Post by Mohammed Aarif Waghoo on Mar 2, 2015 14:17:38 GMT 5.5
علامہ نوربخش توکلی کے پہلے مقالے سے انتخاب؛
(آپریشن ابن تیمیہ ۔ ابن تیمیہ کی تاریخ قسط اول۔سیکشن تاریخ)
نام و کنیت؛
پورا نام یوں ہے ۔ ابوالعباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبداللہ ابن تیمیہ، اس کنیت کی توجیہہ میں کہا گیا ہے کہ اس کاجد محمدبن خضر حج کو گیا۔ تواسکی بیوی حاملہ تھی۔ راستے میں تیماء کے دروازے سے گزرا۔ وہاں اس کی نظر ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی جو خیمہ سے نکل رہی تھی۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی نے ایک لڑکی جنی ہے۔ اس بچی کو دیکھتے ہی اس کی زبان سے نکلا۔ یا تیمیہ! اس لیئے ملقب بہ ابن تیمیہ ہوگیا۔ ابن نجار کا قول ہے کہ ہم سے ذکر کیاگیا کہ محمدمذکور کی والدہ کا نام تیمیہ تھا اور وہ واعظہ تھی۔ اس لیئے اس کی طرف منسوب ہوگیا۔
ولادت وطفولیت؛
ابن تیمیہ 10 تاریخ ماہ ربیع الاول ، بروز دوشنبہ اور بقول بعض 12 ربیع الاول 661ھ میں ملک شام کے شہر حران میں پیدا ہواجو زرتشت کا مولد ہے۔ یہ ابھی بچہ ہی تھا کہ اس کے والد نے تاتاریوں کے جوروجفا کے سبب سے عیال سمیت دمشق کی طرف ہجرت کی۔دشمنوں کے ڈرسے رات کو سفرکرتے، کوئی چوپایہ ساتھ نہ تھا۔ اس لیئے کتابیں ایک چھکڑے میں بھری ہوئی تھیں، جسے وہ خود ہی گھسیٹتے۔ ایک رات وہ چھکڑا کیچڑ میں پھنس گیا۔ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں تضرع وفریاد کی اور ان کی مشکل حل ہوگئی۔ اسی طرح 667ھ میں دمشق پہنچ گئے۔ شیخ عبدالحلیم چونکہ علمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خود بھی عالم تھے۔ اس لئے علماء شام وارباب حکومت نے آپ کا اکرام کیا اور تدریس کی خدمت آپ کے سپرد کی۔
تعلیم وتدریس؛
ابن تیمیہ نے بقول ابن عبدالہادی تفسیر وحدیث وفقہ واصول فقہ وغیرہ میں تعلیم پائی اور ابھی بیس سال کا نہ ہوا تھا کہ فارغ التحصیل ہوگیا۔ جب اس کے والد شیخ عبدالحلیم نے 628ھ میں وفات پائی تو اس خاندان کی غربت ومالی حالت کو دیکھ کر ابن تیمیہ کو ان کی جگہ مقرر کردیااور حوصلہ افزائی کے لئے علماء بھی اس کے درس میں شامل ہونے لگے اور اس کی تعریفیں کرنے لگے۔
عقیدہ حمویہ؛
ابن تیمیہ نے افتاء وتصنیف کا کام تدریس سے بھی ذرا پہلے شروع کردیا تھا۔ زبان تیز۔ قلم رواں ۔ حافظہ زبردست اور مطالعہ وسیع تھا۔ بلاد شرق میں تاتاریوں کے غلبہ کے سبب سے دمشق میں مذاہب باطلہ کی کتابیں بکثرت تھیں۔ جن میں سے اکثر پر اس کاعبور تھا۔وہ علماء وقت کی تعریفوں میں مغرور ہوگیا تھا اور اپنے تئیں مجتہد سمجھنے لگا تھا۔ بے استاذ مطالعہ کی وسعت سے اس کے دماغ میں حشویہ کے اوہام پیدا ہوگئے، جن کے اظہار کاپہلا موقع 698ھ میں پیش آیا۔ جسے اس کا شاگردابن عبدالہادی یوں ذکر کرتا ہے۔
“ہمارے استا د نے مسئلہ معروفہ حمویہ 698ھ میں ظہر وعصر کے درمیان ایک نشست میں لکھ دیا۔ اور وہ جواب ہے ایک سوال کا صفات کے متعلق جو شہر حماۃ (واقع ملک شام) سے آیاتھا۔ اس کے سبب سے آپ کو تکلیف ہوئی۔ اور اللہ نے آپ کو نصرت دی اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کیا۔ “
اس فتویٰ میں ابن تیمیہ نے متکلمین پر طعن کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جہت علو یعنی اوپر کی طرف میں ہے۔ ابن عبدالہادی کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نےا بن تیمیہ کو نصرت دی اور اس کے دشمنوں کو ذلیل کیا ۔ بالکل غلط ہے ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔
اس فتویٰ کے سبب سے فقہاء کی ایک جماعت ابن تیمیہ کے مخالفت ہوگی۔ آپ سے مباحثہ کیا گیا اور آئندہ فتویٰ دینے سے روک دیا گیا۔ پھر آپ قاضی امام الدین قزوینی کے پاس گئے۔ اس نے اس کے بھائی جلال الدین نے کہا کہ جو شخص تقی الدین پر نکتہ چینی کرے گا، ہم اسے سزا دیں گے۔ جب رفتہ رفتہ ایسے امور ناصر الدین شاہ مصر کے کان تک پہنچے ۔ تو اس نے دمشق میں اپنے نائب کے نام فرمان بھیجا کہ اس شخص کا عقیدہ پرکھا جائے۔ چنانچہ 7 رجب 705ھ کو اسی غرض کے لیے نائب کے محل میں ایک مجلس منعقد کی گئی، اور آپ سے کہا گیا کہ اپنا عقیدہ بیان کیجئے۔ آپ نے کچھ پڑھ کر سنایا۔ پھر آپ کا عقیدہ واسطیہ پیش کیا گیا اور اس کے کئی مقامات پر بحث ہوئی۔
12 رجب 705ھ کو دوسری مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں آپ کے ساتھ بحث کے لیے پہلے صفی الدین ہندی مقرر ہوا، پھر اسے ہٹا لیا گیا ۔ انجام یہ ہوا کہ ابن تیمیہ نے کہہ دیا کہ میں شافعی العقیدہ ہوں، اس پر اس کے اصحاب نے مشہور کردیا کہ ابن تیمیہ کامیاب ہوا ہے۔ اس لیئے مخالفین ناراض ہوگئے۔ انہوں نے ابن تیمیہ کے ایک پیرو کو جلال الدین قزوینی نائب الحکم کی عدالت میں پیش کردیا اور وہ سزا یاب ہوگیا، اسی طرح قاضی حنفی نے دو اور کو سزا دی۔
22 رجب 705ھ کو حافظ جلال الدین مزی نے جامع مسجد میں امام بخاری کی کتاب افعال العباد پڑھی، جس میں ایک فصل جہمیہ کے رد میں تھی۔ اس سے شوافع ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس کا روئے سخن ہماری طرف تھا۔ حافظ مزی کو قاضی شافعی کے سامنے پیش کیا گیا، قاضی موصوف نے قید کا حکم سنایا، جب ابن تیمیہ کو یہ خبر ملی تو قید خانہ میں جاکر مزی کو چھڑا لایا۔ قاضی شافعی یہ سنتے ہی شکایات لے کر قلعہ کی طرف چل پڑا ۔ اور دونوں نائب جلال الدین نے نائب السلطنت کی غیر حاضری میں میرے اصحاب کو اذیت دی۔ نائب افرم نے بغرض تسکین فتنہ منادی کرادی کہ جو شخص عقائد میں کلام کرے گا اسے قتل کیا جائے گا”
سلخ رجب 705ھ کو تیسری مجلس منعقد ہوئی۔ اور ابن زملکانی اور ابن الوکیل (صدر الدین المرحل) کے درمیان مباحثہ شروع ہوا، اور صدر مجلس قاضی القضاۃ نجم الدین بن صغری ابن زملکانی کی ایک بات پر خفا ہوکرکرسی صدارت چھوڑ کرگھرچلاگیا۔ نائب السلطنت نے حکم دیا کہ فرمان سلطان کا انتظار کیا جائے۔ چنانچہ 5 رمضان 705ھ کو قاصد سلطانی نائب کے نام یہ فرمان لایا کہ قاضی شافعی اور شیخ (ابن تیمیہ) کو یہاں بھیج دواور 698ھ کے واقعے کی کیفیت بھی ارسال کردو۔بنا بریں ہردورمضان کے عشیر اخیر میں قاہرہ میں پہنچے اور ان کے ساتھ ایک جماعت تھی۔
23 رمضان 705ھ کو نماز جمعہ کے بعد مجلس منعقد ہوئی۔ اور قاضی زین الدین ابن مخلوف مالکی کی عدالت میں ابن تیمیہ پر اس کے غلط عقائد (خدا عرش پر ہے، وہ حروف وصوف کےساتھ کلام کرتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ۔) پر مشتمل ایک استغاثہ دائر کردیا گیا۔ ابن تیمیہ نے یہ کہہ کر کہ یہ میرا مخالف ہے، جواب دینے سے انکار کردیا۔ پس قاضی نے حکم دیا کہ اس کو قید کردیا جائے۔ چنانچہ جیل میں بھیج دیا گیا۔ پھر قاضی مالکی کو اطلاع پہنچی کہ لوگ اس کے پاس آتے جاتے ہیں۔ اس پر قاضی موصوف نے فرمایا کہ اسکا کفر بے شک ثابت ہے۔ وہ اگر قتل نہیں کیا گیا توا سے تنگ کرنا واجب ہے۔ اس لئے عید الفطر کی رات اسے برج حب میں منتقل کردیا گیا اور قاضی شافعی اپنے ملک کو چلا آیا اور دمشق میں منادی کرادی گئی کہ جوشخص (بالخصوص حنابلہ میں سے) ابن تیمیہ کا عقیدہ رکھتا ہو اس کا جان ومال مباح ہے۔ اب شہاب محمود نے یہ فرمان جامع مسجد میں پڑھ کرسنایا، اس کے بعد بہت سے حنابلہ نے شوافع ہونے کا اعلان کردیا۔
شیخ جمال الدین ابن القاہری کے صاحبزادے کا بیان ہے کہ مصر کے تمام قضاۃ الشیوخ و فقراء وعلماء وعوام ابن تیمیہ کے مخالف تھے۔ صرف قاضی حنفی آپ کا حامی تھا اور قاضی شافعی ساکت تھا۔ ابن تیمیہ کے بڑے مخالفین میں سے شیخ نصر منجی تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابن تیمیہ کو پتہ لگا کہ نصر مذکور ابن عربی کا حامی ہے، اس لیئے اس نے نصر کو ایک عتاب آمیز خط لکھا جو نصر کو پسند نہ آیا۔ کیونکہ اس میں ابن عربی کی مخالفت وتکفیر تھی۔ اس پر نصر ابن تیمیہ کا مخالف بن گیا اور اس نے بیرس چاسنکیر اور قاضی ابن مخلوف کو اپنے ساتھ ملا لیا اور حنابلہ کو خوب ستایا۔ حنابلہ کا قاضی شرف الدین حرانی کم علم تھا۔ وہ بھی اعتقاداً ان کا ہمنوا بن گیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ دمشق میں قاضی حنفی شمس الدین ابن الحریری ابن تیمیہ کا حامی تھاا ور اس نے ایک محضرنامہ میں یہاں تک لکھ دیا کہ تین سو سال کے لوگوں نےا بن تیمیہ کا ثانی نہیں دیکھا۔ ابن مخلوف کو جب یہ خبر لگی تو اس نے ابن الحریری کومعزول کروا دیا۔ اس کی جگہ شمس الدین اوزعی مقرر ہوا، مگر دوسرے سال وہ بھی معزول کیا گیا۔ نائب سالار ابن تیمیہ کا حامی تھا، اس نے شافعی ومالکی وحنفی قضاۃ (ججز) کو بلا کر اس کی رہائی پر بحث کی۔ انہوں نے بالاتفاق کہا کہ ہم اس بارے میں چند شرائط پیش کرتے ہیں۔ اگروہ پابند رہے اور اپنے عقیدے سے رجوع کرلے ، توہمیں اس کی رہائی پر کوئی اعتراض نہیں ، اس لئے وہ کئی بار طلب کیا گیا، مگر حاضر نہ ہوا۔
ابن تیمیہ ڈیڑھ سال برج جب میں رہا۔ اتفاقاً ومنہا امیر آل فضل مصر میں وارد ہوا۔ اس کی سفارش پر 23 ربیع الاول 707ھ کو اس برج ِ جب سے نکالاگیا اور قلعہ میں حاضر کیاگیا۔ وہاں بھی فقہاء کے ساتھ اس کی بحث ہوئی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک محضر نامہ میں اس کا یہ قول لکھا گیا کہ میں اشعری ہوں، پھر اس نے اپنے قلم سے یہ توبہ نامہ لکھا:
“الذی اعتقد ان القرآن معنی قائم بذات اللہ وھو صفۃ من صفات، ذاتہ القدیمۃ وھو غیر مخلوق ولیس ، بحرف ولاصوف وان قولہ”الرحمٰن علی العرش استوی” لیس علی ظاھرہ ولا اعلم کنہ المراد بل لا یعلمہ الا اللہ والقول فی النزول کالقول فی الاستواء کتبہ احمد بن تیمیہ۔”
ترجمہ:
“میرا عقیدہ ہے کہ قرآن ایک معنی ہے ذات خدا کے ساتھ قائم اور وہ اسکی زات کی صفات قدیمہ میں سے ایک صفت ہے، اور وہ مخلوق نہیں اور حرف اور آواز نہیں اور اللہ کا قول “الرحمٰن علی العرش استویٰ” ظاہر پر محمول نہیں اور میں اس کی مراد کی کنہہ نہیں جانتا، بلکہ اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا۔ نزول میں کلام استواء کی طرح ہے، اسے ابن تیمیہ نے لکھا ہے۔”
پھر اس توبہ نامہ پر شہادت ثبت کی گئی کہ ابن تیمیہ اپنے اختیار سے تائب ہوا اس سے جو اس عقیدے کے خلاف ہے۔ یہ 15 ربیع الاول 707ھ میں لکھا گیا۔”
اس توبہ نامہ سے فتنہ تھم گیا، اور اسے رہا کردیاگیا۔ وہ سکندریہ میں سکونت پذیر ہوا۔اس کے بعد صوفیہ کا ایک گروہ تاج الدین ابن عطاء کے ہاں جمع ہوا، وہ شوا ل کے عشر اوسط میں قلعہ کی طرف نکلے اور ابن تیمیہ کی شکایت کی، کہ وہ مشائخ ِ طریقت پر طعن کرتا ہے اور کہتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے استغاثہ جائز نہیں۔ پس بمتقضائے حال اسے حکم دیا گیا کہ شام کو چلا جائے، چنانچہ وہ رات میں دمشق کو روانہ ہوا۔ قاضی زین الدین کو جو بستر مرگ پر پڑا ہواتھا، خبر لگی ، تو اس نے نائب کے نام چٹھی لکھی، اور اسے مقام بلبیس سے واپس بلوا لیا گیا۔ اور ابن جماعہ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ شرف الدین ابن صابونی اور بقول بعض علاؤ الدین قونوی نے بھی اس کے خلاف شہادت دی اور وہ حارہ دیلم میں ایک قید خانہ میںبند کردیا گیا۔ جہاں وہ 18 شوال 707 ھ سے سلخ صفر 709ھ تک قید رہا۔ پھر رپورٹ آئی کہ لوگ اس کے پاس آتے جاتے ہیں اور وہ بدستور سابق ان سے کلام کرتا ہے۔ اس لئے سکندریہ میں منتقل کردیا گیا اور وہاں سے برج شرقی میں مقید ہوا۔ لوگ پھر اسکے پاس آئے اور بحث کرتے، یہاں تک کہ شاہ ناصر کرک سےمصر آگیا، اس کے پاس سفارش کی گئی، اس نے 18 شوال 709ھ کو ایک محفل آراستہ کی، اور قاضٰ اور ابن تیمیہ میں صلح کرادی، مگر قاضی مالکی نے کہا: بشرطیکہ وہ پھر ایسا نہ کرے۔ سلطان نے جواب دیا کہ وہ تائب ہوگیا ہے۔ رہا ہوکر وہ قاہرہ میں رہنے لگا۔ لوگ اس کے پاس آتے جاتے یہاں تک کہ سلطان کے ساتھ غزا کی نیت سے شوال 713ھ کو شام کی طرف روانہ ہوا اور یکم ذی قعدہ کو پورے سات سال اور سات ہفتہ کے بعدوہ اپنے وطن دمشق پہنچا۔ یہاں بھی وہ فتنہ انگیزی سے باز نہ آیا۔رمضان 719ھ کو مسئلہ حلف بالطلاق کے سبب سے فتویٰ دینے سے منع کیا گیا۔ماہ رجب 720ھ میں ایک محفل منعقد کی گئی، اور وہ قلعہ میں قید کیا گیا۔ پھر یوم عاشوراء 721 ھ میں رہا ہوگیا۔ بعد ازاں شعبان 726ھ میں مسئلہ زیارت کے سبب سے قلعہ میں محبوس ہوا۔ اور اسی حالت میں 22 (یا 30) ذیقعد 728ھ میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ (ماخوذ از در۔دررکافیہ للحافظ ابن حجر العسقلانی)
شیخ صفی الدین ہندی اموی (متوفی 715ھ) کے ساتھ جس مناظرے کی طرف اوپر اشارہ کیاگیا ہے ۔ اس کی کیفیت علامہ تاج الدین سبکی (طبقات الشافعیہ الکبری جزء خامس ص 240،سکینز میں دیکھیں) نے یوں تحریر فرمائی ہے۔ ۔۔۔۔۔ ” جب مسئلہ حمویہ میں ابن تیمیہ سے وقوع میں آیا جوآیا۔ تو دارلسعادت میں امیر تنکز کے سامنے اسکے لیئے ایک محفل منعقد کی گئی، اور علماء جمع کئے گئے۔ انہوں نے شیخ ہندی کے بلانے کا مشورہ دیا۔ پس شیخ موصوف حاضر ہوئے، شیخ ہندی تقریر میں طویل الکلام تھے۔ جب کسی وجہ سے تقریرشروع کرتے۔ تو اثناء تقریر میں کسی شبہ یا اعتراض کو ذکر کئے بغیر نہ چھوڑتے، جب تقریر ختم ہوتی، تو معترض کے لئے آپ کا مقابلہ کرنا دشوار ہوتا۔ جب آپ نے تقریر شروع کی۔ تو ابن تیمیہ حسب عادت جلدی کرنے لگا، (نوٹ: آج تک فرقہ وہابیہ یہی حرکت کرتا ہے یعنی جلدی کرنا اور ٹاپک سے بھاگنا یہ بات ذاتی تجربہ سے لکھی جارہی ہے)اور ایک شئے سے دوسری شئے کی طرف نکلنے لگا۔ شیخ ہندی نے کہا: “ابن تیمیہ! میں تجھے صرف ایک چڑیا کی مثل دیکھتا ہوں، جسے ایک جگہ سے پکڑنا چاہتا ہوں ، تو دوسری جگہ پھدک جاتی ہے۔” امیر تنکز شیخ ہندی کی تعظیم کیا کرتا تھااور اس کا معتقد تھا۔ اور ہندی تمام حاضرین کا شیخ تھا۔ سب نے ابن تیمیہ کی رائے سے رجوع کیا، ابن تیمیہ اس مسئلہ کے سبب سے قید ہوا۔ یہی وہ مسئلہ ہے جس میں مذکور ہے کہ ابن تیمیہ اللہ تعالیٰ کے لیئے جہت کا قائل ہے، ابن تیمیہ اور اس کے اصحاب کے خلاف شہرمیں ڈھنڈورا پٹوایا گیا اور وہ اپنی ملازمتوں سے معزول کئے گئے۔”
جو فرمان جامع دمشق میں سنایاگیااور جگہ بھی پڑھ کرسنایا گیا۔ چنانچہ شیخ محمد زاہد الکوثری (تکلمۃ الرد علی نونیۃ ابن القیم ۔ ص 116 تا ص 118) یوں لکھتے ہیں۔”فرامین سلطانی جو اکابرعلماء وقت کے سامنے محاکمہ کے بعد ابن تیمیہ کے حق میں صادرہوئے، وہ کتب تاریخ اور خاص کتابوں (مثل عیون التواریخ ۔ نجم المھتدی اور دفع التشبہہ وغیرہ) میں منقول ہیں۔ میں ان میں سے ایک یہاں نقل کرتا ہوں۔ یہ فرمان حافظ شمس الدین بن طوہان کے قلم کا لکھا ہوا ہے، جیسا کہ میں نےا سے دیکھا ہے۔
“نسخہ فرمان شریف سلطانی ملکی مورخہ 28 رمضان 705ھ“
سب ستایش اللہ کے لیئے ہے جو شبیہ ونظیر سے پاک ہے ۔ اور مثال سے برتر ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔ لیس کمثلہ شیی وھو السمیع البصیر”۔ اس کی حمد کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے دل میں کتاب وسنت پر عمل کرنا ڈال دیا، اور ہمارے زمانے میں شک وشبہ کو دور کردیا۔ اور ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سواکوئی معبودبرحق نہیں، مثل شہادت اس شخص کے جو اخلاص کے ساتھ حسن عاقبت کا امیدوار ہو اور اپنے خالق کو ایک جہت میں محدود ہونے سے پاک سمجھتا ہو، کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے،” وھو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیرُٗ” اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنہوں نے مرضات اللہ کے طریق کے سالک کے لیئے نجات کا طریقہ بتا دیا اور خدائی نعمتوں میں تفکر کا حکم دیا اور اس کی ذات میں تفکر سے منع فرمایا۔ اللہ کا درود ہو آپ پر اور آپ کے آل و اصحاب پر جن کے ذریعہ ایمان کا مینارہ بلند ہوگیا اور قواعد شریعت مضبوط ہوگئے۔ اور گل ہوگیا کلمہ اس کا جس نے ھق سے انحراف کیا اور بدعتوں کی طرف مائل ہوا۔
اما بعد! شرع کے عقائد اور اسلام کے قواعد اور ایمان کے ارکان عملیہ اور دین کے مذاہب مرضیہ بنیاد ہیں جن پر بنا کرنی چاہئے اور مرجع ہیں جس کی طرف ہرایک کو رجوع کرنا چاہیئے اور طریق ہیں کہ جو ان پر چلا، بڑا کامیاب ہوا۔ اور جو ان سے منحرف ہوا وہ عذاب الیم کا مستوجب ہوا، اس واسطے واجب ہے کہ ان کے احکام جاری کئے جائیں اور ان کے دوام کی تاکید کی جائے اور اس ملت کے عقائد اختلاف سے بچائے جائیں اور اتفاق سے مزین کئے جائیں ، اور بدعتوں کے شعلے بجھائے جائیں اور ان کے فرقوں سے جو جمع ہیں، پراگندہ کردیئے جائیں۔
تقی الدین ابن تیمیہ نے اس مدت سے اپنے قلم کی زبان دراز کی اور اپنے کلمات کی باگ ڈھیلی چھوڑدی،اور صفات وذات کے مسائل میں کلام کیا۔ اور اپنے کلام میں غیرمشروع امور کو ظاہر کیا۔ اور کلام کیا اس میں جس سے صحابہ وتابعین خاموش رہے، اور زبان سے نکالا وہ جس سے سلف صالحین نے پرہیز کیا اور اس بارے میں وہ لایا جسے ائمہ ء اسلام نے برا کہا اور جس کے خلاف پر علماء وحکام کا اجماع منعقد ہوگیا۔ اور اس کے فتاویٰ سے مشہور ہوا وہ جسے بندوں کی عقلوں نے سبک سمجھا ۔ اس بارے میں اس نے اپنے ہم عصر فقہاء اور علماء شام ومصر کی مخالفت کی، اور اپنے رسالے ہرجگہ بھیجے اور اپنے فتاوے کو ایسے ناموں کےساتھ نامزدکیا کہ جن پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ۔ جب ہمیں اطلاع پہنچی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حق میں حرف وصوف وتجسیم کی صراحت کردی ہے، تو ہم اس بری خبر سے ڈر کراللہ کے واسطے اٹھے۔ اور ہم نے اس بدعت کا انکار کیا اورہمیں ناگوار گزرا کہ یہ عمل ان اشخاص کی طرف سے شائع ہوجوہماری سلطنت میں ہیں۔ اور ہم نے براجانا جو مبطلین نے زبان سے نکالا۔ اور ہم زبان پر لائے اللہ تعالیٰ کا قول “اور وہ برترہے اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔” کیونکہ اللہ جل جلالہ اپنی ذات وصفات میں عدیل ونظیر سے پاک ہے۔ابصار(آنکھیں) اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ ابصار کاادراک کرتاہے اور وہ لطیف وخبیر ہے۔ اور ہمارے فرامین تقی الدین ابن تیمیہ کو اپنے دروازے پر بلانے کے لیئے صادر ہوئے، جبکہ اس کے فتاوے شام ومصر میں شائع ہوئے۔ ان میں اس نے ایسے الفاظ کے ساتھ تصریح کی کہ جس عقلمند نے اس کو سنا، یہ آیت پڑھ دی۔ لقد جئت شیئاً نکرا
جب وہ حاضر ہوا ۔ ہم نے اہل حل و عقد اور اصحاب تحقیق ونقل کے جمع کرنے کا حکم دیا۔ قضاۃ وحکام وعلماء وفقہاء حاضر ہوگئے، اور انہوں نے اس کے لیئے آئمہ کے گروہ وجماعت میں ایک مجلس ِ شرع منعقد کی۔ اس وقت وہ سب جو اس کی طرف منسوب تھا، ثابت ہوگیا، خود اس کے ہاتھ کے لکھے ہوئے سے جس سے اس کا بڑا عقیدہ ظاہر تھا۔ وہ مجلس برخاست ہوئی، اس حال میں کہ وہ اس پر اور اس کے برے عقیدے پر انکار کرنے والے تھے۔ اور اس کا مواخذہ کررہے تھے، اس امر پر جس پر اس کا قلم شاہد تھا۔ اور وہ کہہ رہے تھے۔ ستکتب شھادتھم ویُسئلون
ہم نے سنا کہ پہلے اس سے کئی بار توبہ کرائی گئی۔ شرع نے اسے مہلت دی جب اس نے یہ اقدام اٹھا یا مگر وہ منع کے بعد باز نہ آیا اور وہ نواہی اس کے کان میں نہ پہنچے۔ جب قاضی مالکی کی مجلس میں ا س کا جرم ثابت ہوگیا۔ تو شرع شریف کا حکم ہے کہ ایسے شخص کو قید کردیا جائے اور تصرف وظہور سے منع کیا جائے۔ لہٰذا ہم آج سے حکم دیتے ہیں کہ کوئی شخص اس کے مسلک پر نہ چلے اور منع کرتے ہیں اس سے کہ کوئی ایسے اعتقاد میں اس کا مشابہ ہو، یا اس قول میں اس کا متبع ، یا ان الفاظ کے قبول کرنے والابنے، یا تجسیم میں اس کے طریق پر چلے، یا خاص جہت علو میں محدود کرےجیسا کہ اس نے کہہ دیا، یا کوئی انسان صوت یا حرف میں کلام کرے، یا ذات یا وصف میں کلام کو فراخ کرے، یا تجسیم کے ساتھ گویا ہو، یا صراط مستقیم سے انحراف کرے، یا ائمہ کی رائے سے نکل جائے اور علماء امت سے منفرد ہوجائےیا اللہ تعالیٰ کو ایک جہت میں محدود بتائے، یا حیث و کیف کے ساتھ پیش آئے۔ جو اس مجموع کا عقیدہ رکھتا ہو اس کے لئے ہمارے پاس سوائے تلوار کے کچھ نہیں ہے۔
پس ہر شخص اس حد پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے لیئے ہے امر پہلے اور پیچھے ۔ تمام حنابلہ کو چاہیئے کہ اس عقیدے سے جسے ائمہ نے بُرا کہا ہے ، رجوع کریں اور ان تشبیہات ِ شریدہ کو چھوڑ دیں۔ اور امر الٰہی کو لازم پکڑیں اور اہل مذاہب ِ حمیدہ سے تمسک کریں، کیونکہ جس نے امر الٰہی کو چھوڑ دیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیااور اس کا ٹھکانہ سوائے لمبی قید کے نہیں، اس لئے ہم نے لکھ دیا ہے کہ دمشق وبلاد شام اور ان جہات میں سخت ممانعت اور تخویف وتہدید کے ساتھ منادی کردی جائے، کہ اس امر میں جس کی ہم نے وضاحت کردی ہے، کوئی تقی الدین ابن تیمیہ کی پیروی نہ کرے۔ اور جو اس کی پیروی کرے گا ہم اسے ابن تیمیہ کی طرح جیل میں ڈال دیں گے۔ اور امت کی نظروں سے گرادیں گےجیسا کہ ہم نے اسے گرادیا ہے۔ جو لوگ باز رہنے سے روگردانی کریں اور ٹال مٹول سے کام لیں، ہم نے حکم دے دیا ہے کہ وہ مدارسی و مناصب سے معزول کردیئے جائیں اور اپنے مراتب سے گرادیئے جائیں، اور انکے لیئے ہمارے شہروں میں نہ حکم لیتے رہے، نہ قضاء ، نہ امامت ، نہ شہادت نہ ولایت، اور نہ اقامت۔ کیونکہ ہم نے اس بدعتی کی دعوت اپنے شہروں سے زائل کردی ہے۔ اور اس کے عقیدہ کو جس سے لوگ گمراہ ہوئے یا ہونے کو تھے، باطل کردیا ہے۔ حنابلہ سے اس عقیدہ سے رجوع کے متعلق محاضر شرعیہ لکھائے جائیں جو قاضیوں کی مہر ودستخط سے مزین ہوکرہمارے پاس آنے چاہییں۔ ہم معذور ہیں۔
ہم نے نصیحت کردی اور ہم نے انصاف کیا ہے کہ لوگوں کو ڈرادیا ہے۔ چاہیے کہ ہمارا یہ فرمان منبروں پر پڑھا جائے، تاکہ یہ کمال درجہ کا واعظ وزاجر اور نہایت عمدہ آمروناہی ہو اور اعتماد اس خط شریف پر ہے جس کے اوپر الحمد للہ ہے۔ صلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ وسلم ۔ ” (ترجمہ اردو ) ختم ہوا۔
وہ جو میں نے ابن طولون کے خط میں اس مجموعہ حسیبیہ میں دیکھاجس میں الدرۃ المضیہ والمقالۃ المرضیہ فی الرد علی من ینکر الزیارۃ المحمدیۃ للتقی الاخنائی اور اعتبار فی بقاء الجنۃ والنار، اور دفع شبہ من شبہ وتمرد وغیرہ ہیں۔ وہ فرمان جو سنہ 7 رمضان کو سب کے سامنے جامع قاہرہ کےمنبر پر جمعہ کے بعد اور جامع فسطاط کے منبر پر نمازِ عصر کے بعد پڑھا گیا ، نجم المھتدی لابن المعلم القرشی میں منقول ہے۔ اور جو فرمان قاضی ابن صغری مصر سے لایا، وہ جامع دمشق کے منبر پر 16 ذیقعد 705ھ کو پڑھا گیا وہ دفع الشبہ للتقی الحصنی میں منقول ہے۔ اور جو فرامین بلاد شام میں پڑھے گئے ان سب کے الفاظ بلحاظ معنی متقارت ہیں۔ انتہی۔
(قسط اول کا اختتام ہوا)