Post by Mohammed Aarif Waghoo on Nov 9, 2015 9:47:52 GMT 5.5
Another Reference:
Al-Sunan al Warda fil Fitn wa Awabalha wa Sa'ata washrataha - Abi Umro Usman bin Sa'eed al Maqrai - [d 444 hijri] . Vol 1 Pp 180 - Pub; Dar alaasmata Riyadh Ksa
Imam Shams-ud-deen Muhammad bin Ahmed Zahbi in Ser-alaa'm al Nubula, Vol 2 Pp 365 - Mosisatal Risalata Beirut
حضرت شیخ عبدالحق محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی وہی عقیدہء سلف الصالحین ہے اور ہمارے لیئے اکابرین کا وہی عقیدہ ہے جو ہم سنی حنفی صوفیوں کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں اور اس کتاب مدارج النبوت جلد 1 میں آپ نے انتہائی تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ پر ذکر کیا ہے۔
Famous Sheikh al Hadith of all times, Hazrat Sheikh Abdul-Haq Muhadith Dehlawi (rta) who is among the Akabareen of Ahlu Sunnat Wa Jamat in Indo-Pak, has also presented the same aqeeda of Ilm - al - Ghaib (Knowledge of the Unseen) for Prophet alehisalam, by the grace of Almighty Allah, the same aqeeda which We Ahlu Sunnat Wa Jamat Hanafi Sunni Sufis are having. He has written a comprehensive chapter on this issue in his Madarij al-Nabuwat (vol 1) Pp 365 , onwards.
Sahih Sharah Aqeeda at-Tahawi - Sheikh Hasan bin Ali Saqaaf -Daral Imam al Rawaas - Beirut . Presenting Aqeeda of Salaf on Ilm al Ghaib for Rasul Allah alehisalatowasalam by the Grace of Almighty Allah.
Prophetic Knowledge of Unseen from Allah , Proves and references from Sahih Muslim Sharif, and Sunan Abu Dawuod Sharif Published by Wahhabi Darusalam Publications. And their Urdu Translations.
Al Anwar Fil Shamail-n-Nabi-AL-MUKHTAAR
Writer: Imam al-Muhadith Hussain bin Mas'ood al-Baghawi (rd) - Hashiya of - Allama Sheikh Ibrahim al Ya'qoobi Vol 1, Pp 80, Hadith Number 87. Status of Hadith Sahih.
امام ملا جامي رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
ترجمہ؛۔
بعد ازاں جب حضرت یعلی بن منبہ رضی اللہ عنہ جنگ ِ موتہ کے متعلق خبریں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اے یعلیٰ! میں تجھے حالات و واقعات کی اطلاع دوں یا تُو مجھے مطلع کرے ۔؟ حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمائیئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام حالات و واقعات سنائے تو حضرت یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کی؛ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قسم ہے اس پروردگار کی جس نے آپ کو صادق ومصدوق بنا کر بھیجا۔ آپ نے اس کی قوم کے متعلق ایک ایک حرف درست بتایا ہے۔ پھر رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ موتہ میری نظروں کے سامنے کردی یہاں تک کہ میں نے جنگ کے تمام حالات وواقعات کا مشاہدہ کرلیا۔اختتام۔
یعنی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کی عطا سے علم غیب کے ذریعے ان واقعات سے باخبر ہوگئے جو کہ ہزاروں میل دور ہورہے تھے۔ یعنی اللہ کی عطا سے آپ کو علم غیب حاصل ہے۔
پښتو:.
امام ملا جامي لوستونکئ دے چه بعد ازان چه کله حضرت يعلي بن منبه رضي الله عنه ده جنګ موئته تربابتَ نبي عليه السلام لره خبرونه ورسولو له راغلو او په خدمت کښ ده سردارِ کل جهان کښ حاضر شو نو نبي عليه السلام ورته وفرمائيل چه اے يعلي، ځه به لتانه واقعات واؤرم او که ستا ته خپله وئيم؟ حضرت يعلي عرض وکړ چه اے ده الله نبي عليه السلام تاسو وفرمائيئ، نو نبي عليه السلام ورته تمام تر واقعات چه په جنګ کښ پيښ راغلې وو ووئيل، په دې حضرت يعلي رضي الله عنه عرضګزار شو چه يارسول الله صلي الله عليه وسلم قسم م په هغه پروردګار وې چه چا تاسو صادق او مصدوق مبعوث کړئ يو، تاسو ده هغو ده قام ترحقله هر يو ټکئ بالکل درست بيان کړ، بيا رسول الله عليه السلام فرمائيل چه الله تعالي ما لره ده موته زمکه ده سترګو مخامخ کړه تر هغه پورئ چه ما تمام واقعات او حالات وکتل يعني مشاهده کړل.
يعني معلومَ دا شوه چه نبي عليه السلام له الله پاک علم الغيب عطا کړئ وو او دې له پاره دے تا علم غيبِ عطائي وئيلے کيږي چه نن سبا ديوبند او وهابيان تر منکران دې
حوالہ جات؛۔
مخطوطہ شواهد النبوة لتقوية يقين أهل الغفوة۔المؤلف: عبدالرحمن بن احمد بن محمد الجعي نورالدین عبدالرحمٰن (المعروف) مُلا جامی رحمتہ اللہ علیہ ۔ فارسی۔ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض۔رقم العام ۳۱۸۸، تاريخ نسخ ۱۰۴۳هجري
شواھد النبوۃ در لسانِ فارسی صفہائے یکسدوپنج ۱۰۵ ايران
شواھد النبوۃ ، ملا جامی ،پاکستان ايډيشن ص ۱۶۲
حضرت امام ملا جامی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف شواھد النبوت میں تحریر فرماتے ہیں کہ؛۔
ترجمہ؛۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرچیز کا علم ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ "اسی غزوہ کے موقع پر بعض جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی۔ منافقوں میں سے ایک منافق کہنے لگا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیغمبر ہونے پر گمان ہے وہ تمہیں آسمان کی غیبی خبریں دیتا ہے اور حالت یہ ہے کہ اپنی اونٹنی کا کچھ پتہ نہیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکی اس ہرزہ سرائی پر مطلع کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کی اطلاع دے رکھی ہے ابھی ابھی مجھے مطلع کیا گیا ہے کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے اور اسکی مہار فلاں درخت سے اٹکی ہوئی ہے۔ صحابہ کرام وہاں گئے تو اونٹنی اسی حال میں پائی جس حال میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آگاہ کیا تھا۔ (اختتام)۔
پښتو؛.
امام ملا جامي رحمته الله عليه مزيد ليکلي دې چه
هم په دې غزوه کښ په بعض ځينو ک ستاسو اوخ ورک شو، په منافقانو کښ يو منافق وئيل شروع کړل چه محمد صلي الله عليه وسلم په خپل پيغمبرئ ګمان کړې اچه هغه لره ده غيب خبرئ معلومِ وې او حالت ائ دا دے چه خپل ده اوخ نه خبر نه دئ چه څه شو. کله نبي عليه السلام ته دا خبرئ ورورسيدئ نو تاسو عليه السلام په جواب ک وفرمائيل، ځه ده الله ترمخه هرڅه نه خبر يم ، او اوس اي ځه خبر کړم چه ستا اوخ په پلانکې ځائ کښ پلانکې وونې په څنګه ولاړ دئ. چه کله صحابه کرام ورغلل نو هغه اوخ يئ هم هغه حال کي وکاندو چه په څه کښ نبي عليه السلام خبر ورکړئ وو.
يعني دوه خبرئ معلوم شوے چه يو خو چه دا ده منافقين علامِ دې چه هغه ده نبي عليه السلام په علم غيب باندي شکوک وشبهات لرل يعني دا ده کفار او مشرکين او ده منافق نښه ده چه هغه به نبي له پاره علم غيب نه مني لکه چه تبليغيان او وهابيان، او دويئمه خبره دا معلومه شوه چه نبي عليه السلام ده الله ده عطا ترمخه هرڅه نه باخبر دئ او هم دې ته علم غيب وئيلے کيږي
حوالہ جات؛۔ المؤلف: عبدالرحمن بن احمد بن محمد الجعي ص ۸۹
کتاب شواهد النبوت درفارسي ص ۱۱۱
پاکستاني ايډيشن ص ۱۷۰
ا۔ اول تو یہ کہ اہلسنت وجماعت صوفیاء بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے کل علم غیب کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اللہ کی عطا سے اسقدر علم غیب کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے۔ لہٰذا دیوبندیوں کا پہلا اعتراض انہی کی کتاب سے غلط ثابت ہورہا ہے
۲۔ پتہ یہ چلا کہ مادہ پرست اور کفار ہی انبیاء کے ایسے علم کا تمسخر اڑاتے ہیں اور یہی کام دیوبندی وہابی کرتے ہیں کہ نبی کے علم کا انکار کرتےہیں۔
۳۔ یعنی دیوبندی مولوی بدرعالم میرٹھی لکھ رہے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کو علم ِ غیب ہوتا ہے، ہم سے زیادہ ہوتا ہے اور ان کا مشاہدہ انہیں ہوا ہوتا ہے اور جو اس پر ایمان نہ رکھے یعنی ایمان بالغیب وہ اسلام سے باہر۔
لہٰذا دیوبندی خود اپنی کتاب سے غلط اور ہم سنی حنفی بریلوی درست ثابت ہورہے ہیں
ترجمان القرآن جلد ۲ ص ۲ اداره اسلاميات لاهور
وہابی دیوبندی اعتراضات اور حنفی صوفی جوابات
پہلا اعتراض
علم غیب خدا کی صفت ہے اس میں کسی کو شریک کرنا شرک فی الصفت ہے لہٰذا حضور علیہ السلام کے لیئے علم غیب ماننا شرک ہوا
جواب
غیب جاننا بھی خدا کی صفت ہے حاضر چیزوں کا جاننا بھی خدا کی صفت ہے۔ عالم الغیب والشہادۃ اسی طرح سننا دیکھنا زندہ ہونا سب خدا کی صفت ہیں۔ تو اگر کسی کو حاضر چیز کا علم مانا یا کسی کو سمیع یا بصیر یا حی مانا ہرطرح مشرک ہوا۔ فرق یہ ہی کیا جاتا ہے کہ ہمارا دیکھنا سننا زندہ رہنا خدا کے دینے سے ہے اور حادث ہے۔ خدا کی یہ صفات ذاتی اور قدیم، تو پھر شرک کیسا؟ اسی طرح علم غیب ء نبی ، عطائی اور حادث اور متناہی ہے۔ رب کو علم ذاتی قدیم اور کل معلومات غیرمتناہیہ کا ہے۔ نیز یہ شرک تو تم پر لازم ہے۔ کیونکہ تم حضور علیہ السلام کے لیئے علم غیب مانتے ہو بعض ہی کا سہی۔ اور خدا کی صفت میں کلاً و بعضاً ہرطرح شریک کرنا شرک ہے۔ نیز مولوی حسین علی واں پھجروالے جو مولوی رشید احمد کے خاص شاگرد ہیں۔ اپنی کتاب بلغۃ الحیران زیر آیت یعلم مستقرھا ومستودعھا کل فی کتب مبین پارہ 12 سورہ 11 آیت نمبر 6) میں لکھتے ہیں کہ خدا کو ہروقت مخلوقات کے اعمال کا علم نہیں ہوتا۔ بلکہ بندے جب اعمال کرلیتے ہیں تب علم ہوتا ہے۔ اب تو علم ء غیب خدا کی صفت رہی ہی نہیں۔ پھر کسی کو علم غیب ماننا شرک کیوں ہوگا؟
اعتراض؛ فتاوی قاضی خان میں ہے
رجل تزوج بغیر شھود فقال الرجل والمرءۃ خدا و رسول راہ گواہ کردیم قالو! یکون کفرا لانہ اعتقد ان رسول اللہ علیہ السلام یعلم الغیب وھو ماکان یعلم الغیب حین کان فی الحیوۃ فکیف بعد الموت
ترجمہ؛ کسی نے بغیر گواہوں کے نکاح کیا تو مرد اور عورت نے کہا کہ ہم نے خدا اور رسول کو گواہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ قول کفر ہے کیونکہ اس نے اعتقاد کیا کہ رسول اللہ علیہ السلام غیب جانتے ہیں حالانکہ آپ تو غیب زندگی میں نہ جانتے تھے چہ جائیکہ موت کے بعد۔
حوالہ فتاوی قاضی خان جلد ۴ ص ۸۸۳ مطبوعہ نولکشور ہند
اعتراض 2۔ شرح فقہ اکبر میں امام ملا علی قاری الحنفی نے لکھا ہے
وذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر باعتقاد ان النبی علیہ السلام یعلم الغیب لمعاوضۃ قولہ تعالیٰ قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ
ترجمہ؛۔ حنفیوں نے صراحتہً ذکر کیا ہے کہ یہ اعتقاد کہ نبی علیہ السلام غیب جانتے تھے کفر ہے کیونکہ یہ عقیدہ خدائے پاک کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ فرمادو آسمانوں اور زمین کا غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (بحوالہ شرح فقہ اکبر ۱۸۵ مطبوعہ مصر)۔
ان دونوں عبارتوں سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب ماننا کفر ہے۔
جوابات
ان دونوں عبارتوں کا اجمالی اور الزامی جواب تو یہ ہے کہ مخالفین بھی حضور علیہ السلام کو بعض علم غیب مانتےہیں۔ لہٰذا وہ بھی کافر ہوئے کیونکہ ان عبارتوں میں کل یا بعض کا ذکر تو نہیں بلکہ یہ ہے کہ جو بھی حضور علیہ السلام کو علم غیب مانے وہ کافر ہے۔ خواہ ایک کا مانے یا زیادہ کا۔ تو وہ بھی خیر منائیں، مولوی اشرف علی تھانوی نے حفظ الایمان میں بچوں، پاگلوں، اور جانوروں کو بعض علم غیب مانا ہے۔ مولوی خلیل احمد نے براہین قاطعہ میں شیطان اور ملک الموت کو وسیع علم غیب مانا۔ مولوی قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس میں کمال ہی کردیا کہ ساری مخلوقات سے حضور علیہ السلام کا علم زیادہ مانا اب ان تینوں صاحبان پر کیا حکم لگے گا؟
تفصیلی جواب یہ ہے کہ قاضی خان کی عبارت میں ہے (قالوا) لوگوں نے کہا۔ اور قاضی خان وغیرہ فقہاء کی عادت یہ ہے کہ وہ قالوا ۔ اس جگہ بولتے ہیں جہاں ان کو یہ قول پسند نہ ہو۔ شامی جلد پنجم صفہ ۴۴۵ میں ہے۔
لفظۃ قالوا تذکر فیما فیہ خلاف۔ یعنی ۔ لفظ قالوا ۔ وہاں بولا جاتا ہے جہاں اختلاف ہو۔
غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی بحث قنوت میں ہے
کلام قاضی خان یبشر الی عدم اختیارہ لہ حیث قال قالوا لا یصلی علیہ فی القعدۃ الاخیرۃ ففی قولہ قالوا اشارۃ الی عدم استحسانہ لہ والی انہ غیر مروی عن الائمۃ کما قلناہ فان ذلک متعارف فی عباراتھم لمن اسقراھا۔
ترجمہ ؛۔ قاضی خان کا کلام ان کی ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ انہوں نے کہا قالوا ۔۔الخ۔ ان کے قالوا کہنے میں اشارہ ادھر ہے کہ یہ قول پسندیدہ نہیں اور یہ اماموں سے مروی نہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کیونکہ یہ فقہاء کی عبارات میں شائع ہے اس کو معلوم ہے جو ان کی تلاش کرے۔
غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی باب صلوٰۃ الوتر ذکر الجہر القنوت ص ۳۶۳ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ۔
درمختار کتاب النکاح میں ہے۔
تزوج رجل بشھادۃ اللہ ورسولہ یجز بل قیل یکفر۔
ترجمہ؛۔ ایک شخص نے نکاح کیا ۔ اللہ اور رسول کی گواہی سے تو جائز نہیں ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ کافر ہوجائے گا۔
اس عبارت کے ہی ماتحت شامی نے تاتارخانیہ سے نقل کیا ہے۔
وفی الحجۃ ذکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ المغیبات۔۔۔
ترجمہ عربی عبارت؛۔ ملتقط میں ہے کہ وہ کافر نہ ہوگا کیونکہ تمام چیزیں حضور علیہ السلام کی روح پر پیش کی جاتی ہیں اور رسول بعض غیب جانتے ہیں رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب پر کسی کو سوائے پسندیدہ رسول کے میں کہتا ہوں کہ کتب عقائد میں ہے کہ اولیاء اللہ کی کرامات میں سے بعض غیبوں پر مطلع ہونا بھی ہے۔
ردالمحتار،کتاب النکاح قبیل فصل فی المحرمات جلد ۲ صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت۔
شامی باب المرتدین میں مسئلہ بزازیہ ذکر فرما کر فرمایا:۔
حاصلہ ان دعوی الغیب معارضۃ لنص القرآن یکفر بھا الا ازا اسند ذلک صریحاً او دلالۃ الی سبب کوحی او الھام۔
ترجمہ؛ اسکا خلاصہ یہ ہے کہ دعویٰ علم غیب نص قرآنی کے خلاف ہے کہ اس سے کافر ہوگا مگر جبکہ اس کو صراحۃً یا دلالۃً کسی سبب کی طرف نسبت کردے جیسے کہ وحی یا الہام۔
رد المحتار کتاب الجہاد باب المرتد ج ۳ ص ۲۹۷ دارالاحیاء بیروت
معدن الحقائق شرح کنز الدقائق اور خزانۃ الروایات میں ہے۔
وفی المضمرات والصحیح انہ لایکفر لان الانبیاء یعلمون الغیب ویعرض علیھم الاشیاء فلا یکون کفراً
ترجمہ؛۔ مضمرات میں ہے صحیح ہے کہ وہ شخص کافر نہ ہوگا کیونکہ انبیائے کرام غیب جانتے ہیں اور ان پر چیزیں پیش کی جاتی ہیں پس یہ کفر نہ ہوگا۔
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ عقیدہ علم غیب پر فتوے کفر لگانا غلط ہے۔ بلکہ فقہاء کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ حضور علیہ السلام کو علم غیب دیا گیا۔
اب آتے ہیں امام ملا علی قاری کے حوالے کی طرف کہ جن کی عبارت پوری نقل نہیں کی جاتی فرقہ منکرین علم ء غیب برائے رسول کے ہاتھوں۔ اصل عبارت یہ ہے جو مطلب واضح کرتی ہے۔
ثم اعلم ان الانبیآء لم یعلموا المغیبات من الاشیآءوالا ما اعلمھم اللہ وذکر الحنفیۃ تصریحاً بالتکفیر۔ الخ۔
ترجمہ؛۔ پھر جانو کہ انبیائے کرام غیب کی چیزوں کو نہیں جانتے سوائے اس کے جو ان کو اللہ نے بتادیں اور حنفیوں نے کفر کی تصریح کی جو نبی علیہ السلام کو علم غیب جانے۔ الخ۔
شرح فقہ اکبر ص ۱۳۷ طباعت ۱،مصطفي الباني واولاده مصر
اور انتہائی اہم بات یہ ہے اس میں کہ حسب معمول مخالفین نے متن سے بالکل ہٹ کر یہ الزام تھوپا ہے کیونکہ یہ کاھن یا ساحر کے غیب کے دعوے سے متعلق امام ملا علی قاری رحمتہ اللہ الباری کی تحریر چل رہی ہے، اور اسی تناظر میں آپ نے ذاتی علم غیب کے دعوے کا رد فرمایا ہے۔ اس کو بطور دلیل لے کر الزام لگاکر سنیوں صوفیوں پر طعنہ زنی کرنا عین خوارجیت کی علامت ہے۔
اب پورا مطلب معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام کو علم ء غیب ذاتی ماننے کو ملا علی قاری کفر فرما رہے ہیں نہ کہ عطائی۔ کیونکہ عطائی کو تو مان رہے ہیں اور پھر ان کی عبارتیں ہم ثبوتِ علم غیب میں پیش کرچکے ہیں۔ کہ امام ملا علی قاری حضور علیہ السلام کو تمام ماکان و مایکون کا علم مانتے ہیں۔
اسی طرح جتنے بھی دیگر اعتراضات ہوتے ہیں بحرالرقائق یا عالمگیری کے حوالوں سے وہ سب کے سب غلط ہیں کیونکہ وہ تمام عبارات علم الغیب ذاتی کی نفی میں آئی ہیں۔ اور ہم اہلسنت وجماعت اللہ کی عطا سے نبی علیہ السلام کے لیئے علم ء غیب مانتے ہیں جو کہ قرآن کی نص سے ثابت خود مخالفین کی کتابوں سے ہوچکا ہے
بحر الرائق اور عالمگیری کی عبارات جو مخالفین علم غیبِ نبوی کی نفی میں پیش کرتے ہیں ان کا مدلل جواب
بحرالرائق اور عالمگیری میں جو فتوے دیئے گئے ہیں وہ اس صورت پر محمول ہوں گے کہ جب کوئی ذاتی علم غیب کا عقیدہ رکھے۔ دیکھیے جامع الفصولین میں ہے۔
یجاب بانہ یمکن التوفیق بان المنفی ھو العلم بالاستقلال لاالعلم بالاعلام او المنفی ھو المجزوم بہ لا المظنون و یؤیدہ قولہ تعالیٰ اتجعل فیھا من یفسد فیھا الاٰیۃ لانہ غیب اخبر بہ الملٰئکۃ ظنا منھم او باعلام الحق فینبغی ان یکفر لو ادعاہ مستقلاً لا لو اخبر بہ باعلام فی نومہ او یقظتہ بنوع من الکشف اذ لا منافاۃ بینہ وبین الاٰیۃ لما مرمن التوفیق۔
ترجمہ؛۔ (یعنی فقہاء نے دعویٰ علم غیب پر حکم کفر کیا اور حدیثوں اور ائمہ ثقات کی کتابوں میں بہت غیب کی خبریں موجود ہیں جن کا انکار نہیں ہوسکتا) اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں تطبیق ہوں، ہوسکتی ہے۔کہ فقہاء نے اس کی نفی کی ہے کہ کسی کے لیئے بذاتِ خود علم غیب مانا جائے خدا کے بتائے سے علم غیب کی نفی نہ کی یا نفی قطعی کی ہے نہ ظنی کی اور اسکی تائید یہ آیت کریمہ کرتی ہے فرشتوں نے عرض کی، کیا تو زمین میں ایسوں کو خلیفہ کرے گا جو اس میں فساد وخونریزی کریں گے، ملائکہ غیب کی خبر بولے مگر ظناً یا خدا کے بتائے سے تو تکفیر اس پر چاہئے کہ کوئی بے خدا کے بتائے علم غیب ملنے کا دعویٰ کرے نہ یوں کہ براہ کشف جاگتے یا سوتے میں خدا کے بتائے سے ایسا علم غیب آیت کے کچھ منافی نہیں۔
جامع الفصولین الفصل الثامن والثلاثون جلد ۲ ص ۳۰۲ مطبوعہ اسلامی کتب خانہ کراچی پاکستان
رد المحتار میں ہے۔
قال فی التتارخانیۃ و فی الحجۃ ذکر فی الملتقط انہ لا یکفر لان الا اشیاء تعرض علی روح النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ان الرسل یعرفون بعض الغیب قال اللہ تعالیٰ عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا الا من ارتضیٰ من رسولہ، قلت بل ذکروا فی کتب العقائد ان من جملۃ کرامات الاولیاء الاطلاع علی بعض المغیبات وردوا علی المعتزلۃ المستدلین بھذہ الاٰیۃ علی نفیھا۔
ترجمہ؛۔
تاتارخانیہ میں ہے کہ فتاویٰ حجہ میں ہے ملتقط میں فرمایا کہ جس نے اللہ و رسول کو گوہ کرکے نکاح کیا کافر نہ ہوگا اسلیئے کہ اشیاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پر عرض کی جاتی ہیں اور بے شک رسولوں کو بعض علم غیب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کو۔ علامہ شامی نے فرمایا کہ بلکہ ائمہ اہل سنت نے کتب عقائد میں فرمایا کہ بعض غیبوں کا علم ہونا اولیاء کی کرامت سے ہے اور معتزلہ نے اس آیت کو اولیاء کرام سے اس کی نفی پر دلیل قرار دیا ہے ہمارے ائمہ نے اسکا رد کیا یعنی ثابت فرمایا کہ آیہء کریمہ اولیاء سے بھی مطلقاً علم غیب کی نفی نہیں فرماتی۔
رد المحتار کتاب النکاح قبیل فصل فی المحرمات جلد ۲ ص ۲۷۶ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت
اگر بحرالرائق کی عبارت کی تاویل نہ کی جائے تو یہ سب علماء (جن کی عبارتیں پہلے نقل ہوچکی ہیں) تکفیر کی زد میں آتے ہیں اور بحرالرائق کی اس عبارت میں مطلق علم غیب کا اعتقاد رکھنے پر کفر کا فتویٰ ہے جزی علم غیب کوئی مانے یا کلی ہرصورت میں اسکی تکفیر کی گئی ہے اور مجلس نکاح میں تو جزی واقعہ ہے تو جو اس میں گواہ مان رہا ہے وہ بعض علم غیب ہی ثابت کررہا ہے علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ درمختار کے کفر والے قول کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛۔
ان الرسل یعرفون بعض الغیب
تو اس سے ظاہر ہوا کہ فقہاء کرام رحمہم اللہ کا فتویٰ کفر مطلق تھا بعض علم غیب کا مدعی بھی اس کی زد میں تھا اور کلی کا بھی۔ کیونکہ اگر فقہاء کرام کلی علم ء غیب جاننے کے معتقد کی تکفیر کرتے اور بعض علم غیب کے مدعی کو مسلمان جانتے تو علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ ان الرسل یعرفون بعض الغیب۔ کہہ کر ان کی تکفیر کو رد نہ کرتے۔ اب فقہاء کرام کے فتویٰ کی زد میں تمام دیوبندی بھی آجائیں گے۔ خصوصاً گکھڑوی صاحب جو کہ لکھتے ہیں۔ کہ حضور علیہ السلام کو بعض علوم کا عطا ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے اور کوئی مسلمان اس کا منکر نہیں۔ (تنقید المتین ص ۱۹۷)۔
بحرالرائق و درمختار میں عبارت مطلق ہے لہٰذا ان عبارت کی رو سے گگھڑوی صاحب کی بھی تکفیر ہوجائے گی۔ گگھڑوی صاحب اگر بعض علم غیب تسلیم کریں تو بحرالرائق کی عبارت کی رو سے کافر بنتے ہیں اور اگر بعض کا انکار کریں تو اپنی تنقید متن والی عبارت کی روشنی میں کافر بنتے ہیں۔