Post by Mohammed Aarif Waghoo on Jul 23, 2015 12:24:11 GMT 5.5
Scans
(Unicode)
فرقہ جدیدیہ (الوہابیہ ، المجسمیہ) کے جھوٹ، ان کے فرقے کے بننے اور اصلی حنبلیوں کا وہابیوں کے شرکیہ عقائد کا رد ۔یاد رہے کہ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ فقہ حنبلی کے ایک عظیم امام تھے۔ اور اللہ کے لیئے جسم کے بیہودہ شرکیہ عقیدے کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ابن تیمیہ نے جو خرافات ابو یعلیٰ وغیرہ ودیگر کی طرح کی ہیں اس معاملے میں اُس کا رد بارہا امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔ جو کہ ایک محدث اور فقیہہ کی شان ہوتی ہے۔ اور ظاہر کیا کہ اصلی حنابل کا ان عقیدوں سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اس سلسلے کی دوسری کڑی اگلے آرٹیکل میں دی جائے گی۔
حصہ اول؛ ردِ مجسمیت
ترجمہ: امام ابن جوزی (رحمتہ اللہ علیہ ) لکھتے ہیں:
“میں نے اپنے بعض حنبلی اصحاب کو دیکھا کہ انہوں نے عقائد کے باب میں ایسی باتیں کہی ہیں جو درست نہیں ہیں ۔ یہ اصحاب ابن حامد (چارسوتین ہجری) ، ان کے شاگرد ابویعلیٰ (چارسو اٹھاون ہجری) اور ابن زاغونی (پانچسو ستائیس ہجری) ہیں۔ ان کی کتابوں نے حنبلی مذہب کو عیب دار کیا ہے۔ ان لوگوں نے عوامی انداز اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوسات (یعنی مخلوقات) پر قیاس کیا۔ انہوں نے یہ حدیث دیکھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاء کی نسبت دیکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیئے ان کی ذات پر زائد صورت کا، چہرے گا، دو آنکھوں کا، منہ کا، کوے کا،داڑھوں کا، چہرے کی چمک کا، دوہاتھوں کا، ہتھیلی کا، چھنگلی کا، انگوٹھے کا، سینے کا ، ران کا ، پنڈلیوں کا اور دوپاؤں کا اثبات کیا اور کہا کہ ہم اللہ کے لئے سر کا اثبات نہیں کرتے کیونکہ ہم نے کسی نص میں سر کا ذکر نہیں پایا۔
ان لوگوں نےیہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ چُھوتے ہیں اور چھوئے جاسکتے ہیں اور وہ بندے کو اپنی ذات کے قریب کرلیتےہیں اور بعض تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سانس بھی لیتےہیں۔
ان لوگوں نےا للہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں الفاظ کے ظاہری معنی کو لیا (مثلاً ید اور قدم اور وجہ کے ظاہری وحقیقی معنی کو لیا جو ذات کے اعضاء ہیں) اور ان کو انہوں نےصفات کہا جو خود ایک بدعت ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی نقلی وعقلی دلیل نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان نصوص پر توجہ نہیں کی جو تقاضا کرتی ہیں کہ ظاہری معنی کے بجائے ایسے معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور انہوں نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کہ حادث ہونے کی علامتوں کی وجہ سے ظاہری معنی لغو ہیں۔
پھر ان صفات کو مان لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ظاہری اور معروف معنی لیں گے اور لغوی توجیہ بھی نہ کریں گے۔ اور ظاہری معنی وہ ہیں جو انسانوں میں معروف ہیں اور لفظ کو جہاں تک ہوسکے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی میں لیا جائے۔ اور اگر کوئی مانع ہو تو پھر مجاز کی طرف جائیں۔ پھر وہ تشبیہ سے بچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے سے تشبیہ کی نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہم (یعنی سلفی ہی، وہابی) اہلسنت ہیں حالانکہ ان کے کلام میں صریح تشبیہ پائی جاتی ہے۔
پھر عوام کی ایک تعداد ان لوگوں کی پیروی کرنے لگی۔ میں نے ان خواص و عوام دونوں کو سمجھایا کہ اے حنبلیو! تم اہل علم اور اہل اتباع ہو اور تمہارے بڑے امام احمد بن حنبل (رحمتہ اللہ علیہ) کا یہ حال تھا کہ جلاد ان کے سرپرہوتا تھا پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں وہ بات کیسے کہوں جو اسلاف نے نہیں کہی۔ لہٰذا تم ان کے مذہب ومسلک میں بدعتیں داخل نہ کرو۔ پھر تم حدیثوں کے بارے میں کہتے ہو کہ ان کے بھی ظاہری معنی لیئے جائیں گے ۔ تو قدم (پاؤں) کا ظاہری معنی تو عضو ہے۔ یہ تو عیسائیوں کی طرح ہوا کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ کہا گیا تو ان ناہنجاروں نے یہ عقیدہ بنا لیا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت روح ہے جو حضرت مریم علیہما السلام میں داخل ہوئی۔
اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات سمیت عرش پر مستوی ہوئے تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو محسوسات کی مثل لیا۔ حالانکہ واجب ہے کہ جس عقل سے ہم نے اللہ کو اور اس کے قدیم وازلی (ہمیشہ ہمیشگی سے) ہونے کو پہنچانا اس کو ہم (صفات سمجھنے میں) مہمل نہ چھوڑیں۔
تو تم اس نیک اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والے (یعنی امام احمد بن حنبل) کےمذہب ومسلک میں وہ کچھ داخل مت کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔ تم لوگوں نے اس مذہب کو بڑا غلیظ لباس پہنادیا ہے۔ جس کی وجہ سے حنبلیوں کو مجسمی (یعنی اللہ تعالیٰ کےلیئے جسم ثابت کرنے والا) سمجھا جانے لگا ۔
پھر تم نےاپنے اختراعی مذہب کو یزید بن معاویہ کے لیئے عصبیت (وحمایت) کے ساتھ مزیئن کیا (اور اس کو فضیلت وار قرار دینے لگے) حالانکہ تم جانتے ہو کہ امام احمد بن حنبل نے اس پر لعنت کرنے کو جائز کہا ہے۔ اور ابو محمد تمیمی تمہارے امام ابویعلیٰ کے بارے میں کہتےتھے کہ انہوں نے امام احمد کے مذہب کو ایسا دھبہ لگایا ہے جو قیامت تک دھل نہیں سکتا۔
میں نے ان لوگوں پر رد کرنے کو ضروری سمجھا تاکہ ان کی باتوں کو امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور اس بات سے میں خوفزدہ نہیں ہوا کہ مذکورہ عقائد کچھ لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوچکے ہیں کیونکہ عمل کا مدار دلیل پر ہے۔ خاص طور سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کہ اس میں تقلید جائز نہیں ہے۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا انہوں نے جواب بتایا۔ وہاں موجود کسی نے کہا عبداللہ بن مبارک تو اسکے قائل نہیں ہیں۔ اس پر امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عبداللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے کہ ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ میں نے امام مالک رحمتہ اللہ علیہ پر رد لکھنے کےلیئے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا تھا (مطلب یہ ہے کہ ایک مجتہد کو اگر دوسرے مجتہد سے کسی مسئلے میں اتفاق نہ ہو تو وہ اختلاف کرسکتا ہے)۔
(جاری ہے) (اختتام ص 6 تا 11 مقدمہ دفع تشبیہہ از امام ابن جوزی )
English Translation: (Rough- Admin 2 Zarbe Haq)
Imam Ibne Jawzi is Writing:
“I had seen some of our Hanbali people who has said such things in the context of ‘Aqaid’ (beliefs) which are not correct. These people are Ibn Haa’med (403H), his student Abu Yala (458H), and Ibn Za’ghoni (527H). Their books has make Hanbali madhab faulty. The used folky way and measure the Attributes of Allah as for His creations. They when saw this hadith that Allah has made Adam upon his Image, and when see it in relation to the organs, so they implement (that creation’s attributes) over the case, of exceeding like e.g He has face, the two eyes, the mouth, curves of joints, Shining of face, of two hands, of the palm, the little finger, thumb, chest, thigh, the calf, and affirming two feet”, and said that we do not attribute the ‘Head’ for Allah because we had never seen anything talk about ‘head’ in any verse.”
Those people also said that, Allah can touch, and can be touched too, and He brings his slaves towards His Za’at (Self) and some used to even say that Allah Tala also takes breath.”
These people has taken the Attributes [which are metaphorical] into its literal sense, e.g the words like Yadd’ (Hands, word used for Allah) and Qadm (Feet) and Wajhu (Face) which are actually the organs of a body (Zaa’t)’. And they proclaim it Attribute which is in itself a Bi’dda (innovation). And they have [upon this matter] no rational and logical evidence. They did not concentrate upon those verses (Nusus) which command us to take it as (metaphorical) not (literal) which are suitable with the Almighty’s Status, and they never think on that accidental’s (Ha’ad’is) symbols are unintentional (ir-rational) if been used in literal sense.
And then after accepting those attributes they said that we will take its literal and normally known meanings and we will not interpret its meaning linguistically And these literal meanings are those which are famous among humans, and needs to take all words in literal sense as much as can. And if some are non-acceptables [reasons in it] then return to the authorized by. And then they claims that, they are not doing anthropomorphism, [tashabuh, tashbeeh] and claims to be clear from anthropomorphism [by such virtue] and then they claim that, only them are the [Salaf’is, here means following the Salaf Way], and are Ahlu-Sunnah. Though they have clear anthropomorphism involved in their sayings [beliefs].
Then many people among the ordinary opt to follow them, I try to make them understand both to the public and to the ‘Khawas’ (special ones, means learned, or people of power and knowledge etc) about these attributes that, “O Hanabils! You are the followers of the people of knowledge and are the people of following [i.e., muqallad, follower of one madhab among 4 sunni schools of thoughts], and your Biggest Imam, Imam Ahmed bin Hanbal (rd)’s way was such that, the executioner was standing besides his head, and still he steadfastedly says “how can i say somehting, which Aslaaf never said”. Thus do not introduce Biddats (Innovations) in his madhab and belief. Then you say about ahadith that, they are also must should be taken in literal sense. So for Qadam (Feet), its literal meaning is a Organ, and this is just like Christians, that when Jesus (peace and blessings be upon him) was called (Ruh-ullah) (Soul of God), those harebrains consider and take it in literal sense and make it their belief, that Allah’s (God)’s one attribute is Ruh (Spirit), which was invested into Mary [mother of Jesus].
And those people who say that, Allah Almighty establish upon Arsh with (Self, means with body wise), so they take Allah Tala’a with the example of feelings. Though it is Must for us that, with which Aqal (wisdom, wit) we had known Allah with His Qadeem (Ancient) and (Eternal) existance, we must not leave that for in the terms of understanding His S’ifa’at (Attributes).
So you must not enter new innovations in the religion of that pious person who always was on the right path of Salaf-asSaliheen, which is not part of his way. You people has worn a very dirty dress to it. Because of which we Hanbalis are considered to be those who are (anthropomorphists, means, those who uses attributes of body for Allah).
And then you used your innovative religion for Yazid bin Muawiya and promoted and decorated it with Asbiyat (temperamental) approach and giving him the status of (superiority), though you know that Imam Ahmed bin Hanbal (rd) actually allowed the use of ‘Lanat’ (Curse) for him. And Abu Muhammad Tamimi use to say about your Imam abu yala, that he has stained the school of Imam Ahmed to such level that, it can never be washed until the day of judgement.”
I think it Important to refute those people, so that, no body can affiliate those sayings with Imam Ahmed bin Hanbal (rd), and I am not afraid from this thing, that these kind of beliefs are established inside the heart of some people. Because action is depended upon evidence. Specially in the matter of Marifa of Allah (way to know Allah), the taqlid is not allowed. Imam Ahmed was been asked about one issue, and he gave answer to that, upon listening that, one person who was there, said that Abdullah bin Mubarak (rd) is not agreed with that, upon listening this, Imam Ahmed (rd) said, that Abdullah bin Mubarak (rd) is not came from skies that no body can do difference of views. Imam Shafi’ (rd) said that, I did Istikhara to Allah, to write a refutation upon (some views) of Imam Malik (rd). (It means, that if a Mujtahid is not accepting the point of view of other Mujtahid on some matter, so he can dissent with).”
End of Rough translation from page 6 to 11, Muqadima Daf”u Subhat’al Tasshabbyeh” by Imam Abdu-Rahman Abi al Hasan Al-Jawzi (D. 597 H), Maktaba Al-Azhariya lil- Tiras Jamia al Azhar Univ