Post by Mohammed IbRaHim on Jan 14, 2014 6:46:17 GMT 5.5
Ahle hadees/ salafi ke sawalat ke jawabat
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
دین اسلام کی روشنی جب ساری دنیا میں پھیلنے لگی تو اسلام کے دشمنوں نے نے مسلمانوں کے ذہنوں میں شیطانی وسوسے ڈالنا شروع کر دئیے۔
کبھی یہ فتنہ پھیلانا شروع کر دیا کہ تم جو امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحًہ کی تقلید یعنی پیروی کرتے ہو یہ اسلام کے خلاف ہے۔
اس کے بعد یہ کہتے ہیں کہ تم جو ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہو ، تکبیر تحریمہ کے وقت جو تم ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے ہو، آہستہ سے نماز میں آمین کہتے ہو، وتر کی تین رکعتیں پڑھتے ہو، تراویح کی جو بیس رکعتیں پڑھتے ہو، جمعہ کے خطبہ میں جو دو اذانیں دیتے ہو، قبر کے اوپر جو اذان کہتے ہو، نماز کے بعد دعائےثانی کرتے ہو، یہ سب کام اسلام کے خلاف ہیں۔
بھولے بھالے مسلمان ان کی باتوں میں آکر پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آخرکار نام نہاد اہلحدیث بن جاتے ہیں۔
اس لئے ہم نے سوچا کہ اپنے حنفی مسلمان کے ایمان کی پختگی کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں غیر مقلدین کے سوالوں کے جوابات دئیے جائیں کیونکہ جو ڈھنگ غیر مقلدین اہلحدیث نے اپنایا دوسرا سراسرخلاف ہے۔
جو ان کے نقش پہ چلتا ہے وہ کبھی بھٹک نہیں سکتا۔ تبع تابعین میں سے امام اعظم ، امام شافعی، امام احمد، امام مالک علیھم الرضوان نے ساری امت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام علیھم الرضوان کی اقوال کے مطابق دین آسان کر کے سمجھایا اور یہی چار اماموں کی پیاری پیاری باتوں پر لوگ صدیوں سے عمل کرتے ہیں جو انہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں اسی کو تقلید کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ بڑے بڑے محدثین خصوصا امام بخاری، امام مسلم، امام ابن ماجہ، امام ابو داؤد، امام ترمذی، صاحب مشکوٰۃ علیھم الرضوان سب کے سب ایک واسطے سے، دو واسطوں سے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے مقلد ہیں یعنی پیروکار ہیں۔
اگر تقلید کرنا شرک ہوتا تو سارے ک سارے محدث ( معاذ اللہ )مشرک ہوتے اور اگر مھدثین مشرک ہوتے ( معاذ اللہ) تو حدیثوں کا کیا بنتا اور آج جو تم اہل ھدیث کہلاتے ہو وہ کیسے درست ہوتا ؟
اب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے نیک بندوں کا اطاعت یعنی پیروی کے بارے میں اللہ تعالٰی کیا فرماتا ہے۔
یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم۔
“ اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں صاحب امر ہیں۔“ ( النساء 59)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالٰی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ساحب امر کی اطعت کا حم دیا گیا۔
صاحب امر سے مراد علمائے حق ہیں۔ ان کی بھی اطعت کرو تاکہ وہ تمھارے رابطہ اللہ تعالٰی سے کرادیں۔
سورہ لقمان میں تو یہاں تک فرمادیا گیا ہے:
واتبع سبیل من اناب الی۔ ( لقمان: 15)
“ اور اس کی راہ چل جو میری طرف رجوع لایا۔“
اس آیت میں اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو حکم دے رہا ہے کہ ہر شخص کی پیروی یعنی اطاعت کر جو تیرا رابطہ مجھ سے کرا دے۔
اس سے معلوم ہوا کہ تقلید یعنی پیروی کرنا اللہ کا حکم ہے اور منع کرنے والے نادان لوگ ہیں۔
سوال۔2:
کیا ہم جو نماز میان اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے ہیں یہ سنت ہے حالانکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کاندھوں تک اٹھائے جائیں احادیث کی روشنی میں جواب دیں؟
جواب:
ہم جو نماز میں اپنے ہاتھوں کو کونوں تک اٹھاتے ہیں یہی سنت رسول ہے۔
آئیے حدیث سے استفادہ کرتے ہیں۔
حدیث شریف:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ میں نے سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا، آپ نماز کے لئے تکبیر فرماتے تو کانوں کے قریب ہاتھ لے جاتے۔ ( بحوالہ : طحاوی شریف)
حدیث شریف:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار اعظم جب نماز شروع کرنے کے لئے تکبیر فرماتے تھے تو ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں انگوٹھے کانوں کی لو تک ہوتے۔ ( بحوالہ : طحاوی ، ابوداؤد شریف)
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ ہم اہلسنت وجماعت حنفی جو کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھاتے ہیں یہ سنت ہے۔
سوال ۔3:
رفع یدین کیا ہے؟ اور نماز میں رفع یدین کرنا کیسا ہے؟
جواب:
رفع یدین کا مطلب ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کے بعد رکوع میں جاتے وقت ، رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو اٹھانا رفع یدین کہتے ہیں۔
مگر ہم اہلسنت و جماعت حنفی جو صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ اسے سنت مصطفٰی ثابت کرتے ہیں۔
حدیث شریف:
حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سب کو نماز رسول پر پڑھ کر نہ بتا دوں ۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین فرمایا۔ ( بحوالہ: ترمذی شریف از کتاب برہان الصلوٰۃ صفحہ 15)
فائدہ:
تمام راویوں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث پر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اس لئے عمل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود سب سے زیادہ حضور کے قریب تھے اور جب قریب تھے تو حضور کو سب سے زیادہ نماز پڑھتے دیکھا اور وہ فرماتے ہیں کہ:
حضور کو صرف ایک مرتبہ ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
اسی طرح رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ کر دیا گیا۔ یہ حدیث مذکورہ اس بات کی دلیل ہے۔
حدیث شریف:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک شخس کو رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت یدین کرتے دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ “ ایسا نہ کرو کیونکہ رسول اعظم نے رفع یدین کیا۔ پھر چھوڑ دیا۔“ ( عمدۃ القاری شرح بخاری از کتاب : برہان الصلوٰۃ صفحہ 17)
سوال۔ 4:
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا چاہیئے یا خاموش رہنا چاہیئے احادیث کی روشنی میں جواب دیں؟
جواب:
حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار اعظم نے فرمایا امام بنایا ہی اسی لئے جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے۔ پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو جب قرات کرے تو تم خاموش رہو۔ ( مسلم ، ابوداؤد، ابن ماجہ، برہان الصلوٰۃ)
حدیث شریف:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار اعظم نے ارشاد فرمایا ۔ جس کے لئے امام ہو پس بے شک امام کی قراءت مقتدی کی قرات ہے۔ ( بحوالہ : ابن لاجہ، برہان الصلوٰۃ 24)
فائدہ:
ان دونوں حدیثوں کے تحت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا مذہب یہ ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ پڑھے تو مقتدی خاموش رہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ اور دیگر احناف کے نزدیک نماز میں سورہ فاتحہ پرھنا واجب ہے مگر امام کے پیچھے نہیں۔
واذا قرئ القراٰن فاستمعوا لہ وانصتوالعلکم ترحمون۔
“ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔“ ( اعراف: 204)
اس آیت کے نزول ہونے کے بعد امام کے پیچھے مطلقا قرات منع کر دی گئی اور فرمایا گیا خاموش رہو۔
سوال۔5:
نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آمین بلند آواز سے کہنا چاہیئے کہ آہستہ سے۔ حالانکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلند آواز سے کہی جائے احادیث کی روشنی میں جواب دیں؟
جواب:
امام اور مقتدی دونوں کے لئے آہستہ آمین کہنا سنت رسول ہے۔
حدیث شریف:
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ست مروی ہےکہ بے شک سرکار اعظم نے جب “ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین “ پڑھا۔ تو آپ نے آمین کہا اور اپنی آواز کو اہستہ رکھا ۔ ( بحوالہ : ترمذی برہان الصلوٰۃ صفحہ 28)
حدیث شریف:
حضرت ابو وائل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر و حضرت علی رضی اللہ عنہما بسم اللہ اور آمین بلند آواز سے نہ کہتے تھے۔ ( بحوالہ : عمدہ القاری شرح بخاری ، برہان الصلوٰۃ )
فائدہ:
ان دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوا کہ نماز میں آمین آہستہ کہنا سنت رسول ہے۔
غیر مقلدین ( اہلحدیث) حضرات ایک حدیث لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے حالانکہ اس حدیث میں نماز میں آمین بلند آواز سے کہنے کا کہیں ذکر نہیں بلکہ دعا میں بلند آواز سے آمین کہنے کا ذکر ہے کیونکہ دعا میں بلند آواز سے آمین کہہ سکتے ہیں ۔
سوال۔ 6:
نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے یا سینے پر باندھنے چاہئیے احادیث کی روشنی میں جواب دیں؟
جواب:
نماز میں مرد کیلئے داہنی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے پشت پر ناف کے نیچے باندھنا سنت رسول ہے۔
حدیث شریف:
حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے۔ ( ابو داؤد : مطبوعہ بیروت“ برہان الصلوٰۃ)
غیر مقلدین کی خیانت:
ابوداؤدشریف میں یہ حدیث کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے یہ بیروت کے نسخہ میں موجود ہے ۔
لیکن غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیث جو حدیث کے اہل ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں ان کی حدیث میں خیانت دیکھئے کہ انہوں نے اس حدیث کو ابوداؤد سے نکال دیا ہے تاکہ جب کچھ عرصہ گزر جائے اور لوگ جب اس حدیث کو ڈھونڈیں تو انہیں نہ ملے اور یہ لوگ عوام کو گمراہ کر سکیں۔
حدیث شریف:
علقمہ بن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار اعطم کو نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ہوا دیکھا۔ ( مصنف ابی ابو شیبہ صفحہ 390 جلد اول)
یہ دونوں حدیثوں ہم نے کسی شافعی، حنبلی، مالکی پر کیچڑ اچھالنے کے لئے بیان نہیں کیں بلکہ اپنے حنفیوں حضرات کے ایمان میں تقویت کے لئے بیان کی ہیں ۔ جو شیطانی وسوسوں کا شکار ہو کر راہ ھق سے بھٹک جاتے ہیں۔
سوال۔7:
تراویح کی بیس رکعت ہیں یا آٹھ رکعت ہیں حدیث مبارکہ سے ثابت کریں؟
جواب:
تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اور اسی پر حضور اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عمل رہا ہے کہ تراویح بیس رکعتیں پڑھی جائیں۔
حدیث شریف:
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضور اقدس رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔ ( بحوالہ بیہقی، کتاب برہان الصلوٰۃ ص 42)
حدیث شریف:
حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعت تراویح ہوتی تھی اور حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی بیس رکعت تراویح ہوتی تھیں۔ ( موطا ، بیہقی، برہان الصلوٰۃ صفحہ 41)
جو لوگ آٹھ رکعت والی حدیث لاتے ہیں ان حدیثوں میں تراویح کا کہیں ذکر نہیں بلکہ وہ آٹھ رکعت تہجد کی ہیں جنہیں حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے اب سمجھ میں آگیا ہوگا کہ تراویح کی بیس رکعتیں پڑھنا سنت رسول ہے۔
سوال۔8:
وتر کی کتنی رکعت ہیں تین ہیں یا ایک ؟ احادیث مبارکہ سے ثابت کیجئے؟
جواب:
وتر کی تین رکعتیں ہیں ۔
اسی پر حضور اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عمل رہا ہے۔
حدیث شریف:
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ بےشک حضور اقدس وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ “ سبح اسم ربک الاعلٰی، قل یایھا الکفرون اور قل ھو اللہ احد ہے۔ ( نسائی ، ترمذی، برہان الصلوٰۃ صفحہ 38)
حدیث شریف :
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان میں طوال مفصل سے نو سورتوں کی تلاوت فرماتے ۔ ہر رکعت میں تین سورتوں ان میں سے آخری سورۃ“ قل ھو اللہ احد“ ہے ( ترمذی ، برہان الصلوٰۃ 36)
فائدہ:
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ وتر کی تین رکعتیں پڑھنا سنت رسول ہے۔
سوال۔9:
جمعہ کے دن جو اذانیں ہوتی ہیں کیا یہ سنت ہیں؟ بعض لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں اس کا جواب دیں۔؟
جواب:
جمعہ کے دن جو دو اذانیں ہوتی ہین یہ سنت ہیں بلکہ بدعت کہنے والے نام نہاد اہلحدیث کے علماء کا یہ فتوٰٰی ہے
اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی اور ان کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اللہ امرتسری کا فتوٰی جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی کثرت دیکھی تو آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ کی اذان سے پہلے ایک اور اذان صحابہ کرام علیہم الرضوان کی موجودگی میں جاری کی اوع کسی نے اس پر انکار نہیں کیا تو اذان مذکورہ سرکار اعظم کے ارشاد کے مطابق خلفاء راشدین کی سنت میں داخل ہے جو لوگ اس کو بدعت بتاتے ہیں یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ( دستورالمتقی صفحہ 89، فتاوٰی ثنائیہ جلد اول صفحہ، 436)
الحمد للہ ہم اہلسنت و جماعت جمعہ کی دو اذانوں کو سنت مانتے ہیں اور دو اذانوں کو بدعت کہنے والوں کو گمراہ کہتے ہیں کیونکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اطاعت بھی ہمارے اوپر لازم ہے۔
سوال۔10:
عید الضحٰی کے کتنے دن تک قربانی کر سکتے ہیں تین دن یاچار دن؟ حالانکہ کچھ لوگ چوتھے دن بھی قربانی کرتے ہیں اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
چودہ سو سال گزر گئے کہ لوگ صرف عید الضحٰی کے تین دن قربانی کرتے ہیں اور یہی سنت رسول ہے۔
حدیث شریف:
حضرت عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ قربانی یوم الضحٰٰی یعنی 10، ذی الحج کے بعد دو دن ہے۔ امام مالک رضی اللہ عنہ نے اس کو روایت کیا ہے ۔ ( بحوالہ: مشکوٰۃ شریف)
حدیث شریف:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تیں ہیں۔پہلا دن افضل ہے ۔ ( بحوالہ : موطا امام مالک رضی اللہ عنہ )
پوری دنیا میں حرمین طیبین پاکستان، ہندوستان، انڈونیشیا ، عراق ، مصر، سوذان اردن، وغیرہ تمام عالم اسلام صرف تین دن، 10، 11، 12 ذی الحج کو قربانی ہوتی ہے۔
مگر آج کچھ لوگ مسلمانوں میں انتشار اور فتنہ پھیلانے کیلئے چوتھے دن قربانی کرتے ہیں اور نہ کرنے والوں کو گمراہ کہتے ہیں اللہ تعالٰی ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے۔
سوال۔11:
تعویذ پہننا کیسا ہے حالانکہ کچھ لوگ تعویذ کو شرک کہتے ہیں احدایث کی روشنی میں جواب دیں؟
جواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تعویذ میں اللہ تعالٰی کا نام اور اللہ تعالٰی کا کلام ہوتا ہے اور جہاں اللہ کا نام اور کلام ہو وہاں شرک کا س وال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حدیث شریف:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سرکار اعظم نے حکم فرمایا “ کہ ہم نظر بد کیلئے تعویذ کرائیں۔“ ( بخاری ، مسلم، انوار الحدیث 188)
حدیث شریف:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نے ان کے گھر میں ایل لڑکی کو دیکھا جس کا چہرہ زرد تھا۔ حضور نے ارشاد فرمایا اسے تعویذ کراؤ اسے نظر بد لگی ہے۔ ( بخاری ، مسلم از کتاب انوار الحدیث ص 188)
فائدہ:
ان دونوں حدیثوں سے پتہ چلا کہ تعویذ کا حکم خود حضور اقدس نے دیا ہے اگر غلط ہوتا تو منع فرما دیتے۔
اور جہاں جہاں حدیث میں کہا گیا کہ منتر سے بچو، کاہن یعنی نجومی سے بچو۔
جس کا سہارا لیکر بد مذہب بہکاتے ہیں اس کا کیا جواب ہے؟
اس کا جواب یہی ہے کہ جہاں منتر وغیرہ کا ذکر ہے اس سے مراد کالے جادو، ٹونے، نجومی اور ہندوؤں کے شرکیہ الفاظوں سے بچنے کا حکم ہے۔باقی جس تعویذ میں اللہ کا کلام ہو وہ کیسے منع ہو سکتا ہے۔
سوال۔12:
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیی پر بھروسہ ختم ہو گیا ہے جو تم لوگ تعویذ پہنتے ہو؟
جواب:
سب سے پہلی بات تےو یہ ہے کہ شفاء اللہ تعالٰی دیتا ہے مگر ہم ڈاکٹر اور حکیم کے پاس جاتے ہیں تو کیا اللہ پر بھروسہ ختم ہو گیا۔
تو آپ کا جواب یہ ہو گا کہ شفاء تو اللہ تعالیی ہی دیتا ہے مگر کبی ڈاکٹروں اور حکیموں کے ذریعہ سے شفاء بخشتا ہے۔
تو بات آسانی سے سمجھ میں آگئی کہ شفاء اللہ تعالٰی ہی دیتا ہے مگر کبھی تعویذ کے ذریعہ سے کبھی اپنے نیک بندون کی دعاؤں کے صدقے۔
سوال۔13:
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اذان کہنا کیسا ہے احادیث کی روشنی میں جواب دیں؟
جواب:
اذان در اصل اللہ تعالٰی کا ذکر ہے اور بقول حدیث مبارکہ شیطان کو بھگانے کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ میت کو جب دفن کیا جاتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے چناچہ حدیث سنتے ہیں۔
حدیث شریف:
امام ترمذی محمد سفیان ثوری علیہ الرحمہ سے روایت کرتے ہیں۔ یعنی جب مردے سے سوال ہوتا ہے کہ ریرا رب کون ہے ۔ شیطان اس پر ظاہر ہوتا ہے اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں اس لئے حکم آیا کہ میت کیلئے ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔ ( ترمذی از کتان اذان القبر ، صفحہ 9 )
دراصل شیطان اذان کی آواز سن کر بھاگتا ہے اسی لئے قبر پر اذان کہی جاتی ہے تاکہ شیطان دور بھاگ جائے۔
سوال۔14:
کیا قبر پر اذان کہنا سنت ہے؟
جواب:
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر اذان کہنا سنت ہے۔
حدیث شریف:
امام احمد و طبرانی و بیہقی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے راوی یونی جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ دفن ہو چکے اور قبر درست کر دی گئی حضور دیر تک سبحان اللہ، سبحان اللہ فرماتے رہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی حضور کے ساتھ رہے۔ پھر حضور اللہ اکبر، اللہ اکبر فرماتے رہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی حضور کے ساتھ رہے ۔ ارشاد فرمایا:
“اس نیک مرد پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے وہ تکلیف اس سے دور کی اور قبر کشادہ فرمادی۔“ ( احمد ، طبرانی، بیہقی، اذان القبر ص 10۔11)
علامہ طیبی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ حضور نے میت پر آسانی کیلئے دفن کے بعد قبر پر اللہ اکبر، اللہ اکبر کہا اور یہی کلمہ اذان میں ہے تو اس سے قبر پر اذان کہنا سنت سے ثابت ہوا۔
سوال- 15:
اب کچھ لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ آپ لوگ قبر پر اذان کہہ کر کیا مردوں کو نماز پرھاتے ہو؟
جواب:
یہ تو پہلے بھی کہا گیا کہ قبر پر اذان شیطان کو بھگانے کیلئے کہی جاتی ہے اور اذان سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کا ذکر ہے۔
اور اس کا جواب ہمیں دیا جائے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں کان میں اذان و اقامت کہی جاتی ہے تو کیا اس کو بھی نماز پڑھانا مقصود ہوتا ہے۔
اگر کان میں اذان کہنا سنت ہے تو پھر قبر پر بھی اذان کہنا سنت ہے۔
سوال۔16:
نماز کے بعد دعا اور نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا کیسا ہے۔ حالانکہ لچھ لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں؟
جواب:
دعا دراصل عبادت کا مغز ہے عبادت کرنے کے بعد دعا کرنا عبادت میں چار چاند لگانے کے برابر ہے۔
دعا کے بارے میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ “ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔“
اور یہاں تک کہ اسلام میں ہر کام سے پہلے اور بعد میں دعا ہے مثلا: کھانے سے پہلے دعا تو کھانے کے بعد دعا، پانی پینے سے پہلے دعا تو پانی پینے کے بعد دعا، گھر میں داخل ہو تو دعا، گھر سے باہر نکلو تو دعا، الغرض کہ کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ ہر وقت دعا کرو۔
جب ہر وقت دعا کرنا جائز ہے تو پھر نماز کے بعد اور نماز جنازہ کے بعد دعا کیسے منع ہو سکتی ہے۔
اور پھر اللہ تعالٰی سے دعا کی جاتی ہے کیا اللہ تعالٰی سے دعا مانگنا بدعت ہے تو پھر کس سے مانگا جائے اور اجتماعی دعا میں تو اللہ تعالٰی کسی ایک بندے کے طفیل سب کی دعائیں قبول فرما لیتا ہے۔
سوال۔17:
ننگے سر نماز پڑھنی درست ہے یا نہیں ۔ قرآن و حدیث کی رو سے جواب عنایت فرمائیں؟
جواب:
حضور سے لے کر صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین خیر القرون سے لے کر آج تک بغیر ٹوپی کے نماز پرھنے کے متعلق کسی نے بھی فتوٰی نہیں دیا۔
مگر آج کے کچھ دین فروش نام نہاد دین میں آسانی کیلئے نئے نئے مسائل گڑ رہے ہیں جس میں ٹوپی کے بغیر نماز پڑھنے کو جائز کہتے ہین اور بعض اوقات ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بغیر ٹوپی کے نماز پڑھنا مستحب اور ثواب ہے۔
فقہاء کرام نے ننگے سر ہو کر نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے۔
( کتاب : در مختار جلد اول صفحہ: 151، کتاب : بحر الرائق جلد سوم صفحہ 34)
سر پر عمامہ باندھ کر نماز پرھنا بہت افضل ہے چناچہ عمامہ کت متعلق فضائل و برکات حدیثوں میں موجود ہیں۔
حدیث شریف:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجور نے فرمایا کہ بےشک اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے جمعہ میں عمامہ پہننے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔
حدیث شریف:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کہ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنا دس ہزار نیکیوں کے برابر ہے۔ ( رواہ الدیلمی)
حدیث شریف:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجور نے فرمایا کہ عمامہ کے ساتھ دو رکعتیں بے عمامہ کی ستر رکعتوں سے افضل ہے۔ (مسند الفردوس)
فقہاء کرام نے ننگے سر نماز کی تین قسمین بیان کی ہیں :
1۔ دل میں خیال ہو کہ نماز کوئی ایسی عبادت تو نہیں کہ وہ سر کو ڈھانپ کر پڑھوں یعنی اس نے نماز کو حقیر جانا لحاظ سے ننگے نماز پڑھنا کفر ہے۔
2۔ سستی و کاہلی کی وجہ سے ننگے سر نماز پرھنا مکروہ ہے۔
3۔ اگر عاجزی و انکساری کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی تو جائز ہے۔
مگر افسوس کہ آج ہم سستی اور کاہلی اور طرح طرح کے جان چھڑانے کے بہانے اور شرم آنت کی وجہ سے ٹوپی نہیں پہنتے۔
سوال۔18:
اگر نماز جنازہ میت کے اولیاء نے پڑھ لی، پھر دوبارہ پڑھنا اور نماز جنازہ غائبانہ پرھنا جائز ہے یا نہیں۔؟
جواب:
فتاوٰی شیخ الاسلام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ غزمی تمر تاشی میں ہے۔
ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ غائبانہ نماز جنازہ نہیں مانتے۔ ( از کتاب: غائبانہ نماز جنازہ صفحہ 37)
غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔
دلیل:
حضور نماز جنازہ کا کامل اہتمام فرماتے ۔ اگر کسی وقت رات کی اندھیری یا دوپہر کی گرمی یا حضور کے آرام فرمانے کے سبب صحابہ کرام علیہم الرضوان ، حضور کو اطلاع نہ دی اور دفن کر دیا تو ارشاد فرماتے:
“ ایسا نہ کرو، مجھے اپنے جنازوں کیلئے بلا لیا کرو۔“
دلیل:
رواہ ابن ماجہ عن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ: آپ نے فرمایا ہر گز کوئی میت تم میں نہ مرے جس کی اطلاع مجھے نہ دو اس لئے کہ اس پر میری نماز موجب رحمت ہے۔
فائدہ:
حضور کے زمانے میں سینکڑوں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے وفات پائی کسی صحیح صریح حدیث سے ثابت نہیں کہ حضور نے غائبانہ نماز جنازہ پرھی۔
اگر غائبانہ نماز جنازہ ہوتی تو حضور ضرور پڑھتے۔ ( از کتاب : غائبانہ نماز جنازہ صفحہ: 38-39 اعلٰی حضرت)
سوال۔19:
اب حدیث لاتے ہیں کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی حضور نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھی اس کا کیا جواب ہے؟
جواب:
حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی غائبانہ نماز جنازہ جب حضور نے پڑھائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آنکھوں سے دیکھا کہ نجاشی رضی اللہ عنہ کا جنازہ آپ کے سامنے حاضر کیا گیا اور یہ صرف حضور کیلئے خاص ہے۔
دلیل1:
صحیح ابن حبان میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ و عن الصحابہ جمیعا سے روایت ہے۔
حضور نے فرمایا تمہارا بھائی نجاشی مر گیا اٹھو اس پر نماز پڑھو پھر حضور کھڑے ہوئے صحابہ نے پیچھے صفیں باندھیں حضور نے چار تکبیریں کہیں۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کی یہی ظن تھا کہ نجاشی کا جنازہ حضور کے سامنے ہے۔
دلیل2:
صحیح ابو عوانہ میں انہیں سے ہے ، ہم نے حجور کے پیچھے نماز پڑھی اور ہم یہی اعتقاد کرتے تھے کہ جنازہ ہمارے آگے موجود ہے۔ ( از کتاب : غائبانہ نماز جنازہ صفحہ 40)
دلیل3:
اس حدیث مرسل اصولی کی کہ امام واحدی نے اسباب نزول قرآن میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کی کہ فرمایا۔
حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضور کیلئے ظاہر کر دیا گیا۔ حضور نے اسے دیکھا اور اس پر نماز پڑھی۔
نجاشی کے نماز جنازہ پڑھانے میں حکمت:
حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کا انتقال دار الکفر میں ہوا وہاں ان پر نماز نہ ہوئی لہذا حضور نے یہاں پڑھائی۔
ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہو گیا کہ غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔
اب معتبر کتابوں سے ثابت کرتے ہیں کہ نماز جنازہ دوبارہ جائز نہیں۔
1۔ درمختار میں ہے کہ نماز جنازہ کی تکرار جائز نہیں۔
2۔ گنیۃ شرح منیہ میں ہے کہ ایک میت پر دوبارہ نماز ناجائز ہے۔
3۔ سیدی نجم الدین عمر نسفی استاد امام اجل صاحب ہدایہ رحمتہ اللہ علیہ منظومہ مبارکہ میں فرماتے ہیں ۔
یعنی نماز جنازہ کی تکرار جائز ہونا صرف شافعی کو قول ہے ہمارے نزدیک جائز نہیں۔
4۔ ایضاح امام ابو الفضل کرمانی۔
5۔ فتاوٰی عالمگیریہ
6۔ جامع الرموز میں ہے کہ کسی میت پر ایک بار سے زیادہ نماز نہ پڑھی جائے۔ ( از کتاب : غائبانہ نماز جنازہ : اعلٰی حضرت
سوال-20:
نعت خوانی کرنا کیسا ہے کیا محفل نعت احادیث سے ثابت ہے؟
جواب:
محفل نعت یہ آج کل کی بات نہیں بلکہ حضور خود اس کا اہتمام فرماتے ہیں تھے چناچہ حدیث مبارکہ ہے۔
حدیث شریف:
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کیلئے حجور نے منبر بچھایا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے منبر پر بیٹھ کر آپ کی شان میں قصیدہ پیش کیا۔ آپ نے دعاؤں سے نوازا۔ ( بخاری جلد اول صفحہ : 65)
ہمارے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے بھی حضور کی شان میں قصیدہ لکھا۔
حضرت امام شرف الدین بوصیری رضی اللہ عنہ نے بھی حضور کی شان میں قصیدہ لکھا اور پڑھ کر سنایا۔
الحمد للہ، نعت خوانی یہ اہل ایمان کا شیوہ ہے اس کو جو اپناتا ہے وہ ایمان کی حلاوت پاتا ہے۔
نعت سننا حضور کی سنت ہے اور پڑھنا صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔
آج کچھ لوگ توحید کا لبادہ اوڑھ کر حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتےہیں لہذا یہ سب دلائل ہم نے اپنے سنی حنفی مسلمانوں کیلئے نقل کئے ہیں تاکہ جو لوگ نام نہاد اہلحدیث کے جال میں پھنس جاتے ہیں ان کے ایمان میں پختگی پیدا ہو اور وہ جان لیں کہ ہم جو کام کرتے ہیں وہ سنت رسول اور سنت صحابہ کرام علیہم الرضوان ہے۔
اب جب ہم نے تمام کام قرآن مجید اور احادیث سے چابت کئے ہیں تو ان کاموں کو بدعت اور گمراہی کہنا خود کہنے والے کو گمراہ بنا دے گی۔
اہلسنت و جماعت سنی حنفی بریلوی مسلک پر شرک و بدعت کے فتوے لگانے والو اپنے کرتوتوں کا جواب دو:
1۔ تم کہتے ہو کہ امام کی تقلید حرام ہے حالانکہ حدیثوں کے امام ، امام بخاری، مسلم ، ابن ماجہ، صاحب مشکوٰۃ، ابو داؤد رحمتہ اللہ علیہم اجمعین یہ سب کے سب امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کے دو یا تین ذریعوں سے مقلد ہیں یعنی پیروکار ہیں اور پھر تو یہ سب کے سب تمھارے فتوے کے مطابق ( معاذ اللہ) مشرک ہوئے اب ان حدیثوں نقل کرنا کیسا ہے کیونکہ مشرک سے حدیثیں نہیں لے سکتے؟
اب یہاں تم لوگ پھنس گئے کیونکہ تم لوگ ان سے حدیثوں لیتے ہو۔
2۔ ہم لوگ اپنے آپ کو قادری، نقشبندی، چشتی وغیرہ کہتے ہیں۔
تم لوگ کہتے ہو کہ یہ حضور کے زمانے میں نہ تھا اور ہمیں بدعتی کہتے ہو۔
اب جو تم لوگ اپنے آپ کو غیر مقلد ، اہلحدیث کہتے ہو یہ بھی حضور کے زمانے میں نہ تھا ۔ اس دور میں صرف اہل اسلام تھے اب تمہاری بدعت کہان گئی؟
3۔ اب جو تم لوگ کہتے ہو بارہ ربیع الاول اور گیارہویں بدعت ہے کیونکہ یہ حضور کے زمانے میں نہ تھی۔
4۔ تم لوگ ہر سال اہلحدیث کانفرنس ، قرآن کانفرنس منعقد کرتے ہو یہ کونسی حدیث میں ہے؟ لہذا تمہارے فتوے کے مطابق یہ بھی بدعت ہوا۔
ارے نادانو! جب تمھارے اوپر بات آتی ہے تو کہتے ہو کہ یہ دین کا کام ہے ، دین کا حصہ ہے اسی لئے جائز ہے۔
نادانوں! تو پھر سن لو تمھارے ان کاموں کے کرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جشن میلاد النبی منانا، گیارہویں مانا، کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام پڑھنا، ایصال ثواب کرنا جو بھی اہلسنت میں رائج ہیں۔ سب کے سب کام دین کے کام ہیں اور اسے بدعت کہنے والا خود بدعتی اور گمراہ ہے۔
باقی سارے کے سارے فرقے کہیں نہ کہیں بھٹک جاتے ہیں کوئی حضور کی شان میں بکواس کرتا ہے، کوئی صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہلبیت کی شان میں بکواس کرتا ہے تو کوئی اولیاء اللہ سے بغض رکھتا ہے۔
مگر اہلسنت و جماعت سنی حنفی، بریلوی مسلک وہ مسلک ہے جو اللہ تعالٰی کو وحدہ لا شریک مانتا ہے۔ حضور کو اللہ تعالٰی کی عطا سے اپنا سب کچھ مانتا ہے۔
ایک ہاتھ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا دامن ہے تو دوسرے ہاتھ میں اہلبیت کی نسبت ہے یہاں تک کہ حضور سے نسبت رکھنے والی ہر شئے کا بھی ادب کرتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں مسلک حق پر قائم و دائم رکھے اور اسی پر ہمیں موت دے ۔
آمین، ثم آمین بجاہ حبیبک سید المرسلین ۔
ڈال دی قلب میں عظمت مصطفٰی
سیدی اعلٰیحضرت پہ لاکھوں سلام
ایمان ملا ان کے صدقے
قرآن ملا ان کے صد قے
رحمن ملا ان کے صدقے
مرشد بھی ملا ان کے صدقے
وہ کیا ہے جو ھم نے پایا نہیں
بن مانگے دیا اور اتنا دیا
کہ دامن میں ہمارے سمایا نہیں