Post by Mohammed Aarif Waghoo on Nov 10, 2015 9:32:37 GMT 5.5
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا
)
آج اس پرفتن اور پر آشوب دور میں نہ جانے لوگوں نے کیسے کیسے مسئلے اور عقیدے گڑھنے شروع کر دئیے ہیں، جس کا تعلق در حقیقت کسی دور سے نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ جسم پاک مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق عہد صحابہ کرام سے لیکر آخر تک مضبوط، مربوط اور مسلسل شہادتیں موجود ہیں جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اسلاف کرام کے عقائد اس سلسلے میں کیا تھے۔ لٰہذا ہم سب کو بھی چاہئیے کہ ذہن و فکر کی اس جدید پیداوار کی طرف نہ جائیں اور اپنے اسلاف کی اصابت روائے پر ہی عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں بھلائی اور ہماری، آپ سب کی کامیابی ہے۔
اب آئیے ہم نمونے کے طور پر چند احادیث اس دعوے کے ثبوت کے لئے کہ سرکار کے جسم پاک کا سایہ نہ ہونے کا عقیدہ محض بےبنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں روایات و احادیث کی تہہ میں موجود ہیں، جن پر شروع سے صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کا عمل رہا ہے۔ (حدیث1)حضرت سیدنا عبداللہ ابن مبارک اور حافظ جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں :
لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم لقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا ولا مع السراج الا غلب ضوءہ ضوءہ۔
سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم پاک کا سایہ نہیں تھا نہ سورج کی دھوپ میں نہ چراغ کی روشنی میں، سرکار کا نور سورج اور چراغ کے نور پر غالب رہتا تھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج1، صفحہ68 از نفی الظل، علامہ کاظمی زرقانی علی المواہب ج4 صفحہ 220، جمع الوسائل للقاری ج1 صفحہ 176)
(حدیث2) امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں : عن ذکوان ان رسول اللہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر
سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاندنی میں۔ (المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیہ صفحہ30 مطبع مصر)
(حدیث3) امام نسفی تفسیر مدارک شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ ما اوقطع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذالک الظل۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ خدا عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔ (مدارک شریف ج2 صفحہ 103)
(حدیث4) حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خصائص کبرٰی شریف میں ابن سبع سے یہ روایت نقل فرمائی:
قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لا یقع علی الارض لانہ کان نورا اذا مشی فی الشمس اولقمر لا ینظرلہ ظل قال بعضھم ویشھدلہ حدیث قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ودعائہ فاجعلنی نورا
ابن سبع نے کہا کہ یہ بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ سرکار کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ نور تھے، آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں جب چلتے تھے تو سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ اس واقعہ پر حضور کی وہ حدیث شاہد ہے جس میں حضور کی یہ دعاء منقول ہے کہ پروردگار مجھے نور بنا دے۔ ( خصائص کبرٰی ج1 صفحہ68 )
اس مسئلہ کا ثبوت اسلاف کے اقوال سے
(1) امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “لم یقع ظلہ علی الارض ولا یری لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا قال زرین فغلبہ انوارہ۔“حضور کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں سایہ نظر آتا تھا، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، زریں نے کہا کہ حضور کا نور سب پر غالب تھا۔ (النموذج اللبیب)
(2) وقت کے جلیل القدر امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “وما ذکر من انہ لاظل لشخصہ فی شمس ولا فی قمر لانہ کان نورا وان الذباب کان لا یقع علی جسدہ ولا ثیابہ۔“ یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور نور تھے۔ (شفا شریف لقاضی عیاض ج1، صفحہ 342۔ 343)
(3) امام علامہ احمد قسطلانی ارشاد فرماتے ہیں: “قال لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ابن ذکوان وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورا فکان اذا مشی فی الشمس او القمر لہ ظل۔“ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندی میں، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، اسی لئے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تھے تو جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (موالب اللدنیہ ج1 صفحہ180 زرقانی ج4 صفحہ 220
(4) امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : “ومما یوید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم صار نورا انہ اذا مشی فی الشمس اوالقمر لا یظھر لہ ظل لانہ لا یظھر الا لکشیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم قد خلصہ اللہ تعالٰی من سائر الکشافات الجسمانیہ وصیرہ نورا صرفا لا یظھر لہ ظل اصلا۔“ اس بات کی تائید میں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور پاک کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا، نہ چاندنی میں، اس لئے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے، اور خدائے پاک نے حضور کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انھیں “نور محض“ بنا دیا تھا اس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (افضل القرٰی صفحہ72)
(5) محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: نبود مرآں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم را سایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں۔ (مدراج النبوۃ ج1، صفحہ21)
(6) امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سایہ نبود در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف تراست چوں لطیف ترازدے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم در عالم نباشد اور اسایہ چہ صورت دارد۔“ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے، اور سرکار کی شان یہ ہے کہ کائنات میں ان سے زیادہ کوئی لطیف چیز ہے ہی نہیں، پھر حضور کا سایہ کیونکر پڑتا۔ (مکتوبات امام ربانی ج3 صفحہ147 مطبوعہ نو لکشور لکھنئو۔)
(7) امام راغب اصفہانی (م450) ارشاد فرماتے ہیں: “روی ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کان اذا مشی لم یکن لہ ظل۔“ مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ (المعروف الراغب)
( 8 ) امام العارفین مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:
چوں فناش از فقر پیرایہ شود
او محمد وار بے سایہ شود
جب فقر کی منزل میں درویش فنا کا لباس پہن لیتا ہے، تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرح اس کا بھی سایہ زائل ہو جاتا ہے۔ (مثنوی معنوی دفتر پنجم)
(9) امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “از خصوصیاتے کہ آن حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رادر بدن مبارکش دادہ بودن کہ سایئہ ایشاں برز میں نہ می افتاد۔“ جو خصوصیتیں نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک میں عطا کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔
میرے پیارے اسلامی بھائی! اب ان تمام دلائل کی روشنی میں آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے فیصلہ کیجئے کہ جسم کے سایہ کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہونا چاہئیے ؟ مذید اگر اس سے تفصیل میں جانا چاہتے ہیں تو اعلٰی حضرت اہلسنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس مسئلہ پر مبسوط بحث فرمائی ہے۔ “جو قمر التمام فی نفی الفی والظل عن سیدالانام“ اور “نفی انفی عمن بتورہ اناء کل شئی۔“ کے نام سے رسالے کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کا مطالعہ کیجئے جس میں انھوں نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ حضور کے سایہ نہ ہونے کا عقیدہ عوام کا اختراع نہیں ہے بلکہ حدیث اور سلف صالحین سے ثابت ہے۔ جس کی ایک مختصر جھلک میں نے پیش کی۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے
)
آج اس پرفتن اور پر آشوب دور میں نہ جانے لوگوں نے کیسے کیسے مسئلے اور عقیدے گڑھنے شروع کر دئیے ہیں، جس کا تعلق در حقیقت کسی دور سے نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ جسم پاک مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا سایہ نہ ہونے کے متعلق عہد صحابہ کرام سے لیکر آخر تک مضبوط، مربوط اور مسلسل شہادتیں موجود ہیں جس سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے اسلاف کرام کے عقائد اس سلسلے میں کیا تھے۔ لٰہذا ہم سب کو بھی چاہئیے کہ ذہن و فکر کی اس جدید پیداوار کی طرف نہ جائیں اور اپنے اسلاف کی اصابت روائے پر ہی عمل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں بھلائی اور ہماری، آپ سب کی کامیابی ہے۔
اب آئیے ہم نمونے کے طور پر چند احادیث اس دعوے کے ثبوت کے لئے کہ سرکار کے جسم پاک کا سایہ نہ ہونے کا عقیدہ محض بےبنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں روایات و احادیث کی تہہ میں موجود ہیں، جن پر شروع سے صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین کا عمل رہا ہے۔ (حدیث1)حضرت سیدنا عبداللہ ابن مبارک اور حافظ جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں :
لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم لقم مع شمس الا غلب ضوءہ ضوءھا ولا مع السراج الا غلب ضوءہ ضوءہ۔
سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم پاک کا سایہ نہیں تھا نہ سورج کی دھوپ میں نہ چراغ کی روشنی میں، سرکار کا نور سورج اور چراغ کے نور پر غالب رہتا تھا۔ (الخصائص الکبرٰی ج1، صفحہ68 از نفی الظل، علامہ کاظمی زرقانی علی المواہب ج4 صفحہ 220، جمع الوسائل للقاری ج1 صفحہ 176)
(حدیث2) امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی کتاب نوادر الاصول میں حضرت ذکوان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں : عن ذکوان ان رسول اللہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر
سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاندنی میں۔ (المواہب اللدنیہ علی الشمائل المحمدیہ صفحہ30 مطبع مصر)
(حدیث3) امام نسفی تفسیر مدارک شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:
قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ ما اوقطع ظلک علی الارض لئلا یضع انسان قدمہ علی ذالک الظل۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ خدا عزوجل نے آپ کا سایہ زمین پر پڑنے نہیں دیا تاکہ اس پر کسی انسان کا قدم نہ پڑ جائے۔ (مدارک شریف ج2 صفحہ 103)
(حدیث4) حضرت امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خصائص کبرٰی شریف میں ابن سبع سے یہ روایت نقل فرمائی:
قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لا یقع علی الارض لانہ کان نورا اذا مشی فی الشمس اولقمر لا ینظرلہ ظل قال بعضھم ویشھدلہ حدیث قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ودعائہ فاجعلنی نورا
ابن سبع نے کہا کہ یہ بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے کہ سرکار کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ وہ نور تھے، آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں جب چلتے تھے تو سایہ نظر نہیں آتا تھا۔ بعض ائمہ نے کہا ہے کہ اس واقعہ پر حضور کی وہ حدیث شاہد ہے جس میں حضور کی یہ دعاء منقول ہے کہ پروردگار مجھے نور بنا دے۔ ( خصائص کبرٰی ج1 صفحہ68 )
اس مسئلہ کا ثبوت اسلاف کے اقوال سے
(1) امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “لم یقع ظلہ علی الارض ولا یری لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا قال زرین فغلبہ انوارہ۔“حضور کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں سایہ نظر آتا تھا، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، زریں نے کہا کہ حضور کا نور سب پر غالب تھا۔ (النموذج اللبیب)
(2) وقت کے جلیل القدر امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: “وما ذکر من انہ لاظل لشخصہ فی شمس ولا فی قمر لانہ کان نورا وان الذباب کان لا یقع علی جسدہ ولا ثیابہ۔“ یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ آفتاب و ماہتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جسم مبارک کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے حضور نور تھے۔ (شفا شریف لقاضی عیاض ج1، صفحہ 342۔ 343)
(3) امام علامہ احمد قسطلانی ارشاد فرماتے ہیں: “قال لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ابن ذکوان وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورا فکان اذا مشی فی الشمس او القمر لہ ظل۔“ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندی میں، ابن سبع اس کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نور تھے، اسی لئے چاندنی اور دھوپ میں چلتے تھے تو جسم پاک کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (موالب اللدنیہ ج1 صفحہ180 زرقانی ج4 صفحہ 220
(4) امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں : “ومما یوید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم صار نورا انہ اذا مشی فی الشمس اوالقمر لا یظھر لہ ظل لانہ لا یظھر الا لکشیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم قد خلصہ اللہ تعالٰی من سائر الکشافات الجسمانیہ وصیرہ نورا صرفا لا یظھر لہ ظل اصلا۔“ اس بات کی تائید میں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سراپا نور تھے اسی واقعہ کا اظہار کافی ہے کہ حضور پاک کے جسم مبارک کا سایہ نہ دھوپ میں پڑتا تھا، نہ چاندنی میں، اس لئے کہ سایہ کثیف چیز کا ہوتا ہے، اور خدائے پاک نے حضور کو تمام جسمانی کثافتوں سے پاک کرکے انھیں “نور محض“ بنا دیا تھا اس لئے ان کا سایہ نہیں پڑتا تھا۔ (افضل القرٰی صفحہ72)
(5) محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: نبود مرآں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم را سایہ نہ در آفتاب و نہ در قمر۔ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ آفتاب کی روشنی میں پڑتا تھا نہ ماہتاب کی چاندنی میں۔ (مدراج النبوۃ ج1، صفحہ21)
(6) امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سایہ نبود در عالم شہادت سایہ ہر شخص از شخص لطیف تراست چوں لطیف ترازدے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم در عالم نباشد اور اسایہ چہ صورت دارد۔“ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں تھا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم شہادت میں ہر چیز سے اس کا سایہ لطیف ہوتا ہے، اور سرکار کی شان یہ ہے کہ کائنات میں ان سے زیادہ کوئی لطیف چیز ہے ہی نہیں، پھر حضور کا سایہ کیونکر پڑتا۔ (مکتوبات امام ربانی ج3 صفحہ147 مطبوعہ نو لکشور لکھنئو۔)
(7) امام راغب اصفہانی (م450) ارشاد فرماتے ہیں: “روی ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کان اذا مشی لم یکن لہ ظل۔“ مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلتے تو آپ کا سایہ نہ ہوتا تھا۔ (المعروف الراغب)
( 8 ) امام العارفین مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:
چوں فناش از فقر پیرایہ شود
او محمد وار بے سایہ شود
جب فقر کی منزل میں درویش فنا کا لباس پہن لیتا ہے، تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرح اس کا بھی سایہ زائل ہو جاتا ہے۔ (مثنوی معنوی دفتر پنجم)
(9) امام المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “از خصوصیاتے کہ آن حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم رادر بدن مبارکش دادہ بودن کہ سایئہ ایشاں برز میں نہ می افتاد۔“ جو خصوصیتیں نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک میں عطا کی گئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔
میرے پیارے اسلامی بھائی! اب ان تمام دلائل کی روشنی میں آپ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے فیصلہ کیجئے کہ جسم کے سایہ کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہونا چاہئیے ؟ مذید اگر اس سے تفصیل میں جانا چاہتے ہیں تو اعلٰی حضرت اہلسنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس مسئلہ پر مبسوط بحث فرمائی ہے۔ “جو قمر التمام فی نفی الفی والظل عن سیدالانام“ اور “نفی انفی عمن بتورہ اناء کل شئی۔“ کے نام سے رسالے کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کا مطالعہ کیجئے جس میں انھوں نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ حضور کے سایہ نہ ہونے کا عقیدہ عوام کا اختراع نہیں ہے بلکہ حدیث اور سلف صالحین سے ثابت ہے۔ جس کی ایک مختصر جھلک میں نے پیش کی۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے