Post by Mohammed Aarif Waghoo on Oct 29, 2015 11:21:24 GMT 5.5
تفسیر ِ مفصل سورہ الاحزاب آیتان 128 و 129اور قنوت نازلہ کے بارے میں مکمل مفصل ائمہ اربعہ کے چاروں مذاہب کے مطابق معلوماتِ اسلامی
لیس لک من الامر شئء او،،،،،،الیٰ واللہ غفور رحیم
لیس لک من الامر شئی کے شانِ نزول میں متعدد اقوال
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی لکھتے ہیں؛۔
اس آیت کے شان نزول میں کئی اقوال ہیں ، زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ یہ آیت واقعہ احد میں نازل ہوئی ہے اور اسکی بھی کئی تقریریں درج ذیل ہیں؛۔
اول۔ عتبہ بن ابی وقاص کی ضرب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک زخمی ہوگیا اور سامنے کے چار دانتوں میں سے دائیں جانب کا نچلا دانت شہید ہوگیا، آپ اپنے چہرے مبارک سے خون صاف کررہے تھے اور ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام آپ کے چہرے سے خون دھورہے تھے، اسوقت آپ نے فرمایا، وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کردیا، اس وقت آپ نے ان کے لیئے دعائے ضرر کرنا چاہی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
(اس حدیث کا بیان صحیح بخاری جلد 2 ص 582 میں ہے۔)
دوم، سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے لیئے دعاء ضرر کی اور فرمایا:۔
اے اللہ! ابوسفیان پر لعنت فرما، اے اللہ حارث بن ہشام پر لعنت فرما، اے اللہ صفوان بن امیہ پر لعنت فرما، تب یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اور ان لوگوں نے مسلمان ہوکر نیک عمل کیئے۔
سوم:۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کو دیکھا ان کو مثلہ کردیا گیا تھا اور ان کی لاش کے اعضاء کاٹ دیئے گئے تھے تو آپ نے فرمایا میں تیس کافروں کو مثلہ کروں گا، تب یہ آیت نازل ہوئی ۔ قفال نے کہا جنگ احد میں یہ تمام واقعات پیش آئے ۔ اسلیئے ہوسکتا ہے کہ یہ تینوں واقعات اس آیت کے نزول کا سبب ہوں۔ (امام رازی اور بعض دگر مفسرین کو یہاں وہم ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں تیس کافروں کو مثلہ کروں گا، آپ نے فرمایا تھا میں بھی ان کو مثلہ کروں گا' کتب المغازی للواقدی جلد 1 ص 320 کیونکہ قرآن مجید میں ہے: وہ ان عاقبتھم فعاقبوا بمثل ماعوقبتھم بہ النحل ؛ 126' اگر تم انہیں سزادو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی۔ امام رازی نے بغیر کسی حوالہ کے اس روایت کو تفسیر کبیر میں درج کیا ہے' جب میں نے اس روایت کو پڑھا تو میرے قلب و ضمیر نے یہ قبول نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی لاش کو مثلہ کیئے ہوئے دیکھ کر یہ فرمایا ہو کہ میں اسکے بدلہ میں ان کے تیس کافر مثلہ کروں گا' میں اس روایت کی اصل تلاش کرتا رہا بہرحال مجھے کتاب المغازی للواقدی میں یہ روایت مل گئی جس میں ہے کہ میں ان کو مثلہ کروں گا' اور آپ کا یہ ارشاد قرآن مجید کے مطابق ہے کہ "برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے۔" (الشوریٰ: 40)۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ توفیق بخشی)۔ اس آیت کے متعلق دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جن بعض لوگوں نے جنگ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی تھی' اور اس وجہ سے شکست ہوئی تھی ' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف دعاء ضرر کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔
ان تمام اسباب کا تعلق واقعہ احد سے ہے، لیکن مقاتل نے ایک اور سبب بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو بیر معونہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کو قرآن کی تعلیم دیںِ عامر بن طفیل ان کو اپنے لشکر کے ساتھ لے گیا اور ان کو گرفتار کرکے قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ لعیہ وسلم کو اس واقعہ سے سخت اذیت پہنچی اور آپ نے چالیس روز تک ان کافروں کے خلاف دعائے ضرر کی اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ قول بعید ہے کیونکہ اکثر علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت کا تعلق قصہ احد کے ساتھ ہے۔
(تفسیر کبیر جلد ۸ ص ۲۳۱ تا ۲۳۴ طبعه اول بمطبعه البهيه مصر).
اس آیت کے جو شان نزول بیان کیئے گئے ہیں ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کام کرتے رہے تھے جن سے آپ کو منع کیا گیا' سو اگر یہ کام حسن تھے تو آپ کو ان سے منع کیوں کیا گیا اور اگر یہ کام قبیح تھے تو یہ آپ کے معصوم ہونے کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کفار پر لعنت کی یا دعاء ضرر کی یہ ترکِ اولیٰ اور ترکِ افضل کے باب سے ہے،' اسکی نظیر قرآن مجید کی یہ آیت ہے:۔
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِه ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ۔ سورہ النحل آیت 126
ترجمہ:
اور اگر تم سزا دو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہونچائی تھی (ف۲۸٦) اور اگر تم صبر کرو (ف۲۸۷) تو بیشک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا
اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم کسی کی اذیت پہنچانے سے اس کا بدلہ لو، تو بدلہ لینا جائز ہے لیکن اگر تم بدلہ لینے کی بجائے صبر کرو تو وہ افضل اور اولیٰ ہے ' اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار پر لعنت کرنا اور ان کے خلاف دعاء ضرر کرنا جائز تھا لیکن اس کو ترک کرنا زیادہ افضل اور اولیٰ ہے۔ ' سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل اور اولیٰ کے ترک کرنے سے منع فرمایا ہے اور ترک افضل اور ترک اولیٰ عصمت کے خلاف نہیں ہے۔ عصمت کے خلاف گناہ کبیرہ یا گناہ صغیرہ ہے اور آپ نے کبھی بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ نبوت سے پہلے ، نہ نبوت کے بعد،نہ سہواً' نہ عمداً ' نہ صورۃً ' نہ حقیقۃً ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کفار پر لعنت کرنے اور دعاء ضرر کرنے کا بیان ان احادیث میں ہے۔
بعض کافروں کے خلاف دعاء ضرر کرنے اور لعنت کرنے کے متعلق احادیث
امام محمد بن اسماعیل بخاری روایت کرتے ہیں؛۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کے بعد یہ دعا کرتے: اے اللہ ! فلاں اور فلاں اور فلاں کو لعنت کر، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لیس لک من الامر شیئ) نیز حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے خلاف دعائے ضرر کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی لیس لک من الامر شئ۔ بحوالہ صحیح بخاری جلد ۱ ص ۱۳۶ مطبوعه نورمحمد اصح المطابع کراچي
امام مسلم بن حجاج القشیری روایت فرماتے ہیں؛۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں قرات سےفارغ ہوکر سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہنے کے بعد کھڑے ہوکر دعا کرتے: اے اللہ ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام اور عیاس بن ابی ربیعہ اور ضعفاء مومنین کو نجات دے، اے اللہ مضر کو شدت کے ساتھ پامال کردے'اور ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح قحط نازل فرما'اے اللہ! لحیان'رعل'اور ذکوان پر اور عصیہ پر جس نے اللہ اور اسکے رسول کی معصیت کی ہے،لعنت فرما'پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: لیس لک من الامر شئ او یتوب علیھم او یعذبھم فانھم ظالمون۔تو آپ نے اس دعا کر ترک فرما دیا۔
صحیح مسلم ج ۱ ص ۲۳۷ مطبوعه نور محمد اصح المطابع کراچي
رہا یہ اعتراض کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ اللعالمین ہیں تو بعض کفار کے لیئے آپ کا دعاء ضرر کرنا اور لعنت کرنا کسطرح مناسب ہوگا؟ اسکا جواب بہ طور نقض اجمالی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے اسکے باوجود اللہ تعالیٰ کا کفار کو عذاب دینا جب اسکے رحمان و رحیم ہونے کے منافی نہیں ہے تو آپ کا ان کے لیئے دعاء ضرر کرنا آپ کے رحمتہ اللعالمین ہونے کےمنافی کیونکر ہوگا۔ اور بہ طور نقض تفصیلی اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ اللعالمین ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کی ہدایت او اسلام لانے کے دعوت تمام جہانوں کے لیئے ہے۔ آپ کسی خاص علاقہ، قوم یا خاص زمانہ کے لیئے رسول نہیں ہیں بلکہ آپ کی بعثت قیامت تک تمام جنوں اور انسانوں کے لیئے ہے اور آپ کے لائے ہوئے دین پر عمل کرکے تمام مخلوق دنیا میں عدل اور امن کے ساتھ رہے گی اور آخرت میں اس پر جنت کی تمام نعمتوں کا دروازہ کھل جائے گا اور جس طرح دعوت اسلام کو رد کرنے والے کافروں سے قتال کرنا 'مرتدین کو قتل کرنا' زانیوں کو رجم کرنا اور انکو کوڑے لگانا' چوروں کے ہاتھ کاٹنا اور ڈاکوؤں دہشتگردوں کو قتل کرنا اور ان کو پھانسی دینا اور دیگر مجرموں کو سزائیں دینا آپ کی رحمت کے خلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح بعض کافروں کے لیئے دعاء ضرر کرنا بھی آپ کی رحمت کے منافی نہیں ہے۔
جن کافروں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اورچہرہ انور کو زخمی کیا آپ نے ان کے متعلق صرف اتنا فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کردیا اور جو کافر تبلیغ کا نام لے کر ستر صحابہ کو لے گئے اور ان کو قتل کردیا۔ ان کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک دعائے ضرر کرتے رہے، ظاہر ہے کہ اگر یہ فعل ناجائز یا نامناسب ہوتا تو اللہ تعالیٰ روزِ اول ہی آپ کو اس سے منع فرمادیتا، آپ کا ہرفعل نیک اور حسن ہے اور ہرفعل میں امت کے لیئے نمونہ اور ہدایت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ۔ سورہ الاحزاب آیت 21
ترجمہ
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔ ترجمہ کنزالایمان شریف
سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کافروں کے لیئے دعاء ضرر کرنا اور ان پر لعنت کرنا، یہ بھی ایمان والوں کےلئے نہایت حسین عمل ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیئے یہ ہدایت ہے کہ جو کافر بدعہدی کریں ان کے لیئے دعاء ضرر کرنا جائز ہے، اور جب مسلمانوں پرکوئی مصیبت نازل ہو تو وہ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھیں اس میں مسلمانوں کے لیئے سلامتی اور کافروں کے لیئے ہلاکت کی دعاکریں، بعض علماء اور مفسرین کو اس مقام پر لرزش ہوئی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعاء ضرر کرنے کو بددعا لکھا ہے، یاد ریکھئے کہ رسول اللہ علیہ السلام کا کوئی فعل بد نہیں ہے، آپ کا ہرفعل نیک اور حسین ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول میں تمہارے لیئے نہایت حسین نمونہ ہے'لہٰذا آپ کے کسی فعل کو بد کہنا اور آپ کی دعاء ضرر کو بددعا کہنا اس آیت کے خلاف اور حلاوت ایمان کے منافی ہے' ان علماء نے زیادہ غور نہیں کیا اور اردو محاورے کی روانی میں آپ کی دعاء ضرر کو بددعا لکھ گئے، ہم ذیل میں ان علماء کی عبارات نقل کررہےہیں:۔
مولوی اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں؛۔
اور بخاری سے ایک قصہ اور بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے بعض کفار کے لیئے بددعا فرمائی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
حوالہ؛ بیان القرآن جلد 1 ص 125 مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور
مولانا محمود الحسن دیوبندی لکھتےہیں؛۔
چنانچہ جن لوگوں کے حق میں آپ بددا کرتے تھے،چند روز کے بعد سب کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدموں میں لا ڈالا۔ (حاشیہ القرآن ص 85)۔
مفتی شفیع دیوبندی لکھتے ہیں:
بخاری سے ایک قصہ اور بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے بعض کفار کے لیئے بددعا بھی فرمائی تھی۔
حوالہ؛ معارف القرآن 2 ص 175 ، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی
سلفیوں کے ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں؛۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب زخمی ہوئے تو آپ کے منہ سے کفار کے حق میں بددعا نکل گئی۔
حوالہ؛ تفہیم القرآن جلد 1 ص 287 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور۔
حضرت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیر معونہ والے کفار کے لیئے بددعا کی۔
حوالہ۔ نور العرفان ص 104 مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ گجرات
پیر محمد کرم شاہ الازھری لکھتے ہیں؛۔
یعنی حضور نے ان لوگوں کے حق میں بددعا کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
حوالہ ضیا القرآن جلد 1 ص 273 مطبوعہ ضیا القرآن پبلیکیشنز لاہور
امام احمد رضا قادری رح نے قنوت نازلہ کے بحث میں بہت محتاط ترجمہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں؛۔
اور نماز صبح میں قنوت نہ پڑھتے مگر جب کسی قوم کےلیئے ان کے فائدے کی دعا فرماتے یا کسی قوم پر ان کے نقصان کی دعا فرماتے
حوالہ ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 3 ص 513 مطبوعہ سنی دارالاشاعت لائل پور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعاء ضرر سے روکنے کی توجیہ اور بحث ونظر
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: آپ اس میں سے کسی چیز کے مالک نہیں اللہ (چاہے تو) ان (کافروں) کی توبہ قبول فرمائے'یا وہ ان کو عذاب دے کیونکہ بے شک وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ آل عمران 128
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک ظالم کافروں کے متعلق ہلاکت اور نقصان کی دعا کرتے رہے اور مسلمانوں کے لیئے حصول رحمت کی دعا فرماتے رہے تاکہ آپ کی زندگی میں یہ نمونہ ہوکہ ظالم کافروں کے لیئے تباہی اور بربادی کی دعا کرنا جائز ہے اور آپ کی سنت ہے، اسی لیئے فقہا نے یہ کہا ہے ہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو یا کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تو صبح کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی جائے ، امام آہستہ آہستہ مسلمانوں کی کامیابی اور کفار کی تباہی کے لیئے دعا کرے اور اسی طرح مقتدی بھی دعاکریں'اور یہ بھی جائز ہے کہ امام بلند آواز سے یہ دعا کرے اور مقتدی پست آواز سے آمین کہیں' اور جب مسلمانوں کی مصیبت ٹل جائے تو پھر اس دعا کو ترک کردیں اور عام معمول کے مطابق نمازیں پڑھیں،جس طرح ضرورت پوری ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا سے روک دیا تھا۔
اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ جنگ احد میں عین معرکہ کارزار کے وقت عبداللہ بن ابی سلول اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے نکل گیا'اور بعض مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ' کئی مسلمان گھبرا کر بھاگ پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور دانت مبارک شہید ہوا' ان حالات کی وجہ سے قدرتی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و غم ہوا ' تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اگر کفار اور منافقوں نے ظلم کیا ہے تو آپ اس پر غم نہ کریں آپ کا کام صرف زبان اور عمل سے ہدایت دینا ہے۔ رہا ان کا کفر سے توبہ کرنا اور ان کے دلوں میں اسلام کا پیدا کرنا یا ان کو ان ک کفر پر قائم رکھ کر عذاب دینا اسکے آپ مالک و مختار نہیں ہیں' اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول فرمائے یا وہ ان کو عذاب دے کیونکہ بے شک وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ اور اللہ ہی کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے ، وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور وہ جسے چاہے عذاب دیتا ہے اور اللہ نہایت بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔
ہمارے نزدیک اس آیت کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظالموں اور کافروں کی ہلاکت کی دعا کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا سے منع فرمادیاکہ یہ دعا آپ کی رحمت کے شایان شان نہیں ہے، ان کافروں اور ظالموں میں سے بعض نے اسلام قبول کرلیا اور بعض کی اولاد نے اسلام قبول کرلیا' کیونکہ اگر یہ دعا کرنا آپ کی شان کے لائق نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ روز ااول ہی اس دعا سے آپ کو روک دیتا' ایک ماہ تک کیوں آپ کو یہ دعا کرنے دی' ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرفعل حسن ہے اور واجب الاتباع ہے' آپ کا کوئی فعل غیرمستحسن اور ناپسندیدہ نہیں ہے۔ اب ہم بعض مفسرین کی تفسیر کو نقل کرتے ہیں ، ہرچند کہ یہ مفسرین بہت مشہور اور اپنے حلقوں میں مقبول ہیں لیکن ان کی یہ تفسیر پسندیدہ ومختار نہیں ہے۔
امام فخر الدین محمد بن ضیا الدین الرازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛۔
اس دعا سے روکنے کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان میں سے بعض کافر توبہ کرکے اسلام لے آئیں گے اور بعض اگرچہ تائب نہیں ہوں گے لیکن انکی اولاد نیک اور متقی ہوگی' اور جو لوگ اس قسم کے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لائق یہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں مہلت دے اور ان سے آفات کو دور کرے حتیٰ کہ وہ توبہ کرلیں یا ان سے وہ اولاد پیداہوجائے' اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہلاکت کی دعا کرتے رہتے تو اگر آپ کی دعا قبول ہوتی تو یہ مقصود حاصل نہ ہوتا اور اگر آپ کی دعا قبول نہ ہوتی تو اس سے آپ کی شان اور آپ کا مرتبہ کم ہوتا' اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا سے منع فرما دیا' نیز اس سے یہ بھی مقصود ہے کہ بندہ کے عجز کو ظاہر کیا جائے اور یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ملک اور اسکی ملکوت کے اسرار میں غوروخوض نہیں کرنا چاہیئے،میرے نزدیک یہ بہت اچھی تفسیر ہے۔
تفسیر کبیر ایضاً۔
محمود الحسن دیوبندی لکھتے ہیں؛
لیس لک من الامر شئ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ فرمایا کہ بندہ کو اختیار نہیں نہ اسکا علم محیط ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے سو کرے' اگرچہ کافرتمہارے دشمن ہیں اور ظلم پر ہیں لیکن چاہے وہ ان کو ہدایت دے چاہے عذاب کرے تم اپنی طرف سے بددعا نہ کرو۔
حوالہ۔ حاشیۃ القرآن ص 85 ط۔ تاج کمپنی لاہور
مفتی احمد یار خاں نعیمی لکھتے ہیں؛۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اے محبوب تمہیں ان کفار پر بددعا کرنے کا اختیار یا حق نہیں' ورنہ گزشتہ انبیائے کرام کفار پر بددعا کرکے انہیں ہلاک نہ کراتے' بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ بددعا آپ کی شان کے لائق نہیں کیونکہ آپ رحمۃ اللعالمین ہیں۔
حوالہ۔ نور العرفان ص 104 ط۔دارالکتب الاسلامیہ گجرات
پیر محمد کرم شاہ الازھری لکھتےہیں؛
یعنی حضور نے ان لوگوں کے حق میں بددعا کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تو یہ آیت نازل ہوئی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہوگیا کہ ان میں سے کئی لوگ مسلمان ہوں گے چنانچہ ایک کثیر تعداد اسلام لائی، انہیں میں حضرت خالد بھی تھے۔
حوالہ ضیا القرآن ، جلد 1 ص 274/273
اس آیت کی یہ تفاسیر کس طرح صحیح ہوسکتی ہیں جب کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آپ نے بعض کافروں پر لعنت کی اور ان کے لیئے دعاء ضرر فرمائی ہے۔
بہرحال ہمارے نزدیک مختار تفسیر یہ ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں اور منافقوں کے لیئے دعاء ضرر کرنا اسلیئے تھا کہ ظالموں اور کافروں کے لیے دعاء ضرر کرنا مشروع اور سنت ہوجائے اور قنوت نازلہ کا جواز ثابت ہو اور جب یہ حکمت پوری ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا سے روک دیا' اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ آیت آپ کو تسلی دینے کے لیئے نازل ہوئی کہ اگرچہ کافروں اور منافقوں نے ظلم کیا ہے لیکن آپ اس پر غم نہ کریں کیونکہ ان میں ہدایت اور توبہ کی تحریک پیدا کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے اللہ چاہے تو ان میں ہدایت پیدا کرکے ان کی توبہ قبول فرمائے اور چاہے تو ان کو ان کے کفر پر برقرار رکھ کر ان کو عذاب دے۔
قنوت نازلہ کا معنی
قنوت کا معنی دعا ہے اور نازلہ سے مراد ہونے والی آفت اور مصیبت ، اگر مسلمانوں پر خدانخواستہ کوئی مصیبت نازل ہو مثلاً دشمن کا خوف ہو'قحط ہو' خشک سالی ہو' وباء ہو' طاعون ہو' یا کوئی اور ضرر ظاہر ہو تو آخری رکعت میں رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد امام آہستہ دعا کرے اور مقتدی بھی آہستہ دعا کریں یا امام جہری نماز میں جہراً دعا کرے اور مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہیں اور مسلمان اس وقت تک نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے اس مصیبت کو دور نہ کردے۔
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء مالکیہ کا مؤقف ونظریہ
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی القرطبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛۔
امام مالک کا مختار یہ ہے کہ رکوع سے پہلے قنوت نازلہ پڑھے اور یہی اسحاق کا قول ہے اور امام مالک سے ایک روایت یہ ہے کہ رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھے'خلفاء اربعہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ' صحابہ کی ایک جماعت سے یہ روایت ہے کہ اس میں پڑھنے والے کو اختیار ہے ' اور امام دارقطنی نے سند صحیح کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔
الجامع للحکام القرآن للقرطبی ۔ جلد ۵ ص ۳۰۹/۳۱۰ تحت تفسير آل عمران آيتان ۱۲۸/۱۲۹ طباعت موسسته الرساله بيروت
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء شافعیہ کا نظریہ؛۔
علامہ ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردی شافعی لکھتے ہیں؛۔
مزنی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا جب صبح کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد کھڑا ہو تو سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد کھڑا ہوکر یہ دعا پڑھے۔
ترجمہ عربی۔ عربی کے لیئے سکین دیکھیں
اے اللہ ! جن لوگوں کو تونے ہدایت دی ہے مجھے ان میں ہدایت پر برقرار رکھ اور جن کو تو نے عافیت دی ہے مجھے ان میں عافیت سے رکھ اور جن چیزوں کا تو والی ہوچکا ان کا میں میرا والی ہو'اور جوچیزیں مجھے عطا فرمائی ہیں ان میں برکت دے اور میرے لیئے جو شرمقدر کیا ہے اس سے مجھ کو محفوظ رکھ،توقسمت بناتا ہے اور تجھ پر مقسوم نہیں کیا جاتا اور جس کا تو کارساز ہو وہ رسوا نہیں ہوتا' اے ہمارے رب تو برکت والا اور بلند ہے۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے سراٹھانے کے بعد یہ دعا کرتے :۔ اے اللہ ولید بن ولید،سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربعیہ اور مکہ کمزور مسلمانوں کو نجات دے' اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو مضبوط کر' اور ان پر یوسف علیہ السلام کے قحط کے سالوں کی طرح قحط کے سال مقرر کردے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ دعا تو آپ نے صرف ایک ماہ کی تھی جب بیر معونہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر اصحاب شہید کردیئے گئے تھے' تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھی حتیٰ کہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی لیس لک من الامر شئ (آل عمران 128)۔ تو پھر آپ نے یہ دعا ترک کردی' اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے لوگوں کا نام لے کر دعا کرنا ترک کردیا تھا' اور صبح کے علاوہ باقی چار نمازوں میں دعا کرنے کو ترک کردیا تھا' اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو بلا لیا' رہا حضرت ابن عمر کا یہ کہنا کہ قنوت بدعت ہے اسکا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ساتھ قنوت کرتے تھے لیکن وہ بھول گئے' اور باقی نمازوں کو صبح کی نماز پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ صبح کی نماز کئی احکام میں باقی نمازوں سے مختلف ہے ۔ اس کی آذان وقت سے پہلے دی جاتی ہے اور اس میں تثویب کی جاتی ہے ۔
الحاوی الکبیر جلد ۲ ص ۱۹۷ تا ۱۹۹ ط. دارالفکر بيروت
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء حنبلیہ کا نظریہ
وتر کے سوا اور کسی نماز میں قنوت پڑھنا درست نہیں ہے' صبح کی نماز میں نہ اور کسی نماز میں ' ہماری دلیل یہ ہے کہ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک عرب کے بعض قبیلوں کے لیے دعاء ضرر کرتے رہے پھر آپ نے اسکو ترک کردیا' اور امام ترمذی نے تصحیح سند کے ساتھ ابومالک سے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اقتداء میں کوفہ میں پانچ سال نمازیں پڑھیں کیا یہ لوگ قنوت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا اے بیٹے یہ بدعت ہے' امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے ' ابراہیم نخعی نے کہا سب سے پہلے جس نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی وہ حضرت علی تھے' کیونکہ وہ جنگ میں مشغول رہے اور اپنے دشمنوں کے خلاف صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے، امام سعید نے اپنی سنن میں ثعبی سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت علی نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی تو لوگوں نے اس پر تعجب کیا' حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا؛ ہم اپنے دشمنوں کے خلاف مدد طلب کررہے ہیں' اور امام سعید نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں اسی وقت قنوت پڑھتے تھے جب آپ کسی قوم کے لیئے رحمت کی یا کسی قوم کے لیئے ہلاکت کی دعافرماتے تھے۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تاحیات صبح کی نماز میں قنوت کرتے رہے اس سے مراد طویل قیام ہے۔ کیونکہ طولِ قیام کو بھی قنوت کہتےہیں' اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو قنوت مروی ہے اس سے مراد مصائب کے وقت قنوت پڑھنا ہے کیونکہ اکثر روایات میں ہے کہ حضرت عمر قنوت نہیں پڑھتے تھے ۔ اور امام احمد بن حنبل نے یہ تصریح کی ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو امام کے لیئے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
حوالہ جات کے لیئے دو ایڈیشنز کا سکین دیکیھے اس کے علاوہ، المغنی جلد 1 ص 449/50 ملحضاً مطبوعہ دارالفکر بیروت بھی چیک کریں۔
عکسِ مخطوطہ المغنی ، کنگ سعود یونیورسٹی ریاض
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء احناف کا نظریہ
شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی حنفی لکھتے ہیں؛۔
امام محمد نے فرمایا وتر کے سوا کسی نماز میں ہمارے نزدیک قنوت نہیں پڑھی جائے گی۔
حوالہ المبسوط جلد 1 ص 165 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت
علامہ ابوالحسن علی ابن ابی بکر المرغینانی الحنفی لکھتے ہیں؛۔
قنوت (نازلہ) اجتہادی مسئلہ ہے 'امام ابوحنیفہ اور امام محمد فرماتےہیں کہ یہ منسوخ ہوچکا ہے۔
حوالہ۔ ھدایہ اولین ص 145 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
متاخرین احناف نے مصائب کے وقت قنوت نازلہ پڑھنے کو جائز کہا ہے ' علامہ کمال الدین ابن ھمام رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
قنوت نازلہ پڑھنا دائمی شریعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قنوت نازلہ کو ترک کردیا تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے لیس لک من الامر شئ (آل عمران 128) نازل فرما کر آپ کو روک دیا تھا اور بعد میں مسلمانوں پر کوئی آفت نہیں آئی۔ بعد میں جن صحابہ کرام نے قنوت نازلہ نہیں پڑھی اسکی بھی یہی وجہ تھی اور بعض صحابہ نے حالتِ جنگ میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے اس وجہ سے جنگ میں قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
حوالہ شرح فتح القدیر ، امام کمال الدین محمد بن عبدالواحد المعروف بابن الھمام الحنفی، ص 446 دارالکتب العلمیہ بیروت ، و جلد 1 ص 379 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر پاکستان
علامہ حسن بن عمار شرنبلانی حنفی فرماتے ہیں؛۔
مصیبت کے وقت قنوت (نازلہ) پڑھنا دائمی شریعت ہے اور یہی ہمارا اور جمہور کا مذہب ہے۔
والہ۔ مراقی الفلاح ص 487 مطبوعہ مصطفیٰ البابی واولادہ مصر
علامہ امام سید محمد امین ابن عابدین الشامی الحنفی لکھتےہیں:۔
البحر الرقائق اور دیگر کتب فقہ میں ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو امام جہری نمازوں میں قنوت پڑھے، الاشباہ اور شرح المنیۃ میں لکھا ہے کہ مصیبت کے وقت قنوت پڑھنا دائمی شریعت ہے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے قنوت پڑھی ہے اور یہی ہمارا اور جمہور کا مذہب ہے ' امام ابوجعفر الطحاوی نے کہا کہ مصیبت کے وقت صرف صبح کی نماز میں قنوت پڑھے اور تمام نمازوں میں قنوت پڑھنا صرف امام شافعی کا قول ہے ' صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عشاء کی نمازوں میں قنوت پڑھی اور صحیح بخاری میں ہے کہ آپ نے مغرب کی نماز میں قنوت پڑھی، یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ اس عمل پر اتنی مواظبت نہیں ہے جتنی فجر کی نماز میں قنوت پڑھنے پر تکرار اور مواظبت ہے' اس عبارت میں یہ تصریح ہے کہ ہمارے نزدیک قنوت صرف فجر کی نماز کے ساتھ مخصوص ہے'فقہاء نے یہ قید لگائی ہے کہ فجر کی نماز میں امام قنوت پڑھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ مقتدی قنوت نہ پڑھے' رہا یہ کہ قنوت رکوع سے پہلے پڑھے یا بعد۔ اس مسئلہ میں میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی اتباع کرے (اگروہ سراً قنوت پڑھے) ہاں اگر امام جہراً قنوت پڑھے تو ، مقتدی آمین کہے، اور رکوع کے بعد قنوت پڑھے کیونکہ اسی طرح حدیث میں ہے، میں نے علامہ شرنبلانی کی مراقی الفلاح میں دیکھا ہے کہ رکوع کے بعد قنوت پڑھے اور علامہ حموی نے یہ کہا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ رکوع سے پہلے پڑھے اور زیادہ ظاہر وہ ہے جو ہم نے کہا ہے (یعنی رکوع کےبعد قنوت پڑھے)
(رد المحتار جلد 1 ص 451 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں؛۔
پانچوں نمازوں میں ہمیشہ دعا قنوت پڑھنا بدعت ہے 'البتہ فجر کی نماز میں بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ حدیث میں جب ضعف تھوڑا ہو تو فضائل اعمال میں معتبر ہے ہاں ضروری سمجھنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ضعف ہے۔
حوالہ فتاویٰ اہلحدیث جلد 2 ص 293، ادارہ احیا السنۃ النبویۃ، سرگودھا پاکستان
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صبح کی نماز میں قنوت پڑھنے کا ذکر ہے جیسا کہ ہم باحوالہ بتا چکے ہیں، اللہ جانے محدث روپڑی نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیثوں کو ضعیف کیسے کہہ دیا' ان حدیثوں کے منسوخ یا غیرمنسوخ ہونے کی بحث کی گئی ہے ان کو ضعیف کسی نے نہیں کہا۔
نیز روپڑی نے اسی فتاویٰ میں تحریر کیا ہے کہ
مقتدیوں کا دعا قنوت میں آمین کہنا ابوداؤد میں موجود ہے ۔ مگر یہ عام دعاء قنوت کے متعلق ہے وتروں کی خصوصیت نہیں آئی۔ از فتاویٰ۔
اصحاب بیر معونہ کی شہادت کا بیان
امام محمد بن سعد روایت کرتے ہیں
ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر کلابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا۔ آپ نے اسکا ہدیہ قبول نہیں کیا اور اس پر اسلام پیش کیا وہ مسلمان نہیں ہوا اور اسلام سے بیزار بھی نہیں ہوا اور کہنے لگا۔ یا محمد! کاش آپ صحابہ کو اہل نجد کے پاس بھیج دیں مجھے امید ہے کہ وہ دعوتِ اسلام کو قبول کرلیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ نجدی' صحابہ کو ہلاک کردیں گے' عامر نے کہا میں ضامن ہوں انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے ساتھ ستر قاری بھیج دیئے۔ یہ لوگ رات بھر نفل پڑھتے تھے ۔ صبح کو لکڑیاں اور پانی تلاش کرکے یہاں لاتے اور سرکار کے حجرہ میں پہنچا دیتے۔ آپ نے ان ستر قاریوں پر منذر بن عمرو کو امیر بنایا ان سب کو روانہ کردیا۔ جب یہ لوگ بیر معونہ پہنچے تو انہوں نے حرام بن ملحان کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب دے کر دشمن خدا عامر بن طفیل کے پاس بھیجا، جب وہ اسکے پاس گئے تو اس نے خط دیکھے بغیر ان پر حملہ کرکے ان کو شہید کردیا' پھر عصیہ ' ذکوان اور رعل کے قبائل مل کر ان ستر قاریوں پر حملہ آور ہوئے اور یہ تمام قراء ان سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ سوا کعب بن زید کے ان میں کچھ رمق حیات باقی تھی۔ اس لیئے نجدیوں نے انہیں چھوڑ دیا وہ بعد میں زندہ رہے اور غزوہء خندق میں شہید ہوگئے ۔
الطبقات الکبریٰ جلد 2 ص 51 مطبوعہ بیروت
علامہ بدر الدین عینی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ عمدۃ القاری جلد 7 ص 18 تا 19 مطبوعہ بیروت
یہ واقعہ غزوہ احد کے چارماہ بعد صفر 4 ہجری میں پیش آیا (عمدۃ القاری ج 7 ص 18)۔
علم رسالت پر اعتراض کا جواب
بعض اہل تنقیص کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب حاصل ہوتا تو آپ عامر کے مطالبہ پر ستر صحابہ کو نجد نہ بھیجتے اور اگر باوجود علم کے آپ نے ان کو بھیجا تا آپ پر العیاذ باللہ الزام آئے گا کہ آپ نے جان بوجھ کر انہیں موت کی طرف دھکیل دیا؟
جواب؛
اسکا ایک جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل نجد کی اسلام دشمنی کا علم تھا تبھی آپ نے فرمایا تھا انی اخشی علیھم اھل نجد (مجھے اندیشہ ہے کہ نجدی، صحابہ کو ہلاک کردیں گے) اور باوجود اسکے کہ آپ کو ان کی شہادت کا علم تھا۔ آپ نے اہل نجد کے مطالبہ تبلیغ پر انہیں نجد بھیج دیا تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو قبول اسلام کے لیئے تیرے نبی سے مبلغ مانگے تھے اس نے نہیں بھیجے، نیز آپ نے یہ تعلیم دی کہ جان کے خوف سے تبلیغ سے نہیں رکنا چاہیئے، اگر جان کے خوف سے تبلیغِ دین چھوڑنا جائز ہوتا تو جہاد اصلاً مشروع نہیں ہوتا کیونکہ اس بات کا ہرشخص کو یقین ہوتا ہے کہ جہاد میں کچھ نہ کچھ مسلمان یقیناً شہید ہوجائیں گے اور جان کے خوف سے جہاد نہ کرنا نہ مردانگی ہے نہ مسلمانی! نیز جو موت شہادت کی صورت میں حاصل ہو وہ ایسی عظیم نعمت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے' میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیاجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا علم تدریجی ہے اگر اس وقت علم نہیں تھا تو بعد میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا۔
لیس لک من الامر شئء او،،،،،،الیٰ واللہ غفور رحیم
لیس لک من الامر شئی کے شانِ نزول میں متعدد اقوال
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی لکھتے ہیں؛۔
اس آیت کے شان نزول میں کئی اقوال ہیں ، زیادہ مشہور قول یہ ہے کہ یہ آیت واقعہ احد میں نازل ہوئی ہے اور اسکی بھی کئی تقریریں درج ذیل ہیں؛۔
اول۔ عتبہ بن ابی وقاص کی ضرب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سرمبارک زخمی ہوگیا اور سامنے کے چار دانتوں میں سے دائیں جانب کا نچلا دانت شہید ہوگیا، آپ اپنے چہرے مبارک سے خون صاف کررہے تھے اور ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام آپ کے چہرے سے خون دھورہے تھے، اسوقت آپ نے فرمایا، وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کردیا، اس وقت آپ نے ان کے لیئے دعائے ضرر کرنا چاہی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
(اس حدیث کا بیان صحیح بخاری جلد 2 ص 582 میں ہے۔)
دوم، سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے لیئے دعاء ضرر کی اور فرمایا:۔
اے اللہ! ابوسفیان پر لعنت فرما، اے اللہ حارث بن ہشام پر لعنت فرما، اے اللہ صفوان بن امیہ پر لعنت فرما، تب یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اور ان لوگوں نے مسلمان ہوکر نیک عمل کیئے۔
سوم:۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کو دیکھا ان کو مثلہ کردیا گیا تھا اور ان کی لاش کے اعضاء کاٹ دیئے گئے تھے تو آپ نے فرمایا میں تیس کافروں کو مثلہ کروں گا، تب یہ آیت نازل ہوئی ۔ قفال نے کہا جنگ احد میں یہ تمام واقعات پیش آئے ۔ اسلیئے ہوسکتا ہے کہ یہ تینوں واقعات اس آیت کے نزول کا سبب ہوں۔ (امام رازی اور بعض دگر مفسرین کو یہاں وہم ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں تیس کافروں کو مثلہ کروں گا، آپ نے فرمایا تھا میں بھی ان کو مثلہ کروں گا' کتب المغازی للواقدی جلد 1 ص 320 کیونکہ قرآن مجید میں ہے: وہ ان عاقبتھم فعاقبوا بمثل ماعوقبتھم بہ النحل ؛ 126' اگر تم انہیں سزادو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی۔ امام رازی نے بغیر کسی حوالہ کے اس روایت کو تفسیر کبیر میں درج کیا ہے' جب میں نے اس روایت کو پڑھا تو میرے قلب و ضمیر نے یہ قبول نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ کی لاش کو مثلہ کیئے ہوئے دیکھ کر یہ فرمایا ہو کہ میں اسکے بدلہ میں ان کے تیس کافر مثلہ کروں گا' میں اس روایت کی اصل تلاش کرتا رہا بہرحال مجھے کتاب المغازی للواقدی میں یہ روایت مل گئی جس میں ہے کہ میں ان کو مثلہ کروں گا' اور آپ کا یہ ارشاد قرآن مجید کے مطابق ہے کہ "برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے۔" (الشوریٰ: 40)۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ توفیق بخشی)۔ اس آیت کے متعلق دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جن بعض لوگوں نے جنگ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی تھی' اور اس وجہ سے شکست ہوئی تھی ' نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف دعاء ضرر کا ارادہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔
ان تمام اسباب کا تعلق واقعہ احد سے ہے، لیکن مقاتل نے ایک اور سبب بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی ایک جماعت کو بیر معونہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کو قرآن کی تعلیم دیںِ عامر بن طفیل ان کو اپنے لشکر کے ساتھ لے گیا اور ان کو گرفتار کرکے قتل کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ لعیہ وسلم کو اس واقعہ سے سخت اذیت پہنچی اور آپ نے چالیس روز تک ان کافروں کے خلاف دعائے ضرر کی اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ قول بعید ہے کیونکہ اکثر علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت کا تعلق قصہ احد کے ساتھ ہے۔
(تفسیر کبیر جلد ۸ ص ۲۳۱ تا ۲۳۴ طبعه اول بمطبعه البهيه مصر).
اس آیت کے جو شان نزول بیان کیئے گئے ہیں ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کام کرتے رہے تھے جن سے آپ کو منع کیا گیا' سو اگر یہ کام حسن تھے تو آپ کو ان سے منع کیوں کیا گیا اور اگر یہ کام قبیح تھے تو یہ آپ کے معصوم ہونے کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کفار پر لعنت کی یا دعاء ضرر کی یہ ترکِ اولیٰ اور ترکِ افضل کے باب سے ہے،' اسکی نظیر قرآن مجید کی یہ آیت ہے:۔
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِه ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ۔ سورہ النحل آیت 126
ترجمہ:
اور اگر تم سزا دو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہونچائی تھی (ف۲۸٦) اور اگر تم صبر کرو (ف۲۸۷) تو بیشک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا
اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم کسی کی اذیت پہنچانے سے اس کا بدلہ لو، تو بدلہ لینا جائز ہے لیکن اگر تم بدلہ لینے کی بجائے صبر کرو تو وہ افضل اور اولیٰ ہے ' اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار پر لعنت کرنا اور ان کے خلاف دعاء ضرر کرنا جائز تھا لیکن اس کو ترک کرنا زیادہ افضل اور اولیٰ ہے۔ ' سو اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل اور اولیٰ کے ترک کرنے سے منع فرمایا ہے اور ترک افضل اور ترک اولیٰ عصمت کے خلاف نہیں ہے۔ عصمت کے خلاف گناہ کبیرہ یا گناہ صغیرہ ہے اور آپ نے کبھی بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ نبوت سے پہلے ، نہ نبوت کے بعد،نہ سہواً' نہ عمداً ' نہ صورۃً ' نہ حقیقۃً ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کفار پر لعنت کرنے اور دعاء ضرر کرنے کا بیان ان احادیث میں ہے۔
بعض کافروں کے خلاف دعاء ضرر کرنے اور لعنت کرنے کے متعلق احادیث
امام محمد بن اسماعیل بخاری روایت کرتے ہیں؛۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کے بعد یہ دعا کرتے: اے اللہ ! فلاں اور فلاں اور فلاں کو لعنت کر، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لیس لک من الامر شیئ) نیز حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے خلاف دعائے ضرر کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی لیس لک من الامر شئ۔ بحوالہ صحیح بخاری جلد ۱ ص ۱۳۶ مطبوعه نورمحمد اصح المطابع کراچي
امام مسلم بن حجاج القشیری روایت فرماتے ہیں؛۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں قرات سےفارغ ہوکر سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہنے کے بعد کھڑے ہوکر دعا کرتے: اے اللہ ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام اور عیاس بن ابی ربیعہ اور ضعفاء مومنین کو نجات دے، اے اللہ مضر کو شدت کے ساتھ پامال کردے'اور ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح قحط نازل فرما'اے اللہ! لحیان'رعل'اور ذکوان پر اور عصیہ پر جس نے اللہ اور اسکے رسول کی معصیت کی ہے،لعنت فرما'پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: لیس لک من الامر شئ او یتوب علیھم او یعذبھم فانھم ظالمون۔تو آپ نے اس دعا کر ترک فرما دیا۔
صحیح مسلم ج ۱ ص ۲۳۷ مطبوعه نور محمد اصح المطابع کراچي
رہا یہ اعتراض کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ اللعالمین ہیں تو بعض کفار کے لیئے آپ کا دعاء ضرر کرنا اور لعنت کرنا کسطرح مناسب ہوگا؟ اسکا جواب بہ طور نقض اجمالی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے اسکے باوجود اللہ تعالیٰ کا کفار کو عذاب دینا جب اسکے رحمان و رحیم ہونے کے منافی نہیں ہے تو آپ کا ان کے لیئے دعاء ضرر کرنا آپ کے رحمتہ اللعالمین ہونے کےمنافی کیونکر ہوگا۔ اور بہ طور نقض تفصیلی اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ اللعالمین ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپ کی ہدایت او اسلام لانے کے دعوت تمام جہانوں کے لیئے ہے۔ آپ کسی خاص علاقہ، قوم یا خاص زمانہ کے لیئے رسول نہیں ہیں بلکہ آپ کی بعثت قیامت تک تمام جنوں اور انسانوں کے لیئے ہے اور آپ کے لائے ہوئے دین پر عمل کرکے تمام مخلوق دنیا میں عدل اور امن کے ساتھ رہے گی اور آخرت میں اس پر جنت کی تمام نعمتوں کا دروازہ کھل جائے گا اور جس طرح دعوت اسلام کو رد کرنے والے کافروں سے قتال کرنا 'مرتدین کو قتل کرنا' زانیوں کو رجم کرنا اور انکو کوڑے لگانا' چوروں کے ہاتھ کاٹنا اور ڈاکوؤں دہشتگردوں کو قتل کرنا اور ان کو پھانسی دینا اور دیگر مجرموں کو سزائیں دینا آپ کی رحمت کے خلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح بعض کافروں کے لیئے دعاء ضرر کرنا بھی آپ کی رحمت کے منافی نہیں ہے۔
جن کافروں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اورچہرہ انور کو زخمی کیا آپ نے ان کے متعلق صرف اتنا فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون آلود کردیا اور جو کافر تبلیغ کا نام لے کر ستر صحابہ کو لے گئے اور ان کو قتل کردیا۔ ان کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک دعائے ضرر کرتے رہے، ظاہر ہے کہ اگر یہ فعل ناجائز یا نامناسب ہوتا تو اللہ تعالیٰ روزِ اول ہی آپ کو اس سے منع فرمادیتا، آپ کا ہرفعل نیک اور حسن ہے اور ہرفعل میں امت کے لیئے نمونہ اور ہدایت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ۔ سورہ الاحزاب آیت 21
ترجمہ
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔ ترجمہ کنزالایمان شریف
سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کافروں کے لیئے دعاء ضرر کرنا اور ان پر لعنت کرنا، یہ بھی ایمان والوں کےلئے نہایت حسین عمل ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیئے یہ ہدایت ہے کہ جو کافر بدعہدی کریں ان کے لیئے دعاء ضرر کرنا جائز ہے، اور جب مسلمانوں پرکوئی مصیبت نازل ہو تو وہ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھیں اس میں مسلمانوں کے لیئے سلامتی اور کافروں کے لیئے ہلاکت کی دعاکریں، بعض علماء اور مفسرین کو اس مقام پر لرزش ہوئی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعاء ضرر کرنے کو بددعا لکھا ہے، یاد ریکھئے کہ رسول اللہ علیہ السلام کا کوئی فعل بد نہیں ہے، آپ کا ہرفعل نیک اور حسین ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول میں تمہارے لیئے نہایت حسین نمونہ ہے'لہٰذا آپ کے کسی فعل کو بد کہنا اور آپ کی دعاء ضرر کو بددعا کہنا اس آیت کے خلاف اور حلاوت ایمان کے منافی ہے' ان علماء نے زیادہ غور نہیں کیا اور اردو محاورے کی روانی میں آپ کی دعاء ضرر کو بددعا لکھ گئے، ہم ذیل میں ان علماء کی عبارات نقل کررہےہیں:۔
مولوی اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں؛۔
اور بخاری سے ایک قصہ اور بھی نقل کیا ہے کہ آپ نے بعض کفار کے لیئے بددعا فرمائی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
حوالہ؛ بیان القرآن جلد 1 ص 125 مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور
مولانا محمود الحسن دیوبندی لکھتےہیں؛۔
چنانچہ جن لوگوں کے حق میں آپ بددا کرتے تھے،چند روز کے بعد سب کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے قدموں میں لا ڈالا۔ (حاشیہ القرآن ص 85)۔
مفتی شفیع دیوبندی لکھتے ہیں:
بخاری سے ایک قصہ اور بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے بعض کفار کے لیئے بددعا بھی فرمائی تھی۔
حوالہ؛ معارف القرآن 2 ص 175 ، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی
سلفیوں کے ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں؛۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب زخمی ہوئے تو آپ کے منہ سے کفار کے حق میں بددعا نکل گئی۔
حوالہ؛ تفہیم القرآن جلد 1 ص 287 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور۔
حضرت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیر معونہ والے کفار کے لیئے بددعا کی۔
حوالہ۔ نور العرفان ص 104 مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ گجرات
پیر محمد کرم شاہ الازھری لکھتے ہیں؛۔
یعنی حضور نے ان لوگوں کے حق میں بددعا کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
حوالہ ضیا القرآن جلد 1 ص 273 مطبوعہ ضیا القرآن پبلیکیشنز لاہور
امام احمد رضا قادری رح نے قنوت نازلہ کے بحث میں بہت محتاط ترجمہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں؛۔
اور نماز صبح میں قنوت نہ پڑھتے مگر جب کسی قوم کےلیئے ان کے فائدے کی دعا فرماتے یا کسی قوم پر ان کے نقصان کی دعا فرماتے
حوالہ ۔ فتاویٰ رضویہ جلد 3 ص 513 مطبوعہ سنی دارالاشاعت لائل پور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعاء ضرر سے روکنے کی توجیہ اور بحث ونظر
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: آپ اس میں سے کسی چیز کے مالک نہیں اللہ (چاہے تو) ان (کافروں) کی توبہ قبول فرمائے'یا وہ ان کو عذاب دے کیونکہ بے شک وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ آل عمران 128
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک ظالم کافروں کے متعلق ہلاکت اور نقصان کی دعا کرتے رہے اور مسلمانوں کے لیئے حصول رحمت کی دعا فرماتے رہے تاکہ آپ کی زندگی میں یہ نمونہ ہوکہ ظالم کافروں کے لیئے تباہی اور بربادی کی دعا کرنا جائز ہے اور آپ کی سنت ہے، اسی لیئے فقہا نے یہ کہا ہے ہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو یا کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تو صبح کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی جائے ، امام آہستہ آہستہ مسلمانوں کی کامیابی اور کفار کی تباہی کے لیئے دعا کرے اور اسی طرح مقتدی بھی دعاکریں'اور یہ بھی جائز ہے کہ امام بلند آواز سے یہ دعا کرے اور مقتدی پست آواز سے آمین کہیں' اور جب مسلمانوں کی مصیبت ٹل جائے تو پھر اس دعا کو ترک کردیں اور عام معمول کے مطابق نمازیں پڑھیں،جس طرح ضرورت پوری ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا سے روک دیا تھا۔
اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ جنگ احد میں عین معرکہ کارزار کے وقت عبداللہ بن ابی سلول اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے نکل گیا'اور بعض مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ' کئی مسلمان گھبرا کر بھاگ پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور دانت مبارک شہید ہوا' ان حالات کی وجہ سے قدرتی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج و غم ہوا ' تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی کہ اگر کفار اور منافقوں نے ظلم کیا ہے تو آپ اس پر غم نہ کریں آپ کا کام صرف زبان اور عمل سے ہدایت دینا ہے۔ رہا ان کا کفر سے توبہ کرنا اور ان کے دلوں میں اسلام کا پیدا کرنا یا ان کو ان ک کفر پر قائم رکھ کر عذاب دینا اسکے آپ مالک و مختار نہیں ہیں' اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول فرمائے یا وہ ان کو عذاب دے کیونکہ بے شک وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ اور اللہ ہی کی ملکیت میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے ، وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور وہ جسے چاہے عذاب دیتا ہے اور اللہ نہایت بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔
ہمارے نزدیک اس آیت کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظالموں اور کافروں کی ہلاکت کی دعا کررہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا سے منع فرمادیاکہ یہ دعا آپ کی رحمت کے شایان شان نہیں ہے، ان کافروں اور ظالموں میں سے بعض نے اسلام قبول کرلیا اور بعض کی اولاد نے اسلام قبول کرلیا' کیونکہ اگر یہ دعا کرنا آپ کی شان کے لائق نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ روز ااول ہی اس دعا سے آپ کو روک دیتا' ایک ماہ تک کیوں آپ کو یہ دعا کرنے دی' ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرفعل حسن ہے اور واجب الاتباع ہے' آپ کا کوئی فعل غیرمستحسن اور ناپسندیدہ نہیں ہے۔ اب ہم بعض مفسرین کی تفسیر کو نقل کرتے ہیں ، ہرچند کہ یہ مفسرین بہت مشہور اور اپنے حلقوں میں مقبول ہیں لیکن ان کی یہ تفسیر پسندیدہ ومختار نہیں ہے۔
امام فخر الدین محمد بن ضیا الدین الرازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛۔
اس دعا سے روکنے کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ ان میں سے بعض کافر توبہ کرکے اسلام لے آئیں گے اور بعض اگرچہ تائب نہیں ہوں گے لیکن انکی اولاد نیک اور متقی ہوگی' اور جو لوگ اس قسم کے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لائق یہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں مہلت دے اور ان سے آفات کو دور کرے حتیٰ کہ وہ توبہ کرلیں یا ان سے وہ اولاد پیداہوجائے' اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہلاکت کی دعا کرتے رہتے تو اگر آپ کی دعا قبول ہوتی تو یہ مقصود حاصل نہ ہوتا اور اگر آپ کی دعا قبول نہ ہوتی تو اس سے آپ کی شان اور آپ کا مرتبہ کم ہوتا' اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا سے منع فرما دیا' نیز اس سے یہ بھی مقصود ہے کہ بندہ کے عجز کو ظاہر کیا جائے اور یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ملک اور اسکی ملکوت کے اسرار میں غوروخوض نہیں کرنا چاہیئے،میرے نزدیک یہ بہت اچھی تفسیر ہے۔
تفسیر کبیر ایضاً۔
محمود الحسن دیوبندی لکھتے ہیں؛
لیس لک من الامر شئ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ فرمایا کہ بندہ کو اختیار نہیں نہ اسکا علم محیط ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے سو کرے' اگرچہ کافرتمہارے دشمن ہیں اور ظلم پر ہیں لیکن چاہے وہ ان کو ہدایت دے چاہے عذاب کرے تم اپنی طرف سے بددعا نہ کرو۔
حوالہ۔ حاشیۃ القرآن ص 85 ط۔ تاج کمپنی لاہور
مفتی احمد یار خاں نعیمی لکھتے ہیں؛۔
اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اے محبوب تمہیں ان کفار پر بددعا کرنے کا اختیار یا حق نہیں' ورنہ گزشتہ انبیائے کرام کفار پر بددعا کرکے انہیں ہلاک نہ کراتے' بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ بددعا آپ کی شان کے لائق نہیں کیونکہ آپ رحمۃ اللعالمین ہیں۔
حوالہ۔ نور العرفان ص 104 ط۔دارالکتب الاسلامیہ گجرات
پیر محمد کرم شاہ الازھری لکھتےہیں؛
یعنی حضور نے ان لوگوں کے حق میں بددعا کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کی تو یہ آیت نازل ہوئی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہوگیا کہ ان میں سے کئی لوگ مسلمان ہوں گے چنانچہ ایک کثیر تعداد اسلام لائی، انہیں میں حضرت خالد بھی تھے۔
حوالہ ضیا القرآن ، جلد 1 ص 274/273
اس آیت کی یہ تفاسیر کس طرح صحیح ہوسکتی ہیں جب کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آپ نے بعض کافروں پر لعنت کی اور ان کے لیئے دعاء ضرر فرمائی ہے۔
بہرحال ہمارے نزدیک مختار تفسیر یہ ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کافروں اور منافقوں کے لیئے دعاء ضرر کرنا اسلیئے تھا کہ ظالموں اور کافروں کے لیے دعاء ضرر کرنا مشروع اور سنت ہوجائے اور قنوت نازلہ کا جواز ثابت ہو اور جب یہ حکمت پوری ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا سے روک دیا' اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ آیت آپ کو تسلی دینے کے لیئے نازل ہوئی کہ اگرچہ کافروں اور منافقوں نے ظلم کیا ہے لیکن آپ اس پر غم نہ کریں کیونکہ ان میں ہدایت اور توبہ کی تحریک پیدا کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے اللہ چاہے تو ان میں ہدایت پیدا کرکے ان کی توبہ قبول فرمائے اور چاہے تو ان کو ان کے کفر پر برقرار رکھ کر ان کو عذاب دے۔
قنوت نازلہ کا معنی
قنوت کا معنی دعا ہے اور نازلہ سے مراد ہونے والی آفت اور مصیبت ، اگر مسلمانوں پر خدانخواستہ کوئی مصیبت نازل ہو مثلاً دشمن کا خوف ہو'قحط ہو' خشک سالی ہو' وباء ہو' طاعون ہو' یا کوئی اور ضرر ظاہر ہو تو آخری رکعت میں رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد امام آہستہ دعا کرے اور مقتدی بھی آہستہ دعا کریں یا امام جہری نماز میں جہراً دعا کرے اور مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہیں اور مسلمان اس وقت تک نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتے رہیں جب تک اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے اس مصیبت کو دور نہ کردے۔
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء مالکیہ کا مؤقف ونظریہ
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی القرطبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛۔
امام مالک کا مختار یہ ہے کہ رکوع سے پہلے قنوت نازلہ پڑھے اور یہی اسحاق کا قول ہے اور امام مالک سے ایک روایت یہ ہے کہ رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھے'خلفاء اربعہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ' صحابہ کی ایک جماعت سے یہ روایت ہے کہ اس میں پڑھنے والے کو اختیار ہے ' اور امام دارقطنی نے سند صحیح کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھتے رہے حتیٰ کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔
الجامع للحکام القرآن للقرطبی ۔ جلد ۵ ص ۳۰۹/۳۱۰ تحت تفسير آل عمران آيتان ۱۲۸/۱۲۹ طباعت موسسته الرساله بيروت
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء شافعیہ کا نظریہ؛۔
علامہ ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردی شافعی لکھتے ہیں؛۔
مزنی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا جب صبح کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع کے بعد کھڑا ہو تو سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد کھڑا ہوکر یہ دعا پڑھے۔
ترجمہ عربی۔ عربی کے لیئے سکین دیکھیں
اے اللہ ! جن لوگوں کو تونے ہدایت دی ہے مجھے ان میں ہدایت پر برقرار رکھ اور جن کو تو نے عافیت دی ہے مجھے ان میں عافیت سے رکھ اور جن چیزوں کا تو والی ہوچکا ان کا میں میرا والی ہو'اور جوچیزیں مجھے عطا فرمائی ہیں ان میں برکت دے اور میرے لیئے جو شرمقدر کیا ہے اس سے مجھ کو محفوظ رکھ،توقسمت بناتا ہے اور تجھ پر مقسوم نہیں کیا جاتا اور جس کا تو کارساز ہو وہ رسوا نہیں ہوتا' اے ہمارے رب تو برکت والا اور بلند ہے۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے سراٹھانے کے بعد یہ دعا کرتے :۔ اے اللہ ولید بن ولید،سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربعیہ اور مکہ کمزور مسلمانوں کو نجات دے' اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو مضبوط کر' اور ان پر یوسف علیہ السلام کے قحط کے سالوں کی طرح قحط کے سال مقرر کردے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ دعا تو آپ نے صرف ایک ماہ کی تھی جب بیر معونہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر اصحاب شہید کردیئے گئے تھے' تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھی حتیٰ کہ آپ پر یہ آیت نازل ہوئی لیس لک من الامر شئ (آل عمران 128)۔ تو پھر آپ نے یہ دعا ترک کردی' اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے لوگوں کا نام لے کر دعا کرنا ترک کردیا تھا' اور صبح کے علاوہ باقی چار نمازوں میں دعا کرنے کو ترک کردیا تھا' اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو بلا لیا' رہا حضرت ابن عمر کا یہ کہنا کہ قنوت بدعت ہے اسکا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ساتھ قنوت کرتے تھے لیکن وہ بھول گئے' اور باقی نمازوں کو صبح کی نماز پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ صبح کی نماز کئی احکام میں باقی نمازوں سے مختلف ہے ۔ اس کی آذان وقت سے پہلے دی جاتی ہے اور اس میں تثویب کی جاتی ہے ۔
الحاوی الکبیر جلد ۲ ص ۱۹۷ تا ۱۹۹ ط. دارالفکر بيروت
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء حنبلیہ کا نظریہ
وتر کے سوا اور کسی نماز میں قنوت پڑھنا درست نہیں ہے' صبح کی نماز میں نہ اور کسی نماز میں ' ہماری دلیل یہ ہے کہ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک عرب کے بعض قبیلوں کے لیے دعاء ضرر کرتے رہے پھر آپ نے اسکو ترک کردیا' اور امام ترمذی نے تصحیح سند کے ساتھ ابومالک سے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اقتداء میں کوفہ میں پانچ سال نمازیں پڑھیں کیا یہ لوگ قنوت کرتے تھے؟ انہوں نے کہا اے بیٹے یہ بدعت ہے' امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے ' ابراہیم نخعی نے کہا سب سے پہلے جس نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی وہ حضرت علی تھے' کیونکہ وہ جنگ میں مشغول رہے اور اپنے دشمنوں کے خلاف صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے تھے، امام سعید نے اپنی سنن میں ثعبی سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت علی نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی تو لوگوں نے اس پر تعجب کیا' حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا؛ ہم اپنے دشمنوں کے خلاف مدد طلب کررہے ہیں' اور امام سعید نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں اسی وقت قنوت پڑھتے تھے جب آپ کسی قوم کے لیئے رحمت کی یا کسی قوم کے لیئے ہلاکت کی دعافرماتے تھے۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تاحیات صبح کی نماز میں قنوت کرتے رہے اس سے مراد طویل قیام ہے۔ کیونکہ طولِ قیام کو بھی قنوت کہتےہیں' اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو قنوت مروی ہے اس سے مراد مصائب کے وقت قنوت پڑھنا ہے کیونکہ اکثر روایات میں ہے کہ حضرت عمر قنوت نہیں پڑھتے تھے ۔ اور امام احمد بن حنبل نے یہ تصریح کی ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو امام کے لیئے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
حوالہ جات کے لیئے دو ایڈیشنز کا سکین دیکیھے اس کے علاوہ، المغنی جلد 1 ص 449/50 ملحضاً مطبوعہ دارالفکر بیروت بھی چیک کریں۔
عکسِ مخطوطہ المغنی ، کنگ سعود یونیورسٹی ریاض
قنوت نازلہ کے بارے میں فقہاء احناف کا نظریہ
شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی حنفی لکھتے ہیں؛۔
امام محمد نے فرمایا وتر کے سوا کسی نماز میں ہمارے نزدیک قنوت نہیں پڑھی جائے گی۔
حوالہ المبسوط جلد 1 ص 165 مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت
علامہ ابوالحسن علی ابن ابی بکر المرغینانی الحنفی لکھتے ہیں؛۔
قنوت (نازلہ) اجتہادی مسئلہ ہے 'امام ابوحنیفہ اور امام محمد فرماتےہیں کہ یہ منسوخ ہوچکا ہے۔
حوالہ۔ ھدایہ اولین ص 145 مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
متاخرین احناف نے مصائب کے وقت قنوت نازلہ پڑھنے کو جائز کہا ہے ' علامہ کمال الدین ابن ھمام رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
قنوت نازلہ پڑھنا دائمی شریعت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قنوت نازلہ کو ترک کردیا تھا اسکی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے لیس لک من الامر شئ (آل عمران 128) نازل فرما کر آپ کو روک دیا تھا اور بعد میں مسلمانوں پر کوئی آفت نہیں آئی۔ بعد میں جن صحابہ کرام نے قنوت نازلہ نہیں پڑھی اسکی بھی یہی وجہ تھی اور بعض صحابہ نے حالتِ جنگ میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے اس وجہ سے جنگ میں قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
حوالہ شرح فتح القدیر ، امام کمال الدین محمد بن عبدالواحد المعروف بابن الھمام الحنفی، ص 446 دارالکتب العلمیہ بیروت ، و جلد 1 ص 379 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر پاکستان
علامہ حسن بن عمار شرنبلانی حنفی فرماتے ہیں؛۔
مصیبت کے وقت قنوت (نازلہ) پڑھنا دائمی شریعت ہے اور یہی ہمارا اور جمہور کا مذہب ہے۔
والہ۔ مراقی الفلاح ص 487 مطبوعہ مصطفیٰ البابی واولادہ مصر
علامہ امام سید محمد امین ابن عابدین الشامی الحنفی لکھتےہیں:۔
البحر الرقائق اور دیگر کتب فقہ میں ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو تو امام جہری نمازوں میں قنوت پڑھے، الاشباہ اور شرح المنیۃ میں لکھا ہے کہ مصیبت کے وقت قنوت پڑھنا دائمی شریعت ہے' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے قنوت پڑھی ہے اور یہی ہمارا اور جمہور کا مذہب ہے ' امام ابوجعفر الطحاوی نے کہا کہ مصیبت کے وقت صرف صبح کی نماز میں قنوت پڑھے اور تمام نمازوں میں قنوت پڑھنا صرف امام شافعی کا قول ہے ' صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عشاء کی نمازوں میں قنوت پڑھی اور صحیح بخاری میں ہے کہ آپ نے مغرب کی نماز میں قنوت پڑھی، یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ اس عمل پر اتنی مواظبت نہیں ہے جتنی فجر کی نماز میں قنوت پڑھنے پر تکرار اور مواظبت ہے' اس عبارت میں یہ تصریح ہے کہ ہمارے نزدیک قنوت صرف فجر کی نماز کے ساتھ مخصوص ہے'فقہاء نے یہ قید لگائی ہے کہ فجر کی نماز میں امام قنوت پڑھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ مقتدی قنوت نہ پڑھے' رہا یہ کہ قنوت رکوع سے پہلے پڑھے یا بعد۔ اس مسئلہ میں میرے نزدیک ظاہر یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی اتباع کرے (اگروہ سراً قنوت پڑھے) ہاں اگر امام جہراً قنوت پڑھے تو ، مقتدی آمین کہے، اور رکوع کے بعد قنوت پڑھے کیونکہ اسی طرح حدیث میں ہے، میں نے علامہ شرنبلانی کی مراقی الفلاح میں دیکھا ہے کہ رکوع کے بعد قنوت پڑھے اور علامہ حموی نے یہ کہا ہے کہ ظاہر یہ ہے کہ رکوع سے پہلے پڑھے اور زیادہ ظاہر وہ ہے جو ہم نے کہا ہے (یعنی رکوع کےبعد قنوت پڑھے)
(رد المحتار جلد 1 ص 451 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔
غیر مقلدین کے مشہور عالم عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں؛۔
پانچوں نمازوں میں ہمیشہ دعا قنوت پڑھنا بدعت ہے 'البتہ فجر کی نماز میں بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ حدیث میں جب ضعف تھوڑا ہو تو فضائل اعمال میں معتبر ہے ہاں ضروری سمجھنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ حدیث میں ضعف ہے۔
حوالہ فتاویٰ اہلحدیث جلد 2 ص 293، ادارہ احیا السنۃ النبویۃ، سرگودھا پاکستان
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صبح کی نماز میں قنوت پڑھنے کا ذکر ہے جیسا کہ ہم باحوالہ بتا چکے ہیں، اللہ جانے محدث روپڑی نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیثوں کو ضعیف کیسے کہہ دیا' ان حدیثوں کے منسوخ یا غیرمنسوخ ہونے کی بحث کی گئی ہے ان کو ضعیف کسی نے نہیں کہا۔
نیز روپڑی نے اسی فتاویٰ میں تحریر کیا ہے کہ
مقتدیوں کا دعا قنوت میں آمین کہنا ابوداؤد میں موجود ہے ۔ مگر یہ عام دعاء قنوت کے متعلق ہے وتروں کی خصوصیت نہیں آئی۔ از فتاویٰ۔
اصحاب بیر معونہ کی شہادت کا بیان
امام محمد بن سعد روایت کرتے ہیں
ابوبراء عامر بن مالک بن جعفر کلابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا۔ آپ نے اسکا ہدیہ قبول نہیں کیا اور اس پر اسلام پیش کیا وہ مسلمان نہیں ہوا اور اسلام سے بیزار بھی نہیں ہوا اور کہنے لگا۔ یا محمد! کاش آپ صحابہ کو اہل نجد کے پاس بھیج دیں مجھے امید ہے کہ وہ دعوتِ اسلام کو قبول کرلیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ نجدی' صحابہ کو ہلاک کردیں گے' عامر نے کہا میں ضامن ہوں انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے ساتھ ستر قاری بھیج دیئے۔ یہ لوگ رات بھر نفل پڑھتے تھے ۔ صبح کو لکڑیاں اور پانی تلاش کرکے یہاں لاتے اور سرکار کے حجرہ میں پہنچا دیتے۔ آپ نے ان ستر قاریوں پر منذر بن عمرو کو امیر بنایا ان سب کو روانہ کردیا۔ جب یہ لوگ بیر معونہ پہنچے تو انہوں نے حرام بن ملحان کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب دے کر دشمن خدا عامر بن طفیل کے پاس بھیجا، جب وہ اسکے پاس گئے تو اس نے خط دیکھے بغیر ان پر حملہ کرکے ان کو شہید کردیا' پھر عصیہ ' ذکوان اور رعل کے قبائل مل کر ان ستر قاریوں پر حملہ آور ہوئے اور یہ تمام قراء ان سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ سوا کعب بن زید کے ان میں کچھ رمق حیات باقی تھی۔ اس لیئے نجدیوں نے انہیں چھوڑ دیا وہ بعد میں زندہ رہے اور غزوہء خندق میں شہید ہوگئے ۔
الطبقات الکبریٰ جلد 2 ص 51 مطبوعہ بیروت
علامہ بدر الدین عینی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ عمدۃ القاری جلد 7 ص 18 تا 19 مطبوعہ بیروت
یہ واقعہ غزوہ احد کے چارماہ بعد صفر 4 ہجری میں پیش آیا (عمدۃ القاری ج 7 ص 18)۔
علم رسالت پر اعتراض کا جواب
بعض اہل تنقیص کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب حاصل ہوتا تو آپ عامر کے مطالبہ پر ستر صحابہ کو نجد نہ بھیجتے اور اگر باوجود علم کے آپ نے ان کو بھیجا تا آپ پر العیاذ باللہ الزام آئے گا کہ آپ نے جان بوجھ کر انہیں موت کی طرف دھکیل دیا؟
جواب؛
اسکا ایک جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل نجد کی اسلام دشمنی کا علم تھا تبھی آپ نے فرمایا تھا انی اخشی علیھم اھل نجد (مجھے اندیشہ ہے کہ نجدی، صحابہ کو ہلاک کردیں گے) اور باوجود اسکے کہ آپ کو ان کی شہادت کا علم تھا۔ آپ نے اہل نجد کے مطالبہ تبلیغ پر انہیں نجد بھیج دیا تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم نے تو قبول اسلام کے لیئے تیرے نبی سے مبلغ مانگے تھے اس نے نہیں بھیجے، نیز آپ نے یہ تعلیم دی کہ جان کے خوف سے تبلیغ سے نہیں رکنا چاہیئے، اگر جان کے خوف سے تبلیغِ دین چھوڑنا جائز ہوتا تو جہاد اصلاً مشروع نہیں ہوتا کیونکہ اس بات کا ہرشخص کو یقین ہوتا ہے کہ جہاد میں کچھ نہ کچھ مسلمان یقیناً شہید ہوجائیں گے اور جان کے خوف سے جہاد نہ کرنا نہ مردانگی ہے نہ مسلمانی! نیز جو موت شہادت کی صورت میں حاصل ہو وہ ایسی عظیم نعمت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے' میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیاجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا علم تدریجی ہے اگر اس وقت علم نہیں تھا تو بعد میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا۔