادیث صحیحہ پیش فرمائیں تو ان کے عمل بالحدیث کا بھانڈا چور رستے میں پھوٹ گیا ، بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء احناف کو گالیاں بکنے ، آج بھی آپ اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ہم ان سے ثبوت مانگتے ہیں کہ اپنی نماز کا ہر ہر جزئی مسئلہ احادیث صحیحہ سے ثابت کرو تھ اس کے بجائے فقہاء کو گالیاں بکنا شروع کردیتے ہیں ، اب جس فرقہ کی شہوت رانی کا یہ عالم ہو وہ قرآن کیا یاد کرسکتے ہیں یا یاد کیا ہوا قرآن انہیں کب یاد رہ سکتا ہے تو انہوں نے نمازوں میں قرآن ہاتھ میں لے کر قرأت پڑھنا شروع کردی اس پر جب حدیث مرفوع کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ کسی امتی کا قول و فعل ان کے لئے دلیل نہیں بن سکتا تو جواب میں حدیث پیش کرنے کے بجائے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ حنفیوں کے نزدیک قرآن دیکھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے مگر نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھتے رہنا جائز ہے اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ساری فقہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے - اب اس [07] اور [08] نمبر کی وضاحت بھی ملاحظہ فرمائیں
وضاحت - نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا : ہمارے ہاں نماز میں قرأت پڑھنا تو فرض ہے اگر مقدار فرض قرأت بھی نہ پڑھی تو نماز باطل ہے ہاں قرآن ہاتھ میں لے پڑھنے میں اس کا اٹھانا ، اس کے اوراق کو الٹ پلٹ کرنا ، مستقل اسی پر نظر جمائے رکھنا ایسے افعال ہیں جو نماز سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی آنحضرت صلی الله عليه وسلم سے ثابت ہیں پھر قرآن سے تعلیم حاصل کرنا یہ بھی تعلیم و تعلم ہوا قرأت تو نہ ہوئی ، یہ سب باتیں عمل کثیر ہیں اور ایسا عمل کثیر جو افعال نماز سے تعلق نہ رکھتا ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے [ہدایہ ، عالمگیری] تاہم ہمیں کوئی ضد نہیں اگر آپ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث سے ثابت کردیں کہ قرآن اٹھانے ، ورق الٹنے ، اس سے تعلیم حاصل کرنے سے عمل کثیر نہیں بنتا اور نمار فاسد نہیں ہوتی تو ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہمارا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن حدیث کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے آج تک ایک حدیث بھی پیش نہ کرسکے اور نہ ہی قیامت تک کرسکیں گے - انشاء الله العزیزامام ترمذی رحمه الله نے حضرت رفاعہ بن رافع رحمه الله اور ابو داؤد و نسائی نے حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی الله عنه سے حدیث روایت کی ہے ایک شخص کو اتنا قرآن بھی یاد نہ تھا جتنا نماز میں فرض ہے تو آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا "تم قرآن کے بجائے حمد و ثنا پڑھ لیا کرو" ظاہر ہے کہ قرأت نماز میں فرض ہے اس شخص کو اتنا قرآن زبانی یاد نہ تھا اگر دیکھ کر پڑھنے سے نماز جائز ہوتی تو آپ صلی الله علیه وسلم اس سے پوچھتے کہ دیکھ کر پڑھ سکتے ہو یا نہیں اور دیکھ کر پڑھ لینا حفظ سے آسان ہے ، آپ نے اس کو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہوا کہ دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں - حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں "نهانا امیر المومنین عمر رضی الله عنه ان نؤم الناس فی المصحف راوہ ابن ابی داؤد" [کنز العمال ج 4 ص 246] حضرت عمر رضی الله عنه نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر نمازیں پڑھائیں تو احناف کا مسئلہ حدیث رسول صلی الله علیه وسلم ، فرمان خلیفہ راشد اور قیاس شرعی سے ثابت ہے کہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے اور لامذہبوں کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے
وضاحت - نماز میں عورت کو دیکھنا : فقہ حنفی میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ نماز پڑھتے ہوئے عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے
نمبر 01 - احادیث میں ایک اختلاف یہ ہے : عورت نمازی کے سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے [مسلم ج 1 ص 197]
نمبر 02 - حائضہ عورت سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے [ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ]
نمبر 03 - عورت آگے لیٹی بھی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی [بخاری ج 1 ص 56 ، مسلم ج 1 ص 197]
نمبر 04 - حائضہ عورت بھی سامنے لیٹی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی [بخاری ج 1 ص 74 ، مسلم ج 1 ص 198]
یہ حدیثیں صحیح ہیں اور آپس میں متعارض ہیں علماء احناف ان میں تطبیف بیان کرتے ہیں کہ نماز تو نہیں ٹوٹتی البتہ نماز کا خشوع باطل ہوجاتا ہے [شروح حدیث]
جب احناف کے نزدیک عورت کپڑے پہن کر بھی سامنے سے گزر جائے تو نماز کا خشوع باطل ہوجاتا ہے تو پھر احناف پر یہ بہتان باندھنا کہ ان کے نزدیک نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے کب جائز ہوسکتا ہے بلکہ احناف کے نزدیک تو عورت کپڑے پہنے ہوئے بھی مرد کے دائیں بائیں جماعت میں شریک ہوجائے تو مرد کی نماز فاسد ہوجاتی ہے "اخبرنا ابو حنیفة عن حماد عن ابراھیم قال اذا صلت المرأۃ الی جانب الرجل و کانا فی صلوۃ واحدۃ فسدت صلوۃ قال به نأخذ و ھو قول ابی حنیفة" [کتاب الآثار امام محمد ص 27] بلکہ فقہ حنفی میں تو صراحت ہے "ولو صلی الی وجه انسان یکرہ [عالمگیری ج 1 ص 108] یعنی نماز میں کسی انسان مرد یا عورت کے چہرے کی طرف توجہ رکھنا بھی مکروہ ہے تو شرمگاہ کی طرف دیکھنا کیسے جائز ہوگا
ہاں ایک بات ہے اچانک نظر پڑجانا جیسا کہ ابو داؤد کی حدیث میں آتا ہے کہ عمرو بن سلمہ جب نماز پڑھاتے تھے تو ان کے چوتڑ ننگے ہوتے تھے ، عورتوں کی نماز میں نظر امام صاحب کے چوتڑ پر پڑتی تھی ، انہوں نے نماز کے بعد کہا امام صاحب کے چوپڑ تو ہم سے چھپالو - اب یہ حدیث میں کہیں نہیں آتا کہ ان عورتوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا - نہ ہی محدثین اور شراح حدیث نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے کہ نماز میں شرمگاہ پر نظر پڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ، اگر حدیث صحیح ہو تو وہ پیش فرمائیں ہم ہرگز ضد نہیں کریں گے ہم تسلیم کریں گے کہ واقعی یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن نہ ہی وہ راولپنڈی کے مناظرہ میں ایسی حدیث پیش کرسکے نہ ہی قیامت تک پیش کرسکیں گے - احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی زوجہ طاہرہ استراحت میں ہوتی تھی آپ صلی الله علیه وسلم جب سجدے میں جاتے تو ان کے پاؤں کو چھودیتے وہ پاؤں سمیٹ لیتیں ظاہر ہے کہ جب ہاتھ لگنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو نظر پڑنا تو اس سے بھی تھوڑا عمل ہے ، یاد رکھیں نماز کا نہ ٹوٹنا اور بات ہے - دیکھئے آنحضرت صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں مسلمان کی نماز کتے ، گدھے ، عورت اور دوسرے جانوروں کی وجہ سے نہیں ٹوٹتی [طحاوی] اب کتے کے سامنے گزرنے سے نماز نہ ٹوٹنا اور بات ہے ، اس سے یہ مسئلہ نکالنا کہ نمازی از خود کتے کو آگے باندھ کر بٹھائے نماز پڑھے تو جائز ہے یہ اور بات ہے - نمازی کے سامنے سے عورت کا گزر جانا اور اس سے نماز نہ ٹوٹنا اور بات ہے اور از خود عورت کو سامنے بٹھانا اور لٹانا اور نماز میں اس کو دیکھتے رہنا یہ اور بات ہے ، بہرحال نماز نہ ٹوٹنے سے اس فعل کا اختیار و ارادہ سے جائز سمجھنا بالکل غلط ہے ، اب دیکھئے قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کی حضور صلی الله علیه وسلم نے اجازت نہیں دی مگر نماز پڑھتے ہوئے بیوی کے پاؤں کو چھودینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا
نمبر [09] نجاست سے قرآن پاک لکھنا [معاذ الله] : دور برطانیہ سے پہلے اس ملک کے سب اہل سنت و الجماعت حنفی تھے ، دور برطانیہ میں ملکہ وکٹوریہ نے مذہبی آزادی کا اہک اشتہار دیا ، کچھ لوگ تقلید شخصی کو چھوڑ کر لامذہب بن گئے ، اب انہوں نے اپنے امتیاز اور اہل اسلام میں انتشار پیدا کرنے کے لئے نئے نئے مسائل پھیلانے شروع کئے مثلآ بارہ [1200] سو سال سے یہاں کے مسلمان قرآن کا اتنا احترام کرتے تھے کہ بے وضو قرآن پاک کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے [کتب فقہ] اس فرقہ نے اعلان کیا کہ بے وضو بھی قرآن پاک کو ہاتھ لگانا جائز ہے [فتاوی ثنائیہ] یہاں کے لوگ بارہ [1200] سو سال سے اس پر اتفاق رکھتے تھے کہ ناپاک مرد عورت کو اس ناپاک حالت میں تلاوت قرآن کی اجازت نہیں ہے - لیکن اس فرقہ نے اجازت دے دی [فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 519] بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اس مسئلہ پر اتفاق تھا کہ حائضہ عورت ان ناپاکی کے دنوں میں قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرسکتی - مگر لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ حیض والی عورت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرسکتی ہے [فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 535] بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق تھا کہ قرآن پاک کی طرف پاؤں پھیلانا بھی درست نہیں - لیکن لامذہبوں نے یہ فتوی دے دیا کہ اگر کھانے کی چیز بلندی پر ہو تو قرآن پاک کو پاؤں تلے رکھ کے چیز اتار کر کھالینا جائز ہے [تحریق اوراق] "العیاذ بالله" بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں اتفاق تھا کہ خون ناپاک ہے - لیکن لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ "حیض کے خون کے سوا سب خون پاک ہیں" [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، عرف الجادی ص 10 ، بدور الاہلہ ص 18 ، تیسیر الباری ج 1 ص 206] بارہ [1200] سو سال تک یہاں اس ملک میں فتوی اسی پ
ر تھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہے اس کا پینا ہرگز جائز نہیں [درمختار ج 1 ص 140] لیکن دور برطانیہ میں لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ "حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ پاک ہے جس کپڑے میں لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے . . . . نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89] بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں یہی فتوی تھا کہ منی ناپاک ہے مگر لامذہب فرقہ نے فتوی دے دیا کہ منی پاک ہے [عرف الجادی ص 10 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، کنزالحقائق ص 16 ، بدور الاہلہ ص 15 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207] جب اس قسم کے فتوے ملک میں شائع ہوئے اور دعوی عمل بالحدیث سے شائع ہوئے تو علماء احناف نے ان سے ان مسائل کی احادیث صحیحہ صریحہ غیر متعارضہ کا سوال کیا تو ان کی ساری شیخی کرکری ہوگئی ، انہوں نے کہا اہل حدیث کہلانے کے لئے علم حدیث کی ضرورت نہیں [فتاوی ثنائیہ ج 10ص 144] جب ہم اہل حدیث علم حدیث سے کورے ہیں تو ہم سے بار بار حدیث کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے ہم تو صرف فقہاء کو گالیاں دے کر اہل حدیث بنتے ہیں جیسے مرزا قادیانی انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینے کے لئے نبی بنا بیٹھا تھا ، اب لاجواب ہو کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ ہم فقہ کو کیوں مانیں اس میں لکھا ہے کہ خون اور پیشاب سے قرآن لکھنا جائز ہے [معاذ الله] گویا سب مسائل کی یہی دلیل تھی کہ ہم بے وضو قرآن کو ہاتھ لگاتے ہیں دلیل یہ کہ فقہ میں لکھا ہے پیشاب سے قرآن لکھنا جائز ہے ، آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں تو خون پاک ہے منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے ، آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن سے منع ہے نہ حدیث سے
نمبر [10] کیا نجاست چاٹنا جائز ہے ؟
نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے [عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413]
نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا [عرف الجادی]
نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا [بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامپ ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے" [فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]
نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں
نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے" [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے [عرف الجادی ، بدور الاہلہ]
مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں
نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا
الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے [بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207] تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے
چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں
نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟ ، فقہ کہتی ہے کہ خون کا نشان نہ رہے تو جگہ پاک ہے وہ حدیث دکھائیں کہ خون کا نشان مٹ جانے کے بعد بھی جگہ ناپاک ہے؟ لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر
نمبر 02 - ایک اہل سنت و الجماعت اور ایک غیر مقلد گنا چوستے جارہے تھے ، دونوں کے منہ سے خون نکل آیا حنفی گناہ چھوڑ کر تھوکنے لگا ، پانی وغیرہ پاس نہ تھا غیر مقلد نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا بھئی خون نکل آیا جس کی وجہ سے منہ ناپاک ہوگیا ہے- اس نے کہا ہمارے مذہب میں تو خون پاک ہے ، تھوکا دونوں نے مگر حنفی ناپاک سمجھ کر تھوکتا رہا غیر مقلد پاک سمجھ کر ، جب نشان مٹ گیا تو حنفی نے گنا چوسنا شروع کردیا کیونکہ چاٹنے اور تھوکنے سے منہ پاک ہوگیا تھا غیر مقلد سے کہا یہ مسئلہ غلط ہے تو اس کے خلاف حدیث سنادو؟
نمبر 03 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹی بالٹی پانی کی تھی ، آگے ایک شرابی ملا جس کے ہونٹوں کو شراب لگی ہوئی تھی یہ شراب حنفی کے نزدیک پیشاب کی طرح نجس تھی اور غیر مقلد کے نزدیک پاک تھی ، اب اختلاف یہ ہوا کہ وہ اگر مٹکے کو منہ لگا کر پانی پئے تو حنفی کے ہاں باقی پانی نجس ہے اور غیر مقلد کے نزدیک باقی بچا ہوا پانی پاک ہے ، اب وہ شرابی اگر شراب ہونٹوں سے چاٹ چاٹ کر تھوکنا شروع کردے تو حنفی مذہب میں یہ چاٹنا گناہ ہے اور غیر مقلد کے ہاں چاٹنا گناہ نہیں کیونکہ وہ پاک چیز چاٹ رہا ہے ، ہاں اگر چاٹنے سے شراب کا اثر زائل ہوجائے تو حنفی کے نزدیک اب اس کا منہ پاک ہوگیا ہے اور غیر مقلد کے نزدیک تو پہلے شراب آلودہ بھی پاک ہی تھا
نمبر 04 - ایک بلی نے چوہے کا شکار کیا اور اس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے ، اب غیر مقلدوں کے مذہب میں چونکہ خون پاک ہے اس لئے اس کا خون آلودہ منہ بھی پاک ہے اس بلی نے غیر مقلد کے مٹکے میں منہ ڈال دیا تو اس کے نزدیک وہ پانی پاک ہے - مگر حنفی فقہ کی رو سے وہ پانی ناپاک ہے ، اب وہ بلی بیٹھی اپنا منہ چاٹ چاٹ کر صاف کرتی رہی جب خون کا اثر بالکل ختم ہوگیا تو اب اس کا جھوٹا نجس نہیں مکروہ ہوگا کیونکہ اس نے چاٹ کر اپنا منہ صاف کرلیا ہے
نمبر 05 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے اتفاق سے حنفی کو احتلام ہوگیا اور پانی کہیں ملتا نہیں - حنفی نے کہا یہ جو منی لگی ہوئی ہے یہ ناپاک ہے ، غیر مقلد نے کہا کہ یہ پاک ہے بلکہ ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے ، حنفی نے کہا کہ پھر اگر تم چاٹ کر صاف کرلو تو تمہارا ناشتہ ہوجائے گا اور جب اس کا اثر ختم ہوجائے گا تو میرا جسم پاک ہوجائے گا
بہرحال حنفی فقہ میں نجاست کا چاٹنا ہرگز جائز نہیں ، ہاں بعض چیزیں ہمارے مذہب میں نجس ہیں جیسے شراب ، خون ، قے لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پاک ہیں اس لئے ہمارے فقہاء نے یہ فرق بتایا کہ جب منہ آلودہ ہو تو نجس ہے اور اگر پانی نہیں ملا اور قے والے نے دو تین مرتبہ ہونٹ چاٹ کر تھوک دیا یا شراب والے نے دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیا یا جس کے دانتوں سے خون نکلا تھا اس نے چاٹ کر تھوک دیا تو چاٹنا تو منع تھا اس کا گناہ الگ رہا البتہ خون ، قے ، شراب کا اثر ختم ہونے سے منہ کی پاکی کا حکم ہوگا ، اس کے برعکس غیر مقلد کے ہاں جب خون ، قے یا شراب منہ کو لگی ہوئی تھی اس وقت بھی منہ پاک تھا جب چاٹا تو بھی پاک چیزوں کو چاٹا - "یہ دو مسائل ہیں جن کو غلط انداز میں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے جو بالکل جھوٹ ہے"
الله تعالی ہمیں دین حق پر استقامت نصیب فرمائیں اور لادین غیر مقلدین کے وساوس سے محفوظ فرمائیں [آمین]
انتخاب لاجواب : کتاب تجلیات صفدر جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 189 سے لیکر صفحہ نمبر 212 تک
اعتراضات کی حقیقت
وکیل احناف ، مناظر اسلام ، ترجمان اہلسنت
حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی نور الله مرقدہ
بسم الله الرحمن الرحیم
نمبر [01] خنزیر کی حرمت : ملکہ وکٹوریہ کے زیر سایہ جب یہ فرقہ غیرمقلدین پیدا ہوا اس نے دیکھا کہ انگریز خنزیر خور قوم ہے اور مسلمان خنزیر سے بہت نفرت کرتے ہیں تو مسلمانوں کے خلاف انگریز کو خوش کرنے کے لئے ان کے مسلمہ علماء نے خنزیر کے پاک ہونے کا فتوی دیا
علامہ وحید الزماں غیرمقلد نے "لکھا انسان کے بال ، مردار اور خنزیر پاک ہیں - خنزیر کی ہڈی ، پٹھے ، کھر ، سینگ اور تھوتھنی سب پاک ہیں [کنزالحقائق ص 13] علامہ نورالحسن نے لکھا خنزیر کے نجس العین ہونے کا دعوی ناتمام ہے [عرف الجادی ص 10]
علامہ صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ خنزیر کے حرام ہونے سے اس کا ناپاک ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ماں حرام ہے مگر ناپاک نہیں [بدور الاہلہ ص 16]
وحید الزماں نے خنزیر کو اپنے بال جیسا پاک کہا اور دوسرے نے تو یہ عزت دی کہ ماں جیسا پاک کہا
مطالبہ : احناف نے مطالبہ کیا کہ آپکا دعوی ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں . . . . . . اور ہمارا ہر ہر مسئلہ حدیث صحیح صریح غیر معارض سے ثابت ہے اس لئے ایک صحیح صریح غیر معارض حدیث ایسی ثابت کریں کہ خنزیر کی ہر چیز غیر مقلد کے بال کی طرح پاک ہے یا خنزیر غیر مقلد کی ماں کی طرح پاک ہے مگر وہ ایسی کوئی حدیث پیش نہ کرسکے ، ادھر عوام اہل اسلام نے ملامت کی کہ ملکہ وکٹوریہ کی چاپلوسی کی حد کردی کہ اس کی خوشی کے لئے خنزیر تک کو پاک کہہ دیا
اعتراض : اب لامذہب بار بار اپنے ملاؤں سے مطالبہ کرتے کہ خنزیر کے بال اور ماں جیسے پاک ہونے کی حدیث بیان کرو انہوں نے لاجواب ہو کر اپنے جاہلوں کو سکھادیا کہ حنفیوں کی کتاب "منیۃ المصلی" میں لکھا ہے خنزیر کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے اور اس میں نماز بھی جائز ہے
جواب : اصل مسئلہ : مذہب حنفی کی ظاہرالروایت یہی ہے کہ خنزیر اور اس کے تمام اجزاء نجس عین ہیں [منیۃ المصلی ص 66] اصحاب ثلاثہ [امام ابو حنیفہ رحمه الله ، امام ابو یوسف رحمه الله ، امام محمد رحمه الله] سے ظاہرالروایت یہی ہے کہ خنزیر نجس العین ہے اس کی کھال دباغت سے پاک نہیں ہوتی [منیۃ المصلی ص 64] یہی مذہب حنفی ہے اسی پر پوری دنیا میں احناف کا عمل ہے اس اصل مسئلہ کو چھپایا یہ کتمان حق یہود کی عادت تھی پھر روافض کا مذہب بنی ، اور اب لامذہب تبرائی غیرمقلدین کی بسر اوقات بھی اسی پر ہے
اصل عبارت : جس عبارت کا اس تبرائی غیر مقلد نے حوالہ دیا ہے ، پوری عبارت مع شرح منیہ یہ ہے - و ذکر فی نوادر ابی الوفاء قال یعقوب یعنی ابا یوسف لو صلی فی جلد خنزیر مد بوغ جاز و قد اساء بناء علی انه یطهر بالدباغ عندہ فی غیر ظاھر الوایة وقد تقدم و قال ابو حنیفة و محمد لاتجوز الصلاة فیه ولا یطهر بالدباغة و قد مر ان ھذا ھو ظاھر الروایة عن ابی یوسف ایضآ [کبیری ص 195 متن منیة المصلی ص 90] حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی میں بھی اس روایت کو شاذ کہا ہے [برمنیہ ص 64 حاشیہ نمبر 7]
فریب نمبر 01 : مذہب حنفی جو ظاہرالروایت ہے جس پر ہر جگہ عمل ہے اس کے خلاف شاذ روایت بیان کی ، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائی ، یہودی ، رافضی متواتر قرآن پاک کے متعلق وسوسے ڈالنے کے لئے شاذ قرأتوں سے تحریف قرآن ثابت کرکے عوام اہل اسلام کے دلوں میں وسوسے ڈالا کرتے ہیں
فریب نمبر 02 : "قد اساء" کا لفظ بیان ہی نہیں کیا
فریب نمبر 03 : یہ نہ بتایا کہ روایت نوادر کی ہے
فریب نمبر 04 : آپ کے مذہب میں تو خنزیر سارا بلادباغت پاک ہے ، مصلی بنایئے مشک بنایئے
نمبر [02] مسئلہ استحاضہ کا : انگریز کے دور میں جب اس نے اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اسلام کے احکام بہت سخت ہیں ، معاذ الله فطرت کے خلاف ہیں تو مسلمانوں کے خلاف انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے فقہ کے اس مسئلے کو غیر مقلدین نے شہرت دی "غنیة المستملی شرح منیة المصلی" کی مکمل عبارت یہ ہے
وفی الذخیره امرأة رأس ولدھا و خافت فوت الوقت توصأت ان قدرت و الا تیممت و جعلت رأس ولدھا فی قدر او حفیرة و صلت قاعدۃ برکوع و سجود فان لم تستطعهما تؤمی ایماء ای تصلی بحسب طاقتها و لا تفوت الصلوۃ عن وقتها لانها لم تصر نفساء بخروج الولد ما لم تر الدم بعد خروج کله والدم الذی تراہ فی حالة الولادۃ قبل خروج الولد استحاصة لا تمنع الصلوۃ فکانت مکلفة بقدر وسعها فلا یجوز لها تفویت الصلوۃ عن وقتها الا ان عجزت بالکلیة کما فی سائر المرضی [ص 264 ، منیة المصلی ص 115 ، 116 حاشیه نمبر 1]
ناقل نہ نہ تو عبارت مکمل نقل کی اور "توضأت" صیغہ مونث کو "توضأ" صیغہ مذکر بنادیا اور "الا" کو "لا" بنادیا ، اس جہالت پر اتنا تکبر ہے حالانکہ یہ مسئلہ نہ کسی آیت قرآنی کے خلاف ہے اور نہ ہی کسی حدیث صحیح کے خلاف ہے ، خلاصہ یہ کہ
[الف] بچہ کی پیدائش کے بعد جو خون عورت کو آتا ہے وہ نفاس ہے اس میں نماز معاف ہے
[ب] بچے کا تھوڑا حصہ نکلتے وقت جو خون عورت کو آتا ہے وہ استحاضہ ہے اس میں نماز معاف نہیں
[ج] بعض عورتوں کو دو دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ نفاس نہیں آیا ، استحاضہ آتا رہا ، بچہ بھی پورا پیدا نہیں ہوا
[د] ان وقتوں کی نمازوں کا کیا حکم ہے ، ظاہر ہے کہ نفاس سے قبل نماز معاف نہیں ہوتی اس لئے جو باقی بیماروں کا حکم ہے وہی اس عورت کا ہے ، اگر وضو کرسکتی ہے تو بہتر ورنہ تیمم کرلے ، اگر بیٹھ کر رکوع سجدہ سے پڑھ سکتی ہے تو بہتر ورنہ اشارہ سے پڑھ لے ، اگر اتنا بھی نہیں کرسکتی تو باقی مریضوں کی طرح وہ معذور ہے
اگر لامذہب اس مسئلہ کے خلاف ایک صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردے تو ہم صراحۃ لکھ دیں گے یہ مسئلہ قرآن یا حدیث کے خلاف ہے اور لامذہب قیامت تک ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے گا
ہم تو صاف کہہ دیں گے کہ جب یہ مسئلہ نہ قرآن کے خلاف ہے نہ حدیث صحیح کے لیکن اس کے مقدمات اجماعآ مسلم ہیں تو اس کو ماننا ضروری ہوا
نمبر [03] مسئلہ رطوبت فرج : ملکہ وکٹور
[یہ کے اشارہ ابرو پر جب بعض لوگ مذہب حنفی کو چھوڑ کر لا مذہب بن گئے ، یہاں کے سب حنفی مسلمان منی کو بھی ناپاک کہتے تھے ، لامذہبیوں نے فتوی دیا کہ "منی ہر چند پاک است"عرف الجادی ص 10] منی خواہ گاڑی ہو یا پتلی خشک ہو یا تر ہر حال میں پاک ہے [نزل الابرار ج 1 ص 49] والمنی طاھر [کنزالحقائق ص 16] بلکہ ایک قول میں کھانے کی اجازت دی [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] اور یہ بھی فتوی دیا کہ "رطوبة الفرج طاھرة" [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49] عورت کے فرج کی رطوبت بھی پاک ہے [تیسرالباری ج 1 ص 207] اب عوام نے مطالبہ کیا کہ ایک صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کرو کہ منی پاک ہے اور ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے اور یہ حدیث بھی پیش کرو کہ عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے ، اب اس لامذہب کا فرض تھا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لیتا مگر افسوس کہ "منی آلودہ منہ" اور "رطوبت فرج آلودہ جسم" سے احناف کے سامنے اپنی پاکدامنی کے گیت گانے لگا اور یہ بھی نہ بتایا کہ لامذہبوں کے ہاں تو رطوبت فرج بالاتفاق اور بلاتفصیل پاک ہے البتہ احناف کے ہاں اس میں تفصیل ہے
نمبر [01] عورت کو پیشاب کی جگہ آگے کی کھال کے اندر پانی پہنچانا غسل میں فرض ہے اگر پانی نہ پہنچے تو غسل نہ ہوگا [بہشتی زیور ج 1 ص 71] یہ جگہ فرج خارج اور فرج داخل کی درمیانی جگہ ہے جہاں غسل کے وقت پانی پہچانا فرض ہے ، باقی بدن کی طرح اس جگہ بھی پسینہ وغیرہ آتا ہے اس کا حکم بدن کے بیرونی پسینے کا ہی ہے یہ پاک ہے ورنہ عورت کو ہر وضو کے وقت استنجاء کا حکم ہوتا [ردالمختار ج 1 ص 112 ، ج 1 ص 208] اس کے پاک ہونے میں اتفاق ہے
نمبر [02] وہ رطوبت جو ماوراء باطن الفرج سے آئے "فانه نجس قطعا" [ردالمختار ج 2 ص 208] یہ بالاتفاق نجس ہے ، لیکوریا وغیرہ
نمبر [03] فرج داخل باہر سے بند ہے اور اندر سے جوف دار ہے تو حرارت غریزی جو تمام جسم میں دائر سائر ہے رطوبت بدنیہ کو بخارات بناکر مسامات جلدیہ سے باہر نکالتی رہتی ہے ، اس جوف میں وہ پسینہ سا جمع ہو کر مبدل بہ رطوبت ہوجاتا ہے ، اگر اس رطوبت میں خون یا منی یا مذی مرد یا عورت کی شامل ہوجائے بالاتفاق نجس ہے [ردالمختار ج 1 ص 233]
نمبر [04] اگر اس رطوبت میں منی وغیرہ کی ملاوٹ نہ ہو تو اس کے پاک ناپاک ہونے میں اختلاف ہے ، امام صاحب رحمه الله کے نزدیک پاک ہے اور صاحبین کے نجس ہے ، علامہ شامی رحمه الله فرماتے ہیں "وھو الاحتیاط" یعنی احتیاط صاحبین کے قول میں ہے اور تاتارخانیہ میں اس اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ انڈا اگر پانی میں گرجائے تو اس پانی سے وضو کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس انڈے پر فرج کی رطوبت لگی ہوتی ہے اور اس کراہت کے قول کو مختار قرار دیا ہے [ردالمختار ج 1 ص 233] اب دیکھئے ان کا اپنا مذہب بالاتفاق پاک ہونے کا ہے مگر ہمارے ہاں احتیاط اس کے نجس کہنے میں ہے اور قول مختار کراہت کا ہے
الحاصل : رطوبت جلد بھی پسینہ کی طرح بالاتفاق پاک ہے ، رطوبت رحم بالاتفاق ناپاک ہے اور رطوبت فرج مختلف فیہ ہے احتیاط قول بالکراہت میں ہے
نمبر [04] کتے کی کھال کا مسئلہ : دور برطانیہ میں انگریز کو خوش کرنے کے لئے جب فرقہ غیر مقلدین کی بنیاد رکھی گئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کہ آقاء نعمت کتے سے بڑا پیار کرتے ہیں تو غیر مقلدین نے بھی کتے کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کردی . ابن حزم نے یہ لکھا تھا کہ کتا ہبہ میں دینا جائز ہے بلکہ بیوی کو حق مہر میں کتا دینا جائز قرار دیا [المحلی]
نواب صدیق الحسن خان نے تو پوری تفصیل سے لکھا کہ
کتے کے گوشت ، ہڈی ، خون ، بال ، پسینہ میں سے کسی کی نجاست ثابت نہیں [بدور الاہلہ ص 16]
اور علامہ وحید الزماں نے تو کتے کے پیشاب کو بھی پاک کہہ دیا [ہدیۃ المہدی ج 3 ص 78]
کتے اور خنزیر کے لعاب کو بھی پاک قرار دے دیا گیا [نزل الابرار ج 1 ص 49 ، 50]
کتے کے پاخانے کو بھی راجح قول میں پاک قرار دیا گیا [نزل الابرار ج 1 ص 49]
اس پر لوگوں نے یہ سوال کیا کہ اگر آپ سچے اہل حدیث ہیں تو ایک ایک صریح حدیث لائیں کہ کتے کا گوشت ، ہڈی ، خون ، پسینہ ، پاخانہ ؟ پیشاب سب کچھ پاک ہے ، جواب خود پیش نہ کرسکے تو لاجواب ہو کر وسوسہ اندازی پر اتر آئے کہ حنفی مذہب میں اگر کتے کو ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت اور کھال پاک ہوجاتے ہیں پہلا سوال تو ہہ ہے کہ آپ کے مذہب میں تو بلا ذبح ہی کھال اور گوشت بلکہ سب کچھ پاک ہے اس کی حدیث پیش کرو ؟ اور دوسری حدیث یہ پیش کرو کہ جب بلا ذبح پاک ہے تو بعد ذبح کیوں ناپاک ہے ؟. ہم کہتے ہیں کہ چیزیں دو قسم کی ہیں ایک نجس العین جیسے پاخانہ ، پیشاب ، خنزیر وغیرہ یہ نہ دھونے سے پاک ہوتے ہیں نہ دباغت سے ، نہ ذبح سے . دوسری وہ جو خود نجس العین نہیں لیکن کسی نجس العین کے لگنے سے ناپاک ہوں جیسے کپڑے پر پاخانہ لگ جائے تو یہ دھونے سے پاک ہوجائے گا اب حرام جانور کے گوشت کی مثال تو پہلے نجاست کی ہے اس لئے اگرچہ اس میں اختلاف ہے
مگر اصح قول ناپاکی کا ہے چناچہ علامہ حلبی رحمه الله فرماتے ہیں "وفی طهارۃ لحمه بها اختلافا و الصحیح النجاسة [غنیة المستملی ص 147] اور کھال کی مثال دوسری قسم کی نجاست کی ہے یہ خود حالت حیات میں پاک تھی ناپاک کپڑے کی طرح اس میں نجس رطوبات سرایت کرگئیں تو جب دباغت سے وہ نجس رطوبات زائل ہوگئیں تو کھال صاف ہوگئی "ایما اھاب دبغ فقد طھر" [الحدیث] اور جو چیز دباغت سے پاک ہوجاتی ہے وہ ذکوۃ سے بھی پاک ہوجاتی ہے "الا ما ذکیتم" اسی لئے شارح منیہ فرماتے ہیں "فالحاصل ان فی طهارۃ جلد ما لا یو کل بالذکوۃ اختلافا و الاصح الطهارۃ [غنیة المستملی ص 147]
اگر ان مسائل کے خلاف کوئی صحیح صریح غیر معارض پیش کریں تو ہم ضد نہیں کریں گے مگر یہ ان کے بس کی بات نہیں
نمبر [05] اجرت دیکر زنا کرنے پر حد نہیں : دور برطانیہ میں جب لامذہب غیر مقلدین کا فرقہ پیدا ہوا تو اس فرقہ نے شہوت پرست امراء کو اپنے فرقہ میں شامل کرنے کے لئے اپنی عورتوں کو متعہ کے نام سے زنا کی کھلی چھٹی دے دی چناچہ ان کے سب سے بڑے مصنف علامہ وحید الزماں جس نے قرآن اور صحاح ستہ کا ترجمہ کیا ہے نے صاف لکھ دیا کہ "متعہ کی اباحت قرآن پاک کی قطعی آیت سے ثابت ہے" [نزل الابرار ج 2 ص 3] جب قرآن پاک سے متعہ کا قطعی لائسنس مل گیا تو اب نہ گناہ رہا نہ کو سزا "حد یا تعزیر کا تو کیا ذکر" ، انہوں نے صاف لکھا کہ "متعہ پر عمل کرکے سو شہید کا ثواب نہ لیتی" اہل مکہ کے متبرک عمل میں شرکت نہ کرتی جب کہ حد یا تعزیر تو کجا کسی کے انکار کا بھی خطرہ نہ تھا اس سے ملک بھر کے شرفاء چیخ اٹھے کہ یہ کونسا فرقہ ہے جس نے گھر گھر یہ کام شروع کرلیا ہے تو اب یہ بہت پریشان ہوئے انہوں نے سوچا کہ اپنا کام جاری رکھو لیکن بدنام حنفیوں کو کرو تاکہ وہ ہمیں روک نہ سکیں چناچہ انہوں نے شور مچادیا کہ تمہارے مذہب میں بھی تو اجرت دے کر زنا کرنے پر حد نہیں اس ایک حوالے میں کئی بے ایمانیاں کیں
نمبر 01 : حد نہ ہونے کا مطلب یہ بتایا کہ جائز ہے کوئی گناہ یا سزا نہیں
نمبر 02 : ہم نے مطالبہ کیا کہ صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض ایک ہی حدیث پیش کرو جس میں یہ ہو کہ اجرت دے کر زنا پر حد ہے مگر وہ بالکل پیش نہ کرسکے
نمبر 03 : قرآن پاک میں الله تعالی فرماتے ہیں "فما استمتعتم به منهن فآتوھن اجورھن" ان عورتوں سے حتنا نفع تم نے اٹھایا ہے ان کی اجرت ان کو دے دو یہاں قرآن میں الله تعالی نے مہر کو اجرت قرار دیا مہر اور اجرت آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے اس آیت سے لفظ اجرت میں مہر کا شبہ ہوگیا اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہوگئی اس کو قرآن و حدیث پر عمل کہتے ہیں ، تم نے نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ، عالمگیری میں صراحت ہے کہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے [عالمگیری ج 2 149]
نمبر 04 : لیکن حد ساقط ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو بدکاری کی چھٹی دی جائے گی اور اس پر کوئی سزا نہ دی جائے گی بلکہ "ویوجعان عقوبة و یحبسان حتی یتوبا" [عالمگیری ج 1 ص 149] ان کو ایسی دکھ کی مار دی جائے گی کہ دوسروں کو عبرت ہو اور اس مار کے بعد ان کو قید کردیا جائے گا جب تک ان کی توبہ کا یقین نہ ہو - "کیا کسی لامذہب میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنی کسی معتبر کتاب میں متعہ کی یہ سزا دکھائے ، آپ کے ہاں تو انکار بھی جائز نہیں بلکہ عمل بالقرآن ہے
اور پھر اس لامذہب نے یہ بھی نہ بتایا کہ یہ مسئلہ فقہ کا متفق علیہ نہیں بلکہ خود امام صاحب رحمه الله سے ایک قول حد کے واجب ہونے کا ہے "و الحق وجوب الحد کاالمستاجرۃ للخدمة فتح درمختار ج 3 ص 172 ای کما ھو قولهما [ردالمختار ج 3 ص 157 ، 172] امام صاحب رحمه الله بھی قول میں صاحبین کی طرح فرماتے ہیں حق یہی ہے کہ حد واجب ہے - الحاصل ہمارے مذہب میں یہ فعل زنا ہی ہے اور گناہ کبیرہ ہے اختلاف صرف اس میں ہے کہ زنا موجب حد ہے یا شبہ کی وجہ سے موجب تعزیر ، امام صاحب رحمه الله سے دونوں اقوال موجود ہیں جب کہ لامذہبوں کے ہاں یہ "زنابالاجرۃ نہ زنا ، نہ گناہ ، نہ حد ، نہ تعزیر ، نہ انکار بلکہ قرآن پر عمل ہے"
نمبر [06] وطی محارم بعد نکاح پر حد نہیں : دور برطانیہ میں جب یہ فرقہ پیدا ہوا تو شہوت پرستی میں انتہا کو پہنچ گیا چناچہ انہوں نے فتوی دیا کہ "بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو اور جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو [لغات الحدیث وحید الزماں غیر مقلد پ 6 ص 56]
اور اگرچہ قرآن کی نص موجود تھی ایک مرد ایک وقت میں چار سے زائد عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتا مگر نواب صدیق حسن اور نورالحسن نے فتوی دیا کہ چار کی کوئی حد نہیں جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے [ظفرالامانی ص 141 ، عرف الجادی ص 111]
اور شہوت میں یہاں تک بڑھے کہ اگر کسی عورت سے زید نے زنا کیا اور اسی زنا سے لڑکی پیدا ہوئی تو زید خود اپنی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے [عرف الجادی ص 109]
اور نکاح اور زنا میں یہی فرق تھا کہ زنا کے گواہ نہیں ہوتے نکاح میں گواہ شرط ہیں - میر نورالحسن صاحب نے اس حدیث کو بھی ضعیف کہا اور کہا کہ یہ ناقابل استدلال ہے [عرف الجادی ص 107]
اور شہوت میں ایسے اندھے ہوگئے کہ فطری مقام کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا غیر فطری مقام استعمال کرے تو بھی [حد یا تعزیر کجا] اس پر انکار تک جائز نہیں [ہدیۃ المہدی ج 1 ص 118]
بلکہ یہاں تک فتوی دیا کہ دبر آدمی میں صحبت کرنے والے پر غسل بھی واجب نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں [ہدیۃ المہدی ج 1 ص 28]
بلکہ ایک اور نسخہ بھی بتادیا کہ اگر کوئی شخص اپنا آلہ تناسل اپنی دبر میں داخل کرے تو غسل واجب نہیں [نزل الابرار ج 1 ص 41]
بلکہ نظر بازی سے بچنے کا یہ وہابی نسخہ بھی بتادیا کہ مشت زنی کرلو اور نظر بازی کے اس گناہ سے بچنا ممکن نہ ہو تو مشت زنی واجب ہے اور بتایا کہ [معاذ الله] صحابه کرام رضی الله عنهم بھی مشت زنی کیا کرتے تھے [عرف الجادی ص 207]
اس قسم کے اور بھی کئی فتوے دیئے گئے تو اہل سنت و الجماعت نے مطالبہ کیا کہ اپنے اصول کے مطابق ان میں سے ہر مسئلے کی دلیل میں کوئی صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض حدیث بیان کریں اور لوگوں نے کہا کہ یہ کیسا فرقہ پیدا ہوا ہے جس سے بیٹی تک محفوظ نہیں اور یہ نہ اپنی بیوی کی دبر کو معاف کریں نہ اپنی دبر کو تو یہ فرقہ کبھی اپنے مسائل کو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں کرسکتا اس لئے بجائے قرآن و حدیث پیش کرنے کے دوسروں پر کیچڑ اچھالتا ہے چناچہ علماء سے تو یہ منہ چھپانے لگے کہ وہ قرآن و حدیث کا مطالبہ کرتے تھے ، اپنے لونڈوں کے ذریعے عوام میں یہ بات پھیلادی کہ حنفی مذہب میں بھی بیٹی اور دیگر محرمات سے نکاح جائز ہے اس کا جواب میں احناف نے بتایا کہ
نمبر 01 - یہ محض جھوٹ ہے ہماری فقہ کی کتابوں میں صراحت ہے کہ ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ محرمات ابدیہ ہیں ، ان سے ہرگز نکاح جائز نہیں [ہدایہ وغیرہ]
نمبر 02 - ان سے نکاح کرنا تو کجا اگر کوئی شخص صرف یہ کہے کہ ماں بیٹی سے نکاح جائز ہے تو وہ کافر ہے مرتد ہے واجب القتل ہے [فتح القدیر ج 5 ص 42]
نمبر 03 - اور مطالبہ کیا گیا کہ تم بھی بتاؤ کہ جب نورالحسن نے بیٹی سے نکاح جائز لکھا تو کس کتاب میں اس کو کافر مرتد واجب القتل کہا گیا ؟
نمبر 04 –پھر اس مطالبہ میں لاجواب ہوکر کہنے کہ ماں بہن سے نکاح کرنا تو جائز نہیں ہاں فقہ میں لکھا ہے کہ نکاح کرے صحبت کرے تو اس پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے اس کے جواب میں احناف نے کہا کہ یہ بھی محض بہتان ہے فقہ میں تو صاف لکھا ہے یوجع عقوبة ۱ [حاشیہ نمبر 01 - ویعاقب عقوبة ھی اشد ما یکون من التعزیر سیاسة لا حد - فتح القدیر ج 5 ص 40] اسے عبرتناک سزا دی جائے [عالمگیری ج 2 ص 148] "یوجب عقوبة فیعزز" [ہدایہ ج 2 ص 516] سزا واجب ہے اور وہ تعزیر ہے اور یہ سزاء تعزیر بھی قتل تک ہے "ویکون التعزیر بالقتل کمن وجد رجلا مع امرأة لا تحل له" [درمختار ج 3 ص 179] یہ تعزیر قتل تک بھی ہوتی ہے جیسے کوئی مرد ایسی عورت کے ساتھ پایا گیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھی [تو اس کے لئے قتل ہے] اس لئے یہ جھوٹ ہے کہ فقہ میں اس کی سزا نہیں ہے
نمبر 05 - پھر کہنے لگے ہاں فقہ کے اعتبار سے نکاح تو جائز نہیں سزا بھی ہے مگر فقہ نے ان کو گناہ [حاشیہ۱] [حاشیہ نمبر ۱ بلکہ یہ زنا سے بڑا گناہ ہے - طحاوی ج 2 ص 96] نہیں کہا اب ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ گناہ نہیں تو سزاء قتل کس نیکی کی ہے؟ اور فقہ میں صاف صاف تصریح ہے "انه ارتکب جریمة" [ہدایہ ج 1 ص 516] یعنی اس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے - اتنے جھوٹ بولنے کے بعد آخر کہا کہ فقہ میں لکھا ہے کہ "حد نہیں"
نمبر 06 - احناف نے کہا کہ حضور صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں کہ "البینة علی المدعی" دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے - آپ حد کے مدعی ہیں ہم حد کا انکار کرتے ہیں - آپ کا فرض ہے کہ ایک ہی حدیث صحیح صریح غیر معارض ایسی پیش فرمائیں جس میں آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ہو کہ جو شخص محرمات ابدیہ سے نکاح کرکے صحبت کرلے اگر وہ کنوارہ ہو تو سو 100 کوڑے مارے جائیں اگر شادی شدہ ہو تو سنگسار کیا جائے ہم بغیر کسی ضد کے مان لیں گے کہ فقہ کا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن وہ کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کرسکے نہ کر سکیں گے
نمبر 07 - آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے زمانہ میں کسی نے ماں سے نکاح کیا آپ صلی الله علیه وسلم نے اس کو قتل کرکے اس کا مال لوٹ لینے کا حکم دیا [رواہ الخمسه] ہاں ترمذی ابن ماجہ میں اخذ مال کا ذکر نہیں [منتقی الاخبار] ظاہر ہے کہ یہ زنا کی حد نہیں نہ کوڑے نہ سنگسار اس فعل کی تعزیر ہے
نمبر 08 - ابن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں جو محرمات میں سے کسی سے صحبت کرے اس کو قتل کردو [ابن ماجہ] اب یہ بھی پمفلٹ شائع کرو کہ حضور صلی الله علیه وسلم نے حد کیوں نہ بتائی نہ لگائی تعزیر کیوں بتائی اور لگوائی - افسوس عامل بالحدیث ہونے کا دعوی اور احادیث کا انکار
نمبر 09 - لامذہب غیر مقلدین کے پاس سوائے قیاس کے اس مسئلہ میں کچھ نہیں وہ کہتے ہیں کہ جب نکاح باطل ہے تو کالعدم ہے اس پر وہ کوئی حدیث پیش نہیں کرسکتے لیکن امام صاحب رحمه الله فرماتے ہیں کہ نکاح باطل بھی شبہ بن جاتا ہے اگرچہ قیاس تو نہیں مانتا لیکن حدیث میں ہے آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جو عورت بغیر ولی کے نکاح کرے وہ نکاح باطل ہے - ترمذی ج 1 ص 176 اور ابن ماجہ ص 136 پر تو اسے زانیہ فرمایا لیکن پھر بھی حد تو کیا لگتی اس کو مہر دلایا جارہا ہے - اسی طرح حضرت عمر رضی الله عنه کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت میں نکاح کیا تھا حضرت عمر رضی الله عنه نے اس پر حد جاری نہ فرمائی بلکہ تعزیر لگوائی [ابن ابی شیبہ] ظاہر ہے کہ یہ نکاح شرعی نہ تھا اور حضرت عمر رضی الله عنه نے صحابه کرام رضی الله عنهم کی موجودگی میں حد ساقط کردی اور تعزیر لگائی تو نص حدیث اور اجماع صحابه رضی الله عنهم سے ثابت ہوا کہ نکاح حرام بھی شبہ بن جاتا ہے اور نص حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ شبہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے
حافظ صاحب !! اس کو حدیث پر عمل کرنا کہتے ہیں اور یہ ہے احادیث کا فہم ، آپ کا عمل بالحدیث کا دعوی ایسا باطل ہے جیسے منکرین حدیث کا عمل بالقرآن کا دعوی باطل ہے
نمبر 10 - حافظ صاحب !! اس اعتراض کے جواب میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی رحمه الله نے مستقل رسالہ ہے جسکا نام "القول الجازم فی سقوط الحد من نکاح المحارم" جس کے جواب سے آج تک تمہاری جماعت عاجز ہے اور تمہارے بڑے بڑے علماء نذیر حسین دہلوی ، صدیق حسن بھوپالی ، وحید الزماں ، شمس الحق عظیم آبادی ، عبدالرحمن مبارکپوری ، ثناء الله امرتسری ، عبدالله روپڑی اس قرض کو سر پر لے کر فوت ہوگئے ہیں
نمبر 11 - حافظ صاحب !! آپ کے مذہب کے موافق ایک لامذہب لڑکے نے اپنی بہن سے نکاح کیا اور صحبت کی آپ کوڑے لگاکر چھوڑ دیں گے وہ پھر دوسری بہنوں سے پھر ماں سے پھر پھوپھی سے پھر خالہ سے باری باری نکاح کرتا رہے گا اور کوڑے کھاتا رہے گا اس کے برعکس حنفی قاضی اسے پہلی مرتبہ قتل کروادے گا تعزیرآ تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ، تو بتایئے سزا ہماری سخت ہوئی یا آپ کی ؟ معاشرہ ہماری سزا سے بچے گا یا آپ کی سزا سے ؟ دیکھا فقہ پر اعتراض کرنے کے لئے کتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ، کتنی خیانتیں کرنی پڑتی ہیں ، کتنی حدیثوں کا انکار کرنا پڑتا ہے
نمبر [07] نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا
نمبر [08] عورت کی شرمگاہ پر نظر پڑنا : دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو شہوت رانی میں اتنا آگے بڑھا کہ نماز میں ستر عورت کی شرط کا انکار کردیا چناچہ فتوی دیا کہ "ہر کہ در نماز عورتش نمایاں شد نمازش صحیح باشد [عرف الجادی ص 22] یعنی پوری نماز میں جس کی شرمگاہ سب کے سامنے نمایاں رہی اس کی نماز صحیح ہوتی ہے - "اما آنکہ نماز زن اگرچہ تنہا باشد یا بازناں یا باشوھر یا بادیگر محارم باشد بے ستر تمام عورت صحیح نیست پس غیر مسلم ست [بدور الاہلہ نواب صدیق الحسن ص 39] یعنی عورت تنہا بالکل ننگی نماز پرسکتی - عورت دوسری عورتوں کے ساتھ سب ننگی نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، میاں بیوی دونوں اکٹھے مادر زاد ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے ، عورت اپنے باپ بیٹے بھائی چچا ماموں سب کے ساتھ مادر زاد ننگی نماز پڑھے تو نماز صحیح ہے
یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجبوری کے مسائل ہوں گے علامہ وحید الزماں وضاحت فرماتے ہیں "ولو صلی عریانآ و معہ ثوب صحت صلوتة" [نزل الابرار ج 1 ص 65] یعنی کپڑے پاس ہوتے ہوئے بھی ننگے نماز پڑھیں تو نماز صحیح ہے
آخر ابوجہل اور مشرکین مکہ بھی تو کپڑوں کے باوجود کپڑے اتار کر ننگے طواف کیا کرتے تھے ، نماز میں شرمگاہ کا ڈھانکنا تو امام ابو حنیفہ رحمه الله کے نزدیک شرط ہے جن کی تقلید حرام ہے ، ابوجہل کے نزدیک تو شرط نہیں اس کی تقلید کرلی گئی ، فقہ حنفی میں تو یہاں تک احتیاط تھی کہ نماز باجماعت میں عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوجائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے - لیکن لامذہب اتنا عرصہ بھی عورت سے دور نہیں رہ سکتے تھے اس کو فقہ کا مسئلہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیا ، اور "نزل الابرار" میں صراحۃ لکھ دیا کہ مرد عورت جماعت میں ساتھ ساتھ نماز پڑھ لیں نماز فاسد نہیں ہوتی ، اب ظاہر ہے کہ عورت مرد کے ٹخنے سے ٹخنہ ، کندھے سے کندھا ، اور ٹانگوں کو خوب چوڑا کرکے کھڑی ہوگی ، حنفی مذہب میں عورت کو سمٹ کر سجدہ کرنے کا حکم تھا تاکہ اس کے ستر کا احترام رہے ، لامذہبیوں نے عورتوں کو حکم دیا کہ بالکل مردوں کی طرح خوب اونچی ہوکر سجدہ کریں بازو ، پیٹ اور پسلیوں سے اتنے دور ہوں کہ درمیان سے بکری کا بچہ گزرسکے ، ہندو گنگا کا غسل بھی کرتے تھے ، دیوی کا درشن بھی - لامذہب اس درشن میں کن کن امور پر توجہ دیتے تھے فرماتے ہیں "بہتر عورت وہ ہے جس کی فرج تنگ ہو جو شہوت کے مارے دانت رگڑ رہی ہو اور جو جماع کراتے وقت کروٹ سے لیٹتی ہو [لغات الحدیث وحید الزماں لفظ الحارقہ] عورت کو خوبصورتی قائم رکھنے کا نسخہ بھی بتاگیا کہ "عورت کو زیر ناف بال استرے سے صاف کرنے چاہئیں ، اکھاڑے سے محل ڈھیلا ہوجاتا ہے [فتاوی نذیریہ] اب ایسی حالت کہ مرد عورت ننگے نمازیں پڑھ رہے ہوں عورت سجدہ بھی کھل کر کررہی ہو عورت کی شرمگا پر نظر پرنا لازمی تھا ، ہوسکتا تھا کہ کوئی ذرا جھجک محسوس کرتا اس لئے اسے بتادیا گیا کہ "ہمچنیں دلیلے بر کراہت نظر در باطن فرج نیا مدہ [بدور الاہلہ ص 175] عورت کی شرمگاہ کے اندر جھانکنا بالکل مکروہ بھی نہیں اور چوتڑوں پر نظر ہر وقت رہے گی اس لئے فتوی دیا کہ "در جواز استمتاع وغیرہ از فخذین وظاہر الیتین و نحو آں خود ہیج شک و شبہ نہ باشد و سنت صحیحہ بداں دار دگشتہ" [بدور الاہلہ ص 175] یعنی چوتڑوں اور رانوں سے فائدہ اٹھانا بے شک و شبہ جائز ہے بلکہ سنت صحیحہ سے ثابت ہے اب کون غیر مقلد مرد ہوگا جو اس صحیح سنت پر عمل نہ کرے خاص طور پر جبکہ یہ سنت مردہ بھی ہوچکی ہو اور اس کو زندہ کرنے میں سو شہید کا ثواب بھی ملے تو ہم خرماو ہم ثواب پر عمل کیسے چھوڑا جائے - اب اس ڈرامے میں اگر مرد کو انتشار ہوجائے تو وہ عضو مخصوص کو ہاتھوں سے زور سے دبائے ہوئے نماز پڑھتا رہے [نزل الابرار] ایسے وقت میں تو رفع یدین بھول جائے گا کیونکہ بڑے اہم کام میں مشغول ہیں ، ایسے وقت میں عورت کی شرمگاہ سے رطوبت خارج ہو تو بھی مضائقہ نہیں کیونکہ عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207] اور اگر منی بھی بہہ جائے تو کیا خوف وہ بھی تو پاک ہے [عرف الجادی ص 10 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، کنزالحقائق ص 16 ، بدور الاہلہ ص 15 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207]
اور یہ سب کچھ قرآن و حدیث کے نام پر ہورہا تھا اور رات دن تقریر و تحریر کے ذریعے یہی اعلانات کئے جاتے تھے کہ ہمارا ہر ہر مسئلہ قرآن و حدیث کا مسئلہ ہے تو احناف نے پوچھ لیا کہ ذرا ان مسائل پر آیت قرآنیہ اور احادیث صحیحہ پیش فرمائیں تو ان کے عمل بالحدیث کا بھانڈا چور رستے میں پھوٹ گیا ، بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء احناف کو گالیاں بکنے ، آج بھی آپ اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ہم ان سے ثبوت مانگتے ہیں کہ اپنی نماز کا ہر ہر جزئی مسئلہ احادیث صحیحہ سے ثابت کرو تھ اس کے بجائے فقہاء کو گالیاں بکنا شروع کردیتے ہیں ، اب جس فرقہ کی شہوت رانی کا یہ عالم ہو وہ قرآن کیا یاد کرسکتے ہیں یا یاد کیا ہوا قرآن انہیں کب یاد رہ سکتا ہے تو انہوں نے نمازوں میں قرآن ہاتھ میں لے کر قرأت پڑھنا شروع کردی اس پر جب حدیث مرفوع کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ کسی امتی کا قول و فعل ان کے لئے دلیل نہیں بن سکتا تو جواب میں حدیث پیش کرنے کے بجائے عوام میں یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ حنفیوں کے نزدیک قرآن دیکھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے مگر نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھتے رہنا جائز ہے اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ساری فقہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے - اب اس [07] اور [08] نمبر کی وضاحت بھی ملاحظہ فرمائیں
وضاحت - نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا : ہمارے ہاں نماز میں قرأت پڑھنا تو فرض ہے اگر مقدار فرض قرأت بھی نہ پڑھی تو نماز باطل ہے ہاں قرآن ہاتھ میں لے پڑھنے میں اس کا اٹھانا ، اس کے اوراق کو الٹ پلٹ کرنا ، مستقل اسی پر نظر جمائے رکھنا ایسے افعال ہیں جو نماز سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی آنحضرت صلی الله عليه وسلم سے ثابت ہیں پھر قرآن سے تعلیم حاصل کرنا یہ بھی تعلیم و تعلم ہوا قرأت تو نہ ہوئی ، یہ سب باتیں عمل کثیر ہیں اور ایسا عمل کثیر جو افعال نماز سے تعلق نہ رکھتا ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے [ہدایہ ، عالمگیری] تاہم ہمیں کوئی ضد نہیں اگر آپ کسی صحیح صریح غیر معارض حدیث سے ثابت کردیں کہ قرآن اٹھانے ، ورق الٹنے ، اس سے تعلیم حاصل کرنے سے عمل کثیر نہیں بنتا اور نمار فاسد نہیں ہوتی تو ہم تسلیم کرلیں گے کہ ہمارا یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن حدیث کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرنے والے آج تک ایک حدیث بھی پیش نہ کرسکے اور نہ ہی قیامت تک کرسکیں گے - انشاء الله العزیزامام ترمذی رحمه الله نے حضرت رفاعہ بن رافع رحمه الله اور ابو داؤد و نسائی نے حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی الله عنه سے حدیث روایت کی ہے ایک شخص کو اتنا قرآن بھی یاد نہ تھا جتنا نماز میں فرض ہے تو آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا "تم قرآن کے بجائے حمد و ثنا پڑھ لیا کرو" ظاہر ہے کہ قرأت نماز میں فرض ہے اس شخص کو اتنا قرآن زبانی یاد نہ تھا اگر دیکھ کر پڑھنے سے نماز جائز ہوتی تو آپ صلی الله علیه وسلم اس سے پوچھتے کہ دیکھ کر پڑھ سکتے ہو یا نہیں اور دیکھ کر پڑھ لینا حفظ سے آسان ہے ، آپ نے اس کو دیکھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں دی جس سے معلوم ہوا کہ دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں - حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه فرماتے ہیں "نهانا امیر المومنین عمر رضی الله عنه ان نؤم الناس فی المصحف راوہ ابن ابی داؤد" [کنز العمال ج 4 ص 246] حضرت عمر رضی الله عنه نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم امام بن کر قرآن پاک دیکھ کر نمازیں پڑھائیں تو احناف کا مسئلہ حدیث رسول صلی الله علیه وسلم ، فرمان خلیفہ راشد اور قیاس شرعی سے ثابت ہے کہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے اور لامذہبوں کا مسئلہ حدیث کے خلاف ہے
وضاحت - نماز میں عورت کو دیکھنا : فقہ حنفی میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ نماز پڑھتے ہوئے عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے
نمبر 01 - احادیث میں ایک اختلاف یہ ہے : عورت نمازی کے سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے [مسلم ج 1 ص 197]
نمبر 02 - حائضہ عورت سامنے آئے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے [ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ]
نمبر 03 - عورت آگے لیٹی بھی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی [بخاری ج 1 ص 56 ، مسلم ج 1 ص 197]
نمبر 04 - حائضہ عورت بھی سامنے لیٹی ہو تو نماز نہیں ٹوٹتی [بخاری ج 1 ص 74 ، مسلم ج 1 ص 198]
یہ حدیثیں صحیح ہیں اور آپس میں متعارض ہیں علماء احناف ان میں تطبیف بیان کرتے ہیں کہ نماز تو نہیں ٹوٹتی البتہ نماز کا خشوع باطل ہوجاتا ہے [شروح حدیث]
جب احناف کے نزدیک عورت کپڑے پہن کر بھی سامنے سے گزر جائے تو نماز کا خشوع باطل ہوجاتا ہے تو پھر احناف پر یہ بہتان باندھنا کہ ان کے نزدیک نماز میں عورت کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے کب جائز ہوسکتا ہے بلکہ احناف کے نزدیک تو عورت کپڑے پہنے ہوئے بھی مرد کے دائیں بائیں جماعت میں شریک ہوجائے تو مرد کی نماز فاسد ہوجاتی ہے "اخبرنا ابو حنیفة عن حماد عن ابراھیم قال اذا صلت المرأۃ الی جانب الرجل و کانا فی صلوۃ واحدۃ فسدت صلوۃ قال به نأخذ و ھو قول ابی حنیفة" [کتاب الآثار امام محمد ص 27] بلکہ فقہ حنفی میں تو صراحت ہے "ولو صلی الی وجه انسان یکرہ [عالمگیری ج 1 ص 108] یعنی نماز میں کسی انسان مرد یا عورت کے چہرے کی طرف توجہ رکھنا بھی مکروہ ہے تو شرمگاہ کی طرف دیکھنا کیسے جائز ہوگا
ہاں ایک بات ہے اچانک نظر پڑجانا جیسا کہ ابو داؤد کی حدیث میں آتا ہے کہ عمرو بن سلمہ جب نماز پڑھاتے تھے تو ان کے چوتڑ ننگے ہوتے تھے ، عورتوں کی نماز میں نظر امام صاحب کے چوتڑ پر پڑتی تھی ، انہوں نے نماز کے بعد کہا امام صاحب کے چوپڑ تو ہم سے چھپالو - اب یہ حدیث میں کہیں نہیں آتا کہ ان عورتوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا - نہ ہی محدثین اور شراح حدیث نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے کہ نماز میں شرمگاہ پر نظر پڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ، اگر حدیث صحیح ہو تو وہ پیش فرمائیں ہم ہرگز ضد نہیں کریں گے ہم تسلیم کریں گے کہ واقعی یہ مسئلہ حدیث کے خلاف ہے لیکن نہ ہی وہ راولپنڈی کے مناظرہ میں ایسی حدیث پیش کرسکے نہ ہی قیامت تک پیش کرسکیں گے - احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی زوجہ طاہرہ استراحت میں ہوتی تھی آپ صلی الله علیه وسلم جب سجدے میں جاتے تو ان کے پاؤں کو چھودیتے وہ پاؤں سمیٹ لیتیں ظاہر ہے کہ جب ہاتھ لگنے سے نماز نہیں ٹوٹتی تو نظر پڑنا تو اس سے بھی تھوڑا عمل ہے ، یاد رکھیں نماز کا نہ ٹوٹنا اور بات ہے - دیکھئے آنحضرت صلی الله علیه وسلم فرماتے ہیں مسلمان کی نماز کتے ، گدھے ، عورت اور دوسرے جانوروں کی وجہ سے نہیں ٹوٹتی [طحاوی] اب کتے کے سامنے گزرنے سے نماز نہ ٹوٹنا اور بات ہے ، اس سے یہ مسئلہ نکالنا کہ نمازی از خود کتے کو آگے باندھ کر بٹھائے نماز پڑھے تو جائز ہے یہ اور بات ہے - نمازی کے سامنے سے عورت کا گزر جانا اور اس سے نماز نہ ٹوٹنا اور بات ہے اور از خود عورت کو سامنے بٹھانا اور لٹانا اور نماز میں اس کو دیکھتے رہنا یہ اور بات ہے ، بہرحال نماز نہ ٹوٹنے سے اس فعل کا اختیار و ارادہ سے جائز سمجھنا بالکل غلط ہے ، اب دیکھئے قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کی حضور صلی الله علیه وسلم نے اجازت نہیں دی مگر نماز پڑھتے ہوئے بیوی کے پاؤں کو چھودینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا
نمبر [09] نجاست سے قرآن پاک لکھنا [معاذ الله] : دور برطانیہ سے پہلے اس ملک کے سب اہل سنت و الجماعت حنفی تھے ، دور برطانیہ میں ملکہ وکٹوریہ نے مذہبی آزادی کا اہک اشتہار دیا ، کچھ لوگ تقلید شخصی کو چھوڑ کر لامذہب بن گئے ، اب انہوں نے اپنے امتیاز اور اہل اسلام میں انتشار پیدا کرنے کے لئے نئے نئے مسائل پھیلانے شروع کئے مثلآ بارہ [1200] سو سال سے یہاں کے مسلمان قرآن کا اتنا احترام کرتے تھے کہ بے وضو قرآن پاک کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے [کتب فقہ] اس فرقہ نے اعلان کیا کہ بے وضو بھی قرآن پاک کو ہاتھ لگانا جائز ہے [فتاوی ثنائیہ] یہاں کے لوگ بارہ [1200] سو سال سے اس پر اتفاق رکھتے تھے کہ ناپاک مرد عورت کو اس ناپاک حالت میں تلاوت قرآن کی اجازت نہیں ہے - لیکن اس فرقہ نے اجازت دے دی [فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 519] بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اس مسئلہ پر اتفاق تھا کہ حائضہ عورت ان ناپاکی کے دنوں میں قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرسکتی - مگر لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ حیض والی عورت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرسکتی ہے [فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 535] بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق تھا کہ قرآن پاک کی طرف پاؤں پھیلانا بھی درست نہیں - لیکن لامذہبوں نے یہ فتوی دے دیا کہ اگر کھانے کی چیز بلندی پر ہو تو قرآن پاک کو پاؤں تلے رکھ کے چیز اتار کر کھالینا جائز ہے [تحریق اوراق] "العیاذ بالله" بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں اتفاق تھا کہ خون ناپاک ہے - لیکن لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ "حیض کے خون کے سوا سب خون پاک ہیں" [کنزالحقائق ص 16 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، عرف الجادی ص 10 ، بدور الاہلہ ص 18 ، تیسیر الباری ج 1 ص 206] بارہ [1200] سو سال تک یہاں اس ملک میں فتوی اسی پ
ر تھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہے اس کا پینا ہرگز جائز نہیں [درمختار ج 1 ص 140] لیکن دور برطانیہ میں لامذہبوں نے فتوی دے دیا کہ "حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ پاک ہے جس کپڑے میں لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے . . . . نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89] بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں یہی فتوی تھا کہ منی ناپاک ہے مگر لامذہب فرقہ نے فتوی دے دیا کہ منی پاک ہے [عرف الجادی ص 10 ، نزل الابرار ج 1 ص 49 ، کنزالحقائق ص 16 ، بدور الاہلہ ص 15 ، تیسیر الباری ج 1 ص 207] جب اس قسم کے فتوے ملک میں شائع ہوئے اور دعوی عمل بالحدیث سے شائع ہوئے تو علماء احناف نے ان سے ان مسائل کی احادیث صحیحہ صریحہ غیر متعارضہ کا سوال کیا تو ان کی ساری شیخی کرکری ہوگئی ، انہوں نے کہا اہل حدیث کہلانے کے لئے علم حدیث کی ضرورت نہیں [فتاوی ثنائیہ ج 10ص 144] جب ہم اہل حدیث علم حدیث سے کورے ہیں تو ہم سے بار بار حدیث کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے ہم تو صرف فقہاء کو گالیاں دے کر اہل حدیث بنتے ہیں جیسے مرزا قادیانی انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینے کے لئے نبی بنا بیٹھا تھا ، اب لاجواب ہو کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کے لئے یہ شوشہ چھوڑا کہ ہم فقہ کو کیوں مانیں اس میں لکھا ہے کہ خون اور پیشاب سے قرآن لکھنا جائز ہے [معاذ الله] گویا سب مسائل کی یہی دلیل تھی کہ ہم بے وضو قرآن کو ہاتھ لگاتے ہیں دلیل یہ کہ فقہ میں لکھا ہے پیشاب سے قرآن لکھنا جائز ہے ، آخر علماء نے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں تو خون پاک ہے منی پاک ہے تو کیا ان سے قرآن لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ کیا کسی حدیث میں آتا ہے کہ پاک چیز سے قرآن لکھنا حرام ہے ، آپ کے مذہب میں حلال جانوروں کا پیشاب اور دودھ پیتے بچے کا پیشاب پاک ہے اور پاک چیز سے قرآن لکھنا نہ قرآن سے منع ہے نہ حدیث سے
نمبر [10] کیا نجاست چاٹنا جائز ہے ؟
نمبر 01 - دور برطانیہ سے پہلے بھی یہاں مسلمان آباد تھے مگر کافر غیر کتابی [ہندو ، سکھ ، مجوسی ، چمار ، چوڑا وغیرہ] کے ذبیحہ کو نجس اور مردار قرار دیتے تھے دور برطانیہ میں جب یہ لامذہب فرقہ پیدا ہوا تو انہوں نے اس نجاست اور مردار کو کھانا شروع کردیا اور فتوی دے دیا کھ یہ حلال ہے [عرف الجادی ص 10 و ص 239 و دلیل الطالب ص 413]
نمبر 02 - اسی طرح بارہ [1200] سو سال تک اس ملک میں اتفاق رہا کہ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم الله نہ پڑھی جائے تو وہ جانور مردار اور نجس ہے - مگر اس نجاست خور فرقہ نے اس کے بھی جواز کا فتوی دے دیا [عرف الجادی]
نمبر 03 - بندوق سے جو جانور مرجائے وہ مردار اور نجس ہے مگر اس لامذہب فرقہ نے یہ نجاست بھی کھانا شروع کردی اور اس کو حلال کہہ دیا [بدور الاہلہ ص 335 ، فتاوی ثنائیہ ج 1 ص 150 و ج 2 ص 132]
نمبر 04 - بجو کو اس ملک کے مسلمان حرام اور نجس سمجھتے تھے مگر اس لامذہب فرقہ نے فتوی دیا "بجو حلال ہے ، جو شخص بجو کا کھانا حلال نہ جانے وہ منافق دے دین ہے ، اس کی امامپ ہرگز جائز نہیں ، یہ قول صحیح اور موافق حدیث رسول الله صلی الله علیه وسلم ہے" [فتاوی ستاریہ ج 2 ص 21 ص 277]
نمبر 05 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک کے مسلمان منی کو ناپاک اور نجس قرار دیتے تھے اس فرقہ نے اس کو پاک قرار دیا اور ایک قول میں اس کا کھانا بھی جائز قرار دیا [فقہ محمدیہ ج 1 ص 46] البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ منی کا کسٹرڈ بناتے ہیں یا قلفیاں جماتے ہیں
نمبر 06 - بارہ [1200] سو سال تک یہاں کے مسلمان حلال جانوروں کے پیشاب کو پینا جائز نہیں سمجھتے تھے اور اس کو نجس قرار دیتے تھے لیکن لامذہبوں نے اس نجاست کے پینے کو جائز قرار دیا ، لکھا کہ "لکھا کہ حلال جانوروں کا پیشاب و پاخانہ پاک ہے جس کپڑے پر لگا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے ، نیز بطور ادویات استعمال کرنا درست ہے" [فتاوی ستاریہ ج 1 ص 56 ، ج 1 ص 89]
نمبر 07 - بارہ [1200] سو سال سے اس ملک میں یہ مسئلہ تھا کہ تھوڑے پانی ، دودھ وغیرہ میں تھوڑی سی نجاست پڑجائے تو وہ نجس ہوجاتا ہے "پاک پانی میں نجاست پڑجاوے تو اس سے وضو ، غسل وغیرہ کچھ درست نہیں چاہے وہ نجاست تھوڑی ہو یا بہت" [بہشتی زیور ج 1 ص 57 ، ہدایہ ج 1 ص 18] لیکن دور برطانیہ میں اس فرقہ نے فتوی دیا کہ اگر پانی وغیرہ میں نجاست پڑجائے تو جب تک نجاست سے اس کا رنگ ، بو ، مزہ نہ بدلے وہ پاک ہے [عرف الجادی ، بدور الاہلہ]
مثلا ایک بالٹی دودھ میں ایک چمچہ پیشاب ڈال دیا جائے تو نہ اس کا رنگ پیشاب جیسا ہوتا ہے نہ بو نہ مزہ ہمارے مذہب میں وہ پھر بھی ناپاک ہے اس کا پینا حرام بلکہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو نماز ناجائز ، اس فرقہ کے نزدیک وہ دودھ پاک ، حلال طیب ہے ، یہ اس نجس کو پینا جائز سمجھتے ہیں
نمبر 08 - بارہ [1200] سو سال تک اس ملک کے مسلمان الخمر [شراب] کو پیشاب کی طرح سمجھتے تھے لیکن اس فرقہ غیر مقلدین نے فتوی دیا کہ "الخمر طاھر" [کنز الحقائق] شراب پاک ہے بلکہ بتایا کہ اگر شراب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو کھانا جائز ہے [نزل الابرار ج 1 ص 50] اور وجہ یہ بتائی کہ اگر پیشاب میں آٹا گوند کر روٹی پکالی جائے تو پیشاب بھی تو جل جائے گا
الغرض اس قسم کے اور کئی مسائل بھی تھے جن سے ملک میں نجاست خوری کی بنیاد ڈال دی ، جب احناف نے ثبوت مانگا کے اپنے اصول پر قرآن پاک کی صریح آیات یا احادیث صحیحہ صریحہ غیر معارضہ سے ان مسائل کا ثبوت پیش کرو تو بجائے احادیث پیش کرنے کے لگے فقہاء کو گالیاں دینے اور فقہ کے خلاف شور مچانا شروع کردیا کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے - نجاست عین کا چاٹنا تو کجا ، جس پانی وغیرہ میں نجاست تھوڑی سی پڑجائے کہ نجاست کا رنگ نہ بو نہ مزہ کچھ بھی ظاہر نہ ہو پھر بھی اس پانی کا پینا حرام ہے ، اس میں احناف کا کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ ایسے ناپاک پانی کا استعمال جس کے تینوں وصف یعنی مزہ اور بو اور رنگ نجاست کی وجہ سے بدل گئے ہوں کسی طرح درست نہیں نہ جانوروں کو پلانا درست ہے نہ مٹی وغیرہ میں ڈال کر گارا بنانا جائز ہے [بہشتی گوہر ج 1 ص 5 بحوالہ درمختار ج 1 ص 207] تو جب نجس پانی جانور کو پلانا ہمارے مذہب میں جائز نہیں تو انسان کو چاٹنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے
چناچہ بہشتی زیور میں صاف لکھا ہے کہ نجاست چاٹنا منع ہے [بہشتی زیور ج 2 ص 5] دراصل اختلاف بعض چیزوں کے پاک ناپاک ہونے میں ہے ، ان مسائل کی تفصیل یہ لوگ بیان نہیں کرتے اور غلط نتائج نکالتے ہیں
نمبر 01 - مثلآ بعض جاہل عورتوں کی عادت ہوتی ہے کپڑا سی رہی تھی انگلی میں سوئی لگ گئی اور تھوڑا سے خون نکل آیا وہ بجائے اس پر پانی ڈالنے کے اس کو دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیتی ہیں اب اس کا مسئلہ بتانا ہے تو فقہ یہ کہتی ہے کہ اس نے جو چاٹا یہ گناہ ہے اور پہلی دفعہ چاٹنے سے منہ بھی ناپاک ہوگیا مگر بار بار تھوکنے سے جب خون کا کوئی نشان باقی نہ رہا تو انگلی اور منہ پاک سمجھے جائیں گے ، اس مسئلے کے خلاف اگر وہ صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کردیں تو البتہ ہم ان کی علمی قابلیت مان لیں گے یعنی فقہ کہتی ہے کہ چاٹنا منع ہے وہ حدیث سنائیں کہ چاٹنا جائز ہے؟ ، فقہ کہتی ہے کہ خون کا نشان نہ رہے تو جگہ پاک ہے وہ حدیث دکھائیں کہ خون کا نشان مٹ جانے کے بعد بھی جگہ ناپاک ہے؟ لیکن ان کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے کہ خون پاک ہے ، انگلی کو لگا انگلی بھی پاک رہی ، منہ کو لگا منہ بھی پاک رہا یعنی غیر مقلد عورت اس خون کو پاک سمجھ کر چاٹے گی حنفی ناپاک سمجھ کر
نمبر 02 - ایک اہل سنت و الجماعت اور ایک غیر مقلد گنا چوستے جارہے تھے ، دونوں کے منہ سے خون نکل آیا حنفی گناہ چھوڑ کر تھوکنے لگا ، پانی وغیرہ پاس نہ تھا غیر مقلد نے پوچھا کیا بات ہے ؟ اس نے کہا بھئی خون نکل آیا جس کی وجہ سے منہ ناپاک ہوگیا ہے- اس نے کہا ہمارے مذہب میں تو خون پاک ہے ، تھوکا دونوں نے مگر حنفی ناپاک سمجھ کر تھوکتا رہا غیر مقلد پاک سمجھ کر ، جب نشان مٹ گیا تو حنفی نے گنا چوسنا شروع کردیا کیونکہ چاٹنے اور تھوکنے سے منہ پاک ہوگیا تھا غیر مقلد سے کہا یہ مسئلہ غلط ہے تو اس کے خلاف حدیث سنادو؟
نمبر 03 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹی بالٹی پانی کی تھی ، آگے ایک شرابی ملا جس کے ہونٹوں کو شراب لگی ہوئی تھی یہ شراب حنفی کے نزدیک پیشاب کی طرح نجس تھی اور غیر مقلد کے نزدیک پاک تھی ، اب اختلاف یہ ہوا کہ وہ اگر مٹکے کو منہ لگا کر پانی پئے تو حنفی کے ہاں باقی پانی نجس ہے اور غیر مقلد کے نزدیک باقی بچا ہوا پانی پاک ہے ، اب وہ شرابی اگر شراب ہونٹوں سے چاٹ چاٹ کر تھوکنا شروع کردے تو حنفی مذہب میں یہ چاٹنا گناہ ہے اور غیر مقلد کے ہاں چاٹنا گناہ نہیں کیونکہ وہ پاک چیز چاٹ رہا ہے ، ہاں اگر چاٹنے سے شراب کا اثر زائل ہوجائے تو حنفی کے نزدیک اب اس کا منہ پاک ہوگیا ہے اور غیر مقلد کے نزدیک تو پہلے شراب آلودہ بھی پاک ہی تھا
نمبر 04 - ایک بلی نے چوہے کا شکار کیا اور اس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے ، اب غیر مقلدوں کے مذہب میں چونکہ خون پاک ہے اس لئے اس کا خون آلودہ منہ بھی پاک ہے اس بلی نے غیر مقلد کے مٹکے میں منہ ڈال دیا تو اس کے نزدیک وہ پانی پاک ہے - مگر حنفی فقہ کی رو سے وہ پانی ناپاک ہے ، اب وہ بلی بیٹھی اپنا منہ چاٹ چاٹ کر صاف کرتی رہی جب خون کا اثر بالکل ختم ہوگیا تو اب اس کا جھوٹا نجس نہیں مکروہ ہوگا کیونکہ اس نے چاٹ کر اپنا منہ صاف کرلیا ہے
نمبر 05 - ایک حنفی اور غیر مقلد سفر میں تھے اتفاق سے حنفی کو احتلام ہوگیا اور پانی کہیں ملتا نہیں - حنفی نے کہا یہ جو منی لگی ہوئی ہے یہ ناپاک ہے ، غیر مقلد نے کہا کہ یہ پاک ہے بلکہ ایک قول میں کھانا بھی جائز ہے ، حنفی نے کہا کہ پھر اگر تم چاٹ کر صاف کرلو تو تمہارا ناشتہ ہوجائے گا اور جب اس کا اثر ختم ہوجائے گا تو میرا جسم پاک ہوجائے گا
بہرحال حنفی فقہ میں نجاست کا چاٹنا ہرگز جائز نہیں ، ہاں بعض چیزیں ہمارے مذہب میں نجس ہیں جیسے شراب ، خون ، قے لیکن غیر مقلدوں کے ہاں پاک ہیں اس لئے ہمارے فقہاء نے یہ فرق بتایا کہ جب منہ آلودہ ہو تو نجس ہے اور اگر پانی نہیں ملا اور قے والے نے دو تین مرتبہ ہونٹ چاٹ کر تھوک دیا یا شراب والے نے دو تین مرتبہ چاٹ کر تھوک دیا یا جس کے دانتوں سے خون نکلا تھا اس نے چاٹ کر تھوک دیا تو چاٹنا تو منع تھا اس کا گناہ الگ رہا البتہ خون ، قے ، شراب کا اثر ختم ہونے سے منہ کی پاکی کا حکم ہوگا ، اس کے برعکس غیر مقلد کے ہاں جب خون ، قے یا شراب منہ کو لگی ہوئی تھی اس وقت بھی منہ پاک تھا جب چاٹا تو بھی پاک چیزوں کو چاٹا - "یہ دو مسائل ہیں جن کو غلط انداز میں بیان کرکے کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں نجاست چاٹنا جائز ہے جو بالکل جھوٹ ہے"
الله تعالی ہمیں دین حق پر استقامت نصیب فرمائیں اور لادین غیر مقلدین کے وساوس سے محفوظ فرمائیں [آمین]
انتخاب لاجواب : کتاب تجلیات صفدر جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 189 سے لیکر صفحہ نمبر 212 تک